Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
Please log in to view this content.
قارئین کرام!ایک نہایت مشکل اور عجیب و غریب سال ختم ہورہا ہے۔ مگر سال کے ساتھ مشکلات ختم ہونے کا امکان ابھی نظر نہیں آیا۔بالآخر وہی ہؤا جس کا ڈر تھا کہ پاکستان میں کرونا کے اعدادوشمار بڑھنے لگے۔ہم بھی دیگر ممالک کی طرح وباکی دوسری لہر کی زد میں آکررہے۔اموات کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔اچھا خاصا قابو پا لینے کے بعد وبا کا پھیلاؤ ہماری بے احتیاطی کا مظہر ہے۔ تعلیمی ادارے ، ریستوران ، شادی ہال اور دفاتر کھلے تو ہم نے’’نئے نارمل‘‘ کو کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی بلکہ پرانے انداز میں ہی میل جول جاری رکھا اور سب سرگرمیاں معمول کے مطابق ہونے لگیں۔ نتیجہ یہ کہ اب ہم ایک بار پھر کئی پابندیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان تو تعلیمی ادارے بند ہونے کا ہے۔ اللہ ہمیں اس آزمائش سے جلد نجات دے آمین۔
جب بھی دسمبر آتا ہے جسد وطن دولخت ہو جانے کا زخم تازہ ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہوش میں یہ سانحہ خود پر بیتتے دیکھا ان کا تو گویا پھر لہو رسنے لگتا ہے۔ جو جانتے ہیں ،وہ مانتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ لاپروائیوں، خودغرضیوں،بے وفائیوں، دھوکے، جھوٹ اور فریب، بے حسی اور وطن فروشی…
فائزہ کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ اس کی آواز سن کر آمنہ بھی رسالہ چھوڑ کر وہیں چلی آئی اور فائزہ کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہنسی کی و جہ جاننا چاہی۔ جیسے ہی نگاہ سامنے کے منظر پر پڑی، بے اختیار بول اٹھی۔
’’اللہ!!! تو یہ ہے ڈراپ سین! اف! کتنے دن تجسس میں مبتلا رہے ہم۔ ویسے حقائق اگر کچھ دن مزید پوشیدہ رہتے، میرے شرلاک ہومز بننے میں بس ذرا ہی کسر باقی تھی۔ سچ سچ بتاؤں تو میں اب تجسس سے زیادہ خوف کا شکار ہونے لگی تھی کہ کیا پتہ یہ کسی آسیب کی کارروائی ہو۔‘‘
٭…٭…٭
سکول سے اچانک ہی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔ حتیٰ کہ نہم جماعت کے باقی رہ جانے والے پرچے تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔ ایک نئی بیماری کووِڈ نائنٹین(کرونا) دسمبر میں چین سے شروع ہوئی اور پھرپورے یورپ کو اپنے شکنجے میں لیتے ہوئے ایشیا تک آ پہنچی۔ پاکستانی حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار نہیں تھی، لہٰذا ایک دم ہی بوکھلا کر سارے تعلیمی ادارے بند کر دیے۔ بچوں کو چھٹیوں کا کام تک نہیں ملا تھا۔ فائزہ اور آمنہ نے کچھ دن تو نیند پوری کرنے میں گزارے پھر فارغ رہ کر…
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں میں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
٭…٭…٭
پیارے بچو! یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ علامہ اقبال صرف ایک عظیم شاعرہی نہیں بلکہ ہمارے قومی شاعر بھی ہیں۔انھوں نے شاعری کے ذریعے اپنی قوم میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے اور بلند کردار کی تعمیر کرنے کے لیے جو کوششیں کیں ، وہ قابلِ تعریف ہیں۔ اقبال نے جہاں بڑوں کے لیے لکھا، وہاں بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا،حالانکہ عموماً دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بڑے شاعر،اور وہ بھی علامہ اقبال کے پائے کے ، بچوں کے لیے نہیں لکھتے، اور اگر لکھیں بھی تو انھیں اپنے باقی کلام سے الگ رکھتے ہیں۔لیکن اقبال نے ناصرف بچوں کے لیے لکھا، بلکہ بہت خوب لکھا اور اس کو اپنے بڑوں کی شاعری والے مجموعہ ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل کیا۔
اقبال نے بعض نظمیں تو بچوں ہی کے لیے لکھی تھیں جن میں ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ’’ ایک پہاڑ اور گلہری ‘‘ ’’ ایک گائے اور بکری ‘‘ ’’ بچے کی دعا‘‘ ’’ہمدردی‘‘ ’’ ماں کا خواب ‘‘ اور ’’پرندے کی فریاد‘‘ ایسی نظمیں ہیں جن پر’’بچوں کے لیے‘‘لکھا ہوا ہے، لیکن بعض نظمیں ایسی ہیں جن پر’’ بچوں کے لیے‘‘ لکھا تو نہیں ہوا،لیکن انھیں بھی اقبال کی بچوں کے لیے لکھی…
یہ تقریباًدسمبر2017ء کی بات ہے ، جب ہم لوگ کینٹ ایریا میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو ہمارا گزر علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ کی پچھلی جانب سے ہوا۔وہ سارا علاقہ آرمی کا تھا۔ وہاں ہماری نظر ایک عمارت پر پڑی جس پر’’Army museum‘‘لکھا ہوا تھا، ساتھ میں بہت بڑا گرائونڈ تھا جس میں بہت سی چیزیں رکھی گئی تھیں مثلاً مختلف قسم کے ہیلی کاپٹرز، توپیں اور ٹینک وغیرہ ۔ جن پر چڑھ کر لوگ تصویریں بنوا رہے تھے ۔ یہ چیزیں باہر سے دیکھنے والوں کو اندر آکر میوزیم دیکھنے پر مجبور کررہی تھیں۔ پھر ہمارا بھی دل چاہا کہ ہم بھی آرمی میوزیم دیکھیں۔
اس دن سے ہماری دلی خواہش تھی کہ ہم بھی آرمی میوزیم ضرور دیکھیں ۔بلا ٓخر ہم 26جولائی 2018ء( جمعرات) کو بڑے جوش و خروش سے آرمی میوزیم گئے ۔ سب بہت خوش تھے ۔ جب ہم آرمی میوزیم کے گیٹ پر پہنچے تو گیٹ تو کھلا ہی ہوا تھا ۔ ادھر کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا ہم بہت خوش ہوئے کہ آج رش نہیں ہے۔ جب ٹکٹ گھر کے قریب پہنچے تو ادھر ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ ٹکٹ گھر کے باہر…
سلمان یوسف سمیجہ ۔علی پور
س:لوگ آپ کو دوسروں کی نظروں میں گرانے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں ،آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
ج: جی بالکل درست ۔ مگر ایسے لوگوں کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
’’ خلیفہ منصور کے حاجب ربیع نے ان کو امام ابو حنیفہ سے برگشتہ کرنے کی خاطر کہا کہ وہ آپ کے دادا حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ کسی معاملے پر حلف کرنے والا اگر ایک یادو دن بعد ان شاء اللہ کہہ دے تو جائز ہے جب کہ ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اسی وقت کہنا جائز ہے بعد میں معتبر نہیں ہوگا۔ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ امیر المومنین ! ربیع چاہتا ہے کہ لوگوں کو آپ کی بیعت سے آزاد کر دے ۔ وہ آپ کے سامنے تو اطاعت کا حلف اٹھائیں گے اور گھروں پر واپس جا کر ان شاء اللہ کہہ دیں گے ۔‘‘ منصور ہنسنے لگا اور کہا ’’ اے ربیع ! ابو حنیفہ کو کبھی نہ چھیڑنا ،ورنہ منہ کی کھائو گے۔
سعدیہ آفتاب۔ کراچی
س: خواب کی تعبیر کیسے مل سکتی ہے ؟
ج: ایک مفکر کا قول ہے…
پیارےنوری ساتھیو
السلام علیکم
خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔ خواب اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اچھے خواب بشارت ہوتے ہیں اور برے خواب کے متعلق حکم ہے کے کسی کو نہ بتائے جائیں بلکہ اعوذ باللہ پڑھ کر بائیں جانب تین دفعہ تھتھکار دیں۔ ایک شیخ چلّی والے خواب ہوتے ہیں جو جاگتی آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے انسان سوچتا ہے کہ میں یوں کر دوں گا، ووں کر دوں گا۔ مگر عملا ًانگلی تک نہیں ہلاتا۔ اس کے بر عکس ایک وہ خواب ہوتا ہے جو دیکھا تو جاگتی آنکھوں سے جاتا ہے مگر وہ انسان کو ایک مقصد، ایک وژن دیتا ہے۔ یہ وہ خواب ہے جو انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ اس کے دل میں اُمید کے دیے جلاتا ہے اور حصول مقصد کی لگن پیدا کرتا ہے۔
ہر انسان کے دل میں کچھ خواہشیں ہوتی ہیں۔ کچھ آرزوئیں ہوتی ہیں۔ لیکن عظیم انسان کی آنکھوں میں خواب ہوتا ہے۔ کچھ نیا کر کے دکھانے کا، دنیا کو بدل ڈالنے کا، انسانیت کی بھلائی کا، ایسا ہی ایک خواب شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی دیکھا تھا۔ آپ نے ١٩٣٠ میں الٰہ آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
میں پنجاب ،…
’’آج کوئی چھت پر نہیں جائے گا، نہ ہی پتنگ اڑائے گا‘‘۔ ابا جان نے زور سے کہا اور کالج روانہ ہوگئے۔ فہد نے جی کہتے ہوئے سر ہلایا اور گیٹ بند کرکے اندر آ گیا۔
پے درپے ڈور سے زخمی ہوجانے والے المناک حادثات کی وجہ سے شہربھر میں پتنگ بازی پر پابندی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ لمبی دوپہر میں جب امی جان کام کاج سے تھک کر بے خبرسوجاتیں توفہد جھاڑو پکڑتا ، زین سلائی والے ڈبے سے نلکی نکالتا اور دونوں چپکے سے چھت پر چلے جاتے۔ گڈی بنا کر اڑانے میں بہت مزہ آتا۔ محلے کے چند لڑکے بھی اپنی چھتوں پر گڈیاں اڑاتے۔ امی کے بیدارہونے سے پہلے ہی دونوں چھت سے اتر آتے۔ دوتین دن سے قریبی مسجد سے اعلان ہو رہا تھا کہ جو بچہ پتنگ اڑاتا پایا گیا؛ اسے اور اس کے والدین کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ابا جان بھی آج انہیں منع کرگئے تھے ؛ لیکن ان دونوں نے کسی کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور مسلسل اپنے مشغلے میں مصروف رہے۔ دوپہر کوانہیں امی جان کے سونے کا یقین ہوگیا تو موقع غنیمت جان کر دونوں چھت پر آگئے ، آسمان پر ایک دو پتنگیں…
تین بے حد فرمانبردار بیٹے ،جو دیکھتا عش عش کر اٹھتا۔
’’ واہ تربیت کرنا ہو تو نورین سے سیکھو۔لڑکوں کی پرورش کوئی آسان کام ہے۔ لیکن ماشاء اللہ ایسے نمازی ، نیک ، باادب بچے… آج کل کے دور میں تو خال خال ہی نظر آتے ہیں‘‘۔
نورین ایسے جملے سنتے ہی مسکراتے ہوئے بتاتیں کہ کس محنت سے انہوں نے بہترین ماحول فراہم کیا۔ کیسے دن رات کھپ کر پرورش کی۔کیسے اپنے خوابوں کی قربانی دی۔ وہ گردن ہلکے سے جھکا کر روہانسی آواز میں کہتیں۔
’’مجھے تو بڑے آرام سے یونیورسٹی میں لیکچرر شپ مل جاتی لیکن ہمیشہ سے ذہن میں تھا کہ ماں کو گھر میں ہونا چاہیے تو بس اپنے کئیریر پر کمپرومائز کیا۔ بیٹوں کی تربیت کی، ان کی جسمانی اور اخلاقی ضروریات کا خیال کیا ، ہوم اسکولنگ کی۔ سمجھو نہ دن کی خبر نہ رات کی۔ باقی پیسا تو آنی جانی شے ہے۔ عمر بھی گزر ہی جاتی ہے۔ بھابھی پتہ نہیں کیسی مائیں ہوتی ہیں جو دن دن بھر بچے ساس کے سپرد کرکے خود جاب پر روانہ ہو جاتی ہیں۔ کیا خاک تربیت ہوگی ایسے بچوں کی‘‘۔
وہ ادا کے ساتھ بھابھی سے کہتیں جو بے بسی سے اپنے شرارتی بچوں کی حرکتیں دیکھ…
طب کے شعبے میں کام کرتے ہوئے بہت سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ آپ سب سے ان کا ذکر کیا جائے۔ کچھ یادیں میٹھی ہوتی ہیں اور کچھ کٹھی بھی ہوتی ہیں۔ کھٹاس کا تعین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی مشکل ہے، کیونکہ انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری صلاحیتیں بھی محدود ہیں اور عقل بھی۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے خفا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات طریقہ علاج مریض کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے چڑ بھی جاتا ہے۔ کبھی وہ کسی اور سے کچھ ایسا سن کر آتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی ذہن سازی پہلے ہی ہو چکی ہوتی ہے۔ خیریہ تو غیر دلچسپ تفصیلات ہیں۔ آئیے چند واقعات کی طرف چلتے ہیں۔
سعودی عرب میں اگر مریض ڈاکٹر کے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو اس کا بھی حل ہے۔ طبی اخلاقیات کی رو سے ڈاکٹر کو یا دیگر طبی عملے کو مریض کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہو گا تو ڈاکٹر یا دیگر طبی…
چند سال پہلے میں ایک ادارے میں بطور ایجوکیٹر رضاکارانہ طور پر کام کرتی تھی۔ یوکے جانے کی وجہ سے میں نے اس بہترین ادارے کو چھوڑ دیا جس کا دکھ مجھے زندگی بھر رہے گا، خیر۔ یہ سال 2014کی بات ہےمجھے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک مقامی کالج برائے طالبات میں ایک ورکشاپ کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا یہ ورکشاپ دراصل،شکر گزاری پر تھا۔ جس میں ہم نے حقیقی زندگی کی کئی ایک مثالوں کو استعمال کرتے ہوئے شکر گزاری کی صفت کو واضح کرنے ، اس کی اہمیت کو ابھارنے اور اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کی ٹپس دی تھیں ۔ ہمارا ماننا تھا کہ آج کی نوجوان نسل کو صبر اور شکر جیسی اسلامی اور اخلاقی اقدار کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بناسکیں ۔
اس ورکشاپ میں تقریباً 500حاضرین (طالبات، خواتین اسٹاف ممبرز اور اساتذہ )نے شمولیت اختیار کی۔ ہمارا طریقہ تھاکہ اس قسم کے ورکشاپس کے شروع میں ہی ہم فیڈ بیک فارمز تمام حاضرین میں بانٹ دیتے تھے اور آخر میں انہیں جمع کرلیا جاتا تھا۔ اکثر اس کام میں ہمیں وہیں سے کچھ طالبات مددگار مل جاتی تھیں جو انہیں پڑھے بغیر فوراً ہمیں…
صبح آنکھ کھلی تو غیر معمولی سناٹا تھا… بچےbug collection kit پر جھکے بغور کچھ دیکھنے میں مصروف تھے۔چھوٹی بیٹی نے بتایا۔
’’ امی وہ جو بڑا کیڑا تھا ناں… بے چاری چھوٹی بگ(bug ) کو مار کے کھا گیا… حالانکہ اس کو پتے بھی دیے تھے کھانے کے لیے…‘‘
’’ارے سلامہ وہ تمہاری طرح ویجیٹیرین ( Vegetarian ) نہیں تھا‘‘ بھائی صاحب نے سمجھایا لیکن غم کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔
’’ ارے تمہارے ابو کہاں گئے؟‘‘ ہم نے کیڑے کے سوئم فاتحہ سے بچنے کے لیے موضوع بدلا۔
’’ ابو تو صبح صبح چلے گئے آج تو چشمے پہ جانا تھا‘‘
’’اچھا آپ لوگ تیار تو ہو جائیں… آتے ہی ہوں گے‘‘۔
بلوچستان میں پانی بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف قلعہ سیف اللہ والی سڑک ایسی تھی کہ وہاں ہم نے ہر پانچ دس منٹ کے فاصلے پر ٹیوب ویل لگے دیکھے۔ ان کے ساتھ حوض بھی بنے ہوتے تھے اور جہاں پانی وہاں باغات اور کھیت بھی خوبصورتی بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس روٹ کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے این ففٹی ( N-50) کا نام دیا ہے۔ مسلم باغ بھی اسی روٹ پر ہے جہاں سردیوں میں ہم نے برف باری کے مزے بھی لوٹے۔ یہ برف باری…
بچے سکول و کالج اور میاں جی اپنے کاروبار کی طرف جا چکے تھے۔ دن کے دس بجے ہی ارد گرد ہو کا عالم تھا۔ آس پاس کے گھروں سے بھی صرف دو آوازیں آ رہی تھیں ، گھنٹی بجنے کی اور دروازے کھلنے کی،کیونکہ یہ جھاڑو پونچھے والی ماسیوں کے آنے کا وقت تھا۔ لیکن رفعت کی اپنی ملازمہ کے لیے خاص تاکید تھی صبح آٹھ بجے تک آنے کی۔
آج تو کام بھی کچھ زیادہ تھا کیونکہ رفعت نے اپنے گھر میں ماہ ربیع الاول کے سلسلے میں محفل منعقد کی تھی جس میں بس ایک دن باقی تھا۔
رفعت اکثر ماسی کے پاس کھڑے ہو کر اس سے کام کرواتی۔ نہ خود بیٹھتی نہ ماسی کو سست روی سے کام کرنے دیتی۔ اس نے گھر کے ایک ایک کونے کھدرے سے صفائی کروائی۔ اسی دوران پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو مالی تھا۔ اب مالی میاں کی بھی نگرانی ضروری تھی۔ رفعت جلدی سے اندر سے سرخ اور سفید رنگ کے روغن کی دو چھوٹی ڈبیاں لے کر آ گئی اور مالی کو ہدایات دینے لگی۔
’’ دیکھو… گملوں کا روغن کتنا خراب ہو گیا ہے۔ اب انہیں نیا روغن کر دینا چاہیے۔ تم ایسا کرو ، پہلے مشین…
اللہ تعالیٰ نے شرک و طغیان کے اندھیروں میں انسانوں کو روشنی دکھانے کے لیے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کیا، اور ان کے ساتھ ایک ہدایت نامہ اور الہامی آئین بھی بھیجا جس میں معاشرت، تمدّن اور سیاست کے میدان کی رہنمائی فراہم کی۔ یعنی تعمیرِمعاشرت اور انسانی زندگی کی تعمیر کی بنیاد عطا کی۔ انسانی زندگی کے سلجھاؤ کے لیے ایسے سنگِ راہ قائم کیے جنہیں پیش ِ نظر رکھا جائے تو تعمیر ِ انسانیت کا درست نقشہ تشکیل پاتا ہے۔انہیں ہدایات کے مطابق ہر پیغمبر نے اپنی امت کی رہنمائی کی اور انہیں ہدایات کے مطابق رسول اللہ ؐ نے امتِ مسلمہ کے کردار کی صورت گری کی۔ رسول اللہ ؐ کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا کہ دنیا کو اس انفرادی سیرت و کردار اور اس ریاست کا نمونہ دکھا دیںجو قرآن کے دیے ہوئے نظام کی عملی صورت ہو۔
اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیھم السلام کواور ان کے پیرووں کو غلبہ عطا فرماتا ہے، اور غلبے کی کئی صورتیں ہیں جن میں سے ایک سیاسی غلبہ بھی ہے۔
رسول اللہ ؐ کا مشن یہی تھا کہ وہ اللہ کے بیان کردہ حق کو حق کی حیثیت سے پیش کریں، اور عقائد، اخلاق، عبادات، اور معاملات میں…
غزل
جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب
عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب
مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں
دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب
جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر
آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب
تختۂ دار تو منظور تھا، منظور نہ تھا
جو کہا جائے کہوں اپنی زباں سے وہی سب
اس نے جو کچھ بھی کہا مجھ کو لگا یوں ہی، مگر
ڈر رہا ہوں وہ کہیں دل سے نہ کہہ دے وہی سب
ہائے الفاظ کے تیروں سے لگائے گئے زخم
کاش واپس اْنھیں لیکر اِنھیں بھردے وہی سب
شہر کے پیار میں وہ گاؤں سی سچائی کہاں
ورنہ بستے ہیں وہاں بھی مرے تجھ سے وہی سب
لادو بچپن کے وہی کھیل کھلونے مجھے تم
گلی ڈنڈا، کوئی لٹو، مرے کنچے، وہی سب
جو کیا کرتا ہوں میں چھوٹے بڑوں سے حبیبؔ آج
کیا نہ دہرائیں گے کل، سب مرے بچے، وہی سب
(حبیب الرحمن)
غزل
اپنے من میں اتنا اترا، اترا جتنا جا سکتا تھا
لیکن اس دلدل کے اندر کتنا اترا جا سکتا تھا
یہ سب تو ممکن تھا جاناں خود سے بچھڑا جا سکتا تھا
لیکن تیری چاہت سے منہ کیسے پھیرا جا سکتا تھا
سارا گاؤں تیرا پاگل اور میں تنہا شہری بابو
سچ کہہ…
نعت
جہانِ رنگ و نظر میں چاہے نہ پوری ہو اپنی کوئی خواہش
مگر یہ اک آرزو کہ جس کو بنا لیا حرزِ جاں محمدؐ
میں تکتے تکتے تمہارے در کو کچھ ایسے سوؤں کہ پھر نہ جاگوں
نصیب ہو جائے چشم تر کو کبھی جو وہ آستاں، محمدؐ
چراغِ دل بجھ گیا ہے شاہا بڑے اندھیرے میں گھِر گئے ہیں
بچاؤ گے کیا نہ ظلمتوں سے ہمیں نہ دو گے اماں محمدؐ
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی بھلا انہیں کوئی کیا بتائے
بنے ہوئے ہیں چمن کے قیدی تھے جن کے دونوں جہاں ،محمدؐ
تری دہائی ہے تاج والے پکار اس بد نصیب دل کو
یہ کشتہِ بختِ نارسا اب چلا ہے سوئے بتاں محمدؐ
وہی جو سرشارِ بے خودی تھے وہی جو آزادِ رنگ وبو تھے
ستم ظریفی کہ ہائے قسمت ہیں وقفِ کوئے بتاں محمدؐ
تمہاری رحمت کا اک سہارا ہے آہ درماندہ راہرو کو
کوئی ابھی تک پکارتا ہے تمہیں پسِ کارواں محمدؐ
(بنت مجتبیٰ میناؔ)
غزل
جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب
عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب
مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں
دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب
جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر
آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب
تختۂ دار تو منظور…
دلفریب نظاروں ، آبشاروں ، پہاڑوں ،بپھرتے دریا ئے کنہار اورپرفسوں جھیل سیف الملوک کی سیر کا احوال
میں نے اپنی ننھی پوتی مریم کو ایک دن جھیل سیف الملوک پہ پریوں کے آنے کی کہانی سنا دی ، بس اسی دن سے وہ اصرار کر رہی تھی کہ اسے بھی وہ جھیل دیکھنی ہے ۔ اس کا اصرار سن کر میرے بھانجے ، بھانجیوں کو بھی شوق پیدا ہو گیا کہ ہم سب بھی چلیں گے۔
ان سب کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا اور پچھلے سال 2019ء جولائی کے آخری عشرے میں ہمارا اس پریوں کے دیس کی سیر کا پروگرام بن گیا ۔ میں تو پہلے بھی چاردفعہ اس خوبصورت علاقے اور اس خوبصورت جھیل کی سیر کر چکا ہوں لیکن میرے بھانجے ، بھانجیوں اور پوتے پوتیوں کے لیے ادھر جانے کا یہ پہلا موقع تھا اس لیے وہ سب بہت پر جوش تھے۔
ایک موٹر سائیکل کی ٹکر کی وجہ سے میری ایک ٹانگ میں کچھ پرابلم ہے اور پیدل چلنا مشکل ہوتا ہے ۔ سٹک لے کر چلتا ہوں ۔ میں نے بہت کہا کہ آپ لوگ چلے جائیں میں گھر پہ آرام کروں گا لیکن وہ سب بضد تھے کہ ہم آپ کے بغیر بالکل…
وہ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھی تھی۔سامنے سے ریل گاڑی تیزی سے شور مچاتی گزری گھڑ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ دھڑ … وہ محویت سے ریل گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔ یہ ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی نہیں بسذرا سی ہلکی ہوئی ۔ اتنی ہلکی کہ روشانہ کو کھڑکیوں سے جھانکتے لوگ صاف طور پر نظر آئے کسی کھڑکی سے کوئی ماں اور بچے جھانک رہے تھے اور کسی سے مرد … اکثر اسے ہاتھ ہلا رہے تھے۔
نہیں وہ اسے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ خدا حافظ تو جان پہچان والے ایک دوسرے کو کہتے ہیں ۔ روشانہ نے سوچا ان کی اور میری کون سی جان پہچان ہے ۔ یہ ریل گاڑی کے مسافر ہیں اور میں اس کے لیے ابھی انتظار کر رہی ہوں۔یہ تو ان ہوائوں فضائوں اسٹیشن کے ہر ذی روح کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں کہ تم ابھی یہاں ہی رہو ہم آگے روانہ ہو رہے ہیں۔
تیزی سے چلتی ریل گاڑی کا آخری ڈبہ گزر گیا روشانہ نے دور جاتی ریل گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے بڑے چھوٹے نکتے میںتبدیل ہوتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی یوں محسوس ہو گا کہ گویا…
تین سال کی اندھی ، گونگی اور بہری بچی کو کیسے مارا جانا ہے اس کا فیصلہ آج کی آخری میٹنگ میں ہونا تھا جس کے لیے میٹنگ ہال میں موجود تمام لوگ نیوز چینل کے مالک وایڈیٹر منتظر تھے۔
ایک ہفتہ قبل چینل کے پی آر او ( پبلک ریلیشن آفیسر) ایک چھوٹے سے شہر کے مقامی اخباری رپورٹر کوچینل کے دفتر میں لے آیا تھا ۔ پی آر او نے ایڈیٹر سے تعارف کرایا تھا … ’’ سر ! یہ اپنے شہر کی سنسنی خیز خبروں کی اطلاع ہمیں دیتے رہتے ہیں ۔ کسی کسی سٹوری پر ہماری ٹیم ورک بھی کرتی ہے ۔ بٹ سر … اس بار جو یہ سٹوری لائے ہیں اس میں آپ کی اجازت لازمی ہے ‘‘۔
وہ مقامی اخباری رپورٹ جو خبریں کم اور اشتہارات زیادہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا ، سیدھے سادے اور مقامی لوگوں کو بلیک میل کرنا بھی اس کا ذریعہ آمدنی تھا ۔ جسے کسی جوڑے کو پبلک پارک میں عشق کرتے ہوئے دیکھ لیا تو خبر چھاپنے کی دھمکی دے کر روپے وصول کر لیے ۔ ادھر سال بھر سے اس نے ایک نیا پیشہ اپنایا تھا ۔ مشہور خبر یا چینلز کے لیے خبروں…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘ کا اکتوبر 2020ء کا شمارہ سامنے ہے ۔ سب سے پہلے تو ٹائٹل پر نظر پڑی لالہ زار ساسر سبز میدان ، گلابی ، سفید اور پیلے دلکش پھولوں سے مزیّن ٹائٹل دل و نگاہ کو ایک تازگی اور فرحت بخش گیا ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ حالیہ عرصہ میں پیش آنے والے تمام اہم موضوعات اور مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔آپ نے ایک بار پھر ’کرونا‘ جیسی مہلک وبا سے ہمیں خبر دار کیا ہے کہ احتیاط کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ایف اے ٹی ایف بل کی بعض افسوسناک شقوں کی بھی آپ نے خوب نشاندہی کی ہے ۔ ایک اسلامی ملک میں ایسے قوانین کو سوچ سمجھ کر نافذ کرنا چاہیے۔
موٹروے پر پیش آنے والے دلخراش سانحہ پر بھی آپ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ۔ آپ کے یہ جملے زبردست ہیں ’’ ایک مشہور حدیث کے مطابق معاشرہ تب محفوظ سمجھا جا سکتا ہے جب وہ ایک اکیلی عورت کے لیے بھی محفوظ ہو… ہم مسلمان ضرور ہیں مگر اسلامی اخلاقیات ہمارے مجموعی نظام کا حصہ نہیں بن سکی…
ہماری یہ فانی دنیا گو نا گوں واقعات سے بھری پڑی ہے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حیات بعد از موت ایک ایسا موضوع ہے جس میں انسان کو ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہے ہم اسے قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگربعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اپنے مخفی اسرار کی کچھ جھلکیاں دکھلا دیتے ہیں جس سے سلیم الفطرت لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی کئی واقعات دنیا میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ آج میں آپ کو دو ایسے لوگوں کے سچے واقعات بتانے جا رہی ہوں جنہوں نے خود ان واقعات کا مشاہدہ کیا جس کے بعد ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگیاں یکسر بدل گئیں۔
پہلا واقعہ دمشق کے ایک عالم دین نے سنایاوہ بتاتے ہیں :
دمشق میں وداح کا قبرستان ہے اہلِ دمشق اسے اچھی طر ح جانتے ہیں کیونکہ یہ وہاںکا مشہور قبرستان ہے۔ اس میں اولیا ء ،علماء، مجاہدین اور شہدا کی قبریں ہیں ۔ اسی قبرستان میں ایک گورکن تھا جواپنے روز مرہ کے معمولات کے مطابق قبریںکھودتا اور…
ایک نہ ختم ہونے والے انتظار کے کرب میں ڈوبی سچی کہانی…جس میں دکھ کی لہریں ذات سے لے کر وطن تک افق تا افق پھیل گئی ہیں
دوڑتے بھاگتے بے فکر بچپن میں اکثر ایسا ہوتا کہ شفیق و مہربان اور ہر پل مسکرانے والے دادا جان یک دم اداس نظر آنے لگتے۔
میں چونکہ ان کی سب سے بڑی اور لاڈلی پوتی تھی تو بس میں بھی ان کے ساتھ بے سبب اداس ہو جاتی۔ گو ابھی ناسمجھ تھی مگر دل کہتا تھا کوئی غیر معمولی بات ضرور ہے۔ ایسا کیا ہے ؟ بہت غور کیا مگر بے سود۔پھر نادان لڑکپن کہیں سے اچانک مسکراتے ہوئے بھاگ جانے کااشارہ کرتااورمیںسب کچھ بھول بھال کردوڑجاتی۔
پھر ایک دن کانوں سے دادا ابا کی درد اور امید سے لبریز آواز ٹکرائی۔
’’بیٹا جہاز آنے والا ہو گا جلدی چلے جاؤ ‘‘۔
’’ ابا ابھی تو بارہ گھنٹے ہیں ،ابھی سے جا کر کیا کروں گا ؟‘‘
میرے بابا دھیرے سے منمنائے،ان کے لہجے سے بیزاری اورناامیدی صاف جھلک رہی تھی۔
مجھے اپنے بابا کا یہ انداز اچھا نہ لگا تھا۔ بابا تو بہت اچھے ہیں ،کیوں دادا کی بات نہیں مانتے ، کیا ہؤا جو ذرا جلدی چلے جائیں گے ، اوں ہوں! ہمیں تو کہتے ہیں…
کل ایک بڑا آدمی ریٹائر ہو گیا ہے۔ یہ بڑا آدمی نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی ہیں، جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان نیوی میں ایسا انقلاب برپا کیا جو نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ اِس بارے میں مَیں نے کئی ماہ پہلے ایک کالم بھی لکھا، جس کی کچھ تفصیل یہ ہے۔ ایڈمرل عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا رہا ہے جس کے لیے پرانے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کئے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سنٹرز کھولے گئے ہیں جہاں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں، سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دی جاتی ہے۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زور دیا جاتا ہے اور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ بحریہ یونیورسٹی میں اسی سلسلہ میں اقبال چیئر کا بھی قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔
پاک بحریہ کی تاریخ…
فاطمہ نے نماز شروع کی ہی تھی کہ اس کے شوہر نے اس کے پیچھے سے آکرکرسی گھسیٹ لی ۔ اگرچہ کرسی پلاسٹک کی تھی مگر اُسے اندازہ ہوگیا کہ کرسی گھسیٹ لی گئی ہے۔
وہ رکوع سے سیدھی ہوئی دوقدم پیچھے ہٹی اورکرسی پر بیٹھ کر دونوں سجدے کر کے اگلی رکعت کے لیے کھڑی ہوگئی ۔ رکوع میں گئی تو پھر کرسی گھسیٹ لی۔اُسے اندازہ ہو گیا کہ اب وہ بہت دورچلی گئی ہے۔
اُس کی توجہ نماز میں کم اورکرسی میں زیادہ تھی ، اب کیا کروں کتنا چلوں؟ نہ چلوں توکیا کروں؟
سجدہ زمین پرکرلوں توپھراُٹھوں کیسے اورتین رکعت بھی ابھی باقی تھیں۔
پھر اُس نے فیصلہ کیا ، رکوع سے کچھ اور زیادہ جھکتی ہوں اور سجدہ ایک اورپھردوسرا کرلیتی ہوں۔
سجدہ کرکے اُس نے تشہد مکمل کی اورسیدھی کھڑی ہو گئی ۔ سورۃ فاتحہ شروع کی تھی کہ تھپڑوں اورمکوں کی بارش شروع ہوگئی۔
اب کیا کروں ؟ پھر ایک سوال تھا ۔ نماز مکمل کروں یا تیسری رکعت تھی اُس نے سوچا نماز مکمل کر لیتی ہوں ۔پھروہیںکھڑے کھڑے رکوع کے بعد سجدے و تشہد اورساتھ ایک طرف بائیں جانب کندھے کمرمار سہتے رہے۔
فاطمہ کے سلام پھیر نے سے پہلے اس کے شوہر کمرے میں جا کربسترپرلیٹ چکے تھے…
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے’’ الاشیاء تعرف باضدادھا‘‘ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔ جیسے روشنی اندھیرے سے ، دن رات سے ، میٹھا کڑوے سے ، سرد گرم سے ، نرم سخت سے ، بلندی پستی سے،خیر شر سے ، حتیٰ کہ خوشی کا احساس بھی اس لیے ہوتا ہے کہ غم موجود ہے۔اربابِ منطق کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ قضیہ کا عکس لازم اور صادق ہوتا ہے ۔
درکار خانہ عشق از کفر نا گزیر است
دوزخ کرابسوزدگر بولہب نباشد
سائنس کہتی ہے کہ مخالف قوتوں میں کشش ہوتی ہے ۔ جیسے مقناطیس کے قطب۔ جیسے بجلی میں الیکٹرون کا بہائو ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہاتھ تبھی باہم ملتے ہیں جب مخالف سمتوں میں ہوں ۔ گرہ بھی تب ہی بندھتی ہے جب دونوں سرے آمنے سامنے ہوں ۔ دیکھا جائے تو زندگی کی ہمہ ہمی ، رنگینی اور دلچسپی اسی اختلاف میں ہے ۔ یکسانیت سے طبع مضمحل ہو جاتی ہے۔
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت ِ چمن
اے ذوقؔاس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
لیکن جہاں ہر متضاد شے دوسرے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور ان میں ایک قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، وہاں جب بات مرد اور عورت کی…
انسان طبعاً کمزور ہے (النسا ۸۲) اور سرشت میں عجلت پسند ہے (الانبیاء۷۳، اسراء ۱۱) اس لیے پائدار سکھ کے حصول کے لیے انتظار کی ختم ہوجانے والی اذیت برداشت کرنے کی بجائے عارضی دکھ اور ناکامیاں، پریشانیاں اولاد آدم کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور تا دیر یاد رہتی ہیں۔ انسان کے خمیر میں حاصل شے کی طرف سے عدم توجہی اور لا حاصل کا رونا موجود ہے۔ قرآنی زبان میں انسان کو تھڑ دلا یا کچے دل والا (ھلوعا) کہا گیا ہے(المعارج۹۱)۔ اسی لیے انسان کو تحمل، صبر و ضبط کے لیے کونسلنگ اور مضبوط سہارے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
ہر انسان کو معاشرتی وسماجی زندگی میں انفرادی طور پر قدر و ناقدری کے احساسات سے لازما واسطہ پڑتا ہے۔ اپنوں کی طرف سے قدرناشناسی کے وقت جب جذباتی صدمے روح کو چھلنی کرتے ہیں تو دل جوئی کے لیے کوئی تو ہونا چاہیے جو صائب مشورہ دے کچھ تسلی اور دلاسہ دے کوئی مثالی کردار کا حوالہ دے کر مطمئن کردے۔ ان حالات میں کوئی ایسا سچا ہمدرد دوست ہو جو سمجھائے کہ ان حالات میں اپنی شخصیت کے وقار dignity کو مجروح کیے بغیر کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ اور دلائل سے قائل کرے کہ اسی شخصیت…
منیرہ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔بڑی بیٹی ایمن سلیم ، اس سے دو سال چھوٹا طاہر سلیم پھر انعم سلیم۔
کہنے کو دونوں بیٹیوں میں ساڑھے تین سال کا فرق تھا مگر عادتوں اور مزاج میں مشرق مغرب کا فاصلہ۔
بڑی والی ایک نرم سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے رکھتی، ملنسار اور بامروت ، تو چھوٹی والی موڈی،بات بات پر بدکنے والی…… موڈ اچھا ہے تو سات پرائے بھی اپنے ہوجاتے اور اگر مزاج برہم ہے تو اپنے بھی سوا نیزے پر ٹنگے رہتے۔
ایک کو مٹر پلائو میں مٹرپسند تھے اور چن چن کر چاولوں میں سے مٹر نکال کے کھاتی تو دوسری کو مٹر کی شکل سے بھی نفرت تھی ۔وہ بھی چاولوں میں سے چن چن کے مٹر نکالتی مگر پھینکنے کے لیے۔
ایک کو بن سنور کے رہنے کا شوق تھا تو دوسری کو اول جلول حلیہ میں رہنا اچھا لگتا ۔
ایک گھر میں سب کے کام بھاگ بھا گ کے کرتی تو دوسری سب کو بھگاے رکھتی۔ یہی حال پہننے اوڑھنے میں تھا ۔ایک فیشن کے مطابق چلتی دوسری سدا ایک ہی لمبی قمیص اور کھلے پاجامے میںایک کا نام گھر والوں نے راج ہنس اور دوسری کا جل ککڑی رکھا ہوا تھا۔
منیرہ نے دونوں کی تربیت…
قرآن کا ایک اہم معجزہ یہ ہے کہ اس نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں پیشگی خبریں اور بشارتیں دیں۔ ان میں بہت سی پیشیں گوئیاں نبی کریم ؐ کی زندگی میں ہی پوری ہو گئیں کچھ بعد میں ہوئیں اور کچھ آئندہ ہوں گی۔ ذیل میں کچھ پیش گوئیوں کی تفصیل دی جا رہی ہے۔
٭ مسلمانوںکے لیے غلبہ کی خوشخبری
نبی کریم ؐ کو نبوت عطا ہونے کے بعد آپؐ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو بہت مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔ مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ ایک طویل عرصے تک کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ ان بظاہر ناامیدی کے حالات میں قرآن میں بار بار مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی گئی کہ بالآخر انہی کا غلبہ ہو گا اور یہ کفار جو اس وقت بہت طاقتور نظر آرہے ہیں مغلوب ہو کر رہیں گے۔نمونے کے طور پر چند آیات کا ترجمہ دیا جا رہا ہے۔
’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس…
!ورفعنا لک ذکرک
قارئین کرام!عین ان دنوں جبکہ دنیا بھر میں مسلمان ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت پاک کے تذکروں میں مشغول ہیں، فرانس کا بدبخت صدر آزادیِ اظہار کے نام پہ توہینِ رسالت کا مرتکب ہؤا ہے۔ یہ سرکارِ دوعالم ،رحمت اللعالمین، آقائے دوجہاں، محبوبِ خلائق محمد مصطفی ﷺ کے لیے اپنا بغض نکالنے کا وہی بولہبی طریقہ ہے جس پر قرآن نے اس مجرم شخص کے ہاتھ ٹوٹ جانے اور ہلاک ہوجانے کی یقینی وعید سنائی تھی۔ اس مذموم حرکت سے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے۔ہر جگہ کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ میلاد النبی کی تقاریب اور جلسے نبیؐ کریم سے اظہار محبت اور فرانس کی مذمت کی تقریبات میں ڈھل گئے ہیں۔
فرانس میں حالیہ کشیدگی نے اس وقت جنم لیا جب فرانسیسی صدرنے ایک خطاب میں اسلام کے بارے میں منفی جملے کہے اور ان پر اسے تنقید کا سامنا ہؤا۔ اس کے بعد ایک استاد نے سکول میں آزادیِ اظہار کا درس دیتے ہوئے توہین آمیز خاکے دکھائے جس پر ایک طالب علم نے اس کو قتل کرڈالا۔جواباً صدر کے بیانات اور توہین آمیزاقدامات سے یہ کشیدگی دنیا بھر میں پھیل گئی۔وہ لوگ اس بات پر پریشان ہیں کہ ان کے…
ہم دوپہر کے وقت میں ذرا قیلولہ کرنے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ دروازے پر بیل بجی ۔دیکھا تو سامنے ہماری بہت ہی قریبی دوست کھڑی تھیں۔سلام دعا کے ساتھ ہی ہم انھیں گھر کے اندر لے کر آئے اور کہا، بھئی اس گرمی میں کیا آفت پڑی آنے کی؟تھوڑا شام ہونے کا انتظار ہی کیا ہوتا ۔
کہنے لگی ، میں تمھارے لیے کل رات کو ایک تحفہ خرید کر لائی تھی اور آنے کو تو تمھارے ہاں رات میں ہی تھی لیکن اس وقت مہمان آگئے۔پھر صبح سے بچی کی آن لائن کلاس چل رہی تھی تو اس کے ساتھ مصروف رہی ۔اور اب جیسے ہی پہلی فرصت ملی ہے تو دوڑی دوڑی چلی آئی ہوں کہ مجھ سے برداشت ہی نہ ہورہا تھا۔اب جلدی سے یہ بیگ کھولو اور دیکھو اس کے اندر کیا ہے۔
اب ہمیں بھی تجسس ہؤا کہ آخر کو کیا اٹھا کر لے آئیں اور دینے کی بھی اتنی جلدی کہ اس سورج کے بھی نہ جانے کا انتظار کیا۔ ہم نے بیگ سرعت سے کھولا تو اس کے اندر موجود چیز کو دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔تیزی سے اسے نکالا اور جو دیکھا اس پرٹیڑھی آنکھوں سے اپنی اس…
یہ مضمون جناب ابو الحسن کی تازہ شائع شدہ کتاب’’ سقوط ڈھاکہ کی حقیقت‘‘(اکتوبر 2020) سے لیا گیا ہے ۔ انہوں نے چشم دیدہ گواہ کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے لیے وہ آغاز میں برصغیر میں برطانوی راج ، تحریک پاکستان اور مابعد حالات کا پس منظر بیان کرتے ہیں تاکہ صورتحال کو سمجھنے میں مدد ملے ۔ یہ مضمون اسی حصے میں سے منتخب کیا گیا ہے (ص۔۱)
کانگریس پورے ہندوستان پرحکمرانی کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف Quitانڈیا مہم شروع کی اور یہ مہم تحریک میں بدل گئی ، جو پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔26جنوری1930ء کو یوم آزادی ڈکلیئر کیا گیا ، ان کا ہدف یہ تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ جائیں اور ملک ان کے حوالے کردیں کیوں کہ وہ ہندوستان میں اکثریت میں ہیں ۔ مسلم لیگ اس تحریک کے اہداف کو سمجھ گئی تھی کہ اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں مسلمان انگریزوں کی غلامی سے ہندوئوں کی غلامی میں آجائیں گے۔
لہٰذا مسلمان رہنمائوں نے ہندوئوں کی اس تحریک کی شدید مخالفت کی اور بمبئی میں ایک کنونشن منعقد کیا ۔ اس کنونشن میں مولانا محمد علی جوہر…
یہاں ناشتے کے لیے فُول، تمیس، فلافل، بینگن سے بنے کھانے اور سینڈوچ، حمص کے ساتھ ساتھ مغربی ناشتے بھی کافی مقبول ہیں۔ اسی طرح انڈے اور چیز سے بنے ہوئے کئی طرح کے سینڈوچ بھی شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ چائے عموماً بغیر دودھ کے پی جاتی ہے۔ اسی طرح سیاہ کافی، عربی قہوہ بھی ناشتے کا جزو ہے۔ چائے کی کئی اقسام ہیں جیسے، سادہ چائے بغیر دودھ کے، صرف ادرک کی چائے، پودینہ کی چائے، سبز چائے، عربی قہوہ، دودھ والی چائے۔ دودھ والی چائے کی بھی اقسام ہیں، جیسے عام ٹی بیگ والی چائے، کرک چائے، یمنی چائے،دودھ پتی بھی مل جاتی ہے۔ سعودی ہر قسم کی چائے کے لیے ایک ہی جیسی پیالی استعمال نہیں کرتے۔ سادہ دودھ کے بغیر چائے کے لیے ذرا لمبے اور بڑے کپ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ہماری پیالی سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ عربی اور ترکی قہوہ کے لیے چھوٹی پیالی یا فنجان استعمال ہوتے ہیں۔دودھ والی چائے کے لیے عام پیالی استعمال ہوتی ہے، جو ہمارے ہاں بھی چائے کے لیے مروج ہے۔
چائے کی دیگر اقسام جو سپر مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہیں، ان میں چائےکرکدی (Hibiscus Tea)سبز چائے مختلف ذائقوں میں جیسے پودینہ، دار چینی، شھد، وغیرہ،…
درخت پر اوقات سے زیادہ پھل لگ جائیں تو اس کی ڈالیاںٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔
٭ ٭ ٭
انسان کو اوقات سے زیادہ مل جائے تو وہ رشتوں کو توڑنا شروع کر دیتا ہے۔انجام آہستہ آہستہ درخت اپنے پھل سے محروم ہو جاتا ہے۔
٭ ٭ ٭
الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں ۔جب آپ بات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے الفاظ، آپ کے خاندان کا پتہ، مزاج اور آپ کی تربیت کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔
٭ ٭ ٭
بچہ بڑا ہو کر سمجھ جاتا ہےکہ ابا کی پابندیاں ٹھیک ہی تھیںاور اس طرح بندہ مرنے کے بعدسمجھ جائے گا کہ اس کے رب کی پابندیاں ٹھیک تھیں۔
٭ ٭ ٭
زندگی کوئی چائے کا کپ تھوڑی ہوتی ہے کہ ایک چمچہ شکر ملا کر ذائقے کی تلخی کودور کر دیا جائے۔زندگی کو تو عمر کے آخری لمحے تک گھونٹ گھونٹ پینا پڑتا ہےچاہے تلخی کتنی زیادہ کیوں نہ ہو جائے۔
٭ ٭ ٭
تہجد پڑھتے ہیں مگر اپنے بھائی سے بول چال نہیں رکھتے۔ہر نیک کام کرتے ہیں مگر غیبت نہیں چھوڑتے ۔اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔
٭ ٭ ٭
اگر تمہیں ایک دوسرے کےاعمال کا پتہ چل جائے تو تم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کرو۔اﷲ…
دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی میں عصری تقاضوں اور حکمت و بصیرت کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے خاص طور پر جب تہذیب و تصادم کا نظریہ عام ہو چکا ہے اور مذاہب کے درمیان مکالمہ کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے ۔ ایسے میں دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی بھی جدید تقاضوں کے مطابق تشکیل دی جانی چاہیے۔ لہٰذا اس کے اسالیب و مناہج ایسے ہونے چاہیں جس کے مطابق اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا کے ہرخطے ہر قوم اور عالمی مذاہب کے پیرو کاروں تک پہنچایا جاسکے ۔
علامہ ابن کثیر کے مطابق:’’ حکمت سے مراد سمجھ بوجھ مولانا مودودیؒ کے مطابق حکمت سے مراد وہ تمام دانائی کی باتیں ہیںجو نبیؐ لوگوں کو سکھاتے تھے ۔ حکمت عملی یعنی Strategyکو فوجی اصطلاح کے طور پر فوجی حسن تدبیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ Strategyکے معنی در اصل ایک مشکل اور اہم کام کو سر کرنے کے ہیں جبکہ Policyاکثر سیاسی حسن تدبیر کو کہتے ہیں ۔ پس حکمت عملی سے مراد کام کرنے کا ہر وہ طریقہ ہے جس سے وہ کام بخوبی اور احسن طریقہ سے تکمیل کو پہنچے۔
رسول اکرم ؐ اس اعتبار سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ آپ ؐ…
غزل
زمانے سے بغاوت کیوں کریں ہم
ملیں، چھپ چھپ کے لیکن کیوں ملیں ہم
یہ کب لازم ہے سب، سب کو خبر ہو
دلوں کی آنکھوں آنکھوں میں کہیں ہم
تمہیں بھی شعلہ سا کر دیں تو کیسا
محبت میں اکیلے کیوں جلیں ہم
جو ڈسنا ہو ڈسیں گے سامنے سے
کسی کی آستیں میں کیوں پلیں ہم
بکھر نے سے، کلی سے پھول بن کر
کہیں اچھا تھا رہتے کونپلیں ہم
وہ سب کانٹوں سے چبھتے تلخ لہجے
بنیں شیریں جو پھولوں سا بنیں ہم
نبھانا ہے نبھانا ہی نہیں ہے
کوئی تو فیصلہ آخر کریں ہم
جو سر کرنی ہے منزل خود کریں سر
کسی کے پیچھے پیچھے کیوں چلیں ہم
تمنا ہے گلوں کا ہار بن کر
کبھی اس کے گلے سے جا لگیں ہم
جو غیرت پر کٹے کٹ جائے کیا ہے
جہاں میں سر جھکا کر کیوں جئیں ہم
حقیقت کو بتانے کے بہانے
کہیں پتلی تماشہ ہی کریں ہم
نکالیں منزلوں تک سلسلہ خود
پرائے راستوں پر کیوں چلیں ہم
حبیبؔ اندر سے کیا ہیں مت کریدیں
ہر اک الزام دنیا پر دھریں ہم
(حبیب الرحمان)
٭…٭…٭
غزل
اپنے من میں اتنا اترا، اترا جتنا جا سکتا تھا
لیکن اس دلدل کے اندر کتنا اترا جا سکتا تھا
یہ سب تو ممکن تھا جاناں خود سے بچھڑا جا سکتا تھا
لیکن تیری چاہت سے منہ کیسے پھیرا جا سکتا تھا
سارا گاؤں تیرا پاگل اور میں تنہا…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
ماہ نومبر2020ء کا ’’ چمن بتول‘‘ ملا خوب صورت ٹائٹل سبز، نیلے اودے اور جامن رنگ کے پھولوں اور رنیلگوں پانیوں سے مزّئین ہے ۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ تمام مسلمانوں کے دل کی آواز اور جذبات کی ترجمانی ہے۔ اہل مغرب کو دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔ آپ نے یہ جملے بڑے زبردست لکھے ہیں ’’ اہل مغرب جب تک اس معاملے میں تکبر ، تعصب اور دشمنی سے باہر آکر نہیں سوچیں گے صورت حال مزید ان کے قابو سے باہر ہوتی جائے گی … ہم اپنے جرم ضعیفی کا مداوا کرنے کے لیے سوچ بچار کریں ۔ اپنے زوال کے اسباب ڈھونڈیں، ان کو دور کرنے کا لائحہ عمل بنائیں ۔‘‘پھر یہ جملہ بھی خوب لکھا ہے ’’ قصور وار تو اُمت ہے جس نے دوسروںکا دست نگر ہونا منظور کرلیا … کمزوروں کو غصہ کرنے کا کیا حق !‘‘
’’ قرآن کی پیش گوئیاں ‘‘ ڈاکٹر مقبول احمد شاہد صاحب نے بڑے تفصیل کے ساتھ قرآن پاک کی ان پیش گوئیوں کی نشاندہی کی ہے جو آنے والے وقتوں میں حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں ۔ مثلاً جنگ بدر میں فتح کی…
کرونا سے ڈرنا نہیںگھبرانا نہیں۔نزلہ زکام کھانسی کی قسم کو اب کرونا کہتے ہیں۔جو کرونا سے ڈرا وہ بھی پھنس کر شکارہؤااور جو ہنسی مذاق اڑاتا رہا وہ بھی کرونائی بنا ۔
آپ مبالغہ مت جانیے، تیس جمع تیس یعنی ساٹھ دن جو کرونا سے ڈر کر گھروں میں قید رہے ،سینی ٹائزر اور ماسک کو حفاظتی ضمانت سمجھتے رہے وہ محض کھڑکی سے باہر جھانکنے پر ہسپتال منتقل ہوئے۔
فلاںپرنسپل مرگیا، فلاں ہسپتال میں بیڈ ختم ہوگئے، وینٹی لیٹر منگوانا چاہئیں……
جیسے جملوں میں ذوالحج کے بعد اور ربیع الاوّل سے پہلے والے مہینے میں بالآخر کرونا نے بریک لیا ۔کرونا کے وقفے کی دیر تھی کہ جو پانچ چھ ماہ سروں پر چڑھ کے ناچتا تھا اب ایک دم ہی ذہنوں سے محو ہوگیا۔ کون سا کرونا اور کیسا کرونا! گرمیوں میں ہر سال دو سال بعد ٹائیفائڈ ہوتا ہے علامات بھی اسی کی تھیں اس لیے وجہ اور دھیان ٹائیفائڈ کی طرف ہی رہا ۔علاج معالجے کے باوجود حیرت اس بات پر تھی کہ کرونا کیا آیا ساری بیماریوں نے رنگ ڈھنگ بدل لیے۔عجیب واہیات قسم کا ٹائیفائڈ کہ دودن بخار میں سڑتے مرتے گزرتے، توبہ تائب ہوتے کچھ رجوع الی اللہ کا دھیان ہوتا ،اگلے چار دن اس طرح…
نام: غزالہ عزیز ،قلمی نام ام ایمان ، کالم نگار ، افسانہ نگار ، ناول نگار، بچوں کی کہانیاں حریم ادب کراچی کی جنرل سیکرٹری ،کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل کی ممبر ،افسانوں کے دو مجموعے،’’ صبح تمنا ، پھولوں کی ٹوکری ‘‘ ناول ، مسافتیں ،پہاڑوںکے بیٹے سیرت صحابہ پر ایک کتاب ( غلام جو سردار بنے ) زیر طبع بچوں کی کہانیاں ، کالم کا مجموعہ افسانوں کا مجموعہ ، سیرت صحابیات اہل بیت ۔
سوال: اپنے گزرے ہوئے اور موجودہ وقت کے بارے میں کچھ آگاہی دیجیے۔
غزالہ عزیز: میں ایک متوسط اور پڑھے لکھے دین دارگھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔ پانچ بہن بھائیوں کی سب سے چھوٹی بہن جس کو بچپن سے پیار ملا اور خوب ملا ۔ میرے والد دینی جماعت کے سرکردہ رکن تھے ۔ مولانا مودودیؒ کے ابتداسے ساتھ رہے انڈیا ہی سے ان کے رسالے ترجمان القرآن کے خریدار تھے ۔ لکھنئو شہر کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے ۔ تجارت کے سلسلے میں سفر کرتے رہتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد پاکستان آئے تاکہ تجارت اور کاروبار کا جائزہ لیں اس بات کو دیکھیں کہ یہاں کاروبار اور رہائش کس شہر میں کی جائے ۔
جب وہ واپس…
سمجھوتہ کے معنی ہیں ایک دوسرے کو سمجھ لینا اور اسی کو مفاہمت کہا جاتا ہے۔ سمجھوتہ یک طرفہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، دونوں طرف سمجھوتے کا میلان موجود ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو اس بات پہ سمجھوتہ ضروری ہے کہ دونوں باہم افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے مزاج عادات و اطوار ، سے شناسائی کروائیں گے ۔ بہت ساری چیزیں ہمیں اس وقت ناگوار بلکہ ناقابل برداشت لگتی ہیں جب وہ اپنی الگ پہچان رکھتی ہوں مگر جب وہ دوسری اشیاء سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں تو ایک نئ، مختلف خوشگوار اور قابل قبول شے بن جاتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس کی مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں۔مثلاً کھانے پینے کی اشیاء میں مختلف چیزوں کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جاتا ہے تو وہ مزے دار ڈش بن جاتی ہے۔صرف سرخ مرچ یا دیگر مصالحے الگ الگ کون پھانک سکتاہے؟کیا سالن کی لذت دوبالا کرنے والے ان مصالحوں کو الگ الگ کھا کر لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے؟یہ گمان رکھ کر کہ سب چیزوں نے پیٹ میں ہی جانا ہے۔ مصالحے اصل میں ڈالے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسرے سے ملا کر بہتر چیز پیش کی…
مثل مشہور ہے’’ ایک انار سو بیمار‘‘، اور میں انار کی بیمار اس وقت بنی جب میری شادی کی تاریخ پکی ہوئی۔
ہؤا کچھ یوں کہ تاریخ پکی ہوتے ہی سہیلوں نے ہر قسم کے مشورے مفت دینا شروع کر دیے۔ کسی نے کہاکہ شادی کی شاپنگ فلاں جگہ سے کرو ، فلاں پارلر میں بکنگ کروالو اور یہ کہ آجکل کیا چیزیں ’ان‘ہیں اور کیا ’آؤٹ‘ ہیں وغیرہ۔ انہی سہیلوں میں سے ایک نے کہا کہ ،’’یہ ڈیڑھ ماہ (اوائل ِاکتوبر سے اواخر نومبر ) تمہارے لیے بہت مصروفیت اور تھکاوٹ کا ہوگا ۔ لیکن میں تمہیں ایک ایسا آزمودہ نسخہ بتاؤں گی جسے آزمانے سے نہ صرف تمہارارنگ گورا ہوگا بلکہ چہرہ بھی ہشاش بشاش ہو گا‘‘۔اس کا دعویٰ تھا کہ اس نسخے پر عمل کر کے میں اسےہمیشہ دعائیں دیتی رہوں گی۔
اب اتنا اچھا نسخہ کون نہ جاننا چاہے گا۔ میں نے بھی یہی کیا۔ اس نے بتایا کہ آج کل انا ر مارکیٹ میں ہیں اور مجھےانا ر کےجوس کے دن بھر میں کم از کم تین سے چار گلاس پینا ہیں۔ یہ اتنی مشکل بات نہ تھی اس لیے فوراً مان لی۔ انار منگوائے تھوڑے مہنگے ملے لیکن بہت مہنگے بھی نہ تھے ۔ شامی (چھوٹی…
دن بھر بجلی بند رہی ۔شدید قسم کے حبس اور گھٹن میں پندرہ لوگوں کا کھانا اس نے حقیقی خدا سے دعا مانگتے ہوئے اور مجازی خدا سے ڈرتے ہوئے بنایا ۔
فریزر سے ٹھنڈے یخ پانی کی بوتل نکال کے پاس رکھ لی تھی جب بھی دم گھٹنے لگتا پسینہ سے حالت خراب ہوتی غٹ غٹ کر کے بوتل خالی کر جاتی ۔
میاں کو بس ایک ہی شوق تھا یار بیلی جمع ہوں اور کھانا پینا ۔تاش کھیلے جائیں شطرنج کی بازی لگے کیرم بھی بہت عالی شان قسم کا بنوا کے رکھا ہؤا تھا کیرم بورڈ کی باری بھی آہی جاتی ۔ان سب کے ساتھ لڈو تو ویسے ہی تانیث کے صیغے میں محبوب بلکہ محبوبہ تھی ۔
کس بل سارے حرا کے نکلتے ،شاید نام کا اثر ہوگیا،سال کے بارہ میں سے گیارہ مہینے چولھے کی حرارت ہی سے فیضیاب ہوتی۔اب بھی کھانا بھجوا کے باورچی خانے کا پھیلاوہ سمیٹ کر نہانے کے لیے گئی۔خوب اچھی طرح نہا دھو کے باہر نکلی تو پنکھے کی ہوا میں آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئیں۔
دس ایک سیکنڈ کی نیند بھی نہ لی ہوگی کہ عروہ دھم سے اس کے اوپر سوار ہو گئی ۔
’’ماما جی ماما جی بھائی مجھے مارتے…
والدین کی دنیا سے رخصتی کے بعد اولاد کے لیے سب سے بڑا خلا اورمحرومی دعا کا وہ در بند ہو جانا ہے جس کے لیے (بعض روایات کے مطابق) حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدرنبی کی ہستی کو بھی کوہ طور پر خبردار کیا گیا کہ موسٰی اب ذرا سنبھل کر ،تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا ہےجو سجدے میں دعا کرتی تھی کہ اے رب اگر موسیٰ سے بھول چوک میں غلطی ہو جائے تو معاف کر دینا !
میری ساس صاحبہ کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال مکمل ہؤا ،لیکن ان کے ساتھ گزرا وقت ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ ان کی دعاؤں اور شام کے وقت دو گھنٹے کی ان کے ساتھ نشست کہیں، بیٹھک کہیں، محفل کہیں، یا زندگی اور تازگی سے بھرپور روبرو ملاقات جس میں ہم دونوں تازہ دم ہو جاتے تھے ،ان لمحوں کی شدت سے کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے،اس دوران میں اپنی ہر مصروفیت چھوڑ دیتی تھی، موبائل آف کر دیتی تھی۔ دن بھر میں میرے لیے یہ ایک خصوصی وقت ہوتا تھا جس کی تیاری میں دو گھنٹے پہلے اپنے کام سمیٹ کر کرتی تھی ۔
اس بیٹھک کی مختصر روداد……دن بھر کے…
ایک نیم پختہ سڑک پر سے فوجی جیپ اپنی مناسب رفتار سے چلتی آ رہی تھی۔ ڈرائیور کے پہلو میں کیپٹن عاصم اسلم بلیک گوگلز آنکھوں پر لگائے اپنا بایاں بازو جیپ کی ونڈو میں ٹکائے اتنا با رعب اور مضبوط لگ رہا تھا کہ جیسے دشمن کو چیرنے پھاڑنے کے لیے ایک اشارے کا منتظر ہو۔سڑک پر جب کبھی کبھار کوئی بچہ یا بائیک پر جاتا ہؤا کوئی نوجوان یا شوخ و چنچل لڑکیاں پاک فوج کی محبت میں دور سے ہی اس کی جیپ دیکھ کر آرمی آرمی کا نعرہ لگاتیں، اس کے کندھے قرض کے بوجھ کو محسوس کرنے لگتے۔ اور جب وہ محبت سے اپنا ٹوٹا پھوٹا سلیوٹ پیش کرتے اس کا دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے جوابی کڑک سلیوٹ پر جب خوشی کے نعرے لگتے تو اس کی روح تک سرشار ہو جاتی۔
بچوں کو تو وہ محبت سے ہاتھ ہلا کر جواب دیتا جبکہ نوجوانوں کو ہاتھ کا مکا بنا کر ہوا میں لہرا کر جواب دیتا اور لڑکیوں کو سر اور آنکھیں جھکا کر بس ہاتھ ان کی طرف بلند کر دیتا ۔
کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران بریگیڈیئر عباسی نے ایک خطاب کے دوران سمجھایا تھا۔
’’ یہ سلیوٹ لوگ تمہیں نہیں…
حریم ادب جدہ کی جانب سے جب سے طبع آزمائی کے لیے مختلف موضوعات ملے تھے مستقل ہی ذہن سوچ بچار میں مصروف تھا کہ بھلا کس موضوع پہ ہاتھ صاف کیا جائے۔
چونکہ لکھاری نہیں لہٰذا باقاعدہ کسی موضوع پہ لکھنے کے لیے ذہن کو تھکانا اور سوچ کے گھوڑوں کو دوڑانا پڑتا ہے۔
اب صورتحال یہ تھی کہ ہاتھ مختلف کاموں میں مصروف اور دل و دماغ مسلسل اس سوچ میں کہ ’’اے کاش میں……ہوتی‘‘۔خاتونِ خانہ کا زیادہ تر وقت تو چونکہ باورچی خانے میں ہی گزرتا ہے(اس کی وجہ شاید دونوں میں ’’خانہ‘‘ کا مشترک ہونا ہے) تو برتن دھوتے دھوتے ذہنی رَو انواع و اقسام کے برتنوں کے گردا گرد گھومتی رہی کہ ’’اے کاش میں چمچہ ہوتی‘‘(برتنوں والا چمچہ آپ کہیں دوسرا ’’چمچہ‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں)۔
اے کاش میں پلیٹ ہوتی!
اے کاش میں بڑا والا دیگچہ ہوتی۔کیونکہ اب کی ہاتھ دیگچہ رگڑنے میں مصروف تھے،ویسے آپس کی بات ہے دیگچے اور خود میں حجم و وزن کی کافی مماثلت محسوس ہوئی پر اس احساس کے وارد ہوتے ہی دل نے گہرائیوں سے لاحول و لا قوۃ کی صدا بلند کرتے ہوئے ذہن کو تنبیہہ کی کہ ایسی بھی کیا اپنائیت کہ ان چیزوں کے ہونے کی خواہش کی…
رضیہ نے جب سے ہوش سنبھالا تھا و ہ دیکھتی چلی آ رہی تھی کہ اس کی والدہ محرم کے نویں دسویں اور رجب ، شعبان کے تمام نفلی روزوں کا بڑا اہتمام کرتی تھیں ۔ اب تو رضیہ خود بھی ان نفلی روزوں کی پابند ہو گئی تھی ۔ رمضان کے اہتمام کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔نماز کی پابندی بھی لازمی تھی۔
والدہ کہتیں رب تعالیٰ نفلی روزوں کو پسند فرماتا ہے ۔ ان کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ گھر پر اور گھر والوں پر اللہ اپنی رحمتیں سارا سال نازل فرما تا رہتا ہے ۔ ان کی ایک عادت اور بھی تھی ، وہ جب کسی سے پیسے لیتیں ، بسم اللہ پڑھ کر لیتیں اورجب خرچ کرتیں تو زیر لب بڑ بڑاتیں ، اللہ کا تھا ، اللہ لوٹا دیا ۔ وہ کہتیں یہ اللہ کا حکم ہے ۔ اس سے روپے پیسے میں برکت ہوتی ہے اور واقعی رضیہ کو احساس ہونے لگا تھا کہ ان کے گھر پر رب تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہے کیونکہ ابو جانی کی تنخواہ کوئی اتنی زیادہ نہ تھی لیکن امی کے رکھ رکھائو ، خاندان اور باہر دوست احباب کے ساتھ لین دین میں کبھی کوئی…
’’یہی کوئی دو تین دہائیاں پہلے تک دیہاتوں اور قصبوں کے لوگ مل جل کر موسموں سے لطف اندوز ہوتے اور کام بھی زیادہ نمٹا لیتے۔خاص کر سردیوں کے موسم میں صبح صبح گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر خواتین گھنٹوں دھوپ سینکتیں، آپس میں گپ شپ کرتیں اور اپنے کام بھی سنوارتیں‘‘۔
اب کہاں وہ مزے۔اوراب تو یہ موا موبائل ایسی بلا آ گیا ہے جو رات کو دیر تک جگاتا ہے اور پھر نیند پوری کرنے کے لیے لوگ آدھے دن تک سوئے رہتے ہیں…..اور ویسے بھی اب وہ مل بیٹھ کر دھوپ سینکنے کے لیے بڑے صحن کہاں رہے ہیں۔شہر کے لوگوں نے جگہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ کوٹھی سٹائل کے شوق میں صحن بنانا چھوڑ دیے ۔ دیکھا دیکھی دیہاتی لوگ بھی بند گھروں میں آگئے‘‘۔
رابعہ تیز رفتاری سے سرسوں کا ساگ کاٹتے ہوئے بہو رانی کے ساتھ دل کے پھپھولے بھی پھوڑ رہی تھی جو پاس بیٹھے بتھوا کے پتے ٹہنیوں سے الگ کر رہی تھی۔ پالک وہ پہلے ہی صاف کر کے رابعہ کے پاس رکھ چکی تھی۔ساگ کے لیے پانی ڈال کر چولہے پر رکھے دیگچے سے، ابلتے ہوئے پانی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ رابعہ نے کٹا ہوا ساگ…
قرآن جس زبان میں نازل ہؤا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہؤا نہیں ہے۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہؤا ہے اور ہر مرتبہ پیرایۂ بیان نیا ہے۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گئے ہوں۔ کلام اتنا اثر انگیز ہے کہ کوئی زبان دان آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتاحتیٰ کہ منکر و مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے۔ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی تھی۔ جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلا دی تھی جس کی قوت تاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالف تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا بالآخر نقد دل ہار بیٹھے گا۔
اس لیے کفار قریش نے نبی کریمؐ کی دعوت…
بھئی واہ کیا ووفلز ہیں، مدینہ کی آئسکریم کی یاد دلادی، ہمارے ہوٹل کی آئس کریم کے ساتھ ووفلز بھی ملتے تھے‘‘۔’’
کٹی پارٹی میں شریک ایک مہمان نے ووفلز کو اسٹرا بیری سیرپ میں ڈبوتے مدینہ کا نام لیتے بڑی عقیدت کے ساتھ ذائقہ کا ذکر کیا تو سب کے لیے گفتگو مقدس روپ دھار گئی۔
محفل میں شریک دس کی دس میں دین دار، دنیا دار تعلیم یافتہ اور سلجھی مانے جانے والی مختلف عمر اور شعبہ زندگی کی خواتین تھیں جنہوں نے ووفلز اور حرم کے ذکر پر دنیا، وبا اور نتیجتاً برپا صورتحال پر گفتگو شروع کردی۔ مکہ مدینہ کی غیر حاضری سب ہی کو آزردہ کیے دے رہی تھی،رب کعبہ اور نبی مدینہ کے روضہ مبارک پر عائد پاپندیوں پر غم ان کی آوازوں کے اتار چڑھاؤ پر طاری ہوتا لگنے لگا۔ فرشتے خدا کے ذکر کی اس محفل کو سکینت سے ڈھانپنے اتر آئے۔
یکایک بیگم ریشماں کرم الٰہی کا موبائل بج اٹھا۔قدیم جدید کا ملاپ اپنے آپ کو کہتیں نک سک سے تیار ریشماں ہوم شیف تھیں، ان کی انیس سو پینسٹھ کےمشہور فلمی نغمہ کی کال ٹیون ابھری تو یہ مداخلت فرشتوں اور انسانوں دونوں کو پسند نہ آئی۔ فضا سے تقدس ٹوٹااور ریشماں نےدھیمی…
حفصہ سلیمان ۔ بہالپور
س: آپی ، آپ نے کبھی مہم جوئی کی ہے ؟
ج: ایک دن امی گھر نہیں تھیں تو میں نے کھانا بنایا تھا ۔ پہلے میں سمجھی کہ کھانا بنانا مہم جوئی ہے ۔ پھر جب وہ کھانا کھایا ، تو معلوم ہوا ہے کہ اصل مہم جوئی تو یہ تھی۔
٭…٭…٭
عامر وسیم ۔ حسن ابدال
س:جنت میں جانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
ج: دوسروں کی زندگی کو جہنم بنانے سے گریز۔
٭…٭…٭
بلال زاہد ۔ کراچی
س: آپی ، لوڈ شیڈنگ نے زندگی عذاب بنا دی ہے ۔ اتنی شدید گرمی ہے کہ کچھ ڈھنگ سے سوچا بھی نہیں جاتا ان بجلی والوں کو خدا کا خوف نہیں ؟
ج: بالکل ہے ۔تبھی تو وہ ہمیں بھی قبر کا اندھیرا اورحشر کے دن کی گرمی یاد دلاتے رہتے ہیں۔
٭…٭…٭
ہادیہ انجم۔ سیالکوٹ
س: آپ کے خیال میں مہم جوئی کے کیا فائدے ہیں ؟
ج: مہم جوئی سے آپ کی صلاحیتوں کوجلا ملتی ہے ۔ آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ سوچ میں پختگی آتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ آپ ان صاحب جیسے مہم جو نہ ہوں۔
’’ ایک صاحب اپنے دوست کو بتا رہے تھے کہ انھوں نے دنیا کا ہر شہر دیکھ لیا ہے ۔ ہر…
میں آج بہت خوش تھی ،کل میرے اسکول میں فنکشن ہے جس میں مجھے امی کا کردار ادا کرنا ہے ،اسکول میں فائنل تیاری کے بعد بھی آج مجھے گھر میں اچھی طرح سے تیاری کرنی تھی۔ کیونکہ ٹیچر نے کہا تھا کہ امی کو اچھی طرح سے دیکھنا کیسے اٹھتی بیٹھتی ہیں ،کام کرتے وقت دوپٹہ کیسے لیتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
آج چھٹی تھی مگر اس کے باوجود میں صبح صبح ہی اٹھ گئی اور امی کے ساتھ ساتھ رہی سارا دن میں امی کو دیکھتی رہی کہ کیا کیا کام کس طرح کیا ۔رات کو اچانک یاد آیا کہ مجھے جو کپڑے کل پہننے ہیں اس کا تو دوپٹہ ہی نہیں آیا اب تک ، کیونکہ ابھی میں اتنی بڑی نہیں تھی کہ سب کپڑوں کے ساتھ دوپٹہ بنتے اکثر کے ساتھ تو میں اسکارف ہی لیتی تھی ،میں نے پریشان ہو کر امی کو کہا تو امی نے کہا ’’ کوئی بات نہیں ،تم یہ دوپٹہ لے لینا جو میں نے اوڑھا ہوا ہے ،یہ اچھا میچ ہو جائے گا۔‘‘
’’ یہ دوپٹہ!…‘‘میں ایک دم پریشان ہو گئی ۔
’’ کیوں ،کیا ہوا‘‘ ؟امی نے پوچھا تو میں نے کہا ۔
’’ نہیں کچھ نہیں ، بس میں سونے جارہی…
عزیزنوری ساتھیو، السلام علیکم!
پھروہی ہم ہیں اورپھروہی دسمبرکامہینہ۔ہماری زندگی کاایک اورسال گزرگیا ۔ دسمبرکےمختصرسےدن ہمیں یاددلاتےہیں کہ زندگی بھی اتنی ہی مختصرہے۔مگرکیاہےکہ ہم ا تنے بھلکڑ ہیں کہ دنیامیں لگ کربھول بھی جاتےہیں۔
کہتےہیں کہ وقت سوناہے۔لیکن حقیقت یہ ہےکہ یہ سونےسےبھی مہنگاہے۔ سونا تو اگرہاتھ سےنکل جائےتودوبارہ بھی حاصل کیاجاسکتاہےمگروقت دوبارہ لوٹ کرنہیں آتا۔کسی شاعرنےکس حسرت سےکہاہےکہ
جب آجاتی ہے دنیا گھوم کر پھر اپنے مرکز پر
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے
مگراب کف افسوس ملنےسےکیاحاصل؟ہمارےپیارےنبیﷺنےجہاں زندگی کےہرپہلوپرہماری راہنمائی کی ہے،وہاں وقت کی قدرکاکتنےخوب صورت طریقے سےاحساس دلایا۔آپ ﷺنےفرمایاکہ دوچیزوں کےمتعلق انسان دھوکےمیں پڑارہتاہے۔
آپﷺنےبڑی پیاری نصیحت فرمائی کہ غنیمت جانوجوانی کو بڑ ھا پے سے پہلے ، صحت کوبیماری سےپہلے،تونگری کوغریبی سےپہلے،فرصت کومشغولیت سےپہلے،اورزندگی کوموت سےپہلے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنی جوانی،صحت،فراغت،امارت اورزندگی سےفائدہ اٹھانےکی توفیق دےاورہمیں اپنےوقت کوبہترین منصوبہ بندی سےگزارنےکی سمجھ دے۔آمین۔
والسلام
آپ کی باجی
٭…٭…٭
٭ ایک خاتون نے اپنی کار سے ایک شخص کو ٹکر مار دی ۔ زخمی راہ گیر نیچے پڑا کراہ رہا تھا اور خاتون مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ غلطی سر اسر اسی کی ہے ۔ ’’ تم بڑی بے احتیاطی سے سڑک پر چل رہے تھے۔ میں ایک تجربہ کار ڈرائیور ہوں اور گزشتہ بیس سال سے کار چلا رہی ہوں ۔‘‘
زخمی نے کہا : ’’ خاتون ! میں گزشتہ بیالیس سال سے پیدل چل رہا ہوں ۔ ‘‘
(عائشہ بشیر ۔ ہری پوری)
٭ استاد:’’ حامد تمام مضامین میں تمھارے اچھے نمبر ہیں پھر فزکس میں کیوں فیل ہو ؟‘‘
حامد:’’ جناب! میں فزیکلی کمزور ہوں ۔‘‘
(فہد نصیر ۔ راولپنڈی)
٭ ایک شخص نے فقیر سے پوچھا : ’’ اگر میں تمھارے ہاتھ میں سو کا نوٹ دوں تو تم کیا کرو گے ؟‘‘
فقیر:’’ میں فوراً دوسرا ہاتھ آگے کردوں گا ۔‘‘
(حمزہ مبارک ۔ واہ کینٹ)
٭ ایک صاحب تجریدی آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے ۔ اگلے دن ان کے دوست نے پوچھا: تجریدی آرٹ کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں ؟‘‘انہوں نے جواب دیا :’’ اپنی طویل زندگی میں میں صرف یہ سمجھ سکا ہوں کہ ہر شے کو سمجھنا ضروری نہیں ۔‘‘
(سنعیہ صہیب۔ اسلام…
گرمیوں کی ایک دوپہر، عمر کے ساتھ عجب واقعہ پیش آیا ۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹا کتابیں پڑھ رہا تھا ۔ کمرہ روشن اورآرام دہ تھا، تھوڑی ہی دیر میں اس پرغنودگی طاری ہونے لگی اور وہ خواب دیکھنے لگا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کا کمرہ بدل گیا ہے۔ اسے لگا جیسے یہ چوروں کے گھر کا کمرہ ہے۔ اسے فہیم بھی نظر آیا وہ اپناچہرہ،عمر کے چہرے کے نزدیک لایااوراسے بغوردیکھتے ہوئے کسی سے کہا:
’’ ہاں ! وہی ہے ، مجھے یقین ہے یہ وہی ہے ۔‘‘
’’ ہاں یقینا وہی ہے ۔ میں اسے کہیں بھی دیکھوں گا توپہچان لوں گا ۔ مجھے اس سے نفرت ہے ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔
آخری الفاظ بہت بلند آواز سے کہے گئے تھے ۔ عمر کی آنکھ کھل گئی، ساتھ ہی اس کی خوف سے جان نکل گئی۔ اس کو دو بدہئیت چہرے کھڑکی میں نظرآئے جو اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک فہیم تھا ۔ دوسرا شخص وہی تھا جس سے ڈاک خانے کے سامنے اس کی ٹکر ہوئی تھی ۔ عمر کو اس شخص کا نام معلوم نہیں تھا ، وہ منصورتھا۔
عمر اچھل کھڑا ہوا اورمدد کے لیے پکارنے لگا ۔ وہ سخت خوف…
نیلم پری خوشی خوشی پرستان کی طرف لوٹ آئی تھی ۔ وہ کئی بار دنیا کی سیر کو آ چکی تھی ۔ ہر بار وہ ملکہ عالیہ کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتی ۔ پرستان کی دوسری پریوں کو بھی اشتیاق ہوتا کہ دیکھیں اس بار نیلم پری انسانوں کی بستی سے کیا تحفہ لائے گی ۔اُس کی بھی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ ایسا کچھ لائے کہ سب عش عش کر اٹھیں۔اب کی بار قدرت اس پر مہر بان تھی ۔ جب پرستان سے اڑا کر وہ دنیا میں پہنچی تو عجب منظر دیکھا ۔ آب و ہوا صا ف تھی ۔ گاڑیوں کا دھواں ، لوگوں کا ہجوم ، شور شرابہ ، افرا تفری ، غل غپاڑہ کچھ نہ تھا ۔
’’ میں کسی اور سیارے میں تو نہیں پہنچ گئی ؟‘‘وہ خود سے ہم کلام تھی۔
رات ہو گئی تھی ۔ واپسی کا امکان نہ تھا ۔ دوسرے ملکہ عالیہ کے لیے کوئی تحفہ بھی نہ لیا جا سکا تھا ۔ چنانچہ نیلم پری نے ایک گھنے درخت پر رات گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ ابھی پوری طرح نیند کی وادی میں نہیں اُتری تھی کہ اُلو کے پھڑپھڑانے کی آواز سے آنکھ کھل گئی ۔ اُلو…
آیا اماں کے رم جھم لاج سے جانے کے بعد اگلی صبح دادی جان اور آسیہ بیگم نے ناشتہ بنایا۔ جویریہ اور جنید نے میز پر برتن لگائے[ مومو نے آیا اماں کے باقی کام سنبھالے ۔ آمنہ اور ابراہیم دونوںناشتہ میز پر لگ جانے کے بعد آئے ؎دادی جان کی تیز نگاہوں سے ابراہیم کی پریشانی چھپی نہ رہ سکی ۔
’’ اسکول سے واپسی پر ہم اکیلے میں اس سے پوچھیں گے کہ آخر دو تین دن سے یہ اتنا خاموش کیوںہے ۔ کوئی بات تو ضرور ہے ۔‘‘ انہوں نے سوچا۔
’’ ابراہیم اور جنید ! تم لوگوں کے اسکول کی چھٹی دیر سے ہوتی ہے اس لیے تم تو آمنہ کا ڈرامہ دیکھنے نہیں جا سکتے مگر باقی ہم سب دوپہر کے کھانے کے بعد ڈرامہ دیکھنے جائیں گے۔ ٹھیک ہے نا ہارون؟‘‘ آسیہ بیگم نے اپنے شوہر سے دریافت کیا۔
’’ نہیں ، میںنہیں جائوں گا ۔ باقی لوگ چلے جائیں۔‘‘ ڈاکٹر ہارون نے اخبار کے پیچھے سے جواب دیا۔
مومو نے آمنہ کو کہنی ماری اور سر گوشی میں کہا:
’’ آمنہ باجی! ابا کو ڈرامے پر آنے کے لیے کہو۔‘‘
مگر آمنہ نے اس کی بات سنی ان سنی کردی۔ وہ دوسروں کو معاف کرنا نہیں جانتی تھی، خواہ…
ٹک ۔ٹک۔ٹک۔ السلام علیکم ۔ میٹر بینڈ ۷۸۶ پر ہم ریڈیو نورستان سے بول رہے ہیں ۔ صبح کے چھ بجا چاہتے ہیں ۔ آئیے اپنی آج کی مجلس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کرتے ہیں ۔ تلاوت و ترجمہ کے لیے تشریف لاتے ہیں قاری عبد الرحمن ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ یُوْ حٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌج فَمَنْ کَا نَ یَرْجُوْ ا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَا لِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَا دَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۔
ترجمہ: ( اے نبیؐ) کہہ دیجیے ، میں تو بس تمھاری ہی طرح بشر ہوں ۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا الٰہ صرف ایک الٰہ ہے۔ پھر جو شخص کہ اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو وہ عمل کرے ، نیک عمل اور اپنے رب کی عباد ت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے۔( الکہف۔۱۱۰)
٭…٭…٭
یہ ریڈیو نورستان ہے ۔ اب آپ عبد اللہ سے احادیث مبارکہ سنیئے۔
٭ حضرت جبیرؓ بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میرے کئی نام ہیں ۔ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوںاور میں ماحی ہوں ( یعنی مٹا دینے والا ) اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دے گا اور میں…
’’ نفس پر چھری پھیریئے ‘‘ میں نے ابھی یہ موضوع ڈا لا ہی تھا کہ سارا نے پڑھ کر سوال داغ دیا – ’’امی اس کا کیا مطلب ہے ؟‘‘ قربانی کا موسم بہار ہے۔سجے سجا ئے بکرے مینڈے اور چھن چھن کرتی اور مٹک مٹک کر چلتی گائیں مو تیوں کے ہار پہنائے ہوئے اور خوبصورت بیل بچوں کے تو جیسے مزے ہی ہوگئے۔ ان پیارے پیارے جانوروں کی وجہ سے بچے تو اس قدر خوش ہیں کہ گھر میں رہنا مشکل ہے ۔ محلے کی گلیو ں کی رونقیں بڑھ گئی ہیں …بچے اپنے ہاتھوں سے گھاس اور پتے کھلا رہے ہیں خوب خدمت ہو رہی ہے مگر یہی جانور جب ان کے سامنے ذبح کئے جائیں گے، تو سب بچے یا رو رہے ہوں گے یا بے حد اداس…بڑی ہی بے لوث سی محبت ہے ان معصوم بچوں کو ان جانوروں سے…اور کتنے معصوم ہیں یہ جانور بھی کہ جنہیں خبر ہی نہیں ہے کہ ان کی خدمت یا ان سے اتنا پیار کس وجہ سے ہو رہا ہے۔
مگر اللہ کو پسند تو ایسی ہی قربانی ہے کہ جس سے پیار ہو جائے ۔
’’ امی آپ تو قربانی کے جانوروں کی کہانی لے کر بیٹھ گئیں…
جگنو کی مشکل
جگنو کی اک دن لڑائی ہوئی
پتنگے کی بے حد پٹائی ہوئی
جہاں جائوں پیچھے چلا آئے یہ
جو بیٹھوں تو بھن بھن مچائے ہے یہ
یہ چکر پر چکر لگاتا رہے
بھگائوں پر مجھ کو بھگاتا رہے
میں کھائوں میں کھیلوں میں جائوں جہاں
چلا پیچھے پیچھے یہ آئے وہاں
سنا یہ جو مچھر نے ہنسنے لگا
آسان حل ہے سنو باخدا
لے جائو اس کو جہاں ہے سڑک
پھر اس کے برابر سے جانا کھسک
بجلی کا کھمبا کھڑا پائے گا
پھر گرد اس کے مزے سے یہ منڈلائے گا
٭…٭…٭
پرچم
پرچم اپنا سبز ہلالی
رتبہ اس کا سب سے عالی
نصرت ، شان اور شوکت والا
اس کا پھریرا رفعت والا
اُجلی اُجلی اس کی رنگت
بن گیا یہ ہر گھر کی زینت
سب سے بڑھ کر اس کی عظمت
ہر دل میں ہے اس کی عزت
پاک وطن کا یہ رکھوالا
خوشیوں کی یہ بخشے مالا
جگ میں اس کا بول ہو بالا
جلنے والے کا منہ کالا
اونچا اسے اڑائیں ہم
آگے بڑھتے جائیں ہم
٭…٭…٭
واہ مز ا آگیا
شاخ پر جب لگے
سبز ڈوڈے تھے یہ
سبز چادر لیے
ان میں دانے بنے
شکل چوکور سی
اور کچھ گول بھی
اِک طرف نوک تھی
پودے ہلتے تھے جب
ایسے لگتا تھا تب
کان میں بالیاں
پہنے ہیں ڈالیاں
یا کہ پہنے ہوں ہار
گول اور نوک دار
جیسے دلہن کوئی
کھیت میں ہو کھڑی
نرم کھانے میں تھے
پیارے لگتے تھے یہ
جب ذرا پک گئے
بولے بچے بڑے
ہر طرف شور اٹھا
چھو لیا آگیا
چھو لیا آگیا
ہنڈیا پکنے لگی
کیا مزے دار تھی
شوربا تھا کہ یا
یخنی تھی مرغ کی
چاولوں میں چنے
ڈال کر جب پکے
سارے چھوٹے بڑے
چاٹتے رہ گئے
انگلیاں وہ سبھی
واہ! کیا بات تھی
کھیت کٹنے کا اب
آگیا دور جب
حسن گہنا گیا
زرد رنگ چھا گیا
حسن فانی تھا ، یاں
مان کس چیز کا
ذائقے دار وہ
چھولیا نہ رہا
کچا کھانے کا اب
وہ مزا نہ رہا
نرمی جانے کہاں
چل دی منے میاں
اب تو کالے چنے
سخت جاں ہو گئے
پھر سنیں ماجرا
قلب حیران تھا
ان کو کوٹا گیا
خول توڑا گیا
یہ تھے کالے سیاہ
جیسے حبشی سپاہ
پہنے کالا لباس
ہو کھڑی شہ کے پاس
گھر میں لائو میاں
بھر کے کئی بوریاں
سن مری بات آج
یہ تو ہے اِک اناج
ان کے اندر چھپے
کتنے ہی فائدے
رب نے کی ہے عطا
ان کو طاقت سوا
یہ ہیں کالے چنے
پکنے والے چنے
چاہے سالن بنائو
یا بنا لو پلائو
یہ چنے تھے جنہیں
چکی کے پاٹ میں
ڈال کر جب دلا
خوب رگڑا لگا
بھر گیا ان سے ٹب
رنگ تھا زرد تب
دال بننے…
حمد
اللہ سب کا مالک ہے
رازق ہے اور خالق ہے
ارض و سما ہیں سارے اُس کے
سورج چاند ستارے اُس کے
وہی تو سب کا والی ہے
باغ کا وہ ہی مالی ہے
بارش وہ برساتا ہے
ہوا بھی وہ ہی چلاتا ہے
بیماری دے، شفا بھی دے
کبھی نہ چھوڑے ،ندا بھی دے
اُس نے ہی انسان بنائے
دنیا میں حیوان بنائے
رستہ بھی دکھلایا اُس نے
قرآں بھی پہنچایا اُس نے
اللہ کو ہے ہم سے پیار
اللہ ہے بس پیار ہی پیار
اس کے حکم کو جانیں ہم
عمل سے اپنے مانیں ہم
حکموں کو آگے پہنچائیں
قرآں سے دنیا پر چھائیں
اللہ کی تکبیر پڑھیں ہم
سنت کی تقلید کریں ہم
اللہ ہم سے راضی ہوگا
اللہ ہی بس کافی ہوگا
٭…٭…٭
بیت بازی
اقبال سے اقبال بھی آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میںہیں یہ مردوں کی شمشیریں
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا ، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا ، تو غریب
بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر
فریاد کی تصویر ہے قرطاسِ فضا پر
رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشان کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
نواپیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
٭…٭…٭
یہ پرچم پاکستان کا ہے
یہ سبز ہلالی پرچم ہے
اس پر اِک چاند اور تارا ہے
ہے عزت اس کی ہر دل میں
یہ جان و دل سے پیارا ہے
نشاں یہ ہمارے ایمان کا ہے
یہ پرچم پاکستان کا ہے
اس کی خاطر ہم نے لاکھوں
قربان کئے بچے بوڑھے
بہنوں کی عصمت ،ماں کا خوں
وارے اس پرچم پر ہم نے
گواہ عہد و پیمان کا ہے
یہ پرچم پاکستان کا ہے
اب ڈال کے آنکھوں میں آنکھیں
ہم دشمن کو للکاریں گے
اس کی جانب جو ہاتھ بڑھے
ہم اُس کو مل کر کاٹیں گے
رشتہ یہ جسم و جان کا ہے
یہ پرچم پاکستان کا ہے
کر کے اونچا اسے فلک تلک
ہم دنیا کو دکھلائیں گے
اُتنی ہی شان بڑھے گی پھر
جتنا اونچا لہرائیں گے
استعارہ امن و امان کا ہے
یہ پرچم پاکستان کا ہے
گر چاہتے ہو زندہ رہنا
دنیا میں پائندہ رہنا
اس پرچم کے رکھوالے بنو
ایمان کے تم متوالے بنو
پرچم اس کا سائباں سا ہے
یہ پرچم پاکستان کا ہے
یہ پاکستان ہمارا ہے
ہمیں اس کا پرچم پیارا ہے
اس پر جو چاند ستارا ہے
وہ سب کی آنکھوں کا تارا ہے
یہ تارا آسمان کا ہے
یہ پرچم پاکستان کا ہے
٭…٭…٭
ہائے کرونا
یہ کرونا، وہ کرونا
تنگ آگئے ہم ،ہائے کرونا
گھر کے در اب بند ہوگئے ہیں
اندر رہ کر تنگ ہوگئے ہیں
ابو، آپی، بھیا ارقم
گم ہوگئے موبائل میں ہر دم
اس کا چارجر ،اس کا چارجر
چوبیس گھنٹے چلتا چارجر
امی بھی بیزار کھڑی ہیں
تھامے ہینگر ڈانٹ رہی ہیں
آن لائن کی دھوم مچی ہے
نیٹ والوں کی لوٹ مچی ہے
بستر سے صوفے پر جائیں
صوفے سے گدے پر آئیں
تھک گئے اب ہم گھر پر رہ کر
سوکر ، اٹھ کر ، اٹھ کر، سوکر
رب کو اب ہم خوب منائیں
خیر کے دن اب لوٹ بھی آئیں
٭…٭…٭
’’ چوہدری صاحب آپ نے لائبہ بیٹی کے بارے میں کیا سوچا ہے ۔‘‘ بیگم رابعہ نے چوہدری نثار کو مخاطب کر کے فکر مندی سے پوچھا۔ چوہدری صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔
’’کیوں ؟ کیا ہوا ہے میری بیٹی کو جو میں اس کے بارے میں سوچوں؟‘‘ بیگم رابعہ نے سر جھکا کر کہا :
’’ اس مرتبہ بھی وہ پانچویںجماعت میں فیل ہو گئی ہے ۔ اگر اس کی عمر کا حساب کریں تو خیر سے اسے آٹھویں جماعت میں ہونا چاہیے تھا مگر وہ ابھی تک پرائمری جماعت کی جان ہی نہیں چھوڑ رہی ۔‘‘چوہدری صاحب نے ہنس کر کہا :
’’ وہ جان نہیں چھوڑ رہی تو جماعت بھی تو اس کی جان نہیں چھوڑ رہی ۔‘‘ بیگم رابعہ نے برا مان کر کہا :
’’آپ اس بات کو مذاق میں نہ ٹالیں اسے میں اپنی طرح بد قسمت نہیں بننے دوں گی ۔‘‘ چوہدری صاحب کو غصہ آگیا:
’’ تم کیسے اپنے آپ کو بد قسمت کہتی ہو؟ حویلی میں رہتی ہو ،گائوں کی چوہدرائن کہلاتی ہو، ہر کام کے لیے دو دو تین تین ملازم ہیں۔تمھاری بہن کی ڈاکٹرانی ہو کر بھی شہر میں اتنی عزت نہیں جتنی گائوں میں تمھاری عزت ہے۔ باقی اپنی بیٹی…
’’علی کوریڈور سے گزر رہا تھا اور اْس کے ہاتھ میں مزیدار چاکلیٹ کا کاغذ تھا۔ سچ بتاؤں تو میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ سوچا کہ وہ ابھی آئے گا اور میرا منہ کھول کر ریپر اندر ڈال دے گا مگر یہ کیا اْس نے وہ کاغذ ہوا میں اچھال دیا اور یہ جا وہ جا ۔وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ مزید یہ کہ اْس نے پیچھے مڑ کر میرا رال ٹپکاتا چہرہ بھی نہ دیکھا۔ افساس صدا افسوس!!!”
’’اچانک میری نظر دور کینٹین سے نکلتے عادل پر پڑی۔ وہ شوارمے کا کاغذ اْتار رہا تھا۔ اْمید کی ایک کرن جاگی… شاید آج یہ ہی میرے دن کا پہلا نوالہ بن جائے۔ مگر شاید اْس کا راستہ بھی میری اْمیدوں کی طرح طویل ہو چکا تھا۔‘‘
’’اللہ اللہ کر کے اْس نے اپنے قدم میری طرف بڑھائے مگر یہ کیا…اْس نے وہ کاغذ بجائے میرے حوالے کرنے کے، میرے برابر میں پھینک دیا۔ اْ سے کوسنے کودل چاہا مگر صرف یہ سوچ کر جانے دیا کہ شاید وہ میرے موٹے سے پیٹ کو نہیں پہچانتا ہو۔‘‘
’’ اب مجھے بہت شدّت سے بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔ میدان سے گزرتے ہر بچے پر میری نظر تھی۔ آج میں…
کتاب کا نام: پیارے بالاں دا پیارا رسول
مصنفہ :ڈاکٹر فضیلت بانو
ناشر :یو ۔ ایم پبلی کیشنز
قیمت :200/-روپے
رابطہ برائے خریداری:03167330163-،03086621245
ڈاکٹر فضیلت بانو کا نام بچوں کے لیے اجنبی نہیں ، خصوصاً ان بچوں کے لیے جو ماہنامہ بقعۂ نور کے ساتھ ساتھ ماہنامہ پھول بھی پڑھتے ہیں جس میں ڈاکٹر فضیلت باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی اردو کہانیوں کی ایک کتاب ’’ مہکتے پھول‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے ۔
ڈاکٹر فضیلت اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی لکھتی ہیں ۔ پنجابی رسالے ماہنامہ ’’لہراں‘‘میں انھوں نے بچوں کے لیے سیرت ِ رسولؐ سلسلہ وار لکھی تھی جو اب ’’ پیارے بالاں دا پیارا رسولؐ ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے ۔ اس کتاب میں سادہ اور آسان پنجابی زبان میں حضرت محمدؐ کی پیدائش سے کچھ پہلے کے واقعات سے لے کر انؐ کی وفات تک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں اور نبی ؐ کی سیرت کی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ زبان اتنی آسان ہے کہ اردو پڑھنے والے بچے بھی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
شکر کی عادت
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گائوں میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام عدنان تھا ۔ عدنان ایک اچھا انسان تھا ۔ اس کی ایک بیوی اور پانچ بچے تھے۔ وہ کافی خوشخال تھا اور اچھی زندگی بسر کر رہا تھا ۔ وہ کھیتی باڑی کرتا تھا اور خوب منافع کماتا تھا ۔ اس کا ایک چھوٹا سا کاروبار تھا۔ پھر ہوا یوں کہ اسے کاروبار میں خاصا نقصان ہوا اور اس کا سارا سرمایہ ڈوب گیا یہ غم تو ابھی کم تھا کہ اس کے دوچھوٹے بچے بخار میں مبتلا ہو گئے اور انتقال کرگئے ۔اسے ایسا صدمہ پہنچا کہ وہ ہر جگہ اپنی بد قسمتی کے رونے روتا تھا ۔ وہ بہت نا شکرا ہو گیا تھا، لوگ اسے سمجھاتے کہ یہ گناہ ہے مگر وہ باز نہ آیا ۔قسمت میں اورآزمائش لکھی تھی ۔ گندم کی فصل کو کاٹنے کے دن آنے والے تھے کہ اس کے ہمسائے کی توڑی میں آگ لگ گئی جو اس کی فصل تک جا پہنچی اور ساری فصل جل گئی ۔ وہ اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے مزید نا شکرا ہو گیا ۔ لوگ اُسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے۔ پر وہ بے عقل…
گرمی کی چھٹیاں
محمد یوسف ملک ۔ کراچی
علی، سعد ، حارث اور شہزاد بہت خوش تھے ۔ گرمی کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور کل وہ لاہور اپنے چچا کے گھر جا رہے تھے جہاں ان کے چچا زاد بھائی حامد اور عبد اللہ بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ کراچی سے لاہور بہ ذریعہ ٹرین جانے کا سوچ کر ہی وہ بہت پر جوش ہو رہے تھے۔
وہ وقت پر اسٹیشن پہنچ گئے ۔چھٹیوں کی وجہ سے کافی رش تھا ۔ جیسے ہی گاڑی پلیٹ فارم پر لگی ، ایک ہڑ بونگ مچ گئی۔
’’ جلدی کرو۔ سامان ڈبے میں رکھو۔‘‘ علی نے حارث سے کہا۔انھوں نے جلدی جلدی سامان اپنے کوپے میں رکھا ۔ یہ پورا کوپا ان ہی کا تھا ۔ سامان ترتیب سے رکھ کر وہ آرام سے بیٹھ گئے ۔ امی ابو تو سو گئے ۔ سعد موبائل گیم کھیلنے لگا ۔ علی اونگھ رہا تھا ۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔
’’ کون ہے ؟‘‘ شہزاد نے نعرہ لگایا۔
علی ہڑ بڑا کر اٹھ گیا اور غصے سے بولا:
’’ ارے بھائی ، جا کر دیکھ لو ۔ یہ کوئی اپنا گھر تو ہے نہیں ۔‘‘ شہزاد نے دروازہ کھولا سامنے ٹکٹ چیکرتھا۔…
حضرت محمد ؐکے دادا عبدالمطلب کے زمانے میں واقعہ فیل کا بہت چرچا ہوا۔ فیل عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہاتھی ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ ’’ابرہہ‘‘ ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ’’ابرہہ‘‘ نے یمن کے دارالسلطنت ’’صنعاء ‘‘میں ایک بہت ہی شاندار اور عالی شان ’’گرجاگھر‘‘ بنایا اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے، یمن آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں۔
جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ ’’کنانہ‘‘ کا ایک شخص غیظ و غضب میں جل بھن کر یمن گیا،اور وہاں کے گرجا گھر میں پاخانہ کرکے اس کو نجاست سے لت پت کر دیا۔ جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو وہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کر دیا۔ اور اس کی فوج کے اگلے دستہ نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا۔ اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی…
انیس ، احد، مسعود اور امین اسکول کے میدان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
’’ یار ! یہ عبد اللہ آج کل مستقیم کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں بیٹھنے لگا ۔‘‘ امین نے کہا ۔
’’ ہاں یار ! دونوں کی پکی دوستی ہو گئی ہے ۔‘‘احد بولا۔
’’ عبد اللہ ہی ہر وقت مستقیم کے پیچھے پڑا رہتا تھا ۔بہانے بہانے سے اُس سے باتیں کرتا اور اُس کے آس پاس منڈلاتا رہتا تھا۔‘‘انیس نے منہ بنایا۔
’’ میرا خیال ہے کہ عبد اللہ نے اُس سے دوستی اُس کی دولت اور امارت دیکھ کر کی ہے۔‘‘مسعود نے کہا۔
’’ ہاں یقینا یہی بات ہو گی ۔‘‘ امین فوراً بولا۔
’’ لیکن میرا یہ خیال نہیں ۔‘‘ احد نے کہا۔
’’ مستقیم مذہب سے بے حد لگائو رکھتا ہے ، پانچ وقت کا نمازی ہے ، سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔عبد اللہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، وہ دین والوں کی صحبت میں رہنا پسند کرتا ہے ، ممکن ہے اُس نے مستقیم سے دوستی اُس کا پیسہ اور امیری دیکھ کر نہ کی ہو ، بلکہ دین کی خاطر کی ہو ۔‘‘
’’ تم چپ رہو!‘‘ مسعود نے احد کو ڈانٹ کر کہا :’’ جیسا میں کہہ رہا ہوں ،…
’’جرسی تو بہت پیاری ہے تمہاری۔‘‘ارمغان نے تعریفی نظروں سے باقر کی نئی جرسی کو دیکھا۔
’’لیکن مجھے یہ پسند نہیں ۔آج سردی زیادہ تھی اسی لیے مجبورا ًپہن کر آنا پڑی۔‘‘باقر نے فورا ًاپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
’’کیوں۔؟‘‘ارمغان اس کی بات سن کر حیران ہوا۔
’’یہ جرسی میری امی نے بازار کی ایک چھوٹی سی دکان سے خریدکر لائی ہیں۔کم قیمت اور بدصورت۔مجھے تو شیرازکی جرسی اچھی لگی تھی،لیکن امی کہتی ہیںکہ ویسی جرسی بہت مہنگی ہے‘‘ باقر نے وجہ بیان کی۔شیراز ان کا کلاس فیلو تھا اور اس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔
’’باقر یار،کبھی تو اللہ پاک کا شکر ادا کر لیا کرو۔ہر وقت نا شکرا پن کرتے ہو۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہمارے درمیان ہیں جنھیں ایسی جرسی بھی نصیب نہیں‘‘ ارمغان خفگی سے بولا۔پھر اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا ۔’’ ذرا اپنے پیچھے دیکھو‘‘!
باقر نے گردن گھمائی۔پچھلے ڈیسک پر کاشف آج بھی وہی چار سال پرانی جرسی پہنے بیٹھا تھا۔جرسی کا رنگ جگہ جگہ سے اڑ گیا تھا اور بازو بھی چھوٹے ہوچکے تھے۔کاشف کا تعلق ایک نہایت غریب خاندان سے تھا۔اس کا حلیہ ہمیشہ خستہ ہی ہوتا تھا۔
باقر نے ایک نظر کاشف پر ڈالی اور ارمغان کی طرف دیکھ کر ’’ہونہہ’’ کہا اور منہ بنا…
یہ داستان میری حیات زندگی پر مشتمل نہیں ہے۔یہ میرے بھائی سلمان کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ ویسے ہی جیسے مصطفی زید ی نے اپنے بھائی مجتبیٰ زیدی کی وفات پر نوحہ لکھا تھا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جنا ح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے بھی اپنے بھائی کے حوالے سے کتاب لکھی تھی۔مجھے اورسلمان کو بھی اتفاق سے بہت سی وجوہات کی بنا ء پر قائداعظم اور فاطمہ جناح کے القاب سے پکارا جاتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے احساسات وجذبات کو بیان کرنے اور اپنے بھائی کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیےاس روداد کو بیان کر رہی ہوں کہ ایک بھائی اور بہن کی محبت ہمیشہ سے لازوال رہی ہے۔اس کو پڑھ کر بہت سارے لوگوں کو نہ صرف حب الوطنی کا احساس ہوگا بلکہ یہ بھی معلوم ہوگا کہ وطن کے لیے قربان ہونے والے کیسے انمول ہوتے ہیں جو کہ سب کچھ اپنے مادروطن کے لیے لٹا دیتے ہیں۔یہ زندگی ایک بار ملتی ہے،اس میں انسان کو اتنا کچھ کرکے رخصت ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں،یادوں میں ہمیشہ بسا رہے۔اُس کا کردار اتنا مضبوط ہو کہ وہ دوسروں کے لیے ایک مثال بن سکے۔’’ میں…
دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے، ایک دن عجیب بات ہوئی۔ پادری نے محمد سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ مسجد میں جانا چاہتا ہے اور مسلمانوں کی عبادت کا طریقہ دیکھنا چاہتا ہے۔چنانچہ محمد المصری اسے اپنے ساتھ مسجد لے گیا۔
جب وہ دونوں واپس آئے تو اسکپ نے سرسری انداز میں پادری سے مسجد کے متعلق پوچھا؛ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ مسلمان مسجد میں جانور ذبح کرتے ہیں، بم بناتے ہیں، شور شرابا ، نعرہ بازی وغیرہ کرتے ہیں، جب پادری نے کہا:
’’مسلمان وہاں کچھ بھی نہیں کرتے، وہ مسجد میں جاتے ہیں،نماز کے لیے صفیں بنا لیتے ہیں اور الله اکبر کہہ کر خاموش کھڑے رہتے ہیں، پھر رکوع کرتے ہیں، دو سجدے کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرتے، اسی طرح نماز پڑھتے ہیں اور آخر میں سلام پھیر کر نمازمکمل کرتے اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
اسکپ نے حیران ہو کر کہا: ’’چلے جاتے ہیں؟ تقریر کرنے اور گانے بجانے کے بغیر؟ ‘‘
پادری نے کہا’’: ہاں! ‘‘
اسکپ اپنے چرچ کا میوزک ماسٹر تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عبادت گانے بجانے کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔
اسلام اور اس کی تعلیمات میںا سکپ کی…
عید کا دن ہے ہر طرف گہما گہمی ہے۔چھوٹے بڑے سب خوش نظر آ رہے ہیں۔ بچوں نے رنگ برنگے کپڑے پہن رکھے ہیں اور وہ بازاروں میں گھوم پھر کےعید کا لطف اٹھا رہے ہیں۔بازاروں میں جگہ جگہ دکانیں سجی ہوئی ہیں لوگ ان دکانوں سے مختلف اشیاخریدنے میں مصروف ہیں۔سب اپنے آپ میں مگن ہیں۔لیکن ایک گھر ایسا بھی ہے جہاں کوئی نہیں ہے۔در و دیوار پہ سناٹا چھایا ہوا ہے۔ایک چھوٹا بچہ حسرت و یاس کی تصویر بنا گھر کے باہر دروازے پہ کھڑا ہر آنے جانے والے کو امید بھری نگاہوں سے تکے جا رہا ہے۔اس کے بدن پہ پھٹے پرانے کپڑے ہیں۔پائوں ننگے ہیں اور جیب خالی۔بچوں کو نئے نئے کپڑے پہنے دیکھ کے اس کا دل کڑھتا ہےکہ یہ سب کچھ اس کے پاس کیوں نہیں ہے؟کیا عید کی خوشیاں صرف ان بچوں کے لیے ہی ہیں؟ پھر وہ سوچتا ہے کہ مجھے یہ چیزیں کون لے کر دے گا؟میرا اس دنیا میں کون ہے؟میں تو بالکل اکیلا ہوں۔ میرے والدین تو فوت ہو چکے ہیں۔ دوسرے بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ دیکھ کر اس کے معصوم ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ مجھے پیار کیوں نہیں کرتے؟کیا میں ان کے…
حمد باری تعالیٰ
میرے خدا کا سارا جہاں ہے
اس کی زمیں اُس کا ہی آسماں ہے
کاری گری سے قدرت عیاںہے
فن میں ہے یکتا ،ثانی کہاں ہے
ہر اک طرح کے موسم بنائے
سارے چمن پھول، پھل سے سجائے
شمس و قمر میں اُس کی ضیا ہے
ہر اک ستارا روشن دِیا ہے
ممکن نہیں مالک کو بھلا نا
اس کا اشارہ دم آنا جانا
نامِ خدا کو ہر دم پکارو
تم آخرت کو اپنی سنوارو
(ظفر محمود ؔ انجم)
نوری ساتھیو!
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
مارچ کامہینہ آگیاہے۔موسم بدل گیاہے۔دن بڑےہوگئےہیں۔یہ وہ بہترین وقت ہوتاہےجب ہم دل جمعی،مستعدی اورخوشی سےاپنےکام نمٹاسکتےہیں،اگرہم چاہیں۔جی ہاں ، اگرہم چاہیں۔ہم میں سےکچھ لوگ ہیں جنھیں کام ٹالتےرہنےکی عادت ہے۔کچھ سست اورکاہل ہیں۔کچھ خوش گمان کہ جب اٹھیں گےفٹافٹ کام ہوجائے گااورکچھ عدم اعتماد کاشکارکہ نہ جانےیہ کام کربھی پائیں گےیانہیں؟
یہ سب رویےغلط ہیں۔آپ کوخودپراعتمادہوناچاہیےمگراتنابھی نہیں کہ مناسب منصوبہ بندی اوروقت کالحاظ ہی نہ رکھیں۔وقت کی اہميت کوسمجھیں۔سستی دوربھگائیں۔اپنےاہداف مقرر کریںاور ان کےحصول کےلیےکوشش کریں۔قرآن میں ارشاد ہے لیس للانسان الا ماسعی۔ انسان کےلیےوہی ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی۔
کچھ کام شروع کرنے سے پہلے مشکل معلوم ہوتے ہیں چنانچہ ہم انھیں شروع کرتے ہوئے گھبراتے ہیں مگر اس سے کیا ہوتا ہے ؟کیا کام خود بخود ہو جاتا ہے ؟ نہیں، بلکہ ہم نقصان اٹھاتے ہیں یا محروم رہ جاتے ہیں۔ہمت کیجیے اور کام شروع کیجیے۔ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، جب انسان ہمت اور ارادہ کر کے شروع کردیتا ہے تو راہیں خود بخود نکلتی چلی آتی ہیں۔
ایسے ہی ایک مشکل کام کا بیڑا قائد اعظم نے اٹھایا تھا۔ ان کی ان تھک محنت اور پر خلوص قیادت نے بالآخر تمام دشوار راہیں ہموار کر دیں اور 23مارچ 1940کو…
فہرست
صائمہ اسما
ابتدا تیرے نام سے
عبدالمتین
خوشگوار ازدواجی زندگی کے راہنما اصول
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
امانت کا مفہوم اور اہمیت
ڈاکٹر آسیہ شبیر
مسلم فیمی نسٹ خواتین اور قرآنی احکا م کی تعبیر
صائمہ اسما
گیسوئے اردو کو شانہ ملا مگر … ۔
حبیب الرحمن
غزل
اسامہ ضیا بسمل
غزل
سلمان بخاری
سنہرے کھیت
اسما صدیقہ
ہم کو دیو پریس رے
نصرت یوسف
حاتم طائی
شہلا خضر
پانی اتر گیا
سید ابو الحسن
جنگی قیدی کی آپ بیتی (۲)۔
حبیب الرحمن
خیال و خواب کے جھروکوں سے
نیّر کاشف
صحرا سے بار بار وطن کو ن جائے گا (حصہ اول)1
حسینہ معین
ادب اور نسل نو
ڈاکٹر خولہ علوی
عورت مارچ کو کون سی آزادی چاہیے ؟
فریدہ خالد
گھریلو باغیچہ صحت کا دریچہ
افشاں نوید
اولاد کی تمنا کیوں
فضہ ایمان ملک
نا قابلِ بیان
پروفیسر خواجہ مسعود
حشرِ خیال
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
حیا خیر لاتی ہے
قارئین کرام!
کورونا کی دوسری لہر دم توڑ رہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ کچھ ہفتوں میں زندگی خاصی حد تک معمول پر آ جائے گی۔مارچ میں اس آسمانی آفت کوپاکستان میں آئے پورا ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔ اللہ ہمیں اور دنیا بھر کو اس کے چنگل سے جلد اور مکمل نکال لے، آمین۔
یہ قرارداد پاکستان کا مہینہ بھی ہے جب اسلامیانِ ہند نے اپنی ایک الگ منزل متعین کر کے اس جانب سفر کا آغاز کردیا تھا۔اللہ اس مملکت خداداد کو تا قیامت سلامت رکھے آمین۔
تابش میں اپنی مہرو مہ و نجم سے سِوا
جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے
پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پہ امن و امان قائم رکھنے کا اعلان سامنے آیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمت کی فضا کم کرنے میں مدد ملے گی اور خطے کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہؤا ہے جبکہ گزشتہ ایک سال سے بھارت کو ایک ہی وقت میں پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی کا سامنا ہے۔دراصل اگست۲۰۱۹ میں جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر…
ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے رہتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟ خطبہ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن 3مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’’تقویٰ‘‘۔ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا موثر عنوان ہے جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔
خطبہِ نکاح کا پیغام
اللہ رب ا لعزت نے خطبہ نکاح میں تقویٰ پر ہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی کہ میاں بیوی ایک خوشگوار ازدواجی زندگی اور ایک پرسکون گھر اس وقت بنا سکیںگے جب دونوں ’’تقویٰ‘‘ کے زیور سے آراستہ ہوں، ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جوابدہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے جس سے سچائی اور امانت کی انتہائیں ناپی جاسکتی ہیں۔
اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے ۔چونکہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں،…
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عقیدہ سے لے کر عبادات اور اخلاق سے لے کر معاملات تک ہر معاملے میں ہدایات دی گئی ہیں۔ان ہدایات کواللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے مختلف قوموں اور علاقوں میں وقتاً فوقتاً بھیجتا رہااور ان پر وحی کے ذریعے اپنا پیغام القا کرتا رہا۔ یہ پیغامات ’’روح الامین‘‘ جبریلؑ کے ذریعے بھیجے جاتے۔اور نبی آخر الزمان ﷺکے اخلاق کی شان یہ تھی کہ وہ وحی ملنے سے پہلے بھی اپنی قوم میں’’ امین ‘‘ کا لقب پا چکے تھے۔ یعنی یہ پیغام بھی ایک امانت تھا جو روح الامین کے ذریعے ایک امین ہستی کی جانب بھیجا گیا، جن کے امانت دار ہونے کا پورا معاشرہ گواہ تھا۔
قرآن کریم میں امانت اور امانات (جمع کا صیغہ)کا تذکرہ پانچ مقامات پر آیا ہے اور اتباع، عہد اور جوابدہی کا پیغام دے رہا ہے، البتہ سورۃ البقرہ میں اسے مالی امانت اور اس کی ادائیگی کے مفہوم میں بیان گیا گیا ہے۔یعنی جسے کوئی مال امانت کے طور پر دیا جائے، یا جس نے قرض لیا ہو تو اس کی واپسی کو یقینی بنائے۔
امانت کے معنی
امانت ’’امن‘‘ سے ہے جس کے معنی طمانیت ِ نفس اور عدم خوف کے ہیں،اور یہ کسی چیز کو…
خواتین کے مقام ومرتبے اور حقوق وفرائض کا تعین انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایک مشکل لیکن اہم معاملہ رہا ہے۔ اہمیت یہ ہے کہ معاشروں ، سلطنتوں اور حتیٰ کہ تہذیبوں کے عروج وزوال سے اس معاملے کا تعلق ہے،اور مشکل یہ ہے کہ الحادی نظریات وافکار ہوں یا مذاہب عالم کی تعلیمات و روایات، ہر جگہ اس حوالے سے افراط وتفریط ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسلام کا البتہ اس حوالے سے امتیاز یہ ہے کہ اس آخری الہامی دین اور آسمانی ہدایت میں تکریمِ نسل آدم کے بنیادی تصور کی روشنی میں قانون واخلاق کو یک جا کر کے عالمِ نسواں کے مسائل کا ایک ایسا جامع حل پیش کیا گیا ہے جس کی نمایاں ترین خصوصیت عدل وتوازن ہے۔ اعتدال وتوازن کی اس خوبی کا درست اندازہ دیگر عقلی فلسفوں اور دینی روایات کےساتھ تقابل سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی چودہ صدیوں کی تاریخ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ تھوڑی بہت عملی کوتاہیوں اور مختلف خطوں کے مسلمانوں کے داخلی مسائل اور معاشرتی رسوم کے فرق کے باوجود ، مسلمان معاشرں میں خواتین کے حقوق سے متعلق کوئی بڑی بے چینی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مغرب میں جب انیسویں اور بیسویں…
اقبال نے غالب کی جدائی میں کہا تھا کہ:
گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزیِ پروانہ ہے
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵کے اپنے تاریخی فیصلے میں قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم جاری کیا۔گویا انہوں نے گیسوئے اردو کو شانہ فراہم کردیا۔اب ہمیں عملی طور پر وطن عزیز میں اردو کو اس کا حقیقی مقام دلانا ہے۔ میرے لیے اس قومی مقصد کی جدوجہد میں شامل ہونا، اس کا حصہ بننا ایک اعزاز ہے۔یہ میرا حق ہے اور میرا فرض بھی۔ اور یہ وہ جدوجہد ہے جس کے بغیر ہم نہ اپنے بزرگوں کے آگے سرخرو ہو سکتے ہیں اور نہ اپنی آئندہ نسل کے آگے سر اٹھا سکتے ہیں۔
اردو ،جیسا کہ ہم جانتے ہیں ،پاکستان کے تمام علاقوں کی بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ، یہ زبان واحد رابطے کی زبان ہے۔ پاکستان میں اس کی حیثیت قومی زبان کی ہے جبکہ مقبوضہ جموں کشمیر ، وفاقی دارالحکومت دہلی کے علاوہ بھارت کی پانچ ریاستوں میں یہ سرکاری زبان کے طور پہ رائج ہے۔اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں گیارہویں نمبر پہ ہے۔ برصغیر میں ایک کثیر تعداد غیر…
ہجر سے جاں بہ لب ہیں دیوانے
آہ کرتے ہی کب ہیں دیوانے
بے گناہی بھی جرم گنتے ہیں
اِس کچہری میں سب ہیں دیوانے
زندگی کیا جواز رکھتی ہے
ہم تو بس بے سبب ہیں دیوانے
پتھروں سے جواب آتا ہے
کیا پکاریں کہ جب ہیں دیوانے
منہ پہ رکھتے ہیں من کی باتیں بھی
کس قدر بے ادب ہیں دیوانے
ہم کلامی جنون کیسا ہے
اتنے بدنام کب ہیں دیوانے
تیری آمد ہے کیا چھپائیں اب
ہم نہیں اب، تو کب ہیں دیوانے
(اسامہ ضیاء بسمل)
اپنے پیروںکو سمیٹو سبھی سر پر رکھ دو
حکمِ آقا ہے، غلامو، مرے در پر رکھ دو
توڑ کر تم جو ستاروں کو فلک سے، اچھا
لے ہی آئے تو کسی اور کے گھر پر رکھ دو
اف یہ دنیا ہے زمانہ بھی ہے گھر والے بھی
سو سبھی مجھ سے کیے عہد اگر پر رکھ دو
ہم بھی دنیا کا زمانے کا حوالہ رکھ دیں
تم بھی بنیاد ہر اک عہد کی ڈر پر رکھ دو
روشنی میری کہیں دیکھ نہ لے بے ستری
تم جہاں بھر کے اندھیرے مرے گھر پر رکھ دو
میں بھی برجیس و ثریاؤں کا ہمسر ٹھہروں
تم جو اک بالِ ہما گر مرے سر پر رکھ دو
جس کو تقدیر کا کہتے ہیں، زمانے والو
وہ ستارہ کوئی لا کر مرے در پر رکھ دو
اک دیا بھی نہ لہو دے کے جلانے والو
ظلمتِ…
چیف منسٹر کا پی اے، شرما بہت دیر سے ان کی خواب گاہ کے باہر ٹہل رہا تھا مگر گیا رہ بجنے کو آئے تھے وہ اب تک سو کر نہ اٹھے تھے ۔
مجبورا ً شرما نے ان کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور انہیں اٹھا یا۔ اٹھتے ہی ہمیشہ کی طرح انہیں سب سے پہلے تازہ سنگترو ں کا جوس پیش کیا گیا اور تازہ تین ا نڈ وں کا آ ملیٹ، خستہ تازہ تیارہوئی ڈ بل روٹی کا ناشتہ کروا یا گیا ۔ نا شتے کے فورا بعد انہیں خا لص دودھ سے بنی ملا ئی والی چائے پینے کی عادت تھی وہ دی گئی ۔
سب چیزوں سے فا رغ ہو کر پہلی دفعہ چیف منسٹر پی اے کی طرف متوجہ ہوئے اور اکتا ہٹ سے پو چھا ۔
شرما کیا افتاد آن پڑی تھی جو صبح صبح مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا ؟
شرما کے چہرے پر کھسيا نی مسکرا ہٹ پھیل گئی اور وہ شرمندگی سے بولا۔
سر ،وہ جو….. وہ لوگ ہیں نا جو بہت دن سے….
کیا بڑ بڑ کر رہے ہو…. کون لوگ ؟وزیر اعلیٰ نے درمیان میں ہی ٹو کا۔
سر، وہ جو بہت دن سے د ھر نا دیے بیٹھے ہیں۔ ان میں وہ جو ایک…
نبیلہ کوفتوں کا سالن دم پر لگا کر دوسرے چولہے پر پسندوں کی کلیا کی طرف متوجہ ہوئی جواکلوتے لاڈلے وجاہت کی فرمائش تھی ۔ کوفتے گھر بھر کی پسند سہی مگر اسے قطعاً ناپسند تھے۔ابھی ساتھ میں مٹر پلاؤ بھی بنانا تھا۔ چاول دھو بھگو کے رکھےہی تھے کہ موبائل بیپ بجی۔اسکرین پر ’’باجی کالنگ‘‘ جگمگا رہا تھا۔
’’ارے باجی کیسی ہیں ؟ پورا ہفتہ ہو گیا آپ سے بات کیے‘‘ سلام دعا کے بعد وہ خوش ہو کر پوچھنے لگی۔
’’ہاں نبیلہ مت پوچھومیں کتنی مصروف ہو گئی ہوں ،میری تو کوئی بیٹی بھی نہیں کہ ہاتھ بٹا دے۔ ماسیوں کے نخرے سہتے جیسا تیسا کام چلانا پڑتا ہے۔ تم ہی اتا پتا لے لیتی نا‘‘۔
’’ارے باجی قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ بچیوں کو بھی اچھے سے اچھا پڑھانا ضروری ہے ۔اب تو کیا پتا آگے ان کی قسمت کیا ہو! عنیزہ بی ایڈ کے ٹف دور سے گزر رہی ہے۔ علیزہ سیکنڈ ایر میں ہے، کوچنگ چھوڑنے جانا بھی مجھ ہی کو پڑتا ہے ۔شکر ہے کہ واپسی میں تو وجاہت لے آتا ہے، اسے تو اب بی کام کیے سال ہوگیا اورجاب کا پتہ نہیں…. میں سارا دن کیسے مصروف رہتی ہوں اللہ ہی جانتا…
حسیب کمال میرے ساتھ فٹ بال کلب میں تھا۔وہ بہت اچھا کھیلتا، کوچ اکثر اس کے کھیل کی تعریف کرتے تھے لیکن کسی دوسرے وقت وہ اس کے معمولی بیک گراونڈ سے ہونے کے باعث اس کا خوب مذاق بھی اڑاتے جس سے ساتھی کھلاڑیوں کو بھی شہ ملتی کہ وہ حسیب پر طنز کریں، اس کے لیے دبا دبا حسد اس انداز میں نکالیں۔ کوچ اور ساتھیوں کے رویہ کو وہ خاموشی سے برداشت کرتا لیکن اس کی آنکھوں میں مجھے غصہ نظر آتا ۔ اس کے ہاتھ اور چہرے پر کبھی کھرونچ کے نشانات ہوتے جیسے کسی کے ساتھ اس کی لڑائی ہوئی ہو۔ ہماری ٹیم انڈر ففٹین تھی، اس کلب میں شہر کے کھاتے پیتے گھر کے بچے فٹ بال کھیل سیکھنے آتے تھے، فیس ان گھرانوں کے لیے کچھ زیادہ نہ تھی لیکن حسیب کمال کیسے یہ فیس ادا کرتا تھا، یہ حیرت تھی…..ہم جانتے تھے کہ حسیب کے والد قریب کے علاقے میں فرنچ فرائز کا اسٹال لگاتے ہیں اور ان کے حسیب کے علاوہ چار اور بچے ہیں، وہ سب اسکول پڑھتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات سمجھ نہ آتی تھی کہ حسیب کی یہ فیس کیسے ادا ہوتی ہے۔ کئی بار میں نےکلب…
آج تو کوئی معجزہ ہی سکینہ کو بچا سکتا تھا ۔ڈر کے مارے سکینہ کا رنگ فق ہو چکا تھا ۔زیبو کاغصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھاــ\۔بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن زیبو کی من پسند تلّے موتی کے کام والی قمیض دامن سے بری طرح پھٹی ہوئی تھی اور سکینہ کی بد قسمتی یہ تھی کہ پچھلے روز دھو کر اس نے ہی چھت پر پھیلائی تھی اور آج جب اسے تار سے اتارا گیا تو وہ اس حال میں ملی اور بس سکینہ ہی مجرم ٹھہری۔
فیصل آباد کے نواحی گاؤں میں مقیم فضل دین کا گھرانہ ایک کاشتکار گھرانہ تھا ۔کچھ ایکڑ زرعی زمین ان کی ملکیت میں تھی جس پریہ محنت کش گھرانہ کپاس گندم اور دیگر اناج کاشت کرتے اور گزر اوقات اچھے سے ہوجاتی تھی ۔
اوپر تلے چاربیٹوں کی پیدائش ہوئی تو فضل دین اور اس کی بیوی صغریٰ چاچی نے ربّ کا شکر اداکیا کہ کھیت کھلیان پر ہاتھ بٹانے والے ہاتھ مل گئے ۔ زیبو کی صورت میں اللہ کی رحمت پا کر دونوں نہال ہو گئے ۔
زیبو کی پیدائش کے بعد فضل دین کی قسمت کا تارا یوں چمکا کہ چاروں جانب سے دولت برسنے لگی ۔قدرت کی کرم…
فوجی جوان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہاکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں گاڑی میں بٹھا کر فوجی کیمپ میں موجود ایک فوجی بیرک میں لے جایا گیا جہاں ہمارے لیے رہائش کانتظام تھا۔ دو سال بھارتی قید کے بعد شاید جسم کی چارپائی سے شناسائی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ بس فرش پر بستر نما ایک کمبل کی عادت تھی۔ ٹوٹی ہوئی پرانی اور کائی لگی ہوئی اینٹوں کے فرش پر سونے کی کوشش ہوتی تھی۔ ان اینٹوں کو جوڑنے کے لیے اگر کبھی کوئی سیمنٹ وغیرہ کبھی لگا یاہو تو اب موجود نہ تھااوراینٹوں کے درمیان خالی جگہ ریت اور کیڑوں مکوڑوں کو باہر آنے کی کھلی دعوت دیا کرتی۔
لاہور کی پہلی شام
لاہور میں شام ڈھلنے لگی۔درختوں سے چڑیوں کی چہچہاتی آو ا ز یں یوں لگ رہی تھیں کہ جیسے ہماری قید سے آزادی پر خوشی کااظہار کررہی ہیں۔ مساجد سے اذان کی صدائیں خدا کی کبریائی بیان کررہی تھیں۔ لان میں مغرب کی نماز ادا کی ۔جب کمرے میں واپس گیا تو وہاں ایک سپاہی موجود تھا وہ ہمیں کھانے کے لیے لے گیا۔ کھانا کھا کر واپس کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ تھک کر چور ہو گیا تھا۔ سارے دن…
کہتے ہیں کہ انسانی دماغ کا موازنہ اگر کمپیوٹر کے ساتھ کیا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہوگی کہ ایک انسانی دماغ میں زندگی کے ہر لمحے کو محفوظ رکھنے کی جتنی صلاحیت ہوتی ہے اگر اتنی ہی صلاحتیوں والا کوئی کمپیوٹر ایجاد کر لیا جائے تو اس کی ’’ہارڈ ڈسک‘‘ دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت جیسی درجنوں عمارتوں کے برابر ہوگی اور کسی گزری بات کو ’’ری کال‘‘ کرنے کے لیے جو تیز رفتار پروسیسر درکار ہوگا اس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سمندر کا پانی بھی کم پڑ جائے گا۔ عام استعمال کے جتنے بھی کمپیوٹرز ہیں ان کی ہارڈ ڈسک میں فلموں کی بمشکل چند کاپیاں ہی پیسٹ کی جا سکتی ہیں جبکہ ایک انسانی دماغ میں پوری زندگی محفوظ ہوتی ہے۔ یہی نہیں ،کسی بھی کمپیوٹر میں محفوظ کسی بھی یاد کو تازہ کرنے کی غرض سے جس وقت بھی “ری کال” کیا جاتا ہے تو اس میں نہ صرف وقت درکار ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسا کرنے میں کافی مشکلات بھی سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی فائل کو کئی کئی انداز میں سرچ کرنا پڑ جاتا ہے لیکن بڑھاپے کی آخری عمر میں بھی اگر انتہائی بچپن…
صحرا کانام سنتے ہی ذہن میں تاحد نگاہ ریت آتی ہے اور صحرائے تھر کا نام سنتے ہی بھوک، پیاس اور سوکھے کی بیماری تصور میں آتی ہے۔ یوں تو شاعر نے کہا تھا۔
ـدیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے میری آنکھیں لے جا
ہم ہرگز اپنی آنکھیں ادھار نہیں دے رہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آئیے آج ہماری آنکھوں سے صحرا کو دیکھیے ۔ لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹی سی بات ، ہم کوئی منجھےہوئے سفر نامہ نگار تو ہیں نہیں ، اس لیے سقم کی گنجائش کے طلبگار ہیں ، بس جیسے جیسے جو کچھ دیکھا اگر اسی ترتیب سے یاد آتا گیا تو لکھتے جائیں گے ورنہ جو بات جب یاد آ گئی کہہ دیں گے ، تو کچھ ٹیڑھ میڑھ برداشت کیجیے گا، درگزر فرمائیے گا۔
تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے صاحب ( یعنی منے کے ابا) چند برس سے کچھ ایسی ذمہ داریوں پہ فائز ہیں کہ بھاگ بھاگ کر ایسے تھر جاتے ہیں جیسے کوئی بہو سسرال سے جان چھڑا چھڑا کر میکے کو جاتی ہو، ماشاءاللہ اس سفر کے اتنے عادی ہیں کہ جاکے آ بھی جاتے ہیں اور فوری طور پہ کاموں…
آج کی اس ادبی نشست کے بارے میں فون آیا، ادب اور میڈیا کا نام سنتے ہی میں نے حامی بھرلی ،آجائوں گی ۔ آج کل تو باہر نکلنے پر اتنی شدید پابندی ہے کہ اگر کوئی قوالی پر بھی بلائے تو شاید میں جانے پر رضامند ہو جائوں ۔ ایک سال سے اپنے کمرے میں ہمہ وقت موجود ہوں۔ اب نہ یہاں روزن زنداں ہے کہ فیض صاحب کے اشعار ہی پڑھتی رہوں نہ چھت پر کڑیاںہیں جن کو گنتی رہوں ۔ اس لیے حاضر ہو گئی ہوں ۔ مدعو کرنے والی صاحبہ نے کہا کہ ہم نے آپ کو دعوت نامہ بھیج دیا ہے۔ آج کل دعوت نامہ whatsappپر بھیجا جاتا ہے ۔ بعد میں جب دعوت نامہ پڑھا تو معاًخیال آیا کہ اگر جو یہ ڈبیٹ ہوتا تو میں فوراً مخالف سمت کا رخ کرتی، موضوع ہے کہ :
’’ ادب اور میڈیا خاندان اور نسل نو کے معمار ہیں ‘‘
کچھ سمجھ میں نہیں آیا کیا کہنا چاہیے یا تو گھر میں بند بند عقل چوپٹ ہو گئی ہے یاکوئی اور بات ہے ۔
ادب اگر پڑھا جائے اور اچھا ادب تو یقینا وہ خاندانوں کو بہتر بنارکھتا ہے ۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ نسل نو کا…
8 مارچ کو’’خواتین کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ 1907ء سے قرار پایا جانے والا یہ دن منانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کئی ممالک میں خواتین کے عالمی دن پر تعطیل ہوتی ہے۔ کئی ملکوں میں اسے احتجاج کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ بعض ممالک اس دن کو’’نسوانیت کا جشن‘‘ کے طور پر بھی مناتے ہیں۔ پاکستان میں 8 مارچ 2018ء سے ’’عورت مارچ‘‘ کا آغاز ہوا اور ہر سال یہ مارچ باقاعدگی سے منعقد ہو رہا ہے جس کا مقصد پاکستان میں خواتین کوان کے حقوق دلوانے کے لیے آواز بلند کرناہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ ہر سال کے لیے اپنا ایجنڈا اور تھیم جاری کردیتا ہےجس کے مطابق مختلف ممالک اپنی تیاریاں کرتے ہیں۔ سال 2021ء کا تھیم ہے :
Women in leadership: Achieving an equal future in a COVID-19 world
قیادت میں خواتین:’’ کووڈ19 کی دنیا میں مساوی مستقبل کا حصول‘‘
اس سال بھی دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے کے مطابق اس دن کو منانے کی کئی ماہ پہلے سے خصوصی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مخصوص خواتین گروہوں اور این جی اوز کو فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں، ٹریننگ سیشنز کروائے جاتے ہیں، نعرہ بازی…
گھریلو باغیچے کو اکثر باورچی خانہ باغیچہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس باغیچے سے باورچی خانےکی ضرورت کے لیےتازہ سبزی گھر ہی سے حاصل کی جاتی ہے ۔ مدتوں سے انسان اپنی اور اپنے خاندان کی خوراک کا بندوبست اسی طرح کرتا آیا ہے۔ آج بھی بہترین ،تازہ اور صاف ستھری سبزیوں کے حصول کے لیے گھر وں میں زمین یا گملوں، پرانے ڈبوں، ٹب ،بالٹی یا لکڑی کے کریٹ وغیرہ میں اپنی من پسند سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں اور کئی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
گھریلو باغیچے سے آپ کو صرف تازہ اور سستی سبزی ہی نہیں ملے گی بلکہ گھر میں باغیچہ لگانے کے انسانی صحت اور ماحول دونوں پر بڑے نفع بخش اثرات پڑتے ہیں۔ ان میں سے چند فوائد کا ذکر یہاں ہے۔
غذائی و طبی فوائد کا حصول
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی زمین بھی اکثر فصلوں کے لیے بہترین ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ملک کے زیادہ تر علاقوں میں سب ہی موسم پائے جاتے ہیں ۔ سردی، گرمی ، خزاں اور بہار اور ان موسموں میں مختلف اقسام کی پیداوار ممکن ہوتی ہے۔ یعنی زیادہ تر علاقوں میں ہر ماہ میں کوئی نہ کوئی سبزی اگائی اور حاصل کی جاسکتی…
اولاد کی قدر کسی بے اولاد جوڑے سے پوچھیے۔اولاد کی تمنا انسان کا فطری داعیہ ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن ایک مسلمان اولاد کی خواہش جس وجہ سے رکھتا ہے اس کو قرآن بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’کھیعص۔ذکر ہے اس رحمت کا جو آپ کے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی جب انہوں نے چپکے چپکے اپنے رب کو پکارا‘‘۔
انہوں نے عرض کیا،اے میرے رب میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے، اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا، مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث کابھی، اے میرے رب اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔(سورہ مریم۔آیت 1-6)
یہاں دیکھیے حضرت زکریاؑ کے دل کی یہ دعا ہے کہ اے میرے رب اس کو پسندیدہ انسان بنا۔ کس کا پسندیدہ؟
کیا سماج کا پسندیدہ یا رب کا؟
کیا پیغمبروں کی اساس دھن دولت ہوتی ہے؟
وہ کونسی میراث ہے جس کا وارث بنانے کے لیے پریشان ہیں ؟
رب کے سامنے جھولی پھیلا رہے ہیں۔ پھر اپنا…
ٹن ۔ٹن ۔ٹن۔ گھنٹی کا بجنا تھا اور گویا قیامت صغریٰ آگئی ہو ۔ ہم ہر طرف سے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں تھے ۔ارے گولیوں کے نہیں طالبات کے، جو گھنٹی کی آواز سن کر بےتحاشہ ،بےہنگم انداز میں خارجی دروازے کی جانب دوڑی تھیں !
شومیِ قسمت کہ آج کلاس میں کرسی نصیب ہوگئی تھی( ورنہ ایک کرسی تین لڑکیوں کا بوجھ اٹھاتی نظر آتی تھی) دراصل فرسٹ ائیر پری میڈیکل کی آبادی تھی ہی اتنی زیادہ کہ کلاسز شروع ہونے کے ایک ہفتے تک ہم نے ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کی مشق کی یا پھر کرسی کے ہتھے پر لٹک جانے کا اعزاز حاصل کیا۔
خیر بات ہورہی تھی تابڑ توڑ حملوں کی ….جی ہاں ہماری کرسی دروازے کے با لکل ساتھ تھی یعنی ایسے کہ سب ہمارے پیچھے سے گزر کر جائیں۔ اب چونکہ اعلان جنگ ہوگیا تھا اور جنگی قیدی میدان جنگ سے بھاگنے کا سماں پیش کررہے تھے ۔ادھر ہم نے اتنے دھکے کھائے جتنے ڈبلیو اٹھارہ میں بھی نہیں لگتے…. دھکم پیل کے باعث ہماری کرسی الٹنے کی کسر رہ گئی تھی۔غلطی ہماری تھی کیوں راستے میں ٹک گئے لیکن ہم بھی کیا کرتے! خیر ہم بھی طوفان ٹلنے کے بعد سہیلیوں سمیت…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
اس ماہ’’ چمن بتول‘‘ کے ٹائٹل پر ایک طرف تو برف پوش پہاڑ دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف خزاں رسیدہ درختوں کے سنہرے پتے نظر آ رہے ہیں ۔ قدرت نے بہار کو حسن بخشا ہے تو خزاں کو بھی اس سے نوازا ہے ۔ در حقیقت اللہ نے اس کائنات کے ذرے ذرے میں ایک حسن پیدا کیا ہے یہ تو انسان ہے جو اس حسن کو پامال کرتا رہتا ہے۔
مدیرہ محترمہ نے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے بہت کچھ لکھا ہے کشمیر کے بارے میں یہ زبردست جملہ لکھا ہے ’’ ہمارے جسم کا یہ حصہ ابھی تک تکلیف میں ہے … ہم نا مکمل ہیں جب تک ہمارے کشمیری ہم وطن آزاد فضا میں سانس نہیں لیتے ‘‘
کرپشن کے حوالے سے بھی فکر انگیز جملے تحریر کیے ہیں …… ’’عجیب کہانی ہے جب ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہم پر سوئے سوئے ایک نیا قرضہ چڑھ گیا ہے ۔ اپنے حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے باعث ، شاید سوئے رہنے کا یہی شاخسانہ ہوتا ہے ‘‘ اور ملک میں طلاق اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی بجا طور پر تشویش کا اظہار…
حیات میں حیا مضمر ہے۔ یا پھر حیا کے سنگ حیات خوبصورت ہے۔ وہی فرد اور معاشرہ تازگی اور حسن کے ساتھ زندہ رہتا ہے جس میں حیا باقی رہے۔
پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے تیار کیا گیا، حیا اس کا جوہر تھا؛ جیسے پھول میں خوشبو اس کا جوہر ہے۔ ہر چیز کو بناتے ہوئے اس کی اساس یا بنیادی خاصیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔نمکین ہےیا میٹھا، کھٹا ہے یا پھیکا، ہر چیز کو بنانے کے کچھ عناصر ترکیبی (ingredients) ہوتے ہیں۔ آدم کے پتلے کی تیاری والی مٹی میں نفس روحانی کے لیے جو ناگزیر چیز یا عنصر رکھی گئی وہ حیا ہے۔
اسی لیے انسانیت کی بقائے حیات میں حیا مضمر ہے۔ جب آدم کے مادی وجود میں’’الحی القیوم‘‘ نے روحِ حیات پھونکی تو حیا اس کا لازمی جزٹھہری۔ حیا، حیات اور الحی کا بنیادی حرف’’ح‘‘ اور’’ی‘‘ ہے۔ زندگی عطا کرنے والی ذات’’الحی‘‘ ہے۔ آدم کو جس مٹی سے بنایا گیا تھا اس کو حیا کے جوہر سے تیار کیا گیا تھا اسی لیے اس کے انداز و اطوار، بول چال اور لفظوں میں بھی حیا تھی…. پردہ تھا…. حجاب اور لحاظ تھا، تہذیب تھی۔
باوا آدم اوراماں حوا اُس وقت بے…
فہرست
آپ کی باجی
اللہ کے نام سے
شاہدہ سحر
حمد(نظم)
رقیہ احسان
قدافلح من زکٰھا
سلیم سیٹھی
حضورؐ کا بچپن
حفصہ طیبہ اکرام
یہ پرچم پاکستان کا ہے
حمیرا بنت فرید
عمر پر کیا گزری؟(ناول)
ڈاکٹر طارق ریاض
تحفہ
حنا نرگس
بھیگ نہ جانا کہیں
ام عبد منیب
واہ مزہ آگیا (نظم)
محمد احمد رضا انصاری
نا شکرا
فردوس تبسم قریشی
نسخہ
مدیحہ صدیقی
ہائے کرونا(نظم)
مدیحہ نورانی
رم جھم لاج( ناول)
سامیہ احسن
بچوں کے اقبال
نوری ساتھی
ذرا مسکرا لیجیے
بسیمہ فاطمہ
میں بھوکی رہ گئی
قمر جہاں
پرچم ( نظم)
نزہت وسیم
اب پچھتائے کیا ہوت
سلمان یوسف سمیجہ
دوستی
محمد فصیح الرحمن
آرمی میوزیم
ذروہ احسن
ریڈیو نورستان
سامیہ احسن
کتاب پر تبصرہ
فارعہ
آپ نے پوچھا
نوری ساتھی
کھلتی کلیاں
فہرست
آپ کی باجی
اللہ کے نام سے
ماہر القادری
حمد(نظم)
ابوالحسن علی ندوی
انسانیت
ام حبیبہ
شکر والی گلی
نزہت وسیم
روشنی کا سفر
ریاض احمد قادری
قائداعظم (نظم)
فصیح الرحمن
آزادی کی قیمت
حمیرا بنت فرید
عمر پر کیا گزری؟ (ناول)
مریم شہزاد
امی کا دوپٹہ
ام عبد منیب
اسم تصغیر(نظم)
نبیلہ شہزاد
کیک
سلمان یوسف سمیجہ
آپ کا شکریہ
امان اللہ نیر شوکت
پیارا گائوں(نظم)
محمد احمد رضا انصاری
جھوٹ پکڑا گیا
ریان سہیل
ناچتے فوارے
شاہدہ سحر
دریا کی سیر (نظم)
مدیحہ نورانی
رم جھم لاج (ناول)
تسنیم جعفری
مریخ پر اک گھر بنانا چاہیے
نوری ساتھی
ذرا مسکرا لیجیے
ام ریان
بے چارہ گھوڑا
شوکت تھانوی
اتوار
ذروہ احسن
ریڈیو نورستان
فارعہ
آپ نے پوچھا
نوری ساتھی
کھلتی کلیاں
فہرست
صائمہ اسما
ابتدا تیرے نام سے
اداریہ
ڈاکٹر مقبول احمد شاہد
قرآن کی پیشن گوئیاں
انوارِ ربانی
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
رسولؐ اللہ بطور حاکم
قولِ نبیؐ
فریدہ خالد
شکر گزاری
خاص مضمون
بنت مجتبیٰ میناؔ
نعت
نوائے شوق
حبیب الرحمن
غزل
نجمہ یاسمین یوسف
غزل
رقیہ اکبر
جھیل کنارے
شازیہ عظمت
جہاز آنے والا ہے
حقیقت و افسانہ
نبیلہ شہزاد
صدقے یا رسولؐ اللہ
قانتہ رابعہ
ایک تھی انعم
مریم روشن
وائرس
ام ایمان
پانچویں ٹرین
ڈاکٹرکوثر فردوس
حوصلہ
ذاکر فیضی
نیاحمام
منتخب افسانہ
آسیہ راشد
کشف
مشاہدات
ڈاکٹر فائقہ اویس
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
ذروہ احسن
حریف
ہلکا پلھکا
آمنہ رمیصا زاہدی
تری وادی وادی گھوموں
سیر و سیاحت
پروفیسر خواجہ مسعود
پریوں کے دیس میں
خواجہ مسعود ، خورشید بیگم ، آمنہ منظور
محشر خیال
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
جذباتی صدمے اور اسوہ رسولؐ
گوشہِ تسنیم
انصار عباسی
ایک بڑا آدمی ریٹائر ہو گیا
منتخب کالم
فہرست
صائمہ اسما
ابتدا تیرے نام سے
اداریہ
ڈاکٹر مقبول احمد شاہد
قرآن کی اثر انگیزی
انوارِ ربانی
الماس بن یاسین ، امان اللہ
رسولؐ اکرم کی حکمت تبلیغ
قولِ نبیؐ
سید ابو الحسن
تحریک پاکستان بنگال کے تناظر میں
خاص مضمون
حبیب الرحمن
غزل
نوائے شوق
حبیب الرحمن
غزل
عالیہ حمید
داستان
حقیقت و افسانہ
قانتہ رابعہ
اک شام آئی اور
نصرت یوسف
آنکھ کا تارا
شہلا خضر
ناسمجھ
نبیلہ شہزاد
ایسا بھی ہو سکتا ہے
شعلہ چنگیزی
اشرافیہ
منتخب افسانہ
ڈاکٹر فائقہ اویس
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
مشاہدات
قانتہ رابعہ
کاف کرونا کاف قانتہ
روداد
فریحہ مبارک
دعائوں کی چھائوں
خفتگان خاک
بنت شیروانی
تحفہ بلائے جان
ہلکا پلھکا
سارہ عادل
اے کاش میں ہوتی
آسیہ راشد
غزالہ عزیز سے ملاقات
ملاقات
فریدہ خالد
انار
غذا و صحت
خواجہ مسعود ، خورشید بیگم
محشر خیال
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
زوجین میں سمجھوتہ
گوشہِ تسنیم
حافظ محمد نعیم عابد
سوشل میڈیا سے
’’کتنے بورنگ ہیں آپ ۔پورا چھٹی کا دن سو کر برباد کر دیتے ہیں ۔ دوپہر کے کھانے پرسب انتظار کر رہے ہیں اورمسٹر جان عالم کی تو ابھی صبح ہی نہیں ہوئی ‘‘۔
مہک گھر کے سب کام نمٹا کر کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے شوہر جان عالم کو بے فکری سے سوتا دیکھا تو اسے بہت جھنجھلاہٹ ہوئی۔ انہیں جگاتے ہوئے اس کا لہجہ شکوہ بھرا تھا۔
’’مجھے ایک ہی دن چھٹی کا ملتا ہے میڈم کبھی میرے بارے میں بھی سوچ لیا کریں‘‘۔
جان عالم کو خواب خرگوش کے درمیان اپنی بیگم کی یوں اچانک در اندازی بالکل پسند نہ آئی ۔انہوں نے چادر کھینچ کر منہ پر تان لی ۔
’’ واہ بھئی کیا بات ہے …..آپ کو تو ایک چھٹی کا دن مل ہی جاتا ہے آرام کے لیے ہمیں تووہ بھی نصیب نہیں ۔صبح سے باورچی خانے میں کھڑی آپ کی پسند کے پکوان پکا رہی ہوںاورآپ کو احساس ہی نہیں‘‘۔
مہک کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو چھلک گئے۔
’’اوفوہ اب رونا دھونا مت شروع کردینا…..تم جانتی ہو کہ مجھے یہ فلمی ادائیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں‘‘جان عالم نے چادر منہ سے ہٹا کر رکھائی سے کہا ۔
’’یہی بات طریقےسے بھی توکی جاسکتی تھی کہ بیگم میں تمہاری…
٭ دو گپی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے لمبی لمبی چھوڑ رہے تھے۔ایک نے کہا :’
’ میرے دادا بازار آلو لینے گئے ۔ انھوں نے دکان دار سے پانچ کلو آلو کہے تو اس نے ایک ہی بڑا سا آلوپکڑا دیا ۔‘‘
دوسرا بولا:’’ یہ کیا ہے ۔ میرے دادا آلو لینے گئے اور دس کلو آلو مانگے تو دکان دار نے کہا:
’’چلو یہاں سے۔ ہم آلو کاٹ کر نہیں بیچتے۔‘‘
( حفصہ سلمان ۔ بہاولپور)
٭…٭…٭
٭ مسافر ( ملاح سے ):’’ لانچ ڈگمگا رہی ہے ۔ میرا دل ، ڈوبا جا رہا ہے ۔ کوئی خطرہ تو نہیں؟ ‘‘
ملاح(سنجیدگی سے): ’’ خطرے کی کوئی بات نہیں ۔ میری لانچ بیمہ شدہ ہے اور مجھے تیرنا آتا ہے ۔‘‘
(حبیب احمد۔ ساہی وال)
٭…٭…٭
٭ ایک آدمی پلیٹ فارم پر کبھی ادھر کبھی ادھر بھاگ رہا تھا ۔ گارڈ نے اسے روکااور پوچھا:’’کہاں جانا ہے ؟‘‘
آدمی:’’ جناب ، جانا تو چار دن بعد ہے لیکن پریکٹس ابھی سے کر رہا ہوں ۔‘‘
(عظمیٰ فاروق۔ کراچی)
٭…٭…٭
٭کمپنی کے ڈائریکٹر نے نئے کلرک کو بلایا اور غصے سے کہا :’’ تم نے ملازمت کے پہلے دن ہی سے جھگڑے شروع کر دئیے ہیں ۔ مجھے پتاچلا ہے کہ تم نے منیجر صاحب کو کاہل ، نکما ،…
ایک دبلامریض سا شخص تقریر کر کے بیٹھا ہی تھا کہ ایک آدمی بول پڑا ۔
’’ میں سمجھتا ہوں جو بھائی ابھی بیٹھے ہیں ، ان کا مکان گلے شکوئوں والی گلی میں ہے ۔ میں بھی کچھ عرصہ وہاں رہ چکا ہوں اورجتنے عرصہ میں وہاں رہا ، میری صحت کبھی اچھی نہیں رہی۔ ہوا خراب، مکان خراب ،پانی خراب اس گلی میں تو پرندے بھی آکر نہیں چہچہاتے ۔ میں سدا اداس اور غمگین رہتا تھا ۔ لیکن خوش قسمتی سے وہاں سے بھاگ نکلا۔ اب میں نے صبر و شکر والی گلی میں مکان لے لیا ہے۔ میری اور میرے کنبہ کی صحت اچھی ہوگئی ہے۔ ہوا صاف ہے ۔ مکان اچھا ہے ۔ سورج وہاں سارا دن چمکتا رہتا ہے اور پرندے چہچہاتے ہیں ۔ مجھے زندگی کا لطف آنے لگا ہے ۔ میں اپنے بھائی کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ گلے شکوئوں والا مکان چھوڑ دیں ۔ صبر و شکر والی گلی میں بہت سے مکان خالی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے یہ بھائی وہاں آجائیں تو اپنے آپ کو تبدیل شدہ پائیں گے ۔ مجھے تو انہیں اپنا پڑوسی دیکھ کر بڑی ہی خوشی ہو گی‘‘۔
ہم میں سے اکثر کا…
’’ڈیڈ! مجھے پانچ ڈالر چاہئیں ۔‘‘ سکپ گھر کے لان میں اپنے دوست محمد المصری کے ساتھ بیٹھا کاروبار سے متعلق ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کر رہا تھا۔ عین اسی وقت اس کی دس سالہ بیٹی ماریا نے اس سے آ کر مطالبہ کیا۔
’’آپ اس ماہ کا جیب خرچ لے چکی ہیں۔“ اس نے نرمی سے جواب دیا:
’’ڈیڈ پلیز ! میں وہ خرچ کر چکی ہوں ، مجھے ایک خاص چیز خریدنے کے لیے صرف پانچ ڈالر درکار ہیں۔“ ماریا نے اصرار کیا۔
’’نہیں یہ اصول کے خلاف ہے ، ہم طے کر چکے ہیں کہ آپ کو جیب خرچ کے علاوہ مزید پیسے نہیں ملیں گے۔ آپ کو اپنے پیسے دھیان سے خرچ کرنا چاہئیں۔“ سکپ نے نرم مگر حتمی لہجے میں جواب دیا اور محمدکی طرف متوجہ ہوگیا:
’’ماریا سر جھکائے کھڑی تھی۔اچانک محمد اس کی طرف دیکھتے ہوے بولا: میں آپ کو پانچ ڈالر ادھار دے سکتا ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ مجھے جیب خرچ ملتے ہی واپس کر دیں گی۔“
’’ٹھیک ہے ،میں ایسا ہی کروں گی۔“
محمدنے جیب سے پانچ ڈالر کا سکہ نکالا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، خوشی سے ماریا کا چہرہ چمکنے لگا۔
سکپ نے حیرانی سے دیکھا لیکن پھرکچھ کہے بغیر بات…
شام کی چائے تک بیگم خدیجہ واپس آچکی تھیں جب کہ آسیہ بیگم اپنے شوہر کی تیمار داری کے لیے ہسپتال میں ہی رُک گئی تھیں ۔پانچوں بچے دادی جان کے ارد گرد جمع ہو گئے۔
’’خدا کا شکر ہے کہ ہارون کو ہوش آگیا ہے اور آپریشن بھی کامیاب ہوا ہے۔ دایاں بازو ٹوٹا ہے ۔ خدا کرے گا جلد صحیح ہو جائے گا ۔ بس پھر …‘‘ دادی جان نے بات نا مکمل چھوڑ دی ۔
’’ پھر کیا دادی جان ؟‘‘
’’ کیا بات ہے دادی جان ! سچ سچ بتائیں ۔ آپ ضرور کچھ چھپا رہی ہیں ۔‘‘
’’ کہاں کہاں چوٹ لگی ہے ہمارے ابا کو ؟‘‘۔
بچے سوال پر سوال کرنے لگے۔
’’ بچو! سچ یہ ہے کہ ہارون کا دایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہوا ہے ۔‘‘ دادی جان نے گہری سانس لی۔
بچوں کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے شروع ہو گئے ۔ دائیاں ہاتھ!اس سے ابا سرجری کرتے ہیں ۔ اگر ابا سرجری نہ کریں گے تو پھر کیا کریں گے ؟ ان کو تو سرجری کر کے لوگوں کے کام آنا بہت پسند ہے اور اگر سرجری نہیں کریں گے تو کمائیں گے کیسے ؟
’’ آمنہ بیٹی، ہم بہت تھک گئے ہیں ! ذرا ہمیں…
ٹک ۔ٹک۔ٹک۔ السلام علیکم میٹر بینڈ ۷۸۶ پر ہم ریڈیو نورستان سے بول رہے ہیں ۔ صبح کے چھ بجا چاہتے ہیں ۔ آئیے اپنی آج کی مجلس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کرتے ہیں ۔ تلاوت اور ترجمہ پیش کر رہے ہیں قاری عبد الرحمن۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰت۔ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ
ترجمہ: اور آپ نماز قائم کریں دن کی دونوں طرفوں( صبح و شام ) اور رات کی کچھ گھڑیوں میں۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں ۔ یہ ( اللہ کا) ذکر کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے(ہود۔۱۱۴)
٭…٭…٭
یہ ریڈیو نورستان ہے۔ اب آپ عبد اللہ سے احادیث مبارکہ سنیے۔
٭ ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ آدمی کی تمام باتیں اس کے لیے نقصان دہ ہو ں گی ۔ کسی بات سے اُسے فائدہ نہ پہنچے گا سوائے ان باتوں کے کہ نیکی کا حکم دیا جائے ، برائی سے روکا جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے ۔(ابن ماجہ)
٭ حضرت عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ؐ اللہ نے ایک دن اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ تم سبحان اللہ وبحمدہٖ سو بار کہا کرو۔جس…
پیارا گاؤں
ٹھنڈی میٹھی چھائوں ہے
کتنا پیارا گائوں ہے
فصلیں ہیں پُھلواری ہے
دلکش کیاری کیاری ہے
پنچھی بولیاں بولتے ہیں
کانوں میں رس گھولتے ہیں
ہرے بھرے ہیں کھیت یہاں
حوصلہ مند ان میں دہقاں
روز مویشی چراتے ہیں
گیت خوشی کے گاتے ہیں
شیشم کے اِک پیڑ تلے
بیٹھے ہیں بچے بوڑھے
ریہٹ ہے، روں روں کرتا
کھیتوں میں پانی بھرتا
گائوں سارا ہی کچا ہے
اِک سکول ہی پکا ہے
اِک مسجد بھی پکی ہے
رب کے فضل سے بستی ہے
یہاں سکوں ہے شور نہیں
خود غرضی کا زور نہیں
تازہ ہوائیں پیاری دُھوپ
نکھرے رنگ اور ستھرے روپ
بڑے مکاں ،میدان کھُلے
دلوں کے سب انسان بڑے
نیّرؔ ٹھنڈی میٹھی چھائوں
کتنا پیارا میرا گائوں
٭…٭…٭
میری پریاں
اک دن مجھ کو پری ملی
کلیوں سی وہ کھِلی کھلی
نٹ کھٹ کرتی اس کی ادا
چہرہ پھول سا کھلا کھلا
مجھ کو پریوں کی رانی لگے
ملنے سے اس کے بھاگ جگے
رب سے مانگوں اس کی خوشی
چہکے باغ میںجیسے کلی
وہ ہے میرے دل کی جان
ثوائبہ میرے گھر کی شان
رحمتِ رب کی اشارہ ہے
آنکھ کی ٹھنڈک سادہ ہے
خوشی سے آنگن بھرا میرا
ساقی پہ ہوا کرم تیرا
٭…٭…٭
دریا کی سیر
اِک دن ابا ہم کو لے کر گئے دریا کے پار
خوشی خوشی سے بھاگے ہم توگلوں کے لے کے ہار
بریانی بھی ساتھ میں رکھی، بیٹ بال بھی رکھا
گلی ڈنڈا رہ نہ جائے، سر پرہیٹ بھی رکھا
دسترخوان وہاں پرجا کر آپی نے بچھایا
چکن کڑاہی والا ڈونگا اماں نے سجایا
نان پراٹھا ہاٹ پاٹ میں گڈو لے کر آئی
سیون اپ اور کوکا کولا لے کر آیا بھائی
آم تھا چونسا بہت ہی میٹھا اورانور ریٹول
جامن بھی تھے آڑو بھی اور چیری گول مٹول
سیر کریں گے کشتی میں ہم سب نے سوچ لیا
چلی نہ کشتی پانی میں گر تو پھر کیا ہوگا
جا کے ہم دریا کے کنارے جھولا بھی جھولے
ساتھ ساتھ میں پانی کے ہم مزے سے سب گھومے
امی نے آواز لگائی بچو! کھانا کھالو
اپنے اپنے حصے کی تم چیزیں اب اُٹھا لو
آم مزے سے کھا کر ہم نے کشتی رانی سیکھی
آپی نے جو چائے بنائی تھی وہ بہت تھی پھیکی
دُور کھڑے تھے ابا ،ہم کو دیکھ دیکھ کے خوش تھے
گلی ڈنڈا ہم نے کھیلا ،چھوٹے بھیا چُپ تھے
اماں نے فیڈر میں ڈالا دُودھو اُن کا بچو!
لاڈ میں آکر ٹانگ جو ماری بولے مجھ سے ہٹو!
کھیل بھی کھیلے، کھانا سب نے مزہ مزہ کا کھایا
شام ہوئی توتھک گئے سارے، قافلہ گھرکو آیا
رونق دن…
قائد اعظم
دیس کے بانی قوم کے رہبر
قائد اعظم قائد اعظم
جہدِ مسلسل عزم سراسر
قائدِ اعظم قائد اعظم
دشمن ہمت ہار گئے تھے
حربے ہو بے کار گئے تھے
جیت گئے ہیں سچے رہبر
قائدِ اعظم قائدِ اعظم
ہر موسم میں کام کیا تھا
خود کو بے آرام کیا تھا
ہر پل ہر دم کام کے خوگر
قائدِ اعظم قائدِ اعظم
دشمن بھی مکار بہت تھا
اپنوں کا انکار بہت تھا
تم ہی تھے بس قوم کے رہبر
قائدِ اعظم قائدِ اعظم
ہر جانب اک محکومی تھی
قوم پر چھائی مایوسی تھی
چمکے صبح کے تارے بن کر
قائدِ اعظم قائدِ اعظم
٭…٭…٭
’’ ہائے ! ابھی اور کتنا چلنا ہے ؟‘‘ آپا نے فریاد کی۔
’’ میرا خیال ہے دو کلو میٹر اور ۔‘‘‘ بھائی نے کہا۔
’’ دو کلو میٹر ؟ میں تواب ایک ملی میٹر بھی نہیں چل سکتی ۔‘‘ آپا رونکھی ہو گئی ۔ میں نے حیرت سے آپا کی طرف دیکھا۔
’’ آپ چل کہاں رہی ہو ؟ متحرک راستے پر کھڑی ہو جوخودبہ خود آپ کو منزل کی طرف لیے جا رہا ہے ۔‘‘
’’ہاں ، توکھڑی توہوئی ہوں نا ’’ مسلسل‘‘ ۔ آپا نے ’’ مسلسل‘‘ پر زور دیا ۔‘‘ اور کبھی کبھی چلنا بھی تو پڑتا ہے ۔‘‘
’’پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم میٹرو کے ’’ دبئی مال‘‘ اسٹیشن پر اترے تھے تو یہی خیال تھا کہ بس اب سیدھے مال ہی میںجا گھسیں گے۔ مگر اب تک ہم چلے جا رہے ہیں اورمال کا نام و نشان تک نہیں ۔‘‘ بھائی نے منہ بنا کر کہا۔
بات ٹھیک تھی ۔ ہم کم از کم دس پندرہ منٹ سے اس سرنگ نما راستے پرچل رہے تھے ۔کبھی بجلی سے چلنے والی بیلٹ پر کھڑے ہو جاتے اور کبھی بور ہوکر اس سے اتر جاتے اور زمین پر چلنے لگتے ۔ شیشے کی دیواروں سے باہر کی دنیا نظر آ…
چاند کے بعد انسان جس سیارے کے عشق میں گرفتار ہے وہ سرخ سیارہ ’’ مریخ‘‘ ہے ۔ مریخ نظامِ شمسی کا ایک اہم سیارہ ہے اور اسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا جا سکتاہے ۔ انسان کی اس سے رغبت کی سب سے بڑی وجہ اس کا نارنجی مائل سرخ رنگ ہے جس نے اس کی چمک دمک میں بہت اضافہ کیا ہے جو دل و نظر کو مسحور کیے دیتا ہے ، خود بخود اس کے بارے میں جاننے کو دل چاہتا ہے ۔
گو کہ پرانے زمانے میں مریخ کی شہرت جنگجو سیارے کی تھی ۔یونانی اسے ایریز(Ares)کہتے تھے اور رومیوں نے اسے مریخ(Mars)کا نام دیا تھا ۔ اپنے سرخ رنگ کے باعث بھی یہ جنگ اور خونریزی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ مگر اب یہ بالکل چپ اور ساکت ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو، جیسا کہ گزشتہ نصف صدی سے مریخ کی خوفناک مخلوق کی زمین پرآمدیا ممکنہ حملے کے بے شمار قصے کہانیاں چھپ چکے ہیں اور ان پر فلمیں اورڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔ ڈرامے بھی ایسے جن پر حقیقت کا گمان ہوتاہو، اس کے باوجود اس کی کشش میں کوئی کمی…
41 اگست مسلمانوں کی آزادی کا دن ہے جو کہ قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر کئی عظیم لیڈروں کی اَن تھک محنت اورکوششوں کے بعد 1947 ء کو پاکستان کی صورت میں ملا۔ آج کی نوجوان نسل یہ دن بہت دھوم دھام اور جوش وخروش سے مناتی ہے۔ بچے گلیوں میں خوب شوروغل کرتے ہیں۔ باجے بجاتے ہیں۔ اس دن ٹیلی ویژن پر جشنِ آزادی کے نام سے طرح طرح کے پروگرامز نشر کیے جاتے ہیں تقریری مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ بچے اپنے گھروں کو جھنڈیوںسے سجاتے ہیں۔
لیکن افسوس !
کوئی بھی ان حالات کا جائزہ نہیں لیتا جن کا سامنا مسلمانوں کو 14 اگست 1947 کو کرنا پڑا تھا۔ بھارتی فوجیوں نے مسلمانوں کو بے تحاشا اذیتیں دیں۔ لاکھوں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر پھینکا جا رہا تھا۔ جو مسلمان پاکستان کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آرہے تھے انھیںراستے میں ہی ما ردیا جاتا تھا۔ کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کے تمام افراد صحیح سلامت پاکستان پہنچے ہوں۔ بہت سے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں ہی مار دیا گیا۔
اسی کے پیشِ نظر ایک چشم دید واقعہ بیان…
خالی ہاتھ
مبشرہ یعقوب
کسی کے ساتھ بھلائی کرنا بہت بڑی نیکی ہے لیکن اگر اس میں ہمارا اپنا کوئی مطلب یا غرض ہو تو پھر وہ نیکی نہیں رہتی۔ نیکی وہی ہے جس کا اجر ہم صرف اللہ سے چاہتے ہیں ۔ جب ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے دوسروں کے کام آتے ہیں تو اللہ تعلیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کا اجر دیتے ہیں ۔ یہ اجر ہماری نیکی کے مقابلے میں دس سے لے کر سات سو گنا تک زیادہ ہو سکتا ہے ۔ جونیکی جتنے اخلاص سے کی جائے اس کا اتنا ہی زیادہ اجر ہوتا ہے ۔ دوسری طرف آپ کسی سے نیکی کر کے بار بار اُسے جتلائیں تو ایسی نیکی کا کوئی ثواب نہیں ملتا بلکہ الٹا اپنے مسلمان بھائی کا دل دکھانے کا گناہ سرزد ہوجاتا ہے ۔ اگر کسی تھیلی میں چھید ہو توآپ اس میں جو کچھ بھی ڈالیں گے ، وہ باہر گر جائے گا اور تھیلی خالی کی خالی رہ جائے گی۔ اسی طرح آپ اپنی نیکیاںضائع کر کے آخرت میںخالی ہاتھ نہ رہ جائیں۔
٭…٭…٭
قدرت کے رنگ
حسان زبیر
آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی نے ہمیں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد پھیلی خوب…
’’امی جان جنید ابھی تک مدرسے سے واپس نہیں آیا؟‘‘
جواد سکول یونیفارم پہنے ناشتے کی میز پر پہنچ چکا تھا۔لیکن جنید ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔
’’آرہا ہوگا …ایک تو یہ لڑکا بہت سست ہے۔‘‘ امی جان نے گرما گرم پراٹھا اور آملیٹ کی پلیٹ جواد کے سامنے رکھی اور واپس باورچی خانے میں چلی گئیں۔
’’جنید کی وجہ سے میں ہر روز لیٹ ہوجاتا ہوں۔استاد صاحب ڈانٹتے ہیں پھر۔‘‘ جواد نے پہلا نوالہ توڑا اور روز والی بات پھر سے دہرائی۔
دونوںبھائی ایک ہی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ابو نے خصوصی تاکید کر رکھی تھی کہ چھوٹے بھائی جنید کے ساتھ آیا جایا کرو۔اور اسی لیے جواد کو روز جنید کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
جواد اور جنید دو ہی بھائی تھے۔ان کے ابو ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے۔جواد ساتویں اور جنید پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔جواد قرآن مجید پڑھ چکا تھاجبکہ جنید کے چند سپارے رہتے تھے۔ پچھلی گلی میں ہی مدرسہ تھاجہاں جنید صبح اور شام قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا۔
کچھ ہفتوں سے وہ صبح کے وقت بہت لیٹ گھر آنے لگا تھا۔جواد اس کی اس روٹین سے زچ ہوچکا تھا۔ہر روز وہ اسمبلی سے رہ جاتا اور کلاس میں استاد صاحب سے ڈانٹ پڑتی،وہ…
انسانیت کا صحیح اندازہ امتحان پڑنے پراور ایسے مواقع پر ہوتا ہے جب ہر قسم کے ذرائع اور مواقع حاصل ہوں کہ چوری ، گناہ ، حق تلفی کی جا سکے مگر انسان کے اندر کی کیفیات اس کا ہاتھ پکڑ لیں ۔انسانیت در حقیقت ایک بڑا مرتبہ ہے ، لیکن انسانیت کے خلاف انسان ہمیشہ خود بغاوت کرتا ہے۔ کبھی نیچے سے کترا کر نکل گیا، کبھی اپنے آپ کو انسانیت سے بر تر سمجھا۔
دنیا میں لوگوں نے جب خدائی کادعویٰ کیا یا، لوگوں نے ان کو یہ درجہ دیا تو دنیا میں بگاڑ ہی بگاڑ بڑھتا گیا ، جب ایک معمولی سی گھڑی کسی اناڑی کے ہاتھ پڑ جاتی ہے اور وہ اس کی مشین میں دخل دیتا ہے تو وہ بگڑ جاتی ہے ، تو یہ نظام عالم ان مصنوعی خدائوں سے کیسے چل سکتا ہے ؟ اس دنیا کے اتنے مسائل، اتنے مراحل اور اس میں اتنی پیچیدگیا ں ہیں کہ اگر ایک انسان اس دنیا کو چلانا چاہے تو یقینا اس کا انجام بگاڑ ہوگا ۔لوگوں نے فطرت سے زور آزمائی کی ہے اور فطرت سے لڑ کر انسان نے ہمیشہ شکست ہی کھائی ہے۔
دوسری طرف اکثر ایسے انسان گزرے ہیں ،جنھوں نے اپنے آپ…
دوپہر کا ایک بج رہاتھااور گھر میں ایسا سناٹا چھایا ہوا تھاجیسےیہاں کوئی متنفس نہ رہتاہو۔ جس گھر میں چار لڑاکا بچے ہوں ،ان کی موجودگی میں ایسی خاموشی چھائی ہو،تعجب کی بات تھی۔بچوں کےہروقت کےشور ،جس کی وجہ آپس کی نوک جھوک بھی ہوتی اور مل کر کھیلنا بھی،سے تنگ آئی ہوئی امی بھی فکر مند ہو گئیں۔آخریہ بچےکرکیارہےہیں؟
چاروں بچوں میں سب سے بڑی اسماء تھی جو بارہ سال کی تھی۔ دوسرے نمبر پراشعر دس سال کا، تیسرے نمبر پر فروہ سات سال کی اور چوتھے نمبر پر فاطمہ چار برس کی تھی۔ فاطمہ تھی تو سب سے چھوٹی، لیکن کام بڑے بڑے کر جاتی تھی۔ خصوصاًشکایت لگانےمیں تواسےملکہ حاصل تھا۔اکثراس کی وجہ سےدوسروں کوڈانٹ کھاناپڑتی تھی۔
ہر وقت گھر میں دھینگا مشتی مچائے رکھنے والے بہن بھائی، جب امی کی نظروں سے اوجھل اپنا من پسند کام کر رہے ہوتے تو محبت و اتفاق میں ایسے ہوتے جیسے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر اور جڑی ہوئی ہوتیں ہیں۔
سو امی کو بچوں کی یہ خاموشی کسی طوفان کاپیش خیمہ محسوس ہوئی اورانھوں نے بچوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔
پہلے ہال کمرہ اور بچوں کا کمرہ دیکھا، پھر بیٹھک۔ باہر پورچ میں جھانکا، پھر جلدی سے…
ایک کسان کے پاس ایک گھوڑا تھا ۔ اُجلی رنگت، مضبوط کاٹھی۔چست و وفا دار ۔ جب تک وہ جوان اور طاقت ور رہا ، کسان اُس سے خوش رہا ۔ اسے پیٹ بھر کر اچھا اچھا چا رہ کھلاتا رہا۔ جب گھوڑا عمر رسیدہ ہو گیا اس کی طاقت اور چستی میں کمی آگئی ۔ اب وہ پہلے کی طرح کسان کا بوجھ نہیں چھو سکتا تھا ، اب کسان کو اس کا چارہ بھاری محسوس ہونے لگا۔ اس نے گھوڑے کی خوراک میںکمی کردی ۔ گھوڑا بے چارہ لاغر ہوتا چلا گیا ۔ اب تو کسان کو اس کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔ وہ اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ ایک دن وہ بڑ بڑایا:
’’اس گھوڑے کو رکھنا سرا سر نقصان کا سودا ہے ۔ اب یہ کسی قابل نہیں ۔ ہاں ، اگر یہ ثابت کردے کہ یہ ابھی بھی طاقت ور ہے اور ایک شیر کو گھسیٹ کر لا سکتا ہے ، تب میں اسے اپنے پاس رہنے دوں گا ۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے گھوڑے کو اپنے اصطبل سے نکال دیا ۔ بے چارہ گھوڑا پھرتے پھرتے جنگل میں جا نکلا جنگل میں اسے ایک لومڑی ملی ۔ لومڑی نے پوچھا:
’’ بھائی…
اتوار کی قدر کوئی ہمارے دل سے پوچھے ۔ یہی وہ دن ہے۔
؎ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے
یقین کیجیے کہ اس دن کا انتظار پیر کے دن سے شروع ہو جاتا ہے ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہمارے ایسے بیچارے ملازمت پیشہ خدا کے بندے اپنی ذاتی زندگی کا دن تمام ہفتہ میں صرف اتوار ہی کو سمجھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ باقی تمام دن اس طرح گزرتے ہیں کہ ہم کو اپنے انسان ہونے کا ایک دفعہ بھی احساس نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مشین ہے ۔ اگر لکھنے والا بٹن دبا دیا گیا تو لکھ رہے ہیں ۔ بیٹھنے والا پرزہ چل گیا تو بیٹھے ہیں ۔ مختصر یہ کہ صبح ہوتے ہی دفتر آنا، دفتر میں ایک مقررہ خدمت انجام دینا ، شام کو دفتر سے جانا ،سب کچھ اسی طرح ہوتا ہے کہ :
؎ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
کی ایک متحرک تصویر معلوم ہو تے ہیں ۔ ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ علاوہ اتوار کے ہم انسان بھی رہے ہیں یا نہیں ۔ زندگی کے دن شمار کرنے والے جو چاہیں شمار کریں لیکن ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بس اتوار کا…
مُنیبہ عرف مُنی سڑک کے ایک طرف پریشان صورت بنائے کھڑی تھی۔ سڑک پر گاڑیوں کی آمدو رفت بہت زیادہ تھی ، جس کی وجہ سے وہ سڑک پار نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ اپنی سہیلی شمع سے ملنے گئی تھی اور گھر واپس جا رہی تھی۔
’’ کیا ہوا لڑکی ؟ پریشان کیوں ہو؟‘‘ایک بڑی عمر کے لڑکے نے اس سے پوچھا۔اُس کے لہجے میں ملائمت تھی۔
’’ وہ میں سڑک پار نہیں کر سکتی!‘‘ منی نے جھٹ سے بتایا۔
’’ آئو، میں تمھیں سڑک پار کروا دوں !‘‘ لڑکے نے اس کا بازو تھاما اور سڑک پار کروا دی۔سڑک پار کرنے کے بعد منی گھر کی جانب سر پٹ بھاگی۔ کیوں کہ اسے کافی دیر ہو گئی تھی ۔ اور اب یقینا امی جان سے اچھی خاصی ڈانٹ پڑنی تھی۔
٭…٭…٭
’’ عبیرہ… !‘‘ منی وقفے کے وقت اپنی ہم جماعت اور دوست عبیرہ کے پاس آئی ۔ اس کے لہجے میں پریشانی تھی۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘ عبیرہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔
’’ آج جلدی میں میں امی جان سے لنچ باکس لے سکی نہ پیسے۔ اب مجھے بے حد بھوک لگ رہی ہے ۔ ‘‘ وہ اس کے قریب بیٹھ گئی۔
’’ اچھا!‘‘ عبیرہ نے سر ہلایا ۔’’ فکر مت کرو۔ میرا…
’’بے وقوف عورت! میری ہرے رنگ کی ٹائی تم نے کیوں نہیں رکھی … اور اور یہ بیگ میں یہ سب کچھ کیا ٹھونس لیا ہے۔ہم جہاز میں جا رہے ہیں … کوئی گدھا گاڑی میں نہیں … اب جلدی جلدی ضروری سامان چھانٹو! جو کپڑے میں اوکے کروں صرف وہی ڈالنا۔ اپنے لیے جو چاہو رکھو … لیکن دیکھنا سوئٹززلینڈ میں ہمیں اپنے بزنس مین دوست کے گھر ٹھہرنا ہے… تمھارے کپڑے اچھے اور معقول ہونے چاہئیں۔ چلو جلدی کرو… میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو … اپنا کام ختم کرو … جہاز کے جانے میں صرف چھ گھنٹے رہ گئے ہیں‘‘۔
وہ اپنی لمبی تقریر جھاڑ کر وارڈ روب کی طرف بڑھ گیا تھا اور وہ عورت اپنی انگلی میں پھنسی ہیرے کی انگوٹھی دیکھتی رہ گئی تھی جس کا نگ اس کے شوہر کی بے رحم نگاہوں سے ملتا جلتا تھا۔ شوہر کے آخری فقرے نے اسے جھٹکا سا دیا اور وہ اپنے لرزتے ہوئے وجود کو سمیٹتی ہوئی دوبارہ بیگ کی پیکنگ میں جت گئی۔
یہ بات درست نہ تھی کہ اسے کسی کام کا سلیقہ نہیں تھا درحقیقت بات صرف یہ تھی کہ اُسے دولت مند خاوند کی بیوی بننے کا سلیقہ نہیں تھا … غربت سے…
یہ لفظ ہندی زبان سے ماخوذ اسم ‘’بڑھا‘ کے ساتھ ‘’پا‘ بطور لاحقۂ صفت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1795ء کو’’دیوانِ قائم‘‘ میں مستعمل ملتا ہے۔
اس لفظ کو پڑھتے اور سنتے ہی پتا نہیں کیوں اپنا آپ بوڑھا بوڑھا لگنے لگ جاتا ہے !
شاید اس لیے کہ یہ اپنے ساتھ اداسی لیے ہوتا ہے یا ڈھلتے سورج کی مانند زندگی کے سفر کی شام ہونے والی ہوتی ہے۔ارادے تھک چکے ہوتے ہیں ،قویٰ کمزور ہوچکے ہوتے ہیں، زمانے کی متعلقہ ضرورتیں پوری ہوجانے کی بنا پر بے اعتنائی رواج بن چکی ہوتی ہے اور بڑوں کی وہ تمام نصیحتیں جنہیں اپنی جوانی کے وقت اہمیت نہیں دی ہوتی ،ہر جوان کا کرنے کو دل چاہنے لگ جاتا ہے۔ اور پھر صرف نصیحت ہی نہیں ،یہ توقع بھی کی جاتی ہےکہ ہر کوئی ان باتوں کو پلے سے مضبوطی سے باندھے اور ان پر عمل بھی کرے۔
دل میں تہہ در تہہ اداسیاں اتر آتی ہیں،اپنا آپ بلا وجہ ہی فالتو سا لگنے لگ جاتا ہے،جوانی میں طاقت اور ذمہ داریوں کا ہجوم پریشانی سے بچائے رکھتا ہے لیکن جب بدن کمزور پڑنے لگتا ہے تو خواہش کےباوجود بھی مصروفیتیں کم…
وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئیں۔میں پہلے ہی ان کی خاموشی سے سہمی ہوئی تھی اور اب یہ اصرار…… ساتھ چلتی چلی گئی۔ گھر کے لاؤنج میں کتب پھیلی ہوئی تھیں۔ایک طرف کینوس کلر ،تو دوسری طرف گتے ،اسٹیشنری اور نہ جانے کیا کچھ اور ساتھ ہی بچوں کا شور…… کشن ادھر ادھر پڑے ایک الگ ہی ماحول بنا رہے تھے۔بچے امی امی کہہ کر ان سے لپٹ گئے ۔انھوں نے پرس سے کچھ نکال کر نو سالہ بیٹی کو پکڑایا اور ساتھ ہی اشارتاً کچھ سمجھایا ۔
وہ جہاں سے مجھے اندر لے گئیں وہاں سے پورے گھر کو جانچنے کے لیے ایک نظر ہی کافی تھی ، جو بتا رہی تھی کہ لاؤنج کے سواباقی جگہیں مرتب تھیں ۔ پھر بھی لاؤنج کایہ منظر میرے تصورات سے الگ ہی تھا ۔ میرے ذہن میں وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھیں۔ان کے گھر اور بچے عام گھروں سے یقیناً مختلف ہو نے چاہئیں تھے۔
مجھے لیے وہ سیدھا کچن میں چلی آئیں۔انھوں نے کھانے والی میز کی کرسی گھسیٹ کر جیسے بیٹھنے کا اشارہ کیااور خود عبایا اتار کر چولہے کی طرف بڑھ گئیں۔ مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔کچن بھی بکھرا پڑا تھا۔ان کی دلآویزشخصیت…
احمد! احمد!
رات کے دس بجنے والے تھے‘ وہ بیٹے کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے آوازیں دے رہے تھے۔
رابعہ نے سنا تو اپنے شوہر کو آواز دی۔
کیا بات ہے‘ وہ لوگ سو چکے ہیں۔ ادھر آئیں نا۔ اپنے کمرے میں میری بات سنیں۔
ہوں… اس کے شوہر واپس اپنے کمرے میں آگئے۔
رابعہ نے پھر پوچھا۔کیا کام ہے احمد سے؟احمد بہو اور چھوٹی گڑیا سونے جاچکے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے نا۔
ندا …
کون ندا۔ اس کو صبح سات بجے نکلنا ہوتا ہے‘ ہاسپٹل‘ اپنی جاب پر پہنچنے میں اس کو گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ رابعہ بولے جارہی تھی۔
آپ کیوں ان کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے؟
اس کے شوہر دھاڑے۔ ہاں پاگل ہوگیا ہوں اس لئے۔
رابعہ نے فوراً بات پلٹی۔ نہیں‘ میں پوچھ رہی ہوں کوئی کام ہے احمد سے۔
ہاںہاں… اس کے شوہر کو بہت غصہ آرہا تھا۔
رابعہ اس سب کی عادی ہوچکی تھی۔ ہنس کر کہنے لگی‘ مجھے بتا دیں میں بھی آپ کی کچھ لگتی ہو ں۔ کوئی کام کر ہی دوں گی۔
اس کے شوہر کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا۔
میں نے اس کو یہ بچے دکھانے ہیں۔ اس کے شوہر نے جواب دیا۔
بچے کون سے بچے… کہاں ہیں بچے… کس کے بچے؟اس نے ایکدم کئی سوال کر ڈالے۔
یہ بچے۔ یہ تین…
چلتی ہوئی بس میں ’’ اینی فرینک‘‘ کی ڈائری کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کب میری توجہ پوری طرح بس کی کھڑکی کی طرف مبذول ہو چکی تھی…بس کی رفتار اس کے شیشوں کو جھانجر کی طرح بجا رہی تھی ۔ اس بے ہودہ آواز نے مجھے کتاب سے اچاٹ کیا تھا یا شیشے کے کھسکنے سے باہر سے آنے والی تیز یخ بستہ ہوا نے ، جس میں تلوارکے دھار جیسی کاٹ یا شاید بار بار ہاتھ اٹھا کر اس شیشے کو بند کرنے کی کوشش … مجھے زیادہ اذیت دے رہی تھی ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
موبائل کے میسج ٹیون کی مدھم آواز مسلسل جاری تھی جس کی طرف سے میں لاپرواہ تھی۔ شاید اس لیے کہ گود میں رکھی’’ اینی فرینک‘‘ کی ڈائری اب بھی میرے دماغ پر حاوی تھی بلکہ میں اس ڈائری کے راوی کے مردہ جسم میں حلول کر کے … نیدر لینڈ کے 1942ء سے 1945 ء کی زندگی کو جی رہی تھی ۔ میں ہٹلر کے زمانے کی دنیا کے ایک گمنام محبق خانے میں ایک بیمار پندرہ سالہ لڑکی کی اذیت جھیل رہی تھی مگراس بیکار سی بس نے مجھے ایک نئی اذیت میں مبتلا کر کے واپس اکیسویں…
قرآن میں کئی مقامات پر ایسے سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں جنھیں آج سے چودہ سو سال پہلے کا انسان پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھا اور قرآن پر ایمان لانے والوں نے انھیں شرح صدر کے ساتھ اس لیے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے اور اس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد جیسے جیسے انسان کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور سائنسی تحقیق نے بہت سے ایسے حقائق پر سے پردہ اٹھایا جو اس سے پہلے مخفی تھے تو ہمیں قرآن کی ان آیات کا مطلب زیادہ وضاحت سے سمجھ میں آنے لگا۔ یہ قرآن کا ایک معجزہ ہے کہ اس نے چودہ سو سال پہلے ہمیں اس کائنات کے بارے میں ایسے حقائق سے آگاہ کیا جو اس وقت کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے اور پھر خود انسان نے ہی اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ان حقائق کی صداقت ثابت کر دی۔ ذیل میں اس موضوع پر کچھ مثالیں دی جا رہی ہیں:
حمل کی کم سے کم مدت
قرآن مجید میں بچے کی ماں کے پیٹ میں پرورش اور دودھ پلانے کی مدت (رضاعت) کے بارے میں درج ذیل تین آیات…
فہرست
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
وضونماز کی کنجی
نیلو فر انور
اعتدال
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
غصہ ایک اہم اور فطری جذبہ
فریدہ خالد
غزل
حبیب الرحمن
غزل
اسامہ ضیا بسمل
مداوا
اسما صدیقہ
بہت تکلیف ہوتی ہے
حریم شفیق
باپ دا وِچھوڑا
تہمینہ حنیف
مستقبل کی سرحد پر
حبیب الرحمن
تازہ ہوا
فرحت نعیمہ
اپنے حصے کا آسمان
غزالہ عزیز
کملی پھوپھو
امیمہ امجد
ملاقات
صبیحہ نبوت
ایگریمنٹ
افشاں ملک
جنگی قیدی کی آپ بیتی(قسط۱)
سید ابو الحسن
کیا بانو قدسیہ اور اشفاق احمد فرسودہ نظریات کے علمبردار تھے؟
ڈاکٹراسما آفتاب
ہائے ہائے یہ جانے کی عمر تو نہ تھی!
درشہوار قادری
حوری
ڈاکٹر ثمین ذکاء
یہودیوں کے تاریخی جرائم
افشاں نوید
آہ سید مختار الحسن گوہر
ڈاکٹر ممتاز عمر
ذیابیطس خطر ناک ہے
ڈاکٹرفلزہ آفاق
محشر خیال
پروفیسر خواجہ مسعود
ہم برباد ہوجائیں گے
انصار عباسی
قوام نگران ہے
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
ازدواجی اور معاشرتی احوال کی درستی کے لیے عہدِ الست کے بعد دنیا کے پہلےعہد’’عقدنکاح‘‘ کے تقاضوں کی یاد دہانی ہوتی رہنا چاہیے ۔
مسابقت کے اس میدان میں اتارنے سے پہلے آدم و حوا کو آزمائشی طور پہ جنت میں رکھا گیا تھا۔ اور آزمائش کے طور پہ ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا۔اس درخت کے پھل میں برائی نہیں تھی۔ بھلا جنت میں کسی برائی کا کیا موقع! یہ تو حکم ماننے اور نہ ماننے کی مشق تھی۔
معاشرے میں مشہور و معروف جملہ بولا جاتا ہے کہ عورت، آدم کو جنت سے نکالنے کا موجب بنی، ذرا اس فرمان الٰہی پہ توجہ دیجیے ۔
’’ہم نے آدم سے شروع میں ہی ایک عہد لیا مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ‘‘ ( طہٰ 115)
آدم علیہ السلام کو ہی مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ‘‘ (طہ117)
یعنی آدم کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ خود بھی دشمن سے ہوشیار رہنا اور اپنی بیوی کو بھی بچانا اور جب شیطان نے…
دو روز قبل پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جو ہمارے پاکستانی معاشرہ کے لیے انتہائی سنگین نتائج کی حامل ہے لیکن وہ خبر Ignore ہو گئی۔ نہ کسی ٹی وی چینل نے اُسے اُٹھایا، نہ ہی ٹاک شوز کا وہ موضوع بنی۔ انگریزی اخبارات پڑھنے والے ویسے ہی کم ہیں، اِس لیے اُس اخبار کے محدود قارئین کی نظر سے ہی وہ خبر گزری اور ہو سکتا ہے کہ بہت سوں نے اُسے وہ اہمیت بھی نہ دی ہو اور وہ خطرہ اور سنگینی نوٹ ہی نہ کی ہو جس کا اُس خبر میں ذکر تھا۔ اکثر سیاستدان تو اخبارات کو صرف سیاسی خبروں کی حد تک ہی پڑھتے ہیں اور اِس کے لیے بھی وہ اردو کے اخبارات کا ہی زیادہ مطالعہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی جس خبر کا میں ذکر رہا ہوں، وہ ہمارے سیاستدانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
جس خبر کا میں ذکر کر رہا ہوں اُس کا تعلق پاکستان کے خاندانی نظام سے ہے جو اِس قدر تیزی سے تباہ حالی کا شکار ہے کہ صرف سندھ میں سال 2019کے مقابلہ میں سال 2020کے دوران شادی شدہ عورتوں کی طرف سے خلع لینے (یعنی اپنے شوہر سے عدالت کے ذریعے…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
جنوری2021کے ’’چمن بتول‘‘ کا خوش رنگ ٹائٹل نئے سال کی نوید سنا رہا ہے ۔ اللہ کرے یہ سال ہم سب کے لیے عافیت ، صحت اورامن وامان و خوشحالی کا سال ثابت ہو (آمین)۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے بجا طور پر متنبہ کیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا عالمِ اسلام کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے ۔ آپ نے عبید اللہ علیم کے خوبصورت اشعار بھی لکھے ہیں اور یہ شعر تو ہمارے موجودہ حالات کی بخوبی عکاسی کرتا ہے ۔
؎ نہ شب کو چاند ہی اچھا ، نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
’’قرآن میں سائنسی حقائق کا بیان ‘‘ ڈاکٹر مقبول احمد شاہد کا تحقیقی مضمون ہے ۔ آپ نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کئی سائنسی اور طبی حقائق بیان کردیے ۔ مثلاً حمل کی کم از کم مدت تخلیق کائنات کا عمل ، چاند ، سورج ، ستارے دن رات کا آنا جانا ، موسموں کا تغیر سب کچھ قرآن پاک میں ہے اور آج کی سائنس انہی حقائق سے مدد لے کر زبردست ترقی کر…
ذیابیطس جسم میں انسو لین کی کمی یا انسو لین کے عمل کے خلاف جسم کی مدافعت(Resistance) کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ یہ بیماری آج دنیا میں ایک عالمی وبا کے طور پر پھیل رہی ہے ۔اسی لیے ہر سال ایک دن (14نومبر) ذیابیطس کا عالمی دن منایاجاتا ہے تاکہ اس مرض کے بارے میںدنیا بھر میں آگاہی پھیلائی جائے ۔جدید دنیا میں تیزی سے آتی ہوئی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کی شرح بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے ۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں یہ بیماری کثرت سے پائی جاتی ہے ۔ اس وقت پاکستان اس لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے اور اگر اسی طرح یہ بیماری بڑھتی رہی تو امکان ہے کہ یہ دنیا کا چوتھا ملک ہوگا جہاں اس بیماری کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔
متعدد رپورٹوں کے مطابق ہر 10میں سے ایک شخص اس مرض کا شکار ہے یعنی 10فیصد اور کہیں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے ۔ شہری خواتین میں یہ مرض زیادہ ہے اور اب یہ نسبتاً کم عمر کے افراد میں بھی پایا جا رہا ہے ۔ ذیابیطس کے ہر خلیے ، ہر عضو پر کسی نہ کسی طرح اثر…
پروفیسر سید مختار الحسن گوہر بھی ہمیں چھوڑ کر ابدی نیند جا سوئے۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے صاحب فراش تھے ۔ قوت گویائی سلب ہوچکی تھی۔ ممکن ہے قوت سماعت باقی ہو کیونکہ آواز دینے پر آنکھیں کھولتے اور محض پتلیاں گھما کر ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتے اور پھر محو خواب ہو جاتے۔ 29نومبر کی دوپہر سانسوں کا یہ بندھن ٹوٹا اور قلب کی حرکت بھی خاموش ہوتی چلی گئی۔
ان سے تعلق چار عشروں سے زائد عرصے پر محیط رہا ۔گوہر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ معاشی تنگدستی میں گزارا ۔ کرائے کے مکان میں جو جامع مسجد ربانی کورنگی سے ملحق تھا مقیم رہے یہ وہ دور تھا جب نان شبینہ کے حصول میںاکثر انہیں ناکامی کا سامنا رہا مگر اپنی غربت اور نا آسودگی کا اظہار کبھی ان کے لبوں پر نہ آیا ۔ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے ۔
80کی دہائی میں کورنگی میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں امیدوار بنے قیوم آباد سے کورنگی تک کوئی آٹھ کلومیٹر طویل حلقہ انتخاب ان کے حصے میں آیا ۔ جب انتخابی نتائج آئے تو وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر دوسرے نمبر پر رہے ۔ جبکہ ہر پولنگ اسٹیشن پر پہلے…
مصنف :پروفیسر ڈاکٹر محمد آفتاب خان واہلیہ
پروفیسر ڈاکٹر محمد آفتاب خان صاحب ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔مختلف موضوعات پر درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی ہو تو زندگی چین سے گزر جاتی ہے۔عموماً زوجین اولاد اور خاندان سے آگے کم ہی سوچتے ہیں۔یہ جوڑا زمین پر اللہ کی رحمت ہے جو تمام خانگی امور کے ساتھ سالہا سال سرجوڑے مختلف تفاسیر قرآن سے لفظوں کے موتی چن رہے ہیں، کتاب کی مالا میں پرو رہے ہیں۔ یہ سارا غور و خوض اور کاوش اس لیے ہے کہ مسلمانوں کو اور پوری انسانیت کو ان خطرات سے آگاہ کریں جو یہودیوں سے درپیش ہیں۔
انھوں نے مختلف تفاسیر سے ان مضامین کو یکجا کیا اور مسلمانوں کو یاد دلایا کہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہی قوم ہے۔نسلی طور پر خود کو معزز سمجھنے والی یہ متکبر قوم دوسرے انسانوں کو کمتر بنیادی حقوق دینے کی بھی روادار نہیں ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ کے اولین دور سے آج تک یہودی ایک سازشی گروہ اور احسان ناشناس قوم رہی ہے۔ چار ہزار سال تک لاتعداد انبیاء کی تعلیمات کے باوجود یہ اپنی منافقت اور سازشی تھیوری سے باز نہیں آئی۔
مذکورہ کتاب کا…
میں داخلہ وارڈ کے لمبے برآمدے کے تقریباً آخر میں پہنچ چکی تھی کہ یکدم پیچھے سے غیر متوازن تیز تیز قدموں کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی آواز کی پکار بھی، ’’ڈاکٹر ذرا رُکیے‘‘۔
قدم وہیں ساکت ہو گئے، جو پلٹ کر دیکھا تو وہ مارگریٹ سمتھ تھی، جو دو روز پہلے ہی سات نمبر وارڈ میں داخل ہوئی تھی اور اِس کے ساتھ صرف اتنا ہی تعارف تھا کہ اِس کا پورا معائنہ میں نے کیا تھا۔ دائیں ہاتھ کی کلائی کو گہرے زخم اُس نے خود لگائے تھے۔ جب بھی اُس پر رنج و الم کا دورہ پڑتا، وہ اپنی کلائیاں کاٹ لیتی اور اِسی حالت میں ہسپتال بھیج دی جاتی۔
اِس مرتبہ بھی جب وہ آئی، تو وارڈ سسٹر اور سٹاف کے لیے کوئی نئی مریضہ نہیں تھی۔ معمول کے مطابق اِس کی مرہم پٹی کر دی گئی اور ساتھ ہی معائنہ کے لیے ڈاکٹر کو کال بھیج دی گئی۔ میرے لیے البتہ وہ بالکل نئی تھی، چونکہ مجھے تو اِس ملک میں آئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ سنہری لمبے بال، بڑی بڑی خوبصورت بادامی رنگ کی آنکھیں، سُرخ و سفید رنگت اور دراز قد کی یہ سمارٹ سی اٹھارہ سالہ لڑکی نجانے کیوں اِس حالت…
گزشتہ دنوں پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک نئے تنازعے نے جنم لیا جس میں ادبی حلقوں میں موجود ایک گروہ نے اپنے مخصوص نظریہ حیات کا اظہار کیا ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ نیلم احمد بشیر جو ترقی پسند ادیبوں ، صحافیوں کے ایک مشہور نام احمد بشیر مرحوم کی صاحبزادی ،اور پاکستان میں شوبز کی انتہائی معروف شخصیت بشریٰ انصاری کی بہن ہیں اور بطور افسانہ نگار بھی اپنی پہچان رکھتی ہیں، انہوں نے ادبی دنیا کے مشہور جوڑے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے بارے میں ایک ویب سائٹ پر شائع شدہ اپنے مضمون میں اپنے خیالات کااظہار کیا۔جیسا کہ ویب سائٹ کا طریق کار ہوتا ہے، اس مضمون کے ضمن میں پڑھنے والوں کے تبصرے بھی اس بحث میںشامل تھے۔ میری ایک طالب علم نے جو انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے وہ گفتگو مجھے بھیجی۔ اس مضمون میں نیلم صاحبہ نے بانو قدسیہ کے مشہور ناول راجہ گدھ پر اپنی رائے کا اظہار کیاہے اور اس کے تناظر میں ان کے حرام و حلال کے فلسفے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مضمون نگارکے خیال میں بانو قدسیہ کا حرام و حلال کا فلسفہ اردو ادب میں اس دقیانوسی…
اپنے وطن میں اجنبی
16دسمبر1971ء کو جب پاک فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے تو نتیجے میں ہم جنگی قیدی بن کر دو ہفتے تک اپنے ہی ملک میں قید رہے۔ مادر وطن ہمارے لیے اجنبی بن چکی تھی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انڈین فوج کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ پاک فوج کی حفاظت نہیںکرسکتی تھی۔ پاک فوج کا ہتھیار ڈالنا ان کے لیے بہت غیر یقینی تھا۔ وہ حیران اور ششد ر تھے کہ یہ سب کیسے ہوگیا کیونکہ ابھی دو دن پہلے 14دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر جنرل نیازی نے ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے سامنے اعلان کیا تھاکہ ہم آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے اور بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان کے قبضے کے لیے ہمارے سینوں پر سے گزرنا پڑے گا۔
بہرحال پاک فوج تو حکم کے مطابق ہتھیار ڈال چکی تھی اور اس وقت ہم جنگی قیدی بن چکے تھے۔ان میں پاکستان آرمی کے فوجی بھی تھے اور ان کے ساتھ مل کر مکتی باہنی سے لڑنے والے رضاکار بھی تھے۔ہمیں بھارتی فوج کی طرف سے کہاگیاکہ تم لوگوں کواپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ مشرقی پاکستان میںجو اَب بنگلہ دیش تھا، ہم دو ہفتے…
فیصل نے گھر میں قدم رکھا تو ایک لمحے کو حیران سے رہ گئے ۔ صدر دروازہ چوپٹ کھلاپڑا تھا، اجنبی اور نامانوس لوگوں کی آمدو رفت جاری تھی ۔’’ کون لوگ ہیں یہ …؟ اس گھر میں کیا کر رہے ہیں …؟ ڈیڈی کہاں ہیں …؟ دل بہت زور سے دھڑکا ! شرفو اور گھر کے دیگر ملازم کہاں چلے گئے …؟‘‘وہ اپنے ہی سوالوں میںالجھے کھڑے تھے کہ شرفو کی آواز کان کی سماعتوں سے ٹکرائی!
’’ ارے بھیا آپ آگئے…! صاحب اور ہم تو کب سے انتظار کررہے تھے آپ کا …! آئیے ہم کمرہ کھولتے ہیں …!‘‘ کہتے ہوئے شرفو نے اپنی واسکٹ کی جیب سے چابی نکال کر گیسٹ روم کا تالا کھولا ۔ فیصل نے کمرے میں قدم رکھا تو قدرے سکون کی سانس لی ۔ ڈرائیور ان کا سامان اندر لا کر رکھ چکا تھا …!
’’ آپ کا انتظار کرتے کرتے ابھی کچھ دیر پہلے ہی گئے ہیں پروفیسر صاحب !‘‘
’’ کہاں گئے ہیں ڈیڈی؟‘‘
’’ محلے کے کوئی آدمی لوگ بلانے آئے تھے صاحب کو ، بتا رہے تھے کوئی میٹنگ ہے …!‘‘ پانی کا گلاس فیصل کی طرف بڑھاتے ہوئے شرفو نے بتایا …!
’’ ڈیڈی کب سے محلے کے مسائل میں دلچسپی لینے…
گرمیوں کی چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی بچوں نے سیر کا پروگرام بنانا شروع کر دیا تھا ۔ ابونے کہا اس دفعہ دادی کے پاس جائیں گے وہ اداس ہیں ۔ بچے اس پربھی راضی ہو گئے چلیں تو سہی کہیں بھی جائیں ۔ ویسے تو بچے نانی اماں کے گھر جانے کو ہمیشہ تیار رہتے تھے کیونکہ وہاں اور بھی بچے تھے لیکن چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی نئی بیماری کو رونا نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی دوا تھی نہ دارو۔نانی اور دادی کو پتہ چلا کہ اب بچے نہیں آئیں گے تو وہ بھی اداس ہو گئیں۔
دادی نے دو سال سے بچوں کو نہیں دیکھا تھا اور اس دفعہ ان کے آنے کا سنا تھا تو تیاری میں مصروف ہو گئی تھیں لیکن نانی نے تو بیٹی کو رخصت کرتے وقت ہی سوچ لیا تھا کہ یہ کسی اور کی ہے آنا جانا دوسروں کی مرضی اور حالات کے تحت ہی ہو گا ۔ ویسے بھی کورونا نے سب کو ڈرا دیا تھا ۔ لوگ گھروں میں بند ہو گئے تھے ۔ پر دادی نے کچھ نہ دیکھا سب کچھ اللہ پر چھوڑا اور بچوں کے پاس پہنچ گئیں ۔
ان کو دیکھا تو سب…
’’ یہ لیں ، اتنی گرمی ہے باہر ۔ پھپھو کو نہ جانے کیاایمرجنسی ہوتی ہے ‘‘۔
محمود نے ایک بڑا ساشاپر صحن میں بچھی چا ر پائی پر پھینکتے ہوئے برا سامنہ بنایا۔
’’ اب کیا منگوا لیا اس کملی نے ‘‘۔
عارفہ نے بڑ بڑاتے ہوئے شاپر کھولا اوراُس میںڈھیر سارے رنگ برنگے قمقمے اور تاریں نکلیں۔
’’ اے ہے اے کملی ! ادھرآ۔ یہ کس کے باپ کا ولیمہ ہے جو تو نے اتنے بجلی والے قمقمے منگوا لیے ہیں ‘‘۔
آوازیں دیتی ہوئی عارفہ سیڑھیاں چڑھی جہاں اوپر چھت پر کملی پھوپھو کپڑے سی رہی تھیں۔
٭…٭…٭
چوہدری بلال صاحب، جدی پشتی زمیندار اوردیندار آدمی تھے جنہوں نے اپنی اکلوتی بہن کشمالہ کو بیوگی کے بعد اپنے پاس رکھا ہؤ ا تھا ۔ کشمالہ عرف کملی ، جس کو 13سالہ ازدواجی زندگی میں یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں ، ایک بیٹی اور شوہر کی وفات کا غم سہنا پڑا ۔ سر پر ماںباپ کا سایہ تھانہیں اور دوسری شادی کرنے پر رضا مند نہیں تھیں عارفہ بیگم کی مخالفت کے باوجود چوہدری بلال نے اپنی بیوہ اوردکھیاری بہن کو گھر میںجگہ دی ۔ کملی اس کا نام بچپن سے نہ تھا ۔ یہ نام اسے دوران عدت عارفہ بیگم سے ملا اور دیکھتے…
سامیہ تیز تیز چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی۔ دروازہ کھلا مل گیا تھا۔ ورنہ… اس نے اندر آکر خوف سے سوچا اور تھوڑا سا سر نکال کر باہر جھانکا ۔وہ دور کھڑا وہیں دیکھ رہا تھا۔ سامیہ کو جھانکتا دیکھ کر وہ مسکرایا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔
یا اللہ! سامیہ کے منہ سے نکلا اس نے کنڈی لگائی اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
یہ چھوٹا سا کچی آبادی کا گھر تھاجہاں کے ذرے ذرے سے دو چیزیں صاف ظاہر ہوتی تھیں۔ ایک غربت اور دوسری سلیقہ مندی۔ حمیدہ اپنے میاں کے ساتھ رخصت ہو کر اسی گھر میں آئی تھی۔ نور خان اور حمیدہ دونوں نوشہرہ کے قریب ایک گاؤں سے آئے تھے۔ نور خان ٹیکسی چلاتا تھا اور ساتھ ہی ایک بلڈنگ میں چوکیداری بھی کرتا تھا۔ صبح سات سے شام چھ بجے تک ٹیکسی چلاتا پھر گھر آتا اور گیارہ بجے چوکیداری کے لیے چلا جاتا جہاں سے پانچ بجے واپس آتا۔ دو گھنٹے آرام کرتا اور پھر ٹیکسی چلانے نکل جاتا۔
حمیدہ اس قدر محنت پر اُسے منع کرتی ناراض ہوتی لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب بیوی بچوں کے لیے کررہا ہے۔ اس نے یہ دو کمرے کا گھر محنت کر…
’’ سب تیار ہو جائیں … تیار ہو جائیں … بڑے دادا گاڑی میں جا کر بیٹھ چکے ہیں … نماز کا وقت ہونے والا ہے ‘‘۔
ثمر بلند آواز میں اعلان کرتا ہؤا سیڑھیوںپر دھڑ دھڑکرتا اوپر آ رہا تھا۔
’’ ایک تو یہ بڑے دادا کا چمچہ چین نہیں لینے دیتا ۔ جب دیکھو کان میں گھسا چلا آ رہا ہے ‘‘۔
روشی اپنی ننھی سامعہ کو تیار کرتے ہوئے جھنجھلا رہی تھی ۔’’ کب سے کہہ رہی ہوں حامد ! کہ آپ بھی تیار ہو جائیں ‘‘۔ اب اس کا غصہ اپنے شوہر حامد پر الٹ پڑا۔
’’ سو کام ہوتے ہیں جان کو آئے اور بڑے دادا سیر سپاٹے کا حکم دے کر بڑے ٹھستے سے خود فوراً گاڑی میں جا بیٹھے ہیں ‘‘۔
روشینہ جسے پیار سے سب روشی کہتے تھے اب منہ پھیلائے الٹے سیدھے ہاتھ اپنے بالوں کو درست کرنے میں لگا رہی تھی ۔ حامد نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ چہرے پر زیادہ لالی اچھی نہیں لگتی تمہیں ارے بھئی کب سے بچے فیصل مسجد جانے کا کہہ رہے تھے ۔ اچھا ہے نا ! جمعہ کی نماز کے بعد سیر بھی ہو جائے گی ۔ بڑے بھیا اور بھابھی کب سے تیار کھڑے ہیں…
دو گھروں کے درمیان بے شک مجبوریوں کی دیواریں حائل تھیں لیکن اتنی اونچی بھی نہیں ہو گئی تھیں کہ کسی سہارے کھڑا ہو کر ان کے دوسری جانب جھانکا بھی نہیں جا سکتا ہو۔ اکثر دیوار کے اس پار کے گھر والے دیواروں پر کھڑے ہوکر بات چیت بھی کر لیا کرتے اور موقع ملے تو ایک دوسرے کی دیواریں ٹاپ کر بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور اس دوران دونوں جانب نہ جانے کتنے پھول سے چہرے عمر رسیدگی کا شکار ہو کر اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے اور کتنی ہی کلیاں کھل کر گل و گلزار کا روپ دھارے مزید گل ہائے رنگا رنگ کی خوشبوئیں مہکاتی جا رہی تھیں ۔ پھرایک دن اچانک یہ ٹوٹی پھوٹی فصیلیں ناقابل عبور قلعے کی فصیلوں میں تبدیل ہو کر رہ گئیں اور وہ دو گھرانے جو دشمنوں سے آنکھیں بچا کر ایک دوسرے کے پیار کی خوشبو سے اپنی روحوں اور سانسوں کو مہکا لیا کرتے تھے، ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے سے محروم ہو کر رہ گئے۔
ایک شب ڈاکوؤں نے ہماری دیوار کے اْس جانب آباد میرے ہی بہن بھائیوں کے گھر پر ایسا…
باپ دا وچھوڑا
سُکھ سنیہا نہ کوئی آیا خط پتر نہ کائی
وانگ دیوانے حال اساں ڈا تاڈی وچ جدائی
جان لگے نہ مل کے گئیوں اینی لا پروائی
خورے تہاڈے دل دے اندر کیہڑی گل سمائی
باپ اولاد نوں بن ملیاں تے ایداں کدی نئیں جاندے
گھُٹ گھُٹ مُڑ مُڑجپھیاں پا کے فیر اجازت چاہندے
تیر جدائیاں دے ہر ویلے سینے دے وچ وج دے
گھر دے صحن وی نئیں ابا جی تاڈے باجوںسج دے
آہ و زاری کردے رہندے تہاڈے وچ وچھوڑے
باپ باہجھوں دھیاں پتراں دے دل ہو ہو جاندے تھوڑے
کِتھوں تساں نوں سَد بلائیے کِتھوں موڑ لیائیے
کیہڑے پتے دے اُتے تہانوں چٹھی لکھ لکھ پائیے
کِنوں پچھیے کیہڑا دسّے تہاڈا تھاں ٹکاناں
بِن پچھے بِن دسّے تساں نوں لازم نئیں سی جاناں
اللہ کرے منوّر شالا تہاڈی لحد قبر نوں
اچھا انشاء اللہ ابو جی مِل ساں روز حشر نوں
تہمینہ حنیف
بہت تکلیف ہوتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
کہ جب اخلاص کے رشتے
چھنا چھن چور ہوتے ہیں
جنھیں اپنا سمجھتے ہیں
ہر اک دکھ ان سے کہتے ہیں
یکا یک دور ہوتے ہیں
فقط آہیں ہی بچتی ہیں
کہ دل ان کے رویوں پر
غموں سے چور ہوتے ہیں
انہیں کچھ کہہ نہیں سکتے
ادب کے کچھ تقاضے ہیں
وفاؤں کے قواعد ہیں
انہی کی لاج رکھنے کو
بہت مجبور ہوتے ہیں
بہت تکلیف ہوتی ہے
کہ جن کے دکھ پہ
دل تکلیف سے اپنے تڑپتے تھے
وہی مشکل میں ہم کو دیکھ کر مسرور ہوتے ہیں
حریم شفیق
یہ کون گیا ہے گھر سے مرے
ہر چیز کی رونق ساتھ گئی
ہوں اپنے آپ سے بیگانہ
بے چین ہے پل پل قلبِ حزیں
اک سایہ ٹھنڈا میٹھا تھا
اک رم جھم سی برسات گئی
کیا تپتا جیون سامنے ہے
ہر لطف وکرم کی بات گئی
لیکن یہ جس کے اذن سے ہے
وہ اوّل وآخر ظاہر ہے
وہ باطن و حاضر ناظر ہے
خود دل کو تسلی دل نے ہی دی
جب حرفِ دعا میں رات ڈھلی
یوں اس کو پکارابات کُھلی
محرومی ہے ہر چند بڑی
اس کربِ نہاں میں دیکھوتو
اک یاددہانی ہےمخفی
ہر شے کو فنا باقی ہے وہی
جو قائم ودائم زندہ ہے
اور عمر ِرواں کا ہر لمحہ
جو گزرا جو آئندہ ہے
سب اس کے قوی تر ہاتھ میں ہے
اس کے ہی مبارک ساتھ میں ہے
ہے ہجر میں پنہاں قربِ خفی
ہر محرومی ہے بھید کوئی
وہ جس کی کھوج میں شمس وقمر
یوں ڈوبے ابھرے جاتے ہیں
یہ ارض و سما یہ حجر وشجر
اک بوجھ اٹھائے جاتے ہیں
تدبیر کے گُر تقدیر کے دَر
کیا مشکل ہے جو کھول بھی دے
ہے دور پرے پر اتنا قریں
سرگوشی اس سے بات کرے
فریاد سنے رحمت کردے
تہ کتنی ہو گہری ظلمت کی
اور اپنی خطا وغفلت کی
یا اندھی وحشت، دہشت کی
ہوتا ہے عیاں ہے اس پر سب ہی
جو شافی ،کافی، باقی ہے
وہ عفو و کرم کی کنجی سے
جب سارے مقفل در کھولے
اک آس…
غزل
تری گلی سے جڑے راستے ہزاروں ہیں
قدم قدم پہ مگر مسئلے ہزاروں ہیں
بدل بدل کے مجھے عکس کیا دکھاتا ہے
مرے ضمیر ترے آئینے ہزاروں ہیں
نفیس کوچہ و بازار ہیں تو کیا حاصل
سفر سے پاؤں میں جو آبلے ہزاروں ہیں
یہ ایک دن تو مرے واسطے بہت کم ہے
کہ دن تو ایک ہے اور مسئلے ہزاروں ہیں
ادا شناس تھے پہلی نظر میں جان گئے
بہانے سوچ کے رکھے ہوئے ہزاروں ہیں
قبائے چاک ہوں لیکن وفا کی بستی میں
وہ مرتبہ ہے کہ میرے لیے ہزاروں ہیں
نہیں ہے شاملِ محفل اگرچہ تو بسملؔ
زباں زباں پہ ترے تذکرے ہزاروں ہیں
اسامہ ضیاء بسمل
غزل
پھر سے اچھے بن جاتے ہیں
ہم بچہ سے بن جاتے ہیں
کیا محفل وہ جس محفل میں
جھوٹے سچے بن جاتے ہیں
سیدھے سادے مجنوں پاگل
ہم سے تم سے بن جاتے ہیں
خود کو دیکھیں تو دیکھا ہے
دشمن اپنے بن جاتے ہیں
کیا ہے اْس کی ہٹ کی خاطر
ہم ہی چھوٹے بن جاتے ہیں
دریا کا رستہ روکیں تو
دریا رستے بن جاتے ہیں
بستی والو اب گھر جاؤ
ہم بھی اپنے بن جاتے ہیں
سوچا ہے کیوں چہرے والو
بندے بن کے بن جاتے ہیں
بن جاتے ہیں اپنے دشمن
لیکن کیسے بن جاتے ہیں
سوچا تو تھا جیسا ہے وہ
ہم بھی ویسے بن جاتے ہیں
وہ جو بن کا بن بیٹھا ہے
ہم بھی اس کے بن جاتے ہیں
حبیب الرحمن
چند سال پہلے میں رضاکارانہ طور پر ایک این جی او کے لیے بطور ہیلتھ ایجوکیٹر کام کرتی تھی ۔ یہ بہترین ادارہ پاکستان اور کئی دوسرے ممالک میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے۔ کام کے دوران مجھے خواتین کے کئی ایک اسکولزاور کمیونٹی سینٹرز میں اپنی ٹیم کے ساتھ مختلف ورکشاپس کرانے کا موقع ملا۔ یہ ورکشاپس خواتین کے روزمرہ مسائل سے متعلق ہوتے تھےاو ر اکثر ان کے موضوعات ہمارے شرکا ہی منتخب کرتے تھے۔ انہیں میں ایک موضوع جس کی سب سے زیادہ فرمائش ہوتی تھی وہ ،’غصے پر قابو پانا سیکھنا ‘تھا۔ دراصل یہ ہم سب ہی کی ضرورت کا موضوع تھا۔ اور آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ہی کو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر ورکشاپ میں شرکا ءسے میں دو سوال پوچھتی تھی۔میرا پہلا سوال ہوتا تھا کہ ’’کون یہاں ایسا ہے جسے غصہ نہیں آتا ؟ ‘‘شرکاء میں سے کوئی بھی اس کا جواب ’’ہاں‘‘میں نہ دیتا ۔ دوسرا سوال کہ ’’ کون ہے جسے غصہ بہت آتا ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں کافی ہاتھ اٹھے ہوتے۔ ان سوالات کا مقصد صرف یہ آگہی پیدا کرنا ہوتا کہ…
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ارضی خلیفہ بنا کر بھیجا، اور اسے تاکید کی کہ وہ اس کی نعمتوں کو صحیح طریقے سے حاصل کرے اور انہیں صحیح مقام پر خرچ کرے، خواہ وہ بدنی نعمتیں ہوں ، طاقتیں ہوں یا وسائل ۔ ان سب کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی درست ہو اور ان کا استعمال بھی اس کی رضا کے راستے میں ہو۔
دنیا میں سب سے زیادہ بے چینی، انتشار اور عدم سکون کا سبب اعتدال کی راہ کو چھوڑ دینا ہے۔ افراط و تفریط کے رویے نے افراد کو بھی صحیح راہ سے ہٹا دیا اور قوموں کو بھی عدم توازن کا شکار کیا۔عربی زبان میں میانہ روی کے لیے’’ قصد‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔یعنی ایسا عمل جوافراط اور تفریط کے درمیان ہو۔ اگر چال ہے تو درمیانی چال، گفتگو ہے تو درمیانی آواز، اگر خرچ کا معاملہ ہو تو اسراف اورتبذیر کے درمیان اعتدال کا خرچ۔ راستہ اختیار کرے تو دائیں اور بائیں جھکنے کے بجائے سیدھا راستہ اختیار کرنا اعتدال کا راستہ ہے۔
میانہ روی اسلام کی بنیادی خصوصیت ہے، جسے وہ مسلم فرد اور مسلم جماعت کی زندگی کے اندر ایک حقیقت کی شکل میں پیدا کرتا ہے، یہ خصوصیت اس کے…
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نماز ہر بالغ مسلمان مرد وزن پر فرض ہے اور اگر بات ہو نماز کی تو وضو کا ذکر لازمی آتا ہے ۔ نماز کے لیے وضو ایک تیاری ہے یعنی مسلمان اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے پہلے خود کو صاف اور پاک کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ
’’ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ( البقرہ: 222)۔
عام حالات میں وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اسی لیے وضو کو نماز کی کنجی کہا گیا ہے ۔حدیث میں ہے کہ:
’’ جنّت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے‘‘( احمد : 575)۔
نماز کے لیے وضو کی اہمیت کو اس حدیث سے بھی سمجھا جا سکتا ہےکہ آپ ؐ نے فرمایا ’’ بےشک اللہ تعالیٰ وضو کے بغیر نماز کو اور خیانت کے مال سے صدقہ کو قبول نہیں کرتا‘‘ (احمد3445)۔ وضو کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ اس عمل کی فضیلت اور افادیت کے بارے میں معلوم ہو تاکہ اسے بہترین اندازمیں کرنے سے ہم دنیاوی فوائد کے…
قارئینِ کرام!
پانچ فروری کو ملک گیر سطح پر یوم کشمیر منایا جاتا ہے۔ غاصب بھارتی فوج کے ظلم و ستم سہتے پون صدی ہونے کو آئی، ہمارے جسم کا یہ حصہ ابھی تک تکلیف میں ہے۔ ہم نامکمل ہیں جب تک ہمارے کشمیر ی ہم وطن آزاد فضا میں سانس نہیں لیتے۔ یہ تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے، اللہ کرے ہم اس قابل ہو ں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے مؤثر عملی اقدامات اٹھا سکیں۔
براڈ شیٹ سکینڈل ملکی دولت کے اربوں روپے لوٹنے کے انتہائی لرزا دینے والے حقائق پر مشتمل ہے۔اگر یہ سب سچ ہے تو ہم واقعی ایک بدنصیب قوم ہیں جس پر ڈاکو حکمران رہے۔اور اب ان ڈاکوؤں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے کچھ اور ڈاکو اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔پاکستانی حکومت نے پہلے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمپنی سے اس لوٹ کھسوٹ کا پتہ لگانے کے لیے معاہدہ کیا اور پھرپتہ لگ جانے کے بعد ڈاکوؤں سے صلح کرلی۔اب وہ کمپنی اپنی فیس وصول کرنے کا تقاضا کررہی ہے جو ہر سال ضرب کھا کر کئی گنا ہو چکی ہے اور ملک کا بچہ بچہ اس کمپنی کا مقروض ہوگیا ہے۔ عجیب کہانی ہے! ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں تو…
فہرست
اللہ کے نام سے
آپ کی باجی
حمد(نظم)
ظفر محمود انجم
فرض
محمد رمضان شاکر
روشنی کا سفر
نزہت وسیم
میں زندہ ہوں
ذوالفقار علی بخاری
میری امی ( نظم)
طاہرہ فاروقی
امید کے جگنو
محسن حیات
رم جھم لاج (ناول)
مدیحہ نورانی
اک قطرۂ آب کی
تسنیم جعفری
گنڈیریاں(نظم)
ام عبد منیب
شیر کا فیصلہ
انصار احمد معروفی
مجھے یاد ہے سب ذرا
مریم فاروقی
الف سے اللہ
شہلا کرن
چلو نہر میں نہائیں (نظم)
غلام زادہ نعمان صابری
تبریز اور درخت
سلمان یوسف سمیجہ
بنٹی کا پرچم
ڈاکٹر الماس روحی
منی کی مانو
روبینہ بنت عبد القدیر
چڑیا / شبنم( نظم)
قمر جہاں
ذرا مسکرا لیجیے
نوری ساتھی
برکت والا سکہ
مائدہ سیمل
سوری پاپا
ظہیر ملک
آمنہ کی ٹنڈ
صدف نایاب
پٹھو گرما گرم(نظم)
شاہدہ سحر
ریڈیو نورستان
ذروہ احسن
آپ نے پوچھا
فارعہ
کھلتی کلیاں
نوری ساتھی
آپ کا خط ملا
نوری ساتھی
محترمہ مدیرہ صاحبہ، السلام علیکم
جنوری کا شمارہ ملا۔ پڑھ کر بہت مزا آیا۔ کہانیوں میں سب سے اچھی کہانی’’ پراسرار گٹھڑی‘‘ (روبینہ بنت عبدالقدیر) اور’’ روشنی کا سفر‘‘ (نزہت وسیم) کی لگی۔ سفر نامہ’’ ڈیزرٹ سفاری‘‘ (ریان سہیل) زبردست تھا۔ ترجمے’’ عمرپرکیا گزری‘‘(ناول)( حمیرا بنت فرید) اور ’’ رم جھم لاج‘‘ ( ناول) ( مدیحہ نورانی) بہترین ہیں۔ ’’ اموجی‘‘ ( مریم شہزاد ) کی کہانی پڑھ کر بالکل مزا نہیں آیا کیونکہ میں یہ کہانی پہلے بھی’’سوداگر ‘‘رسالےمیں پڑھ چکی ہوں۔اچھا اب اجازت !
ماہم احسن
٭٭٭
پیاری باجی ، السلام علیکم ۔
آپ کا مہم جوئی نمبر بڑی دیر میں پڑھنے کوملا کیوں کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ملک سے باہر تھی ۔ واپس آئی تو خاص نمبر منگوا کر پڑھا ۔ بہت بہت پسند آیا کہانیاں ، مضامین اورنظمیں سب بہترین تھے ابن بطوطہ کے متعلق یحییٰ بیدار بخت کا مضمون ’’سیلانی‘‘ بہت معلوماتی تھا ۔ نزہت وسیم کی کہانی ’’ کارگل کا شیر‘‘ ایمان افروز تھی ۔ ’’ حلوے کی چوری‘‘ بہت خوب تھی ۔ باجی ’’بھوت بنگلا‘‘ کی جاسوسی کا بڑا مزا آیا لیکن آخری شعر میں ’’ ہرچہ بادا باد ‘‘ کا مطلب سمجھ نہیں آیا ؟ ویسے ایساشاندار نمبر نکالنے پرمبارکباد ۔
ثنا مسرور ۔ کراچی
٭…
ندامت
حافظہ ایمن عائشہ
احمد اور سالاربہترین دوست تھے۔ تعلیم مکمل کرنےکےبعددونوں نوکری کی تلاش میں تھے۔احمد سالار کی نسبت زیادہ محنتی اور ذہین تھا۔ سالارکا تعلق امیر گھرانے سے تھا جبکہ احمد متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ احمد کو والدین نے بہت محنت کر کے تعلیم دلوائی تھی یہاں تک کہ گھر گروی رکھ دیاتھا۔ جبکہ سالارکی زندگی آسائشوں میں گزری تھی۔
اتفاق سےدونوں دوستوں نے ایک ہی کمپنی میں انٹرویو دیا۔ احمد نے اپنی قابلیت کی وجہ سے انٹرویو پاس کر لیا اور بد قسمتی سے سالار رہ گیا۔ سالار نےرشوت اور سفارش کے سہارے یہ نوکری حاصل کر لی اور اپنے بہترین دوست کا بھی خیال نہ کیا۔ احمد نے ہمت نہیں ہاری اورایک بارپھرنوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنےلگا۔ سالار کو کچھ ماہ کے بعد ہی کمپنی والوں نے نکال دیا کیونکہ وہ کوئی بھی کام احسن طریقے سے سر انجام نہیں دیتا تھا۔ کمپنی کواس کی لاپروائی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ سالار کو پتا چلا کہ ا سے نو کر ی نکال دیا گیا ہے، تو وہ غصےمیں گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔ احمد کو پتا چلا تو اس کی خیریت معلوم کر نے…
عروسہ شاہ ۔ سکھر
س: نئی اور پرانی نسل میں اختلاف رائے کیوں پیدا ہوتا ہے ؟
ج: پرانی نسل دنیا کو تجربہ کی عینک سے دیکھ رہی ہوتی ہے اورنئی نسل رنگین فلٹر والی عینک سے ۔ البتہ جب نئی نسل کو تجربے والی عینک مل جاتی ہے تو دونوں باہم شیر و شکر ہو جاتی ہیں ۔
٭ ٭ *
فریحہ یوسف ۔ اوکاڑہ
س: ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ ایک اچھا، ایک برا ، کورونا کا اچھا پہلو کیا ہے ؟
ج: دلوں کا نرم ہونا ۔ کسی سیانے کا کہنا ہے کہ اگر دنیاوی آزمائشیں اور مصیبتیں نہ ہوتیں تو لوگ تکبر، خود پسندی ، فرعونیت اور سخت دلی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجاتے ۔
٭ ٭ ٭
صدف بلال ۔ سرگودھا
س: کیا چیز انسان کے حصول مقصد کے لیے حوصلہ اور طاقت دیتی ہے ؟
ج: جذباتی وابستگی۔
’’ ایک کنجوس کا گھر بارہویں منزل پر تھا ۔ ایک دن بالکنی میں کھڑے ہوئے اس نے اپنا بٹوہ نکالا تو ایک دس کا نوٹ چھوٹ کر بالکنی سے نیچے گرگیا ۔ کنجوس بجلی کی تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے پہنچا اور ہانپتے ہوئے گارڈ سے پوچھا !’’ میرا دس کا نوٹ کہاں ہے ؟‘‘ گارڈ نے سکون سے…
ٹک ۔ ٹک ۔ٹک۔ السلام علیکم ۔ میٹر بینڈ ۷۸۶ پر ہم ریڈیو نورستان سے بول رہے ہیں ۔ صبح کے چھ بجا چاہتے ہیں ۔ آئیے اپنی آج کی مجلس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کرتے ہیں ۔ تلاوت و ترجمہ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں قاری عبد الرحمن۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُوَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّوَکَذَّبُوْا وَ ا تَّبَعُوْٓا اَھْوَآ ھُمْ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۔
ترجمہ: قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔ مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ انھوں نے ( اس کو بھی ) جھٹلا دیااور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی ۔ ہر معاملے کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔(القمر ۱تا۳)
٭ ٭ ٭
یہ ریڈیو نورستان ہے ۔ عبد اللہ سے احادیث مبارکہ سنیے۔
٭ سیدنا جابرؓ نبیؐ سے روایت کرتے ہیںکہ آپؐ نے فرمایا :’’ جب رات کا اندھیرا چھا جائے تو اپنے بچوں کو گھروں میں روک لو کیوں کہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں ۔ جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو اس…
پٹھو گرما گرم
کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم
بنیں گی اب دو ٹولیاں کوئی نہیں ہے کم
کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم
کھیلنے کو ہیں تیار میری ساری ہی سکھیاں
گیند پکڑی ہاتھوں میں بِٹوں پہ جمی اکھیاں
بے ایمانی ہو گی نہیں کسی سے ہضم
کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم
تاک کے ماری گیند پٹھو ڈھا دیا نسرین نے
دوڑ کے ، دیکھو ، جوڑا اس کو ہشیار پروین نے
بنا نہ پٹھو گر تو باری ہو جائے گی ختم
کھیلیں گے آج ہم پٹھو گرما گرم
عائشہ کی کمر میں گیند تاک کے ماری کس نے ؟
پٹھو کو لگنے سے پہلے پورا کردیا اُس نے
سب نے مِل کے شور مچایا ،پٹھو گرما گرم
کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم
بہت مزہ ہے بچو ! ایسی کھیل میں سنو!
صحت بنانے کو تم ایسے کھیل ہی چُنو
آئو مل کے آج ایک ہو جائیں ہم تم
کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم
کھیل کے وقت کھیلیں گے اور باقی وقت پڑھائی
آنچ نہ آئے وطن پر گر دشمن کرے چڑھائی
جیت کے ہم تو کردیں گے سب ، عُدو کا سرخم
کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم
شاہدہ سحر
* * *
پیارے بچوں! آج جو کہانی ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں۔ وہ ایک آپ ہی کی طرح کی بڑی پیاری سی بچی کی ہے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک تھی آمنہ ۔ وہ بہت ہی اچھی بچی تھی۔ سب گھر والے اس سے بہت خوش تھے۔ بڑوں کا احترام کرنا، جانوروں کا خیال رکھنا، پڑھائی میں اول آنا غرض یہ کہ وہ زندگی کی دوڑ میں کسی سے بھی پیچھے نہ تھی۔
یہ سب تو اچھا تھا مگر آمنہ کا ایک بڑا مسئلہ تھا کے اس کے سر میں بہت جوئیں تھیں۔جس کی وجہ سے وہ ہر وقت اپنا سر کھجاتی رہتی تھی۔ جہاں کھڑی بیٹھی ہے۔اس کا ہاتھ ہر وقت اس کے سر مین ہوتا جو کہ ایک برا منظر پیش کرتا پھر ایک دن یوں ہوا۔
”ارے آمنہ بیٹی! یہ کیا کر رہی ہو؟“امی نے آمنہ کو سر پر تھپڑ مارتے دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔“
’’ ہائے امی ، بڑی کھجلی ہو رہی ہے ۔‘‘ آمنہ روہانسی ہو کر بولی۔
”ہاں تو بیٹا کتنی بار تم سے کہا ہے کہ لاؤ میں تمھارے سر سے جوئیں نکال دوں مگر تم ہو کے مانتی ہی نہیں۔“
امی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
”امی میں آپ سے نہیں نکلواؤں گی آپ میرے بال کھینچتی…
’’نمرہ بیٹا کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔کیوں ایسے ضد کر رہی ہو؟‘‘ ماما مسلسل اس کی ضد کی وجہ سے پریشان تھیں نمرہ کے پاپا بھی گھر نہیں تھے وہ مسلسل ضد کررہی تھی کہ مجھے پاپا سے ملنا ہے۔ میرا دل کررہا ہے نہیں تو میں ایسے ہی رہونگی کچھ کھائوں پئیوں گی نہیں ، ماما نے پریشان ہوکر شاہ زین کو فون کیا وہ دفتر کے کام میں انتہائی مصروف تھے فون پہ بیل بجی تو انہوں نے کال کاٹ دی اور اپنے کام میں مصروف ہوگئے ۔
٭ ٭ ٭
نمرہ کی مما تھوڑی دیر اسے بہلانے کی ناکام کوشش کرنےکے بعد گھر کے کام کاج میں مصروف ہوگئیں مما کا موبائل نمرہ کے پاس پڑا تھا اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے مما کے موبائل سے پاپا کو میسج لکھ دیاتاکہ نمرہ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی ہے آپ جلدی گھر آجائیں ۔
تھوڑی دیر گزری تو نمرہ کے گھر کے فون پہ کسی انجان نمبر سے کال آئی جسے سن کر نمرہ کی امی کے ہاتھ سے ریسیور گر گیا اور ان کے اوسان خطا ہوگئے تھوڑی دیر بعدوہ سنبھلیں تو نمرہ کو ساتھ لیئے ہسپتال چل دیں۔جہاں اس کے ابو زخمی حالت…
شہراجمیرمیں ایک مدرسہ تھا جہاں بڑےبڑےامیرافراد کے ساتھ غریبوں کے بچے بھی مفت تعلیم حاصل کرتے تھے ۔اسی مدرسے میں ایک غریب کسان کا بیٹا بھی تعلیم حاصل کررہا تھا ۔ جس کا نام عادل تھا ۔ مدرسے میں اس کی دوستی ایک امیر آدمی کے بیٹےمراد سےہو گئی ۔ دونوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروںکو لوٹ گئے۔
عادل کا گائوں اجمیر سے کافی دور تھا جہاںہندو راجہ کی حکومت تھی عادل نے راجا کے دربارمیں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہوا اور اپنے گائوں لوٹ آیا اوربوڑھے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے لگا ۔ ساتھ ہی وہ وقت نکال کر گائوں کے بچوں کومفت پڑھا یا بھی کرتا تھا۔
ماں باپ نے عادل کی شادی کردی شادی کے کچھ عرصہ بعد عادل کےوالدین کا انتقال ہو گیا ۔ اب اس کے دوبچے بھی تھے گزر اوقات مشکل تھی۔
ایک دن اس کی بیوی نے کہا ’’ تمہارے مدرسے میںبڑےبڑے امیرلوگوں کے بچے پڑھتے تھے ۔ تم کسی سے ملو اور اپنی حاجت بیان کرو۔‘‘
عادل کواپنی بیوی کی بات سن کر مراد یاد آگیا ، جس نے جدا ہوتے وقت عادل سے کہا تھا کہ تمھیں کبھی میری مدد…
چڑیا
آجا پیاری چڑیا آجا
میری گود میں آن سماجا
کب سے تجھ کو ڈھونڈ رہا ہوں
تیری راہیں دیکھ چکا ہوں
کیوں مجھ سے روٹھی ہو چڑیا
دور کیوں جا بیٹھی ہو چڑیا
آ میں تیرا دل بہلائوں
تیرے سارے ناز اٹھائوں
لے گاجر کا حلوہ کھالے
اس سے اپنی بھوک مٹا لے
شبنم
فلک سے گرتی شبنم
فرش پہ پڑتی شبنم
گھاس کے منہ پہ پھیلی
مثل ِ گوہر یہ چمکی
اس کے ننھے قطرے
جن کو ہم رس سمجھے
برگ پہ ہو ہریالی
دُھل گئے گل اور ڈالی
دور سے لگیں جواہر
قمرؔ یہ چرخے سے گر کر
چوہدری قمر جہاں
* * *
بادل زور سے گرج رہے تھے۔ آسمان پر جب بجلی کڑکتی ننھی مانو کا دل سہم جاتا۔
’’اللہ جی! بارش نہ ہو۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ دل ہی دل میں خوب دعائیں مانگ رہی تھی۔
لیکن تھوڑی دیر بعد گھن گرج کے ساتھ طوفانی بارش شروع ہو گئی تھی۔
’’اللہ جی! بارش میں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، میری امی کو جلدی سے گھر بھیج دیں۔ میری امی واپس آ جائیں۔” وہ اب اپنی سبز آنکھیں موندے دعائیں مانگ رہی تھی۔
لیکن پوری رات گزر گئی اور مانو کی امی ’’منی بلی‘‘ گھر نہ آ سکی۔
وہ روتے روتے بھوکی سو گئی۔ اللہ سے اتنی دعائیں مانگی تھیں ایک بھی قبول نہیں ہوئی تھی۔ اس کا دل سخت خفا ہو گیا۔
٭ ٭ ٭
پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی وادی کے دائیں جانب ایک گھنے اور خوب صورت جنگل میں مانو کا چھوٹا سا گھر تھا۔ جہاں وہ اپنی امی کے ساتھ رہتی تھی۔ مانو کی امی کا رنگ برف کی طرح سفید اور جلد روئی کی طرح بےنرم تھی۔ جنگل میں اس کی امی کو سب ’’منی‘‘ کہتے تھے۔ مانو بھی اپنی امی کی طرح سفید رنگ کی معصوم سی بلی تھی۔ جسےسب پیارسےمانوکہتےتھے۔
منی روز صبح سویرے گھر سے نکلتی اور خوب محنت…
’’ بنٹی بیٹا کہاں چھپ گئے؟‘‘ بنٹی کی امی نے تولیہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا ۔
’’ میں یہاں ہوں امی جان ‘‘ پردے کے پیچھے سے بنٹی نے جھانکا امی نے فوراً سر پر تولیہ ڈالتے ہوئے کہا پکڑ لیا ۔ پکڑ لیا اور دونوں ہنس پڑے۔ بنٹی ایک ننھا منا پیارا سا بچہ تھا ۔ جس کو گھر کے سب ہی لوگ پیار کرتے تھے ۔ اسے رنگ برنگی بنٹیاں کھانے کا بہت شوق تھا ۔ وہ چھوٹی بڑی ، گول اور چپٹی، ہری ،لال، نیلی ، پیلی ، گلابی بنٹیاں ہر وقت اپنی جیب میں ڈالے رکھتا تھا ۔ جب دل چاہتا نکالتا اور کھا لیتا ۔ اس لیے اُسے پیار سے سب ’’بنٹی ‘‘ کہتے تھے ۔ بنٹی ابھی دو سال کا تھا ۔ حرف سیکھ رہا تھا ۔ اسے گھر کی چھوٹی بڑی چیزوں کے نام آتے جا رہے تھے جیسے ٹی وی ، کرسی، میز ، الماری وغیرہ وغیرہ جب ہی اس کی امی جان ایک دن اس کے لیے اردو کا قاعدہ لے آئیں ۔ جس پر حرف کے ساتھ رنگین تصویریں بنی تھیں ۔ الف ، ب ،پ کی پہچان کرواتے ہوئے ’’ پ‘‘ پر پہنچیں تو انھوں…
پارک میں کھیلتے کھیلتے تبریز میاں کی نظر جامن کے ایک درخت پر پڑی، اور وہ اس کے پاس آگئے۔
’’اچھا درخت ہے!‘‘انہوں نے اس کے سائے میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں چاقو سے اس پر اپنا نام لکھتا ہوں۔‘‘
’’مگر میرے پاس تو چاقو ہے ہی نہیں۔ امی جان رکھنے ہی نہیں دیتیں۔‘‘وہ مایوس ہوئے۔
’’مگر علیم کے پاس تو ہوگا چاقو۔ وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہے!‘‘ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’علیم، میری بات سنو!‘‘تبریز میاں نےدور کھیلتے علیم کو پکارا۔
’’کیاہے؟‘‘علیم قریب آیا۔
’’ذرااپنا چاقوتودینا،مجھے درخت پر اپنا نام لکھنا ہے۔‘‘
علیم نے انھیں چاقو دے دیا، وہ خوشی خوشی درخت پر اپنا نام لکھنے لگے۔
’’آہ! لڑکےایسا مت کرو۔ مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے۔‘‘درخت کراہتے ہوئے بولا۔
مگرتبریز میاں درخت کی تکلیف سےبےخبر اپنےکام میں لگےرہے۔
’’آہ! میرے درد کو سمجھو لڑکے! میں بہت تکلیف محسوس کررہا ہوں۔‘‘درخت کی آواز بھراگئی۔
’’لو۔ میں نے اپنا نام لکھ ہی لیا‘‘تبریزمیاں اپنےکارنامےپربہت خوش نظرآر ہے تھے۔
’’تم نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے!‘‘درخت بولا۔ تبریز میاں درخت کادردجانےبنا علیم کو اس کا چاقو واپس کرنےچلے گئے۔
٭٭٭
تبریز میاں روز پارک جاتے، جامن توڑنےکےلیےدرخت پر پتھر پھینکتے، شغل کرطورپرپتے گراتے اور ٹہنیاں توڑتے۔ درخت کراہتا ،انھیں سمجھاتا کہ ایسا نہیں کرتے۔ مگر وہ نا کچھ سمجھتےاورنا سمجھنا چاہتے تھےحالانکہ ان کی امی نےانھیں…
گرمی ہے چل کر نہر میں نہائیں
اسی بہانے سیر کر کے آئیں
آئو ناں بچو تیار ہو لو
فوراً ہی گھر سے باہر نکل لو
سُن کر خوشی سے سب کھل گئے ہیں
باہر نکل کر سب چل پڑے ہیں
نہر تھی گھر سے تھوڑی سی کچھ دور
پیدل ہی سب نے رستہ کیا عبور
مل کر سبھی نے نہر میں نہایا
بچوںنے خوب ہی اُدھم مچایا
غلام زادہ نعمان صابری
* * *
حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی صوبہ سندھ کے ایک بہت بڑے صوفی بزرگ گزرے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کے کئی برس ایک ٹیلے پر عبادت خداوندی میں گزارے جسے بھٹ شاہ کہتے ہیں ۔ اسی لیے آپ ؒ کا نام بھٹائی مشہور ہو گیا ۔ حضرت شاہ صاحب نے سندھی زبان میں معرفت کے بیج بوئے اور اپنی شاعری سے لوگوں کو خدا اور مخلوق سے محبت کا آفاقی پیغام دیا ۔ آپؒکے ایک شعر کا ترجمہ ہے ۔
’’ پڑھو الف اوراس کے بعد سب حروف چھوڑ
کہاں تک ورق پہ ورق اُلٹو گے ؟‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ الف سے اللہ کا نام پڑھو اور باقی دنیا کو بھول جائو یعنی صرف اللہ کے ہو کر رہو ۔ اس میں یہ حکیمانہ نکتہ بھی ہے کہ در اصل خدا ہی کی معرفت سے علم ملتا ہے اور صرف دنیاوی علم انسان کو کائنات کے رازوں تک نہیں پہنچا سکتا ۔لہٰذا ہم کو خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہیے اور اس کی معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نیک کام کریں اور لالچ چھوڑ دیں یعنی دنیا کی زندگی میں نہ کھو جائیں ۔ ہمارا مقصد تخلیق ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔
شہلا کرن
٭ ٭ ٭
ہم اپنے بڑے نانا جان کو ملنے گئے ان کا نام ڈاکٹر محمد احمد ہے ۔ باتیں کرتے کرتے کہنے لگے ہم امرتسر رہتے تھے وہاں ہمارے تین گھر تھے ایک مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا ایک رہائش کے طور پر اور ایک جانوروں کے باڑے کے طور پر ۔ اپنے علاقے کے بارے میں قیام پاکستان کے دنوں میں ہم یہی سن رہے تھے کہ یہ علاقے پاکستان میں شامل ہو ں گے لیکن بعد میں حالات ایسے بن گئے کہ پتہ چلا کہ پاکستان کو یہ علاقے نہیں ملنے ۔ میں نے ان دنوں میٹرک کیا تھا ۔ لڑکوں سے اور دوسرے لوگوں سے ملتا جلتا تھا چناں چہ حالات سے آگاہ تھا۔ ابا جان کی سوچ تھی کہ ہم پاکستان نہیں جائیں گے ۔ مگر میں ادھر اُدھر کی خبریںسن سن کر پاکستان جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہا تھا اور ابا جان سے چوری چوری قیمتی سامان کی گٹھڑیاں بنا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ امی جان اور بہن بھائی کم از کم ضروری سامان تو ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر لیں ، ابا جان کو بعد میں منا لیں گے ۔ لیکن ابا جان کسی کام…
کتنا خوبصورت منظر تھا ، کیا حسین نظارہ تھا ، ہر طرف ہریالیاں تھیں ، پیڑ پودوں پر بہار آئی ہوئی تھی ، رنگ برنگ پھولوں کو دیکھ کر مور ناچ رہے تھے ، خوشنما لذیذ پھلوں کو کھاکر بندر مسکرا رہے تھے ، اور پیڑوں پر دوڑ دوڑ کر اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے ، پُروا ہوا سے جھولتی درختوں کی ٹہنیاں جھوم جھوم کر ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھ رہی تھیں ، اور ان پر بیٹھے رنگین پرندے مسرت سے امن کے نغمے گارہے تھے ، زمین پر جانوروں کے غول کے غول پیٹ بھرجانے کے بعد جھیل کنارےسیراب ہوکر دھما چوکڑی کرتے اور خوش رہتے ۔
پھر ہوا یوں کہ ایک دن یہ حسین وادی حکومت کے نشانے پر آگئی ،اور یہ جگہ سرکاری بنگلہ بنانے کے لیے منتخب کرلی گئی ، تعمیری کام کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔اجنبی چہروں کو دیکھ کر ایک دن بھالو کے بچے نے اپنی ماں سے کہا :
’’یہ انسان ادھر کیا کرنے آرہا ہے ؟ اس کے ہاتھوں میں کدال پھاوڑےکیوں ہیں ؟۔‘‘
شیر کے بچے نے بھی انسان کو دیکھ کر کان کھڑے کرلیے ۔
’’ارے! یہ کون سی مخلوق ہے ؟ یہ ہمارے علاقے میں کیوں آئی ہے؟ ‘‘
ہر نوٹے نے گھبرا کر کہا…
گنڈیریاں
آئو منے میاں
چوسو! گنڈیریاں
ٹھیلے والے کے ہاں
ہیں لگیں ڈھیریاں
شان اللہ کی
کتنی ہیں رس بھری
میری گنڈیریاں
تیری گنڈیریاں
گائوں میں ہوگا یاد
ہم نے دیکھا کماد
کھیت گنے کا تھا
خاصا اونچا ، بڑا
جب وہ پکنے لگا
اس کا گنا بنا
پھر وہ چھیلا گیا
ٹکڑ ے ٹکڑے کیا
وہ ہیں منے میاں
میٹھی گنڈیریاں
گنا پیڑیں گے جب
اس سے بھر جائیں ٹب
اس کو بولیں رہو
بھر پیالہ پئو
شہری کہتے ہیں سب
جو س گنے کا اب
میٹھا، میٹھا بڑا
اس کا ہے ذائقہ
یہ جو شکر میاں
گڑ کی ہیں ڈھیلیاں
یہ ہیں گنے کی ہی
شکلیں چھوٹی ، بڑی
اس ہی گنے کو اب
کارخانوں میں جب
لے کے آئے میاں
گرم ہوئیں بھٹیاں
دیکھو صورت نئی
اس کی چینی بنی
میٹھی ، میٹھی یہ شے
شکل گنے کی ہے
آئو منے میاں
چوسو گنڈیریاں
ام عبد منیب
* * *
سترھویں صدی کے آخر تک حکماء پانی کو ایک عنصر مانتے تھے ۔ پھر 1780ء میں ایک مشہور انگریز کیمیا دان ہنری کیونڈش(Henry Cavendish)نے دریافت کیا کہ پانی مفردنہیں بلکہ دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے اور اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پانی ایک حصہ آکسیجن اور دو حصے ہائیڈروجن پر مشتمل ہے ، اس کا فارمولا H2Oہے۔ یہ ہوا کی نسبت770 گنا بھاری ہوتا ہے ۔ نقطہ انجماد صفرڈگر ی سینی گریڈ یعنی 32 ڈگری فارن ہائیٹ ہے او رنقطہ کھولائو 100 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 212 ڈگری فارن ہائیٹ ہے ۔ خالص حالت میں یہ شفاف ، بے بو اور بے مزہ ہوتا ہے جس کی کوئی باقاعدہ شکل نہیں ہوتی، اسی لیے جس چیز میں ہوتا ہے اسی کی شکل میں ڈھل جاتا ہے ۔ زمین پر یہ سمندروں ، دریائوں ، جھیلوں ، چشموں اور آبشاروں کی صورت میں پایا جاتا ہے ، بارش کے ذریعے آسمان سے بھی برستا ہے ۔ نا صرف دنیا کا ثبات بلکہ اس کا حسن اور خوبصورتی بھی صرف اسی ’’ قطرہ آب‘‘ کے دم سے ہے ۔ سورہ ملک کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
’’ بھلا دیکھو تو !…
جویریہ اور جنید کا ہفتہ اور اتوار کا دن باغ میں گزرتا تھا ۔ آج بھی وہ صبح سے مالی بابا کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ کبھی کیاریاں صاف کرتے تھے۔ کبھی پودوں پر دوائی چھڑکتے، کبھی پکے ہوئے پھل اتارتے اور کبھی نئے پودے لگانے میںمالی بابا کا ہاتھ بٹاتے ۔ ساتھ ہی ساتھ تینوں باتیں بھی کر رہے تھے ۔ مالی بابا کہہ رہے تھے ۔
’’ ڈاکٹر صاحب کے حادثے کا سن کر بہت افسوس ہوا جنید بابو خدا ان کو شفا دے ۔بڑے نیک آدمی ہیں۔‘‘
’’ جی مالی بابا ۔ آپ کو پتا ہے نا کہ ان کا سیدھا ہاتھ بہت زخمی ہوا ہے ۔‘‘جنید نے پوچھا۔
’’ جی ، مجھے پتا چلا ہے یہ بہت برا ہوا ہے ۔ اب وہ کیسے ہسپتال میں کام کریں گے ؟ ان کی نوکری چلے جائے گی پھر جب آدمی کا م نہ کر پائے تو بہت مایوس ہو جاتا ہے ۔‘‘
’’ بس مالی بابا ! ان کے لیے دعا کریں ۔‘‘جویریہ بولی۔
’’ بیٹی ، میں ہر نماز میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں ۔ خدا ان کو جلد صحت یاب کرے۔ آپ ان سے ملنے جائیں تو میرا سلام اور دعا ضرورد یجیے گا ۔ اچھا اب…
رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ سردیوں کے دن تھے۔ سب لوگ بستر میں گھسے نیند کے مزے لے رہے تھے۔ اچانک تابش صاحب کے گھر سے ہلکی سی آواز آئی۔ کوئی سسکیاں لےلے کر رو رہا تھا۔ تابش صاحب کے گھر میں ایک لائبریری بھی تھی۔ یہ سسکنے کی آواز وہیں سے آرہی تھی۔ سسکیاں آہستہ آہستہ اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ سب سے پہلے بوڑھے صوفے کی آنکھ کھلی۔ اس نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔
’’ارے بھائی ! کون رو رہا ہے؟‘‘ بوڑھے صوفے نے پوچھا۔ اس کا رنگ جگہ جگہ سے اڑ چکا تھا۔
’’یہ وہ خوبصورت رنگوں سے سجی پینٹنگ رو رہی ہے جو پانچ دن پہلے ہی لائی گئی تھی۔ وہ ایک کونے میں پڑی ہوئی ہے۔‘‘ میز نے سرگوشی کی۔
’’اوہ اچھا ! بھلا اسے کیا ہوگیا؟‘‘بوڑھے صوفے نے میز سے پوچھا اور پھر اونچی آواز سے پینٹنگ کو مخاطب کیا۔
’’اے پیاری پینٹنگ ! مجھے بتاؤ کہ تمہیں کس بات نے تکلیف پہنچائی ہے؟ آخر رات کے اس پہر رونے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’بس ماضی کے اچھے دن یاد آگئے تھے۔ وہ بھی کیا سہانے دن تھے۔‘‘ پینٹنگ نے سرد آہ بھری۔’’ مجھے اس ملک کے سب سے مایہ…
رات کے دو بج رہے تھے۔
وہ کروٹیں بدل بدل کر تھک چکی تھی۔نیند کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔بہن کے الفاظ ذہن میں گونج رہے تھے.
’’دیکھنا تمھاری ساس ضرور تمھارے شوہر کی دوسری شادی کروائیں گی ا ور تمھیں گھر سے چلتا کریں گی۔وہ بہت چالاک ہیں …..کچھ ایسا جادو کریں گی کہ تمھارے شوہر کو ماننا پڑے گا….. اور تم بیٹھی رہنا اپنی خوش گمانیوں میں !تم واقعی ان کی چالاکیاں نہیں جانتی‘‘ ۔
وہ خود پریشان اور واہموں کے زیر اثر تھی اوپرسے بہن نے یہ باتیں بار بار دہرا کر اسے مزید پریشان کر ڈالا تھا۔دن بھر کی مصروفیات میں سب جھٹکنے کی کوشش کی اور کچھ کامیاب بھی ہوئی۔ مگر عشاء کے بعد جیسے ہی بستر پر لیٹی ان سب باتوں نے جیسے حملہ کر دیا۔
پھر لاکھ خود کو سمجھایا ۔میرا رب ہے نا دیکھ رہا ہےسب کچھ، وہ کچھ بھی غلط نہیں ہو نے دے گا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم ہر ایک کے لیے اچھا چاہو اور تمھارا رب کسی کو تمھارے ساتھ برا کرنے دے۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔اولاد کا نہ ہونا کوئی ایسی وجہ نہیں کہ اسے گھر سے بے گھر کیا جائے۔
وہ خود کو دلاسہ دیتے سونے کی کوشش…
بظاہر کسی میگزین کا مدیریا مدیرہ ہونے میں بڑی دلکشی نظر آتی ہے اوربلاشبہ یہ ایک بڑا اعزاز بھی ہے ۔ اکثر ایڈیٹر ز نامورشخصیت بن جاتے ہیںاورعلمی ادبی حلقوںمیں ان کو ایک با وقار حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ، میگزین کے سب سے پہلے صفحے پر ان کا نام نمایاں طور پر شائع ہوتا ہے ۔
نگارشات بھیجنے والے ان کی نگاہ ِ انتخاب کے منتظر ہوتے ہیں کہ ان کا مضمون ، غزل ، کہانی یا افسانہ ایڈیٹر کی شرف قبولیت کی سند حاصل کرلے اور میگزین کے صفحات کی زینت بن جائے اس سلسلہ میں کبھی مضمون نگار کو خوشی حاصل ہو جاتی ہے اور کبھی انتظار اور مایوسی ،آخری رائے بہر حال ایڈیٹر کی ہوتی ہے ۔
البتہ ایڈیٹر کے کام کے پیچھے انتھک محنت لگن اور لگا تار کوشش پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ایڈیٹر کا کام اتنا آسان نہیںہوتا جتنا بظاہر نظر آتا ہے ۔ بقول شاعر
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
ایڈیٹرکا کام بے حد محنت طلب اور کٹھن ہوتا ہے اور سارے مہینہ جب تک پرچہ پریس میں نہ چلا جائے ایڈیٹر کی جان پہ بنی رہتی ہے ۔ بس مہینے کے آخری دوچار دن شاید…
کسی بزرگ کا قول ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دوسروں کے دل میں تمہاری عزت و احترام ہو تو تمہیں چاہیے کہ لوگوں کو ان کے پورے نام سے مخاطب کرو۔ کسی کو برے القاب سے مخاطب کرنا بھی بد اخلاقی و حقارت آمیزرویہ کی قسم ہے ۔
معنی و مفہوم
برے القاب سے منسوب کرنے کا مطب یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسے لقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو نا حق تکلیف پہنچے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں :
’’اور آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو اور نہ ہی کسی کو برے لقب دو ۔ ایمان لانے کے بعد گنہگاری برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ‘‘۔( سورہ الحجرات۱۱)
نبی کریم ؐ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے حضور ؐ ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یارسول اللہ ؐ یہ اس سے چڑتا ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح احکامات نازل فرمائے اور اس فعل کی سختی سے ممانعت کی گئی اور پھر آپ ؐ…
روزمرہ کاموں میں دل نہ لگنا، اداسی، مایوسی، بیزاری، گھبراہٹ، بے چینی یا بے بسی ڈپریشن کی علامات ہو سکتی ہیں۔
’’یہ سب تمہارا وہم ہے‘‘۔
’ ’پریشانی کی کوئی بات نہیں‘‘ یا
’’خوش رہا کرو، تم بہتر محسوس کرو گے‘‘۔
یہ باتیں یقیناً کسی ذیابیطس کے مریض کو نہیں سننی پڑیں گی۔ لیکن جب ذہنی امراض کی بات ہوتی ہے تو ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ایسے ہی عجیب و غریب مشورے دیتے ہیں۔عام لوگ تو دور کی بات، اکثر اوقات تو معالج بھی ایسی ایسی باتیں کر دیتے ہیں کہ مریض کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ ہنسے یا روئے۔کئی مرتبہ تو ڈاکٹر صاحب خود ہی عقیدہ ٹھیک کرنے اور نماز باقاعدگی سے پڑھنے کا نسخہ دے کر جان چھڑوا لیتے ہیں۔
سماجی کارکن اور ذہنی امرض کے لیے رہنمائی فراہم کرنی والے فلاحی ادارے ’’دی کلر بلیو‘ ‘کی سربراہ دانیکا کمال کہتی ہیں کہ ’’میں تین چار برس قبل خود ڈپریشن کا شکار ہوئی تو مجھے احساس ہؤا کہ میرے ارد گرد کے افراد یہاں تک کہ ڈاکٹروں کو بھی اس مرض کی سمجھ نہیں تھی‘‘۔
’’میرا اپنا خاندان بہت مدد گار تھا لیکن دوسرے لوگ کہتے تھے کہ تمھیں کیسے ڈپریشن ہو سکتا ہے،یہ عارضی ہے تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ ہمارے…
میری نانی امی
حفصہ سعید
میری نانی جان، ’’صدیقہ‘‘ میری امی ہی تھیں کیونکہ میں نے ان کی گود میں ہی آنکھ کھولی اور پرورش پائی۔
نانا جان محمد عمر کی وفات کے بعد جب نانی امی کا جوان اکلوتا بیٹا ’’محمد فاروق عمر‘‘ اچانک حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملا تو یہ صدمہ انہوں نے بہت حوصلے اور صبر سے برداشت کیا، کہا کرتی تھیں!
’’اللہ تعالی کی امانت تھی اسی کے پاس چلی گئی‘‘۔
دنیا سے جانے والے تو اپنے مقرر وقت پہ جانے پہ مجبور ہیں مگر پیچھے رہنے والے اکیلے رہ جاتے ہیں۔ نانا جان کی وفات اور پھر فاروق ماموں کی وفات نے انہیں تنہا کر دیا تھا۔ اب میری امی ہی ان کی واحد اولاد تھیں تو اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے نانی امی نے مجھے گود لے لیا تھا۔
میں نے نانی کو محنتی، سلیقہ مند، صابر اور شاکر پایا۔ وہ اپنے نام کی طرح ایک سچے عقیدے والی حقوق اللہ اور رشتے داریوں کو پورے ذوق وشوق سے نبھانے والی تھیں۔
وہ خوش بخت تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نیکیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائی۔وہ بڑھاپے کی شدت میں بھی اپنے کام خود کرتی تھیں بلکہ جب بیٹی یا کسی نواسی کے گھر…
محترمہ شاہدہ سحر صاحبہ کا مجموعہ کلام آس کے دیپ بذریعہ ڈاک روبینہ فرید بہن کی وساطت سےمو صول ہؤا ۔
سرورق پر بنی آبی پینٹنگ نے بہت متاثر کیا اور آس کے دیپ کے عنوان نے امید کے جگنو چمکائے ۔
شاعری احساس کے مترنم اظہار کا نام ہے ۔اللہ تعالی نے یہ کائنات بے حد حسین و جمیل بنائی ہے اسے حسن سے آراستہ کیا ہے اور کائنات میں بکھرا جمالیاتی حسن رب کی مدح اور تسبیح کرتا نظر آتا ہے ۔ اسی مدح کو نغمگی کے قالب میں ڈھال دیا جائے اور لفظوں کا پیرہن دے دیا جائے تو شاعری بن جاتی ہے ۔
پیڑوں پر ہوا سے جھولتے اور جھومتے پتوں کی سرسراہٹ صبح کے اولین سحر آگیں لمحات میں چڑیوں کی چہچہاہٹ زبان فطرت کی شاعری ہے ۔
اللہ نے جن دلوں کو حساسیت سے نوازا وہ عجب لذت کرب سے دوچار رہتے ہیں اور یہ کرب گویائی مانگتا ہے ۔ کبھی یہ کرب ذات کا ہوتا ہے کبھی اجتماعی صورت حالات کا ۔اور جنھیں رب اظہار کا سلیقہ اور ہنر عطا کرتا ہے وہ نثر اور شعر میں اس ہنر کا کمال دکھاتے ہیں ۔
شاعری کیسے اور کیوں کر ہوتی ہے اس کا جواب آسان نہیں ۔کبھی بے…
’’ چمن بتول‘‘ ماہ دسمبر 2021 کا ٹائٹل ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ کی یاد تازہ کر رہا ہے جب ہمارا وطن دو لخت کردیا گیا تھا ۔ ٹائٹل میں ایک چوڑی سفید پٹی جیسے ایک خوبصورت قدرتی منظر کو الگ الگ کر رہی ہے بالکل ایسے ہی ہم دو بھائی ایک دوسرے سے جدا کر دیے گئے تھے ۔ آرٹسٹ نے کمال مہارت سے یہ منظر تازہ کردیا ہے ۔ گویا دلوں کے زخم ہرے ہوگئے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے اپنے اس اداریےمیں ملک کی گھمبیر صورت حال پر روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کے یہ جملے ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ’’ ابھی تک تبدیلی کے ایجنڈے کا کوئی مثبت اثر عوام تک نہیں پہنچا مہنگائی کا طوفان البتہ ضرور آگیا ہے جس نے زندگی مزید مشکل کردی ہے … سرکاری محکموں میں کرپشن کا راج اُسی طرح ہے انصاف کا حصول اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے…مگر اب تک کے حالات نے مایوسی پیدا کردی ہے‘‘۔ آپ نے اپنے اداریے میں میڈیا کے اہم کردار کے بارے میں بجا طور پر لکھا ہے۔ ’’حکومت پر میڈیا کی بے لاگ تنقید سے حکومت پراپنی کار کردگی بہتر بنانے کے لیے…
انسان جب سے ہوش سنبھالتا ہے اپنے ساتھ اچھے برے ہونے والے معاملات کا سامنا کرتا ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں ہونے وا لے زیادہ تر واقعات اس کی یادداشت سے محو ہو جاتے ہیں، کچھ غیر معمولی واقعات ہی اس کو یاد رہتے ہیں اور ان کا نقش انسان کی زندگی پہ بہت گہرا ہوتا ہے جو آخری عمر تک نہیں مٹتا۔ دانائی سے بھرا یہ قول خود پتھر پہ لکیر ہے:
’’بچپن کے نقش گویا پتھر پہ لکیر ہوجاتے ہیں‘‘
ہماری زندگی میں منفی و مثبت جذبات کا بھی ایک مقام ہے اور یہی جذبات ہماری زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبات ہماری یادوں پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ہم ان چیزوں کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں جن کے جذباتی اثرات ہم پر گہرے ہوتے ہیں۔
مثلاً ہر شخص کو یاد رہتا ہے وہ دن، جب اس کا کوئی پیارا رشتہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ وہ آخری ملاقات یا بات جو فوت ہوجانے والے کے ساتھ ہوئی ہوتی ہے۔
وہ پہلے قلبی احساسات جو کسی پہلی کامیابی سے پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ اور وہ سب یاد آتے ہیں جنہوں نے کامیابی پہ اچھے یا برے ردعمل کا اظہار کیا ہوتا ہے۔ یا وہ پہلا صدمہ جو غیر…
قارئین کرام!
کورونا سے متأثر ایک اور سال ختم ہورہا ہے، اس حال میں کہ اس وائرس کی نئی قسم آنے کا خوف پھر سر پہ مسلط ہے۔ ساتھ ہی ڈینگی بخار نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اپنی مخلوق کو ان آزمائشوں سے نکالے، ان کے صلے میں ہمارے گناہوں کو دھو دے اور ہمیں راہِ ہدایت پہ گامزن کرے آمین۔
تو اگر چاہے تو ذرے کو بھی صحرا کردے
اور اک قطرہِ ادنیٰ کو بھی دریا کردے
اک اشارہ ہو تو ہو جائے عدم ہر موجود
کن اگر کہہ دے تو کونین کو پیدا کردے
تحریک انصاف اپنی حکومت کی دو تہائی مدت پوری کرچکی ہے۔ابھی تک تبدیلی کے ایجنڈے کا کوئی مثبت اثر عوام تک نہیں پہنچا۔ مہنگائی کا طوفان البتہ ضرور آگیا ہے جس نے زندگی مزید مشکل کردی ہے۔اگرچہ کورونا سے نبٹنے اور ویکسین کی مفت فراہمی کے اعلیٰ انتظامات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ معیشت کو سنبھلنے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کے لیے جن اقدامات کا تذکرہ اپنے سیاسی ایجنڈوں میں کیا جاتا تھا، ان میں سے کوئی بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا، بلکہ بالکل ان کے الٹ پالیسی نظر آرہی ہے۔ سٹیٹ بنک اور آئی ایم ایف کے معاملات تشویش پیدا…
عربی زبان کا مقولہ ہے تُعْرَفُ اْلاَ شْیَآئُ بِاَضْدَ ادِھَا’’ چیزیں اپنے متضاد سے پہچانی جاتی ہیں ‘‘۔اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کا تصور نا ممکن ہے ۔ برائی کا وجود نہ ہو تو بھلائی کی قدر پہچاننا مشکل ہے ۔ آسمان کی بلندی کا اندازہ زمین کی پستی کو دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح دھوپ چھائوں، امارت و غربت ، دنیا و آخرت ، جنت و دوزخ ۔ یہ سب ایسے الفاظ ہیں جن میں سے ہر ایک ، دوسرے کی وضاحت کرتا ہے ۔ اسلام نے انسان کو جن اخلاق کی تعلیم دی ہے وہ تمام اخلاق حسنہ ہیں ، لیکن خیر ، بھلائی اور حسنات کی صحیح قدر وہی شخص کر سکتا ہے جس نے دنیا میں شر ، برائی اورسیّئات کی قباحتوں کو بھی محسوس کیا ہو۔ اِنّ مَعَ الْعُسِْر یُسْراً۔’’ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ‘‘۔صبر کی انتہا کو پانے کے لیے بے صبری پر قابوپانا ہوگا ۔ شکر کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے نا شکری کے رویوں کو خیر باد کہنا ہوگا ۔ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے کانٹے دار جھاڑیوں سے دامن بچانا ہوگا ۔
آج ہم سچ ( حق) کی فضیلت اور جھوٹ (باطل)…
رسول اللہﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔اور آپؐ کی بعثت کا مقصد بھی وہی ہے جو دیگر انبیاء علیھم السلام کا تھا۔آپؐ کو بھی اللہ تعالیٰٰ نے وہی ابدی پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا تھا کہ : ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے پرہیز کرو‘‘۔ (النحل،۳۶)
گویا کہ آپؐ کوئی نئی چیز نہیں لائے تھے بلکہ اسی پیغام کی تکرار تھی جو پہلے انبیاء لائے تھے، ارشاد الٰہی ہے:
’’یہ ایک ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں میں سے‘‘۔ (النجم،۵۶)
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دین کی دعوت پیش کرنے کے لیے بھیجا تو آپؐ کوئی نیا دین نہیں لائے تھے، یہ وہی صاف ستھرا اور واضح پیغام تھا جو حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیؑ نے پیش کیا تھا۔ اور آپؐ کے ساتھ بھی وہی پیش آیا جو گزشتہ انبیاء کے ساتھ پیش آیا تھا۔ حق کے بیان کے ساتھ ہی آپؐ نے گویا انگاروں پر قدم رکھ دیا تھا۔ اس دعوت کا اقرار کرنے والے کم اور انکار کرنے والے زیادہ تھے۔مکہ کے مترفین نے آگے بڑھ کر اس کا انکار کردیا تو رب تعالی آپؐ کو تسلی دی اورفرمایا:
’’ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو، اور انہیں کچھ…
کتابThe Wastes of Time کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین (1920۔1995)، اعلیٰ پائے کے دانشور ، انگریزی ادب کے استاد اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری پاکستانی وائس چانسلر خود جدی پشتی ’’ بنگالی‘‘ تھے۔ اپنی نوجوانی اور طالب علمی کے زمانے میں پاکستان کی محبت میں گرفتار ہوئے ۔ زندگی بھر حُب پاکستان کی تپش میں جلتے اور پکتے رہے ۔ شکست ِ پاکستان ان کی آرزوئوں اور خوابوں کی شکست وریخت تھی ، جسے وہ زندگی بھر قبول نہ کر سکے اور بالآخر یہ صدمہ سینے سے لگائے اپنے رب کے ہاں چلے گئے ۔کتاب کے اردو ترجمہ ’’ شکستِ آرزو‘‘( منشورات) کا پہلا باب نذرِ قارئین ہے ۔
ابتدائیہ:
میں نے یہ یاد داشتیں 1973ء میں ڈھاکہ جیل میںقلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمن کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا ۔ میںنہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن ۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر 1971ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد در اصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی ۔ ایک طرف تو وہ…
ہم کو درکار ہے روشنی یانبیؐ
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکارہے روشنی یا نبی
ایک شیریں جھلک ، ایک نوریں ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہؤا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی ؐ
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے نا کردہ کار امتی یا نبیؐ
دشمن جاں ہؤا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر ہے پرسیدنی ، صورت حال ہے دیدنی یا نبیؐ
روح ویران ہے ، آنکھ حیران ہے ایک بحران تھا ایک بحران ہے
گلشنوں ، شہروں ، قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گمبھیر افسردگی یا نبیؐ
سچ مرے دور میں جرم ہے ، عیب ہے ، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی ، ایک آزار ہے آگہی یا نبیؐ
راز داں اس جہاں میں بنائوں کسے روح کے زخم جا کردکھائوں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں ، کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبیؐ
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عربؐ تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہو گی شاخ تمنا مری…
پہلی مرتبہ اسے کلاس ہفتم میں پتہ چلا کہ اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت موجود ہے ….. تھوڑی سی کوشش اور بہت زیادہ مطالعہ سے وہ بہت بڑی رائٹر بن سکتی ہے۔
مطالعہ کے نام پر اس نے سکول کی لائبریری سے بچوں کی کتب جاری کروائیں۔پڑوسیوں کے گھر آنے والا بچوں کا اخبار پڑھنا شروع کیا۔اخبار رسالوں سے آگے کی بھی ایک دنیا تھی۔ کوئی سودا سلف سموسے پکوڑے اخبار یا رسالے کے صفحات میں پیک ہو کر آتے تو وہ پڑھے بغیر ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔آہستہ آہستہ سب کو اس کے شوق کا پتہ چل گیا اور عید بری عید پر پیسے دھیلے کے ساتھ کتاب یا رسالہ بھی عیدی میں دے کر سستے چھوٹ جاتے ۔کلاس ہفتم سے پشتم اور اس نے کلاس دہم بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لی۔فراغت کے دنوں میں ایسے ہی رسالہ پڑھتے پڑھتے اس کے ذہن میں کہانی کا اچھوتا سا پلاٹ آیا…..تھوڑا سا جھجھک کر اس نے قلم کاغذ سنبھال ہی لیا …..کچھ لکھتی رہی کچھ کاٹتی رہی ۔لکھتے کاٹتے بیس پچیس منٹ گزر گئے۔ ورق پھاڑے کئی بڑے سے کراس سے برباد کیے ۔اس کے بعد بالآخر یکسوئی نصیب ہوئی اور اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ بچوں…
چناب کنارے ایک بھیڑ تھی۔ موبائلز کے کیمروں سے مسلسل ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں،رخ ان کا دریا کے تیز بہاؤ کی طرف تھا،شور کافی زیادہ اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔سب لوگ دریا کی طرف مسلسل دیکھے جا رہے تھے ،گویا کہ پورا وجود ہمہ تن گوش جیسا کہ کوئی راہب گیان دھیان میں مصروف ہو اور اسے اپنے ارد گرد کی کوئی ہوش نہ ہو۔
مجھے گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ ایک کام کے سلسلے میں جانا تھا۔ جب چناب کے کنارے پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر مختلف برے برے خیالات آنے لگے۔ گاڑی ذرا اور قریب آئی تو دریا کے تیز بہاؤ کے درمیان محسوس ہؤا جیسے کالے رنگ کے لباس میں غوطہ خور تیرتے چلے جارہے ہیں،میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں غوطہ خوری کا کوئی مقابلہ جاری ہے یا پھر کچھ افراد ڈوب گئے ہیں جن کو بچانے کے لئے اتنے سارے غوطہ خور تیرتے چلے جا رہے ہیں۔لیکن اور زیادہ قریب ہونے کے بعد پتہ چلا کہ وہ غوطہ خور نہیں بلکہ کالی بھینسیں ہیں جو سیلاب آنے کی وجہ سے دور دراز کے کسی اونچے علاقے سے بہہ کر پانی کے ساتھ چناب تک پہنچ گئی ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ سوہنی…
عافیہ اگرچہ شکل و صورت کے اعتبار سے غیر معمولی نین نقش یا خدو خال کا کوئی دل رُبا مجسمہ نہ تھی، مگر عقل ، علم، سلیقہ مندی،اور گہرے شعور کے باعث اس نے گھرہی نہیں گائوں بھر کی بزرگ خواتین کوگرویدہ بنا لیا تھا ۔ فطری صلاحیت، جذبہ محبت و حوصلہ اور ولولہ خیر خواہی نے اُسے جس دلاویز شخصیت کا حامل بنا دیا تھا اس نے اسے ایک محبوبیت کے مقام پر فائز کر دیا تھا ۔ شادی کے بعد اس نے عالم دیہاتی دلہنوں کے برعکس اپنی ہتھیلیوں سے رنگِ حنا کے مٹنے کا انتظار کیے بغیر گھر کے سارے کاموں میں ہاتھ بٹاناشروع کردیا تھا ۔ اس کی ساس ( خالہ)اور نندیں حیرت اور مسرت سے اس پر نہال ہونے لگی تھیں ۔ ہر دل عزیز بننے کا یہی گُر ہے ۔ گھر کا معاملہ ہو یا بستی ، شہر یا پورے ملک کا ۔ اگر کوئی فرد ثابت کر دے کہ وہ سب کی ضرورت ہے تو اسے عزت کا مقام ملے گا اور سب اس کے پرستار بن جائیں گے۔
آج اگر عافیہ کو کالج میں اس کی مربی دوست نزہت آکر دیکھتی تو اسے اپنے پڑھائے ہوئے لٹریچر کی اثر انگیزی دیکھ کرفخر محسوس…
گلابی جاڑے کی آمد آمد تھی ۔ شام کو ہلکی سی ٹھنڈک محسوس ہوتی ، مگر دن میں گرمی کا احساس غالب رہتا ، سبک سی ہوائیں گرمی کو الوداع کہنے آتیں مگر کچھ پیش نہ چلتی ۔ایک دن ان نرم نرم سی ہوائوں نے آندھی سے ایکا کرلیا… پھرتندو تیز ہوا کا طوفان ، درختوں ، کمزور چھتوں ، سڑک کے سائن بورڈز کو اکھاڑنے کے در پے ہو گیا شہر کا ساراانتظام بھپری ہوا نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ، سہ پہر کو ہی بازار ، گلیاں سنسان ہو گئے … بجلی دَم سادھے حسب معمول کسی کونے کھدرے میں جا چھپی۔ سائیں ، سائیں کرتی ہوائیں درختوں کی شاخوں کو اِدھراُدھر پٹخ رہی تھیں ۔مٹی کا طوفان بگولوں کی شکل میں در بدر پھر رہا تھا ۔اس شہر خاکی میںآندھی اور گردو غبارکا کوئی موسم نہیں ، ہر وقت ،وقت غبار ہے ۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر نمازی بمشکل اپنے گھروں کو پہنچے … جہاں دروازوں اورکھڑکیوں کے پٹ بے قابو ہوکر سینہ کوبی کررہے تھے ۔ صحن اور برآمدے درختوں کے پتوں سے اٹ گئے۔ مٹی اوردھول نے صحن اداس کر دئیے ۔ گلیوں میں جگہ جگہ پلاسٹک کے بیگ اپنی بے بسی پہ…
جنگل کاٹ دیے گئے۔ زمین ہموار ہو گئی اور گھروں کی بنیادیں ڈال دی گئیں ۔لیکن جنگل کے باسی حشرات بے گھر ہو گئے ۔ ڈیویلپر نے زمین کی صفائی ستھرائی اور حفاظت کے لیے بہت کچھ انتظامات کیے ہوں گے مگر مکڑیوںکا وہ کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔سردیوں میں پھر بھی کچھ امن رہتا مگر گرمیوں کے آتے ہی مکڑیوں کے قافلے اترنے لگتے۔ روشن اور مالی جوان دنوں گھر دیکھتے پھر رہے تھے ، اس گھر کو دیکھا توپھر کسی اور گھرکو دیکھنے کی خواہش سے دستبردار ہوگئے ۔ لیکن ہؤا یہ کہ اس گھر کوگھر کی صورت ملنے کے بعد انہیںاس میں رہتے چند دن ہی ہوئے ہوںگے کہ مکڑیوں سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں ۔ پتہ چلا کہ دوسرے گھروں میں بھی یہی پرابلم چل رہی ہے۔
ایک روز مالی شام میں آفس کے بعد اپنے پرانے سب ڈویژن میں ناز سے ملنے چلی گئی ۔ روشن کو کچھ کام تھا آفس کے بعد اور کہہ گیا تھا کہ دیر سے آئے گا ۔ ناز کا گھر آفس کے راستے میں ہی تھا اور ویسے بھی مالی کو کوئی ایسی جلدی نہیں تھی ۔ کچھ ہی دیر میں باتوں کا موضوع مکڑیاں تھا ۔ ناز کا خیال…
پچھلے ماہ ترکی جانا ہؤا ایک کانفرنس کے سلسلے میں۔
استنبول کے’پل مین ہوٹل‘ میں وقفوں میں استقبالیہ سے متصل اس گیلری کا رخ کرتی جہاں مایہ ناز مصوروں کے فن پاروں میں اہلِ ذوق کی’’ تسکین‘‘ کا سامان میسر تھا۔
آپ کو اکثر پینٹنگز میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے اور وہ عورت کے خدوخال کی مختلف زاویوں سے تصویر کشی ہے۔
ہوٹل کی گیلری میں میرے سامنے جو پینٹنگز تھی اس میں عورت کی پشت نمایاں تھی۔ لکیریں اور رنگ ہی تو ہیں۔
رنگ بھی باتیں کرتے ہیں اور باتوں سے خوشبو آتی ہے۔
اس کی پشت پر نیم کھلے بال تھے اور جسم پر آسمانی ساڑھی، سامنے کئی درخت اور ایک درخت پر گھونسلہ۔
اس نے اپنے ہاتھ یوں اُٹھائے ہوئے تھے جیسے کسی پرندے کو ابھی ابھی آزاد کیا ہو۔
ایک دوسری پینٹنگ میں عورت کا پورا وجود گویا اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا تھا۔وہ آنکھیں جو نم ناک تھیں۔پس منظر میں ٹوٹی ہوئی چوڑیاں تھیں،آسمان پر شفق اور کوچ کرتے پرندے۔
ایک پینٹنگ میں دیہاتی پس منظر کے ساتھ لہنگے اور بلاؤز میں بڑے سے دوپٹے کو بازوؤں کے نیچے سے سنبھالے ہوئے دیہاتی عورت تھی۔ اپنے حجم جتنا گھاس کا گٹھا سر پر رکھے ہوئے سنسان راستےپر چل رہی تھی۔
ایک…
آج پھر جمعرات، جمعہ کی درمیانی شب ہے۔ اماں جانی سے بچھڑے ساڑھے تین مہینے ہو گئے۔ اور مجھے تو ان سے بچھڑے شاید صدیاں ہی بیت گئیں۔ 2015 میں تعلیم کے حصول کے لیے یہاں آئی تھی۔ ’’مجھے تو لگتا تھا حفے‘‘ ( Hefei) راس آ گیا۔ MS مکمل ہؤا تو جہاں اس بات کی خوشی تھی کہ وقت پر ڈگری پوری ہو گئی وہاں یہ خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی کہ پاکستان جانا ہے۔
چار سال کے انتظار کے بعد وہ دن کیسے تھے، الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سارا دن شاپنگ کرتے اور بیگوں کے وزن کا حساب کرتے گزر جاتا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ کی لکھی تقدیر نے ایسا بےبس کیا کہ پاکستان جانے کا پروگرام التوا کا شکار ہونے لگا۔ جون میں جانے کا ارادہ تھا مگر جولائی شروع ہونے تک کوئی پلان فائنل نہیں ہو رہا تھا۔ ایک وقت ایسا آیاکہ لگتا تھا جنوری سے پہلے جانا ممکن نہیں۔ یہاں پھر میری تقدیر نے ایسا بےبس کیا کہ 30 جولائی کو پاکستان گئی، خاندان کے تقریباً تمام افراد سے ملی مگر دل خون کے آنسو روتا رہا۔
وہ 11, 12 جولائی کی رات تھی۔ کچھ دن سے جو بےچینی تھی وہ اس دن عروج پر…
چین کی ایک عدالت نے حال ہی میں طلاق سے متعلق ایک معاملے میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے ایک شخص کو ہدایت کی ہے کہ وہ پانچ سال تک جاری رہنے والی شادی کے دوران بیوی کی طرف سے کیے گئے گھریلو کام کے بدلے میں اس کو معاوضہ دے۔ اس معاملے میں خاتون کو 5.65 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
لیکن اس فیصلے نے چین سمیت دنیا بھر میں ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے۔ چینی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اس معاملے کو لے کر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین گھریلو کام کے عوض معاوضے کے طور پر کچھ بھی لینے کا حق نہیں رکھتی ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب خواتین اپنے کیریئر کے مواقع چھوڑ کر روزانہ گھریلو کام کرتی ہیں تو پھر انھیں معاوضہ کیوں نہیں ملنا چاہیے۔اس سے قبل جنوری کے شروع میں انڈیا کی عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ‘گھریلو کام حقیقت میں خاندان کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ قوم کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اور یہ پہلا موقع نہیں تھا جب عدالتوں نے ’’گھریلو کام‘‘ کو معاشی سرگرمی کے طور پر منظور…
بچے بہت کیوٹ ،ہوتے ہیں بہت شرارتیں کرتے ہیں بہت بھولے بھالے ہوتے ہیں لیکن اپنے نہیں اوروں کے ……اپنے بچوں کی تو پیدائش کا یاد رہتا ہے ، باقی کب بڑے ہوئے،کب کیا ہؤا سب کچھ اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ان کی تعمیری ،تفریحی اور تخریبی سرگرمیاں سب دوسروں کو یاد رہتی ہیں خود ماں باپ کو نہیں……اور اگر جوائنٹ فیملی ہو تو سبحان اللہ،، اللہ بچے تو دیتا ہے مگر بچوں کے بچپن سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونے کا سوچتے سوچتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب بچپن کی حدود سے نکل کر لڑکپن اور پھر نئی زندگی کے میدان میں بھی داخل ہوجاتے ہیں!
یہ تو قدرت نے ہی ایسے مٹھاس بھرے رشتے دے دیے کہ جب بچوں کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو پھر ان کے بچپن سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بھولی معصوم اداؤں پر صدقے واری جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر ہمارے نواسے نواسیاں!
مومنہ محسنہ کی تائی ساس کا انتقال ہوگیا تو افسوس بلکہ تعزیت کے لیے جانا ہوا۔ افسوس تو جدائی کاہوتا ہے لیکن جدا ہونے والے کی زندگی اللہ کی بندگی میں گزری ہو تو یہ جدائی تعزیت اور ایصال…
کوئی بھی ایسا جائزکام جو فرض یاواجب نہ ہو، ایسا کام کرنے سے پہلے جلد بازی کرنے کی بجائے دو کام کرنا سنت ہے :
1۔استخارہ
یعنی اللہ رب العزت سے اس کام کے خیر کے پہلو کی دعا کرنا کہ یا اللہ اگر فلاں رشتے ، کاروبار ، ملازمت وغیرہ میں اگر میرے لیے دنیا آخرت کی خیر ہے تو مجھے نصیب فرما ورنہ مجھے بچا کر کوئی نعم البدل عطا فرما۔
2۔ استشارہ
یعنی اللہ کے بندوں سے اس کام کے متعلق مشورہ کرنا ۔
استخارہ اور استشارہ کی فضیلت سے متعلق مقولہ ہے کہ :
ماخاب من استخار ولا ندم من استشار
یعنی جس نے استخارہ کیا وہ کبھی دھوکے کا شکار نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ کبھی شرمندگی اور پچھتاوے کا شکار نہیں ہؤا۔
چونکہ انسان ہرفن مولیٰ نہیں بن سکتا لہٰذا کچھ امور میں متعلقہ ماہرین سے رائے لینا پڑتی ہے اور اسی کا نام مشورہ ہے۔ قرآن کریم سورہ شوری میں اللہ رب العزت اہل ایمان کی ایک اہم خوبی بتلاتے ہیں کہ’’وامرھم شوری بینھم‘‘ یعنی ان کے آپس کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں ۔
ذیل میں مشورے کے آداب و شرائط ذکر کی جاتی ہیں:
اہلیت
سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ جس شخص سے مشورہ طلب…
اچھے میاں بیوی ہی اچھے والدین بن سکتے ہیں۔
میاں بیوی کا باہمی تعلق جتنا مضبوط اور عزت و محبت پر مشتمل ہوگا وہ اتنا ہی ایک بہترین نسل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ میاں بیوی کا باہمی تعلق اگر اچھا ہو تو یہ تعلق نسلیں سنوار دیتا ہے اور اگر یہ تعلق ناچاقیوں اور لڑائی جھگڑوں پر مشتمل ہو تو یہ تعلق نسلیں بگاڑ دیتا ہے ۔ بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین کا خود تربیت یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اپنے تعلیمی دور میں مجھے ایک استاد محترم کا جملہ خوب صورت لگا تھا جو آج تک میری ڈائری پر لکھا ہوا ہے ۔ ایم فل کیمسٹری کے دوران ایک دن سر کہنے لگے’’اچھے کیمسٹ چاہے نہ بن سکو لیکن اچھے باپ اور اچھی مائیں ضرور بن جانا کیونکہ کیمسٹ کے ہاتھ میں تو صرف ایک طبقہ ہوگا لیکن ایک باپ اور ایک ماں کے ہاتھ میں ایک پوری نسل ہوتی ہے‘‘ ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل میں ایک جوڑے کا میاں بیوی بن جانے کے بعد علیحدہ ہو جانا بے حد مشکل ہے کیونکہ اسرائیل اس بات کو مانتا ہے کہ ایک بہترین نسل کے لیے میاں بیوی کا مضبوط تعلق بہت ضروری ہے…
سال کے آخری مہینوں میں ایک پھل کافی زیادہ نظر آتا ہے جسے جاپانی پھل کے نام سے جانا جاتا ہے مگر اردو میں اسے املوک کا نام دیا گیا ہے، جبکہ انگلش میں persimmon کہا جاتا ہے۔بنیادی طور پر یہ چین سے تعلق رکھنے والا پھل ہے جس کی کاشت ہزاروں سال سے ہورہی ہے اور اب دنیا بھر میں اس کی مختلف اقسام کو اگایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اسے جاپانی پھل کیوں کہا جاتا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جاپان میں اگائی جانے والی اس کی ایک قسم کی بہت زیادہ مقبولیت ہے جو لگ بھگ دنیا بھر میں اگائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے جاپانی پھل کا نام بھی دیا گیا ہے۔
نارنجی یا ٹماٹر جیسا یہ پھل اپنی مٹھاس اور شہد جیسے ذائقے کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور جیسا درج کیا جاچکا ہے کہ اس کی سیکڑوں اقسام اب دنیا بھر میں موجود ہیں، جن میں چند زیادہ مقبول ہیں۔اس پھل کو تازہ، خشک یا پکا کر بھی کھایا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اس کی جیلی، مشروبات، پائی، سالن اور پڈنگ وغیرہ بھی تیار ہوتے ہیں۔
یہ صرف مزیدار ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں نیوٹریشن یا…
قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
کل بتول ملا لیکن اس سے قبل ایک دو افسانے موبائل فون کی سکرین پر لکھے تو کئی محاورے یاد آگئے جیسے موت کو ماسی کہنا …..آبیل مجھے مار وغیرہ وغیرہ۔اصل میں آنکھوں کے لیے روشنی منع ہے اور اندھیرے میں لکھنے کا فن مجھ نکمی کو نہیں آتا بس نتیجہ یہ کہ پڑھنا فی الحال ناممکن ہے وگرنہ بتول آئے اور پڑھ نہ پائوں …..ایسے بھی حالات نہیں!
بتول کے اس شمارے میں فی الوقت تو دو تین تحریریں پڑھ سکی ۔ فائقہ اویس کی تحریر میں بہترین لوازمات موجود ہیں اور پھر موضوع حدود حرم ۔ میمونہ کی میزبانی کے مزے تو فائقہ نے لوٹ لیے۔ کتنا دل خوش کن تصور ہے ایک رسالے میں لکھنے والی رائٹرز کا مل بیٹھنا ! سوچ کر ہی دل خوش ہوگیا۔
دوسری تحریر ڈاکٹر مقبول شاہد کی ہے۔ کہنے کو ماضی کی ایک یاد مگر قیمتی سرمایہ…..نئ نسل کو ان چیزوں کا کیا علم!میری پر زور درخواست ہے کہ وہ اس طرح اپنی چھوٹی چھوٹی یاداشتوں کو بتول میں دیتے رہیں۔مجھے تو کہانی انشائیے سب کا ہی مزا آیا ۔
مجھے ہمیشہ شرمندگی سی محسوس ہوتی رہی کہ میری تحریر پر محترم خواجہ مسعود صاحب بہت محبت اور محنت سے تبصرہ کرتے…
گھر ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان بے فکری سے اپنا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزارتا ہے، گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گھر کوئی لگی بندھی، متعین شکل کی عمارت کا نام نہیں۔ چار دیواری اور چھت کے ساتھ ایک دروازہ ہو تو وہ بھی گھر کہلا سکتا ہے۔ چھت گھاس پھونس کی ہو، دیواریں کپڑے کی ہوں اور ٹاٹ کا ٹکڑا دروازے کا کام دیتا ہو تو وہ بھی گھر ہی ہے۔ کسی بھی جگہ پہ چھوٹا یا بڑا مکان بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے مکین اس مکان کو گھر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مرد اپنے گھر کا مالک و حاکم ہوتا ہے، اور یہ بات معاشرے میں معروف ہے کہ عورت باپ کے گھر میں رہتی ہے، شادی کے بعد وہ شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔ اور اگر باپ اور شوہر نہ رہیں تو وہ بھائی کے گھر میں رہتی ہے۔ جب بیٹے بڑے ہو جائیں تو وہ بیٹے کے گھر میں رہتی ہے۔ عوام الناس (الا ماشاءاللہ) کے رویے یہ تاثر دیتے ہیں کہ
’’عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا‘‘۔
بے شک مرد کے سربراہ ہونے کا تاثر بالکل درست ہے۔ یقیناً مرد ہی عورت کا ’’قوام‘‘ ہے۔ عورت…
قارئین کرام!
ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی رحلت ایک قومی صدمہ ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں محسنِ پاکستان تھے۔انہوں نے پاکستان کے لیے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی جس کو پھر بہت سی شخصیات اور اداروں نے ترقی دے کر وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت بنادیا۔ اس کا اعزاز انہی کے نام آتا ہے، عزت کا یہ مقام اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد اپنے آبائی وطن سے ہجرت کی اور خود کو پکا اور سچا پاکستانی بنایا۔ ملک کو اتنی بڑی دفاعی صلاحیت دینے پر انہیں امریکہ کے حکم پرقوم سے معافی مانگنی پڑی اور پانچ سال کے لیے گھر میں نظربند رہنا پڑا۔ اور یہ اس وقت ہؤا جب پاکستان اپنے مفادات کے بالکل خلاف جاکر امریکہ کی جنگ کا حصہ بنا جو صریحاً ناجائز بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم پر مبنی تھی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ’’ صفِ اول کے اتحادی ‘‘ کو عالمی طاقتوں نے کس ذلت کے مقام پر رکھا ہؤا تھا۔وہ ساری قوم کے لیے بے حد مشکل اور دکھ سے بھرپور وقت تھا۔ مگر اس وقت کی یاد آج بھی ہمارے اجتماعی قومی ضمیر کے لیے ایک تازیانہ ہے۔قوم کا یہ محسن عوام سے بھرپور محبت پانے کے باوجودآخر…
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا جو تمام انسانوں کے لیے ابدی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ کا کلام جبریل امینؑ کے ذریعے محمد رسول اللہ ؐ کے قلبِ اطہر پر اتارا گیا۔اس کی ہر سورت اور ہر آیت ہدایت، نور اور روشنی ہے۔ اس کے پہلے مخاطب رسول اللہ ؐ ہیں اور پھر ان کے ذریعے یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ کلامِ الٰہی کے ہر شذرے کا ایک خاص پس منظر بھی ہے اور موقع و محل بھی۔
رسول اللہ ؐ قرآن کی دعوت لے کر اٹھے تو انہیں دو طرح کے انسانوں سے سابقہ پیش آیا؛ وہ جنہوں نے حق کی پکار پر لبیک کہا اور کاروان ِ حق میں شامل ہو گئے۔ اور وہ جنہوں نے اس کا انکار کیا اور جاہلیت پر جم گئے۔رسول کریم ؐ نے تقریباً ۲۳ برس کی مدت میں قرآن کا پیغام دنیا تک پہنچایا، اور دین ِ اسلام غربت سے نکل کر ریاست اور پھر جزیرہ عرب کے اطراف و اکنار تک پھیل گیا۔
قرآن کریم کی پہلی وحی میں رسول اللہ ؐ کو ’’اقرأ‘‘ (پڑھیے) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور آخری سورۃ (النصر)میں ’’فسبح بحمد ربک واستغفرہ‘‘ (اے نبیؐ، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح…
اللہ کی محبت کیا ہے؟
احادیث سے پہلے ہم کچھ قرآنی آیات کے ذریعے یہ دیکھیں گے کہ اللہ کی محبت سے کیا مراد ہے، یہ کیسی ہوتی ہے اور اللہ کی محبت پانے کی کیا شرائط ہیں، یعنی وہ خوش نصیب کون ہیں جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ محبت فرماتا ہے ۔
اللہ کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے انسان دنیا و مافیہا کی ہر پریشانی اور دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت کے سرور میں انسان دنیا اور اس کی لذتوں سے بے نیازہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت انسان کو دنیا والوں اور ان کی تلخ باتوں سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے۔ یعنی انسان کو پروا نہیں رہتی کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ وہ صرف اللہ کے احکام کو پورا کر کے، اللہ کی محبت حاصل کرنے کی پروا کرتا ہے۔ جس کو اللہ سے محبت ہوتی ہے اس کا دل و دماغ ہمیشہ اللہ کی باتوں اور اللہ کے ذکر میں لگا رہتا ہے۔ وہ اللہ سے ملاقات کے لیے بیتاب رہتا ہے ۔ پھر ایسے شخص کے لیے نماز بوجھ کیوں کر ہوگی (نماز بھی تو اللہ سے ملاقات ہی ہوتی ہے ناں!) پھر اللہ سے محبت کرنے والے…
یہ شہر جو آج مدینۃ النبیؐ، طیبہ، مدینہ منورہ، مدینہ طیبہ اور تقریبا ً دیگر سو ناموں سے موسوم ہے کہا جاتا ہے کہ پہلے یثرب کہلاتا تھا کیوں کہ یہ ’’ حضرت نوحؑ کی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروں میںآباد ہوئی تو یثرب نے اس سر زمین میں قیام کیا ‘‘ ؎۱
ویسے اس روایت کو تقویت عمالقہ کے یہاں مقیم ہونے سے بھی ملتی ہے ۔ حضرت نوح ؑ کی کشتی پر سوار وہ لوگ تھے جو کفر و شرک اختیار کرنے کے بعد بابل سے مدینہ کی طرف آ بسے تھے اور انہوں نے زراعت کے پیشے کو اپناتے ہوئے بکثرت کھجوروں کے درخت لگائے یہ مسام بن نوح کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کا اقتدار حجاز کے کافی بڑے علاقے پر قائم تھا وہ تکبر میں مبتلا ہوگئے ۔ اس وقت ان کا بادشاہ ارقم تھا جب حضرت موسیٰؑ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر و شام کو فتح کیا او ر دیگر علاقوں کی تسخیر کے لیے بنی اسرائیل کو روانہ کیا تو ایک گروہ نے عمالقہ کے تمام مردوں کو بشمول بادشاہ قتل کر دیا او ریہیں آباد ہوگئے اور اس طرح یہود…
شہید حریت سید علی شاہ گیلانی کی زندگی اقبال کے پیغام خود ی کا جیتا جاگتا مظہر تھی ۔ زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’اقبال روح دین کا شناسا‘‘ ؎۱ کے ایک باب میں سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں انہوں نے اقبال کے شہرہِ آفاق فارسی کلام ’’ جاویدنامہ‘‘ کے چند اشعار پر گفتگو کی ہے (ص۔۱)
از ملوکیت جہانِ تُو خراب
تیرہ شب در آستین آفتاب
دانش افرنگیاں غارت گری
دیرہا خیبر شُد از بے حیدری
آنکہ گوید لا الٰہ بے چارہ ایست
فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست
چار مرگ اندر پئے ایں دیر میر
سود خوار و والی و ملاّ و پیر
اقبال بارگاہ ایزدی میں فریاد کناں ہیں کہ تیری یہ دنیا ، انسانوں کی حاکمیت کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو گئی ہے ۔ ملوکیت ، چاہے بادشاہو ں کی ہو یا نام نہاد جمہوریت کے نام پر کسی قوم کی اکثریت کا راج ہو ، دنیا امن وآشتی اورخوشحالی و فراغت سے محروم ، ظلم و استبداد کا شکار ہے ۔ یہ تاریکی میں ڈوب چکی ہے حالانکہ اس کے پاس ہدایت اور رہنمائی موجود ہے ، لیکن وہ اس کو استعمال میں لانے سے کسی نہ کسی بہانے اور عذر سے انحرف کر رہی ہے ۔
مغربی دنیا کی…
سرِ شاخِ نشیمن چہچہانا اور ہے اے دل
کسی کنجِ قفس کو گھر بنانا اور ہے اے دل
ہنسی اہلِ چمن کی بھی نہایت خوب ہے لیکن
پسِ دیوارِ زنداں مسکرانا اور ہے اے دل
کسی دشمن سے پنجہ آزمائی اور ہوتی ہے
کسی کی دوستی کو آزمانا اور ہے اے دل
تعلق کے ہزاروں رنگ ہیں دنیائے ہستی کے
کسی سے عمر بھر رشتہ نبھانا اور ہے اے دل
بھری محفل میں گانا داد پانا خوب ہوتا ہے
تصور میں کسی کے گنگنانا اور ہے اے دل
نہ بن ناصح کہ رزمِ من و تو کی آزمائش میں
خودی کے ساتھ خود کو ہار جانا اور ہے اے دل
چھپا کاغذ کی نائو میں لڑکپن ملنے آتا ہے
شبِ پیری میں ساون رُت کا آنا اور ہے اے دل
وہ تن دہی سے کام میں مصروف تھی۔ اس کا خاوندسلام بن مشکم صبح سے نکلا ہؤا تھا ۔ پر تکلف کھانے کے اہتمام کے لیے اسے کچھ خاص مصالحوں کی ضرورت تھی ۔ اُس نے اُسے یثرب کے آخری کونے میں ایک گمنام جڑی بوٹیوں والے سے زہریلی جڑی بوٹی بھی لانی تھی ۔ اس جڑی بوٹی کا ذکرکسی طبیب سے سنا تھا اس لیے ا س کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آیا ۔ اُس طبیب سے اُس کے گہرے مراسم تھے ۔
جب سے مدینے والا نبی یہاں آیا تھا ، ان کو یثرب کی زمین اپنی نہیں لگتی تھی ۔ جہاں دیکھو، چار آدمی موجود ہیں ، وہیں چہ میگوئیاں ہونے لگتیں ۔ کوئی محفل اللہ کے ذکر سے معمور ہوتی تو کوئی مجلس اس نبی کی مخالفت میں مشورے کرتی نظر آتی اور وہ بھی چپکے چپکے ۔ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے اطمینان کر لیا جاتا کہ اپنے ہی آدمی ہیں۔
یہودی مدینے میں صدیوں سے اپنا کاروبار جما کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پاس تو رات و انجیل تھیں جو الہامی کتب تھیں ۔ عرب بھر میں اُن کی بڑی عزت تھی۔ بڑے بڑے دیوی دیوتائوں کے استھان تھے جن پروہ بڑے…
گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی ہے ۔ یہ ان کی دس بارہ سالہ زندگی کا پہلا سفر ہے۔ شب ہجر نے چاروں طرف سیاہ چادر تانی ہوئی ہے ۔ بڑے بھیا ، بھابھی اور چھوٹی گڈی سے ڈھائی تین سال بڑی بہن کے ہمراہ سفر کا آغاز ہو چکا ہے ۔ دس سال کا عرصہ اماں ابا کے زیر سایہ گزار کر شب تنہائی اور جدائی گلے مل رہی ہیں ۔ بھائی نے اُن دونوں کو اوپر والی برتھ پر سوار کرادیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم نے اب سو جانا ہے ۔ دونوں خاموش اور سراسیمہ ہیں ۔اوپر لیٹ گئی ہیں ۔ گائوں سے چلتے وقت بھائی نے سب کو بتایا تھا کہ آج سے ہر کوئی ان دونوں کو اصلی نام سے پکارے گا ۔ چھوٹی گڈی اور بڑی گڈی نہیں کہے گا ۔ عائشہ اور فاطمہ ، یہی تو ان کے وہ نام تھے جو گائوں کے چوکیدار نے پیدائش رجسٹر میں درج کیے تھے مگر کسی نے پکار کر نہ دیے تھے ۔ بھائی نے اُن کو پہچان دی تھی ۔ اب بڑی عائشہ اور چھوٹی فاطمہ تھی۔
برتھ پر جاتے ہی چھوٹی کو تو گاڑی کے ہچکولوں نے پنگھوڑے کی طرح آغوش میں لے…
بات بات پر لڑائی اور تلخ مزاجی نے گھر کے ماحول کو میدان جنگ بنا دیا تھا ۔عیشہ ابھی تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ گھر کے کس فرد کا موڈ کس بات پر خراب ہو سکتا ہے۔درگزر کرنے پر آئیں تو جلی ہوئی شرٹ، ٹوٹے بٹن ،تیز نمک، جلی روٹی بھی معاف۔پکڑنے پر آئیں تو دروازے پر دو مرتبہ گھنٹی کیوں بجنے دی ،پہلی مرتبہ ہی دروازہ کیوں نہ کھولا پر پچیس پچیس منٹ تند و تیز جملے ، طعن و تشنیع اور کچوکے مار مار کر ہی بندہ پھڑکا دو ۔
تعریف کرنے پر آئیں گے تو پھیکی دال پر بہو کو پانچ سو روپیہ انعام میں دے دیں گے اور نہ کرنی ہو تو شاہی دال ،مرغ مسلم بھی ایسے چپ چپاتے کھا کر اٹھ جائیں گے جیسے مریض پھیکا سیٹھا کھانا کھاتا ہے۔بولنے پر آئیں تو درودیوار سے بھی بولنے کی آوازیں سنائی دیں اور چپ شاہ کا روزہ رکھیں تو برتنوں کی کھنک بھی بے معنی ۔
اور بچے تو بچے ہوتے ہیں ،چچازاد تایا زاد اور اکثر تو پھپھو زاد بھی ادھر ہی پائے جاتے!
لڑائی بھڑائی کہاں نہیں ہوتی ؟ انور صاحب کے ہاں بھی ہوتی تھی خود ہی لڑ تے اور خود ہی صلح صفائی…
’’ میرے پیچھے مت لگو۔ میں نے تم سے کہہ دیا کہ میں مارکیٹ نہیں جائوں گا۔ میرے خاندان کے ایک بزرگ وفات پا گئے اور تم کو خریداری کی سوجھ رہی ہے ۔ مجھے اگر کسی نے بازار میں تمہارے ساتھ خریداری کرتے دیکھ لیا تو لوگ باتیں بنائیں گے کہ دانیال کو رفیع پھوپھا کی موت کا صدمہ نہیں ‘‘۔
وہ رابعہ پر بگڑ رہا تھا ۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ رابعہ کی اکلوتی بیوہ بہن کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی اور اسے اپنی بھانجی کے لیے کوئی تحفہ لینا تھا ۔ اس کی بہن شادی کے کچھ دن بعد ہی بیوہ ہو گئی تھیں ۔ انہوں نے بڑی محنت مشقت اور تنگدستی سے زندگی گزاری تھی ۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی پرورش انہوں نے ٹیوشن پڑھا کر اور محلے والوں کے کپڑے سی کر کی تھی ۔ رابعہ کو اپنی بہن سے بہت زیادہ محبت تھی ۔یوں تو وہ بھانجی کے لیے تحفہ اپنے کسی بچے کے ساتھ بھی جا کر خرید سکتی تھی لیکن وہ چاہتی تھی کہ دانیال نے جو اپنے اوپر خود ساختہ سوگ طاری کر رکھا ہے وہ کسی طرح کم ہو جائے ۔
رفیع پھوپھا سے دانیال کی کوئی قریبی…
محبت سیلابی ریلے کی طرح کم ظرف نہیں ہوتی جو اپنے آپ میں نہ سما سکے اور اچھل کر کناروں سے باہر آجائے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد جوہڑ میں تبدیل ہو جائے !
گرمی اور سردی محض احساس کا نام ہے یا واقعتا کوئی حقیقت ! لیکن حبس کا وجود مسلم ہے ۔ حبس موسم و ماحول میں ہو یا معاشرے میں ! کسی بد دعا کی طرح مسلط ہوتا ہؤا محسوس ہوتا ہے ۔ اول اول کی محبت کی طرح کراچی میں گرمی کا پہلا مہینہ بھی سنبھالے نہیں سنبھلتا، دودن لو کے تھپیڑے چلتے رہے اور آج ایسا حبس کے گھٹن کے مارے سانس لینا بھی محال ہو رہا تھا ۔ گھر گویا اینٹوں کا بھٹا بنا ہؤا تھا ۔ ذرا شام ڈھلی تو موسم اچانک خوشگوار ہو گیا ۔ کراچی کا بھی عجیب موسم ہے شام ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دن بھر کی سختی کو بھگالے جاتے ہیں، شاید جبھی یہ شہر بڑے بڑے صدمات جھیل جاتا ہے ۔
ہمارا گھر شہر کے مضافات میں الگ تھلگ واقع خوبصورت بستی میں تھا ۔ شہر کی مصروف ترین زندگی سے نکل کر شام کو گھر واپس پہنچتے تو لگتا تھا کہ وقت نے اپنی رفتار کم…
عروج بیوٹی پارلر میں اس وقت کام عروج پر تھا۔ روزی، روبی، تانیہ سمیت تقریباًسب ورکرز ہی مصروف تھیں۔ کچھ خواتین اپنی باری کا انتظار کررہی تھیں۔ عروج ریسپشن پر بیٹھی کال اٹینڈ کررہی تھی۔
’’ہیلو جی! آپ کل صبح11بجے تک آجائیں۔ ‘‘
اس کاانداز پروفیشنل تھا۔ جیسے ہی فون رکھتی پھر کال شروع ہو جاتی۔ سامنے ٹیبل پر کمپیوٹر رکھا تھا جوبھی کال آتی وہ لوگوں کو ٹائم دے کر کمپیوٹر پر اندارج کردیتی۔ آج ریسپشن پر بیٹھنے والی عافیہ غیر حاضر تھی لہٰذا عروج کو اس کی جگہ سنبھالنی پڑ رہی تھی۔ پارلر میں آج رش زیادہ تھا۔4بجنے کے بعد تو روزانہ ہی ایسا رش ہوتاتھا جو کہ رات دس بجے تک جاری رہتا۔
عروج بیوٹی پارلر کا ایک نام اور مقام تھا۔ خواتین اس کی کارکردگی سے مطمئن تھیں اور یہاں سے کام کروانے کو باعثِ فخر سمجھتی تھیں۔
’’ہیلو‘‘اچانک پھر کال آئی’’ جی آپ کا نام؟‘‘
’’میرا نام آسیہ ہے۔ میں نے آپ سے دلہن میک اپ کے لیے ٹائم لیا ہؤاہے‘‘۔
’’تو؟‘‘عروج نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔
جواب میں خاموشی رہی۔
’’پھر بی بی آپ کیا چاہتی ہیں؟‘‘ عروج قدرے جھنجھلائی۔
’’میں آپ کو بتادوں؟ نہیں،میں دراصل آپ کی اونر سے ضروری بات کرنا چاہتی ہوں‘‘۔
’’کیاضروری بات ہے؟‘‘ساتھ ساتھ میل چیک کرنے لگی۔
’’اس کے…
مسجد النبوی شریف کی زیارت سے بہت اطمینان ہؤا ۔اگرچہ پہلی بار اس قدر سناٹا اور خالی سڑکیں دیکھی تھیں، لیکن پھر بھی بے حد سکون ملا اور مدینہ شریف کی اپنی رونق ہر لحظہ محسوس ہوتی رہی۔ طیبہ شریف ہر حال میں بارونق اور خوبصورت لگتا ہے۔ ہمیں تو ایک بڑی کمینی سی خوشی بھی ہو رہی تھی کہ ہم نے کم لوگوں کی وجہ سے مدینہ شریف کو خوب اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔
وبا کے مضر اثرات اور اقتصادی خسارے کا اندازہ تب ہؤا جب سب بازار اور ہوٹل بند دیکھے۔ وبا کے پہلے پانچ مہینوں میں سوائے ہسپتال کے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ تیسرے دن ہم مدینہ شریف سے رخصت ہوئے اور واپسی کے سفر میں قصیم رکے، جہاں میمونہ حمزہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے کھانے پر بہت اہتمام کر رکھا تھا، اور اپنی دوستوں کو بھی ہم سے ملنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ ہمیں ان سب سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ سب بالکل ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ ان کی کچھ دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اگلے دن ان سب نے ہمارے ساتھ ناشتے کا پروگرام بھی بنا رکھا…
ماموں کے گھر جانا ہوا۔ ان کی بیٹی نے اصلی مرغیاں پال رکھی ہیں۔صبح ہی صبح شور اور آواز یں۔۔۔ کزن سے پوچھا خیر تو ہے ۔ کہنے لگی آج ان کا ڈربہ کھولنے میں دیر ہو گئی۔وہ احتجاج کر رہی تھیں۔
دوپہر میں ایک اور تجربہ ہوا ۔ انھوں نے مرغی ذبح کرنے کا سوچا۔ان میں سے ایک کو پکڑنے کے لیے تین افراد نے کوشش کی۔ وہ کبھی دوڑنے لگتیں کبھی چھلانگ لگا دیتیں۔کبھی درخت پر چڑھ جاتیں۔ بمشکل ایک پکڑی گئی۔پوچھا اتنی متحرک کیسے ہیں۔کراچی کی مرغیاں تو اٹھ بھی مشکل سے پاتی ہیں۔ہنسنے لگیں، باجی یہ فارمی نہیں اصلی مرغیاں ہیں۔
تب مجھے اپنی سہیلی کی بات یاد آئی۔ بچوں کے معا ملے میں سستی برداشت نہ کرتی تھیں۔اکثر کہتیں مجھے ان کو معاشرے کے لیے فارمی چوزے نہیں بناناکہ ذرا تلخی برداشت نہ کر پائیں، اپنے پاؤں پر چلنا بھی دوبھر ہو ۔نہ ہی سہولیات کا عادی بنانا ہے کہ مشینوں کےغلام بن کر رہ جائیں اور کچھ نہ ملنے پر پوری زندگی خود ترسی اور احساس کمتری کی نظر کر دیں۔ انھیں سخت جان اور پر اعتماد بنانا ہے۔احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے ان کے اندر۔
اس کی بات کا اثر تھا کہ میں نے بھی…
’’بارش کے بعد‘‘منشورات کا شائع کردہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب پر سلیم منصورخالد، فرزانہ چیمہ اورصائمہ اسماءجیسی قدآور شخصیات کے تبصرے قیمتی اثاثہ ہیں۔
مجموعہ کا پہلا افسانہ ’’شام و سحر تازہ کریں ‘‘شگفتہ اسلوبی سے لکھی تحریر بہت پراثر بھی ہے جو دوران مطالعہ قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔ پرانے زمانے کی خوبصورت منظرکشی پڑھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔ تاریخی، تہذیبی اور سماجی قدروں کے ذکر نے تحریر میں جان ڈال دی ہے۔ بڑی بڑی حویلیاں، باغ، جھولے، اور پھول پودے، برآمدہ و تخت اور تخت پر دادی اماں اور ان کا پاندان وغیرہ یہ تمام باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں۔ وفا اور حیا کا بڑے خوبصورت پیرائے میں ذکر، پاکیزہ جذبوں کی حقیقی ترجمانی، مغربی تہذیب سے متاثر اولاد کی بے حیائی اور بے اعتنائی پر بحیثیت باپ عبد الرحیم مرزا کا ملول ہونا، ان سب قصوں میں حقیقت کا رنگ نظر آیا۔ ہر پہلو سے یہ ایک شاہکار تحریر اور بہترین افسانہ ہےجو افسانہ نگار کی فن پہ گرفت کا ثبوت دے رہا ہے۔
’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی ‘‘یہ کہانی آپ کی پاکستان سے دلی محبت اور اس کی تاریخ سے گہری وابستگی کا مظہر بھی ہے۔ آپ نے مشرقی…
آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان
(ڈاکٹر ممتاز عمر ، کراچی)
وائے قسمت دید کو ترسیں گی آنکھیں عمر بھر
بن کے ابرِ خوں فشاں برسیں گی آنکھ عمر بھر
آپ کے طوفانِ غم میں ہر سفینہ بہہ گیا
اب میری تقدیر میں رونا ہی رونا رہ گیا
ڈاکٹر عبد القدیر خان اس عظیم ہستی کا نام ہے جسے محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ۔ ایسے بلند پایہ لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ انتہائی خوش مزاج ، ملنسار اور بے لوث انسا ن تھے ۔ میں چونکہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہوںاس لیے درس و تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خدمت کے کاموں میں بھی مصروف رہا کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم تھا اس لیے گزشتہ رمضان المبارک کے دوران انہوں نے مجھے فون پر مشورہ دیا تھا کہ میں ایک این جی او قائم کر کے رجسٹر کروالوں تاکہ تاجروں اور صنعتکاروں سے مالی تعاون کے حصول میں آسانی ہو سکے ۔ مگر میں نے جب انہیں بتایا کہ محترم تنظیم کو رجسٹر کروانے اور پھر اس کا آڈٹ کروانے کے لیے جو رشوت دینی ہو گی وہ میرے لیے ممکن نہیں تو وہ اک آہ بھر کے رہ گئے ۔ مجھے خوب…
میں روز ایک نیم سرکاری ادارے میں ایکسرسائز کرنے جاتا ہوں‘ یہ اپرکلاس کا ادارہ ہے‘ اس کے نوے فیصد وزیٹرز پڑھے لکھے اور خوش حال لوگ ہیں لیکن میں روز دیکھتا ہوں اس ادارے میں بھی لوگ سیڑھیوں سے دائیں اور بائیں دونوں سائیڈز سے بھی آتے اور جاتے ہیں‘ میں یہ تماشا سال بھر دیکھتا اور اگنور کرتا رہا لیکن پھر میں نے سوچا‘ ہو سکتا ہے یہ لوگ اس بنیادی اخلاقیات سے واقف نہ ہوں لہٰذا مجھے ان لوگوں کو سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کا طریقہ بتانا چاہیے۔
مجھے بھی یہ اخلاقیات لوگوں نے سکھائی تھی اور یہ علم اب آگے پھیلانا میری ’’ذمے داری‘‘ ہے چناں چہ میں اب روز لوگوں کو روکتا ہوں اور انھیں نہایت عاجزی کے ساتھ‘ تین مرتبہ معذرت کر کے عرض کرتا ہوں جناب چلتے ہوئے اور سیڑھیاں اترتے ہوئے ہمیشہ بائیں جانب (لیفٹ سائیڈ) رہنا چاہیے‘ رائٹ سائیڈ (دائیں جانب) آنے والے لوگوں کے لیے ہوتی ہے‘ میرا خیال تھا لوگ میری مداخلت پر ناراض ہوں گے لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا لوگ اس پر نہ صرف میرا شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ فوراً لیفٹ سائیڈ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔
مجھے اس سے معلوم ہؤا ہم…
ڈاکٹر مقبول شاہد ۔ لاہور
اکتوبر۲۱ء کے چمن بتول میں محترمہ نجمہ یاسمین یوسف کی ایک غزل شائع ہوئی ہے ۔ اس غزل میں جب میں نے یہ شعر پڑھا:
الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
تو مجھے اپنی زندگی کا 1940ء کے عشرے کا زمانہ یاد آگیا جب میں ابھی چھوٹا سا بچہ تھا اور ابھی سکول میں بھی داخل نہیںہؤا تھا ۔ میرے دادا جان چوہدری رحیم بخش مرحوم مجھے گھر پر ہی پڑھنا لکھنا سکھاتے تھے اور اس کے ساتھ خوش خطی پر بہت زور دیتے تھے ، اور مجھے اس کی مشق کراتے تھے ۔ وہ خود فارسی زبان کے عالم بھی تھے اور کلام سعدیؒ اور فارسی شاعری سے انہیں خاص شغف تھا ۔ لکھنا سیکھنے کے لیے اس زمانے میں لکڑی کی تختی اور سر کنڈے کے قلم کا رواج تھا ۔ روشنائی کے لیے بازار میں کالی سیاہی کی پُڑیاں ملتی تھیں جنہیں پانی میں حل کر کے شیشے کی دوات میں ڈال لیتے تھے ۔خوش خطی کی مشق کے لیے دادا جان مجھے تختی کی پہلی سطر میں فارسی کا درج ذیل مصرع لکھ دیا کرتے تھے جسے میں نیچے کی سطروں میں بار بار لکھ…
تعلیم کی ابتدائی جماعت سے ہی سب جانتے ہیں کہ کامیاب ہونے اور اگلے درجے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی ایک یا زیادہ لازمی مضمون میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہر مضمون کے امتحانی پرچہ میں کوئی ایک سوال لازمی حل کرنا ہوتا ہے۔
زندگی بھی ایک امتحان ہے اور جسمانی یا روحانی طور پہ زندہ رہنے کے لیے کچھ امر لازمی ہیں۔ جسم کی مشین میں دل وہ لازمی پرزہ ہے جس کے حرکت میں نہ رہنے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
روح بھی دل کے سہارے قائم و زندہ رہتی ہے۔ روح کو زندہ رکھنے والا دل بھی اِسی دھڑکتے اور خون پمپ کرنے والے دل سے ہی منسلک ہے۔ مگر دھڑکتا دل زندہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی بنا پر انسان کو تندرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ دل جو روح کو زندہ رکھتا ہے وہ بیمار ہو، کام کرنا چھوڑ دے، زنگ لگ جائے، سیاہ ہوجائے، یا مُردہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی مشین اس کی حالت زار کا عکس پیش نہیں کر سکتی۔ بظاہر زندہ انسان، مُردہ روح کے ساتھ پھرتا ہے…… اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورہ الاعراف 179 میں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت…
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
حیاتِ دنیا کی حقیقت
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
نبی ﷺ پر درود کی فضیلت
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
جب دین مکمل ہؤا
محمد الیاس کھوکھر
وسیع البنیاد حکومت ‘‘کے مطالبے پر کچھ خیالات
ڈاکٹر اعجاز اکرم
امریکی فوجی یہ تو بتا
روبینہ فرید
غزل
نجمہ یاسمین یوسف
نذرانہ
قانتہ رابعہ
جھیل اور پرندہ
شاہدہ ناز قاضی
بڑھاپا!
ڈاکٹر شاہدہ پروین
دم ساز
آسیہ عمران
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
ڈاکٹر فائقہ اویس
ادھوری سی عید
عامر جمال
الیکٹرونک شرار
عالیہ حمید
میرے نبیؐ، میرے نبیؐ
ڈاکٹر خولہ علوی
زندگی میں ناکامی اور کامیابی
فیصل ظفر
بیگم صاحبہ کے چودہ نکات
انجینئر ریاض احمد اُپل
محشر خیال
افشاں نوید ,
پروفیسر خواجہ مسعود
دروازہ
ڈاکٹر بشری تسنیم
ڈپریشن
جاوید چودھری
قارئین کرام!سات اکتوبر کو جبکہ افغانستان پر ناٹو کے حملے کو پورے بیس برس ہورہے ہیں، یہ خوش آئند بات ہے کہ افغانستان کی سرزمین نہ صرف حملے کی اس بیسویں سالگرہ پردشمن کے ناجائز قدموں سے پاک ہے بلکہ اب ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پہ وہاں عبوری حکومت کے اعلان کے بعد قدم بہ قدم حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بیالیس سالہ بدامنی، جنگ، قتل و غارت گری، تباہی اور بربادی کے بعدبہت ہمت چاہیے اس تھکن کو ایک طرف رکھ کے تعمیر نو کرنے میں، ایک عرصہ چاہیے نارمل زندگی کی طرف آنے میں۔اس ملک اور اس کے رہنے والوں پر جو گزری، سب کچھ بھلایا نہیں جا سکتا البتہ صبر کیا جا سکتا ہے مگر صبر کا مرہم کارگر ہونے کے لیے بھی وقت چاہیے۔
ابھی کچھ دن لگیں گے!
دل ایسے شہر کے پامال ہوجانے کامنظر بھولنے میں
جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک سب سرو و صنوبر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے!
پاکستان کے لیے بھی صورتحال کچھ کم نازک نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان اس ناجائز جنگ میں اپنے مفادات کے خلاف جاکر امریکہ کا اتحادی بنا،جبکہ ہمیشہ اس دوران بھی پاکستان کا یہ موقف رہا…
دنیا کی زندگی کا آغاز حضرت آدم ؑ کے زمین پر قدم رکھنے سے، اور اختتام آخری انسان کی موت اور قیامت کا وقوع پذیر ہونا ہے۔یہ اس دنیا کی طبعی عمر ہے۔ اس میں ہر انسان کی دنیا اس کی پیدائش سے موت تک کا سفر ہے۔ حدیث ہے: جس کی موت آگئی اس کے لیے وہی قیامت ہے‘‘۔ دنیا کی زندگی انسان کے لیے امتحان گاہ ہے۔ یہ دکھوں کا گھر بھی ہے اور نعمت کدہ بھی! یہ کسی مخلوق کے لیے بھی ابدی قیام کی جگہ نہیں ہے، بلکہ ایک مستقر ہے۔ عارضی ٹھکانا جس میں مسافر سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے کچھ وقت ٹھہر کر سستا لیتا ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ایک پلیٹ فارم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی جس میں کسی کی گاڑی جلد آ جاتی ہے اور کوئی دم بھر تاخیر سے رخصت ہوتا ہے۔
حیاتِ دنیا کا لغوی مفہوم
جب کوئی شے بالکل قریب ہو تو اس کے بیان کے لیے ’’دنی، ادنی، اور دنا‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ادنی مشکل زندگی لیے بھی آتا ہے، اور اسفل یعنی گھٹیا زندگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ، ۶۱)اسی طرح یہ اکبر کے مقابلے میں اصغر یعنی چھوٹے کے مفہوم میں…
’’ بلا شبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔(احزاب56)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ملاء اعلیٰ میں اپنے حبیب کے مقام عالی کو بیان فرما رہے ہیں کہ وہاں یعنی ملاء اعلیٰ میں خود ذات باری تعالیٰ اور اس کے مقرب فرشتے نبی ؐ پر درودبھیجتے ہیں ۔لہٰذا عالم دنیا کے ساکنین کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی صلوٰۃ و سلام بھیجیں تاکہ آسمان والے اور زمین والے سب ہی مل کر رسول اکرمؐ پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کریں ۔ اس طرح آسمان وزمین میں آپؐ کا خوب چرچا اور آپ ؐ کے عالی مرتبت کا ذکر ہوتا رہے ۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے :
اللہ کی طرف سے جب رسول اللہ پر صلوٰۃ ہو تو اس کے معنی رحمت کے ہیں اور جب فرشتوں کی طرف سے ہو تو اس کے معنی استغفار کے ہیں۔اللھم صلی علیٰ محمد کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ اے اللہ محمد ؐ کے مقام کو بلند فرما ‘‘۔ دنیا میں آپؐ کی تعظیم سے مراد یہ ہے کہ آپ کا دنیا میں آواز ہ بلند ہو رفعت…
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
جب دین مکمل ہؤا
حیاتِ پاک کا وہ حصہ جومدینہ میں گزرا، انسانیت کے لیے ابدی رہنمائی کا الہامی نصاب مکمل کر گیا ۔ سیرت النبیؐ سے ایک جھلک
خدا حافظ مکہ
تحریک اسلامی اب ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی مکہ کے لگائے ہوئے زخموں پرمرہم رکھنے کے لیے مدینہ دیدہ ودل ِفرشِ راہ کیے ہوئے تھا ۔ یثرب جو بیماریوں کا گھر تھا ۔ مدینہ النبی بن کر وادی نا پر ساں مکہ کے دیے ہوئے دکھوں کو نبی آخر الزماں کی راحتوں میں بدلنا چاہتا تھا ۔ مدینہ کے پاکیزہ چہرے پر جب نظر پڑتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ مدینہ شیطان کی دسترس سے محفوظ کوئی بستی تھی جو ہر آنے والے مہمان کے بے تاباں استقبال کی خورکھنے والے انسانوں سے آباد تھی۔
مکہ سے ہجرت اگر اہل مکہ کا دیا ہؤا آخری وہ غم ہے جو انہوں نے حضور ؐ کو دیا تو یہی ہجرت وہ پہلا قدم بھی ہے جو اسلام کو کامیابی کی آخری منزلوں تک لے کر گیا ۔ ہجرت مدینہ سے نہ صرف حضور ؐ کو پہنچنے والی اذیتوں کا باب بند ہو گیا ۔ بلکہ انسانیت پر راحتوں کے دروازے…
’’وسیع البنیاد حکومت ‘‘کے مطالبے پر کچھ خیالات
اور طالبان کی خدمت میں چند گزارشات
(آج کل جب کہ افغان عبوری حکومت کے قیام پر افغانستان کے یورپی اور ایشیائی پڑوسی ملک کچھ خاص خوش نہیں ہیں کیونکہ ہر طرف سے ایک وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، یہ مضمون انتہائی جداگانہ تجزیہ پیش کررہا ہے جس میں چار دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔’’سٹرے ٹیجک کلچر‘‘ ویب سائٹ کے شکریہ کے ساتھ اس کا ترجمہ قارئین بتول کے لیے پیش کیا جارہا ہے)
ذرا تصور کریں کیا ہوتا اگر:
نئی عوامی جمہوری حکومت بناتے ہوئے فرانسیسی انقلابیوں سے تقاضا کیا جاتا کہ وہ لوئی چاردہم کی بادشاہت کے عناصر کو بھی حکومت میں برقرار رکھیں تاکہ ایک all inclusive حکومت بن سکے؟
امریکی انقلابیوں کو کہا جاتا کہ سلطنت برطانیہ کے وفاداران کو نئی امریکی جمہوریہ کا حصہ بنائیں تاکہ ’’سب کی شمولیت‘‘ ہو؟
بالشویک روسیوں پر دباؤ ڈالا جاتا کہ زارشہنشاہیت کا تختہ الٹنے کے بعد انہی زاروں کے نمک خواروں کو حکومت میں رکھیں تاکہ حکومت وسیع البنیاد ہو سکے؟
چیئرمین ماؤ سے توقع کی جاتی کہ خونی انقلاب کے بعد کوئےمنتانگ کو بھی نئے سیٹ اپ کا حصہ بنایا…
امریکی فوجی یہ تو بتا
جب آیا تھا، کیا سوچا تھا
اب جاتے سمے، ترے دل میں ہےکیا
امریکی فوجی یہ تو بتا
جو تجھ سے پہلے آئے تھے
وہ سرخ سویرا لائے تھے
وہ سرخ سویرا چھا نہ سکا
وہ ملک ہی آخر ٹوٹ گیا
کیا یاد نہیں تھا وہ قصہ
امریکی فوجی یہ تو بتا
نیو ورلڈ آرڈر کانعرہ لیے
جنہیں سبق سکھانے آیا تھا
دہشت گردی کے خاتمے کو
دہشت برسانے آیا تھا
دہشت میں آخر کون آیا
امریکی فوجی یہ تو بتا
ترے ساتھ تھیں نیٹو کی فوجیں
اور آہن و آتش کا انبار
ترے سامنے پتھر دور کے لوگ
اور پتھر دور کے ہی ہتھیار
وہ کیوں جیتے تُو کیوں ہارا
امریکی فوجی یہ تو بتا
تجھے زعم تھا اپنی خدائی کا
اُنہیں زعم تھا اپنی گدائی کا
تُو اپنی ترقی پر نازاں
اور ان کی خودی ان کا ایماں
پھر کون گرا؟ پھر کون اٹھا؟
امریکی فوجی یہ تو بتا
یہ جنگ ازل سے جاری ہے
ہر دور میں اک مچھر کے سبب
نمرود نے جنگ یہ ہاری ہے
اب اس میں تمہاری باری ہے
تاریخ سے تُو نے کیا سیکھا ؟
امریکی فوجی یہ تو بتا
سب جنگ تری اک جھوٹ پہ تھی
جس جھوٹ نے سب برباد کیا
ترے ہاتھوں پہ معصوم لہو
کیا اس وحشت کو یاد کیا؟
کبھی دل اپنا نادم پایا؟
امریکی فوجی یہ تو بتا
جب اپنے مُلک میں جائے گا
کیا ان سب کو تُو بتائے گا
کیا اپنے…
غزل
جاں سے سوا عزیز دیانت قلم کی ہے
سچائی جو بھی ہے وہ امانت قلم کی ہے
طوفان بن کے اٹھتے ہیں لفظوں کے پیچ و خم
ہر موجِ فکر زندہ کرامت قلم کی ہے
الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
بے شک خیال و جذبہ و حالات ایک ہوں
سرقہ کرے کوئی یہ اہانت قلم کی ہے
لکھا ہو سات پردوں میں چھپ کر کسی نے کچھ
سب بھید کھول دیتا ہے عادت قلم کی ہے
آزار دینے والے نہ مضموں اگر لکھیں
پائیں گے سرخروئی ضمانت قلم کی ہے
اے یاسمینؔ لوح و قلم کی ہیں برکتیں
جو کچھ بھی آج ہم ہیں عنایت قلم کی ہے
شادی سے پہلے تو سب لڑکیوں کی زندگی ہی عیش کی ہوتی ہے مگر ماہا کی تو موج مستی کی دنیا تھی ۔ابا دوبئی میں مقیم تھے ۔اماں بہن بھائیوں،نندوں دیوروں میں سب سے بڑے بھائی کی بیوی ۔یعنی اماں اپنے میکہ میں سب سے بڑی اولاد اور ابا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی اولاد۔آپ کہہ سکتے ہیں رب نے ملائی جوڑی ۔
نہ نہ آگے کچھ مت کہیے ……اماں ابا دونوں ہی بڑے ذمہ دار قسم کے انسان تھے ۔اماں نے سسرال میں آتے ہی نئی نئی مرحومہ ساس کی جگہ اتنی عمدگی سے لی کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔
یوں ابا کے دوبئی جانے کے بعد ابا کی ذمہ داریاں بھی ان کے سر پر آن پڑیں ۔پیر کو سودا سلف لاتیں، منگل کو کپڑوں کی دھلائی کا کام ، انہیں الگنی پر اتنی خوبصورتی اور عمدگی سے پھیلاتیں اور اتار کر تہہ لگاتیں کہ استری کرنے کی کم کم ہی نوبت آتی۔
بدھ کم سدھ ۔یوں بڑے کاموں کی تکمیل بروز بدھ جمعرات کے دن وہ باورچی خانے کی نذر کرتیں ۔سمجھیں لنگر ہی بناتیں محلے میں اور اریب قریب کے رشتہ داروں میں بھیجتیں خواہ دال چاول ہی کیوں نہ ہوں۔
جمعہ بہت اہتمام سے ،مرد گھر…
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں عیدالفطر اور عید الاضحٰی۔ عیدالفطر رمضان کے مہینے کے بعد یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔اور عید الاضحٰی دس ذی الحجہ کو۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بہترین دن دس ذی الحجہ ہے‘‘ (الجامی 1046)۔
کیونکہ اس دن میں بہت سی عبادات اکٹھی کی جاتی ہیں جو سال کے کسی اور دن میں نہیں کی جاتیں۔جیسے کہ:
جمرات کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر منڈوانا، طواف، سعی اور عید کی نماز۔
جو مسلمان پورا مہینہ اللہ ’’تعالیٰ کی عبادات اور فرمانبرداری میں مشغول رہ کر اس کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹتے ہیں ان میں سے بیشتر چاند رات کو ہی ان سب پہ پانی پھیر دیتے ہیں۔چاند رات کو خریداری اور سڑکوں پہ ہلے گلے میں وہ نماز اور اخلاق سب بھلا دیتے ہیں اس کی وجہ یا تو لاعلمی ہے یا کوتاہی۔اس لیے آج ہم عیدالفطر کو بمطابق سنت منانے کے طریقے جانتے ہیں۔
1: غسل
’’علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے غسل کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا۔ اگر تم چاہو تو روز نہا سکتے ہو۔لیکن جمعہ، عرفہ کے دن اور عید الفطر پہ ضرور غسل کرو۔’’…
آج کی دنیا کا سنگین مسئلہ
ماحولیاتی تحفظ کے لیے شجر کاری کی اہمیت
ماحولیاتی کے تحفظ کے لیے پیڑ پودوں کابنیادی اور اہم کردار ہے ان میں زہریلی گیسوںکو تحلیل کر کے آکسیجن فراہم کرتے ہیں سبزہ زار علاقے ہر جاندار کے لیے صحت بخش ہوتے ہیں اورفرحت افزا بھی ، ہرے بھرے علاقے میں جو روحانی سکون اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے وہ کسی جگہ نہیں ہو سکتا، اس لیے اسلام نے شجر کاری اور زمینوں کی آباد کاری کی بڑی ترغیب دی ہے ۔فضائی آلودگی کو کم کرنے میں ہرے بھرے درختوںاورپیڑ پودوں کابنیادی کردار ہے ، اسی لیے متعدد روایات میں پیڑ پودے لگانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ حضرت خلاد بن السائب ؓ، حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ، حضرت ابوالدرداؓاور حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ؐ کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا۔
’’اگر قیامت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے گاڑ سکتا ہے تو اسے گا ڑدینا چاہیے‘‘۔
’’ جس نے پودا لگایا اور وہ ثمر دار ہو ا تو ہر پھل کے بدلے میں اسے اجر ملے…
اور پھر وہ وقت آیا کہ ملک میں امن و امان تھا ۔ لوگ جو ق در جوق اسلام قبول کر رہے تھے ۔ ارشاد ربانی ہؤا ’’ جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور نبیﷺ تم دیکھ لو کہ فوجدر فوج لوگ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرواور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔
حضور اکرم ؐ کے حصے کا کام تکمیل کو پہنچ رہا تھا ۔ زکوٰۃ ، جزیہ سود کی حرمت کے احکامات ناخوذ ہو چکے تھے 10ھ ذیقعد کے آخری ہفتے میں آپ ؐ مدینہ سے روانہ ہوئے م۔ مکہ پہنچ کر مناسک حج کی ادائیگی کے لیے عرفات کی طرف روانہ ہوئے یہ 9ذالحج کا دن تھا ایک اذان دو تکبیروں کے ساتھ نماز ظہر و عصر ادا کی ۔ اس موقع پر آپ ؐ قصویٰ (اونٹنی) پر سوار ہوئے اور ارشاد فرمایا۔
’’ لوگو ! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں ، تمہارا خون اورتمہارا مال ایک دوسرے پر…
غزل
ہنس کے طوفاں کو ٹالتے رہیے
رنگ ہر سو اُچھالتے رہیے
اپنے دل کے حسین جذبوں کو
لفظ و معنی میں ڈھالتے رہیے
زیست کے بیکراں سمندر سے
سچ کے موتی نکالتے رہیے
پھیل جائے نہ تیرگی ہر سو
زخمِ دل کو اُجالتے رہیے
درد و غم کے اُمڈتے طوفان کو
دل کے دریا میں ڈالتے رہیے
علم و دانش چھپی ہوئی شے ہے
لمحہ لمحہ کھنگالتے رہیے
بارِ غم تو متاعِ ہستی ہے
یہ امانت سنبھالتے رہیے
با کرامتؔ ہے یہ سخن گوئی
اس روایت کو پالتے رہیے
کرامتؔ بخاری
غزل
کہاں دل کو اتنا تھا حوصلہ مری بات بیچ میں رہ گئی
ترے سامنے رکھوں مدعا مری بات بیچ میں رہ گئی
میں جو دیکھتا، نہیں دیکھتا، جو نہ دیکھتا، مجھے دیکھتا
یونہی وقت سارا گزر گیا مری بات بیچ میں رہ گئی
اٹھا اپنی بات بتا کے وہ، گیا اپنا درد سنا کے وہ
میں تو رہ گیا اسے روکتا مری بات بیچ میں رہ گئی
کبھی لے کے جب بھی چراغ مَیں، گیا، اپنا بزمِ ایاغ میں
مجھے دل کا داغ دکھا دیا مری بات بیچ میں رہ گئی
کہا میں نے درد سناؤں کیا تجھے دل کا راز بتاؤں کیا
سنی بات میری تو ہنس پڑا مری بات بیچ میں رہ گئی
کہا مدعا، وہ ہنسا، پہ کیوں، سبب اس سے پوچھتا، راہ میں
وہ ملا تو کب مجھے ہوش تھا مری بات بیچ…
وبا کے دو گزشتہ برسوں کی یاد میں کچھ احساسات نظم ہوئے)
مکالمہ تو خدا سے تھا بس
خدا کے عہدِ وفا سے تھا بس
قبولیت تھی اسی کے آگے
اور اس سے ہٹ کےجو بات بھی تھی
اسی تسلسل کا مرحلہ تھا
اسی تکلم کا سلسلہ تھا
جو التجا تھی جو مشورہ تھا
سوال تھا جو دلیل تھی جو
کوئی تھا دعویٰ کہیں تھا شکوہ
اسی تخیل سے مل رہا تھا
کہیں تڑپنے کا واقعہ تھا
کسی کے لٹنے کا سانحہ تھا
کسی کے مٹنے کا ماجرا تھا
(اور اس پہ گریائے دل زدہ تھا)
اسی سے کہنے اسی سے سننے کا اک یقیں برملا رہا تھا
جو دل دکھا تھا
سوال پھر اب کسی سے کرتے
جواب خواہ اب کہیں سے آئے
دراصل اس سے ہی مل رہا تھا
مطالبہ تو رضا کا تھا بس
اسی سے ملتی عطا سے تھابس
اسی کی سچی پنہ سے تھا بس
مکالمہ تو خدا سے تھا بس
خدا کے عہدِ وفا سے تھا بس
عطائے رب کی ثنا سے تھا بس
کراچی شہر میں آباد ہوئے انہیں عشروں کا عرصہ گذر چکا تھا ۔
ابتدا میں جب وہ یہاں آئے تھے تو پلے میں کچھ ہی روپے تھے۔ اسٹیشن کے قریب ایک نچلے درجے کے ہوٹل میں ایک چھوٹا کمرہ کرایہ کا لیا۔کمرے کے ساتھ غسل خانہ نہیں تھا وہ باہر مشترکہ تھا آج کے عبد الصمد صاحب نے کل اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا ۔پلے جو پیسے تھے انہیں بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا تھا ۔
دو دن تو سوچ بچار میں ہی لگائے ۔
اسٹیشن کے ہوٹل سے نکل ادھر اُدھر آوارہ گردی کی لوگوں کو دیکھا پرکھا راستوں کو جانا صبح کا ناشتہ گول کر کے دوپہر کو بارہ بجے چھپر والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ۔ اور پیٹ پوجا کر کے دوبارہ ہوٹل کے تنگ کمرے کا رخ کرتے۔
کچھ دیر قیلولہ کرتے اور ذرا دھوپ کے ڈھلتے ہی دوبارہ باہر کارخ کرتے۔ سڑکیں ناپتے ہوئے کبھی کسی فٹ پاتھ پربیٹھ جاتے ۔ زن زن جاتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے چکرآنے لگتے تواٹھ کھڑے ہوتے۔ کسی دوکان میں اے سی چل رہا ہوتاتوضرور شوق میں داخل ہوتے ۔ کچھ نہ لینا ہوتا لیکن پھر کچھ چیزوں کی قیمتیں معلوم کرکے کچھ ٹھنڈی ہوا کی سانسیں لے کر باہرنکل…
زبدہ بیاہ کے سسرال میں داخل ہوئی تو بہت سی چھوٹی چھوٹی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ ماں کی ایک عادت جہیز میں لے کر آئی تھی۔
اسے کم گوئی کی عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت کے وقت الفاظ منہ سے نکالنا سکھایا گیا ۔البتہ ضرورت نہ ہو تو وہ کئی کئی گھنٹے منہ بند ہی رکھتی تھی۔
شادی بخیر و عافیت ہوئی۔ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے سے لے کر ہزار مسائل میں سسرال کا مزاج الگ ہی تھا ۔
زبدہ کی سلجھی فطرت ،اخلاق حسنہ اور دین سے شغف نے اس میں برداشت کا مادہ وافر مقدار میں پیدا کردیا تھا ۔مزاج تو سگی بہنوں کے بھی فرق ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادہ پریشان نہیں بلکہ پر امید ہی تھی
شادی شدہ زندگی کو دس ہفتے گزرے تھے جب ساس نے بآواز بلند اس کا نام لے کر پکارا ۔
’’جی امی جان‘‘ ،وہ پل بھر میں تابعداری سے حاضر ہوئی ۔
’’مجھے پتہ چلاہے فروہ تمہاری رشتہ دار ہے ‘‘،انہوں نے سوال کیا تھا یا بتایا تھا زبدہ کو اندازہ نہیں ہو سکا۔
’’کون فروہ ؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئی ۔
ساس کے منہ پر روز روشن کی طرح طنزیہ مسکراہٹ نے جھلک دکھلائی ۔
’’تمہارے بڑے بھائی کی سالی…..‘‘کچھ کچھ چبھتا سا…
وہ والہانہ انداز میں بیت اللہ کے گرد چکر لگا رہی تھی ۔ ہر چکر کے اختتام پر وہ حجراَسود کو استیلام کرتی اور پھر اللہ یار کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے حجراَسود کی کتھئی پٹی سے آگے بڑھ جاتی۔
مطاف اس وقت زائرین سے بھرا ہؤا تھا ۔ بیت اللہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود تھا ۔ طواف میں بے پناہ رش ہونے کے باوجود خیراں نے کوشش یہی کی تھی کہ ہر چکر میں وہ بیت اللہ کی دیوار کو چھو کر محسوس کر سکے ۔ اللہ کے گھر کو ہاتھ لگا کر اس کے روئیں روئیں میں کرنٹ سا دوڑ جاتا تھا ۔ پھر ایک عجیب قسم کی ٹھنڈک روح میں اُتر جاتی ۔ اس احساس کے ساتھ کہ اس نے اپنے اللہ کو چھُو لیا ہے ۔ وہ اینٹوں کے بنے ہوئے اس چوکور گھر میں اللہ کو موجود پاتی تھی ۔ اسی لیے طواف کرتے ہوئے اللہ سے قریب ہونے اور اس بھوری دیوار کو چھونے کی کوشش میں وہ کئی مرتبہ کُچلی گئی ۔ اس کے پیر کے تلوے زخم زخم تھے ۔ سانسیں رُک رُک گئیں ۔ اللہ یار اُسے پیچھے سے کھینچتا مگر وہ جذباتی ہو کر پھر آگے…
میں میٹرک میں تھی جب مجھ سے بڑی بہن کی منگنی ہو گئی۔اس کے منگیتر کی آمد پہ وہ گھر میں چھپتی پھرتی لیکن ہونے والے جیجا جی کی نظریں اسے ڈھونڈ ہی لیتیں۔بہت مرتبہ میری منت سماجت بھی کرتے کہ بس پانچ منٹ کے لیے بات کروا دو۔ میں نے بہت مرتبہ ان سے آئس کریم کھائی، گفٹس لیے بلکہ یہ کہیں کہ انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔لیکن کمال بھائی بھی کمال کے انسان تھے۔ آپو کی بس ایک جھلک کےلیے ہر ہفتے گھنٹوں کا سفر کر کے آجاتے۔
خیر آپو جیسی خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی کے لیے کم از کم اتنا پیار کرنے والا ساتھی تو بنتا تھا!
کمال بھائی اپنے گھر میں سب سے بڑے تھے۔انکے والد صاحب جب وہ میٹرک میں تھے تب وفات پاچکے تھے۔باپ کی وفات کے بعد انہوں نے دن رات ایک کرکے اپنے والد صاحب کے کاروبار کو سنبھالا اور اب وہ اپنے چھوٹے سے شہر کے ایک جانے پہچانے انسان تھے جن کی وجہ شہرت ان کی بہترین کاروباری ساکھ اور ایمانداری تھی۔
آپو کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ میرے بابا نے اس کی شادی پہ کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آپو شروع سے ہی بہت سگھڑ، کم گواور خوبصورت تھیں۔ میں خوبصورتی…
سوتے سوتے اچانک ہی ان کی آنکھ کھلی تھی ۔کمرے میں اندھیرا تھا ۔ گھڑی کی سوئی کے ساتھ ان کے ذہن میں بھی خیالات کی یلغار آنی شروع ہوئی تھی ۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئیں تھیں ۔ جاتی سردیوں کے دن تھے ۔ موسم میں تبدیلی آ رہی تھی ۔ کسی وقت ہلکی سی خنکی محسوس ہوتی ۔ انہوں نے لیٹے ہوئے چھوٹی زینیہ سے چادر ڈلوائی تھی ۔ انہوں نے آہستہ سے چادر اپنے اوپر سے سرکائی ۔ باہر کمرے سے اب بھی باتوں کی دھیرے دھیرے آوازیں آ رہی تھیں ۔ کھلے دروازے سے روشنی ایک لکیر کی صورت میں کمرے کے اندر تک آ رہی تھی۔ انہوں نے چند لمحے اس پیلی لکیر کو دیکھا ۔ زندگی بھی اسی طرح گھپ اندھیرے کی مانند ہو چکی تھی ۔ ارشد صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد زندگی بھی محدود ہو گئی تھی۔ بس یہ اولاد ہی تھی تاریکی میں روشنی کی لکیر کی مانند لیکن اب یہی روشنی نا امیدی کی علامت بن رہی تھی ۔ انہوں نے گہرا سانس لیا۔
’’ تم دونوں رہو خاموش‘‘ لیکن میں نہیں رہوں گی ، امی کو تو دبا لیا ، وہ کہیں بھی تو کیا لیکن مجھے …‘‘دھیرے…
اس شام جب وہ اپنی ماں سے لڑ جھگڑ کر چودھری صاحب کے ڈیرے پر پہنچا تو اس نے دیکھا بڑے چودھری صاحب دلدار حسین اپنے بیٹے کو سمجھا رہے تھے ۔ بیٹے اب تم شہر میں اپنی آمدو رفت کم کردو اور دوسرے گل چھرے بھی ختم کر دو کیونکہ اگلے سال وہ اسے الیکشن میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے بیٹے سے کہا تمہاری ذرا سی غلطی اخباروں کومل گئی تو وہ ایسی ہوا دیں گے کہ الیکشن لڑنا مشکل ہو جائے گا ۔ چوہدری صاحب تھوڑی دیر رک کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولے ۔ فیکا کہاں ہے ؟ ادھر سرکار…یہاں ادھر ہوں۔ فیکا اپنی جگہ کھڑا ہوگیا ۔چودھری صاحب نے فیکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ خیال رکھا کر چھوٹے سر کار کا ۔ اگر کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو تیری چمڑی ادھیڑدوں گا ۔ فیکا گھبرا گیا ۔ اس سے پہلے چودھری صاحب نے ایسی بات کبھی نہیں کہی تھی ۔ وہ حیرت سے نظریں جھکائے خاموش کھڑا تھا ۔ بڑے چودھری سمجھدار اور گھا گھ بندے تھے ۔ اسے خاموش دیکھ کر بولے اوئے ! تو تو ساتویں جماعت پاس ہے ، اپنے یار کا خیال رکھا کر، سمجھ گیا…
رشّو کو آج نانی اماں کی باتیں بہت بری لگی تھیں۔ شاید اس لیے کہ وہ اب بڑی ہوگئی تھی۔ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جب بچوں کو دوسروں کی روک ٹوک بری لگتی ہے۔ وہ اپنے بارے میں کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ اس لیے لوگوں کی نظروںسے اوجھل رہ کر راستے بدلتے رہتے ہیں۔
یہی حال رشّو کا تھا۔وہ اپنے اوپر زیادہ توجہ دینے لگی تھی۔ بال کیسے بنائے جائیں،کپڑوں کا فیشن، جوتوں اور چوڑیوں کی میچنگ،آنکھوں میںکاجل،ہلکی سی لپ سٹک بھی،اٹھنے بیٹھنے اورچلنے کے انداز۔ بس نانی اماں کو رشّو کی یہی ادائیں ناپسند تھیں۔ بلکہ انہوں نے کچھ زیادہ ہی روک ٹوک شروع کردی تھی۔
آج آپا کی شادی تھی۔ رشو نے بیوٹی پارلر سے بال بنوائے۔ اچھے اچھے کپڑے، لمبے لمبے بندے پہنے۔ ابھی وہ اپنے سراپا کو آئینے میں دیکھ ہی رہی تھی کہ نانی اماں کی نظرپڑی۔
’’رشو ادھر تو آئو۔ میں بھی تودیکھوں۔‘‘
یہ سنتے ہی رشو نے نانی اماں کو سلام کیا اوران کے گلے لگ گئی، بڑی خوش ہوکر بولی’’ نانی اماں میں کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘
’’بھئی تم تو ہو ہی اچھی لیکن سرپر یہ گھونسلا نہ ہوتا تو اوراچھی لگتی۔‘‘
’’ارے نانی اماں! اس پر میں نے500روپے خرچ کیے ہیںآپ اسے گھونسلا کہہ…
اللہ کی نگاہِ کرم کے بغیر کوئی کام تکمیل کو نہیں پہنچتا اورجن پر اللہ کی نظر کرم ہو وہ دنیا کے خوش نصیب انسان بن جاتے ہیں۔ڈیلی نیوزامریکہ سے نہال ممتاز نے دل خوش کن تحریر بھیجی ہے ۔ ایمان سے آگہی کا یہ سفر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہدایت صرف اسے نصیب ہوتی ہے جوہدایت کا طالب ہوتا ہے وہ مسلمان خوش نصیب ہیں جنہیں اللہ نے مسلم گھرانوں میں پیدا کیا اور پھر ایمان ، حقانیت اور ہدایت کی نعمت سے مالا مال کیا۔
اس مضمون میں ہالی وڈ اوربالی وڈ کے ان فنکاروں کا ذکر ہے جنہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی عاقبت سدھارلی( یہ الگ بات کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اور کیا نہیں )۔
مقبولیت ، شہرت اوردولت کی چکا چوند والی شوبز کی دنیا اکثر لوگوں کی عقل پر پٹی باندھ دیتی ہے ۔ ہالی وڈ میں اسلام کی روشنی سے منور ہونے والوں میں نمایاں ترین نام مصری ادا کار عمر شیرف کا ہے جسے عموماً عمر شریف پکارا جاتا ہے انہوں نے شوبز کیرئیر کا آغاز 1953ء میں ایک مصری فلم میں ادا کاری سے کیا اپنی عمدہ ادا کاری کی بدولت…
ہماری شادی کو تقریباً پانچ برس ہو چکے تھے، ہم نئے نئے مظفر آباد سے راولپنڈی شفٹ ہوئے تھے۔ ہمارا گھر میکے سے چند گلیاں دور تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، اور ہمارے پھوپھی زاد سعید بھائی جان بھی چھٹیاں گزارنے چلاس سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ اتنے عرصے بعد چند گھر اتنے قریب آ گئے تھے۔ دستر خوان پر کسی کو اپنے گھر کا کھانا پسند نہ آتا تو چپکے سے یا ہلکے اعلان کے ساتھ ہمارے ہاں آ جاتا کیونکہ ہمارے میاں صاحب خوش خوراک بھی تھے اور مہمان نواز بھی! جب عین کھانے کے وقت دروازے کی گھنٹی بجتی تو صاف ظاہر ہوتا کہ یہ ہمارے ودود بھائی ہوں گے، جو ایم ایس سی کے دوران دو برس ہمارے ساتھ مظفرآباد بھی رہ چکے تھے۔ کبھی ان کے ہمراہ ٹیپو بھی ہوتا، اور کبھی ان کے پیچھے باسط بھی نمودار ہوتا۔
ایک روز ہم ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ پھوپھی زاد سعید بھائی جان آگئے، وہ بازار جا رہے تھے۔ ہمارے میا ں بھی ساتھ چل پڑے۔ جاتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ ’’باسط کے ہاتھ کھانا پکانے کا سامان بھجوا دوں گا‘‘۔
کچھ ہی دیر بعد باسط آ گیا، اس کے ہاتھ میں ایک شاپر میں…
اب وہ دورگزر چکا ، جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا بچے پٹ کر بھی بالآخر کندن بن کر نکلتے تھے
گزرے وقتوں میں بچوں کی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ اس وقت ظہور پذیر ہوتا جب چھ سات برس کی عمر میں روتے مچلتے چیختے چلاتے بچوں کو بڑے بھائی یا چچا ڈنڈاڈولی کرتے ہوئے پہلے روز اسکول لے جاتے ،دن بھر گلیوں میں کھیل کود کا عادی بچہ جب اسکول کی قید اور ماسٹر یا مولوی صاحب کی مار دیکھتا تو قدرتی طور پر ابتدا میں مزاحمت کرتا پہلے روز مولوی صاحب کو ’’شروع کرائی‘‘ نذر کی جاتی اور بچوں میں شیرینی تقسیم کی جاتی۔ رفتہ رفتہ بچہ خود ہی بغل میں بستہ مار کر ہاتھ میں کالی سیاہی کی مٹی کی دوات اور تختی لیے اسکول جانے کا عادی ہو جا تا۔نئے ہمجولیوں کے ساتھ ماسٹر جی کی غیر موجودگی میں خوب شور بر پا رہتا۔
بزرگوں کو وہ پہلی پہلی ماسٹر جی کی مار تو ضرور ہی یاد ہوگی ،جب نا تجربہ کار نئے نئے بچوں کی سیاہی سے بھری دوات میں قلم ڈبونے سے اس میں پڑا پھونسٹراقلم کی نوک میں اٹک کر باہر گر پڑتا اور بچھا ہوا ٹاٹ ،فرش، دیواریں اور ہاتھ پیر…
صحت مند زندگی کا آغاز
آج کے مادیت پسند دور میں جہاں مشینوں کے استعمال نے زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں انسان کو سہل پسند بنا دیا ہے۔اس کے نتیجے میں کئی مسائل پیدا ہوئے جن میں موٹاپا قابل ذکر ہے۔
موٹاپا اب ایک عالمی وبا بن چکا ہے اور کئی بیماریوں کی جڑ ہے اور کئی بیماریوں کی ابتدا کرتا ہے جن میں کولیسٹرول بڑھنا، شوگر، برین ہیمبرج، امراضِ قلب، فالج، لقوہ، گٹھیا، سانس پھولنا، وغیرہ شامل ہیں۔ گزشتہ سال کی تحقیق کے مطابق موٹاپے سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔
حکیم محمد ادریس لدھیانوی فاضلِ طب و الجراحت فرماتے ہیں: ’’وزن کو اعتدال سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے۔ ہمارے وزن کا ہر اضافی پونڈ ہماری زندگی کا ایک حصہ ہم سے چھین لیتا ہے‘‘۔
دبلا پتلا یعنی سمارٹ اور پرکشش نظر آنا سبھی کا خواب ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔سمارٹ لوگوں کےلیے بھی ضروری ہے کہ وہ وزن برقرار رکھنے کے لیے اپنا خیال رکھیں تاکہ وزن دوبارہ نہ بڑھے۔
اس مضمون میں آپ کے ساتھ بہت سی مفید اور آزمودہ ٹپس شیئر کی جا رہی ہیں جن پر عمل کر کے آپ با آسانی وزن کم…
’’ چمن بتول ‘‘ ماہ مئی 2022ء بغور شوق سے پڑھا ۔ اس بار اداریہ میں مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا لہجہ خاصا سخت اور تلخ ہے ۔ آپ نے پاکستان کے مفادپر ست اور موقع پر ست سیاستدانوں کو کھری کھری سنائی ہیں اور کیوں نہ سنائیں ، ہمارے ملک کی سیاست ہی ایسی ہے ۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ عمران خاں سے لوگوںنے بہت امیدیں باندھ لی تھیں کہ شاید اب ایک نیا صاف ستھرا پاکستان ابھر کر سامنے آئے لیکن آہستہ آہستہ پر امید بھی دم توڑنے لگی کیونکہ عمران خان کی ترجیحات بد ل گئیں اور وہ نام نہاد جیتنے والے گھوڑوں کی طرف مائل ہو گئے ۔ آپ کے یہ جملے نہایت قابل غور ہیں ’’ کپتان ایک مضبوط ٹیم کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا اور انہوں نے اپنی ٹیم کے انتخاب میں انتہائی حماقت کا مظاہرہ کیا … پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا بھی مضحکہ خیز فیصلہ کیا ‘‘ اللہ کرے پاکستان کے سیاستدان ذاتی مفاد ، اقربا پروری ، بد عنوانی اور کرپشن سے پاک ہو کر پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خدمت کریں تبھی پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق…
۲۰۱۱کے جلسے کے بعد عمران خان صاحب کی سیاسی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا تھا۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک جلسے کرنے شروع کیے جن میں وہ سیاسی میدان کے حریفوں پربلند آہنگ تنقید کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے ان کے بیانات اور انٹرویوز میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی پالیسی پرکڑی تنقید حاوی ہوتی تھی۔ مگر مزے کی بات یہ کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو سید منور حسن کا بولا ہؤا سچ گوارا نہیں ہؤا تھا، اس کو عمران خان کی اس تنقیدسے کبھی کوئی مسئلہ نہ ہؤا۔اس پر فریقین میں سے کس کو داد دینی چاہیے اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔بہر حال اپنے سیاسی کیریئر کے اس اہم دور کے آغاز پر خان صاحب نے دونوں بڑی پارٹیوں پر جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت کھلم کھلا تنقید شروع کی۔ ان کی تنقید کا محوران سیاسی عناصر کی کرپشن، منی لانڈرنگ،سیاسی فاشزم، امریکہ اور بھارت کی خوشنودی کی طلب،اور برا طرز حکومت تھا۔ اس تنقید میں وہ ان جماعتوں کے لیڈروں کے نام لے کرللکارا کرتے تھے۔ یعنی او فلاں ں ں۔۔۔۔
ان کے اس برہنہ (Brazen)اندازِ گفتگو کو ابتدا میں حیرت بھری ناگواری سے دیکھا گیا، کیونکہ…
انسان کے اندر خود اعتمادی ہو تو وہ ایک کامیاب اور مثالی شخصیت مانا جاتا ہے۔ اپنی ذات پہ بھروسہ یا اپنی قابلیت کا یقین خود اعتمادی کہلاتا ہے۔ لیکن درحقیقت خود اعتمادی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمت اور حوصلہ اور پختہ خیال ہے جو کسی بھی چھوٹی یا بڑی مہم کو سر انجام دینے کے لیے کسی فرد میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ منزل کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔ بےشک انسان کی قوتِ ارادی کو دوام اور ثبات بخشنے والی صفت ’’توکل علی اللہ‘‘ ہے۔
’’پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 159)
دراصل خود اعتمادی کا وصف’’اعتماد علی اللہ‘‘ سے نشوونما پاتا ہے۔
اگر قرآن و حدیث کی رو سے دیکھیں تو خود اعتمادی دراصل اللہ تعالیٰ پہ توکل کرنا ہے۔ انسان کی ہر وہ سوچ جو اسے کسی عمل پہ ابھارتی ہے وہ توکل علی اللہ سے حُسنِ عمل میں تبدیل ہوتی ہے۔
توکل علی اللہ وہ قرآنی صفت ہے جس کی بدولت ایک نہتّا شخص پوری قوم سے اپنا آپ منوا لیتا ہے۔ اور اس سے قربِ الٰہی کی مزید راہیں…
قارئین کرام!
سلام مسنون
کورونا کی نئی قسم تو اب نئی نہیں رہی، بلکہ اب’’ نیا نارملــ‘‘ بن گئی ہے۔البتہ یہ بات اچھی ہے کہ وائرس پھیل جانے کے باوجود اموات کی تعداد گزشتہ لہر کی نسبت بہت کم ہے ۔بیماری کا امکان ہے مگرجان کا خطرہ خاصا کم ہو گیا ہے۔
اس ماہ کی اہم خبر یہ ہے کہ اہل کراچی اپنی بات منوانے میں کامیاب رہے۔ حافظ نعیم الرحمان اور ان کے سپاہی مبارک باد کے قابل ہیں جو دن رات، سردی بارش، گھر کاروبار، ہر مجبوری پس پشت ڈال کر ڈٹ گئے کہ کراچی کو اس کا حق دلوا کررہیں گے۔ ٹلتے بھی کیسے! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس شہر کو سنوارا ہے، لسانیت سے بالاتر اورتعصب سے پاک ہوکر خدمت کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ یہ بھتہ لینے اور بھارت کی ایجنٹی کرنے والوں کے مقابل بھی ہمت سے کھڑے رہے، اور شہر کی تعمیروترقی کے فنڈ اپنی جیبوں میں بھرنے والوں کو بھی بے نقاب کرتے رہے۔ بروقت عوام کی آواز بنے اورشہر کے مفادات پر کسی بھی سمجھوتے سے، کسی بھی لالچ فریب اور دباؤ سے انکار کیا۔ عزیزہ انجم کی خوبصورت نظم ان باہمت لوگوں کے نام:
جو کھڑے رہے جو ڈٹے رہے
جو بکے…
اللہ رحمن ورحیم ایسی ہستی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے۔اس کی رحمت پوری کائنات میں پھیلی ہے اور کائنات کے ہر ذرّے کو اس کی رحمت کا حصّہ ملتا ہے، اور ہر ایک کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔سارے جہاں میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دنیا میں جس کے پاس بھی صفتِ رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے۔ اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے اسے کسی مصلحت اور ضرورت کے تحت عطا کی ہے۔جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی مخلوق کے لیے جذبہء رحم پیدا کیا ہے، اس لیے کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمتِ بے پایاں کی دلیل ہے۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص۴۵۹)
رحمت اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ، وہ فرماتا ہے:
’’اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیںاور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم ہے‘‘۔ (فاطر،۲)
اللہ کی رحمت ،عطا کرنے میں بھی ہے اور روک لینے میں…
سیرت نگاروں نے اپنی کتب میں زاد المعاد کے حوالے سے رسول اللہﷺ کی اُم معبدؓ کی مرتب کردہ ایک جامع لفظی تصویر دی ہے ۔
’’ پاکیزہ رُو، کشادہ چہرہ ، پسند یدہ خُو، نہ پیٹ باہر نکلا ہوا ، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، زیبا ، صاحبِ جمال ، آنکھیں سیاہ و فراخ ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ، بلند گردن ، روشن مرد مک، سر مگیں چشم ، باریک و پیوستہ ابرو ، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ ،گویا دلبستگی لیے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شریں و کمال حسین ۔ شیریں کلام ، واضح الفاظ ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ۔ نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی زیبندہ نہال کی تازہ شاخ ، زیبندہ منظر والا قد ، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں ۔ جب وہ کچھ کہتا ہے توچپ چاپ سنتے ہیں جب حکم دیتا ہے تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں ۔ مخدوم ، مطاع ، نہ کوتاہ…
حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ مدینہ کی ایک عورت نے حضورؐ کے پاس آکر زنا کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں حاملہ ہوں۔ حضورؐ نے ان خاتون کے ولی کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اورجب اس کا بچہ پیدا ہوجائے تو مجھے خبر کرنا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپؐ نے حکم دیا تو ان کے کپڑے ان کے بدن کے ساتھ باندھ دیے گئے پھر آپؐ نے رجم کا حکم دیا اور ان کو رجم کر دیا گیا ۔ پھر آپؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ؐ آپ ہی نے اس کو رجم کیا اور پھر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ۔ حضور ؐ نے فرمایا اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ میں سے 70 اشخاص پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو جائے ۔ کیا تم اس سے زیادہ افضل توبہ کا تصور کر سکتے ہویعنی کہ انہوں نے اپنی جان اللہ کے لیے دی۔(مسلم کتاب الجدود ، ابو دائود ،کتاب الجدود)
اس حدیث مبارکہ میں مدینہ کی پاکیزہ سوسائٹی کی ایک جھلک دیکھی جا…
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر بیچا
ہندو ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیر بیچنے سے لے کر آج کے کشمیر تک کی یہ داستان اس جنت نظیر خطے پر ٹوٹنے والے مظالم کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ وضاحت کے لیےکہیں کہیں واوین میں ضروری اضافے کیے گئے ہیں۔ مدیرہ
یہ کہانی سنہ 1846 کی ’امرتسر سیل ڈِیڈ‘ کے تحت کشمیر کی ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کو فروخت، ان کے مظالم اور پھر جموں اور کشمیر کی شاہی ریاست کے قیام کی ہے!
کشمیر کن شرائط پر بکا اور اس کےکشمیریوں پر کیا اثرات پڑے، یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں تین سو چھبیس قبل مسیح میں میسیڈونیا سے آنے والے سکندر اور سائیتھئینز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے بھی شامل تھے۔
کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب ’راجترنگنی‘ میں ملتی ہے،…
جو یونہی روٹھ گئے ہوں انھیں منائیں کیا
نہ چاہتے ہوں اگر دل سے مسکرائیں کیا
ہمارے دل میں تمہارے سوا نہیں پہ یہ دل
جو دیکھنا ہی گوارہ نہیں دکھائیں کیا
اگر ہے بات میں سچائی لکنتیں کیسی
یہ اوپرا لب و لہجہ یہ آئیں بائیں کیا
قبول ہیں سبھی اچھی بری صفات ہمیں
کریں گے صرف تری لے کے ہم بلائیں کیا
ہزارعیب ہیں ہم میں، نہیں ہے تم میں کوئی
’’ہمارے پاس بھی ہے آئینہ دکھائیں ‘
وہ بے وفا ہی سہی ہم وفاؤں کے خوگر
وہ ہم کو بھول گئے ہیں تو بھول جائیں کیا
بس ایک تو ہی نہیں جانِ بزم بزم میں کیوں
ہر ایک سمت مچی ہے یہ سائیں سائیں کیا
محبتوں کا سمندر تو بے کنارہ ہے
کہ چاہتوں کی بھی ہوتی ہیں انتہائیں کیا
حبیبؔ وقت تھا سب تھے، گیا گئے، کہو اب
پلٹ کے دیکھ رہے ہو یہ دائیں بائیں کیا
بہتات
درد کو سہنا مشکل تھا یا بے دردی کو
جسم وجاں پہ بیتنے والے
دونوں ہی آزار بہت تھے
(کچھ تو گھاؤ کے بھر جانے میں
ساماں بھی درکار بہت تھے)
زہریلی سی آب و ہوا میں
خوابوں کے کچھ پھول کھلے تھے
اور رستے پر خار بہت تھے
درد کا دارو کیا مل پاتا؟
چارہ گر لاچار بہت تھے
زخم جہاں کی بات کریں کیا
ہندسہ ہندسہ گننے والے
جذبوں سے بیزار بہت تھے
سچائی تھی یہ بھی کیسی
پھیل رہی تھی بھوک کی شدت
لذت کے انبار بہت تھے
پتھریلی سی اس دنیا کو
کوئی بہت ہی دور نہ جانے
وحشت قلت ہیبت کیا کیا
برکھا رت جو تھی اس میں بھی
طوفانی آثار بہت تھے
بچگانہ سی کچھ باتوں نے
بختِ سیہ تعبیر کیا ہے
بحرانی تاریخ کی لوح پہ
بحرانی کردار بہت تھے
’’امی آسیہ آئی ہے بہت پریشان لگ رہی ہے‘‘ ،نازیہ کی بیٹی نے اندر کمرے میں بیٹھی ماں کو اطلاع دی۔
’’کون آسیہ؟ یہاں تو آسیہ نام کی درجن بھر جاننے والیاں ہیں‘‘۔ انہوں نے بیٹی کو جواب دیا ۔
’’اوہو…..امی کیا ہوگیا ہے ‘‘آسیہ ’شمیر کی بہن‘جو دو سال تک ہمارے ہاں کام کرتے رہے ہیں پھر دونوں اچانک کام چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے ،نازیہ کی بیٹی سمیرہ نے کہا:
’’آسی آآآ…… وہ کیسے آگئے اچانک جب ہم سب بھول بھلا گئے ‘‘۔انہوں نے پاؤں میں چپل اڑستے ہوے کہا :
’’مجھے نہیں معلوم،خود پوچھ لیں جا کے ہر مرتبہ اس کی رنگ برنگی داستان ہی ہوتی ہے……کبھی ابا مر گیا کبھی اماں کی ٹانگ ٹوٹ گئی کبھی کچھ کبھی کچھ‘‘۔سمیرہ نے بیزاری سے کہا۔
آسیہ دروازے کے باہر رکھے سٹول پر بیٹھی تھی ۔چہرہ بجھا ہؤا ، ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئیں، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ،کہاں بارہ من کی دھوبن اور کہاں چوسے آم کی گٹھلی جیسا منہ اور سوکھی چمرخ ۔
’’آسیہ؟‘‘نازیہ بیگم پہلی نظر میں تو پہچان ہی نہیں پائیں ۔اگر سمیرہ نے اس کی آمد کی خبر نہ دی ہوتی تو شاید بالکل ہی نہ پہچان سکتیں۔
نازیہ بیگم کو دیکھ کر آسیہ کھڑی ہوگئی۔
’’سلام بی بی جی…
گھنٹے دنوں میں دن مہینوں میں اور مہینے سالوں کا روپ دھار رہے تھے۔ یہ گزرتے ماہ وسال حاجرہ کی پریشانی میں بتدریج اضافہ کر رہے تھے۔ پریشان کیوں نہ ہوتی شوہر سر پر نہیں تھا۔ خود بھی بڑھاپے کی منزلیں پار کر رہی تھی۔اولاد میں صرف بیٹے ہی تھے لیکن ان کی شادی کی فکر تو دامن گیر تھی۔ باپ کی غیر موجودگی نے ماں کے دل میں اور زیادہ احساس ذمہ داری پیدا کر رکھا تھا۔وہ جلد از جلد اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ یہ اس خاتون کی خوش قسمتی تھی کہ لوگوں کے گھروں میں بیٹیوں کے لیے پیغام آتے ہیں لیکن اس کے گھر میں بیٹوں کے لیے پیغام آ رہے تھے۔
عبداللہ کھانا کھانے کے لیے باورچی خانے میں ماں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ ماں نے بڑی محبت سے اس کے لیے پراٹھا بنایا اور ساتھ ساگ کو دیسی گھی کا تڑکا لگا کر دیا۔ عبداللہ جب رغبت سے کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا تو ہاجرہ بھی اپنا مدعا زبان پر لے آئیں۔
’’میرے بختاں والے پتر ! میں بھی اپنی زندگی میں تیرے سر پر سہرا سجا دیکھنا چاہتی ہوں۔ اب تو ہر ملنے والا مجھ سے سوال کرتا ہے کہ عبداللہ کی…
یہ واقعہ 1947 سے پہلے کا ہے ۔میری پیاری امی جان ممتاز اختر صاحبہ کے ننھیالی گائوں میں واقعہ وقوع پذیر ہؤا ۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے نوازتا ہے اور نواز تا ہی چلا جاتا ہے ۔ جس طرح کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ غریبی بے کسی بے چارگی میں آزماتا ہے ۔ اس طرح کچھ لوگوں کودولت ، اقتدار اور دنیا کی نعمتیں دے کر بھی آزماتا ہے کہیں وہ صبر آزماتا ہے ۔ کہیں وہ شکر اور دولت یقیناایک آزمائش ہے اگر دولت گمراہی کے دروازے کھولتی ہے انسان کواللہ سے غافل کرتی ہے اس کورعونت تکبر میں مبتلا کرتی ہے ۔
حالانکہ یہی دولت اگراچھے انسان کے پاس ہو تو فضل کریم بن جاتی ہے ۔ ایسا انسان غریبوں اور دکھی دلوں کا سہارا بن جاتا ہے کتنے گھرانے اس گھر سے فیض یاب ہوتے ہیں کتنے سکول ان کی بخشی ہوئی گرانٹ سے چلتے ہیں ۔ کتنے شفا خانے وہ کھول دیتے ہیں دولت اپنے ہوس کا پیٹ بھرنے کے لیے سنبھال کر نہیں رکھتے وہ مصلح قوم بن کر اٹھتے ہیں ۔ بڑے بڑے ریفارمز کے نام رہتی دنیا…
گلی میں پانی بہانے اور کوڑا کرکٹ گرانے پر گلی کے دونوں طرف کے گھرانوں میں جھگڑا تو پہلے بھی ہوتا تھا اور گالی گلوچ کر کے دونوں طرف کی خواتین چپ ہو کے بیٹھ رہتی تھیں۔ مگر آج تو حد ہو گئی ۔
سامنے والوں کے چار مرد ان غریبوں کے گھر گھس گئے اور گھر کی بوڑھی اماں کے روکنے پر اس کو جھڑک دیا۔ ایک ڈنڈا بھی ماراوہ بھی دائیں بازو پر، ایک سرخ لکیر کا نشان پڑ گیا۔ یہ جسارت اس لیے کی کہ وہ کھاتے پیتے اور اچھے گھر کے مالک تھے اور دوسرے غریب اور معمولی سے گھر میں دو وقت کی روٹی کا مشکل سے بندوبست کرتے تھے ۔
رکشہ چلا کر گھر کا خرچ پورا کرنے والے بیٹے سے ماں کے ساتھ یہ سلوک نہ دیکھا گیا ۔اس نے آگے بڑھ کر ایک دو گھونسے تو رسید کیے مگر وہ چار تھے اس کی خوب درگت بنائی ، چہرے اور ہاتھوں پر خراشیں آئیں اور اس پر مستزاد یہ کہ دراندازی کرنے والوں کی طرف سے پولیس بلوانے کی دھمکی بھی مل گئ۔جیسے آئے ویسے ہی دندناتے اور پھنکارتے ہوئے واپس ہو لیے۔
امارت اور غربت کے اس طقاھتی فرق کی وجہ سے پہلے بھی…
میرا بے تاب دل آنے والی خوشیوں کے احساس سے سرشار تھا۔کئی روز سے جاری جدوجہد اور پاسپورٹ آفس میں دھکے کھانے کے بعد زندگی کا پہلا ’’ پاکستانی گرین پاسپورٹ‘‘ میرے ہاتھوں میں تھا ۔
میں جس چھوٹی سی کیمیکل فیکٹری میں ملازم تھا کوویڈ وبا کی وجہ سے وہ دیوالیہ ہو گئی نوکری ہاتھ سے نکل گئی تو گزر اوقات مشکل ہو گئی ۔میری بیوی شرمین بہت صابر اور باہمت عورت ہے ، اس نے اس مشکل وقت میں میری ڈھارس بندھائی ۔ اس کے مشورے پر ہم نے ہوم میڈ کھانوں کا کام شروع کیاوہ گھر سے کھانے اور فرائی آئیٹم پکا کر دیتی ‘ اور میں انہیں گھروں اور دفاتر میں سپلائی کرتا ۔یوں زندگی کی گاڑی آگے چلتی رہی ۔
طویل عرصے بعد وبا تو ختم ہو گئی پر نوکری بحال نہ ہوئی نوکری کی تلاش میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری لے کر سیکڑوں دفاتر میں چکر لگائےپر سب بے سود ثابت ہؤا ۔ آخر کار بے روزگاری اور شدید مایوسی کے عالم میں میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ قسمت آزمائی کے لیے بیرون ملک جاؤں ۔ کچھ عرصہ کام کر کے سرمایہ جمع کروں پھر واپس لوٹ کر اپنے ملک میں زاتی کیمیکل کا…
ہوش سنبھالا تو بڑے سے کچے صحن میں لگے نیم کے گھنے درخت کے نیچے دادی کا کھاٹ دیکھا۔سفید براق چادر سے سجے کھاٹ پرروئی کے گالے سی دادی یوں تمکنت سے بیٹھی ہوتیں مانو کسی سلطنت کی شہزادی ہوں۔گرمیوں کی شامیں وہیں چھڑکائو ہوئی زمین سے اٹھتی مٹی کی خوشبو سونگھتے اور بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے گزرتیںاور سردیوں میں کھاٹ دھوپ کے ساتھ ساتھ پورےصحن میں گھومتا۔پرندوں کی بولیاں،ٹھنڈی ہوا کے جھونکے،اور شام کی چائے کے ساتھ کبھی رس تو کبھی بسکٹ اس سارے منظر کومزید حسین بنا دیتے۔
ہاں ایک چیز اور بھی لازم و ملزوم تھی اور وہ تھی ماسی جنتے۔ان کی صحیح عمر تو کسی کو معلوم نا تھی لیکن لگ بھگ دادی جتنی تو ضرور ہوں گی۔کون تھیں ؟کہاں سے آئی تھیں ؟گزر بسرکیسے ہوتی تھی ؟ان تمام سوالوں کے جواب کوئی نا جانتا تھا۔اور نا کسی کے پاس اتنی فرصت تھی کہ ٹوہ لیتا۔سارے محلے میںماسی جنتے کے نام سے ہی مشہور تھیں۔بڑی پھپھو نے تو ان کا نام بی بی سی رکھا ہؤا تھا۔محلے کیا پورے گائوں کی خبریں ماسی جنتے کی زنبیل سے ایسے مرچ مصالحے کے ساتھ نکلتیں کہ سن کر مزا آجاتا۔ہم بچہ پارٹی تو خوب چسکے لیتی لیکن دادی…
اپنا لیکچر تمام کر کے وہ رجسٹر اور میز پر بکھرے چند ضروری کاغذات ابھی سمیٹ رہی تھی کہ اپنی پشت اور کہنی کے درمیان زاویے کے عقب سے ایک ننھی اور ملائم سی آواز سنائی دی ۔ آواز اتنی چھوٹی اور نرم تھی کہ اس پر یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ یہ بی اے فائنل کی کسی طالبہ کی آواز ہے ۔ چونک کر مڑی تو دیکھا کہ وہ اپنی اسائنمنٹ والی فائل ہاتھ میں پکڑے بلا تمہید مجھ سے کہہ رہی تھی ،’’ میں نے یہ مارچ تک کی سائنمنٹ مکمل کرلی ہے آپ اسے اچھی طرح پڑھ اور اپنے ریمارکس لکھ دیں ، پلیز !‘‘
حیرت سے میں نے اُس کی طرف دیکھا ۔ یہ آواز پہلے کبھی سنی ہوئی لگتی تھی نہ صورت آشنا تھی ۔ ایک لمحے میں اس کو دیکھتی رہی ۔ خیر ، صورت آشنا نہ ہونا کوئی ایسی تعجب خیز بات نہ تھی۔ اتنی بڑی اور طول طویل کلاس کے ہجوم میں کئی صورتیں اور چہرے نا آشنا رہ جانے کا احتمال ہمیشہ ہی رہتا ہے ۔ خصوصاًجب پڑھا نے والا یہ چاہے کہ اس کی آواز اور منہ سے نکلا ہؤا ہر ہر لفظ ہر شاگرد تک پوری طرح…
ترقی، روشن خیالی اور جدّت پسندی کے ہمنوائوں کو نوید!کہ ہم نے تو اپنا ویلنٹائن خود ہی چُن لیا۔سب سے انوکھا، سب سے نرالااور سب سے بہترین میرا ویلنٹائن… میرا شوہر! اگر کوئی پوچھے کیوں؟ تو جواب ہے ہماری مرضی! آج کے اس دور میں جب سبھی اپنی من مانی کر رہے ہیں ۔گمراہ کن نعروں سے متاثر ہو کر سڑک چھاپ ہیرو، حیا باختہ انسان ہماری نئی نسل ، ہماری بچیوں اور عورتوں کے ویلنٹائن بن رہے ہیں۔دھڑلّے سے میرا جسم، میری مرضی کے حیا سوز راگ الاپ کر ان کی برین واشنگ کی جارہی ہے، تو ہم نے سوچا کیوں نہ ہم بھی اپنے مرکز محبت اپنے ویلنٹائن کا کھلّم کھلااعلان بڑے فخر سے کر دیں۔ آخر آزادی اظہار ہمارا بھی تو حق ہے!
ہمارے ویلنٹائن یوں سمجھ لیں کہ ایک صابر و شاکر، قناعت پسند، کم گو، کم آمیز مگر خوش گفتار انسان ہیں۔سعودی عرب اور انگلستان میں عرصہ گزار دینے کے بعد جب لوگ ان کی بے سروسامانی کا مذاق اڑاتے تو ہم ہنس کر کہتے بھئی ہمارے صاحب تو ’’ماڈرن درویش‘‘ ہیں۔ایسا درویش جو روشن خیال بھی ہے اور کشادہ ذہن بھی۔قدامت پسندی اور دقیانوسی سوچ سے کوسوں دور۔
’’دیندار‘‘ہونے کے باوجود وہ ان مردوں میں سے…
عربی میں شہد کی مکھی کو نحل کہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ایک پوری سورت اس کے نام سے موسوم ہے ۔ سورہ النحل کو پڑھتے ہوئے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر کیا ہے ۔ انہی میں سے ایک نعمت شہد ہے جسے لوگوں کے لیے’’شفاء للناس‘‘ کہا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو آخر اتنی اہمیت کیوںدی کہ اس کے نام پر ایک پوری سورت قرآن مجید میں نازل کی اور اس کے ساتھ ہی انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ؟آخر رب تعالیٰ اس چھوٹی سی مکھی سے ہمیں کیا سکھانا چاہتا ہے ؟ آئیے کچھ غورو فکر ہم بھی کریں مل کر ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں توگھر بنا اور درختوںمیں اوران (چھپروں ) میں جن پر لوگ بیلیں چڑھاتے ہیں ۔ پھر ہرقسم کے پھلوں (اور پھولوں ) سے رس چوس، پھر اپنے رب کی ہموار راہوں پر چل، ان کے پیٹوں سے مختلف رنگوں کا مشروب( شہد) نکلتاہے ۔ اس میں لوگوںکے لیے شفا ہے ۔ بے…
’’چند سال قبل جب ایک دن کمزوری کی وجہ سے میں اسکول میں کر گئی تو اسپتال میں ہونے والے بلڈ ٹیسٹ سے پتا چلا کہ مجھے ذیابیطس ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے انسولین لگنی ہے لیکن پہلےمیری والدہ رضامند نہیں تھیں۔ امی کا کہنا تھا کہ انسولین کے انجیکشن لگانا شروع کیے تو تمام عمر لگوانے پڑیں گے۔ کل کو شادی کیسے ہو گی۔ امی کو انسولین کی ضرورت سمجھانے میں ڈاکٹر کو کئی دن لگ گئے‘‘۔
یہ کہنا ہے اسلام آباد کی نورالعین کا جو آج سے پانچ سال قبل ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہوئیں اور تب سے روزانہ انسولین استعمال کر رہی ہیں۔
نورالعین کی عمر 19 سال ہے اور وہ 14 سال کی عمر میں اسکول میں گرکر بیہوش ہو گئی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بیہوشی کے واقعے سے کافی عرصہ قبل سے انہیں تھکاوٹ اور بے وقت نیند کی شکایت تھی۔ انہوں نے کئی بار گھر پر بتایا لیکن گھر والوں نے اسکول میں زیادہ کھیل کود اور گھر پر شرارتوں کو اس کی وجہ قرار دے کر توجہ نہ دی۔ مگر جب اس دن وہ گریں تو اسپتال میں ان کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے ایک ایچ بی اے ون…
باتوں سے خوشبو آئے
حناسہیل۔جدہ
کل جب صبح چہل قدمی کے لیے نکلی تو مختلف انواع و اقسام کے پھولوں کو دیکھ کر ایسے ہی دل میں ایک خیال آیا ۔ ہماری زندگی میں کچھ لوگ بالکل کیکٹس کی طرح ہوتے ہیں، ان کے رویہ میں ، عادتوں میں، باتوں میں کانٹے کانٹے ہوتے ہیں ، ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں حیران کن شخصیت لیکن پاس جانے کی ہمت نہیں کرتے ، کیونکہ چاروں اطراف غرور اور انا کے کانٹے نکلے ہوئے ہوتے ہیں جو چبھنے کا خدشہ رہتا ہے ، ریگستانوں میں لگنے والا پودا کیکٹس اگر آپ نے دیکھا ہو تو آپ کو حیران کر دینے والا پودا ہے کہ کم پانی کے ساتھ یا بغیر پانی کے ریگستان میں اگتا ہے اور خشک کانٹوں سے بھرا ہؤا ہوتا ہے ۔
ہماری زندگی میں کچھ لوگ گلاب کے پھولوں کی طرح بھی آتے ہیں جن کی خوشبو اور خوبصورتی ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ہم ان کے ساتھ میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اکثر ان میں آپ کے استاد ہوتے ہیں یا جو آپ کو زندگی کے بارے میں سکھا رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ گلاب جن ڈالیوں پہ مہکتے ہیں وہ کانٹوں بھری ہیں۔ ان کی زندگی میں…
ہر طرف سرخ رنگ بکھر رہا ہے کہ یہ محبت کا رنگ ہے، خوشی کی تلاش ہے، محبت کی امنگ ہے۔ اس دل کے نشان اور سرخ رنگ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اور اس کہانی کی آڑ میں کتنے دل بہلاوے ہیں۔ دل کی خلش کو ختم کرنے کے کتنے جواز ہیں؟ ’’محبت‘‘ کے لفظ کے پردے میں کیا کیا تماشے ہیں؟ ہر تماشے پہ نفس کی اجارہ داری ہے۔ شیطان کی پھیلائی ہوئی دل فریبیوں میں کتنے ایمان والوں کا امتحان ہے۔ اور اس امتحان کے کتنے رنگ ہیں۔ ایک پرائی تہذیب اچانک، ایک دن یا ایک عمل سے کسی تہذیب پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ خوشیوں محبتوں کے رنگ اتنی آسانی سے غیروں کے رنگ میں نہیں رنگ جاتے۔ قوموں کی زندگی پل بھر میں نہیں بدل جاتی۔ پہلے کسی ایک فرد کی سوچ کا رنگ تبدیل ہوتا ہے وہ فرد اپنی سوچ کو دیوار پر چپکا دیتا ہے جیسے مٹھائی والے کی دکان پر کوئی انگلی شیرے میں ڈبو کر اس انگلی سے دیوار پر ایک میٹھا قطرہ لگا دے اور پھر اس دکان کے سارے منظر بدل جاتے ہیں۔ ابتدا تو بس ایک ذرا سی مٹھاس سے ہوئی، جس کی بظاہر کوئی وقعت بھی نہ…
قارئین کرام! سلام مسنون
نئے سال کا استقبال کرنا اس سردی اور سموگ کے درمیان۔۔۔ایسا ہے جیساسردی میںشعلہِ امیدجلانا ، جذبوں کی حرارت ڈھونڈنا۔۔۔اور سموگ میں کھل کر سانس لینے کی تمناکرنا،نشانِ منزل تلاش کرنا۔ اللہ کرے یہ سال ہمارے ملک، امت اور کرہ ارض کے باسیوں کے لیے عافیت اور رحمت کا سال ثابت ہوآمین۔
منی بجٹ نے پسے ہوئے عوام کومہنگائی کے نئے ریلے کے سپرد کردیا ہے۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی رکھی گئی ہے اور وہ بھی اس حکومت کے ہاتھوں جس کا نعرہ تھا کہ بھوکے رہ لیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اگر غلط کہا تھا توووٹ لینے کے لیے عوام کو دھوکہ دیا تھا اور اگر ارادہ تھامگر حکومت میں آنے کے بعدپتہ چلا کہ یہ ممکن نہیں ہے تو نالائقی کی انتہا ہے۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں عوام کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کریں ورنہ عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیاررہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست جھوٹ فریب ،انتقام، دھوکہ ، مفاد پرستی اور بے ضمیری کا ملغوبہ بن چکی ہے ۔سچ ، اصول پسندی اور کردار کا حوالہ آتا بھی ہے تو بقول ظفرؔ اقبال…
انسان کے اخلاقِ رذیلہ ( بُرے اخلاق) میں سب سے بری اورقابل مذمت چیز کذب ( جھوٹ) ہے ۔جھوٹ ایسی برائی ہے جو فجور ، اِفک اوربہتان کی طرف لے جاتی ہے اور نہ صرف افراد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خاندان اور معاشرے میں بھی فساد برپا کرتی ہے ۔ جھوٹ ہر قسم کی قولی اورعملی برائیوں کی جڑ ہے ۔ جھوٹ کی وجہ سے اور بھی کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جو معاشرے کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ’’ جھوٹے ‘‘ کے ساتھ کسی دوسری صفت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ مثلاً کاَذِبّ کَفَّارِ( جھوٹ ، کفر کرنے والا) مُسْرِفٌ کَذَّابٌ حد سے بڑھ جانے والا ، بہت جھوٹا ، افاک اثیم( جھوٹا ، گنہگار)وعدہ خلافی ، بہتان ،ریاکاری ، خاندانی جھگڑے ، معاشرتی فتنہ فساد یہ سب جھوٹ ہی کے کرشمے ہوتے ہیں ۔ جھوٹ کی ان قباحتوں کو جاننے کے باوجود ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم سے بہت سے لوگ جھوٹ کو معمولی شے سمجھتے ہیں اور شغل کے طور پر بھی جھوٹ بول جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ خود بھی سچاہے اور سچ کوپسند فرماتا ہے ۔ نبیوںکے…
اللہ رب العزت نے انسانی جسم میں اعضا کی بناوٹ اور درستی کے حوالے سے قرآن کریم میں ’’تسویہ‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔
’’الذی خلقک فسوک‘‘ جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعضا کو درست اور برابر کیا۔ (انفطار)
یعنی انسانی اعضا ایک اندازے اور اٹکل کے طور پر نہیں بلکہ ہر عضو اپنی جگہ بھرپور افادیت کے ساتھ جڑا ہؤا ہے اور اس عضو کا انسانی جسم میں اسی خاص مقام میں ہونا ہی انسان کے لیے مفید اور بہتر ہے۔
انہی اعضا میں ایک بہت بڑی نعمت ’’زبان‘‘ کی نعمت ہے جو انسانی کردار کی لفظی ترجمانی کرتی ہے۔قرآن کریم سورۂ رحمٰن میں ’’علمہ البیان‘‘ کہہ کر اس نعمت کا بطور خاص ذکر فرمایا کہ رحمٰن وہ ذات ہے جس نے انسان کو قوت بیان اور قوت گویائی عطا کی ۔یہ اسی کااعجاز ہے کہ انسانی ذہن جو سوچتا ہے اس سوچ کا اظہار سیکنڈوں سے بھی کم درجے میں زبان پر الفاظ کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف نعمتوں سے مالا مال فرمایا ہے لیکن ایک اصول قرآن کریم میں ذکر فرمایا کہ’’ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم‘‘ پھر تم سے اس موقع (میدان حشر) پر نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔…
یہ شہر جو آج مدینۃ النبیؐ،طیبہ، مدینہ منورہ، مدینہ طیبہ اور تقریباً دیگر سو ناموں سے موسوم ہے کہا جاتا ہے کہ پہلے یثرب کہلاتا تھا کیوںکہ یہ حضرت نوح ؑکی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروںمیںآباد ہوئی تو یثرب نے اس سر زمین میں قیام کیا ۔ ویسے اس روایت کو تقویت عمالقہ کے یہاںمقیم ہونے سے بھی ملتی ہے ۔ یہ حضرت نوحؑکی کشتی پر سوار وہ لوگ تھے جوکفر وشرک اختیار کرنے کے بعد بابل سے مدینہ کی طرف آ بسے تھے اور انہوں نے زراعت کے پیشے کو اپناتے ہوئے یہاںبکثرت کھجوروں کے درخت لگائے یہ مسام بن نوح کی اولاد میں ہو گئے ۔ اس وقت ان کا بادشاہ ارقم تھا جب حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر و شام کو فتح کیا اور دیگر علاقوں کی تسخیر کے لیے بنی اسرائیل کو روانہ کیا تو ایک گروہ نے عما لقہ کے تمام مردوں کو بشمول بادشاہ کوقتل کر دیا اور یہیںآباد ہوگئے ۔ اس طرح یہود کی مدینہ میں آباد کاری ہوئی۔
بنی اسرائیل کے یہاںٹھہرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ توریت میں آنے والے پیغمبر کی ہجرت…
اہل گوادر کے آئینی حقوق کس کی ذمہ داری ہے؟گوادر کی ابھرتی قیادت جو بلوچ عوام کی آواز بن گئی
یہ پیشین گوئی بھی کی جا رہی ہے کہ پانچ برسوں کے اندر اندر گوادر جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا جہاز رانی کا مرکز بن جائے گا
بلوچستان کی سرزمین اپنے قدرتی حسن اور پاکستان کا نصف رقبہ ہونے کے اعزاز کے ساتھ ہمیشہ سے منفرد اہمیت کی حامل رہی ہے۔ یہاں کی تہذیب، رہن سہن، رسوم و رواج بھی منفردہیں۔ یہ سر زمین پہاڑوں دریاؤں سمندروں میدانوں اور صحراؤں کے ساتھ قدرتی وسائل سے مالا مال بھی ہے۔ یہاںسیندک کی کانیں اور گیس کے ذخائر کے ساتھ کرومائیٹ اور کوئلہ کی کانیں جہاں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں وہاں ملکی اور بین لاقوامی طور پر اپنی پہچان اور اہمیت رکھتی ہیں۔
اسی بلوچستان کا ضلع گوادر ہے جو اس وقت پوری دنیا میں اور خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک میں اہمیت کا حامل بنا ہوا ہے۔ گوادر پاکستان کے ساحل پر بحیرہ عرب کے شمال مغرب میں واقع ہے۔یہ حصہ یکم جولائی1977 کو پاکستان کا حصہ بنا اور 2011 میں بلوچستان حکومت نے گوادر کو سرمائی دارالحکومت بنایا۔
ضلع گوادر کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے۔یہ 15210 مربع کلومیٹر…
جس نے تخلیق کیے تیرےؐ لیے دونوں جہاں
قلبِ اطہر پہ ترے جس نے اتارا قرآں
اپنے بندوں کی تجھے جس نے امامت بخشی
اور بدلے میں تجھے خُلد کی کنجی دے دی
جس نے افلاک پہ مہمان بنایا تجھ کو
جس نے دنیا میں ترے نام کو عزت بخشی
جس نے مشکل میں تجھے صبر کی قوت بخشی
جس نے ہر گام تجھے اپنی ہدایت بخشی
جس نے لہجے میں ترے خاص حلاوت رکھی
معاف کردینے کی جس نے تجھے عادت بخشی
اس کا احسان ہے ہم کو تیریؐ امت میں رکھا
شکر ہے اس نے ہمیں حلقۂ رحمت میں رکھا!
در تو در ، سایۂ دیوار سے ڈر لگتا ہے
اپنا ہوتے ہوئے غیروں کا نگر لگتا ہے
دن نکلتے ہی امڈ آتے ہیں کالے سائے
کسی آسیب کا اس گھر پہ اثر لگتا ہے
خون آلودہ سبھی ہاتھ ہیں دستانوں میں
اب کے اندیشہ بہ اندازِدگر لگتا ہے
اوڑھنے روز نکلتی ہے رِدا زخموں کی
زندگی تیرا تو پتھر کا جگر لگتا ہے
کب سے امید کا کشکول لیے بیٹھے ہیں
آسرا کوئی اِدھر ہے نہ اُدھر لگتا ہے
جانے کب بحرِالم کس کو کہاں لے ڈوبے
اب تو ہنستے ہوئے یہ سوچ کے ڈر لگتا ہے
کھیلوں پہنائیِ صحرا سے بگولے کی طرح
وسعتِ دشت میں کھو جائوں تو گھر لگتا ہے
فلسفہ ابھرا ہے روح و جسم کی تقسیم کا
پھر بپا ہے معرکہ نمرود و ابراہیم کا
روح تن سے گر الگ ہو جائے کیا باقی رہے
مسئلہ ہے یہ تو ذہن و عقل کی تفہیم کا
جسم ہوتاہے توانا روح کی تحریک سے
پھینک دو باہر اٹھا کر فلسفہ دونیم کا
معرکہ ہے حق و باطل کا ازل سے تا ابد
ہے یہ نسخہ کارگاہِ زیست کی تنظیم کا
معرکہ ہو عشق کا تو کود جا تو بے خطر
دے رہا ہے یہ سبق ایمانِ ابراہیم کا
اہم ہے رب کی رضا تیری رضا کچھ بھی نہیں
مسئلہ ہے یہ تو میرے آپ کے تسلیم کا
اس شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھتا ہے جو
پھر وہ پالیتا ہے تحفہ کوثرو تسنیم کا
زیست پر وہ حکمراں ہے موت پر بھی حکمراں
ربط ہے اس ذات سے میرا امید وبیم کا
گمنامی کی چادر اوڑھے
دکھلاووں کے بیچ کھڑی ہوں
اندر کوئی چیخ رہاہے
نقلی ہیں سب رنگ و روغن
ہر منظر میں سلگا جیون
سونا سونا دل کا آنگن
پریت کی آشا پریم کا بندھن
ریزہ ریزہ خواب کا مدفن
لیپا پوتی کے پیچھے اب
جتنا کچھ ہے روپ نگر میں
کھنڈر، بنجر ،ویرانی ہے
تاریکی ہے، نادانی ہے
سچائی بے نام ہوئی ہے
کہنے کو دشنام ہوئی ہے
جیت کے بھی ناکام ہوئی ہے
پورے گائوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ گھر گھر مٹھائیاںتقسیم ہونے لگیں ۔ چوہدری احتشام نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ حویلی کے بڑے دروازے پر شیریںکے پتوںکا سہرا باندھ دیا گیا جو اس بات کی نشانی تھی کہ چوہدری کے گھر بیٹا پیداہؤا ہے ۔ بچے تو پہلے بھی تھے لیکن یہ فرزند تین بیٹیوں کے بعد دنیا میںآیا تھا ۔ حوشی منانا توبنتی تھی ۔
چاروں طرف سے جہاںمبارکبادوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا وہیںپردیکھنے والی عورتیں عجب چہ مگوئیاں کر رہی تھیں۔
’’ ارے نہیں ! تین بیٹوں کے بعد پیدا ہؤا ہے اللہ خیر کرے۔ سب سلامت رہیں اللہ اس گھر کو آزمائش سے بچائے ‘‘۔
’’ اری بہن ! ہم نے اپنے بڑوں سے سن رکھا ہے کہ تین لڑکیوں کے بعد آنے والا لڑکا آزمائش ساتھ لے کر آتا ہے ‘‘۔
غرض جتنے منہ اُتنی باتیں پورے گائوں میںسراسیمگی حیاتی ہوئی تھی ۔ سب کسی انہونی کے انتظار میں نگاہیں لگائے بیٹھے تھے ۔ توہمات اور خرافات کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا ۔ ابااِن باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔
چند دن خیریت سے گزر گئے ۔ ابا نے گھر میں بھینس رکھی ہوئی تھی جو سب کو بہت پیاری…
فلموں،ڈراموں کی طرح انیلہ کا رشتہ بھی اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی طے پا گیا تھا ۔رفیق ماموں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا۔
’’آپا اگر بیٹا ہوا تواپنی مرضی سے فیصلہ کریں اور بیٹی ہوئی تو وہ میرے عتیق الرحمن کی دلہن بنے گی‘‘۔
رفیق ماموں کے اس فیصلے سے انہیں گنوار دیہاتی اور ان پڑھ مت جانیے ۔بھئی وہ تو جنوبی پنجاب کی ایک مشہور و معروف یونیورسٹی کے پرنسپل تھے …..جی پرنسپل!
واشنگٹن ٹاؤن کی ایک یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر کے لوٹے تھے اور واپس آتے ہی انہیں یہ عہدہ پلیٹ میں رکھا مل گیا۔اور آپا بھی کوئی گھونگھٹ نکال کر کولہو کے بیل کی طرح گھر بار کی مشقت میں مصروف عورت نہیں تھیں، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے تین گولڈ میڈل حاصل کر کے اپنے علاقے کی واحد گائنا کالوجسٹ تھیں ۔بات تو ساری محبت کی تھی جو ان دونوں سگے بھائی اور بہن میں تھی۔سکول اکٹھےجاتے ،ہر بریک میں مل بیٹھتے،ایک ٹافی بھی ملکیت میں ہوتی تو آدھی آدھی تقسیم کر کے کھاتے،ٹی وی پر کارٹون ہوں یا اشتہار ،دونوں کی ایک ہی پسند تھی ۔رفیق اپنی پسند سے نہیں اپنی بہن زیتون بیگم کی پسند سے کپڑے پہنتا اور زیتون بیگم…
میں ڈھاکہ میں رہنے والی نہایت معمولی شکل و صورت کی ایک غریب لڑکی تھی۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ والد نسلی فسادات کی نظر ہو چکے تھے۔ والد صاحب بے شک محنت مزدوری ہی کیا کرتے تھے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے ہوتے ہم ماں بیٹی نہ صرف دو وقت کی روٹی بڑے آرام سے کھا لیا کرتی تھیں بلکہ دیگر بنیادی ضروریات بھی کافی حد تک پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ پاکستان کا یہ مشرقی حصہ غربت کا شکار ضرور تھا لیکن ایک خوبی اس میں مغربی حصے سے بہت زیادہ تھی اور وہ تھی تعلیم کے اوسط کا فرق۔ سنہ ساٹھ اور ستر کی دھائی میں بھی پاکستان کے مشرقی حصے میں تعلیم کا اوسط پچاس فیصد سے زیادہ تھا۔ میرے والد صاحب معاشی مجبوریوں کی وجہ سے آٹھ جماعتیں ہی پڑھ سکے تھے لیکن اس زمانے میں آٹھ جماعت پاس بھی بہت پڑھا لکھا کہلاتا تھا اور عام لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
1965کی جنگ کے بعد سے پاکستان کے اس مشرقی حصے کے حالات کافی تیزی کے ساتھ بگڑنے لگے تھے اور نہ جانے کیوں بھائیوں کی طرح آپس میں رہنے والے آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے دور…
چار سو پھیلی صبح کی روپہلی کرنیں اپنے سنہری آنچل سے لہلہاتی فصلوں کو خراج تحسین پیش کر رہی تھیں ۔تاحد نگاہ پھیلےسروقد پٹسن کے ہرے بھرے سرکنڈے، ہوا کے دوش سے جھوم رہے تھے گھنے جھنڈ سے آتی جھینگروں کی آواز یں اور دور سے سنائی دیتی رہی مدھم دھن ۔
سب کچھ کتنا دلکش اور مسحور کن تھا ۔ قدرت کی صناعی کا شاہکار !
دریائے پدما کے کنارے واقع یہ بنگال کا چھوٹا سا گاؤں گوپال گنج تھا ۔ اس گاؤں کے باسی بہت ملنسار اور دریائے پدما کی وسعت جیسے وسیع القلب تھے ۔
تقسیم ہندوستان کے وقت بہت سے مسلمان ہجرت کر کے اس گاؤں میں آباد ہو، ان نقل مکانی کرنے والے افراد میں بڑی تعداد پٹنہ، بہار کے افراد کی تھی۔مقامی بنگالی آبادی نے ان کی حتی المقدور امداد کی ،انہیں اپنے علاقے میں آبادکیا اور روزگار فراہم کیا ۔۔
انہی ہجرت کرنے والے اور بلوائیوں سے جان بچا کر آنے والوں میں خیر الدین اور اس کی بیوی شائستہ بھی شامل تھے ۔خیرالدین کا تعلق بہار سے تھا پر نوکری کی خاطر وہ کلکتہ میں رہائش پذیر تھا ۔ ۔
خیر الدین تحریک آزادی کا سرگرم رکن تھا ۔ اسے پاکستان سے جنون کی حد تک محبت…
ملگجے سے حلیے میں بکھرے بال اور ویران چہرہ لیے وہ کسی اجڑے ہوئے دیار کی باسی لگ رہی تھی ۔خالی خالی نظروں سے وہ سب کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو حالانکہ وہ سب اس کے اپنے تھے اس کے گھر والے،لیکن کچھ تھا جو اس کےاندر اس شدت سے ٹوٹا کہ وہ سنبھل نہ پا رہی تھی۔جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا، جدائی کا غم اور مستقبل کے اندیشے ، اس خوشی سے جڑے سہانے تصورات پر حاوی ہورہے تھے۔ رتجگے کی چغلی کھاتی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔مینا نے پیارسےاسے دیکھا تھا اور پانی کا گلاس لیے اس کے پاس چلی آئی تھی۔
’’کیا حال بنا رکھا ہے فاطمہ یہ لو پانی پیو‘‘اس نے پانی کا گلاس فاطمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔’’خوشی کا موقع ہے اور تم سوگ منا رہی ہو‘‘۔
فاطمہ نے غائب دماغی سےاسے اجنبی نگاہوں سے یوں دیکھا کہ اس کا دل کٹ گیا۔وہ بے ساختہ اس کے گلے لگی تھی اور کب سے حلق میں پھنسے آنسو تیزیسے باہر آئے تھے۔اس کی عزیز بہن پرائے گھر کی ہورہی تھی۔
اور پھر وہ شام بھی آئی جب ڈھولک کی تھاپ پہ گیت گاتی لڑکیاں آتے جاتے فاطمہ کی…
سورج کی کرنیں لہلہاتی فصلوں کو روشن کر رہی تھیں ۔ آسمان پر ٹکڑیوں کی صورت تیرتے بادلوں کا عکس دریا کے شفاف اوررواں پانی میں نمایاںتھا۔ دریا کے کنارے آباد اس گائوں میںصبح کی رونقیںعروج پر تھیں۔ کاندھوں پر بستے ڈالے نیلی وردی پہنے معصوم صورت بچے اسکولوںکی جانب رواںدواںتھے ۔ کسان کھیتوں میں کام کرتے نظر آرہے تھے ۔کہیں کہیںرنگین آنچل سےسروں کو ڈھانپے عورتیں بھی کھیتوں میں کام کر رہی تھیں۔
امینہ اپنی دو چھوٹی بہنوںکے ساتھ فصلوں میںکام کر رہی تھیں۔باپ کے انتقال کے بعد ان کے گھر میں کل پانچ لوگ ہی بچے تھے ۔اس کی بیمار ماں ،دوبہنیںاوردو سالہ بھائی ۔ معاش کی ذمہ داری اب اس کے نازک کاندھوں پر آ پڑی تھی۔ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ فصلوں میں کام کر کے روز ی روٹی پانی کا بدو بست کرتی ۔ حیران کن طور پرآج مطلع صاف تھا ۔ بنگال کے برساتی موسم میںمطلع کا صاف ہونا ایک حیران کن امر تھا ۔ امینہ کی چھوٹی بہنیں فصلوںمیں کام کرنے کے ساتھ اٹھکیلیاں بھی کررہی تھیں ۔ معاشی تنگدستی اورمصائب نے ان سے لڑکپن کی شوخیاں نہیںچھینی تھیں ۔ امینہ البتہ وقت سے پہلے ہی سمجھدار ہوگئی تھی۔ فصلوں کوگوڈی کرتے ہوئے پتہ…
تفریح کے وقفے میں آمنہ اور رباب نے اپنا اپنا توشہ دان کھولا اور پھر ایک دوسرے کا ناشتہ دیکھ کر کھکھلا کر ہنس دیں۔
’’ اُف آج تو سموسوں میں بہت مرچیں ہیں ‘‘ رباب نے سی سی کرتے ہوئے پانی کی بوتل کو منہ لگالیا۔ آمنہ مسکرائی اور خاموشی سے اپنا برگر کھاتی رہی۔ رباب نے سموسوں کی پلیٹ پرے کھسکائی اور جیب سے چاکلیٹ نکال کرکھانی شروع کی۔’’ یہ برگر آنٹی نے بنایا ہے ؟‘‘ اس نے آمنہ سے پوچھا۔
’’ نہیں بھئی ۔ رات چاچو آئے تھے وہ لائے تھے صرف برگر نہیں ، پزا، ڈرم سٹک ، ونگز اورشاورمابھی‘‘۔
’’ کیا انہوں نے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھول لیا ہے؟‘‘ رباب ہنسی۔
’’ نہیں نہیں ‘‘ آمنہ بھی ہنسی ،’’ نائنتھ میں میرے اتنے اچھے نمبرآئے ہیں ۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میری پسند کی ٹریٹ دیں گے۔اتنا ساراکچھ لائے تھے ۔ کچھ رات میں کھایا کچھ صبح ‘‘اس نے چٹخارا لیا ۔’’ ارے ہاں یہ تمہارے لیے بھی بر گر لائی ہوں ‘‘ آمنہ نے لفافے سے برگر نکال کر رباب کوپکڑایا۔
’’ بہت بہت شکریہ، اسے رکھو میں ابھی کوک لے کر آتی ہوں ‘‘ رباب یہ کہہ کر رُکی نہیں ۔
’’ توبہ ، اتنی کوک پیتی…
جونہی ذکیہ بیگم کی سانس کی ڈور ٹوٹی، ان کے آس پاس موجود سب افراد نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کو ایسا محسوس ہوتاتھا کہ جیسے گزشتہ دوڈھائی سال سے وہ سب ذکیہ بیگم کی جیتی جاگتی لاش کو اپنے کندھوں پراٹھائے پھر رہے تھے۔ آج اچانک یہ لاش سرک گئی تھی اوران کے کندھے اس بوجھ سے آزاد ہوگئے تھے۔ اس آزادی کا احساس ہوتے ہی انہوں نے گردنیں گھما کر ایک دوسرے کو کچھ اس انداز سے دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو یقین دلارہے ہوں کہ ذکیہ بیگم اب کبھی لوٹ کران کی دنیا میں واپس نہیں آئیںگی۔ پھر بڑی بہو نے اپنے میاں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کہا، کفن خریدنے جائو گے تو ساتھ ہی گلاب کے پھولوں کی ڈھیر ساری پتیاں ضرور لیتے آنا۔ امی کو گلاب کی خوشبو بہت پسند تھی‘‘۔
منجھلی رقت طاری کرتے ہوئے کہنے لگی۔
’’اجی سنیے! ذرا جا کر مدرسے سے کچھ بچوں کو لے آئیے۔یہاں بیٹھ کر وہ قرآن خوانی کرتے رہیں گے تاکہ امی کی روح کو سکون ملے‘‘۔
چھوٹی بہو نازیہ نے اپنے دوپٹے کو سرپر جماتے ہوئے اعلان کیا۔
’’میں نہلانے والی ماسی کو لینے جارہی ہوں۔ میت کو نہلانے کی ذمہ داری میری…
آوا گون ہندودھرم کا ایک بنیادی عقیدہ ہے جو اس کو نہ مانے وہ ہندو مذہب کا فرد نہیں ۔ اس کے مطابق موت کے بعد جسم اگرچہ فنا ہو جاتا ہے مگر روح قائم رہتی ہے ، اعمال کے مطابق دوسرے اجسام کا روپ دھار لیتی ہے اور یوں ایک سفر مسلسل جاری رہتا ہے ۔ ہندو مت کا یہ نظریہ میںنے سنا تو تھا مگر اس پریقین نہ تھا ، مگر ایک واقعہ نے میرے خیالات پر اثر ڈالا ۔ میں آوا گون کے نظریے کو مکمل مانتا تو نہیں مگر اس پر اب کسی حد تک یقین رکھتا ہوں۔
بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے جب میں وطن واپس آیا تو اپنی مادرِ علمی(Alma Mater) میں ہی بحیثیت استاد متعین ہوگیا ۔ ایک عجب تجربہ تھا ،وہی کمرے جہاںآپ کبھی بحیثیت طالب علم بٹھے تھے ، وہ ڈیسک جس پر آپ سر رکھ کر سوتے تھے ۔ وہ راہداریاںجہاں آپ اپنے اساتذہ کو سلام کرتے گزرتے تھے ، وہ فضا جہاں آپ اپنے ساتھی طالب علموں کے ہمراہ دھماچوکڑی مچاتے تھے ، اب آپ کو استاد کی صورت دیکھ رہی تھی ۔ پہلے دن کلاس میں لیکچر کے لیے کھڑا ہؤا تو ماضی آنکھوں کے سامنے آگیا۔ وہ…
ماں جی کی آنکھوں سے ڈھیروں موتی جیسے آنسو گر گر کر بکھرتے جارہے تھے ۔وہ دلاسہ دینے پر اور زیادہ رونے لگتیں۔ ہم سب کے اوسان خطا تھے ۔بجیا کے آنگن میں دوسرا پھول کھلنے والا تھا ،وہ میکے رکنے آئی ہوئی تھیں ،دو دن سے وہی ہم سب کو سنبھال رہی تھیں۔ان دو دنوں میں غیر محسوس طور سے ابا کے جھکے شانے اور جھک چکےتھے۔بات ہی کچھ ایسی تھی ۔کسی سے کہتے تو وہ بھی ملامت ہی کرتا ۔لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں گے ۔سو سوالات سو اندیشے ۔ گھر بھر پر سوگ طاری تھا ۔
معاملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ الفاظ کا دامن تنگ پڑ گیا تھا۔میرے خیال میں وہ اکیلا مجرم نہ تھا قصور تو ہم سب کا تھا۔ شمیم کی عمر سترہ برس سے اوپر ہو چکی تھی ۔وہ اکلوتا نر بچہ تھا جو ہماری ماں کی کوکھ سے پیدا ہؤا ہم سب بہنوں سے چھوٹا ، چھے بیٹیوں والے گھر میں اکلوتے بیٹے کی حیثیت ملک کے بادشاہ یا وزیراعظم سے کم نہیں ہوتی لاڈلا چہیتا بیٹا ماں باپ اور ہم سب بہنوں کا راج دلارا ۔
اباجی تو شروع سے ہی راضی برضا رہنے والے شریف النفس انسان تھے…
عبدالباقر ایک ترقی پذیر ملک کے سب سے گنجان آباد شہر کےجنوب میں ایک متوسط محلے میں قدرے زمین میں دھنسے ہوئے دو کمروں کے گھر کا مکین تھا ۔اس کا گھر سڑک سے تقریباً دو فٹ نیچے تھا۔ سال کے سال سڑک پر روڑی ڈال کے کالا پانی پھیر دیا جاتا تھا جو مون سون کے پہلے چھینٹے میں ہی بیٹھ جاتا۔
جانے کس کی کرم نوازیاں تھیں جو ہدایت اللہ کے گھر کو بتدریج قبر سے مشابہہ کر رہی تھیں۔ اس کے پاس نہ پکڑنے کے لیے کوئی گریبان تھا نہ انگلی اٹھانے کی اوقات۔نہ جانے کتنے سالوں سے اس کے شہر کے وارث ہی اس شہر سے لاوارثوں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے تھے ۔
کیا نام تھا اس کے شہر کا ؟چلیے جانے دیجیے،اپنا ہی پیٹ کیا ننگا کرنا!
پچھلے ایک مہینہ کی بارش نے عبدالباقر کی تقریباً ساری گھر ہستی تباہ کردی تھی ۔گھر کے صحن تو کیا کمروں تک میں پانی بھرا ہؤا تھا ۔ عبدالباقر کی بیوی اپنے تینوں بچوں کو سارا دن پلنگ تک محدود رکھتی۔ پانچ سالہ داور اور چار سالہ دانیہ تو پھر بھی ماں کا پلو پکڑ کے پلنگ سے اتر جاتے پر چھ ماہ کی رانیہ اگر ماں کی ذرا سی…
گھر میں رونق کا راج تھا،فخر احمد کے انتقال کے بعد شاید پہلی بار گھر میں رشتہ دار اِکٹھے ہوئے تھے،مگر موقع اور احساسات بالکل اُلٹ تھے۔آج اُس وقت سر اُٹھانے والے بڑے مسئلوں میں سے ایک بڑا مسئلہ،سفینہ کی شادی،حل ہو رہا تھا۔گھر میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے،اور فخر احمد کی والدہ یاسمین،ذمّہ داریاں نبھانے کے ساتھ بڑے بیٹے زوہیب پر فخر کر رہی تھیں۔معاشی طور درمیانے گھرانے کے لوگ تھے۔یاسمین خاتون کی شادی کو محض چودہ سال ہوئے تھے کہ فخر احمد رضائے اِلٰہی سے انتقال کر گئے۔اس وقت وہ دو بیٹوں زوہیب اور طفیل اورایک بیٹی سفینہ کی ماں تھیں۔زندگی پہاڑ کی مانند مشکلات دِکھا رہی تھی۔اس وقت یاسمین کے تیرہ سالہ زوہیب نے عمر سے کئی سال بڑے بن جانے کا فیصلہ کیا،ماں کا ہاتھ تھاما اور گھر کی تمام ذمّہ داریوں کو اٹھانے کا بیڑہ اٹھایا۔اللہ نے اس مشکل وقت میں اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی انتھک محنت کا پھل دیتا رہا۔
آج بہن کو اس کے گھر کا کرنے کے لیے تقریب رکھی تھی۔ یاسمین اکثر سوچتی کہ زوہیب بھی تو اس وقت بچّہ ہی تھا مگر خدا نے اس کو کتنی خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔خیر سے سفینہ بھی اپنے…
پون کا باغیچہ سانس لے رہا ہے ۔ بہاروں کو آواز دے رہا ہے ۔مگر پون کی اپنی زندگی میں یادوں کی خزاں کا موسم ہے ۔ ایک بچہ اسے اظفر کی یاد دلا دیتا ہے ۔ اظفر جوکبھی بہت ضروری تھا مگر اب محض گزرا ہؤا وقت ہے ماریہ واپس جا چکی ہے ۔ بی بی اور پون دونوں ہی اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہیں ۔ گھر کی مرمت کے دوران بی بی کی کچھ پرانی کتابیں ملتی ہیں ۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی بی ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے باوجود ایک سادہ اور عام عورت کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ پون نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ اس بات پہ بہت خوش ہے
’’ اچھا تو تم نے وہ کتابیں دیکھ لی ہیں ۔ مجھے کتابیں پڑھنا بہت زیادہ پسندہے۔ خاص طور پر اردو انگریزی ادب لیکن میں نے انہیں جان بوجھ کر ڈبے میں بند کر کے نظروں سے اوجھل کردیا ہے کیونکہ اب میں صرف اس زندگی کا نصاب پڑھنا چاہتی ہوں جو ہمیشہ رہنے والی ہے ، جو میری آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہو گی اور مجھے ہمیشہ گزارنی ہے ۔…
عید کے لیےخریدی سلیم شاہی جوتیاں گھروں میں رکھی رہ گئی تھیں ،اور نرم و نفیس جوتیاں پہننے والوں کے آبلوں سے خون رس رہا تھا۔کمخواب کے دبیز جوڑے ٹرنک میں دھرے رہ گئے تھے اور دھول مٹی میں غبار آلود پسینہ پسینہ وجود لیے نفوس ایمان کے سہارے منزل کی جانب گامزن تھے
تقسیم کے فورا ًبعد تاریخ کی عظیم ہجرت کا عمل شروع ہوچکا تھا۔مسلمان اپنے بھرے پرے گھروں پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر آزادی کی حقیقی منزل پاکستان جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کیا امیر کیا غریب سب کی آرزوؤں کا مرکز اور مٹی پاکستان تھی ۔کچھ علاقوں میں نسل در نسل ساتھ رہنے والے مسلمان اپنے ہندو پڑوسیوں کے بارے میں خوش گمان بھی تھے ،جو غیر جانبدار بنے دم سادھے گھروں میں بیٹھے تھے، البتہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں نے قیمتی ساز و سامان زیور نقدی پہلے سے تیار رکھا ہؤا تھا ۔ انھیں اندازہ تھا کہ کسی لمحے بھی ان کے نکلنے کا وقت آ سکتا ہے۔مسلم اکثریت کے بہت سے وہ علاقے بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھےجہاں مسلمان اس اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اب ہم پاکستان کا…
ہم نے دماغ کے ایک خانے کو تھپکیاں دے دے کر نیم خوابیدہ حالت میں رکھا ہؤا ہے۔ تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کے لیے!
حیران نہ ہوں۔ جہاں یہ ترکیب تلخ باتیں نظر انداز کرنے اور بھلانے میں معاون ہے وہیں بھلکڑ پن اور غائب دماغی کے مرض نے بھی اس ترکیب سے تقویت حاصل کی ہے ۔اور یوں یہ ہمارے’سہاگ‘ کی ’رقیبِ روسیاہ‘ بھی ثابت ہوئی ہے، کوئی دن نہیں جاتا کہ تھپکیوں سے مضروب دماغ نے اس ’نامعلوم تشدد‘ کے خلاف صدائے احتجاج نہ بلند کی ہو، اور مجال ہے جو اس نے ذرا بھی ’سہاگ‘ کی پروا کی ہو!
آپ ہماری یادداشت پر کف افسوس ملیے یا ہمیں لا پروا ، غیر ذمہ دار اور لا ابالی سمجھیے ، یہ سراسر آپ کی مرضی پر موقوف ہے ، ہاں مگر اس مرضی کو غیر جانبدار ، دیانتدار اور بے لاگ نگاہ سے دیکھیں گے تو اس کیفیت کو ادبی مزاج سے ہم آہنگ سمجھتے ہوئے ، عالمانہ طرز کی اس غائب دماغی سے قلبی تعلق محسوس کریں گے ، بے شک ، اس درد کو وہی سمجھ سکتا ہے اور محسوس کر سکتا ہے جو خود بھی اس مرض کا شکار رہ چکا ہو۔ خواہ طبیب کی صورت…
بچوں کی جنسی تعلیم اور اسلام
مصنفہ : ثریا بتول علوی
موجودہ دور میں سوشل ، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے جنسی بے راہ روی کا ایک طوفان امتِ مسلمہ کے گھروں میں داخل ہو چکا ہے ۔ وطن عزیز کے مختلف علاقوں سے لڑکیوں ، خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے بے شمار ، روح کو تڑپا دینے والے واقعات آپ کو روزانہ دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔ اور اب تو اس ملک کی ’’ اشرافیہ نما مافیا‘‘ نے نجی اور انفرادی زندگی کی بے شمار وڈیوز کو چلانے کا جو وطیرہ اختیار کیا ہے ، وہ اسلامی روایات اخلاق کے خلاف ہی نہیں بلکہ مغرب میں رائج عریاں تصاویر(Porno Graphy) کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
جنسی تعلیم کے موضوع پر ہمارے معاشرے میں بر سرِ عام گفتگو کو مناسب خیال نہیں کیا جاتا ۔ تاہم اخبارات اور وسائل کے جمعہ اتوار کے ایڈیشنوں میں پورے کے پورے صحافت پر مختلف دوا خانوں کے ایسے اشتہارات شائع ہوتے ہیں جن میں مختلف مردانہ اور زنانہ امراض کے علاج کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ ہماری معاشرتی زندگی کا یہ منافقانہ طرز عمل ہمیں کہاں لے کر جائے گا ، اس پر اس ملک کے مذہبی علما،…
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت ہماری اولین ذمہ داری ہے۔اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے جہاں نصابی تعلیم اور جسمانی تفریح یعنی کھیلوں کی اہمیت ہے، وہاں غیر نصابی تعلیم اور ذہنی تفریح بھی اسی قدر ضروری ہے، اور یہ دونوںضروریات بہترین ادب کے ذریعے پوری کی جاسکتی ہیں۔چنانچہ بچوں کے لیے جہاں بہت سے مصنفین نے کتابیں لکھیں،وہیں بہت سے رسائل کا اجرابھی کیا گیا،لیکن ان میںسے انہی مصنفین و رسائل نے مقبولیت اور دوام حاصل کیا جنہیں بچوںنے اپنے ادب کا نمائندہ سمجھ کر پذیرائی دی۔انہی رسائل میں سے ایک معتبر نام ماہنامہ بقعۂ نور کا ہے جسے پاکستان سے چھپتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ (۶۰ سال) ہو چکاہے ۔ابتدا سے اب تک اس رسالے کے جتنے مدیران رہے، وہ سب ادب، خصوصاََ بچوں کے ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر ،اور مشہور براڈ کاسٹر شمع خالد یونیورسٹی کے ریڈیو چینل کے حوالے سے لکھتی ہیں:
’’بچوں کا رسالہ نور گزشتہ دو سال سے میرے زیرِمطالعہ ہے۔ ریڈیو (voice of women)میں جمعہ کو بچوں کی دنیا نشر کی جاتی ہے…
غالبؔ نے برسوں پہلے اپنے ایک مصرع میں کہا تھا ؎
’’ لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور‘‘
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ جو بات وہ مزاح میں کہہ رہے ہیں وہ ایک دن واقعی حقیقت کا روپ دھار لے گی ۔ آج بدلتے زمانے اور گزرتے وقت نے اسے سچ ثابت کر دیا ۔ وہ زندہ ہو تے تو دیکھتے کہ اس بازار دنیا میں ہر چیز ملتی اور بکتی ہے یہاں تک کہ جنس آدمیت بھی۔
نیرنگیِ زمانہ نے ہر چیز کو بدل دیا ہے تہذیب و اقدار بدلیں طور طریقے بدلے ، شکل و صورت بدلی، ناز وانداز بدلے ہاتھ ، پائوں ، دل گردے تک بدل دیے گئے اور اب تو جسمانی ساخت کی تبدیلی کے ساتھ وہ وقت آگیا ہے کہ صنفی شناخت بھی تبدیل کی جا رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم کیا رہے ۔ ہمارا اپنا کیا رہا ؟ حیوانوں کی بھی ایک شناخت ہوتی ہے ۔ پودوں اور کیڑے مکوڑوں ، حجر و شجر کی بھی ایک شناخت ہوتی ہے پھر انسان جو سب سے افضل مخلوق ہے اس کی کوئی شناخت نہیں ؟ ابھی جو مرد تھا وہ کچھ دن بعد عورت کے…
شمارہ دسمبر 2022ء دھند بادلوں اور سخت سردی کا تاثر دیتا ہوا ٹائٹل بہت ہی دلکش ہے ۔ اور ’’ابتدا تیرے نام سے‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کے جاندار حالاتِ حاضرہ پر تبصروں پہ مبنی اداریہ دعوتِ فکر د ے رہا ہے ۔ارباب بست وکشاد کی آنکھیں کھولنے کے لیے اداریے کے یہ جملے ہی کافی ہیں ’’ سیاست کے نام پہ شیطانیت کا رقص جاری ہے ہوسِ اقتدار اور خاندانی حکومتوں کے تسلسل کی خاطر انسانیت بالائے طاق رکھ دی گئی ہے ، تیس پینتیس برس تک مادرِ وطن کی لوٹ کھسوٹ سے اب تک شکم بھرے نہ نیت ۔ البتہ خزانے خوب بھر گئے ، جائیدادیں بن گئیں ۔ اب یہ سب اپنی آل اولاد کے لیے چھوڑ کر خود دو گز زمین کے منظر ہیں ، آج ملے یا کل‘‘۔ اداریے کا اختتام بڑے زبردست اشعار سے کیا گیا ہے ۔
وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم کیا واقعی بھر جاتے ہیں
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
۔’’دعوت دین ‘‘ چند گمنام گوشے ( عبد المتین ) اس شاندار مضمون میں دعوت دین دینے کے اسرار و رموز بنائے گئے ہیں کہ داعی کو بھرپور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اُسے معاشرے…
قارئینِ کرام! سلام مسنون
ایک دکھ بھرے واقعے سے آغاز کرنا پڑرہا ہے۔ پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں بم دھماکا تازہ سانحہ ہے۔۸۳ قیمتی جانیں چلی گئیں اور بہت سے لوگ زخمی ہیں۔ملک میں دہشت گردی کے واقعات کچھ عرصے سے دوبارہ سر اٹھارہے ہیں،اور اس افسوس ناک واقعے نےتوواضح طور پہ ہمارے شہروں،عوامی جگہوں اور حساس مقامات کوایک بار پھر دہشت گرد حملوں کی زد پر ہونے کا اشارہ دے دیا ہے۔ بین الاقوامی اور اندرونی عناصر کی ملی بھگت کے ساتھ ہمارا ملک اس وقت کئی قسم کےشیطانی منصوبوں کا نشانہ ہے۔انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ آنے والا وقت خیر اور بہتری کا ہو ،آمین۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہ صرف ہوئے بلکہ ان کے نتائج نے اہل کراچی کو خوش اورسندھ حکومت کو پریشان کردیا۔ایسے وقت میں جبکہ بلدیاتی انتخابات کرواناکسی جماعت کی ترجیح نہ تھی،جماعت اسلامی نے مسلسل انتخابات منعقد کروانے کے لیے جدوجہد کی اور اب وہی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ٹھہری ہے۔کراچی کے شہریوں نے فیصلہ دے دیا ہے اور حافظ نعیم الرحمان کے لیے بطور میئر اپنی پسند پر مہر لگا دی ہے۔
مگر اہل کراچی کی خوشی ادھوری ہے ، کراچی…
اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی ہر شے کو تخلیق کیا اور انہیں ایک نظام کا پابند بنایا، اور اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کی درجہ بندی کی، ان کے خواص اور صلاحیتوں کے مطابق انہیں مختلف کام تفویض کئے۔ اس دنیا کو بنایا اور اس میں انسان کو باقی مخلوقات سے افضل و اشرف بنایا، اور اس کی دائمی حیات سے قبل اس کی دنیا کی زندگی کو عارضی بنایا اور اس قیام کی مدت کو اس کے لیے ایک دار الامتحان قرار دیا۔اور اس دنیا کے پہلے جوڑے کو اس رہنمائی کے ساتھ دنیا میں اتارا:
’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرۃ،۳۸۔۳۹)
یہ نسلِ انسانی جو خلیفۃ اللہ فی الارض ہے،کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کا عہد بھی کہا جاتا ہے۔اس کی رو سے انسان کا کام اپنا راستہ…
قرآن کریم میں موجود انبیاء کے قصص
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بہت سے موضوعات کے ساتھ ساتھ انبیاء کے قصوں کو بھی ذکر فرمایا ہے اور قرآن کی زبان میں اس مضمون کا مقصد عبرت قرار دیا ہے ’’لقد کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب‘‘ ترجمہ: یقیناً انبیاء کے قصوں میں عقلمندوں کے لیے عبرت کا سامان ہے‘‘ لہٰذا قرآنی قصے، قصہ برائے قصہ نہیں بلکہ قصہ برائے عبرت کے اصول سے مذکور ہیں، تاکہ ہم انسان ماضی کے ان قصوں کو سمجھ کر سبق سیکھیں، اپنے حال کا تجزیہ کریں اور اپنے مستقل کے لیے حکمت عملی طے کرسکیں۔
ان قصوں میں چند معروف انبیا کے قصے بالخصوص مذکور ہیں جن میں حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم ، حضرت یوسف ؑ کے قصے ہیں۔ان قصوں میں غور کیا جائے تو انبیا کی دعوت کے کئی پہلو واضح نظر آتے ہیں جس سے ان کی دعوت ، حکمت اور طریقہ کار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انبیا کی اس دعوت میں ایک جملہ بار بار پڑھنے کو ملتا ہے:
وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین
ترجمہ: ’’میں تم سے اس دعوت کے بدلے کوئی معاوضہ نہیں مانگ رہا اس کا معاوضہ تو رب العالمین کے…
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
پیکر و مہر و محبت، ایثار و وفا، رواداری و بردباری، فرحت و راحت، علم و عمل کو یکجا کر دیا جائے تو منجھلی آپا بنتی ہیں۔ آپ کی شخصیت ہوا کے لطیف جھونکے کی مانند ہے جو نہایت سبک خرامی سے دوسرے کے دل میں نرمی اور ٹھنڈک کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ آپ سے مل کر بے پناہ پاکیزگی کا احساس جاگزیں رہتا ہے، سراپا اللہ کی بندی دکھائی دیتی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی چاہت وجود سے پھوٹی پڑتی ہے۔ ان سے ملنے کے بعد دل میں اللہ کی محبت فزوں تر محسوس ہوتی ہے۔ آپ ایسی عارفہ ہیں کہ ان جیسے لوگ انسانوں کے ہجوم میں خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علم و عمل کی خوشبو اپنے اردگرد والوں کو معطر کیے رکھتی ہے۔ آپ کو اپنے والدین کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی بے پناہ خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
س: آپ کا اسم شریف اور سنِ پیدائش کیا ہے؟
ج: میں اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی آپ مجھے مولانا مودودیؒ کی صاحبزادی کہہ کر بلائیں۔ میں 1941ء میں دہلی میں پیدا ہوئی۔…
یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو
ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو
اندھیرے گھر میں گری ہوئی سوئی ڈھونڈنا جب نہیں ہے ممکن
تو کیوں یہ پھیلائی جھوٹی باتوں کے ہاتھ پاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کسی کے آنچل نہیں ہیں محفوظ گر سروں پر تمہارے ہاتھوں
تو کس بنا پر تم اپنے گھر کے لیے رداؤں کو ڈھونڈتے ہو
یہ نیک لوگوں کی بستیاں ہیں یہاں بنے گا مذاق ہر سو
تمہای سادہ دلی کا یارو جو ہمنواؤں کو ڈھونڈتے ہو
بتاؤ کیا اس زمیں کے تم پر تمام در بند ہو چکے ہیں
تلاش کرنے نئے ٹھکانے جو تم خلاؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہ کوئی کنکر نہ اینٹ پتھر کسی نے مارا نہ روکا ٹوکا
تو اجنبی شہر میں بھلا تم کن آشناؤں کو ڈھونڈتے ہو
بہت پکارا تڑپ تڑپ کر پلٹ کے دیکھا نہیں تھا اب کیوں
زمین گنبد نہیں ہے جو تم مری صداؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہیں تھا یاں آشنا ہی کوئی تو چاہیے کس کی راکھ، جو یوں
تڑپ کے مرگھٹ میں ہر طرف تم جلی چتاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کرو بھی احسان اور احسان کرکے ہر دم جتاتے رہنا
ہے ایسا جیسے جزاؤں میں تم کڑی سزاؤں کو ڈھونڈتے ہو
وہ جھوٹے وعدے، وہ بے وفائی، وہ فرقتوں کی سیاہ راتیں
عجیب ہو…
ہواؤ!
جب تمہیں اذنِ سفر ہوگا
سدا کی بے زمانی سے زماں تک
لامکانی سے مکاں کے
حدِّ امکاں تک
تمہارا ہر قدم ہی معتبر ہوگا
کہیں پران چھوئے برفاب میداں
اور تپیدہ بےکراں صحرا
بہت سے ساحلوں سے، پربتوں سے، مرغزاروں سے
گزر ہوگا
امیدوں کے سمندر سے اگر گزرو!
اچھلتا کودتا،شوریدہ موجوں پر چمکتا
جگمگاتا ایک قطرہ ساتھ لے لینا
ہواؤ!
جب تمہیں اذنِ سفر ہوگا
معطر پر فضا وادی سے جب پلٹو
کوئی ننھا سا جھرنا دور سے گرتا ہؤا دیکھو
کسی پر عزم ندیا کو چٹانوں سے بھِڑا دیکھو
تو اس عزم و ارادے میں
چھپا وہ جلترنگ
اپنی سماعت میں پرو لینا، سمو لینا
ہواؤ !
جب تمہیں اذن ِسفر ہوگا
کہیں دیکھو پرندے ڈار کی صورت
فلک کی وسعتوں میں اڑتے جاتے ہیں
عزیمت،حوصلہ، منزل کی چاہت میں
صعوبت مشکلیں کٹھنائیاں بھی
سہتے جاتے ہیں
ہدف کی آرزو میں وہ بہم یک جان رہتے ہیں
وہ سردارِ سفر پر بے گماں ایقان رکھتے ہیں
تو ان کی داد سے پہلے
یہ فتح کے سنہری رنگ
پس انداز کرلینا
ہواؤ !
جب تمہیں اذنِ سفر ہوگا
امڈتی آندھیاں، بپھرے بگولے،اور تلاطم خیز باراں بھی
تمہارے دامنوں میں دہشت و وحشت کے ساماں بھی
بدلتی رت ،دھنک سے رنگ بھی محوِ سفر ہوں گے
مگر میرے لیے قدرت کا اک انمول سا تحفہ
امید و عزم و ایقاں سے
مہکتی نرم رَو پُروا
خموشی کے سُروں پر خیمہ زن نغمہ
سریلی ، بےصدا لہروں پہ جولرزاں
انوکھی خوابگیں خوشبو…
بدر دین گائوںکا ایک معتبر زمیندار تھا ۔ وہ واحد شخص تھا ، جس نے اپنے بیٹے شعیب کو ایف اے تک تعلیم دلائی تھی حالانکہ اس کے گائوں کے دیگر زمیندار یہی کہتے رہتے تھے کہ بچوں کو پڑھانے کا کیا فائدہ ، ہمیں ان سے سر کاری نوکری تونہیں کروانی ۔ شعیب نے اب اپنا ٹریکٹر سنبھال لیا تھا اور زمین کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے دو معاون افراد کو ملازم رکھ لیا تھا ۔ اس طرح اس نے کاشت کاری میں دوسروں سے بڑھ کر پیداوار حاصل کرنا شروع کی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رشتہ ناتا خاندان کے بزرگوں کا غیر متنازعہ کُلّی اختیار ہوتا تھا اور ابھی لوگوںمیں کزن میرج نے ہولناک صورت اختیار نہ کی تھی ۔ اس لیے بدر دین کی اہلیہ شہر میں اپنے بھائی مظہر الحق ایڈووکیٹ کی اکلوتی بیٹی عافیہ سے شعیب کا بیاہ کرنے کی بات پکی کر آئی۔
عافیہ بہت ذہین طالبہ تھی ، اپنے کالج میں وہ ہم نصابی سرگرمیوںمیںحصہ لیتی تھی ۔ اپنی روایتی تعلیم میں وہ ہمیشہ اول دوم درجہ پر رہتی ، لیکن ادبی مباحثوں میں اس کی کار گزاری قابل فخر تھی، اس کی ایک ہم جماعت نزہت نے ملاقاتوںکے ذریعے اُسے مطالعہ…
ملازمت کا پہلا دن دونوں کے لیے حددرجہ خوش آئند تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو پہلی مرتبہ ملازمت کے پہلے دن ہی دیکھا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دل دے دیا۔
دونوں کو ایک ہی بنک میں ملازمت ملی تھی تو دونوں کے کاؤنٹر آمنے سامنے تھے۔
دونوں نے اتفاق سے نیلے اور کالے رنگ میں ڈیزائن کیے کپڑے پہنے تھے۔
ادیبہ کے مالی حالات محنت کے طلبگار تھے۔ باپ کا انتقال ہو چکا تھا تین چھوٹے بہن بھائی ان کی پڑھائی اور دیگر ڈھیر سارے اخراجا ت! اس کی تعلیم دوسرے صوبے کی یونیورسٹی میں مکمل ہوئی تھی اور دوران تعلیم ہی اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوہ ماں کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے ادیبہ کے حلقہ دوستاں میں بہت سے طالب علم تھے، ان میں نامور سیاستدانوں کے بچے بھی تھے اور فلمی اداکاراؤں کے رشتہ دار بھی ،کھلاڑی بھی اور بیوپاری بھی ،الغرض ان کی صحبت میں شرمیلی سی ادیبہ گھاگ اور مہا چالاک بن چکی تھی۔ ماں کے لیے خیراتی ہسپتال میں علاج اور ان کے لیے خون کی وقتاً فوقتاً ضرورت پر درجنوں ڈونرز پلک جھپکنے میں مل جاتے لیکن افسوس قدرت کا لکھا کوئی مائی کا لال…
دروازہ ہلکے سے بجا ۔
شہلا اٹھ چکی تھی لیکن بستر جیسے ابھی اُسے جکڑے رکھنا چاہتا تھا ۔ اس نے نرم گرم روئی کے گالے جیسے کمبل کو سمیٹ کر زور سے بھینچا اور گہری سانس لے کر جواب دیا ۔
’’آجائیں بوا‘‘۔
چالیس پینتالیس سال کی موڈرن بوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں ۔شہلاکو قدیم اور جدید کا امتراج اچھا لگتا تھا گھر کے لیے میڈ منتخب کی تو اسے پہلے دن ہی دوسری ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں بوا کہا جائے گااور وہ شہلا کو شہلا بی کہیں گی۔
وہ اس طرح اپنی خاندانی روایات سے جڑ کر رہنا چاہتی تھیں انہیں اچھا لگتا تھا ۔ جب اپنی کسی موڈرن سہیلیوں کے سامنے وہ میڈ کو بوا اور بوا اُن کو شہلا بی کہتیں تو انہیں اپنی سہیلیوں سے یہ کہنا بہت اچھا لگتا کہ یہ سب ان کے بزرگوں کی روایات ہیں۔
نادیہ ماچس والا ، میشاء سیٹھانی ، زرینہ مارکوس تو اتنے متاثر ہوتے کہ جتنے ان کی ڈرائینگ روم کی مہنگی اور حسین سجاوٹ سے نہ ہوتے جو وہ ہر سال بہت شوق سے تبدیل کرتی تھی۔ ہاتھی کے دانت کی نازک اور حسین بگھی چاندی کا تاج محل جس کے میناروں پر سبز…
’’اچھا اب میں چلتا ہوں‘‘۔
گروسری کا سامان سلیب پر رکھ کر اسلم نے عائشہ سے اجازت چاہی۔
’’کھانا کھا کر چلے جاتے ‘‘عائشہ پیچھے آتے ہوئے بولی ۔
یہ دعوت زبانی تھی اس کے روکنے میں اصرار نہیں تھا اور نہ ہی اسلم کو کسی صورت رکنا تھا ۔اسلم گیٹ تک پہنچ کر مڑا ،خاص عائشہ کے سندھی اسٹائل میں اس کے سر پر ہاتھ دھرا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔
’’کچھ اصول جو ہمارے درمیان طے ہوئے تھے پکے یاد ہیں نا؟‘‘
’’ جی یاد ہیں۔ جس دن آپ کو کھانے پر روکا تھا وہ دن اصولوں کو بھولنے بھی نہیں دے گا۔ توبہ! آپ کو کھانے پر نپٹانا شہر بھر کو نپٹانے کے برابر ہے، شہلا باجی کی ہمت ہے‘‘۔
اسلم نے چھوٹا سا قہقہ لگایا اوربچوں کو پیار دے کر دہلیز پار کر گیا۔
٭٭٭
شہلا ایک وسیع طول و عرض کی خاص آرڈر پر بنی کرسی پر براجمان تھیں۔ ان کے برابر والی کرسی پر اسلم کھانے میں مصروف تھے۔شہلا کی طرف سے ملازمہ کو ہدایات جاری تھیں ۔گندمی رنگ ،سادہ چٹیا، کان میں گولڈ کے بڑے بھاری بالے، دو موٹی گولڈ کی چین، ایک ایک کنگن ہاتھ میں پھنسا ہؤا، ناک میں ہیرے کی لونگ ،دو سوٹس کو…
سرد ہوا کے ساتھ برفیلے جھکڑ….
دور تک سناٹا….
تین نفوس!
بھوک اور سردی سے نڈھال ،بجھے ہوئے سرد چولہے کے گرد ایسے بیٹھے تھے گویا وہاں سے انہیں کھانا مل ہی جائے گا۔
یہ پہاڑی کے دامن میں واقع ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں اکا دکا چھوٹے چھوٹے کچے گھر تھے۔ وگرنہ تو یہاں فاصلے سے بنے چار پانچ بنگلے تھے جو صرف برف باری کے زمانے میں ہی آباد ہوتے تھے۔ برف باری دیکھنے کے لیے بس باقی یہاں ان بنگلوں کے رکھوالے رہتے تھے یا کوئی انہی جیسے افراد جن کے روز گار قریبی ہوٹلوں سے وابستہ تھے اور یہ روزی بھی ہوائی روزی تھی، برف باری کے زمانے میں ملتی، اس کے علاوہ چولہے ٹھنڈے پڑے رہتے۔ اسی لیے برف باری کے دوران ان لوگوں کو خوب سے خوب اور زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی ہوس ہوتی اور دوران سیزن یہ خوب خوب کماتے، اتنا کماتے کہ جب سیزن ختم ہو جاتا تب بھی ان کی سیزن کی کمائی چلتی رہتی ۔
مگر نجانے کیوں اس بار تو سیزن بھی تھا مگر شناور خان کو کوئی خاطر خواہ کام نہیں مل سکا ۔جہاں جاتا نو ویکینسی کا جملہ منہ چڑا رہا ہوتا۔ ایسے تو کبھی نہ ہؤا تھا!سرد ہوا…
زاہد صا حب نما ز عشا ءپڑھ کر گھر داخل ہی ہو ئے تھے کہ انہو ں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔
نصر ت آرا نےسا ی چیزیں الما ی میں سے نکال کر بیڈ پر پھینکی ہو ئی تھیں اور بڑے غصے سے سنگھا رمیزپر پر انی میک اپ کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک ر ہی تھی ۔انہوں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا جو پر یشا نی سے دونو ںبچو ںکوسینے سے لگا ئے بیٹھی تھیں۔
اس کا مطلب ہے کہ آج پھرنصرت نے ان کی پٹا ئی کی ہے ۔انہوں نےپریشانی سے سو چا اس کو کیا ہو گیا ہے اب تک تو یہ ایسی حر کتیں نہیں کر تی تھی ۔ انہوں نے بیڈ وم کا د روازہ کھولااور نصرت کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا ۔
نصرت ان کی دس سال سے زوجہ حیات تھی وہ بہت صابر شاکر خاتون تھی انہوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا اور وہ ہر دُکھ سُکھ میں ان کا ساتھ بڑی خوش اسلوبی سے دے رہی تھی۔ دس پندرہ دن سے وہ اس کا لہجہ اور رویہ بدلتا ہؤا دیکھ رہے تھے۔
وہ پہلے ایک گائوں کے اسکول میں ٹیچر تھی اور وہاں اسے سفر کرکے جانا…
میں نے جلدی سے حاضری صفحہ پر دستخط کیے اور رجسٹر ملازم کے حوالے کرتے ہوئے کافی دیر سے بجنے والے موبائل پر توجہ کی۔ موبائل پر فاریہ کا نام چمک رہا تھا۔
’’اوہ آج فاریہ کا سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آنے والا تھا۔ یا اللّٰہ خیر کرنا ۔ اس کومایوس نہ کرنا۔ اس نے اور میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت سہا ہے‘‘۔میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔
یہ اس بچی کی کہانی تھی جو آج سے سات سال پہلے میرے سکول ششم کلاس میں داخلہ لینے آئی تھی ۔داخلے کے وقت کافی بحث مباحثہ ہوا،کلاس ٹیچر اس کے داخلہ ٹیسٹ کے نتیجے پر بالکل مطمئن نہ تھی کہ اسکو لکھنا نہیں آتا ، ریاضی کی جمع تفریق نہیں آتی، انگلش کی درخواست نہیں آتی، حتیٰ کہ اردو کی جوڑ توڑ بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتی۔
میں نے بطور سربراہ ادارہ کچھ تو اپنی روایتی نرمی اور کچھ والدین کی پریشان صورت دیکھ کر اس بچی کو داخلہ دے دیا ۔خصوصاً میرا دل اس وقت اور بھی نرم پڑ گیا جب مجھے بچی کی والدہ نے اپنے غریب ہونے اور باپ کی محنت مزدوری کر کے بچوں کو پالنے والی کہانی سنائی اور یہ بھی بتایا کہ اگر…
سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی بھوک کو آسودگی سکینہ کی واپسی پر ہی میسر ہو پاتی تھی
سکینہ باآواز بلند سلام کرکے سب سے پہلے آنگن کے کونے میں چھلنگا سی چار پائی پر بیٹھے ملنگے کی طرف بڑھی جس نے اماں کو دیکھتے ہی تالیاں بجانا شروع کردی تھیں ۔سکینہ نے اپنی چادر کے کونے سے اس کی بہتی ہوئی رال صاف کی اور کاغذ میں لپٹی نمک مرچ والی شکرقندی اس کے آگے رکھ دی۔ شکر قندی دیکھ کر ملنگے کی آنکھوں میں خوشی دوڑ گئی ۔ شکرقندی ملنگا کی واحد عیاشی تھی جو اماں سکینہ ہفتے میں ایک بار ضرور کراتی تھی ورنہ تو روز اس کے سامنے بیگم صاحبہ کے گھر سے بچے ہوئے سالنوں کا ملغوبہ ہی رکھا جاتا جو بیگم صاحبہ اپنی آلکسی یا کیا خبر اپنی تھیلیاں بچانے کے چکر میں ساری بچے ہوئے سالن کی پلیٹیں ایک ہی تھیلی میں ڈال کے دے دیا کرتی تھیں ۔
ملنگاحلق سے قلقارریوں کی آوازیں نکالتا ہؤا جلدی جلدی شکرقندی کھانے لگا ۔سکینہ نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی اور سر پر شفقت سے ہاتھ…
رمضان جی کو دیکھنے لڑکی والے آرہے تھے۔ تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد رمضان جی اور اس کے گھر والے مہمانوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ انتظار کتنی بری چیز ہوتی ہے، اس وقت کوئی رمضان سے پوچھتا۔ کاش! انتظار کا لفظ اس دنیا میں ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ جلدی سے لڑکی والے آئیں، اسے پسند کریں اور شادی کی تاریخ بھی مقرر کر جائیں۔
رمضان جی کا وجہ تسمیہ اور قصہ پیدائش کچھ اس طرح تھا کہ رمضان کے مہینے میں جس وقت مسجد کے مولوی صاحب نے فجر کی اذان’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا سے شروع کی تھی عین اسی لمحے اکبر علی کے بیٹے نے دنیا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی کان پھاڑتی آواز کے ساتھ رو رو کر دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کیا۔ بچے کی کراری آواز نے صحن میں بیٹھے اکبر علی کے کان بھی کھڑے کردیے۔ اس کے محسوسات نے ہی اسے بیٹے کی خوشخبری دے دی۔
تھوڑی دیر بعد اکبر کی والدہ عنایت بی بی بھی باہر آئی، بیٹے کا ماتھا چوم کر اسے بیٹے کی خوشخبری سنائی اور پھر مٹی کی اینٹوں سے بنی رسوئی کی طرف گئی جہاں سے کچے…
جہاز تیزی سے اڑان بھرتا ہؤاکراچی ائیر پورٹ کی حدود سے دور نکل گیا ۔ کاک پٹ سے کیپٹن نے دعا کے بعد اپنا اور اپنے عملے کا تعارف پیش کیا۔پرواز کے نگران افسر نے ضروری سفری ہدایات سے مطلع کیا ۔
ڈبل گلاس کی ساؤنڈ پروف کھڑکی سے نیچے مکان ماچس کی ڈبیا کے برابر دکھائی دے رہے تھے ۔میں پلک جھپکائے بغیر انہیں دیکھ رہا تھا۔انہی گلیوں اور شاہراہوں پر میں نے زندگی کے کئی رنگ دیکھے تھے۔انہی ٹمٹماتی روشنیوں کے دور ہوتے عکس میں میں نے خوابوں کے کئی جزیرے تلاشے تھے۔میرے وجود اور میرے وجدان کو محبتوں کے رنگوں سے بھرنے والے تمام رشتے یہیں پر بسے تھے ۔آج انہیں تنہا چھوڑ کر میں سات سمندر پارجارہا تھا ۔
خلوص بھرے ہاتھوں سے دامن چھڑانا اور تنہائی کی اذیت ناک شام و سحر کو گلے لگانا کس کی چاہت ہوسکتی ہے!
پر تقدیر کے فیصلوں پر ہمارا زور نہیں چلتا ۔ہمیں تو بس چلتے جانا ہے انجان راہوں کے مسافر کی طرح….جسے راستوں کا علم نہیں پر چلنا اس کا مقدر ہو ۔
کچھ ہی لمحوں میں جہاز جست لگا کرہزاروں فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا۔اب کھڑکی سے باہر اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔…
پون بی بی کے سامنے اپنے بارے میں سارے چھپے راز کھولنا چاہتی ہے مگر اسے ایک ہی ڈر ہے کہ کہیں اس وجہ سے وہ بی بی کی محبت اورآخری پناہ کھو نہ دے ۔ مگر اس سے پہلے ہی حمیرا کی شادی میں کوئی اسے دیکھ کر پہچان لیتا ہے ۔ بی بی کی بیٹی ماریہ اچانک فوت ہو جاتی ہے ۔ بی بی جب بیٹی کے گھر سے واپس آتی ہیں تو اگلے ہی دن پولیس آجاتی ہے اور پون کو گرفتار کر کے لیے جاتی ہے ۔
سلمیٰ بہت دیر سے انہیں دیکھ رہی تھی وہ کس قدر گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار تھیں ۔ کبھی لیٹ جاتیں کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتیں ، دوبارہ لیٹ جاتیں، کبھی چادر اوڑھتیں کبھی اتار تیںجیسے کوئی فیصلہ نہ کر پا رہی ہوں ۔ سلمیٰ نے پہلی بار انہیں اتنا بے چین اور بے قرار دیکھا تھا ، اُن کا چہرہ بالکل سفید ہو رہا تھا ہونٹ خشک اور بے رنگ تھے ۔ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔وہ گلاس لیے پاس کھڑی تھی۔
’’ بی بی آپ پانی پی لیں ۔‘‘
’’ نہیں پی سکتی‘‘ وہ سر گوشی کے سے انداز میں بولی تھیں ۔’’ میرا حلق بالکل بند ہو رہا ہے ‘‘۔
وہ…
15جنوری2023ء کی شام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی منجھلی صاحبزادی اسما مودودی صاحبہ اپنے ابدی گھرکے لیے روانہ ہو گئیں ۔ اِنَّا للہ وَ اِنَّا الیہٖ راجعون۔
وہ ایک گوہر نایاب تھیں جو 5-Aذیلدار پارک عقب میں چھپا ہؤا تھا ۔کتنے ہی دل ان کی صحبت سے ایمان ، سکون ، اطمینان اور توکل کی دولت لے کر لوٹتے تھے ۔
اسما آپا بے حد مخلص ، اپنائیت اور محبت کرنے والی بڑی پیاری ہستی تھیں ۔ انتہائی مہمان نواز، متواضع،پروقار ،وضع دار نفیس طبیعت کی مالک تھیں ۔ ان کی شخصیت کی نمایاں خوبی ان کااللہ تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل توکل تھا۔
ان کانرم ٹھہرا ٹھہرا لہجہ ، حق بات کہنے میں استقامت اور رعب ان کے عظیم والد سے مماثلت رکھتا تھا۔ انہوںنے اپنے والدین کی بھرپورخدمت کی سعادت پائی ۔ اس طرح صبر اور شکر سے بیماری کا مقابلہ کیا کہ اپنی تکلیف کا احساس ہی نہ ہونے دیا اوردرس وتدریس کا سلسلہ بھرپور طریقے سے جاری رکھا۔
ذیلدار پارک اچھرہ کے باسیوں کی خوش قسمتی کہ اُن کی صحبتِ صالح سے فائدہ اٹھانے کاموقع ملا ۔ اُن کے ساتھ جو خواتین متعلق رہیں ، ان کے دلوں میں ان کی محبت کی جڑیں بہت گہری ہیں ، اور…
ادبی مجلس اور ہنگامی…. جی بالکل !
ایسے جھٹ پٹ خیال آیا بلکہ یوں کہیں کہ ہم جیسوں کی رال ٹپکی کہ قانتہ باجی ہوں اور ان کو سنا نہ جائے، نہ نہ یہ نا ممکن…. تو بس پھر ہنگامی بنیادوں پر اس مجلس کا انعقاد ہؤا اور یہ انعقاد مزہ دوبالا کر گیا کہ قانتہ باجی نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔ اللہ ان کے ایمان، قلم اور زندگی میں بہت برکات عطا فرمائے آمین۔
ہؤا کچھ یوں کہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین گوجرہ کے زیر اہتمام دو روزہ تربیت گاہ کے پہلے دن(26 نومبر) کے پروگرام کا اختتام شام چھ بجے اعادہ، احتساب اور دعا کے ساتھ ہوا۔ سب بہنیں پروگرام کے بعد ملنے ملانے لگیں ۔چونکہ یہ اقامتی تربیت گاہ تھی تو رکنے والی ایک بہن شکیلہ زین صاحبہ نے مجھے خاص طور پر بتایا کہ ہم ان شاءاللہ آٹھ بجے قانتہ باجی کے ساتھ ادبی نشست رکھ رہے ہیں ۔ مجھے اور ایک ساتھی بہن کو آٹھ بجے تک ہی گھروں سے رخصت ملی تھی سو ہماری بےچینی سوا تھی کہ جونہی ہم جائیں گے اور ادھر ایسی خوبصورت محفل….بے چینی کو زبان دی اور شکیلہ بہن سے درخواست کی کہ یہ نشست ابھی رکھ لی جائے سوا چھے…
ماہنامہ ’’ چمن بتول‘‘ شمارہ جنوری2023ء پیش نظر ہے ۔اس پہ اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ اس دفعہ ٹائٹل بڑازبردست آرٹسٹک ہے۔ خزاں اور موسم سرما کا منظر بڑا دلکش دکھایا گیا ہے کسی اچھے آرٹسٹ کا ترتیب دیا ہؤا ٹائٹل نظرآتاہے۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے ایک خوبصورت دعا کے ساتھ نئے سال کے پہلے اداریے کا آغاز کیا ہے ۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کہ رب ِ کریم اس سال کوہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں خیر وعافیت کا سال بنائے ۔ زوالِ امت کے اس گنبدبے در میں کوئی امید کی کرن دکھائی دے ۔ کرہ ارض پر بسنے والوں کو فساد سے امن کی طرف ،گمراہی سے ہدایت کی طرف اورنفرت و انتشار سے سکون و سلامتی کی طرف راستہ دکھائے ‘‘۔(آمین)
آپ نے گوادرکے باسیوں کے حق میں بھی زبردست آواز بلند کی ہے ۔
’’ حکمت سے دعوت‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ) ڈاکٹر صاحبہ نے قرآن و حدیث کے حوالے سے دعوتِ دین کے بہترین اصول بتائے ہیں کہ بھلائی کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنا ہرمومن کافریضہ ہے لیکن یہ کام نہایت دانائی اورعمدہ نصیحت کے ذریعہ کیا جائے…
یہ سوچ سب سے پہلے غالباً قابیل کے دماغ میں اس وقت آئی ہوگی جب اپنے بھائی ہابیل کو اپنے ہاتھوں قتل کر کے لاش پہ نظر پڑی ہوگی۔ کاش قابیل کو یہ خیال قتل سے پہلے آیا ہوتا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ شاید اس وقت لوگ ہی کم تھے اور لوگوں کی فکر و فہم نے دوسروں کے بارے میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کہنے کی رسم ایجاد نہیں کی تھی۔
اس پہ بھی تاریخ خاموش ہے کہ پہلے لوگوں نے’’کچھ‘‘ کہنے کی ابتدا کی تھی یا انسان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو&ٔا تھا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
پہلا جرم سرزد ہؤا تو شاید لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ’’کچھ کہنا بھی ہوتا ہے‘‘ مگر قابیل نے کوّے کو اپنا استاد مانتے ہوئے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ:
’’کوّا میرے بارے میں کیا کہتا ہوگا؟‘‘
یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ انسان جرم کرنے سے پہلے نہیں سوچتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔سیدنا یوسف کے بھائیوں نے اپنے والد کے چہیتے بیٹے کو کنوئیں میں ڈالتے وقت نہیں سوچا کہ جب پتہ چلے گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب بات کھل گئی تو سارے شہر…
ذیابیطس دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔
اس مرض کا شکار ہونے کی صورت میں کچھ علامات ایسی ہوتی ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آپ کو اپنا چیک اپ کروا لینا چاہیے تاکہ ذیابیطس کی شکایت ہونے کی صورت میں اس کے اثرات کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔
تو ایسی ہی خاموش علامات کے بارے میں جانیے۔
ٹوائلٹ کا زیادہ رخ کرنا
جب آپ ذیابیطس کے شکار ہوجائیں تو آپ کا جسم خوراک کو شوگر میں تبدیل کرنے میں زیادہ بہتر کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں دوران خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جسم اسے پیشاب کے راستے باہر نکالنے لگتا ہے، یعنی ٹوائلٹ کا رخ زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس مرض کے شکار اکثر افراد اس خاموش علامت سے واقف ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر رات کو جب ایک یا 2 بار ٹوائلٹ کا رخ کرنا تو معمول…
ہر برسرِ روزگار فرد گھر بسانے سے پہلے اپنے ٹھکانے کی فکر کرتا ہے۔ چھوٹا سا مکان ہو جو زندگی کو آگے چلا سکے۔ اور اس کے لیے باعث سکون ہو۔
جب انسان تھک جاتا ہے تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے صوفہ کرسی استعمال کرتا ہے مگر آرام کی اصل جگہ انسان کا بستر ہوتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی بچے کو بستر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر یہ ضرورت ساری عمر رہتی ہے۔
مشترکہ خاندان میں بھی ایک نئے جوڑے کے لیے ذاتی کمرے کا انتظام لازمی امر ہے۔ وسیع و عریض گھر میں بھی وہی ایک کمرہ ذاتی ملکیت کا احساس دلاتا ہے جہاں فرد اپنی ذاتی اشیاء رکھتا اور رات گزارتا ہے۔ اور اس کمرے میں بھی ہر فرد کی مکمل دلچسپی اس بستر سے ہوتی ہے جہاں اس نے سونا ہے بلکہ بستر کی دائیں یا بائیں طرف اور اپنا ہی تکیہ نیند کے مزے لینے کو آسان بناتا ہے یعنی انسان کو جس چیز اور جگہ سے انسیت ہو جاتی ہے وہی باعثِ سہولت ہے۔ اسی لیے اکثر لوگوں کو کسی نئے مقام تکیے یا بستر پہ نیند نہیں آتی۔
انسان اپنی آرام گاہ کا انتظام کرتا ہے، اس سے مانوس ہوتا ہے اور اس…
قارئینِ کرام سلام مسنون!
وہ موسم ہے کہ بارشیں ختم ہیں اور فضاؤں میں ٹھہری ہوئی گرد کا راج ہے۔ فضا میں آلودگی کا پیمانہ روزبروز بڑھے گا، گلے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوگا اور جب تک بارش نہ ہوگی ہوا صاف نہ ہوگی۔لاہور ابھی سے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آگیا ہے، آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
گرد شہری ہوا میں ہی نہیں سیاسی فضا میں بھی ہے۔ معروف صحافی کا اندوہناک قتل ایک ایسا سانحہ ہے جس نے صرف آزادیِ اظہار ہی کا گلا نہیں گھونٹا بلکہ آنے والے حالات کے بارے میں بھی شدید تشویش اور اندیشوں کی گرد اُڑا دی ہے۔کئی دیگر صحافیوں کی بھی ملک چھوڑنے کی اطلاعات ہیں۔ حالات ایسے بنا دیے جائیں کہ محض رائے دینے کے نتیجے میں جھوٹے مقدمات قائم ہو جائیں یہاں تک کہ ملک چھوڑنا پڑے تو یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ عمومی طور پہ بے چینی بلکہ خوف پایا جاتا ہے۔دوسری طرف لانگ مارچ کی صورت میں بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کیا جارہا ہے۔اس وقت فوری انتخابی اصلاحات اور اس کے بعد شفاف قومی انتخابات واحد راستہ ہے کہ بہتری کی کوئی امید ہو سکتی ہے۔
توشہ خانہ کیس کا فیصلہ تو آگیا اب انتظار ہے…
اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق مالک اور فرمانروا ہے۔ اس کی کائنات بہت وسیع ہے، جس کے ایک حصّے میں اس نے انسانوں کو پیدا کیا، اور انہیں ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ قرار دیا۔اس نے انسانوں کو عقل و شعور اور علم سے مزین کیا، تاکہ وہ جاننے بوجھنے والی سمجھدار مخلوق بن جائیں۔اس نے انہیں زمین پر اسی شعور کے ساتھ اتارا، اور گاہے گاہے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ان کی ہدایت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔اس نے برائی اور بھالائی کی تمیز ان کے اپنے نفوس میں بھی رکھ دی تاکہ وہ کسی کے بہکاوے میں آنے سے بچیں۔ اس نے پورے اختیار اور ارادے کی قوت کے ساتھ انہیں بھیجا تاکہ وہ اپنے اعمال کے ذمہ دار بنیں۔
یہ عالم ِ بالا کی خاص مشیت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کیے جانے والے انسان کو اس زمین کے اختیارات دے دیے جائیں، اور اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے، اور انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب، اس کی تبدیلی و ترقی اور اس کے خزانوں کا کھوج لگانے اور اس کے خام ذخائر کا پتا لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام پر لگا دیا جائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم…
فطرت سے مراد ساخت ہے،مگر جب ہم انسانی فطرت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ ساخت،صفات ہیں جو انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوں اور جو زمانے کے سردو گرم،ماحول کی ناسازگاری کے باوجود انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہوں۔
آئیے ذرا فقہا کے اقوال اور احادیث کے تناظر میں فطرت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
حدیثِ قدسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیاطین نے انہیں بہکا دیا‘‘۔(مسلم)
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد ملتِ اسلام ہے۔ (اغاثة اللھفان)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔(تفسیر القرآن العظیم)
امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی فطرت سے مراد اسلام ہے۔ (فتح القدیر)
فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے صاحب مصباح اللغات کے نزدیک فطرت کا معنیٰ طبیعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفت کہ ہر موجود اپنی پیدائش کے وقت جس پر ہو ہے۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فطرت نہیں بدلتی اور عمومی طور پر اس کے لیے بچھو کو بطور مثال پیش کیا جاتا…
ہم جنس پرستی اور ہم جنس شادی، چند حقائق
کائنات میں موجود تمام جاندار اشیامیں فطرت نے نر اور مادہ کا فرق بقائے نوع اور تناسل (reproduction)کے لیے رکھا ہے۔ دونوں کی یکجائی سے ان کی نسل چلتی ہے اور اسی مقصدکے لیے ان کے درمیان کشش رکھی گئی ہے۔ فطرت کے انہی مقاصد کو پورا کرنےکے لیے انسانوں کے درمیان خاندان کا ادارہ وجود میں لایا گیا جو نکاح کے ذریعے شوہر اور بیوی میں باہم رفاقت و تسکین اور اولاد کی پیدائش، پرورش اور تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ انسان نے اپنے ارادے و اختیار کی آزادی کی بنا پر زندگی کے جن مختلف رویوں میں راہ فطرت سے انحراف کیا، اس میں جنسی خواہش کی تسکین کا انحراف بھی شامل رہا۔ البتہ ان رویوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ مذہبی اور معاشرتی حوالوں سے مغرب اور دیگر علاقوں میں اسے 19ویں صدی تک ممنوع اور قابل سزا جرم بھی تصور کیا گیا۔
بیسویں صدی کے وسط سے ہم جنس پرستی کی تحریک اجتماعی طور پر مضبوط ہونا شروع ہوئی اور بتدریج پیش قدمی کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے آغاز میں ہم جنس شادی کے آغاز پرمنتج ہوئی اور آج 33ممالک میں ایسی شادیوں…
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
بلندیِ خیال میں،جواب میں سوال میں
وفا کے ہرکمال میں، عمل کے ہرجمال میں
عروج میں ،زوال میں غرض کسی بھی حال میں
ہیں آگہی کاراستہ، وہی حبیبِ کبریا
منازلِ شعور میں، محافلِ سرور میں
دل و نگہ کے نور میں ، فضائلِ وفور میں
جلالِ کوہ طور میں ،خدا کے ہر غرور میں
وہ روشنی کاسلسلہ، وہی حبیبِ کبریا
نہ نفرتوں کی حدرہے،زباں پہ ردّوکد رہے
کدورتیں ہوں اس قدر،شعورِجاں پہ زد رہے
جہاں جہاں بھی دیکھیے عجیب شدومد رہے
توپھر حیات مصطفٰے ، کرے عطا نئی جلا
کوئی کٹھن ہو مرحلہ، ملے نہ کوئی درکھلا
تو اسوہِ محمدی نظر نظر کا آسرا
شبِ سیہ کے بام پر بنے سحر کاراستہ
وہی حبیبِ کبریا، وہ مل گئے خدا ملا
حویلی کا آہنی گیٹ دھڑا دھڑ بج رہا تھا ، ڈھول کی تھاپ، گھنگھرئوں کی جھنکار اور تالیوں کی زور دار آوازیں سماعت سے ٹکرا رہی تھیں ۔
جتنا شور باہر تھا اُس سے زیادہ حویلی کے اندر ٹائیگر نے مچا رکھا تھا۔ اُس نے تو پوری حویلی سر پر اٹھا رکھی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گیٹ توڑ کر باہر نکلے اور دخل در معقولات کرنے والی مخلوق کی تکہ بوٹی کر دے ۔
ملازم چوہدری کے اشارہ ٔ ابرو کا منتظر تھا ۔ چھ سالہ گڈو حیران کھڑی سب کے چہروںکا بغور جائزہ لے رہی تھی ۔ میٹھی میٹھی مسکان سب چہروں سے عیاں تھی ۔ ابا حُقّہ کا کش لگانے میں مصروف تھے۔
’’ اوئے غلامُو! چُپ کرا اسے ‘‘ انہوں نے حقہ ایک طرف کر کے ملازم کو اشارہ کیا ۔
اِذن پاتے ہی ملازم کی ٹائیگر کی طرف دوڑ لگ گئی۔ جیسے ہی اُس نے ٹائیگر کی گردن پر پیار سے پیر رکھا اُس کی آواز تو بند ہو گئی اور دُم اُتنی ہی تیزی سے حرکت کرنے لگ گئی ، یہ اُس کی طرف سے اطاعت امر کا ثبوت تھا ۔
خاموشی چھاتے ہی باہر کا شور زور پکڑ گیا ۔
’’چوہدری ! تیرے بچے جیون…
زلفی بابا تھا تو چالیس پینتالیس برس کا مگر اپنے ظاہری حلیے سے پچاس ساٹھ کا دکھائی دیتا تھا ۔ قدرے سانولا رنگ ، تاڑ کا سا قد، دبلا پتلا جسم ، سر پر اکا دُکا بھورے بال جو ہر وقت بکھرے رہتے ۔ جنہیں سمیٹنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی ۔ اس کا لباس بھی اس کی شخصیت کا عکاس تھا ۔ زرد رنگ کا لمبوترا سا کرتا ، دو رنگوں کے ڈبوں والی دھوتی ، لال اور سفید دھاریوں والا رومال جو کندھے پہ رکھا ہوتا اور بوقت ضرورت اسے صافے کے طور پر سر پر باندھ لیا جاتا ۔ اس کی شخصیت کو دیکھ کر اداسی ، ویرانی اور غربت کا احساس ہوتا ۔ ہم سوچتے شاید غریب آدمی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جب وہ دس بارہ برس کا تھا تب وہ پہلی بار بڑی کوٹھی میں آیا تھا ۔ اس کا کوئی عزیز اسے بڑے ابا جی کی سر پرستی میں ان کے پاس چھوڑ گیا تھا۔ وہ کون تھا ، کہاں سے آیا تھا اس کے کوئی اپنے تھے بھی یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔مگر یہ راز صرف بڑے ابا جی جانتے تھے ۔ قسمت کا مارا زلفی پیدائشی ہیجڑا تھا ۔…
اتنا تو شہناز بیگم نے دو بیٹوں کے آنے ہر بھی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا جتنا بیٹی کے آنے پر ،بیٹی کیا پیدا ہوئی جیسے سترہ سال کی کم سن بچی بن گئی ہو۔ لوگ باگ روتے ہیں کہ مائیں ساری توجہ بیٹوں کو دیتی ہیں ان کے نخرے اٹھاتی ہیں ان کو گھی کی چوری بنا بنا کے کھلاتی ہیں پر شہناز بیگم کے ہاں الٹ معاملہ ہؤا ۔جو پیار اور توجہ انہوں نے بڑی بیٹی سیماب کو دی اتنی تو ساری اولاد کو نہیں دی ۔
پیدا ہوئی تو ہر آئے گئے کے آگے مٹھائی کی پلیٹ رکھی، تاکید کر کر کے سب کو کھلاتیں۔ آپانویدہ کو شوگر کا موذی مرض لا حق تھا ان کو بصد اصرار گلاب جامن کھلائی ۔
اور آپا نویدہ کیا سارے منہ اٹھائے انہیں دیکھ رہے تھے ۔بیٹوں کی مرتبہ تو اتنا اصرار نہیں کیا تھا !
روز نئے کپڑے پہناتیں، آنکھوں میں بطور خاص بنوایا ہؤا کاجل ڈالتیں جو بادام کے چھلکے جلا کر کوری مٹی کے ڈھکن پر مکھن لگا کر بادام کے چھلکوں کے دھوئیں پر رکھ دیا جاتا دس بیس منٹ کے بعد ڈھکن اٹھایا جاتا تو چھلکے راکھ میں بدل چکے ہوتے تھے اور دھواں مکھن میں شامل…
رات کے پچھلے پہر کریم صاحب کی معمول کے مطابق آنکھ کھلی۔وہ اپنے بستر سے اٹھتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کر رہے تھے ۔پھر وہ صحن میں لگے نلکے سے وضو کرتے ہوئےآسمان کو دیکھنے لگے جو بادلوں سے ڈھکا ہؤا تھا،یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کسی وقت بھی برس پڑیں گے۔
وضو کرکےانہوں نے ایک نظر اپنی بیوی پر ڈالی اور دروازے سے باہر نکل گئے ۔ ان کا رخ مسجد کی جانب تھا جوان کی آبائی مسجد تھی گھر سے کچھ فاصلے پر ۔ کریم صاحب روز تہجد کا اہتمام وہاں ہی کرتے تھے۔کریم صاحب اللہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی راہ چل رہے تھے کہ اچانک کانوں میں پڑنے والی آواز سے ان کے قدم رکے ۔ وہ کسی بچے کی بلک بلک کر رونے کی آواز تھی ۔ کریم صاحب حیران پریشان اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے لگے مگرکچھ دکھائی نہ پڑتا تھا ۔ ایک تو نیم اندھیرا تھا دوسرا دائیں جانب بڑا سا کچرے کا ڈھیر لگا تھا ۔ابھی وہ حالات کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ آواز آنا بند ہوگئی ۔ کریم صاحب نے اپنے خیالوں کو ترتیب دیتے ہوئےسوچا کہ یا وہ ان کا وہم ہوگا یا کہیں پاس کے…
مجھے گمان ہے کہ آج پھر میں ناکام لوٹ جائوں گا۔
معید ہا تھ میں بریف کیس لیے بس اسٹاپ پر کسی حقیقی ضرورت مند کے انتظار میں تھامگر روزمرہ کے فقیر اور خواجہ سرا جو ہرطرح سے کما کر اپنا گزارا کر لیتے تھےعلاوہ اس کو کوئی حقیقی ضرورت مند نظر آیا نہ سمجھ ۔وہ اپنی چالیس سالہ زندگی میں بہت سا تجربہ جمع کر چکا تھا۔
رات خاصی گہری ہو چکی تھی اور سخت سردی کے باعث نیون سائن بھی اونگھ رہے تھے ۔وہ بریف کیس لیے مایوسی سے پلٹ رہا تھاکہ سستے پرفیوم کی تیز مہک نے اس کو پلٹنے پر مجبور کردیا۔ وہ میک اپ اور خوب تراش خراش کے کپڑوں سے آراستہ تھی جن کی فٹنگ نے اس کے جسم کی بناوٹ کو اچھی طرح نمایاں کر دیا تھا۔ حلیے سے وہ خواجہ سرالگ رہی تھی مگر معید کو اس کی حرکات میں کوئی چیز کھٹک رہی تھی۔
اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھیک نہیں مانگ رہی تھی بلکہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتی ، پھر بس اسٹینڈ کی یخ بستہ اسٹیل کی بنچ پر بیٹھتی اور پھر کھڑی ہوکر ٹہلنے لگتی ۔ایک دو افرادبھی اس کے پاس آئے، کچھ بات…
خلاصہ: پون بطور سکول ٹیچر شہر سے گائوں منتقل ہوتی ہے ۔ وہ اپنے ذہن کو پرانی یادوں سے آزاد کرنے کی کوشش میں ہے۔ گائوں کا ماحول اس کے لیے بالکل نیا ہے ۔ یہاں آکر وہ سکول کی حالت پر بہت پریشان ہے ، وہ سکول اور بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے مگر خود اس کی اپنی زندگی مشکل میں ہے ۔ وہ میڈم کے گھر کرایہ دار ہے اور وہ اس سے گھر کے سارے کام کرانا چاہتی ہیں ۔ ایسے میں اس کی ملاقات گائوں کی ایک معزز خاتون ’’ بی بی ‘‘ سے ہوتی ہے ، پون ان کے ساتھ رہنے کی اجازت مانگ لیتی ہے اور یوں اسے کچھ سکون میسر آتا ہے ۔
کئی اندیشوں میں گھری اگلی صبح وہ سکول پہنچی تھی ،اُسے معلوم تھا کہ اُس کے یوں چلے آنے پر میڈم سخت ناراض ہوں گی ۔اب یہی خوف اُسے ستا رہا تھا کہ اگر انہوں نے اُس کے خلاف کوئی محاذ بنا لیا یا اس کے خلاف کوئی رپورٹ لکھ دی تو اُس کی نوکری پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور اگر یہ نوکری چھن گئی تو وہ کہاں جائے گی کیا کرے گی !
اور اس وقت…
ایک بین الاقوامی فتنے کے مشاہدےکی چشم کشا روداد
امریکا میں مسلم ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے2015میں اپنے اولین رابطے کے مشاہدات پر مبنی یہ مضمون 2016میں لکھا گیا۔ بعد ازاں میری اس موضوع پر ریسرچ جاری رہی ہے جس کے لیے میں پاکستان کی خواجہ سرا کمیونٹی سے بھی مسلسل رابطے میں رہی ہوں گو ان کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے نہیں ہوتا – اپنے یہ تمام مشاہدات کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ ایڈیٹر بتول صائمہ اسماکی فرمائش پر بتول کے خاص نمبر کے لیے بھیج رہی ہوں۔ تمام نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ تزئین حسن
’’وہاں جانے کے لیے آپ کی ایک مخصوص شناخت ہونی چاہیے‘‘۔
ایمن کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی اور میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ سمجھ گئی۔ اس کے قدرے گول دمکتے ہوئے گورے چہرے پر نازک میٹل فریم کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی ذہانت سے پُر آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔
ایمن ، میں اور این، ہارورڈ کے قدیم ترین کیمپس سے کوئی تین چار سو میٹر دور واشنگٹن اسٹریٹ پر واقع کوئی سو سال پرانے بنے ہوئے لکڑی کے مکان کی تین بیڈ روم، لاؤنج اور ایک کچن کم ڈائننگ روم پر مشتمل نچلی منزل شئیر…
بھاگتی دوڑتی زندگی میں کبھی کبھار کسی خواجہ سرا سے سامنا ہؤا اوردو چار جملوں کا تبادلہ ہؤا تو جی چاہا ان سے روک کر ان کی زندگی کے بارے میں جانا جائے مگر ہر دفعہ یہ خیال آیا اور گزر گیا ۔اب جبکہ چہار طرف خواجہ سرا کا عنوان گردش کر رہا ہے تو اس خیال نےاب بہت مضبوطی سے سر اٹھایا اور ’’بتول‘‘کے خاص نمبر کے لیے مختلف خواجہ سراؤں سے رابطہ کی کوشش کی۔ بالآخر کینیڈا میں مقیم اپنی ایک دوست کے ذریعے سے ہمارا ایک ایسی ہی ہستی سے رابطہ ہؤا اور ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی تو ایک شدید پچھتاوا ساتھ دل و دماغ کو کچوکے دینے لگا کہ کاش پہلے ہی ایسا کیا ہوتا! اب تک بہت سے مظلوم طبقوں کے لیے کام کیا ہے۔ پہلے کچھ سوچا ہوتا تو شاید بہت پہلے یہ بات سمجھ میں آ جاتی کہ یہ معاشرے کے بہت بلکہ شاید سب سے مظلوم لوگ ہیں اور نادرہ خان بھی انہی میں سے ایک نمایاں نام ہے۔ ان کو ٹی وی ڈراموں میں ایکٹر کے طور پہ کام کرتے دیکھنے کا اتفاق بھی ہؤا تھا۔
نادر ہ خان کہتی ہیں کہ ہم اپنے گھر میں ہی اجنبی اور غیر…
صنفی شناخت نمبر کو کراچی میں بیٹھ کرترتیب دے رہی ہوں جہاں اردگرد پونے تین سالہ ڈارلنگ پوتاطواف کرتا ہے ،اورجو دوبڑی بہنوں کے ساتھ رہتے رہتے خود کو مونث بلانا سیکھ گیا ہے۔ اس کے ماں باپ بے فکر ہیں کہ کوئی بات نہیں خود ہی درست کرلے گا وقت آنے پر،اور ہم سر ہلا کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ٹھیک ہے بھئی آپ کا بچہ ہے جو مرضی تجربہ کریں!مگر اندر اندر دل دہلا جاتا ہے۔
جیسے ہی باپ دفتر کو سدھارا اور ماں کاموں میں مصروف ہوئی، ہم نے اسے قابو کرنے کی ٹھانی۔ آواز دی۔
’’ جبریل!ادھر آئیں میرے پاس‘‘ اور جواب ملا، ’’ابھی آتی ہوں اماں!‘‘
لا حول ولا قوۃ!
اور جب صاحبزادے تشریف لائے تو جلو میں بہن بھی تھیں ہاتھ میں نیل پالش تھامے۔
’’اماں مجھے لگا دیں‘‘۔
’’مجھے بھی!‘‘
باریک سی آواز آئی اورانابیہ کے ہاتھ کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا ہاتھ میرے سامنے پھیل گیا۔
’’ہائیں یہ کیا؟ لڑکے نہیں لگاتے!‘‘ہم نے خفگی سے کہتے اس حبیبِ عنبر دست کوپیچھے کیا۔
’’لگاتے ہیں‘‘ویسا ہی خفگی بھرا جواب آیا۔گنبد کی صدا…. سکواش گیند کی ہِٹ۔ہم نے سوچا لہجہ بدلنا پڑے گا۔
’’دیکھو نا بہن تو لڑکی ہے مگر آپ لڑکے ہیں نا….لڑکے تو نیل پالش نہیں لگاتے،لڑکیاں لگاتی ہیں‘‘۔
صاحبزادے نے ایک…
ایک دن شبانہ مسجد کی تیسری صف میں ہاشمی صاحب کے برابر میں آکر کھڑی ہو گئیں ۔ ان کی پڑوسن تھیں حال ہی میں تبدیلی جنس کا آپریشن کرا کے اپنی شناخت بدل لی تھی۔ ہاشمی صاحب ذرا ہچکچائے تو انہوں نے بے تکلف قریب ہو کر کندھے سے کندھا ملالیا، اس لیے کہ نادر ا کے ڈیٹا میں اب وہ شبانہ نہیں ’’ سلیم ‘‘ تھیں !
سندھ کے ایک دور افتادہ گائوں میں نہر سے سر بریدہ لاش ملی ۔ ریشماں کو لواحقین نے پیر کی انگلیوں سےپہچانا ۔ یہ لرزہ خیز قتل ایک جائیداد کے جھگڑے کا شاخسانہ تھا ۔ برادری میں وراثت میں بہنوں کے حقوق غصب کر لیے جاتے تھے مرحوم والد صاحب جو بڑے جاگیر دار تھے ۔ کئی شہروںمیں ہزاروں کینال زمین چھوڑ کر رخصت ہوئے ۔ ریشماں نے اپنا حصہ طلب کیا تو اسے دھمکیاں دی گئیں ۔ وہ بارہ جماعت پاس با شعور لڑکی تھی ۔ بھائیوں کو اعتراض اس کی تعلیم پر تھا کہ ماں نے اس کے لاڈ اٹھا کر اسے اسکول اور کالج نہ بھیجا ہوتا تو آج وہ منہ کو نہ آتی۔
ایک نام نہاد وکیل نے مشورہ دیا کہ نادرا کے آفس جا کر اپنی شناخت تبدیل…
میٹرک کے بعد نرسنگ کورس میں رکاوٹیں اور جامعہ اسلامیہ برائے خواتین منڈی وار برٹن میں داخلہ میری زندگی کا سنہری دور اور اللّٰہ کی رحمت تھی ۔
آج بھی وہ تین بہنیں میری چشم تصور میں زندہ ہیں !
تین سالہ ڈپلومہ کورس تھا جس میں عالمہ فاضلہ قاریہ کی سند اور پھر ایک ڈگری لغۃ العربیہ کی بھی تھی ۔یہ جامعہ وفاق المدارس العربیہ ملتان پاکستان سے الحاق شدہ تھا۔
کورس ہوسٹل میں رہ کر کرنا تھا ۔گھر آ کر امی سے مشورہ کیا تو امی نہیں مان رہی تھیں ۔فیصلہ یہ ہؤا کہ مجھ سے چھوٹی بہن بھی میرے ساتھ جائے گی ۔ امی کو منانے کی بہت کوشش وہ بھی بڑی باجی کی، میرے دل سے ان کے لیے بہت دعائیں نکلتی ہیں ۔آج جو کچھ بھی ہوں ان کی کاوشوں کا ثمر ہوں ۔والدین کو کیسے اور کتنے جتنوں سے راضی کیا ۔اس بات کا سہرا باجی کے نام ۔
یوں اللّٰہ کی خاص رحمت سے مسز زبیدہ اسلم صاحبہ کے پرخلوص مشورے اور باجی کی کاوش سے میرا اور چھوٹی بہن کا داخلہ جامعہ اسلامیہ برائے خواتین منڈی وار برٹن میں ہو گیا۔آج بھی یہ سوچ کر تشکر سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ اللّٰہ رب عزوجل…
اشتہاری کمپنیاں جب کسی چیز کی فروخت کے سلسلے میں سلوگن بناتی ہیں تو وہ کوئی سیدھا سادہ معاملہ نہیں رہتا۔ عوام الناس میں پذیرائی کے بعد وہ ایک نظریہ بن جاتا ہے۔
’’جیسے چاہو جیو‘‘ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ گھر میں رہنے والے سب افراد جب اس سلوگن کے ساتھ اپنی زندگی کو آزاد سمجھتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان فاصلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بچے والدین کی مداخلت سے اپنے طرزِ حیات پہ قدغن محسوس کرتے ہیں۔پھر اس کی اگلی منزل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات انجام کار فتنہ عظیم بن کر سامنے آتے ہیں۔اسلام نے ہر بڑے فتنے کے نمودار ہونے کے پہلے ہی مرحلے پہ راستے کی بندش کا انتظام کر دیا ہے۔
مرد کوعورت کی مشابہت اور عورت کومرد کی مشابہت اختیار نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ مشابہت چہرے مہرے کی ہو، بالوں کی تراش خراش کی یا لباس کی۔ مردوں کے لیے ہاتھوں پہ مہندی اور سونے کا زیور اور ریشم کا استعمال منع ہے۔ لباس کے رنگوں میں بھی شوخ رنگ عورتوں کے اور ہلکے رنگ مردوں کے لیے ہؤا کرتے تھے۔
لباس کی یکسانیت نے مرد و عورت کی تفریق پہ پانی پھیر دیا۔…
بقائمی ہوش و حواس بقلم خود یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ آج مورخہ پانچ کہ جس کا نصف اڑھائی اور پنجاب زدگان کے لہجہ میں ڈھائی ہوتے ہیں تاریخ کو بتول کا نیا شمارہ موصول ہوا ۔اللہ نظر بد سے بچائے تحفظ آزادی کا دو ماہ یکجا رسالہ شائع ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ تھا کہ رسالہ چودہ پندرہ سے جست لگا کر پانچ کی صبح مل گیا۔ ڈاکیہ پروفیسر صاحب کا جاننے والا اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے موصوف خاصے بے تکلف بھی ہیں اور اس کا بھگتان ہمیشہ پروفیسر صاحب کی نصف بہتر کو بھگتنا پڑتا ہے اور چار کو ملنے والا رسالہ پانچ ،چھے کو ملتا ہے۔ کبھی کبھار یہ بے تکلفی اتنے عروج کو پہنچتی ہے کہ ہفتہ بھر کی ڈاک جمع کر کے تھیلا بھر کر لاتے ہیں۔
خیر نیلی آسمانی رنگ کی زمین پر سفید گہرے گلابی ور لالو لال ادھ کھلے پھول کا سرورق بھی بہت پیارا لگا۔
سیرت پر ڈاکٹر مقبول احمد شاہد اور ڈاکٹر میمونہ حمزہ دونوں کے مضامین بہت اچھے اور عام فہم تھے۔افسانوی حصہ میں نئے ناول کی خبرہی نہیں پہلی قسط بھی موجود ہے ۔اک ستارہ تھی میں ،مجھے یہ پورا مصرع…
انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی مداخلت کا ڈر نہیں ہوتا، کسی متعین جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرصت ہو یا نہ ہو تصور جاناں لیے زندگی کے جھمیلے نپٹاتے رہو۔ فی زمانہ مادی اسباب و علل میں یہ واحد چیز ہے جس پہ مال خرچ نہیں ہوتا بس انسان کا زندہ ہونا ضروری ہے جب کہ ہوش و حواس میں ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
تصوراتی دنیا دراصل اگر محرومیوں، حسرتوں کا نوحہ ہے تو کبھی کچھ حاصل کر لینے کا یقین و انبساط بھی ہے۔ تصور اور خواب و خیال انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت کا پیمانہ ہیں۔
انسانی عمر کی ہر منزل اس پیمانے میں مثبت یا منفی تبدیلیاں لاتی ہے۔ ماحول، تعلیم و تربیت، حالات و واقعات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تصوراتی دنیا ہر فرد کا ایک ایسا ذاتی سیارہ ہے جہاں وہ اپنی مملکت کا خود بادشاہ ہوتا ہے۔ مستقبل کے سارے کردار اس کی رعایا ہوتے ہیں۔ اور وہ جس کو چاہے جس مقام پہ رکھے۔ یہ کیفیت منفی ہو یا مثبت حد سے تجاوز کر جائے تو پاگل پن کہلاتی ہے۔…
قانتہ رابعہ۔گوجرہ
ماہ مارچ کا بتول ملا۔ لوگ جرعہ جرعہ کر کے زہر غم پیتے ہیں، ہم نقطہ نقطہ اور سطر سطر کرکے بتول کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کھولتے ہی فہرست پر نظر ڈالی ،اداریہ دیکھا، نظریں بے تابی سے اس خبر کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اہل قلم اہل ِعلم و دانش کے لیے بے حد خوشی کا باعث ہونا تھی اور جس کے لیے طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے…..لیکن افسوس خبر نہیں تھی، نہ ہی سرورق پر یا اندر کے صفحات میں مدیرہ کے نام کی تختی میں ردو بدل کیا گیا تھا۔ ایک پرانی مگر معمولی سی مصنفہ بلکہ قاریہ ہونے کے ناطے مجھے احتجاج کا پورا حق ہے ۔لوگ اس سعادت کے لیے ترستے ہیں اللہ نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا شکر الحمد للّٰہ یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ بتول کی ادارت جیسے بھاری بھرکم اور مشقت طلب کام کے دوران آپ نے علم کی سکہ رائج الوقت سب سے بڑی سند حاصل کی۔ میں اپنی طرف سے اور سب قارئین کی طرف سے آپ کواور ماہنامہ چمن بتول کی ادارت کو مبارکباد پیش کرتی ہوں،بلا شبہ یہ میرے رب کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔لوگ تو ڈاکٹروں…
بہاولپور میں اجنبی، مظہر اقبال مظہر کی اس تاریخی شہر میں تعلیم کی غرض سے آمد اور قیام کی مختصر یادداشتوں اور ڈائری کا مجموعہ ہے۔ بہا و لپو ر میں اپنے قیام کے آغاز ہی سے مصنف کو اس شہر کی تاریخ اور معاشرت میں گہری دلچسپی پیدا ہو گئی۔انہوں نے ایک اجنبی کی طرح اس شہر میں قدم رکھا اور اپنی آبائی روایات کے ساتھ مقامی معاشرت میں مماثلت تلاش کی۔شہر میں قریہ قریہ سیر کی، مقامی افراد سے ملاقاتیں اور رہنمائی حاصل کی۔
سرائیکی زبان کی مٹھاس کو محسوس کیا اور ہلکے ہلکے پھلکے انداز میں زبانوں کے تنوع میں شناخت کے موضوع پر گفتگو کی۔
تاریخی شہر’اچ‘ کے قریب اس شہر کو شکار پور سے آئے نواب بہاول خان نے آباد کیا ،ایک ایک اینٹ کو اس طرح سینچا کہ صدیوں بعد بھی محسوس ہوتا ہے گارے اور مٹی کی بجائے اس شہر کی اینٹیں تہذیب اور تمدن سے آراستہ کی گئی ہیں۔
کشمیر کے ایک شہر سے علم کی تلاش میں نکلے ہوئے ایک طالب علم کا ٹھکانہ جب کچھ عرصے کے لیے یہ شہر بنا تو علم کے متلاشی نے اپنی تعلیم تو مکمل کی ہی ساتھ ساتھ ہی اس نے اس شہر میں بسنے کا حق…
کرونا سے پہلے بھی دنیا میں بہت سی قدرتی آفات آتی رہی ہیں۔ لوگ نارمل زندگی میں بھی بیماری کا شکار ہو کر، حادثے میں یا طبعی موت مرتے رہے ہیں ۔دکھ تکالیف زندگی کا حصہ ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ضرور انسان کو پانچ چیزوں سے آزمائیں گے ، خوف ،بھوک، اورکھیتیوں، جان اور آمدنی کے نقصان سے۔تو یہ سب تو زندگی کا حصہ ہؤا۔اگر غم یا تکلیف نہ ہو تو انسان خوشی کی قدر نہیں کر سکتا۔اور پھر زندگی میں صرف خوشیاں ہی ہوں تو جنت کی خواہش کون کرے گا،کیونکہ دائمی خوشی کا وعدہ تو جنت میں ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو دے کر آزماتا ہے تو کچھ سے لے کر۔قرآن پاک میں انسانوں کو تین طرح کے پتھروں سے تشبیہ دی گئی ہے، یہ بتانے کے لیے کہ ایک وہ ہیں جو کسی حادثے کی وجہ سے اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں ۔دوسرے وہ جو پہلے سے اللہ تعالیٰ کے احکام مانتے ہیں اور جب وہ قرآن کا علم حاصل کر لیتے ہیں تو دوسروںکے لیے بھی ہدایت کا باعث بن جاتے ہیں اور تیسرے وہ جنہیں کوئی حادثہ ، علم یا نعمت بھی اللہ کا شکر گزار بندہ…
خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات میں بھی بہت وسعت ہے۔ بسا اوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
خلیل اللہ فراز کہتا ہے، خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے کسی نے خبر دی ’’آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے‘‘انشا ئیہ بنا کہ پنکچر بنوا لو۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق’’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام خورشید فنِ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‘‘۔
برطانوی پبلشر’’لارڈ نورتھ کلف‘‘ کے مطابق’’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
امریکی صحافی ’’کرٹ لوڈر‘‘ کے مطابق’’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو دلچسپ ہو جس کا تعلق دنیا میں…
محترم قارئین سلام مسنون!
اپریل میں مئی کی اور مئی میں جون کی گرمی سہنے کے بعد اب جون میں کیا گزرے گی، یہ دیکھنا ہے۔کرونا کے بعد پہلے حج کی آمد ہے۔بیت اللہ کی رونقیں بحال ہوں گی، لبیک کی صدائیں گونجیں گی، عشاق کے قافلوں کی مانوس گرد اڑے گی،مکہ مدینہ کی ویرانیاں چھٹ جائیں گی، دعاؤں سے فضائیں معمور ہوں گی،صفا مروہ بانہیں پھیلائیں گے، صحرااپنا دامن کشادہ کردے گا،میدان عرفات سجے گا، مزدلفہ کا بچھونا آراستہ ہوگا،، منیٰ کی بستیاں بس جائیں گی اور ہر طرف شمعِ توحید کے پروانوں کا راج ہوگا، الحمدللہ۔ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا بسایا ہؤاوہ خطہ جس کوہمارے نبیِ رحمتﷺ نے دوبارہ توحید کا مرکز بنایا۔
عرب جس پہ صدیوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
ملکی حالات کی بے یقینی بدستور باقی ہے۔ سب کی نظریں انتخابات پر تھیں مگر اعلان یہ ہؤا کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ معیشت سنبھالی نہیں جارہی اور جہاز بھر بھر کر بیرونی دورے جاری ہیں۔ بجلی کا شارٹ فال مزید بڑھ جانے سے شدید لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، اوپر سے یونٹ کی قیمت بھی بڑھا…
اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل علیھم السلام کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اعلیٰ و اشرف فریضے کو انجام دینے کے لیے مبعوث کیا، تاکہ انسانوں سے جہالت کے بوجھ کو اتار دیں اور ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اس فریضے کو انجام دینے کے بارے میں مکمل رہنمائی عطا کی کہ وہ اس افضل اور اشرف کام کو کس طرح ادا کریں تاکہ انسانیت فلاح کا راستہ اختیار کر لے۔ہر نبی اور رسول نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق معروف و منکر کا فرض ادا کیا۔ ان کی دعوت کو کہیں کم اور کہیں زیادہ افراد نے قبول کیا۔ انبیاء علیھم السلام بے غرضانہ طور پر نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے رہے، خواہ ان کی بات کو کوئی پسند کرے یا ناپسند!
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر پہلے انسان کو بھی جہالت اور تاریکی کی حالت میں پیدا نہیں کیابلکہ ان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں کیا اور انہیں ان کا قانونِ حیات دیا۔ ان کا طریقِ زندگی اللہ کی اطاعت تھی اور اسی کا حکم وہ اپنی اولاد کو دے گئے۔آہستہ آہستہ انسان اس طریقِ زندگی سے منحرف ہو گیا،…
پوّن گرفتار ہو چکی ہے ۔ بی بی شدید بے چینی اور گھبراہٹ کاشکار ہیں ۔ تھانے داران کے سامنے پون کے بڑے بڑے جرائم کا ذکر کرتا ہے اور یہ بھی کہ اس سارے معاملے کو اب خفیہ والے دیکھیں گے ۔ زرک صلاح الدین جس کا تعلق ایک خفیہ ادارے سے ہے ، اس پر اس کا کوئی دشمن سوتے میں حملہ کرتا ہے مگر وہ بچ جاتا ہے ۔ پون کا نام سن کر اسے شک ہوتا ہے کہ یہ لڑکی یونیورسٹی میں اس کی کلاس فیلو تھی ۔ وہ اس سے تفتیش کے بہت سخت انداز اختیار کرتاہے ۔ جب وہ اس کے سیل سے باہر جاتاہے تو پون جو شدید خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہے بے ہوش ہوجاتی ہے۔
وہ بڑی دیر سے اپنی پسندیدہ راکنگ چیئر پر بیٹھا آگے پیچھے جھول رہا تھا ۔ نظریں سامنے دیوار پر مگر ذہن دور کہیں بہت پیچھے جا چکا تھا۔جب سے وہ آفس سے آیا تھا اسی طرح بیٹھا تھا کپڑے نہیں بدلے تھے جوتے تک نہیں اُتارے تھے جیسے ابھی کہیں اٹھ کر چل دے گا ۔
’’ صاحب کھانا ابھی لگا دوں یا تھوڑی دیر تک کھائیں گے ؟‘‘ شاہد اس کا ملازم اس کے پاس…
وقت کی لہریں سبھی جذبے بہا کر لے گئیں
ذہن کی دیوار پر یہ نقش کیسا رہ گیا
14جنوری2023ء بروز اتوار شام تقریباًچھ بجے محترمہ اسما مودودی صاحبہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں اِنا للہ واِنا الیہ راجعون۔ آپ نے 82سال عمر پائی ۔دل غم سے بوجھل ہے ۔ آنکھیں پرنم ہیں ۔ میں دھندلائی آنکھوں سے بچپن کی یادیں تلاش رہی ہوں۔
پہلا منظر جو میر ی نگاہوں میں گھومتا ہے ، ایک نوجوان لڑکی سفید چادر میں لپٹی ہوئی والدہ صفیہ سلطانہ کے پاس بیٹھی اپنا قرآن کا سبق سنا رہی ہیں ۔ کبھی وہ برقعہ میں آتی ہیں اور کبھی چادر میں ۔ میں بوجوہ کوشش کے ان کے چہرے کو دیکھ نہیں پاتی۔ میں نے انہیں کبھی کوئی فالتو بات کرتے نہیں سنا ۔ وہ خاموشی سے آتیں اور سبق سنا کر چلی جاتیں ۔ یہ اسما مودودی صاحبہ تھیں۔
پھر دوسرا منظر میری آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے ۔ ہم سب گھر والے بہت تیاری کے ساتھ اسما مودودی صاحبہ کی شادی میں شرکت کے لیے گورمانی ہائوس جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ گورمانی ہائوس کے وسیع و عریض لان میں گول میزیں سجائی گئی تھیں ۔ سن ستر میں ایسی سجاوٹ خال خال ہی ہوتی…
والد محترم قاضی عبدالقادر کا مُشک بو تذکرہ
ڈبائی منزل کے زیریں حصے میں بلب کی روشنی متواتر جل رہی ہے ۔رات کے کسی پہر دو قدم اپنی مربوط چال کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسّی کی اس دہائی میں بھی اُن قدموں میں کوئی لرزش اور ڈگمگاہٹ نہیں کیونکہ وہ ایسی شخصیت کے قدم ہیں جو مضبوط اعصاب کی مالک ہے۔ وہ شخص بڑے کمرے میں اپنی لائبریری میںرکھے مُصلے اور قرآن سے ایسا ناطہ جوڑ لیتاہے کہ اس کے مقناطیسی اثر سے اس کی زندگی ہمیشہ متحرک اور پر سکون رہی ہے۔ تحریک کے ایک کارکن کے طور پر بھرپور مشقت کی زندگی گزارنے والی یہ نابغۂ روز گار شخصیت میرے والد محترم قاضی عبد القادر عفی عنہ کی ہے۔
والد محترم کا ابتدائی تعارف کچھ یوں ہے کہ علی گڑھ ضلع بلند شہر کا ایک قصبہ ’’ڈبائی ‘‘ میں پیدا ہوئے اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے گھر کا نام بھی ’’ڈبائی منزل‘‘ رکھا تھا ۔ خاندانی اعتبار سے ہمارا خاندان قاضیوں کا خاندان ہے والد صاحب اپنی خود نوشت ’’یادوں کی تسبیح ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ ہمارے کوئی جدامجد مسلم حکمرانوں کے دور میں غزنی افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے اور اس علاقے…
یہ میرے ماموں مرحوم کا تذکرہ ہے جس میں بہت سی باتیں میں ان کے بیٹے سے سن کر انہی کی زبانی لکھ رہی ہوں(ع۔ز)
آدھی رات بیت چکی ہے، آسمان پر چاند بھی آدھا ہی نظر آ رہا ہے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے ہلکی سی چاندنی میں دور تک نظر آنے والا ہر منظر اداسی کی چادر اوڑھےہوئے ہے۔ میری آنکھیں غیر مانوس بےخوابی کی وجہ سے جل رہی ہیں۔ میں جلدی سونے کا عادی ہوں مگر آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں باری باری ذہن پر دستک دے رہی ہیں۔ سرزمینِ حجاز ، اور مدینہ میں ہماری یہ آخری رات ہےاور دل کی بے کلی ہے ،کہ ہر لمحے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
تمام مخلوقات میں انسان کس قدر خوش قسمت ہے! اس کے پاس، ماں ،باپ، بہن، بھائی، بیوی یا شوہر، بچے، یہ تمام خوبصورت رشتے موجود ہوتے ہیں جو اس سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ اس کی خوشی میں خوش اور تکلیف میں مضطرب ہوتے ہیں۔ اس کی ترقی کے لیے دعا کر تے ہیں۔ اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اور اس کے خیر خواہ ہو تے ہیں۔ کبھی وہ تھکنے لگے یا…
جب ماں کے لمس کی خواہش ایک حسرت بن جائے …..
شاید دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی ۔
گاؤں کے ہر ذرے نے سفید لباس زیب تن کیا تھا ، گھر گھر، لان اور کھیت کھلیان سب برف کی دبیز چادر اوڑھ چکے تھے ، اس قدر شدید سردی تھی کہ گھر سے باہر نکلنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ، لوگ سر شام گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے ، لکڑیاں چولہوں میں بھڑکائی گئی تھیں ۔ جانوروں کے اصطبل کے چاروں طرف موٹے موٹے کپڑے تان دیے گئے تھے ۔
یہ دوسری رات تھی جب سے برف باری شروع ہوچکی تھی ۔ صبح تڑکے میں ذرا سی دیر کو رکی تھی اور پھر مسلسل جاری رہی ۔ کنوؤں کے منڈیر خالی تھے۔ پانی جم کر برف بن گیا تھا۔ رات بھاری ہوچکی تھی ۔ عموماً ہم قضائے حاجت کے لیے گھر سے ذرا فاصلے پر کھیتوں میں جاکر فارغ ہو لیتے تھے ، بچوں کے لئے گھر میں ایک مخصوص برتن یا کہیں کہیں ٹین کا ڈبہ ہوتا تھا ، رات میں باہر نکلنا قدرے مشکل ہوتا تھا ۔ بڑوں کو تو کم ہی ضرورت پیش آتی البتہ چھوٹے بچے رات میں اسی ڈبے کو…
گزشتہ ماہ حریم ادب کی طرف سے ہمیں مختار مسعود صاحب کی کتاب’’ آوازدوست‘‘ کو پڑھ کراس کا خلاصہ لکھنے کا ٹارگٹ ملا۔یہ کتاب دو مضامین پر مشتمل ہے مینار پاکستان اور قحط الرجال۔
یہ خلاصہ اس کتاب کے پہلے حصے ’’ مینار پاکستان کا ہے۔ مختارمسعود اس کمیٹی میں شامل تھے جو مینار پاکستان کی تعمیر کے لیے بنائی گئی تھی ۔ بحیثیت عہدے دار وہ اس کمیٹی کی صدارت کرنے پر جو خوشی محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار برنارڈشا کے اس مقولے سے کرتے ہیں کہ ’’ وہ مقام جہاں فرائض منصبی اور خواہش قلبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں‘‘۔
مصنف لکھتے ہیں کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفاعی ضرورت کے پیشِ نظر وجود میں آئی، پھر اس کی علامتی حیثیت قائم ہوئی اس کے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخر کار نشانِ خیر کے طور پر بنایا جانے لگا ۔’’ مینار قرار داد پاکستان ‘‘ ان ساری حیثیتوںپر محیط ہے ۔ یہ نظر یاتی دفاع کی ضرورت ، تحریک آزادی کی علامت ، دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا نشان خیر ہے ۔
مینارکی مجلس تعمیر کی مشاورت میں پہلے اس کا نام ’’…
چند یادیں چند باتیں ،بیاد احمد عمر مرغوب
مصنفہ :شگفتہ عمر
ناشر ،مکتبہ راحت الاسلام
کل قیمت 1600 روپے
رعایتی قیمت بمعہ ڈاک خرچ ،800روپے
ملنے کا پتہ ،مکان نمبر26, سٹریٹ 48,
F-8/4اسلام آباد
اس دنیا میں جو پیدا ہؤا اس کا کسی نہ کسی سے رشتہ موجود ہوتا ہے.ماں یا بہن بھائی،ماموں،پھوپھو یہاں تک کہ دادا،پردادا لگڑ دادا،سگڑدادا تک بتا دیے۔یہی نہیں،اس دنیا سے چلے جانے والوں کے لیے بھی رشتوں کے نام موجود ہیں شوہر مر جائے تو بیوی نہیں بیوہ،باپ مرجائے تو یتیم ،ماں مرجائے تو مسکین،بیوی مرجائے تو رنڈوا۔ہاں ایک اذیت اور تکلیف دہ مرحلہ ایسا آتا ہے کہ وہاں اظہار کے لیے کوئی نام نہیں یعنی اولاد دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے لیے کوئی نام نہیں۔
شاید اس لیے کہ اس کی شدت کو نام نہیں دیا جا سکتا ۔اپنے جگر کا ٹکڑا،اپنا خون اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک چلی جائے تو زندگی تو رہتی ہے لیکن محض سانسوں کی ڈوری!
ایسی ہی ایک ماں جس کو رب نے شادی کے سات سالوں کے بعد بیٹا دیا اور بیٹا گھر بھر کا ہی کیا سارے ننھیال ددھیال کی آنکھوں کا تارہ،سپر ایکٹو،فرمانبردار۔نوجوان نسل کے عام چلن کے مطابق جوانی سگریٹ،یا سوشل میڈیا کے نشے کی بجائے کتاب ہاتھ میں لے کر تفکر…
اللہ نے نسل انسانی کی بقا کے لیے عورت مرد کے جوڑے بنائے۔ عورت معاشرے کا ستون، خاندان کا مرکز محبت اور قوم کا دھڑکتا دل ہے عورت اور مرد نوع انسانی کے دو اہم جزوہیں اور مل کر معاشرہ کی بنا ڈالتے ہیں اللہ نے ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے انتہائی کشش رکھی تاکہ وہ ایک دوسرے کی طرف راغب ہوں۔ محسن انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں زیادہ پسند ہیں۔عورت، خوشبو اور نماز۔
میاں بیوی خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور خاندان معاشرے کی اہم و بنیادی اکائی و اولین ادارہ ہے۔ خوشگوار خاندان خوشگوار معاشرے کو جنم دیتا ہے خوشگوار شادی دنیوی جنت ہے اور ناخوشگوار شادی جہنم۔ گھر کی تعمیر کے بغیر معاشرہ کی تعمیر نہیں ہو سکتی گھریلو ز زندگی حقوق و فرائض کا مجموعہ ہے،ایک ایسا گھر جہاں کے افراد آپس میں جو حقوق و فرائض ا اور خلوص و محبت، ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھے ہوں آئیڈیل گھر کہلا تا ہے ۔تحمل، برداشت، صبر، عفو و درگزر جیسی صفات سے مزین زوجین اعلیٰ اخلاق کے حامل بن جاتے ہیں جن کی شادی…
سوشل میڈیا سے
لوگ سچ کہتے ہیں
عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں
رات بھر پورا سوتی نہیں
تھوڑا تھوڑا جاگتی رہتی ہیں
نیند کی سیاہی میں
انگلی ڈبو کر
دن کا حساب لکھتی ہیں
ٹٹولتی رہتی ہیں
دروازوں کی کنڈیاں
بچوں کی چادر ،شوہر کا من
اور جب جاگتی ہیں
تو پورا نہیں جاگتیں
نیند میں ہی بھاگتی ہیں
سچ میں عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں
ہوا کی طرح گھومتی
کبھی گھر کبھی باہر
ٹفن میں روز رکھتی نئی نظمیں
گملوں میں روز بوتی امیدیں
پرانےعجیب سے گانے
گنگناتی چل دیتی ہیں
پھر نئے دِن کا مقابلہ کرنے
سب سے دور ہو کر بھی
سب کے قریب ہوتی ہیں
عورتیں سچ میں بہت عجیب ہوتی ہیں
کبھی کوئی خواب پورا نہیں دیکھتیں
بیچ میں ہی چھوڑ کر دیکھنے لگتی ہیں
چولہے پر چڑھا دودھ
کبھی کوئی کام پورا نہیں کرتیں
بیچ میں چھوڑ کرڈھونڈنے لگتی ہیں
موزے ،بچوں کی پینسل ،ربڑ ،جوتے
اپنے بچپن کی یادیں
سہیلیوں کی باتیں
بہنوںسے لڑائی اور ان کا ماننا
اور کچھ نہیں تو بس
ماں کو یاد کر کے رو دینا
ابّا کی گڑیاں لانی یاد آجاتیں
اور پرانے صندوق سے کچھ ادھوری یادیں ڈھونڈنا
کچھ ان کہی لفظوں کی کہانی
کھویا ہوا ورق ڈھونڈنا
برسات کو یاد کرنا
جب ہو جائے تو
بھاگتے رہنا کپڑے بھیگ نا جائیں
اچار ،پاپڑ خراب نا ہو جائیں
سچ میں عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں
خوشی کی امید پر
پوری زندگی بتا دیتی ہیں
ان گنت کھائیوں کے
پُل کو پاٹ دیتی ہیں
سچ میں عورتیں…
ام ریان۔ لاہور
فروری کا بتول موصول ہؤا۔ سر ورق متاثر نہ کر سکا ۔ اس ماہ حصہ نظم کم رہا لیکن افسانوں نے ساری کمی پوری کردی۔ اتنے افسانے کم ہی کسی ماہ میں شائع ہوئے ہیں اوروہ بھی سب ہی اچھے۔
پہلے نمبر پر تو بلا شبہ عینی عرفان کا ’’ کن ‘‘ تھا ۔ اس موضوع پر بہت لکھا جاتا ہے لیکن جس خوبی سے اس افسانے میں پیغام پہنچایا گیا ہے ،وہ اکثر تحاریر میں عنقاہوتا ہے ۔ افسانے کی بجائے ایک لمبی چوڑی نصیحتی گفتگو معلوم ہوتی ہے جبکہ ’’ کن‘‘ میں افسانوی ہیٔت قائم و دائم ہے۔
نبیلہ شہزاد مزاح تو اچھا لکھتی ہی ہیں مگر ’’ رمضان جی‘‘ میں بھی ان کے قلم نے خوب جوہر دکھائے ہیں ۔ شہلا خضر کی تحریر دن بدن نکھرتی جا رہی ہے اور زیادہ مربوط ہو گئی ہے ۔ عالیہ حمید کے لکھنے کا اپنا ایک انداز ہے اور خوب ہے ۔ ’’ ہیں کواکب کچھ ‘‘ میں صائمہ صدیقی نے ماہر نباض کی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی نا آسودگی اورڈپریشن کی وجہ کی نشاندہی کی ہے ۔ عالیہ زاہد بھٹی نے بھی اچھا لکھا ہے ۔ ام ایمان نے افسانے کے تاروپود عمدگی سے بنُے، تاہم شہلا…
(Emotion Quotient) EQ درحقیقت ایک اصطلاح ہے جو جذباتی ذہانت یا ’’Emotional Intelligence‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل علم ہے اور یہ علم دراصل اپنے اور دوسروں کے جذبات کو بھانپنے اور اُنہیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
یہ دوسروں کے ساتھ معاشرتی و سماجی رویے، رشتوں کو جوڑے رکھنے اور گھر یا معاشرے میں امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ داری، وفا داری، ایمانداری، حدود کا احترام، عاجزی کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ گویا کہ اگر’’آئی کیو‘‘ دماغی یا عقلی ذہانت ہے تو ’’ای کیو‘‘ قلبی یا جذباتی ذہانت کا نام ہے۔
ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار اور انہیں قابو کرنے کی صلاحیت، پرسکون زندگی کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا، حقائق اَخذ کرنا اور ان کے جذبات پر ردِّعمل دینا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات، اس صلاحیت کو جذباتی ذہانت کا نام دیتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے عقل سے بھی زیادہ اہم کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ EQ اور IQ دونوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ دونوں میں سے کسی ایک سے زیادہ نوازے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور…
قارئینِ کرام
سلام مسنون
نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کہ رب کریم اس سال کو ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں خیر و عافیت کا سال بنائے،زندگی کی مہلت باقی ہے تو نامہِ اعمال میں حسنات کوبڑھانےکی توفیق دے،زوالِ امت کے اس گنبدِ بے در میں کوئی امید کی کرن دکھا دے،کرہِ ارض پر بسنے والوں کو فساد سے امن کی طرف، گمراہی سے ہدایت کی طرف اور نفرت و انتشار سے سکون و سلامتی کی طرف راستہ دکھائے، آمین۔زمانوں کی گواہی یہی ہے کہ بحر وبر میں فساد کا ظہور انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ تکبر اورنفس پرستی، مال اور اختیارات کی ہوس، وسائل پر قبضے کا لالچ ،فرعونیت، بے حسی اور خود غرضی، یہ سب مل کر انسان کو اسفل السافلین کی سطح پر گرادیتے ہیں۔پھر وہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے کہ انسانیت منہ چھپاتی ہے ۔دوسری طرف فلاحِ انسانی اور اصلاحِ نفس کے بھی ایسے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں جو انسانیت پر اعتبار قائم رکھتے ہیں۔انسان کے اندر خیروشر کی کشمکش اور زمین پر نیکی اور برائی کے علم برداروں کی اپنی اپنی کوششیں تا قیامت جاری رہیں گی،امتحان ہر ایک کا ہے اور یہی اس ہنگامہِ ہست وبود کو…
ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ
اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا اور اس کے کلمے کو اس طرح سربلند کرنا کہ ہر باطل فکر اور کلمے کی بیخ کنی ہو جائے، انبیاء علیھم السلام کا مشن رہا ہے۔اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد یہ مشن امتِ مسلمہ کے سپرد ہؤا ہے۔اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جہاں اس کی تعلیمات کا علم ہونا اہم ہے وہیں حکمت کے زیور سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرمایا، تاکہ ہم اس کے اوامر ونواہی کو اچھی طرح سمجھ سکیں، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کر سکیں۔قرآن کریم اور رسول اللہ کی سنت میں ’’سیدھے راستے کی شاہراہ ‘‘ کو خوب واضح کیا گیا ہے۔اور انہیں میں امت ِ مسلمہ کو ان کا فریضہ بتایا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘‘۔ (آل عمران،۱۰۴)
یعنی یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدو جہد کرے، حق کو غالب کرنے کی سعی و جہد کرے، معروف کو منکر پر اور حق…
خالق کائنات کی دنیا میں نظم،ترتیب اور باقاعدگی کے عناصر نے جہاں حیات انسانی کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں،وہیں ایک پوشیدہ درس بھی دیا ہے کہ باقاعدگی اور ترتیب ہی زندگی کو خوشگوار بناتی اور آسانی پیدا کرتی ہیں۔
’’وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں‘‘ (الانبیاء) ۔
’’لوگ آپ سے چاند کے (گھٹنے، بڑھنے) متعلق سوال کرتے ہیں آپ کہیے یہ لوگوں (کی عبادات) کے اوقات اور حج کے (تعین) کے لیے ہے‘‘(البقرہ)۔
بے قاعدگی ہو یا بے ترتیبی،حیات کو مشکل بنا دیتی ہے۔ باقاعد گی صرف طالب علموں کے لیے ہی ضروری نہیں اور نہ ہی ترتیب، محض اشیاء کو ان کی جگہوں پر رکھنے کا نام ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ بے قاعدگی و بے ترتیبی نے کس طرح ہمارے معمولات کو متاثر کیا ہے۔صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک،خواہ کھانے کی روٹین ہو یا دیگر فرائض کی انجام دہی کی،سبھی کو غیر منظم طریقہ کار کو رواج دے کر ہم مشکل سے مشکل بنا چکے ہیں۔ہمارے کھانے، سونے جاگنے کے معمولات حد درجے بے قاعدہ ہو چکے ہیں،نظام ہضم کے مسائل کھانے کے اوقات میں…
نبی اکرم ﷺ کی شخصیت کے کارناموں کا مطالعہ ایک ایسی عظیم الشان شخصیت کا مطالعہ ہے جس کے ہر قول و فعل کو اب بھی دنیا کی چوتھائی آبادی اپنا قانون اور اسوہ حسنہ مانتی اور سمجھتی ہے ۔ ایک ایسا عظیم انسان ہی وطن میں جان کے لالے پڑے ہوں ۔ اور وہ اپنے ایک راز دار رفیق کے ساتھ غاروں میں چھپتا ہؤا، نامانوس راستوں پر چلتا سینکڑوں میل دور جاپہنچا ہو۔ مگر جب وہ اس نامانوس علاقے میں دس سال بعد انتقال کرتا ہے تو دس لاکھ مربع میل علاقہ کا حکمران ہو چکا تھا اور اس کے بعد صرف ۲۷ سال میں ہی دنیا کی دو عظیم الشان شہناہتیں ایک ہی وقت میں لڑ کر ایشیا افریقہ اور یورپ کے تین براعظموں میں مچھل گئیں ۔
آپ ؐ کے شہر مکہ میں جو عرب بستے تھے وہ قریش کے نام سے یاد کیے جاتے تھے ۔ ان کے تجارتی تعلقات کے لیے کاروانوں کا سفر اور بدرقوں کا ایک وسیع اور ترقی یافتہ نظام ضروری تھا ۔ اسی بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے عرب میں ایک معاشی وفاق قائم کر دیا تھا قریشی بدرقے اور خفارے ان تجارتی قافلوں کو حفاظت سے ان…
اپنے سینے سے لگالے مجھے اکمل کر دے
ماں میں انسانِ مجمل ہوں مفصل کردے
اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے
ٹوٹ کر اتنا برس روح کو جل تھل کردے
تیرا یک ٹک مجھے یوں دیکھتے جانا جاناں
مجھ سے پاگل کو کہیں اور نہ پاگل کردے
خوف آتا ہے ترا قرب یہ لمحے بھر کا
زندگی بھر نہ مری روح کو بے کل کردے
اپنی آنکھوں میں سجانے کو دکھا کر جلوہ
تو مجھے طور بنادے مجھے کاجل کردے
وہ مرا ہے، وہ نہیں، اور کا، اِس کا، اُس کا
یہ تردد نہ مری سوچ کے پر شل کردے
تو جو چاہے تو مری روح کے اندر بس کر
لاکھ برسوں کے برابر مرا پل پل کردے
کام چلتا ہے کبھی یار فقط دعووں سے
عمر بھر ساتھ مرا، ساتھ ذرا چل کر دے
انتہائیں ہیں اگر راس تو اللہ میرے
موجِ دریا سا بنا دے یا مجھے تھل کر دے
میں گنہ گار ہوں واللہ مگر رحمت سے
مجھ کو سر مست بنادے مجھے سچل کردے
پھینک کر یاد کی جھیلوں میں حبیبؔ اک کنکر
ایک طوفان اٹھا دے کوئی ہلچل کردے
کیسے کیسے تھے آستاں آباد
اور پھر ہو گیا جہاں آباد
آپ جو اس طرح سے دیکھتے ہیں
آئیے، کیجیے سماں آباد
آہٹیں ہیں یہاں تعاقب میں
پوچھیے، کون تھا یہاں آباد
ہم میاں تب کی بات کرتے ہیں
جب ہؤا کرتے تھے گماں، آباد
اڑنے لگتے ہیں یہ ورق، جب بھی
ہونے لگتی ہے داستاں آباد
دشت، وحشت، قدیم ویرانی
ہو گیا ایسے خاکداں آباد
بےنمو موسموں کی ضد میں صہیبؔ
چل پڑے کرنے گلستاں آباد
کیا تم درد خریدو گی
تپتا دن سنسان گلی تھی
دیر سے کوئل کوک رہی تھی
سبز کریلے، تازہ بھنڈی
سوندھے بھٹے ، ٹھنڈی قلفی
گول گپے اور میٹھی چٹنی
گزر چکے سب پھیری والے
اپنا اپنا رزق سنبھالے
بستر پر میں یونہی لیٹی
کب سے کروٹ بدل رہی تھی
دل سے سکوں.،نیند آنکھ سے اوجھل
برسوں سے دل بوجھل بوجھل
سناٹے میں پڑی دراڑ
نا مانوس سی ایک پکار
دکھ کا امبر غم کی ڈار
انجانی آواز اور لہجہ
جانے کیا کیا بول رہا تھا
جانے کتنے مول لگا کر
کیا کیا کچھ وہ تول رہا تھا
کھڑکی کھول کے میں نے دیکھا
وہ تو بالکل پاس کھڑا تھا
سر پر اک خالی سی ڈلیا
پھٹا پرانا پیر میں جوتا
اپنے لمبے قد کو جھکا کر
کھڑکی پر چہرے کو ٹکا کر
سرگوشی میں پوچھ رہا تھا
کیا تم درد خریدو گی؟
لمحہ بھر کو میں نے سوچا
لمحہ گویا ٹھہر گیا تھا
صدیاں بن کے بیٹھ گیا تھا
میں نے چاہا کہیں چھپ جاؤں
پھر یہ سوچا اسے بتاؤں
ساحل پر وہ شامی بچہ
ننھی زینب اور فرشتہ
مرسی اور اخوان کا قصہ
بنگلہ دیش کے قادر مولا
روہنگیا، اوغور کا قضیہ
غزہ اور کشمیر کا نوحہ
افغانوں کا تورا بورا
اے پی ایس میں خون سے رنگیں
کتنے جگر گوشوں کا چہرہ
اور سوات کے ننھے شہدا
ان ننھوں میں میرا بیٹا
برسوں سے سب درد کے دریا
دکھ کے سمندر میں گرتے ہیں
درد کے دریا دکھ کے سمندر
سب کچھ میرے…
اپنے اپنے عکس کی گرویدہ ہے
بھیڑ میں تنہائی اک پوشیدہ ہے
باخبر دنیا میں خود سے بے خبر
دانا و بینا نہیں ،خوابیدہ ہے
رہنماؤں کی نگاہیں تخت پر
اور مخلوقِ خدا نم دیدہ ہے
محرمِ اسرار بھی کوئی نہیں
یہ معمہ ہے ، بہت پیچیدہ ہے
یہ گھروندہ ریت پر ہے ، راہبر
کیا نظر سے بات یہ پوشیدہ ہے
دھیان کی سلائی پہ
لفظ بُنتےبُنتے میں
دانے بھول بیٹھی ہوں
ان کی بات سننے میں
ان کا دھیان رکھنے میں
خود کو رول بیٹھی ہوں
ہائے کاسہِ دل میں
آرزو کے دھوکے میں
زہر گھول بیٹھی ہوں
نگاہِ لطف و ادا تیری چاہیے بھی نہیں
کہ تیری ذات سے وابستہ کچھ گِلے بھی نہیں
مچل مچل اٹھے دھڑکن ، دہک اٹھیں رخسار
تیری جناب سے کچھ ایسے سلسلے بھی نہیں
نہ گفتگو میں جب الفاظ کی ضرورت ہو
کچھ اس طرح سے تو یہ دل کبھی ملے ہی نہیں
تیرے خیال کی خوشبو سے جو مہک جائیں
چمن میں پھول تو ایسے ابھی کھلے ہی نہیں
غم جدائی و کرب و ملال چہ معنی
ہوں فاصلے بھی کہاں جب کہ رابطے ہی نہیں
مسعود کی زندگی میں چند چیزوں کا خاص عمل دخل تھا۔ زمین ادھر سے ادھر ہو جائے لیکن اسے بس انہی چیزوں کی پروا تھی جن کا اس نے از خود اہتمام کر رکھا تھا۔
نمبر ایک، پیسہ ہی سب کچھ ہے ،پیسہ کمانے کے لیے جو بھی کر سکتے ہو جس سے جتنا مفاد لے سکتے ہو لے لو۔
نمبر دو ،کھانا ہی بس زندگی نہیں ہے ،کھانے کے علاوہ بھی زمانے میں بڑے دکھ ہیں جب شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ پلیٹوں میں کھانا ڈال ڈال کر پہاڑیاں کھڑی کرتے وہ آرام سے سلاد ٹھونگ کر یا حسب ضرورت کھا پی کر فارغ بھی ہوجاتا ۔لوگ جو پیسہ کھانے پینے پر خرچ کرتے وہ اسی مد میں پیسہ جمع کیے جاتا۔ ہاں نمود و نمائش کا وہ شوقین ہی نہیں جنونی تھا ۔کھانا پینا تو کبھی موضوع گفتگو نہ بن سکا لیکن گاڑی جدید ماڈل کی ہونی چاہیے۔ گھر ایسا ہو کہ لوگ سات کوس دور سے بھی گزریں تو چونک کر پوچھیں یہ کس کا گھر ہے۔
اور یہ سب بغیر محنت مشقت کے نہیں ملتا ہے ۔محنت کرنے کو بھی اس کے پاس کون سا بیسویں گریڈ کی نوکری تھی یا وہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ہیڈ…
شادی کا گھر تھا لیکن مجال ہے جو کسی کام کی بھی کوئی ’’ کل ‘‘ سیدھی ہوئی ہو۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا ہر کام جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے اتنے ہی اپنے مخالف سمت کی طرف سفرکررہا ہو۔شادی میں صرف ایک ماہ رہ گیا تھا دلہن سمیت کسی کے بھی کپڑے تیار نہ تھے ۔ ناصر میاں کے کمرے میں روغن ہوتا تھا ۔ جس کے لیے ابھی تک کسی رنگ ساز سے بات نہیں کی گئی تھی ۔غسل خانے کے نل ٹپ رہے تھے اور پلمبر کے بہانے ختم نہ ہو رہے تھے ۔ ناصر میاں کو اپنے کمرے میں ایک ٹیوب لائٹ بھی لگانا تھا جس کے لیے تا حال بجلی والے کی مدد درکار تھی۔
’’ ارے میں کہتی ہوں ، صراف کے پاس جانا ہے ۔ منہ دکھائی کی انگوٹھی لینی ہے ۔ پھر وہ زرقون کا سیٹ بھی اجلانے کے لیے دینا ہے ۔ تم کبا آئو گی ؟ دن ہوا ہو جا رہے ہیں ۔ دلہن کی جوتی بھی بد لوانی ہے کم بخت نے سائز غلط دے دیا تھا اور تو اور ابھی ابٹن ، مہندی کا سامان بھی لینا ہے ۔ دلہن کے جوڑوں کا بھی معلوم کرنا ہے ۔…
’’میں بچے کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتی ….بچے کو خود سے جدا نہیں کر سکتی ‘‘بچے کو سینے سے چمٹائے وہ سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔
’’کیا کریں ….‘‘ماں نے بے بسی سے اس کے والد کی طرف دیکھا جو خود بھی اپنی بیٹی کی اس ہذیانی کیفیت کو دیکھ رہے تھے اور وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔
یہ ساتواں رشتہ تھا جو بہت معقول بھی تھا ،مگر وہ بچے کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے اور اپنی بیٹی کی بچے کو ساتھ رکھنے کی خواہش کی وجہ سے پہلے بھی کئی رشتے منع کر دیے کہ مطلقہ بیٹی کا اصرار تھا کہ دوسری شادی کر لے گی مگر اپنے تین سالہ بچے کو ساتھ ہی رکھے گی۔
اب کےرشتہ کچھ معقول تھا کہ آج کے دور میں بیٹیوں والے اسی کی تلاش اور فکر میں رہتے ہیں اور پھر بیٹی اگر طلاق یافتہ ہو تو یہ ہمارے معاشرے میں ایسا دھبہ ہے جس کے جرم میں کوئی معقول رشتہ آنے کا خیال بھی والدین کو نہیں کرنا چاہیے، مگر رشتہ آگیا ۔ کچھ تو لڑکی کی خوبصورتی اور دوسرا لڑکے کی بھی دوسری شادی تھی ،پہلی شادی سے اس کی ایک بیٹی تھی جو ماں کے…
ہ بہت دیر سے تکیہ پر سر رکھے، چہرہ دوپٹے میں چھپائے روئے جا رہی تھی۔ اپنا دُکھ کہتی بھی تو کِس سے؟ اس کی تو کوئی بہن بھی نہ تھی۔ بس ایک بھائی تھا۔ پھپھو کا بیٹا! وہ بھی اتنا چھوٹا تھا۔ ابھی تیسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ اسے بھلا کیا سمجھ آنی تھی۔ ہاں! اُسے بینا سے محبت بہت تھی۔ جب کبھی وہ دُکھی ہوتی یا آنسو اس کی آنکھوں میں سما نہیں پاتے تو وہ اس کے بہتے آنسو پونچھنے پتہ نہیں کہاں سے آجاتا۔ جانے اُسے کون بتا دیتا تھاکہ باجی اس وقت دکھی ہے ۔
آج بھی یہی ہؤا۔ وہ اس کے بستر پر آکر بیٹھ گیا۔ آہستہ سے اس کے ہاتھ ہٹا کر آنسو پونچھنے لگا۔
’’کیا ہؤا باجی؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ چُپ ہو جاؤ۔ دیکھو میں تمہیں اپنی چاکلیٹ کھلاؤں گا….‘‘ یہ عامر کا بہت بڑا احسان ہوتا تھا۔ اس لیے کہ بینا کی طرح اُسے بھی چاکلیٹ بہت پسند تھی۔ اُسے یکدم اس پر ڈھیروں پیار آیا۔
میرا پیارا بھائی!‘‘ اُس نے آنسو صاف کر کے عامر کو گلے سے لگا لیا۔
دونوں مل کر چاکلیٹ کھانے لگے۔
’’ارے کیا بینا! اسکول سے آکر تمہیں صرف سوتے رہنے کا کام ہے؟ چلو جلدی سے کچن…
مہینوں سے کچرا وہاں جمع ہو رہا تھا۔ تعفن سے سانس لینا دوبھر تھا۔ اس سے چھٹکارے کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ ایک صاحب نے آگ لگا دی۔
کچھ دن بعد وہاں سے گزر ہؤا ۔ کچرے کا نام و نشان تک نہ تھا۔کسی نے راکھ اٹھا کر نئی مٹی ڈال کر کچھ بو دیا تھا۔
خوشگوار حیرت کچھ عرصے بعد گزرنے پر ہوئی۔ وہاں چھوٹے چھوٹے پودے ترتیب سے اگ آئے تھے۔درمیان میں کیاری میں تروتازہ سبزیاں جا بجا پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔یقیناً کسی نے مستقل توجہ دی تھی۔
آج معمولات سے فراغت کے بعد منزل مقصود استقبال رمضان کا پروگرام تھا۔ درس دینے والی کا پہلا جملہ ہی چونکا گیا۔ وہ رمضان کا مطلب ’’جل جانا‘‘بتا رہی تھیں۔
سوال ہؤا کس چیز کا جل جانا؟
جواب تفصیلی تھا۔
’’یہ مہینہ ایک بھٹی کی مثل ہے جو گزشتہ گناہوں کو جلا دیتی ہے۔ مومن پاک صاف اجلا ہو جاتا ہے۔ اس میں خیر اور بھلائی کے لیے ویکیوم پیدا ہوجاتا ہے۔جگہ صاف کرکے نئی مٹی ڈال کر بیج بوئے جائیں تو کئی طرح کے پودے ،پھل اور پھول اگائے جا سکتے ہیں‘‘۔
ذہن میں کچرے سے کیاری کا سفر آ گیا۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ،ایک بڑے انقلاب کا پیامبر ، کچرے سے…
قیام پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین سنگِ میل اور روشن ترین باب ، حقائق کے تناظر میں مکمل تفصیلات
خطبہ الٰہ آباد سے قرارداد پاکستان کا دس سالہ عرصہ کتابوں کا موضوع ہے کیونکہ میری ذاتی رائے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں یہ دہائی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میرے نزدیک یہ دہائی (1940-1930) ہندوستانی مسلمان کی تاریخ کی اہم ترین دہائی ہے ۔ اس موضوع پر مضمون گویا سمندر کو کوزے میںبند کرنے کے مترادف ہے اس لیے بہت سے غیر اہم حقائق سے صرف نظر کرنا پڑے گا ۔
’’Immortal Years‘‘کا مصنف ایولن رنچ لکھتا ہے کہ میں نے جناح سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان کا خیال یعنی ایک آزاد مسلمان مملکت کا خیال پہلی بار کب آیا ؟ قائد اعظم نے جواب دیا تھا 1930ء۔ اسی سال علامہ اقبال نے دسمبر 1930 میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمان اکثریتی علاقوں پر ایک ریاست کا تصور پیش کیا ۔ اگرچہ انہوں نے اس کے قیام کے لیے Within or Withoutکے الفاظ استعمال کیے کہ اس ریاست کو ہندوستان کی فیڈریشن کے اندر یا باہر قائم کیا جا سکتا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے کئی بار اس کی وضاحت کی کہ ان…
ملاکا کی سیر کی تفصیلات ہمارے سرتاج من عزیز کی بیماری کی نظر ہو گئیں۔ اللہ کا شکر تھا کہ وہ جلد ٹھیک ہو گئے، لیکن کئی دن تک طبیعت نڈھال رہی اور وہ نرم غذا کے علاوہ کچھ اور نہیں کھا سکتے تھے۔
ملاکا جنوب مغربی ملیشیا کا شہر ہے جسے سیاحوں کا شہر بنا دیا گیا ہے۔ یہ بہت پرانی بندرگاہ بھی ہے جہاں سے بڑے بڑے تجارتی جہاز گزرا کرتے تھے جو ایشیا کے مختلف حصوں سے تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔ بہت صدیاں پہلے یہاں کے راجہ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ملاکا اسلامی ریاست کا صدر مقام بن گیا۔ یہاں پر کئی عجائب گھر ہیں جن میں قرآن کے قدیم نسخے، پرانے مخطوطات اور نقشے محفوظ کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک عجائب گھر میں ہم نے ملائی زبان کو اپنے اصلی رسم ا لخط میں لکھا ہوا دیکھا۔ ورنہ ترکی زبان کی طرح ملائی زبان بھی اب رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ سمندری سفر اور جہازوں سے متعلق بہت سا سازوسامان بھی ان عجائب گھروں میں محفوظ کیا گیا تھا۔ اسی طرح انگریز دور حکومت کی یادگار کے طور پر کچھ چرچ بھی ہیں جو تقریباً کھنڈر بن چکے…
انسانوں کے بے شمار مزاج ہوتے ہیں۔ اور ہر مزاج کا ایک الگ ہی رنگ ہوتا ہے لیکن یہ ایک فطری تقسیم ہے کہ خوشی سچی ہو اور غم گہرا ہو تو اس پہ سارے انسانوں کا اظہار ایک جیسا ہی ہوگا۔ خوشی میں مسکرانا، ہنسنا یا قہقہہ لگانا اور اداسی، غم، تکلیف یا پریشانی میں اظہار کے سب تاثرات آفاقی ہیں۔
محبت اور نفرت آفاقی جذبے ہیں ان کے اظہار کے لیے انداز بھی ہر انسان میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان جب کسی سے خوش ہو تو اظہار کے لیے اسے مار پیٹ کرے یا اسے اذیت دے اور نہ ہی کہیں یہ ملے گا کہ کوئی اپنی عزتِ نفس پامال کرنے والے سے دلی تعلق محسوس کرے۔ اور اس بات کا چرچا کرے کہ فلاں نے آج مجھے بہت بےعزت کیا اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ یقیناً یہ غیرفطری اور لایعنی تصور ہے۔
انسانوں کی زندگی میں رومان بھی روح کی تسکین کے لیے ایک فرحت افزا اور خوب صورت جذبہ ہے۔
ہر باذوق فرد رومان پرور ماحول، رومانی باتیں، رومانی کہانیاں اور نغمے پسند کرتا ہے۔ رومان کے بارے میں بھی سب کا نقطہٴ نظر ایک جیسا نہیں…
قارئین کرام! سلام مسنون
ایسے میں جبکہ بھارت کی انتہا پسند ہندو حکومت نے مسلمانوںکا جینا حرام کررکھا ہے اور دنیا میں ہر جگہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تشویش پائی جاتی ہے، کرناٹکا بھارت کی نوعمر بہادر لڑکی مسکان نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔
پاکستان ایک اسلامی آئین رکھتا ہے جو اس کے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے اور یہاں کی چھیانوے فیصد مسلم آبادی کی خواہشات کا ترجمان ہے۔ پاکستان توبنا ہی مسلمانوں کے لیے تھا۔اور اس وجہ سے بنانا پڑا کہ ہندو اکثریت کا تعصب مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں برابر کا مقا م دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ صرف مسلمان کیا کسی بھی اقلیت کو، یہاں تک کہ اپنے ہی نیچ ذات ہندؤں کو وہ اپنے برابر نہیں سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند ہندو گروہوں کو جہاں اور جب بھی اختیارواقتدار ملا ہے، اقلیتیں ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہیں۔ہندو مذہبی جذبات پر مبنی اقتدار کا مطلب بھارت میں رہنے والوں کے لیے تباہی ہے۔ پاکستان کا آئین اگر اسلام کو اپنے قوانین کا سرچشمہ سمجھتا ہے، اس کے باشندوں کو اسلامی طرز زندگی کی ضمانت دیتا ہے اور ایسا ماحول دینے کا وعدہ کرتا ہے جو اسلامی قوانین کی روح…
اے فخر دیں!تجھے مرحبا تجھے آفریں
بریرہ صدیقی۔ جرمنی
خیروشر کے ازل سے جاری معرکہ حق و باطل میں نعرہ تکبیر کی معجزاتی تاثیر ہمیشہ عقل انسانی کو مبہوت کردیتی ہے۔ کبھی فاران کی چوٹیوں سے اللہ اکبر کی پکار کےساتھ طلوع ہوتاسورج پوری دنیا کے ظلمت کدے کو اپنی کرنوں سے منور کرتا ہےتوکبھی چاغی کی پہاڑیاں اعلائے کلمتہ اللہ کی پکار پہ لبیک کہتی، ایٹمی قوت بننے کی نوید سناتی ہیں۔ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے جبکہ قوم اس عظیم فتح کے دن کو یوم تکبیرسے موسوم کرتی ، ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔
حال ہی میں، ایک بار پھر تاریخ عرب کے ریگزاروں سے چودہ سو سال کا سفر طے کرتی ریاست کرناٹک کے کالج میں آپہنچی ہے ۔معرکہ حق و باطل ایک بار پھرسجا ہے اور شیطان ایک بار پھر اپنے لاؤ لشکراور ذریت سمیت ارغوانی اور نارنجی شالیں لہراتا آپہنچا ہے۔
کیمرے کی آنکھ جو منظر پیش کرتی ہے اس سے لگتا ہے کہ نہتے منحنی سے وجود پر لپکنے والے بےضمیر شرپسندوں کو انتظامیہ مداخلت کرکے روکتی ہے لیکن قلبی واردات اس کے برعکس گواہی دیتی ہے کہ ، ’’شاھت الوجوہ ‘‘ ،’’رسوا ہوں وہ چہرے ‘‘کہہ کر جو خاک مشرکین مکہ کے چہروں…
سچ ہی کہتے ہیں کہ جب تک کسی بھی قسم کی آزمائش خود پر نہ پڑے اس وقت تک اس کی شدت یا خوفناکیت کا اندازہ ہونا ممکن نہیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہؤا۔ یہ بھی نہیں کہ کوویڈ 19 کی تباہ کاریوں سے میں بالکل ہی بے خبر تھا یا معاشرے میں گھومنے پھرنے والے دیگر افراد کی طرح ان تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا جن کی ہدایات بار بار ذمہ دار محکموں کی جانب سے جاری کی جارہی تھیں، اجتناب کر رہا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہؤا ہو کہ میں نے گھر سے باہر ایسی حالت میں قدم باہر رکھا ہو کہ میرے چہرے پر ماسک نہ ہو یا میں بلا ضرورت گھر سے باہر نکلا ہوں۔ نماز پڑھنے کے لیے بھی صرف اور صرف ایسی مساجد میں جایا کرتا تھا جہاں حکومتی ہدایات کے مطابق نماز ادا کی جاتی تھی۔ بازاروں میں تو آناجانا بالکل ہی بند کر دیا تھا۔ محلے میں بھی اگر کسی ایسے اجنبی کو آتا جاتا دیکھتا جس سے شناسائی نہ ہو تو گھر کے اندر لوٹ آتا تھا۔ اکثر افراد کہا کرتے تھے کہ کورونا جیسی بیماری کا شور محض ایک ڈراوا ہے تو میں ان کو پاکستان اور…
وَ اعْلَمُوْا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِؕ-لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ-اُولٰئِک هُمُ الرّٰشِدُوْنَ(۷)فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةً-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْم
ترجمہ:خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے ۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ ۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا ، اور کفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کر دیا ۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔(الحجرات:۷)
مذکورہ آیات مبارکہ میں آپ ؐ سے اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کو اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم اگرچہ بہت سے معاملات میں مشورہ دیتے ہو جوکہ مناسب بات ہے اور بعض اوقات نبی علیہ السلام خود بھی آپ سے مشاورت کرتے رہتے ہیں، لیکن یہاں یہ فرمادیا کہ یہ سلسلہ مشاورت تک محدود رہے اس سے آگے اس بات کی اجازت نہیں کہ آپ علیہ السلام سے…
عتیق احمد اور انیق احمد،دونوں بھائیوں میں جتنی چاہت اور محبت تھی اس کے لیے دنیا کی کسی لغت میں ترجمانی کے لیے الفاظ موجود نہیں تھے۔ دونوں کے مشاغل،دلچسپیاں اور مصروفیت ایک جیسی تھی ،پسند ناپسند ایک جیسی تھی، سونے جاگنے کے اوقات ایک جیسے تھے ،لیکن کاتب تقدیر نے ان کی بیویوں میں مشرق اور مغرب کا بعد رکھاتھا۔بڑی مشقت اور خواری کے بعد ایک ہی خاندان (اور وہ بھی قطعاً غیر ) سے لڑکیاں ڈھونڈیں کہ بھائیوں کے دلی تعلقات ہمیشہ مثالی رہیں گے۔لیکن نہ نہ نہ ……سوچا ایسا ہی تھا، رشتہ بھی ہم عمر کزنز کا مگر دلچسپیاں شوق مشاغل سب ایک دوسرے سے الگ!
ایک کریلے کھاتی اور شوق سے کھاتی۔ قیمہ کریلے ،چنے کی دال کے بھرے ہوئے ،آلو ڈال کے……کریلے کے نام پر جو مرضی کھلادو رغبت سے کھائے گی اور دوسری کریلوں کو دیکھ کر ماتھے پر کریلوں سے زیادہ بل ڈال لیتی، ناک منہ چڑھاتی اور انڈے کا ہوش پوش بنا کر روٹی کھا لیتی۔ بھوکی مرجائے گی لیکن کریلے نام کی سبزی حلق سے کیا اتارے ہاتھ لگانے کی بھی روادار نہ ہوگی ۔
یہ سب فرق تو سگی بہنوں میں بھی ہوجاتا ہے بس ان میں ہر بات ہر نکتے پر…
انسانوں کے بے شمار مزاج ہوتے ہیں۔ اور ہر مزاج کا ایک الگ ہی رنگ ہوتا ہے لیکن یہ ایک فطری تقسیم ہے کہ خوشی سچی ہو اور غم گہرا ہو تو اس پہ سارے انسانوں کا اظہار ایک جیسا ہی ہوگا۔ خوشی میں مسکرانا، ہنسنا یا قہقہہ لگانا اور اداسی، غم، تکلیف یا پریشانی میں اظہار کے سب تاثرات آفاقی ہیں۔
محبت اور نفرت آفاقی جذبے ہیں ان کے اظہار کے لیے انداز بھی ہر انسان میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان جب کسی سے خوش ہو تو اظہار کے لیے اسے مار پیٹ کرے یا اسے اذیت دے اور نہ ہی کہیں یہ ملے گا کہ کوئی اپنی عزتِ نفس پامال کرنے والے سے دلی تعلق محسوس کرے۔ اور اس بات کا چرچا کرے کہ فلاں نے آج مجھے بہت بےعزت کیا اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ یقیناً یہ غیرفطری اور لایعنی تصور ہے۔
انسانوں کی زندگی میں رومان بھی روح کی تسکین کے لیے ایک فرحت افزا اور خوب صورت جذبہ ہے۔
ہر باذوق فرد رومان پرور ماحول، رومانی باتیں، رومانی کہانیاں اور نغمے پسند کرتا ہے۔ رومان کے بارے میں بھی سب کا نقطہٴ نظر ایک جیسا نہیں…
قارئین کرام سلام مسنون!
بہارکے ساتھ ساتھ روزوں کی بھی آمد آمد ہے۔ اللہ کرے ہم اس ماہِ مبارک سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔
خواتین کا ایک اور عالمی دن اس حال میں آیا ہے کہ سڑکیں تو رنگارنگ سرگرمیوں سے بھر گئی ہیں مگر ہماری کثیرعورت حقوق کی اس جنگ سے بے خبر بیماری ،غربت ، بے روزگاری اور تعلیم سے محرومی کی چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اپنے اپنے نعروں کی گونج میں اس عام عورت کے دکھوں کا ازالہ بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے۔ہر بار معیشت جھٹکا کھاتی ہے تو لاکھوں مزید افراد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیتی ہے۔ کئی گھروں کے مزیدچولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ،تعلیم عیاشی اور علاج معالجہ ایک خواب بن جاتا ہے۔سندھ کی سیلاب سے اجڑی ہوئی عورت ابھی تک اپنے گھرکا راستہ دیکھ رہی ہے۔ کئی علاقوں میں تا حد نگاہ پھیلاپانی بھی نہیں اترا،تنکا تنکا جوڑ کر بنائے ہوئے جھونپڑے ہی سہی، خستہ تنی کو ایک پناہ تو میسر تھی۔ عورت ذات کو اوٹ چاہیے ہوتی ہے۔ جہاں عورت کو اوٹ کا حق بھی نہ ملے اور وہ سڑک پر بستر ڈالے پڑی ہو، وہاں کوئی اس کے جسم کی مرضی بھی تو پوچھے! سندھ کی سرکار عوام…
فضائل سورۃ الفاتحہ
۱۔ اس سورت کے بہت سے نام ہیں فاتحۃُ الکتاب، امُّ الکتاب، سورۃ شفاء، سبع مثانی۔
۲۔ یہ سورت قرآن کریم کے مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔ اس سورت میں وہ تمام مضامین جمع کیے گئے ہیں جو مضامین پورے قرآن میں ہیں مثلاً اللہ کی تعریف، صفات، عبادت، استعانت، ہدایت اور ہدایت یافتہ وگمراہ لوگوں کا انجام وغیرہ۔
۴۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سورۃ فاتحہ کے مثل سورت کسی بھی آسمانی کتاب میں موجود نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں بھی اس کے مثل سورت کوئی نہیں۔
۵۔ یہ سورت امت محمدیہ ؐکے لیے خاص تحفہ ہے۔
اس سورت کے مضامین دو حصوں پر مشتمل ہیں
۱۔ خدا شناسی ۲۔ خود شناسی
الحمدللہ سے مالک یوم الدین تک خدا شناسی کا تذکرہ ہے اور ایاک نعبد سے ولاالضالین تک خود شناسی کا تذکرہ ہے۔
ان دو مضامین کا مقصدیہ ہے کہ بندہ اپنے خدا کو بھی جان لے، اس کے مقام سے واقف ہوجائے، نیز اپنے آپ کو اور اپنی حیثیت اور پوزیشن کو بھی جان لے۔
الحمدللہ رب العالمین
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
۱۔ اس آیت میں دو باتیں ہیں : ذات باری تعالیٰ یعنی ”اللہ“ صفت ِ باری تعالیٰ یعنی ”رب العالمین“۔
۲۔ الحمد للہ، یعنی…
تراویح کے بارے میں معلومات کا خلاصہ
تراویح کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :
(۱)نبیؐ دوسرے زمانوں کی بہ نسبت رمضان کے زمانے میں قیامِ لیل کے لیے زیادہ ترغیب دیاکرتے تھے۔ جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ چیز آپ کو بہت محبوب تھی۔
(۲)صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں تین رات نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی اور پھر یہ فرما کر اسے چھوڑ دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہوجائے اس سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح میںجماعت مسنون ہے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ تراویح فرض کے درجہ میں نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ حضورؐچاہتے تھے کہ لوگ ایک پسندیدہ سنت کے طور پرتراویح پڑھتے رہیں مگر بالکل فرض کی طرح لازم نہ سمجھ لیں۔
(۳)تمام روایات کو جمع کرنے سے جو چیز حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضورؐ نے خود جماعت کے ساتھ رمضان میں جو نماز پڑھائی وہ اوّل وقت تھی نہ کہ آخر وقت میں۔ اور وہ آٹھ رکعتیں تھیں نہ کہ بیس۔(اگرچہ ایک روایت بیس کی بھی ہے مگر وہ آٹھ والی روایت…
البلاذری نے لکھا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں صرف پانچ ایسی خواتین تھیں جو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ۔ ان میں حفصہ بنت عمرؓ( ام المومنینؓ)، ام کلثوم بنت عقبہ ، عائشہ بنت سعاد ، کریمیہ بنت مقداد اور الشفاء بنت عبد اللہ اوزاری شامل تھیں ۔ اس فہرست میں درج آخری نام، ان خاتون کا ہے جنہوں نے حضرت حفصہؓ کو پڑھایا تھا اور نبی اکرمﷺ نے اپنی شادی کے بعد بھی انہیںاس تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی ۔ حضورؐ کی تمام ازواج میں حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ صرف پڑھ سکتی تھیں۔ تاہم حضرت حفصہ ؓ نے جو تعلیم حضرت الشفا سے حاصل کی تھی ، وہ در اصل اسلام میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ بعد ازاں خواتین کی ایک نامزد صحابیہؓ نے آنحضرتؐ سے درخواست کی کہ آپ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ سے بندو بست فرما دیں اور آنحضرت ؐ نے ایسا ہی کیا۔
قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیت(سورہ العلق :۹۴:۱) نازل ہوئی وہ حصول علم کے لیے ہدایت ربانی کا شاہکار ہے ۔ سورہ الممتحنہ(۲۰:۱۲) میں بھی جہاں خواتین سے بیعت لینے کا ذکر ہے…
غزل
اندر کا غم کہہ ڈالے تو
گر چشمِ نم کہہ ڈالے تو
تنگ آکر جو مرضی کر لو
زیادہ سے کم کہہ ڈالے تو
وہ بھی اک دن اچھا جاؤ
ہو کر برہم کہہ ڈالے تو
زخمِ دل، ہونٹوں کا اپنے
رکھ دے مرہم کہہ ڈالے تو
چپ ہوں پر آنکھوں کا بادل
دل کا موسم کہہ ڈالے تو
وہ اب تک تو میں ہے لیکن
اک دن گر ہم کہہ ڈالے تو
جھوٹی برکھا گر وہ تجھ سے
برسو چھم چھم کہہ ڈالے تو
کیا گزرے محرابوں پر کچھ
زلفوں کا خم کہہ ڈالے تو
کیا ہے کوئی قوسِ قزح کو
سُر کا سَرگم کہہ ڈالے تو
کوئی، عجب کیا ان آنکھوں کو
جاموں کا جم کہہ ڈالے تو
مٹی پانی، بارش، کوئی
پی جا تھم تھم کہہ ڈالے تو
کیوں آنکھوں کا کاجل پھیلا
زلفِ برہم کہہ ڈالے تو
تم بھی سکھیوں میں ہو، آ کر
ہم سے پونم کہہ ڈالے تو
حبیب الرحمٰن
غزل
کچھ اس طرح سے تمہیں پُر وقار کرنا تھا
تمہارا عشق ہی سر پر سوار کرنا تھا
تمام رات ہی اپنی تلاشی لینا پڑی
توُ گمشدہ تھا تجھے بازیاب کرنا تھا
میں تیرے درد ہی بازار میں سجا لایا
اسی نگر میں ہمیں کاروبار کرنا تھا
وہ کہہ رہا تھا محبت بھی نقد سودا ہے
میں لُٹ چکا تھا مجھے تو اُدھار کرنا تھا
نگاہِ یار سے موسم چُرا کے لایا ہوں
لُٹی بہار نے پھر سوگوار کرنا تھا
تم ایک…
میں حوّا کی بیٹی
میں ساتھی ، میں ہمسر
مجسم رفاقت ، مجسم سکینت
صفا اور مروہ کی وجہ ِتقدس
میں ہی ہاجرہ ہوں
میں زم زم کا منبع
میں صحرا کی زینت
سراسر وفاہوں میں پاکیزہ مریم
نشانِ عزیمت
خدیجہ ہوں صفیہ ہوں
حفصہ ہوں خولہ ہوں
میں عائشہ ہوں
میں آنکھوں کی راحت ہوں
میں فاطمہ ہوں
میں بابا کی جاں ہوں
عزیز از جہاں ہوں
میں عمّارہ
میداں میں چہرہ چھپائے جھپٹتی ہوئی
چیرتی میں صف دشمناں ہوں
میں ام رُفَیدہ ہوں
خیمے میں مرہم بناتی
مجاہد کے زخموں پہ رکھتی ہوئی
اس کی ہمت بندھاتی
میں حرفِ دعا ہوں
کوئی چھپ کے حملہ کرے
تو میں صفیہ
میں بیٹوں کو میداں میں بھیجوں
تو اسما
سمیہ ہوں میں صبر کی اک چٹاں ہوں
زنیرہ ہوں میں نہدیہ ہوں
میں اُلفت، میں راحت
مروت ، مودت
میں نعمت، میں رحمت
میں آرامِ جاں ہوں
سراپا محبت ، سراپا وفا ہوں
جہاں بھی ہیں پھوٹے
ہدایت کے چشمے
مجھی سے ہیں پھوٹے
میں نبیوں کی ماں ہوں
میں حوّا کی بیٹی
میں ساتھی ، میں ہمسر
برف رتوں کا المیہ
گھروں کے آنگن ،دلوں کے دامن ،تمام ڈیرے
ہوس کی دہشت نے ہیں بکھیرےکئی بسیرے
کہر میں لپٹی ہوئی فضا میں نہ جانے کتنی ہی سسکیاں ہیں
لہو جماتی یہ جاں گھلاتی ہوا میں کیسی خموشیاں ہیں
جدائیوں کے جو المیے ہیں وفاکی قسمت کچل رہے ہیں
خنک شبوں کی طوالتوں میں بہت سے اسرار کھل رہے ہیں
یہ برف لہجے جو سرد مہری سے اٹ گئے ہیں
اثر ہے یخ بستہ موسموں کا
کوئی ہے شکوہ شکستہ پائی سے دل زدوں کا
درونِ دل کے ہرایک درکی دبیز چلمن بکھرگئی ہے
ٹھٹھرتے موسم کو دوش دے کردلوں کی دنیا اجڑگئی ہے
کسی کا چہرہ دھواں دھواں ہے نظرجہاں ہے
لہو نہیں ہے رگوں میں برفاب سا رواں ہے
نظربہک کرکدھر گئی ہے یا برف جذبوں پہ پڑگئی ہے
یہ المیہ ہے ،یہ حادثہ ہے،یاسرد موسم کاسلسلہ ہے
گھرہستن
یہی تو جرم گراں ہے تیرا!
تری حقیقت تو بس یہی تھی
تو جھانکتی روزنوں سے رہتی، یا تاکتی درپنوں کو رہتی
نہ سانس لیتی کھلی فضا میں ، تو گھٹتی رہتی ڈری فضا میں
نہ خواب آنکھوں میں تیری پلتے نہ دیپ راہوں میں تیری جلتے
نہ آرزو سے نظر ملاتی،نہ شب میں کوئی سحر جگاتی
ستم ہزاروں جو ٹوٹ جاتے روا نہیں تھا کہ لب ہلاتی
یوں اک ضمیمہ رہینِ آدم بنائے جانے پہ کھلکھلاتی
کڑی فصیلوں کے درمیاں تو…
سدرہ کو کھیلنے کا ، نہ کودنے کا ،پڑھنے کا، نہ پڑھانے کا ،کوئی شوق نہیں تھا۔ آپی حفصہ چھٹی کے دن سارے محلے کے بچوں کو جمع کرکے سکول سکول کھیلتیں اور مزے سے سکول کی ہیڈ پرنسپل بن کر ٹی پائی پر ڈنڈے برسایا کرتیں ۔دو تین چھٹیاں اکٹھے آجاتیں تو محلے کی بچیوں کے ساتھ گڈے گڑیا کا بیاہ رچاتیں، تیل مایوں مہندی سارے شگن ہی چاؤ لاڈ سے پورے کرتیں . ان کی قوت مشاہدہ غضب کی تھی۔ بارہ سال کی عمر میں انہیں معلوم تھا کہ د لہن کو وداع کرتے ہوئے ماموں میاں کا ہونا ضروری ہے، نائنوں سے شادیوں پر کیا اور کیسے کام لیا جا تا ہے ،مکلاوہ کسے کہتے ہیں، بچوں کو کیا دیتے ہیں اور بڑوں کو کیا ؟ اسے ہر چیز ازبر تھی۔ لگتا تھا کسی پردادی پرنانی کی روح اس کے اندر گھسی ہوئی ہے، آپی حفصہ کے برعکس سدرہ کو بس ایک ہی شوق تھا لیپا پوتی کا ،کبھی چچی کا کاجل ان کی سنگھار میز سے اٹھا کر لپالپ آنکھوں میں بھر لیتی تو کبھی خالہ کی شوخ رنگ کی لپ اسٹک اٹھا کر ہونٹوں پر تھوپ لیتی ، اس کے بعد جتنا رگڑ رگڑ کر…
دوپہر تو کیا، دن سہہ پہر پکڑنے والا تھا اور ڈھلنے کی طرف رواں تھا۔ سورج مغرب کی طرف چھلانگیں لگاتا ہؤا دوڑ رہا تھا۔ گھڑیال کی گھنٹہ والی سوئی دو کا ہندسہ پار کرکے سوا دو کا وقت بتا رہی تھی لیکن عذرا کا کہیں دور تک نام و نشان بھی نہ تھا۔
عذرا گھر کے کاموں میں میری مدد گار کے طور پر کام کرتی تھی۔ مجھے عذرا کے لیے’’ کام والی‘‘ یا’’ماسی‘‘ کا لفظ بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم ان کے لیے یہ الفاظ بول کر انہیں ان کی کم مائیگی کا احساس دلاتے ہیں اور وہ اپنے لیے ہماری زبانوں سے ایسے الفاظ سن کر اپنے آپ کو ہم سے الگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے میں اپنے بچوں کو بھی ان کے لیے یہ الفاظ نہیں بولنے دیتی۔ اس لیے میرے بچے بھی انہیں ہمیشہ آنٹی یا خالہ ہی کہتے ہیں۔
جب دن کے اختتام میں دو گھنٹے رہ گئے تو اس بات پر مہر ثبت ہو گئی کہ اب عذرا نہیں آئے گی۔ اس کے نہ آنے کا یقین پاکر میں نے ہمت باندھی، چولہے پر سبزی چڑھائی۔ چولھے کی آگ مدھم کرکے تاکہ سبزی ہلکی آنچ پر آہستہ آہستہ پکتی…
بات تو اتنی بڑی نہ تھی مگر اس پر علینہ کا رد عمل شدید تھا ۔ شر جیل نے بات سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر علینہ تو کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھی اور کچھ نہ سوجھا تو وہ غصے میں بھرا ،زور سے دروازہ بند کرتا باہر نکل آیا اور اب یونہی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہا تھا ۔
اس کے باہر جاتے ہی علینہ نے میز پر رکھا چائے کا کپ اٹھا کر زمین پر پٹخا اور کمرے میں بند ہو گئی ۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کچھ تہس نہس کر دے ، ہر چیز نوچ ڈالے ، ساری دنیا بُری لگ رہی تھی۔ بول بول کر گلا سوکھ گیا ۔ اس نے پانی کا گلاس پیا اور بے دم ہو کر بستر پر گر گئی ۔ وہ بے آواز رو رہی تھی اور اس کو خود بھی علم نہیں تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے ۔
علینہ اور شرجیل کی شادی تین ماہ پہلے ہوئی تھی ۔ شادی پر شرجیل کو دو ہفتے کی چھٹی ملی پھر اس وعدے کے ساتھ دوسرے شہر سدھارا کہ جلد از جلد مناسب گھر کا انتظار کر کے علینہ کو ساتھ لے جائے گا…
’’ماما! میری فیئرویل میں ایک منتھ رہ گیا ہے۔ساری فرینڈز اپنی تیاری شیئر کر رہی ہیں۔میرا کچھ بھی نہیں آیا اب تک‘‘۔
سوہا نے روٹھے سے انداز میں ماں سے کہا جو قلم اور نوٹ بک لیے کچھ لکھ رہی تھیں۔
’’ٹھیک ہے بیٹا،اپنی لسٹ بنا لو،پیسوں کا اندازہ ہو جائے گا تو چلتے ہیں ایک دو دن میں‘‘۔
یہ ان کی عادت تھی کہ کوئی لین دین ہو،دعوت ضیافت ہو، تعلیمی اخراجات ہوں یا گھریلو بجٹ،ہر کام منصوبہ بندی سے کرتیں۔ان کی اس عادت سے ان کے شوہر ہاشم بہت خوش اور مطمئن تھے۔ہاشم سعودیہ میں ایک مستحکم کمپنی میں اچھے عہدے پر تھے۔سال میں خود تو ایک بار پاکستان آتے لیکن دوران سال بچوں کے تعلیمی شیڈول کو دیکھتے ہوئے انہیں سعودیہ بلا لیتے تھے۔بچے شہر کے مہنگے تعلیمی اداروں سے منسلک تھے۔بے فکری،کھلے ہاتھ کا خرچ،اپنے ہی جیسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا۔ ان کے طرز رہائش اور انداز و اطوار میں مغربی رنگ نمایاں ہونے لگا تھا۔ دو بیٹوں کے بعد آنے والی سوہا گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ اسٹائلش ملبوسات، زیبائش کے لوازمات،بہترین سیل فون،سہیلیوں کا سرکل سب ہی کچھ اس کی پسند کے مطابق ہوتا۔فیصل کو شاپنگ کی سن گن ملی تو اس نے بھی نئی جینز اور…
میں ایک کہانی نویس ہوں ۔میں جب لکھتی ہوں تو ڈوب کر لکھتی ہوں۔ اپنے پڑھنے والوں میں میری پہچان ہے۔لوگ مجھے شوق سے پڑھتے ہیں اور میرے لکھے ہوئے افسانوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ خالی خولی دعویٰ نہیں بلکہ اس کا ثبوت لاتعداد خطوط ہیں جو ہر ماہ میرے قارئین کی طرف سے مجھے وصول ہوتے ہیں۔
لیکن اس وقت میں ایک پریشانی سے دوچار ہوں۔ اپنی پریشانی کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میں صرف سچ لکھتی ہوں۔سچ،جو کہ تلخ اور کڑوا ہو یا پھر شیریں۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں لکھا۔ آج مجھ کو جو پریشانی ہے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ مجھ کو جھوٹ لکھنا ہی پڑے گا۔چلیے میں آپ سے شئیر کرتی ہوں، شاید آپ مجھ کو بہتر مشورہ دیں۔ ارے! آپ مجھ کو بغور کیوں دیکھ رہے ہیں؟میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ آپ تو سراپا سوال ہی بن گئے۔
چلیے میں آپ کو پورا واقعہ سناتی ہوں، اس طرح آپ پر میرے آنسوؤں کا راز کھل جائے گا، کیوں کہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی کی ہوں کہ میں صرف سچ ہی لکھتی ہوں۔
کل ایسا ہؤا کہ میرے شوہر کو شادی میں جانا تھا۔ان کے نہایت عزیز دوست کی شادی تھی۔…
کھڑکی سے چھن کر آتی سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ آنکھیں مسلتی ہوئی سستی سے اٹھ بیٹھی، باورچی خانے سے مسلسل اٹھا پٹخ کی آوازیں آ رہی تھیں، وہ بال لپیٹتی ہوئی منہ پر چھپاکے مار کے کمرے سے نکل آئی، سامنے ہی لاؤنج میں اس کی طرف پشت کیے بیٹھی بیگم فیروز پر نظر پڑی، وہ جھنجھلاتی ہوئیں باورچی خانے کے ادھ کھلے دروازے سے نظر آتی منجھلی بہو کو گھور رہی تھیں۔
عروہ نے سامنے جا کے سلام جھاڑا تو انہوں نے ذرا کی ذرا نظر ہٹا کے اسے دیکھا اور سر ہلا دیا، عروہ دوپٹہ سنبھالتی کچن کی طرف مڑی۔
’’پھوہڑ کی پھوہڑ ہیں سب‘‘ پیچھے سے اپنی ساس کی بڑبڑاہٹ اسے صاف سنائی دی لیکن وہ نظر انداز کر گئی۔
کچن میں اقصیٰ بھابھی تیز تیز ہاتھ چلاتے ہوئے بچوں کو ڈپٹتی ناشتہ کروا رہی تھیں۔
ان کو سلام کر کے اس نے کرسی گھسیٹی اور علی کی ناشتے میں مدد کرنے لگی، اقصیٰ بھابھی نے اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھا اور توے پر پڑے پراٹھے کی طرف مڑ گئیں۔
بچوں کے سکول جانے کے بعد راحم، زین بھائی اور ارقم بھائی بھی اسی طرح افراتفری مچاتے آفس کی طرف نکل گئے، اسی اثناء میں…
موبائل پر نمبر ملا کر حال احوال بتا کر انہوں نے بڑی امید کے ساتھ لائن پر موجود مہک سے پوچھا۔ ’’آپ کے کام کا کیا بنا ؟ ‘‘ کچھ دیر مہک کی بات سنتی رہیں پھر مایوس سا اللہ حافظ کہا اور کال ختم ہو گئی ’’ چلو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائے گا چرخہ‘‘ پھر یکدم خیال آیا کہ مس افشین سے’’چکی‘‘ کی بابت پوچھ لوں انہیں کال کی بجائے پیغام لکھ کر واٹس ایپ کر دیا اور حیران کن حد تک جلد ہی جواب آگیا ۔ ’’جی چکی کا انتظام ہو گیا ہے، کل ملازم بھیج کر خالہ شکیلہ کے یہاں سے اٹھوا لیں،کافی بھاری ہے ‘‘۔ جواب سن کر ذرا سا مطمئن ہو گئیں مگر خیال پھر مس مہک کی جانب چلا گیا کہ ان سے کام نہیں ہو سکا۔ اتنے میں مس مبین کی کال آگئی۔ ’’ہاں مبین تو بہت ایکٹو ہے جس کام کی ذمہ داری اٹھا لے کر ہی لیتی ہے‘‘ انہوں نے موبائل سکرین کو امید بھری نگاہوں کیساتھ دیکھتے ہوئے سوچا۔ پھر جو کال ریسیو کی تو پتہ چلا کہ مدھانی و کڑھتنی کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ اور یہ کہ مبین صبح آتے ہوئے سکول وین میں…
ہم یہ بات تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پرانے وقتوںہی سے ہماری خواتین اپنی جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کے لیے ’’ فطرت ‘‘ کی فیاضی سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ یہ پرانے نسخے اور ٹوٹکے نباتاتی ورثے کی حیثیت سے نہ صرف وقت کی آزمائش پر پورے اترتے ہیں بلکہ مصنوعی اور کیمیائی پروڈکٹس کے نقصان دہ اثرات کا تدارک کرنے کے لیے بھی مفید ثابت ہوئے ہیں۔
جدید کریموں میں ہلدی کا استعمال قدیم جراثیم کش علاج اور جلد کو نرم بنانے کے طریقہ کار پر مبنی ہے۔ ہلدی کو کریموں میں ملا کر ابٹن کے طور پر غسل سے پہلے جلد پر لگانے سے یہ ملائم، گداز اور اچھی صاف وشفاف ہو جاتی ہے۔ اس کے استعمال سے جلد پہ ایک ایسی حفاظتی تہہ بن جاتی ہے جو صابن کے استعمال سے پیدا ہونے والی خشکی کے ا ثرات کو روک دیتی ہے۔
عورتیں اس مرکب کو جلد کے بال اتارنے کے دھیمے اور غیر تکلیف دہ عمل کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ہلدی کا ابٹن لگانے کی روایت اب بھی دلہن کی تیاری کے سلسلے میں موجود ہے۔
شہد ایک طاقتور قدرتی مائسچرائزر ہے۔ یہ جلد کی نمی کے نقصان کو روکتا ہے اور خود ضروری نمی…
میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بلند ٹاور کی نویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اپارٹمنٹ اور اپنی زمین اپنا گھر کا مقابلہ تو نہیں لیکن جو بھی آتا وہ یہی کہتا کہ بے شک آپ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں لیکن یقین مانیں فلیٹ میں آنے کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی فلیٹ ہوگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اپارٹمنٹ کی ڈیزائیننگ کی ہی کچھ اس انداز میں گئی تھی جیسے کوئی مکان ہو۔ ہر فلیٹ کارنر فلیٹ تھا اور اس کے دو ٹیرسوں میں سے ایک ٹیرس کو چھوٹے سے باغیچے کی شکل دے کر ایک عجب سا منظر دے دیا گیا تھا۔ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر ایسی کئی عمارتیں تھیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی ایسی انفرادیت حاصل نہیں تھی۔ میرا مناسب سا کار و بار تھا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی اس سے مناسب آمدنی ہوا کرتی تھی۔ کار و بار کا یہ سلسلہ پشتنی تھا۔ میرے والد صاحب میرے دادا کے اکلوتے تھے اور اکلوتے ہونے کا سلسلہ پردادا سے بھی پہلے کا تھا۔ میں بھی اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر آنے…
مدیحہ ارحم کو کندھے سے لگائے بے چینی سے کمرے میں چکرا رہی تھی۔ کبھی دل میں غصہ کی لہر اُٹھتی توکبھی رونا آجاتا ،کبھی اضطراب سوار ہوتا تو کبھی شرمندگی گھیر لیتی۔ کسی طور چین نہیں تھا ۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ اباجی اور فیصل بکرا لینے گئے ہوئے تھے۔ مگر بات شاید اتنی سی نہ تھی۔ اگر اتنی ہی ہوتی تو وہ خوشی خوشی انتظار کر رہی ہوتی ۔پر اصل بات یہ تھی کہ ابا جی اور فیصل ،بھابھی کا بکرا لینے گئے ہوئے تھے ۔
مدیحہ کو بکروں سے عشق تھا، مانو بچپن کی محبت تھی ۔شادی سے پہلے ابو جب بھی قربانی کا بکرا لاتے ہمیشہ آتے ہی رسی مدیحہ کے ہاتھ میں پکڑاتے۔
’’یہ لو بھئی آگیا میری بیٹی کا بکرا …..اب اس کی عید تک خوب خاطر مدارت خدمت سب تمہاری ذمہ داری‘‘۔
اور واقعی مدیحہ بکرے کے ناز نخرے اٹھانے میں جان لڑا دیتی ۔ بکرے پر پورا س کا قبضہ ہوتا، بھائیوں کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی۔ اس کو کھلانا پلانا نہلانا سجانا مہندی کڑے ہار …..بس چلتا تواپنا عید کا نیا جوڑا بھی بکرے کو پہنا دیتی اور جب عید کی صبح وہ قربان ہوتا تو موٹے موٹے آنسو اور دبی دبی…
گھروں میں سفید چادریں بچھ رہی تھیں،گھر والے غم سے نڈھال تھے،یہ وہ دِن اور وہ منظر تھا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا،چلتی پھرتی ہنستی کھیلتی چھوٹی نانی(میری نانی کی چھوٹی بہن) یوں اچانک ہمیں چھوڑ کے چلی جائیں گی،سب کو مشورہ دینے والی،گھر اور خاندان کی بڑی ہونے کے ناطے سب کے لیے قربانیاں دینے والی،ہماری نانی کے انتقال کے بعد ہماری امّی اور خالہ ماموؤں کو ڈھارس دینے والی چھوٹی نانی ہر آنکھ اشکبار کر گئیں۔
کچھ دن پہلے میرے ہونے والے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے میں وہیل چئیرپر ایک جگہ بیٹھی سب کے رویّے اور مناظر جانچ رہی تھی،چھوٹی نانی بہوئوں بیٹوں والی تھیں،سب ہی گھر والے میّت کے انتظار میں تھے جس کو غسل کے لیے لے جایا گیا تھا،چھوٹی نانی کا گھر آنے والوں سے بھر گیا تھا،ایک تبدیلی جو مجھے محسوس ہوئی کہ مجھے کم عمری پر وہیل چیئر پر آجانے کی وجہ سے جو ترس بھری نگاہوں کا سامنہ کرنا پڑتا تھا،وہ آج کہیں نہیں تھیں کیونکہ سب چھوٹی نانی کے دیے داغِ مفارقت کو رو رہے تھے۔
بہویں بیٹیاں آنسوؤں کو کبھی تھامتے اور کبھی گرادیتے،اپنے تو اپنے،غیر بھی غمزدہ تھے،ایک مجمع آبدیدہ تھا،ہاں مگر ایک چہرہ جس پر غم اور…
آج سے سترہ سال قبل میاں کی ناگہانی موت کے بعد عقیلہ بیگم کا، جس زندگی پر سب سے زیادہ اعتماد تھا وہ چکنا چور ہوا اور زندگی کی پلاننگ میں سر فہرست فرائض کی ادائیگی کو رکھا ،فضول قسم کی مصروفیات پر یک جنبش قلم ترک کرنے کا لفظ لکھا ۔
خاوند کی وفات کے وقت صرف ایک بیٹے کی شادی ہوئی تھی ۔ عدت کے دوران جو بھی افسوس کے لیے آتے وہ بیٹے کے لیےتلاش رشتہ کا اشتہار بن جاتیں ۔ پھرعدت ختم ہوتے ہی انہوں نے یکے بعد دیگرے ساری اولادوں کو بیاہ دیا تو خدا کے گھر جانے کا جنون ،وہاں حاضری نصیب ہو گئی تو اعتکاف میں بیٹھنے کی آرزو ،اس سے بھی فیضیاب ہو چکیں تو باعزت ریٹائرمنٹ اور سارے بچوں کو اکٹھے کرنا اور زندگی کا نچوڑ بیان کرنا، ورثہ کی تقسیم اور دو چار پندو نصائح ۔
سوعقیلہ خانم نے اس مرتبہ سب بچوں کو حکم دے دیا تھا کہ سب بقرعید ان کے ہاں کریں گے ۔
کوئی امریکہ کوئی افریقہ میں ،بیٹی کراچی میں ہے اور داماد کی ملازمت کوئٹہ میں ….سب کو معلوم تھا کہ اپنے کہے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہوتیں اور حکم مانے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں…
یہ مئی 2014 کی بات ہےجب بڑی بیٹی نے سعودیہ سے کال کی تو اس نے بتایا کہ امی اس سال میرا حج کا ارادہ ہےتو میں نے آپ کی اور دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی ویزہ درخواست بھیج دی ہےتا کہ جب میں حج پہ جائوں تو میرے دونوں بچوں کے پاس آپ ہوں اور آپ اکیلے نہیں سنبھال پائیں گی تو جس بہن کا ویزہ نکل آئے اسے بھی ساتھ لانا ہوگا۔آپ دعا کیجیے گا اللہ سارے کام آسان بنا دیں۔
جب میں 2012 میں سعودیہ سے واپس آئی تھی تو آنے سے پہلے خانہ کعبہ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے بہت روئی تھی۔ مجھےدوبارہ ادھر جانے کی امید اس طرح نہیں تھی کہ نہ تو مالی وسائل ایسے تھےاور نہ ہی گھریلو مسائل ایسے تھےکہ بظاہر جانے کا امکان نظر آتا۔مریم کی کال سن کے میری آنکھوں سے آنسو رواںہو گئے۔ امید نظر آرہی تھی کہ شاید میرا پھر بلاواہےاللہ کے گھر سے اور حاضری کا اذن ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں۔
ایک ہفتہ گزرا تو بیٹی نے بتایا کہ امی آپ کا اور دونوں چھوٹی بہنوں کا ویزہ آگیا ہےجو کہ تین ماہ تک کار آمد ہے۔ ابھی مئی کا مہینہ ہےیعنی آپ لوگوں نےاگست…
’’ السلام علیکم ‘‘۔
میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہاں موجود تمام افراد کو اجتماعی سلام کیا اور خالی نشست کے لیے نگاہ دوڑائی۔میری حال ہی میں شہر کے معروف کالج میں تقرری ہوئی تھی۔
کمرے میں ہر عمر کی خواتین اور چند مرد استاد براجمان تھے۔ کونے میں موجود ایک خالی نشست سنبھال کر میں اطراف کا جائزہ لینے لگی۔
’’جی تو مس مقدس ، آپ کو ہمارا کالج کیسا لگا؟ ‘‘
اچانک پرنسپل صاحبہ مسز خان کے سوال پر کمرے میں موجود تمام افراد کی نظریں مجھ پر آن رکیں۔
میں ابھی الفاظ کا چناؤ کر ہی رہی تھی کہ مسز خان پھر گویا ہوئیں۔
’’ان سے ملیے ۔ یہ ہمارے کالج کی کمپیوٹر ٹیچر ہیں‘‘۔
پھر ایک ٹیچر کی طرف رخ کرتے ہوئے بولیں ’’ ویسے مس آسیہ ! آپ سے تو ان کی خوب دوستی ہو جائے گی۔ حلیے سے تو یہ آپ کی شاگرد لگ رہی ہیں ‘‘۔
مسز خان کی اس بات پر سٹاف روم میں قہقہہ گونجا اور میں حیران پریشان کہ یہ کیسا تعارف ہے۔
میری فق ہوتی رنگت دیکھ کر اچانک کسی نے میرا ہاتھ دبایا اور تسلی دینے والے انداز میں کہا۔ ’’ اگنور کرو ۔ ان کو تو عادت ہے ، ہر پردے والی خاتون کو…
خاندان کی تشکیل اور وجود کے لیے نکاح کی مشروعیت، نکاح جیسے جائز اور مسنون عمل کی طرف ترغیب، اس کے بے شمار سماجی فوائد، اس پر اجر و ثواب کا وعدہ، ناجائز رشتوں کی قباحت و حرمت، اس کی مذمت، اس پر دنیوی سزا اور اخروی عذاب کو بیان کیا۔ اوراس طرح نکاح و شادی کے بعد ازدواجی تعلق کو نہایت مہذب شائستہ اور مطلوب طریقہ قرار دے کر اس کو نہایت آسان بنادیا۔
نکاح مرد اور عورت کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہی نہیں، بلکہ یہ نسل انسانی کے وجود، قیامت تک اس کی بقا و دوام اور بے شمار انسانی وسماجی ضرورتوں اور تقاضوں کی فراہمی اور تکمیل کے لیے اللہ اور رسول کی طرف سے متعین کردہ نہایت مہذب اور شائستہ طریقہ ہے اس لیے آئیے جائزہ لیں کہ نکاح سے کن انسانی و سماجی ضرورتوں کی فراہمی اور تکمیل ہوتی ہے۔ اور اس کے کیا فوائد اور اس کے نہ ہونے کے کیا نقصانات ہیں۔تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ نکاح اور شادی انسانوں کے لیے کیوں ضروری ہے۔
اسلام میں نکاح کوکسی نا محرم سے پیار و محبت اور جائز تعلق کی بنیاد قرار دیا گیا اور اسے زندگی کی بہت سی اہم ترین ضروریات…
آج سے سترہ سال قبل میاں کی ناگہانی موت کے بعد عقیلہ بیگم کا، جس زندگی پر سب سے زیادہ اعتماد تھا وہ چکنا چور ہؤا اور زندگی کی پلاننگ میں سر فہرست فرائض کی ادائیگی کو رکھا ،فضول قسم کی مصروفیات پر یک جنبش قلم ترک کرنے کا لفظ لکھا ۔
خاوند کی وفات کے وقت صرف ایک بیٹے کی شادی ہوئی تھی عدت کے دوران جو بھی افسوس کے لیے آتے وہ تلاش رشتہ کا اشتہار بن جاتیں ،عدت ختم ہوتے ہی انہوں نے یکے بعد دیگرے ساری اولادوں کو بیاہ دیا تو خدا کے گھر جانے کا جنون ،وہاں حاضری نصیب ہو گئی تو اعتکاف میں بیٹھنے کی آرزو ،اس سے بھی فیضیاب ہو چکی تو باعزت ریٹائرمنٹ اور سارے بچوں کو اکٹھے کرنا اور زندگی کا نچوڑ بیان کرنا ورثہ کی تقسیم اور دو چار پندو نصائح ،عقیلہ خانم نے اس مرتبہ سب بچوں کو حکم دے دیا تھا کہ سب بقرعید ان کے ہاں کریں گے ۔
کوئی امریکہ کوئی افریقہ میں ،بیٹی کراچی میں ہے اور داماد کی ملازمت کوئٹہ میں …..سب کو معلوم تھا کہ اپنے کہے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہوتیں اور حکم مانے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں سو سب نے حامی…
۶۲۸ء مطابق ۲ ہجری محمدﷺ اور مسلمانوں نے مکہ جا کر حج عمرہ ادا کرنے کی کوشش کی مگر مکہ کے بت پرستوں نے حدیبیہ میں مسلمانوں کو روک دیا۔ اسی جگہ بت پرستوںاور مسلمانوں کے درمیان بالآخر دس سالہ معاہدہ ہؤا، جس کی روسے مسلمان آئندہ سال خانہ کعبہ کی زیارت کرسکتے تھے اور یہ کہ مسلمان مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے ۔ اس معاہدہ حدیبیہ کی رو سے آپ ۶۲۹ء مطابق ۷ ہجری دو ہزار افراد کے ساتھ مکہ کوروانہ ہوئے تاکہ زیارت کعبہ کر سکیں ۔ زائر ہونے کی حیثیت سے جز شمشیر کوئی اور اسلحہ ان کے پاس نہیں تھا ۔
جس وقت مسلمان مکہ میں واردہوئے، قریش کے لوگ ڈر کر مکہ سے باہر چلے گئے اور مکہ کے ارد گرد پہاڑوں پر چڑھ گئے ، خصوصاً ان پہاڑوں پر جو خانہ کعبہ کے ارد گرد سر بلند تھے اور وہاں سے مسلمانوں کو طواف کرتے دیکھتے رہے۔
قریش کے اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر اعتماد تھا ۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان کہیں شہر میںداخل ہونے کے بعد ہم پر حملہ نہ کر دیں اور ہم سب کو قتل نہ کر دیں ۔
محمد ؐ نے بھی…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘ ماہ جون 2022ء پر تبصرہ حاضر ہے ۔ سب سے پہلے ٹائٹل پر نظر پڑی ۔ خوبصورت اُجلے ،اُودھے، سیاہ امڈتے بادل دل و نگاہ کو تسکین پہنچا رہے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ ڈاکٹر صائمہ اسما کا خوبصورت اداریہ اتنے سالوں بعد حج کی رونقیں بحال ہونے کا ذکر آپ نے ان خوبصورت جملوں میں کیا ہے ’’ بیت اللہ کی رونقیں بحال ہوں گی ، لبیک کی صدائیں گونجیں گی ، مکہ مدینہ کی ویرانیاں چھٹ جائیں گی ، دعائوں سے فضائیں معمور ہوں گی ،صحرا اپنا دامن کشادہ کرے گا ، میدان عرفات سجے گا ، مزدلفہ کا بچھونا آراستہ ہوگا ، منیٰ کی بستیاں بس جائیں گی اور ہر طرف شمع توحید کے پروانوں کا راج ہوگا ‘‘۔
آپ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، ابتر معاشی اور سیاسی حالت اور حریت رہنما یاسین ملک کی نا حق سزا پر بھی بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
’’ نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنا ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون آپ نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے پیغمبر اور رسول دنیا میں بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو نیکی…
نماز اللہ تعالی کے قرب اور روحانی ترقی کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ایمان کے بعد عملی اطاعت کی اولین اور دائمی علامت نماز ہے۔نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔ نماز کو ترک کردینا اور ایمان کا دعوی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ دین کا ستون ہے۔ جس نے اسے گرا دیا اس نے دین کی عمارت ڈھا دی اور جس نے اس کی حفاظت کی اس نے دین کی حفاظت محفوظ رکھی۔
نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز ومحور سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ اگر یہ بندھن ٹوٹ جائے تو بندہ خدا سے دور اور دور تر ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا، اور یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۳،ص۷۵)
صلاۃ کے معنی: صلاۃ کے لغوی معنی دعا کے ہیں۔یہ معروف شرعی معنی میںفریضہء نماز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اسے صلاۃ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اصلاً دعا ہی ہے۔
اصطلاح میں نماز اللہ تعالی کے لیے ادا کیا جانے…
اُس اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، سال تھا1992۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ ملک سے سودی نظام کو فوری ختم کیا جائے۔ حکومت نے عملدرآمد کی بجائے سودی نظام کو تحفظ دینے کے لیے سرکاری بنک کے ذریعے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور پھر یہ کیس عدالتوں میں 30 سال تک لٹکتا رہا اور آخر کار اپریل2022 میں ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور اسے خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے حکومت کو پانچ سال میں سودی نظام کے خاتمے کا حکم دے دیا۔آج وزیراعظم میاں شہباز شریف ہیں اور اس بار حکومت پاکستان کے سنٹرل بنک یعنی سٹیٹ بنک آف پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سودی نظام کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیاہے ۔ خبروں کے مطابق چار نجی بنکوں نے بھی سود کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیاہے۔ یعنی پہلی بار جب سودی نظام کے خاتمے کا امکان پیدا ہوا تو اُس وقت نواز شریف حکومت رکاوٹ بنی اور آج 30 سال کی تگ و دو اور Delays کے بعد دوبارہ امید پیدا ہوئی کہ…
گھڑی کی سوئیوں نے چند گھنٹے کی مسافت طے کی تھی!
بارہ گھنٹے پہلے ہم جیل چورنگی اور شہید ملت روڈ کے سنگم پر واقع چیز ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے چیک آؤٹ کے بعد باہر بینچوں پر بیٹھے کسی بھی دردناک حادثے کے خیال سے بے نیاز گاڑی کا انتظار کررہے تھے، ماحول کی چہل پہل عروج پر تھی۔
٭ فرنچ فرائز کی مشین سے خوشبو دار بھاپ اڑاتے فرنچ فرائز نکل کر ڈسپوزیبل باکس میں منتقل ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ رہے تھے۔
٭ گول گپے کے اسٹال پر خواتین اور بچوں کا اشتیاق دید نی تھا۔
٭ زم زم ڈرنکس کے ٹھنڈے ٹھار دھواں اڑاتے مشروبات کا کرشمہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھا۔
٭ سامان دنیا سے لدی پھندی ٹرالیاں دھکیلتے لوگ اسٹور کے سرد ماحول سے خوش گوار موڈ میں باہر نکل رہے تھے۔
مناظر پردہ ذہن پرمزید پیچھے کی جانب سفر کرنے لگے۔جب میں اندر موجود تھی۔ عطریات کے کاؤنٹر پر موجود یمنی عقیق کی بیش قیمت تسبیح کے بڑے خوبصورت دانوں میں سامنے کا پورا عکس نظر آرہا تھا۔جسے دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ تھا ۔
مہنگے پرفیوم، عربی عطر، شیشے کے نازک برتنوں کے قطار اندر قطار لگے طویل ریکس کے اختتام پر جلی حروف میں بورڈ آویزاں تھے۔
’’…
زندگی میں ہر انسان کو اکثر ایسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے جو اس کے لیے غیر متوقع ہوتے ہیں۔ جس کی امید نہیں ہوتی، انسان کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں ہوتے، اور کسی بھی عمل کا غیر متوقع اچھا یا برا انجام حیران کن ہو جاتا ہے۔ کسی بھی فیصلہ کن امر میں غیر متوقع معاملہ کا سامنا انسان کو تعجب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انسان کی محنت کے مقابلے میں کامیابی کا تناسب کم یا زیادہ ہو جاتا ہے، سفر کے منصوبہ میں خلل پڑجاتا ہے۔ طے شدہ ملاقاتیں یا پروگرام کسی بھی وجہ سے ملتوی ہو جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
انسانی زندگی میں ایک اور لفظ’’اچانک‘‘ کا بھی بہت عمل دخل ہے۔
یعنی یکایک، ناگہانی، اتفاقی یا بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کچھ رونما ہو جانا۔ عربی میں ’’مفاجات‘‘ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘
دراصل یہ انسانی زندگی میں وہ لازمی مرحلہ ہے جو انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتا رہتا ہے۔ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے منصوبوں میں کسی ایسی مقتدر ہستی کا عمل دخل ہے جو عین آخری لمحے میں ساری کارگزاری اور منصوبے کے انجام کو بدل سکتی ہے۔
اگر ہر انسان اپنی زندگی کے…
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاںمیںدھوم ہماری زباں کی ہے
انسانوں کی طرح زبانوں کا تعلق بھی کسی گھرانہ ،خاندان ، قبیلے اور نسل سے ہوتا ہے منگول ساحی آریہ نسل کی زبانیں اپنی وسعت اور پھیلائو کے اعتبار سے بڑی زبانیں ہیں، منگول سے ترکی کی ساحی سے عربی ، اور آریہ نسل سے یورپ کی بیشتر زبانوںمثلاً یونانی، لاطینی، پر تگالی ، ولندیزی،فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ ایشیا کی زبانوںمیں سنسکرت اور فارسی وہ اہم زبانیں ہیں جن سے اردو زبان کے قومی رشتے ہیں ۔ زبان کو ئی بھی ہو پہلے ایک بولی ہوتی ہے جو کسی علاقے کے عوام بولتے ہیں ، اگر اس بولی کا ہاتھ کوئی مذہب تھام لے یا اسے حکومت نصیب ہو جائے تو وہ ترقی کر کے زبان بن جاتی ہے اردو کس ادب کی ترقی یافتہ شکل ہے یہ دریافت کرنا زبان پر تحقیق کرنے والوں کا کام ہے اور اس بحث میں الجھنا فی الحال ہمارے مفید مطلب نہیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ترقی کر کے جن بولیوں نے زبان کی شکل اختیار کرلی ہے ان میں اردو اتنی اہم زبان ہے کہ دنیا کی تیسری بڑی زبان شمار ہوتی ہے اور امکانات کا یہ…
زندگی میں بہت سے مواقع ایسےآجاتے ہیں کہ جب آپ اس کشمکش میں ہوتےہیں کہ غم منائیں یا خوشی۔شادی مرگ کا نام تو آپ نے سناہی ہوگا۔مسرت ایسی کہ غم کا گمان ہوجائے۔کیونکہ خوشی میں بھی توآنسو نکل آتے ہیں نا۔بس اسی کشمکش میں مبتلا کل کا دن بھی بیت گیا جس کا کئی دن سےہم سمیت سب حریم ادب ساتھیوں کا شدت سے انتظار تھا۔ایسے پروگرامات واقعی ذہنی آبیاری کا بہترین سلسلہ ہوتے ہیں اسی لیے ہم جیسے نوآموز لکھاریوں کو ایسے پروگرامات کا شدت سے انتظار رہتاہے۔
پروگرام بھی اپنی نوعیت کا منفرد مربوط اور ادبی پروگرام تھا۔اچھا ہو&ٔا جو شرکت کرلی ورنہ کافی دن تک پچھتاوا رہتا کہ کوشش کرکے چلی ہی جاتی۔
گاڑی ڈھائی بجے لینے آگئی تمام ساتھی بہنوں کو لے کر پہنچتے پہنچتے وہاں 4 بج گئے۔
ہمارے پہنچتے ہی پروگرام بعنوان ’’تحریر کو معیاری کیسے بنائیں‘‘ کا باقاعد آغاز ہوگیا۔پروگرام کی میزبانی ہماری دو بہترین سہیلیاں اور فن و خطابت میں اپنے میدان کی ماہر شہ سوار سمیرہ غزل اور فائزہ مشتاق (جسارت سنڈے میگزین کی نائب مدیرہ) نے انجام دیے۔
حریمِ ادب کے تحت ہونے والے مذاکرے ’’تحریر کو معیاری کیسے بنایا جائے‘‘ میں ہمیں باقاعدہ شرکت کی دعوت ہمیں ہماری بہت پیاری خالہ جان نگراں…
کائنات کا وہ حسین ترین منظر ثبت ہے تاریخ کے سینے میں ۔ یہ ایک مثالی باپ بیٹا ہیں ۔عزیمت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں انہوں نے جنہیں قیامت تک خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔
اس وقت یہ دونوں معمارِ حرم تعمیر میں مصروف ہیں ۔ اللہ کا گھر تعمیر کر رہے ہیں ، دنیا کے گھروں میں عظیم گھر ، جس کی اینٹیں رکھی جا رہی ہیں۔ بیٹا ردّے اٹھا اٹھا کر دیتا ہے اور باپ ردّے پر ردّا رکھتے ہوئے صرف گا را نہیں لگاتا بلکہ وہ دعائیں کرتا ہے جن کو قرآن نے رہتی دنیا تک ثبت کر دیا ۔
کتنی پیاری تھی وہ دعا … اللہ کو کتنی پسند آئی … قرآن میں محفوظ ہے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم
ترجمہ: اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما لے ۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ چشم تصور کو وا کریں ۔ یہ دو عظیم ہستیاں جو پیغمبر کے منصب پر فائز ہیں اس سے قبل آزمائشوں کی کن کن بھٹیوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں ۔ کوئی فخر کا جذبہ نہیں ہے ۔ خود پراعتماد نہیں کہ اللہ نیتوں کو جانتا ہے ، سب قربانیاں اسی کے لیے ہیں…
ایک مرتبہ ایسا ہؤا کہ ایک والدہ نے کال کی کہ ان کی بچی کو او لیول کی ٹیوشن چاہیے ۔
ان دنوں میری بیٹی MS Chemistry کے بعد شہر کے ایک well known ادارے میں او لیول اور اے لیول کی بچیوں کو کیمسٹری پڑھارہی تھی.. یہ کسی کے توسط سے ایک ڈاکٹر والدین کی بیٹی کے لیے والدہ نے کال کی کہ ان کی بیٹی، میری بیٹی کی طالبہ تو نہیں یعنی کسی اور ادارے میں پڑھتی ہے لیکن وہ چاہتی تھیں کہ میری بیٹی ان کی بچی کو ٹیوشن پڑھائے ۔
اس خاتون نے اتنی محبت اور عاجزی سے بات کی کہ میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ آپ بچی کو بھیج دیا کریں ۔
بیٹی کو بتایا کہ میں نے وعدہ کر لیا ہے تو آپ اب اپنا ٹائم ٹیبل سیٹ کر لیں.. ایک ہی مہینے کی تو بات ہے۔
یہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے\۔بڑی والی بیٹی چھٹیوں میں پاکستان آئی ہوئی تھی\۔اس کی بیٹی کے لیے بہت سارے کھلونوں کے ساتھ ساتھ بار بی والے کارٹون ڈائون لوڈ کر کے فلیش میں ڈال کے رکھے ہوتے تھے۔
اگلے دن سے وہ بچی مقررہ وقت پہ آگئی۔
بچی 13یا 14 سال کی تھی….. بہت پیاری کم گو اور…
شہری آبادی سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر موجود وسیع زمین کو پانچ،سات،دس مرلے اور ایک کنال تک کے پلاٹس میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔رفتہ رفتہ وہاں آبادی بڑھنے لگی۔زیادہ تر وہی لوگ اس جگہ کو آباد کر رہے تھے جن کو جوانی تیاگ کر اپنے پرکھوں سے بٹوارے کے بعد حصہ ملا تھا۔یا پھر ایسے سرکاری ملازمین جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنی جمع پونجی سے کسی ایسے ہی نسبتاً سستے علاقے میں جگہ خرید کر گھر بنا سکتے تھے۔لیکن سارے میں یہ علاقہ نیا محلہ کے نام سے مشہور تھا۔رکشے والے ہوں یا ٹیکسی والے سب نئے محلے کے نام سے ہی اس علاقے کو جانتے تھے۔کیونکہ ابھی بھی جگہ جگہ تعمیراتی کام جاری تھا۔
انہی گھروں میں ایک گھر تابندہ بیگم کا تھا۔گھر کیا تھا مانو ایک سرنگ سی ہو۔پلاٹ چوڑائی میں کم اور لمبائی میں زیادہ ہونے کی وجہ سے لمبا سا گھر سرنگ ہی لگتا۔آبائی مکان کے بٹوارے سے جو پیسہ ملا اس سے یہی پلاٹ خرید سکے تھے۔بیٹوں نے کمیٹیاں ڈال ڈال کر جیسے تیسے ڈھانچہ کھڑا اور پھر مکمل کیا تھا۔اس پہ بھی تابندہ بیگم کا نخرہ کمال تھا۔ارے بھئی دو قابل بیٹوں اور ایک پیاری سی بیٹی کی اماں تھیں۔اترائے نہ تھکتیں۔ایسے…
رائے علاول خان علاقے کے چالیس دیہات میں سب سے بڑے زمیندار تھے ۔ احمد خاں کھرل کی نسل سے بدیشی حکمرانوں نے ایک ایسے فرد کو دوست بنایا جو اپنی روایتی حریت پسندی سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہو گیا تھا اور اس آمادگی کے صلہ میںانہیں کوئی پندرہ مربعے تقریباًتین سو پچھتر ایکڑ زرخیز اور ہموار زمین کی مختصر سی جاگیر عطا کی گئی اور پھر انہیں ایم ایل اے بھی بنا لیا گیا ۔
اپنے علاقے میں وہ لوگوں کے آقا شمار ہوتے تھے ۔ یوں تو وہاں پولیس اسٹیشن بنایا گیا تھا ، لیکن جس شخص کی سفارش علاول خاں کردیتے اس کے خلاف جرم کے تمام شواہد حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جاتے تھے ۔ علاول خان اپنے اس علاقے میں کبھی اپنے دوستوں بلکہ وفاداروں کی عزت افزائی کے لیے ان کے گائوں بھی چلے جاتے ۔
ایک دفعہ دھیرو کے گائوں میں ان کا جانا ہؤا یہاں ان کی میز بانی کا شرف ان کے دور کے ایک رشتہ دار فتح خان نے حاصل کیا ۔دوپہر کے کھانے کے لیے وہ علاول خان کو اپنے گھر لے گیا ۔
ایسے مہمان کی خدمت کے لیے سارے گھر والے مستعد ہوتے صاحب حیثیت لوگوں کے ہاں…
’’گرمیوں میں راتیں چھوٹی جن میں کئی بار مچھر کاٹنے، گرمی اور پیاس کی وجہ سے آنکھ کھلتی ہے۔ان راتوں میں نیند کا پورا ہونا محال ہوتا ہے اور دن میں کسی وقت نیند پوری کیے بغیر گزارا نہیں۔ ایسے ہی سردیوں میں دن چھوٹے،ناشتہ کرتے کراتے ہی دن کے بارہ بج جاتے ہیں۔ پھر دوپہر کا کھانا اور دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد رات کے کھانے کی تیاری گویا پورا دن باورچی خانے میں ہی گزار دو۔ ایسے میں گھر کے دوسرے کاموں کی جانب کس وقت توجہ دیا کریں؟‘‘
امینہ نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پاس بیٹھی اپنی سہیلی فریحہ سے اپنے دل کا دکھڑا بیان کیا۔ امینہ کو وقت کی کمی کی شدید شکایت تھی اس کا خیال تھا کہ کام دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور دن سمٹتے جا رہے ہیں۔ وقت میں برکت نہیں رہی۔ امینہ کے وقت کی کمی کے متعلق گلے شکوے سننے کے دوران فریحہ اپنی چائے ختم کر چکی تھی۔ اس نے اپنا کپ میز پر پڑی ٹرے میں رکھا اور امینہ کی طرف متوجہ ہو کر بولی۔ ’’کیوں بھئی آپ کے لہجے میں بہت زیادہ تھکاوٹ نظر آ رہی ہے کیا کام والی ماسیاں نہیں آرہیں؟‘‘
ملازم ماسیاں…
عالمی میڈیا پر مسلمان خواتین کے لباس پر بحث ایک عرصے سے جاری ہے ۔ فرانس میں ایسے قانون بنے جو مسلمان اقلیت کے حق انتخاب پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ترکی میں بھی عوامی سطح پر یہ معاملہ اس وقت زیر بحث آیا جب رجب طیب اردگان کی اہلیہ نے سرکاری تقریب میں سر ڈھانپنا شروع کیا ۔ ترکی میں کسی فرسٹ لیڈی نے پہلے یہ ’’ جسارت‘‘ نہیں کی تھی ۔ ہندوستان میں کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناروا سلوک پر پاکستان آواز اٹھاتا رہا مگر انٹرنیشنل میڈیا نے چپ سادھے رکھی ۔ نوجوان لڑکی مسکان کے نعرہ تکبیر نے سوشل میڈیا پردھوم مچائی تو لباس کے مسئلے پر ہندو انتہا پسند رویہ ، دنیا میں بے نقاب ہؤا۔ مسکان کی جرأت اور بہادری کو شہرت نصیب ہوئی تو مسلمانوں کے بین الاقوامی نمائندہ ادارے بھی متحرک ہو گئے۔
پاکستان میں بھی خواتین کا لباس کئی حوالوں سے زیر بحث رہا ہے۔ ایک طرف مغرب سے منسلک لبرل خیالات ،دوسری طرف کٹر سوچ جو لباس کے علاوہ سماج میں خواتین کے کردار کو محدود رکھنا چاہتی ہے ۔ ضیاء الحق کا دور قصہ پارینہ ہؤا جب ٹیلی ویڑن پر اینکر خواتین کے دوپٹے…
ثریا بتول علوی۔لاہور
ماہنامہ’’ چمن بتول ‘‘ کے گزشتہ شمارے فروری2022ء میں ایک بہن شہناز رئوف کا ایک مضمون ’’ میرا مرکزِ محبت ، میرا ویلنٹائن نظر سے گزرا اس میں انہوں نے اپنے نیک صالح اور متقی شوہر کے کو میرا ’’ویلنٹائن ‘‘ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
بلا شبہ مسلمان خواتین کو اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ اور رسول پاک ؐ کے بعد اپنے شوہر سے ایسی ہی محبت اور وفا داری ہونی چاہیے جس کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون میں کیا ہے کہ اسے ہی اپنا مرکزِ محبت بنایا جائے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تاریخ میں متعدد مسلمان خواتین نے اپنے شوہروں سے محبت و وفا داری کی عظیم مثالیں چھوڑی ہیں البتہ شوہر کے لیے لفظ’’ میرا ویلنٹائن ‘‘ کہنے پر میرے کچھ تحفظات ہیں۔
’’ ویلنٹائن ڈے ‘‘ ایک مغربی حیاباختہ تہوار ہے ، جس سے حیا سوز یادیں وابستہ ہیں خود مغرب کے سنجیدہ لوگ بھی ایسے تہوار منانا پسند نہیں کرتے جیسے خود یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوئوں نے مسترد کر دیا ہے ۔مگر بد قسمتی سے اس کو پاکستان میں رائج کرنے کی مہم زوروں پر ہے ۔ ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے ،این جی اوز کے ذریعے اور انگلش میڈیم اداروں…
شاعری میں اقبال کی وحدت نگاری
سماجی شیرازہ بندی کا ایک دشوار ترین لیکن بے حد سہانا عمل
کسی انسانی معاشرہ کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردینے کی تجویز کو آپ شیرازہ بندی کا نام دے سکتے ہیں ۔ اور جب یہ افراد جمع ہونے لگیں اور ان میں یگانگت پیدا ہونے کے لیے امکانات نظر آنے لگیں تو ان امکانات کو آگے بڑھانے کے لیے شاعری میں بیان کرنے کو آپ وحدت نگاری کا نام دے سکتے ہیں ۔ جی ہاں وحدت نگاری کی اصطلاح خاص میری وضع کردہ ہے اور یہ بات میں ابتدا ہی میں واضح کردوں کہ اس اصطلاح کا تعلق توحید سے براہِ راست بالکل نہیں ہے ۔ یوں اقبال کا کلام ہو اور آپ تو حید کی کوئی بات کردیں تو یہ کوئی عجیب بات بھی نہیں کہی جا سکتی…لیکن وحدت نگاری کا تعلق اگر قطعی طور پر عمرانیات سے قرار دیا جائے تو میں سمجھوں گا آپ نے میری بات سمجھ لی ہے ۔ لہٰذا وحدت نگاری کی اصطلاح میں نے یہاں اس لیے وضع کی ہے کہ ایک تو میں یہ ثابت کروں کہ کلام اقبال کا اصل تعلق ایک انسانی معاشرہ کے عام افراد سے ہے اور اس میں کسی…
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سر فرازی میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی آج میں اپنی امی جان کی ڈائری لیے ہوئی بیٹھی ہوں ۔ یہ وہ شعر ہے جو میری پیاری امی جان کی ڈائری کے پہلے صفحے پر خود ان کے ہاتھوں سے تحریر ہے ۔ میری پیاری امی جان جمیلہ خاتون جماعت اسلامی کی رُکن تھیں انہیں آج ہم سے بچھڑے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ پچھلے رمضان المبارک کی اٹھارہویں شب عشا کے ٹائم جبکہ گھر میں نماز تراویح ادا کی جا رہی تھی وہ اس دار فانی سے رخصت ہوئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس شعر کو صرف اپنی ڈائری کی زینت بنا کر چھوڑ ہی نہیں دیا بلکہ اپنی پوری زندگی اس شعر کو معنی پہنانے میں لگا دی اور بات بھی یہ ہے کہ اجتماعیت سے وابستگی نے ہی یہ تڑپ بھی پیدا کی جس کا اظہار اس شعرکی صورت میں ہوتا ہے ۔ ہماری امی جان محترمہ جمیلہ خاتون نے اپنی تحریکی زندگی کا آغاز ضلع لیہ سے کیا جہاں ان کی پچھلی رہائش تھی ۔ تحریک سے تعارف کا ذریعہ آپا فیروزہ قریشی بنیں جو لیہ میں اسلامیہ ہائی…
بہت دنوں بلکہ ہفتوں سے لان کی صفائی نہیں ہوئی تھی ۔میاں کو کسی کورس کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا اور بوڑھے مالی بابا کی بوڑھی بیوی فوت ہو گئی تھی ۔اس علاقے میں نیلم کو آئے ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ واقفیت نکال لیتی بلکہ کچھ عرصہ تو یہی سوچتی رہی کہ خود ہی ہمت کر کے صفائی کر لے گی مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہر چیز خشک مٹی سے اٹی پڑی تھی۔ لان کی صفائی تو کر بھی لیتی مگر وہ جو شیشم ،امرود اور آم کے درختوں کے پتے مٹو مٹ ہو رہے تھے ،دیواریں گندی اور انگور کی بیل لیموں کے پودے روکھے ہورہے تھے ان کا کیا کرتی !یہ تو اوپر والا ہی رحمت کی بارش برسائے تو بات بنے۔
اس کے علاوہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک کھانسی اور کرونا نام کی بلا چمٹی تھی وہ جان کیسے چھوڑے۔بچوں کو ایک ماہ میں دو مرتبہ کھانسی کا دورہ پڑ چکا تھا۔ اینٹی بائیوٹک دے دے کر بھی تھک چکی تھی ۔بوڑھی عورتیں کہا کرتی تھیں ،پتر دعا کرو رب سوہنا مینہہ برسائے تو بلائیں دور ہوں،لگتا ہے رب بندوں سے ناراض ہو گیا ہے…
رات کے اندھیرے میں ایک صاحب جوتے ہاتھ میں لیے گلی میں سے خاموشی سے گزر رہے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب پاس سے گزرتے پہچان لیتے ہیں اور حیرانی سے پوچھتےہیں۔
’’اندھیراہے پاؤں میں کنکر لگ سکتا ہے۔ کیڑےمکوڑے کاٹ سکتے ہیں۔ یہ بے احتیاطی کیسی ؟‘‘
اشارے سے چپ کرواتے سرگوشی میں کہتے ہیں، یہی تو احتیاط ہے۔ صاحبِ سوال کے تجسس پر وضاحت کرتے ہیں ۔
’’رات کا وقت ہے لوگ سو رہے ہیں میرے جوتے کی آواز ان کی نیند خراب کرسکتی ہے‘‘۔
صاحبِ سوال کو تجسّس ہے رات کے اس پہر کہاں جا رہے ہیں۔خاموشی سے پیچھا کرتے ہیں۔ایک بڑھیا کی کٹیا میں انھیں کھانا کھلاتے خدمت کرتے پاتے ہیں۔
یہ صاحب کوئی عام شخص نہیں ،خلیفۃ المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔یہ ان کا تقویٰ ہے جو انھیں ذاتی خطرے سے بے نیاز کر کے لوگوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالنے دیتا اور دنیا سے چھپ کر ایک بڑھیا کی خدمت پر ابھارتا ہے۔
تقویٰ کی تعریف عموماً ڈر اور خوف ،پرہیز کرنا،نگرانی کرنا،بچاؤ کرنا ،حفاظت کرنا سے کی جاتی ہے۔لیکن تقویٰ کے لفظ کی گہرائی پر ان میں سے کوئی لفظ پورا نہیں اترتا۔
تقویٰ دراصل بہت ہی پیارا جذبہ ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
ایک انسان کسی شیر…
غصہ ، پریشانی ، چڑچڑاہٹ یہ سب ہماری معمول کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ تنازعات ، اختلافات، کام کا دبائو بعض اوقات ہم سب کے لیے پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ خوشی قسمتی سے انسان چاہے تو ان پر بہت حد تک قابو پا سکتا ہے۔ اصل کام یہ ہے کہ آپ ان حالات سے کس انداز میں نمٹتے ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ایسا رویہ اختیار کریں کہ حالات بہتری کی جانب بڑھیں ۔ یقینا اُس کے لیے ہمیں ضروری معلومات کے ساتھ عملی طور پر کچھ چیزوں کی مشق کرنا ہو گی۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ پریشان کن لمحات سے باہر آنے کے لیے ماہرین کیا مشورے دیتے ہیں۔
دس تک کی الٹی گنتی
کسی کے ناپسندیدہ عمل پر غصہ آنا فطری ہے۔ جب آپ کو لگے کہ غصے کی کیفیت بڑھ رہی ہے تو سب سے پہلے دس تک الٹی گنتی گنیں۔ اس سے آپ کے احساسات اور دماغ کو کچھ وقت مل جائے گا۔ جب آپ گنتی گن رہے ہوں تو آپ کو تصور کرنا ہو گا کہ ہر عدد کے دوران آپ کے غصے میں کمی آ رہی ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ ایک پر پہنچیں تو آپ کے اعصاب…
عہدِ نبوی ؐ میں نظامِ تعلیم کے مطالعہ سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے نظامِ تعلیم پربھی نظر ڈالی جائے۔
زمانہ جاہلیت کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ اپنی کتاب کے ایک باب’’ زمانہ جاہلیت میں تعلیم ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیںکہ ’’مدرسوںکے معاملے میں کیسے یقین آئے گا کہ اس زمانے میںوہاں نہ صرف تعلیم گاہیں تھیں بلکہ ایسی تعلیم گاہیں تھیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوںتعلیم پاتے ہوں۔ بہرحال ابن قتیبہ نے بیان کیا ہے کہ مکہ کے قریب رہنے والے قبیلہ ہذیل کی ضرب المثل فاحشہ عورت ظلمہ جب بچی تھی تو مدرسہ جاتی تھی جہاں اس کا دلچسپ مشغلہ یہ تھا کہ دواتوںمیں قلم ڈال اور نکال کر کھیلا کرے ۔ اس دلچسپ واقع سے اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ قبیلہ قریش کے رشتہ دار قبیلہ ہذیل میں ایسے مدرسے تھے جوچاہے کتنے ہی ابتدائی نوعیت کے کیوں نہ ہوں ان میں لڑکے اور لڑکیاںدونوں تعلیم پانے کے لیے جاتی تھیں ‘‘۔(ڈاکٹرحمید اللہ ،’’ عہد نبوی میں نظام حکمرانی ‘‘ صفحہ نمبر 188)
عکاظ کا میلہ ہر سال اپنی ادبی سر گرمیوں کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے ۔ عربی زبان کو معیاری زبان بنانے کے لیے اس…
علم کسی شے کی حقیقت کا ادراک ہے۔علم انسانوں کی زندگی پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات مرتب کرتا ہے، کیونکہ وہ کائنات کے اسرار کھولنے اور ان تک رسائی کا وسیلہ ہے۔ علم زندگی کے لیے روشنی اور اسے بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص صفت عقل عطا کی اور علم انسان کی عقل کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔اور یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اہم ذریعہ ہے۔
علم کے اسلام میں بہت وسیع معنی اور مفہوم ہیں۔ہر وہ علم جو نافع ہو وہ اس کے مفہوم میں شامل ہے، اگرچہ وہ مخصوص معنی میں دینی علم نہ ہو۔رسول اللہ ﷺکے قول سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’جب انسان مر جائے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے؛ صدقہء جاریہ، یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جا رہا ہو، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو‘‘۔ (رواہ الالبانی، ٹحیح الجامع، ۷۹۳)
پس ہر وہ علم جو دین سے متعلق ہو یا دنیا سے، مگر ہو نفع بخش علم تو اس کے حاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
قرآن کریم میں ’’علم‘‘ کا لفظ اپنے مشتق حروف…
ہمارے بزرگ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت، رب کی رحمت اور برکت کا باعث ہیں ، ان کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے ۔
اس دنیا میں انسانی زندگی کے مختلف مراحل ہیں ۔ اپنی زندگی میںانسان بچپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر اور بزرگی کے مختلف ادوار سے گزرتا ہے(بشرط زندگی ) قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ اے انسان تو کشاں کشاںاپنے رب کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے ‘‘۔
بزرگ جب تک چلتے پھرتے ہیں ، اپنے ہاتھ سے اپنے کام کرنا پسند کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے کام بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عمر کے ساتھ البتہ جو جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں ، جن کا زمانہ زندگی کے تیسرے عشرے سے شروع ہو جاتا ہے، اس سے کچھ بیماریوں کا تناسب بڑھ سکتا ہے ۔
Geriatric Careیابزرگوں کی نگہداشت کے ماہرین کے مطابق بڑھاپا دو قسم کا ہے ۔
(۱) Physiolgicalیا قدرتی تبدیلیاں جو عمر کے ساتھ آتی ہیں ۔
(۲)Pathalogical جو کسی بیماری کی وجہ سے بڑھاپے کے اثرات کو بڑھا دیتی ہیں۔
عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں تو نا گزیر ہیں ۔ بچپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر ، پھر بڑھاپا جس میں بچپن کی کچھ عادتیں واپس آجاتی ہیں مگر ان…
زندگی کی راہ گزر بہت سے تجربات سے مزين ہوتی ہے ۔ کہیں پھولوں کی سیج ، تو کہیں خاردار راستہ لیکن یاداشت میں یادیں انہی کانٹوں بھرے راستوں کی پیوست رہ جاتی ہیں ۔ ان سے کُشید اسباق نہ کسی کتاب میں ملتے ہیں ، نہ کسى دوسرے امتحان سے ۔ زندگی کے امتحان کسی نعمت سے کم نہیں ، یہ مسائل ہی سوچ کو نئے زاویے سے ہمکنار کرنے ، کچھ نیا اور بہتر کرنے کی جستجو پیدا کرتے ہیں ۔ دنیا کا وجود چيلنجز کو تسخیر کر کے ہى ممکن ہؤا ۔ اگر چیلنجز کو زندگى سے منہا کر ديں تو دنیا کا نظام تباہ ہوجائے ، یہ رنگینياں بے رنگ ہو جائيں ۔ غرضيکہ مسائل کے ساتھ ہی کامیابی جڑی ہے ۔ بغير مسئلوں کے کوئی بھی ترقی نہیں کرسکتا ۔
قدرت کی جانب سے تربیت کا انتظام بھى چیلنج کے ذریعے ہى رکھا گیا ہے ۔ ذى شعور ہی نہیں بلکہ ہر چرند پرند بھی رکاوٹوں سے لڑ کر زندگی بھرپور بنانے کا فن جانتے ہیں ۔ تتلى کے لیے بھی پہلا چیلنج لاروا ہوتا ہے ، اس رکاوٹ سے نبرد آزما ہونے کے لیے زور سہنا اور باہر نکلنا ہی اُس کو خوبصورتی سے روشناس…
قارئین کرام ! جس وقت یہ پرچہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا آپ رمضان المبارک کی نعمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہورہے ہوں گے ۔ ہم سب کو اس ماہ مبارک کی آمد مبارک ہو اور ساتھ ہی عید سعید کی خوشیاں ہمارے نصیب میں ہوں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رمضان کا مہینہ ہمارے ملک پاکستان اور عالم اسلام کے لیے رحمتوں اور خوشیوں کی بہار لے کر آئے ( آمین )
رب کریم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنی زندگی میں ایک بار پھر اس نعمت سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا ۔ دل باغ باغ ہر سو رمضان کا جشن منایا جا رہا ہے … ہر کوئی دورہ قرآن سے فیض یاب ہو رہا ہے کیوں کہ یہ سنت رسولؐ ہے قیام اللیل کا اہتمام کیا جا رہا ہے …لیلۃ القدرمیں تمام رات جاگنے کا اہتمام ہے،اعتکاف کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کیونکہ یہ سنت رسولؐ ہے…
اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے بخیل شخص بھی کچھ نہ کچھ خیرات کرتا دکھائی دیتا ہے ہر کوئی انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ شب بیداریوں کا اہتمام ہے ، نمازوں میں خشوع و خضوع…
کہانی
رخسانہ شکیل کراچی
ہم سب بچپن میں اپنے بڑوں سے خوب کہانیاں سنا کر تے تھے۔نانی دادیوں کی تربیت کا ایک انوکھا اور مزےدار طریقہ کہانی سنانا ہوا کرتا تھا۔
نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔بہت سی ایسی باتیں جن کو سمجھانےمیں بڑوں کو مشکل پیش آتی کہانی کے ذریعے آسانی سے بچوں کو سمجھا دی جاتی تھیں ۔
جیسے جیسے زمانہ ترقی کی جانب رواں دواں ہوااور بہت سی نئ چیزیں ہماری زندگی میں داخل ہوئیںتو بہت سی پرانی روایات کو ہماری زندگی سے بے دخل کرتا گیا۔ ان میں سے ایک کہانی بھی ہے ۔اب نہ تو نانی دادی کی وہ قربت بچوں کو میسر ہےاور جہاں خاندان قریب بھی ہیں وہاں بڑے اور بچے دونوں ہی وقت کی کمی کا شکار ہیں۔
جب میں قرآن پڑھتی ہوں اور اس میں نبیوں کی زندگی کے بارے میں جس آسان اور پراثر انداز میں اللہ اپنے نبیوں کے حالا ت و واقعات بیان کرتا ہےاس پر بھی یہی گمان ہوتا ہے کہ میرا پیارا رب میری آسانی کے لیے مجھے کہانی کی طرح بتا رہا ہےتاکہ مشکل بات میرے بندے کو آسانی سے سمجھ آجائے۔
تو میرا ذاتی خیال ہے شاید آپ بھی متفق ہوں کہ ہمیں بچوں…
رشیدہ نے باورچی خانے کے ساتھ بنی پڑچھتی پر تام چینی کے برتن ٹکائے ۔ صحن میں جلدی جلدی جھاڑو دی باقی دیگچیاں دھونے کا ارادہ چھوڑ دیا ۔ کمر سیدھی کر کے دل ہی دل میںکہا باقی برتن اماںہاجرہ پھوپھی کے گھر سے آکر خود ھو لے گی ۔رشیدہ نے باہر نکلنے سے پہلے صحن اور باورچی خانے کی طرف ایک تنقیدی نظر ڈالی۔’’ کام سارا نبیڑ تو لیا ہے‘‘۔
اماںنے کہا تھا خبر دار کام ختم کیے بغیر گھر سے باہر قدم نکالا۔
نوسالہ رشیدہ کا دل تو مامی صغراںکے ہاں ہی اٹکا رہتا تھا ۔ نیا نیا ٹیلی ویژن آیا تھا ۔ ماما پچھلے ماہ پورے ایک ماہ رہ کر واپس سعودیہ گیا تھا ، چلتی پھرتی تصویریں دیکھتے رشیدہ گم ہو جاتی ۔ جیسے اس کی روح اسکرین میںاتر گئی ہو اور جسم سامنے سن بیٹھااُسے تکے جا رہا ہے۔
اسکرین پر وہ گانا سنا جو مسافروں کو ادھر سے اُدھر لے جاتے ہوئے اس نے پہلی دفعہ ملنگا ٹانگے والے کو گاتے سنا تھا ۔ اسکرین پر سنا تو رشیدہ کی زبان پر چڑھ گیا ۔ مسعود رانا نے جیسے یہ گانا سارے ٹانگے والوںکے لیے ہی گایا تھا ۔ ٹانگہ چلاتے ہوئے ٹانگے والے گاتے تو دیہات…
میں گھر کے کام کاج میں مصروف تھی جب ہماری پیاری سی پڑوسن کا نام ہمارے موبائل پر چمکا۔ ہم نے سرعت سے اسے کھولا تو ایک خوبصورت پیغام تھا:
عمرہ کرنا ہے آپ نے؟ میں نے آپ کی اگلے ہفتے کی بکنگ کروا دی ہے۔ نیچے بکنگ کی تفصیلات تھیںجس کے مطابق ۳۱ مارچ ۲۰۲۱ سے سفر کا آغاز کرنا تھا، اور یکم اپریل کو عمرہ ادائیگی تھی۔ لبیک اللھم لبیک!
میاں صاحب گھر آئے تو ان سے ذکر کیا۔ انہیں بھی علم نہیں تھا، مگر انہوں نے بھی کامل اطمینان کا اظہار کیا۔ اور ہم نے ہولے ہولے تیاری شروع کر دی۔ ہمیں بدھ کو علی الصبح روانہ ہونا تھا۔ پہلی رات مدینہ منورہ گزار کر اگلی صبح مکہ روانگی تھی۔ ہم دونوں، شاہد صاحب اور توصیف صاحب کی فیملیز ہمارے ساتھ تھیں۔ ہماری منی ہمیں تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر کئی مرتبہ سوال کر چکی تھی:
’’اس مرتبہ پھر چھوڑ جائیں گی مجھے‘‘۔
اور ہم بے بسی سے اثبات میں سر ہلا دیتے۔ اس کی عمر ابھی اٹھارہ برس نہ ہوئی تھی، اس لیے اسے ابھی عمرہ کی سہولت بھی حاصل نہ ہوئی تھی، ہم نے قمری کیلنڈر کے جمع تفریق سے بھی اس کی عمر کا تخمینہ لگایا مگر اٹھارہ…
چاند کا چمکنا دمکنا اپنی جگہ، شاعروں کا اپنے محبوب کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دینا اور اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے درمیان قلابے ملانا بھی اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے کوئی بندہ بشر انکار نہیں کر سکتا کہ آسمان کا اصل حسن تو تارے ہیں۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی رشتے کی آنکھ کا حسن یا تارا بننا کوئی آسان کام نہیں۔ خاص کر بہو کے لیے ساس کی آنکھ کا تارا بننا جو کہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو اس مشکل اور جان جوکھوں میں ڈالنے والے کام یعنی ساس کی آنکھ تارا بننے کے چند آسان اور مفید گر بتاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں جب آپ اپنی ساس کی آنکھ کا تارا ہوں گی تو پورے گھر کا حسن بھی آپ ہی ہوں گی۔
1 ۔صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی دوڑ کر ساس کے کمرے کی طرف جانا ہے نہ صرف زبان سے سلام کرنا ہے بلکہ آگے بڑھ کر ان سے زور دار جپھی (گلے ملنا) بھی ڈالنی ہے لیکن اتنی زور سے نہیں کہ اس…
دن ڈھلے جب رانو باہر سے بکریاں لے کر آئی ، اس وقت وہ جانے کے لیے چار پائی سے اٹھ رہے تھے ۔ دونوں نے یکے بعد دیگرے اس کے سر پر یوں ہاتھ رکھا جیسے پوسٹ ہونے والے لفافوں پر ڈاک مہر رکھ کر اٹھا لی جاتی ہے اور پھر کھٹاراسی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر چلے گئے۔
بانس کے ستونوں پر کپڑے کی چھتوں والی جھگیوں کی اس بستی میں دائیں طرف سے چار چھوڑ کر اگلی دو جھگیاں رانو کی ہیں جن کے سامنے چند قدموں کی جگہ کو اطراف میں لگی اینٹوں نے کچے صحن کی شکل دے رکھی ہے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے ایک چار پائی پر رانو کے اماں ابا اور دوسری پر ایک پکی عمر کا شخص اور عورت جو شاید اس کی بیوی تھی ، بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
’’ اماں یہ کون لوگ تھے ؟‘‘ رانو نے اماں سے پوچھا تھا ۔ ساجے نے ایک نظر شاداں کو دیکھا اور چپ چاپ جھگی کے اندر چلا گیا ۔
’’ مہمان تھے رانو اور تو اتنی دیر لگا آئی ، رنگ کب کرے گی ؟‘‘
’’ اماں بس ابھی کر دیتی ہو ں‘‘۔اس نے اپنی پوریں چڑیوں پر پھیرتے ہوئے جواب…
عورت کم زور، کم ہمت، پست حوصلہ ہے،کیونکہ وہ صنف نازک ہے!
ہم سب یہی سنتے چلے آرہے ہیں، لیکن کیا یہ حقیقت ہے یا محض ایک مفروضہ؟
ایک بے بنیاد تصور کو ایک بروقت قدم ہی زمیں بوس کرسکتا ہے۔ جی! بالکل ایسا ہی ہے۔ جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو ایک چھوٹا سا جگنو ہی پچھاڑ ڈالتا ہے۔
جیسے شدید دھند کو سورج کی ایک کرن ہی پرے دھکیل ڈالتی ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں:
ایک جگنو ہی سہی ساتھ سفر میں رکھنا
تیرگی کو کبھی بے باک نہ ہونے دینا
اور یہ بھی کہ:
چند لمحوں میں سبھی عکس نکھر آئیں گے
دُھند کا راج ہے بس دھوپ نکل آنے تک
عورت جب ظلم کے مقابل پورے عزم کے ساتھ آن کھڑی ہو تو کیا پھر بھی اسے صنف نازک کہا جائے گا۔ ؟
عورت صنف ناک ہوتی ہے، جی! اسے آبگینے سے تشبیہ دی گئی ہے، بالکل درست ہے یہ، لیکن جب حق کی طرف سے باطل کے سامنے آجائے تو پھر چشم فلک دیکھتی ہے کہ یہی صنف نازک مجسم عزم و حوصلہ بن کر اس کو للکار تی ہے۔
کیا ہم اسلام کی پہلی شہید خاتون حضرت سمیّہؓ کو بُھول سکتے ہیں؟
کیا دربار یزید اور بازارِ شام میں خطیبۂ مظلوم جناب زینبؓ کے خطبات کی…
صالحہ کے میاں راشد صاحب نے ان کی خواہش پر اتوار کے دن سینڈزپٹ پر ہٹ بک کروایا۔آج کل صالحہ بیگم کے روز و شب میں قنوطیت یاسیت طاری تھی۔بلکہ بیٹی کرن کی شادی کے بعد یہی حالات تھے۔ایسے میں میاں راشد صاحب ان کا ڈپریشن ختم کرنے کے لیے یہی ترکیب کیا کرتے کہ ان کی پسندیدہ تفریح کا اہتمام کرتے۔سمندر کنارے بیٹھ کر ڈوبتے منظر کا نظارہ کرنا انھیں بہت پسند تھا۔عمر کے اس حصے میں تھے کہ ایک دوسرے کی پسند کا احترام تھا یا دونوں کی پسند ہی ایک ہو گئ تھی۔میاں راشد بھی بیگم کے ساتھ اس منظر سے لطف اندوز ہوتے۔
سورج آگ برسا برسا کر اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اس لیے ہوا کے جھونکے بڑے دلفریب لگ رہے تھے۔ سورج سرخ تانبا سا ہوگیا تھا۔لال گول سی ٹکیہ سی نکلنے والی شعاعیں پانی میں منعکس ہو کر پانی کی سطح پر مختلف شوخ رنگ بکھیر رہی تھیں ۔سورج پانی سے ملنے کو بے تاب نظر آرہا تھا ۔یہ وقت صالحہ کو ہمیشہ وصل کا وقت لگتا ۔سورج ڈھل کر پانی میں گم ہوگیا دو وقت بھی آپس میں گلے مل گئے صالحہ کے دل پر چھائی اداسی قنوطیت جیسے مٹ گئ۔
دور کہیں سے اللہ…
بشریٰ تسنیم۔ ملتان وسط فروری میں بتول کا دیدار نصیب ہؤا۔ اداریہ حسب معمول اہم خبروں اور حالات پہ معتدل تجزیہ تھا۔الطاف فاطمہ کا افسانہ’’پھول اور پتھر ‘‘ واقعی بہترین انتخاب تھا ۔ قانتہ رابعہ کے افسانے کے اختتام پہ سوچ ’’احساس محاسبہ‘‘نکتے پہ جامد ہوگئی ۔ رسالہ ابھی زیر مطالعہ ہے ۔ ان سب قارئین کا بہت شکریہ جو محشر خیال میں یا فون، واٹس ایپ کے ذریعے ’’گوشہِ تسنیم‘‘کے کالم پہ پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ سب’’ محشر خیال‘‘ میں بھی رسالے پہ اپنے تاثرات ارسال کیاکریں تو اچھا لگے گا۔ اس مرتبہ بتول میں تصویروں والا تجربہ اچھا ہے اگر چہ تصویریں بہت واضح نہیں تھیں ۔ خواجہ مسعود صاحب کی غیر حاضری محسوس ہوئی ،امید ہے خیریت سے ہوں گے ۔ پروفیسر خواجہ مسعود ۔راولپنڈی ’’ چمن بتول ‘‘ ماہ فروری 2022 کا ٹائٹل وادیٔ کشمیر جنت نظیر کے ایک خوبصورت منظر سے مزین ہے وہاں لکڑی کے گھر پانی کے اندر کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ کشتیوں کے ذریعے گھر تک آتے ہیں۔ ’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ صائمہ اسما کا ایک فکر انگیز تبصرہ آپ نے صحیح کہا ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور گوادر میں مولانا ہدایت…
جمیلہ یوسف ،شگاگو
2006ء کے شروع میں فوزیہ آنٹی اور صائمہ اظفر نے مل کر مجھے فون کیا، اِکنا کے پروجیکٹ Why Islamکے بارے میں بتایا اور کہاکہ میں ان کی سیکریٹری بن جائوں۔ اس وقت فوزیہ باجی اس کی قومی سطح پر رابطہ کار (co-ordinator) تھیں۔ میں اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے ہچکچائی مگر پھر فوزیہ آنٹی اور صائمہ نے مجھے ہمت دلائی اور یقین دہانی کرائی کہ مدد اور مشورے کے لیے وہ دونوں ہمیشہ میرے ساتھ ہوں گی۔
میرے نومسلم ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو مجھ پر اعتماد تھا کہ میںWhy Islamکے ’انصار پروجیکٹ ‘کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔ ’انصار پروجیکٹ‘ نومسلم بہنوں سے تعلق بنانے اور ان کے گزشتہ مذہب سے اسلام تک کے سفر میں ان کا ساتھی بننے کا نام تھا۔ میں اس پروجیکٹ کی اہمیت کو اس لیے سمجھ سکتی تھی کیونکہ بارہ سال پہلے جب میں مسلمان ہوئی تھی، مجھے بھی اسی طرح کے مضبوط ساتھ نے سہارا دیا تھا۔ چنانچہ میں فوزیہ آنٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوگئی۔
اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے کچھ ہی دن بعد فوزیہ آنٹی نے فون پر مجھ سے باقاعدہ رابطہ رکھنا شروع کردیا، تاکہ ہم دونوں ایک دوسرے…
قانتہ رابعہ۔گوجرہ
ماہ مارچ کا بتول ملا۔ لوگ جرعہ جرعہ کر کے زہر غم پیتے ہیں، ہم نقطہ نقطہ اور سطر سطر کرکے بتول کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کھولتے ہی فہرست پر نظر ڈالی ،اداریہ دیکھا، نظریں بے تابی سے اس خبر کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اہل قلم اہل ِعلم و دانش کے لیے بے حد خوشی کا باعث ہونا تھی اور جس کے لیے طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے…..لیکن افسوس خبر نہیں تھی، نہ ہی سرورق پر یا اندر کے صفحات میں مدیرہ کے نام کی تختی میں ردو بدل کیا گیا تھا۔ ایک پرانی مگر معمولی سی مصنفہ بلکہ قاریہ ہونے کے ناطے مجھے احتجاج کا پورا حق ہے ۔لوگ اس سعادت کے لیے ترستے ہیں اللہ نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا شکر الحمد للّٰہ یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ بتول کی ادارت جیسے بھاری بھرکم اور مشقت طلب کام کے دوران آپ نے علم کی سکہ رائج الوقت سب سے بڑی سند حاصل کی۔ میں اپنی طرف سے اور سب قارئین کی طرف سے آپ کواور ماہنامہ چمن بتول کی ادارت کو مبارکباد پیش کرتی ہوں،بلا شبہ یہ میرے رب کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔لوگ تو ڈاکٹروں…
چھوٹے سے قصبے کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تو تقسیم ہند کے اثرات ستر سال گزر جانے کے بعد بھی واضح دیکھے جا سکتے تھے۔
نہیں سمجھے؟چلیے میرے ساتھ قصبے کی سیر کیجیے۔
مشرق سے مغرب کی طرف جاتی تارکول کی لمبی سڑک جو کہیں کہیں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،اس قصبے کی واحد پختہ سڑک ہے۔جو دوسرے شہر یا گائوں جانے کے لیے آمدورفت کا ذریعہ ہے۔قصبہ شروع ہوتے ہی سڑک کے اطراف میں موجود مختلف اجناس کی دکانیں،پھل اور سبزی فروشوں کی ریڑھیاں،موسم کی مناسبت سے قلفی والے یا بھٹہ بھونتے پھیری والے،خوانچہ فروش،اور اکا دکا جنرل سٹور موجود ہیں۔دکانوں کے سامنے موجود کچی زمین پہ صبح صبح جھاڑو پھیرنے کے بعدپانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ دھول نہ اڑےاور پھر دو تین لکڑی کے بینچ رکھ دئیے جاتے ہیں۔گاہکوں کے ساتھ ساتھ راہگیر بھی گھڑی دو گھڑی سانس لینے کو ان پہ بیٹھ جاتے ہیں۔اور اس مختصر سی بیٹھک کے بعد جب اٹھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ خرید کر ہی جاتے ہیں۔یوں یہ کاروباری گُر دونوں فریقین کا بھلا کر دیتا ہے۔
یہاں سے آگے جائیں تو سڑک کے شمال کی طرف قصبے کا لڑکیوں کا واحد سرکاری سکول جبکہ سکول کے عین سامنے…
لیں جی!
رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں، برکتوں، عبادتوں اور رونقوں کو لے کر، ہمیں سال بھر کی جدائی دےکر جا چکا ہے۔ جنہوں نے کچھ کمائیاں کرلیں روزے رکھ لیے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، ان کے بھی دن گزر گئے، اور جو کچھ حاصل نہیں کرسکے ان کے بھی دن گزر گئے۔
اور اب عید کی آمد ہے۔
میں سوچ رہی تھی کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہی عیدیں پھر سے آجائیں،جب عید کے چاند کو دیکھنے ہم چاروں بہن بھائی مل کے خوب کھلی جگہ کھڑے ہوتے۔ادھر چھوٹا بھائی کہتا :
’’یہ تم چاند کہاں ڈھونڈ رہے ہو، میں تو یہاں ہوں‘‘ ۔
جب اماں عصر کے وقت مہندی بھگو کے رکھ دیتی تھیں اور عید کا چاند چڑھنے کے بعد دونوں ہاتھوں پہ سیدھا لیپ کر کے مٹھیاں بند کروا کے اوپر لفافے چڑھا کے ہمیں سلا دیتی تھیں۔اگلے دن پورے ہاتھ کی لال سرخ مہندی میں سفید سفید قسمت کی لکیروں والا آٹو میٹک ڈیزائن تیار ہوتا تھا۔
رات کو جتنی بار آنکھ کھلتی سامنے بروکیڈ یا لیڈی ہملٹن کا سوٹ جس پہ خالہ جمشید نے ستارے لگا کے تیار کیا ہوتا تھا ، دیکھ دیکھ کر دل خوشی سے بھر جاتا تھا۔
پھر عید کے دن کی شام…
میں اوسط سے بھی کہیں کم درجے والا ایک عام سا شہری کبھی نیم سرکاری ملازم ہؤا کرتا تھا۔ آج کل دس برس سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ ایک مرتبہ مجھ سے کسی صاحب نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں تو میں نے جواب میں کہا کہ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں، میرا جواب سن کر نہ جانے وہ کیوں کھلکھلا سے گئے۔ پہلے تو ان کا یہ کھلکھلانہ پن مجھے سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب انھوں نے مجھے اپنی خود ساختہ خانقاہ میں شرکت کی دعوت دی تو بات سمجھ میں آئی۔
بات یہ ہے کہ ہم نے انگریزی الفاظ کو جس تیزی کے ساتھ اپنا لیا ہے اور ہر آنے والے منٹوں اور سیکنڈوں میں اپناتے چلے جا رہے ہیں، لگتا ہے کہ اردو ادب ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی خدمات کے جتنے بھی ذخائر ہیں سب کے سب ردی کی ٹوکری کی نذر ہو کر رہ جائیں گے۔ اول تو کتابیں پڑھنے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن ثانیاً اگر کسی کے اندر کتابیں پڑھنے کے سودے نے اسے مضطرب بھی کردیا تو وہ ان کتابوں کو پڑھ تو شاید لے، لیکن کیا ان…
رمضان کریم کے اختتام پر مساجد میں تراویح کے موقع پر اور حلقہ ہائے دروس میںترجمہ یاتفسیر کے اختتام پردعائیہ تقاریب منعقد ہونے سے ایک نورانی سماں بندھ جاتاہے ۔
قرآن مجید کےہر نسخے کے اختتام پرایک ’’دعا‘‘ درج ہوتی ہے ۔معوذتین کے بعد اس دعا کا ورد کر کے ہم نئے قرآن کی تلاوت کا آغاز کرتے ہیں۔
آج ہمارے حلقے میں دعائے ختم قرآن تھی ۔ ہم سب شرکاء محفل نے اجتماعی طور پر ختم قرآن کی دعا پڑھی ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے ۔
’’ اے اللہ میری قبر کے اندر مجھے جو وحشت ہو گی اسے میرے لیے مانوس کر دے ۔ اے اللہ مجھ پر اس قرآن عظیم کی بدولت رحم فرما۔ اس کو میرے لیے امام، نور ،ہدایت اور رحمت بنا دے ۔ اے اللہ مجھے یاد کرادے جو کچھ میں اس میں سے بھول جائوں اور مجھےسکھا دے اس میں سے جو میں نہیں جانتا اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اسے پڑھتا ہوں۔ رات اور دن کے اوقات میں اور اے تمام جہانوں کے پروردگار ! اس قرآن کو میرے حق میں دلیل اور گواہ بنا دے ‘‘۔
کتنی پیاری یہ دعا ہے جس کو ہم اکثر فہم کے بنا ہی پڑھ لیتے ہیں…
کہتے ہیں کہ مرد سے اس کی تنخواہ اور عورت سے اس کی عمر نہ پوچھیں کیونکہ اس کا درست جواب دینا دونوں کو پسند نہیں لیکن موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس قول میں بھی ترقی اور تبدیلی ہو چکی ہے۔ اب مرد حضرات بھی اصل تنخواہ تو بتا سکتے ہیں لیکن اپنی عمر نہیں۔ کاسمیٹک کا استعمال اور اپنے آپ کو سلم فٹ رکھنے میں اب وہ خواتین سے کم نہیں۔ جگہ جگہ ان کے بیوٹی سیلون وجود میں آچکے ہیں۔ داڑھی منڈوا کر، فیشلز کروا کروا کر چھیلے ہوئے نئے آلوؤں جیسے گلابی چہرے بنا لیتے ہیں۔ بلکہ اب تو حضرات کا بشمول لپ سٹک پورا میک اپ نکل آیا ہے جس کا وہ جوان اور حسین نظرآنے کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ بھلا ہو کالے کولے کا جو بالوں کی چاندی چھپا کر جوانی پر بھی چار چاند لگا دیتا ہے اور کنڈیشنر سے کالی چمک پیدا کر لیتے ہیں۔ جب ان قیمتی لوازمات کو استعمال کرنے کے بعد 60 سال کے یہ حضرات اپنے تصور میں لڑکے بن جاتے ہیں تو اس وقت اگر کوئی فرد خاص کر کوئی خاتون بھولے سے انہیں انکل، چاچا یا ماموں کہہ بیٹھے تو یہ انہیں ایسی…
مہاجر کیمپ میں گمشدہ افراد کے اعلانات کا سلسلہ تقسیم کے کئی ماہ بعد تک جاری رہا۔سر شام لوگ ریڈیو کے قریب بیٹھ جاتے ۔اپنوں کی خبر سننے کے لیے پورا وجود کان بن جاتا ۔جب امید کے سارے در ایک ایک کر کے بند ہونے لگے تو اچانک ایک دن ریڈیو پاکستان سے بڑی امی کے والد صاحب کی سلامتی کی خبر نشر ہوئی۔ اعلان بار بار دہرایا جارہا تھا۔یہ اعلان کیا تھا، جدائی کے صدمات سےچور دلوں کے لیے مرہم اور ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہؤا اور امید بندھ گئی کہ شاید پورا گھرانہ ہی بچ گیا ہو۔
نانا جی نے ملاقات پر منیا کو گھر سے لے جانے کی ادھوری داستان کو وہیں سے جوڑتے ہوئے کرب انگیز لہجے میں کمال ضبط سے ٹھہر ٹھہر وہ ساری بپتا کہہ سنائی، جس کے بعد ہر سننے والے کے دل میں یہ خواہش ابھری کہ کاش یہ داستان ادھوری ہی رہتی!
انھوں نے بتایا کہ جب وہ سب لوگ بڑی امی کی بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دینے گھر آئے اور بڑی امی کی بہن یعنی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی منیا کو ساتھ لے کر گھر کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں حالات کچھ غیر معمولی محسوس…
بے چارے!
فریحہ مبارک۔کراچی
اشرف صاحب کے ساتھ گاڑی کا سفر ہو تو سفر کے آغاز میں ہی میرے میاں موٹر سائیکل والوں کے اچانک کٹ مارنے…مخالف سمت سے نمودار ہونے ….کبھی پہلی لین میں موٹر سائیکل چلانے اور ہارن کے باوجود ٹس سے مس نہ ہونے والوں کے پیچھے ہارن ضرور بجاتے ہیں ۔اور ساتھ ٹریفک قوانین بھی زور وشور سے بیان کرتے ہیں مثلاً ’’اس کی جگہ تیسری لین ہے…. یہ اپنی جان خطرے میں ڈالے تیز رفتاری والی لین میں چلا رہا ہے‘‘۔
ایسے موقع پر کچھ دیر تو میں ان کی بات کی مکمل تائید کرتی رہتی ہوں لیکن پھر خواتین کی مخصوص حس بیدار ہو جاتی ہے یعنی ’’بے چارے‘‘ والی سوچ کے تحت خیال آتا ہے۔
ہائے…. یہ بے چارہ نہ جانے کس مشکل میں بھاگا چلا جارہا ہے۔
بے چارے کا پیپر نہ نکل رہا ہو۔
یہ تیار شیار بے چارہ جاب کے لیے انٹرویو دینے جارہا ہو گا….اس کا پورا حق ہے جلدی پہنچنا۔
ہو سکتا ہے اس بے چارے کی فلائیٹ ، ٹرین یا بس نکل رہی ہو ۔
ہو سکتا ہے اچانک گھر میں مہمان آگئے ہوں اور امی نے کہا ہو ، بیٹا دوڑ کر گرما گرم سموسے جلیبی لے آنا ،ٹھنڈی نہ کر دینا۔
ابا نے کہا…
گھر کے ایک بعید ترین کمرے میں جو خاصا روشن اور ہوا دار تھا اور بہت قرینے اور طریقے سے جیسا کہ کسی موذی مرض میں مبتلا قریب المرگ خاتون کے شایان شان ہونا چاہیے ، سجایا گیا تھا اور ہر قسم کی آسائش مہیا کی گئی تھیں ، مریضہ کھٹکے سے اونچا نیچا ہو جانے والے بیڈ پر منہ نیوڑائے کروٹ لیے اس طرح پڑی تھیں، گویا انہوںنے ابھی سے زندگی اوراس کے نام جھام سے منہ موڑ نے کا ارادہ کر ہی لیا ہو۔گوا بھی وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے موڈ میں قطعی نہ تھیں ۔ ابھی چند سال قبل ہی تو وہ اپنی ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھی تھیں اور اب یہ مژدہ سننے میںآیا تھا ۔ ورنہ ابھی تو چند گھنٹوں پہلے وہ اپنی گاڑی خود چلا کر کلنیک تک گئی تھیں ۔ ان کی بہو روشن آراء ان کے ساتھ گئی تھی ۔ اُس کو انہوں نے گاڑی اس لیے چلانے نہیں دی تھی کہ وہ پورے دنوں سے تھی ،اور وہ اُس کو اس حالت میں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔
قصہ دراصل یہ تھا کہ چند دن یعنی تقریباً دو ہفتے پہلے انہوں نے اپنی دا ہنی پسلی سے…
قارئین کرام سلام مسنون
آج کل قومی تو کیاعالمی منظرنامے پر بھی کھیل چھائے ہوئے ہیں۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کا فائنل میں پہنچ جانا ہی اتنی خوشی دے گیاکہ جیتنے کی خاص اہمیت نہیں رہی۔اس کے بعد قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے قصے تو زبان زدِ عام رہے۔کھیل سے دلچسپی ہو یا نہیں مگر قطر کے ثقافتی محاذ پر کارناموں نے ہمارے ہاںسب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ دنیا سے کٹ کر اپنے اصولوں پر قائم رہنا آسان ہے مگر پائیدار نہیں۔ دنیا کے ساتھ چلیں اور اپنی پہچان برقرار رکھیں یہ اصل چیلنج ہےجس کو قطر نے محض نعرہِ مستانہ سے نہیں بلکہ تیل کی بدولت اپنے معاشی استحکام کی وجہ سے ممکن بنایا۔ پھر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دین کی دعوت کو دنیا بھر کے نمائندوں تک پہنچا دیاگویا امت بھر کی جانب سے فرض ادا کردیا۔
پی ٹی آئی کے قافلے پر فائرنگ سے کئی رہنما زخمی ہوئے اور ایک قیمتی جان چلی گئی۔حکومت کے جو افراد پہلے سے اسے خونی مارچ کہہ کر خوف پیدا کررہے تھے،منطقی طور پہ فائرنگ کے واقعے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔پرامن مظاہرے کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ لاٹھی گولی کے حربوں…
ذیابیطس دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔
اس مرض کا شکار ہونے کی صورت میں کچھ علامات ایسی ہوتی ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آپ کو اپنا چیک اپ کروا لینا چاہیے تاکہ ذیابیطس کی شکایت ہونے کی صورت میں اس کے اثرات کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔
تو ایسی ہی خاموش علامات کے بارے میں جانیے۔
ٹوائلٹ کا زیادہ رخ کرنا
جب آپ ذیابیطس کے شکار ہوجائیں تو آپ کا جسم خوراک کو شوگر میں تبدیل کرنے میں زیادہ بہتر کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں دوران خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جسم اسے پیشاب کے راستے باہر نکالنے لگتا ہے، یعنی ٹوائلٹ کا رخ زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس مرض کے شکار اکثر افراد اس خاموش علامت سے واقف ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر رات کو جب ایک یا 2 بار ٹوائلٹ کا رخ کرنا تو معمول…
پوّن سکول کی حالت بدلنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہے ۔ مرمت کا کام بھی جاری ہے اور نئے داخلے بھی ہو رہے ہیں ۔ ایک دن میڈم بچوں کی خوب مار کٹائی کرتی ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے وہ خود بھی شوہر کے تشدد کا شکار ہیں ۔پوّن بی بی کی شخصیت سے بہت متاثر ہے۔ جن کا کردار خاموش تبلیغ ہے ۔ وہ ان سے بہت کچھ سیکھ رہی ہے ۔ بی بی پون سے اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتیں مگر بی بی کی بیٹی ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ پون کے بارے میں ہر بات جاننا چاہتی ہے ۔
وہ بڑی دیر سے پودوںکے پاس کھڑی انھیں دیکھے جا رہی تھی ۔ ابھی دو تین دن پہلے تک تو وہ سر نیہوڑائے اُداس پژمردہ کھڑے تھے، ایسا لگتا تھا جان کنی کے عالم میں ہیں دوبارہ کبھی ہرے نہیں ہوں گے ۔ مگر آج اس نے دیکھا پتوں کی بند مٹھیاں دوبارہ کھل رہی تھیں جیسے ہاتھ بڑھا کربہاروںکو آواز دے رہے ہوں ۔
آئو ہمارے پاس آئو … ہم نے مایوسی اور اُداسی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے … ہم نے دوبارہ کھلنے اور مسکرانے کا فیصلہ کیا ہے…
شارجہ کورنیش پہ ایک بلڈنگ میں اس صبح بہت دیر سے ایک لفٹ کسی منزل پہ رکی ہوئی تھی۔ دوسری لفٹ اوپر جانے والوں کے ہاتھوں میں تھی … نیچے جانے والے لوگ اکٹھا ہوتے جارہے تھے۔ کوئی پانچ منٹ میں اوپر جانے والی لفٹ ساتویں منزل پر واپس آ کر رکی تو سب لفٹ میں داخل ہونے میں پہل کرنے کی کوشش میں تھے۔ زیادہ مرد تھے تو صائمہ اور ایک اور خاتون باہر ہی کھڑی رہ گئیں۔
’’مردوں کو لیڈیز فرسٹ والا اصول اب بھول گیا ہے‘‘۔ صائمہ نے رنجیدہ ہو کر کہا۔
ہلکے نیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس پچاس پچپن کے لگ بھگ دوسری خاتون نے نو عمر صائمہ کو مسکرا کر دیکھا اور تسلی آمیز لہجے میں بولیں:
’’وہ تعداد میں جیادہ تھے … زمہوری دور ہے نا!‘‘
صائمہ نے ان بنگالی خاتون کی بات پر سر ہلا کر تائید کی ۔
’’آنٹی! آپ آئیے نا! ہماری طرف، میری امی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ آپ کون سے فلور پہ رہتی ہیں؟‘‘ باتونی صائمہ کو خیال آیا کہ شاید وہ یہاں نہ رہتی ہوں … کسی کو ملنے آئی ہوں۔
’’میں نیچے تیسرے فلور پہ رہتی ہوں‘‘۔
’’اچھا!‘‘ صائمہ نے سوچا میری امی کی ہم عمر ہیں ان سے…
1- تربیتی نشست کا سامانِ سفر لیے ہم گاڑی میں بیٹھے باہر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے ہی والے تھے کہ ساتھیوں کی بھنبھنانے کی آواز آئی، یوں جیسے شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے اس کے گرد منڈلاتی ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ نصب العین اور دعائے نور کو رٹا لگایا جا رہا ہے۔
’’کیوں بھئی، اتنی جلدی کیا ہے یاد کرنے کی ؟‘‘ہم نے پوچھا ۔
’’وہاں یہ سب چیزیں سنی جائیں گی، سرکلر دھیان سے پڑھا ہے آپ نے ؟ ‘‘ ایک پیاری سی ساتھی نے اپنی عینکوں کے پیچھے سے جھانکا ۔
’’اوہ۔ ہ ہ ‘‘ ہم بھی نقاب کے پیچھے سے مسکرائے مگر یاد پھر بھی نہ کیا ۔
’’دیکھا جائے گا،وہاں شام کے ملجگے میں کسی کونے کھدرے میں گھس کر یاد کر لیں گے‘‘ سوچا اور کھڑکی سے باہر قدرت کے حسین نظارے میں محو ہو گئے ،یوں بھی ہمیں دورانِ سفر بولنابالکل پسند نہیں۔
2- ٹھیک ساڑھے دس بجے ہم قرآن انسٹی ٹیوٹ پہنچ گئے اور رجسٹریشن کے بعدکمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے بستروں پر قبضہ کیا اور پھر ڈائریز لے کر اجتماع گاہ میں پہنچنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک ساتھی نے جرابوں کا جوڑا ہماری…
شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات کی تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف ہر فرد کے مزاج کے مطابق بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بصارتی، صوتی اور تحریری لوازمات موجود ہیں بلکہ ہر قسم کی تحریریں، کتابیں، اخبارات اور رسائل بھی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر اور مطالعہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہؤا کہ اردو کے زبان و ادب سے تعلق جوڑنے والے بہت بڑے بڑے ذخیرے دور دور تک دکھائی نہیں دیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کی علمی معلومات مکڑی کی اس جالے، جس کو ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے،میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بے شک اب بھی کسی بھی قسم کے اردو ادب کا تمام تر ذخیرہ تو موجود نہیں لیکن پھر بھی لائقِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اردو کے علمی ذخیرے کو جدید دور کے مکڑی کے جالے میں محفوظ کرنے میں رات دن کوشاں ہیں اور اگر ان کی کوششیں بنا تکان جاری…
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
چمن بتول اکتوبر 2022ء پر اپنے تاثرات قارئین کی نذر کر رہا ہوں ۔ امید ہے پسند کیے جائیں گے ۔ سب سے پہلے تو میں مجلس ادارات ’’ چمن بتول ‘‘ اور لکھاری خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس دفعہ شائع ہونے والے سارے افسانے بلا شبہ شاہکار افسانے ہیں اور بہت معیاری ہیں ۔ اس طرح دوسرے مضامین بھی بہت اچھے ہیں ، یہ شمارہ ایک یاد گار شمارہ کہا جا سکتا ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اس دفعہ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا اداریہ رُلا دینے والا ہے۔ آپ نے سیلاب کی تباہ کاریوں اور سیلاب میں گھرے مجبور ، بے بس اور بے یارو مدد گار لوگوں کی حالت زار کا درد ناک نقشہ پیش کیا ہے ۔
’’ رب کی جنت‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا جنت الفردوس کے بارے میں ایک خوبصورت مضمون ۔ آپ نے جنت کا اتنا پیارا نقشہ پیش کیا ہے کہ بے اختیار دل چاہتا ہے کہ پوری سعی کر کے جنت کے حقدار بن جائیں۔’’لباس پردہ پوشی ہے ‘‘(ندا اسلام) اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے لباس سے ستر پوشی مقصود ہے ، اس سے تکبر…
گڈو کی آنکھ نور کے تڑکے ہی کھل جاتی ،سماں ہی کچھ ایسا ہوتا۔ کانوں میں مدھر، دلکش اور مسحور کن ساز اور آوازکی سنگت رس گھولنے لگتی اور پانچ سالہ گڈو کو کوئی غیبی قوت خوابوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں کھینچ لاتی ۔ نرم گرم بستر میں دُبکی گڈو آنکھیں پٹ پٹا کر سامنے کے منظر پر ٹکا دیتی ، دیے کی مدھم لو میں آپا کا سراپا بہت پر کشش لگتا ، وہ بڑی ساری پیڑھی پر بیٹھی دھیمی آواز میںدر ود پاکؐ کا ورد کر رہی ہوتیں۔دُودھ بلونے والی مدھانی کی کلیاں اُن کے دونوں ہاتھوں میں ہوتیں وہ زور سے ایک کو اپنی طرف کھینچتی تو دوسری کلی مدھانی کے ساتھ لپٹ کر پیچھے چلی جاتی، بڑی ساری مٹی کی چاٹی کے اندر چلتی ہوئی رنگیل مدھانی کی گررڈ گررڈ کا ساز اور آپا کی پر سوزآواز میں جاری درود شریف کا ورد گڈو کے ذہن و قلب میں عجب طمانیت بھردیتا ، وہ گردو پیش سے بے نیاز اس نظارے میں محور ہتی ، آپا ، چھ کلمے ، چاروں قل اور پورا پنج سورہ پڑھ جاتیں، یہ ساز اور آواز جاری رہتے گڈو ان میں کھوئی رہتی ، وقت بیتا رہتا…
امریکا میں مسلم ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے2015میں اپنے اولین رابطے کے مشاہدات پر مبنی یہ مضمون 2016میں لکھا گیا۔ بعد ازاں میری اس موضوع پر ریسرچ جاری رہی ہے جس کے لیے میں پاکستان کی خواجہ سرا کمیونٹی سے بھی مسلسل رابطے میں رہی ہوں گو ان کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے نہیں ہوتا۔ – اپنے یہ تمام مشاہدات کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ ایڈیٹر بتول صائمہ اسماکی فرمائش پر بتول کے خاص نمبر کے لیے بھیج رہی ہوں۔ تمام نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ تزئین حسن
ہم جنسی کا فروغ ایک عالمی ایجنڈا
اب ہم دوبارہ ایمن کی طرف آتے ہیں۔ ایک بہت اہم اور دلچسپ بات یہ تھی کہ خود کوئیر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ایمن کا کہنا تھا کہ گے کلچر کا فروغ ایک عالمی سیاسی ایجنڈا ہے اور اسے بہت طاقتور لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس نے خصوصاً اسرائیل کا نام لیا کہ فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کو چھپانے کے لیے اسرائیل گے رائٹس کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل کی اس سیاسی اسٹرٹیجی کے لیے اس نے ’’پنک واشنگ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔
مغرب میں ہم جنسی کے خلاف کوئی بھی بات کرنے کو انسانی حقوق…
’’مرد اپنے گھروالوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔‘‘(بخاری)
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔آزادی کیونکہ اس کی فطرت کا خاصہ ہے لہٰذا حریت پسند انسان اپنی رازداری کی باتوں سے بھرپور طریقے سے لطف انداز ہونے اور نجی زندگی گزارنے کے لیے ایک گھر کا خواہش مند ہوتا ہے جہاں وہ اپنی زندگی خودمختار اور منفرد حیثیت میں گزار سکے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا بلکہ پیدائش کے بعد ان کی روحانی و جسمانی،عقلی منطقی غرض ان تمام ضروریات کا انتظام کیا جو انسان کے لیے ضروری تھیں۔ہر انسان اپنی ذات میں منفرد ہے۔پور پور کو انفرادیت عطا کرنے والے رب نے ہر انسان کو اپنی ذات میں منفرد بنایا۔اب وہ آزاد ہے کہ اپنی انفرادیت کے ذوق کو جیسے چاہے تسکین فراہم کرے مگر دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو،خدا کی زمین میں فساد نہ پھیلائے،حقوق وفرائض کی جو فہرست اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے تھما دی ہے اس سے انحراف نہ کرے ورنہ ظالموں کی فہرست میں اپنا شمار بھی کروائے گا اور چین وسکون بھی کھو دے گا اور تو اور اپنی اس انفرادی حیثیت کو بھی نقصان…
رات کی کالی چادر تن چکی تھی ۔ خاموشی کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے ۔ جھینگروں کی آوازیں رات کی خاموشی میں عجب شور پیدا کرتیں ۔ اس نے کھڑکی کی طرف نظر ڈال کر باریک جالیوں سے جھانکتے گہری سیاہ رات کو دیکھا پھر بیڈ کے سرہانے سے سر ٹکا کر بیٹھ گئی۔’’ رات کی سیاہی تو مٹ جائے گی لیکن آخر میرے نصیب کی سیاہی کب ختم ہو گی ‘‘۔ اس نے گہری آہ بھرتے ہوئے سوچا۔سامنے سپید ٹیوب لائٹ کی روشنی میں آئینہ میں اس کا سراپا ابھر رہا تھا ۔ گہری سانولی سیاہی مائل رنگت، مناسب نقوش، آسمانی جوڑے سے جھانکتے ہاتھ اور پیر جو چہرے سے بھی زیادہ کمہلائے ہوئے تھے ۔ اس کی سفید چمکتی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے ۔ وہ اپنے والدین کی دوسری بیٹی تھی ، نہ ان چاہی ، نہ من چاہی ۔ اس کی ماں کو تو خبر ہی نہ ہوئی جانے کب پھول سی سرخ و سفید حمنہ کو پالتے پالتے کالی کلوٹی آمنہ ان کی گود میں آگئی۔ فرخندہ بیگ نے نہ صبر کیا نہ شکر ،بس دل پر جبر کر کے ایک فرض کی مانند اس کو پالنے لگیں ۔ اسکول کالج کا…
’’ارے یہ کیا ؟ گرمیوں کے کپڑوں پہ اتنا اہتمام ؟بھئی ہم تو لان کے سوٹ پہ کوئی بیل یا لیس نہیں لگاتے ….خواہ مخواہ کی فضول خرچی‘‘ ۔ رضیہ خالہ نےماتھے پہ بل ڈال کر سامنے والی خاتون کو دیکھ کر کہا ۔
ویسے ان کے علاوہ بھی کئی خواتین لان کے سوٹ پہ ہلکی یا زیادہ لیس ٹانکے ہوئے تھیں، کیا برا تھا،مگر نوشین اور اس کی نوعمر بیٹی ان کا نشانہ تھی ۔وہ اپنی سبکی محسوس کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں ۔آنکھوں میں نمی سی آگئی جیسے کوئی زخم پہ نمک پاشی کرے تو لامحالہ آتی ہے۔
صوفیہ جو پاس بیٹھی تھی تلملا کر رہ گئی۔
’’حد کرتی ہیں پھوپھو آپ بھی….بےچاری سال ہؤا بیوہ ہوئے اسے….بڑی مشکل سے یہاں آئی بچوں کے ساتھ گھر میں مقید ہو کررہ گئی تھی ….میلے پھٹے کپڑوں میں اجڑی حالت میں کھوئی ہوئی رہتی ہے۔ بڑا سمجھانے کے بعد تو ذرا حلیہ درست کیا، ابھی تو وہ چالیس کی بھی نہیں ہوئی اور آپ سب کے ایسے سامنے ٹوک لگارہی ہیں جیسے وہ لش پش تیار ہوکر آئی ہو‘‘۔
’’ارے چپ کرجاؤبیوہ کو سادہ ہی رہنا چاہیے….سفید دوپٹہ سر پہ لے۔ اگر ذراسے رنگین کپڑے بھی ہوں تو سادہ ہوں ….اور یہ سب…
ویسے تو وہ ادھیڑ عمری کی دہلیز تک پہنچنے کو تھیں پر ان کی سج دھج بالکل کسی دوشیزہ کی سی تھی ۔وہ دونوں میاں بیوی چند ماہ پہلے ہی ہمارے کمپاؤنڈ میں موجود چار کمروں کے لگژی اپارٹمنٹس میں شفٹ ہوئے تھے اوراولاد کی نعمت سے محروم تھے ۔ان کے شوہر مراتب انکل بہت خاموش مزاج جبکہ صفینہ آنٹی بے تھکان بولنے والوں میں سے تھیں۔مراتب انکل آرتھرائٹس کی وجہ سے زیادہ وقت اپنے گھر پر ٹیلی وژن پر خبریں دیکھ کر گزارتے ۔البتہ صفینہ آنٹی مارکیٹ سے سودا سلف لانے سے لے کر بل جمع کروانے تک سب کام خود کرتیں۔
شام کے وقت تمام خواتین بچوں کو’’لاثانی لگژری اپارٹمنٹ‘‘ کے بیچوں بیچ بنے خوبصورت پارک میں لے آتیں۔بچے پارک میں کھیلتے رہتے اور خواتین حالات حاضرہ سے لے کر فیشن اور کھانے کی آزمودہ تراکیب تک سب پر ڈھیروں گفتگو کرتیں۔جس دن سے صفینہ آنٹی یہاں شفٹ ہوئیں سب خواتین کو گپ شپ کا نیا موضوع مل گیا ۔
’’ہائے کیسے کیسے چھیل چھبیلے لال پیلے رنگ پہنتی ہیں یہ آنٹی…. ایسے رنگ نو عمر لڑکیوں پر ہی جچتے ہیں ‘‘۔
اسکول ٹیچر سحر نے دور سے آتشی گلابی رنگ کے پھولدار سوٹ میں ملبوس صفینہ آنٹی کو دیکھ کر…
پیار محبت سے سجی اتنی پیاری محفل ، جس میں شرکت نے روح تک سرشار کر دی!
جمعرات کی صبح عشرت جی نے بتول کی مدیرہ صائمہ اسماصاحبہ کے اعزازمیں دیے گئے ظہرانہ میں شرکت کی دعوت دی۔ دل مچل مچل گیا۔ پچھلی بار آرٹس کونسل میں سیرت کے پروگرام میں بھی حامی بھرنے کے باوجود نہ جا سکی ، لو میں کہاں کی وزیراعظم جو اتنے نخرے دکھاؤں۔ میاں جی کے کان کھائے بس مجھے چھوڑ آئیں واپس خود آجاؤں گی۔ میاں جی نے ہری جھنڈی دکھا دی۔
’’مجھے پتہ ہی نہیں فاران کلب کہاں ہے‘‘۔
بیٹے سے پوچھا تو اس نے بھی کہا نہیں جانتا۔ لو جی یہ کراچی میں رہتے ہیں یا چیچو کی ملیاں میں؟ پھر گوگل بھائی جان کا سر کھایا ۔منٹ میں پتہ چل گیا گلشن اقبال میں بینکوئٹ ہے۔ عشرت جی سے تصدیق بھی کرلی ۔
’’ چلیں جی پتہ چل گیا ….اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا‘‘۔
شکر وہ آسانی سے مان گئے ۔ویسے بھی میری تحریروں کے تو قدر دان ہی ہیں، کہتے ہیں تمہاری وجہ سے میں مشہور ہوگیا ۔پوچھا کیسے تو جواب آیا، جو عینی کا نام لیتاہے وہ عرفان کا ساتھ ہی لیتا ہے ،توہوگیا نا میں مشہور ۔لو جی اچھی منطق ہے!
خیر…
’’ثوبیہ تم تو بالکل پاگل ہو ، آجکل کے زمانے میں کون ایسی باتیں کرتا ہے؟خاندانی ،ویل سیٹلڈ لڑکے کو ٹھکرانا ناشکری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
زرمین نے اپنی بیٹی ثوبیہ کے مسلسل انکار سے زچ آکر کہا۔
بہروز ان کا لاکھوں میں ایک بھتیجا تھا ۔ اس نے اسلام آباد کی ٹاپ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔اس کے بنائے سولر اینیرجی کار کے ماڈل کی پورے ملک میں دھوم مچی تھی ۔ حال ہی میں اسے بہت شاندار پیکیج پر امریکہ میں نوکری کی پیشکش ہوئی جو فوری طور پر اس نے قبول بھی کر لی ۔زرمین کے بھائی بھابھی ثوبیہ کے لیے اپنے بیٹے بہروز کا رشتہ مانگ چکے تھے۔ثوبیہ اور بہروز ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔بہروز کے والدین اسے امریکہ بھجوانے سے پہلے ان دونوں کی شادی کروا دینا چاہتے تھے تاکہ وہ ثوبیہ کو بھی ساتھ لے کر جائے ۔
’’ماما مجھے بہروز کے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر آپ جانتی ہیں نا میں اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی ‘‘۔
ثوبیہ نے اپنے لمبے گھنے بالوں کو لپیٹ کر کلپ لگاتے ہوئے کہا:
’’وہ ہمیشہ کے لیے تو نہیں جا رہا ‘ اس کے والدین گھر بار سب…
صبح کے دس بج رہے تھے۔ نور فاطمہ سست روی سے گھر کے کام سمیٹ رہی تھیں ۔ آج نجانے کیوں ان کا دل زیادہ ہی بوجھل ہورہا تھا۔ شاید موسم کا اثر تھا یا گزرتے حالات کا۔اگست کا آخر ہونے کو آیا اور برسات کا سلسلہ رکنے کو نہ آرہا تھا۔
کام والے لڑکے نے ڈیوڑھی کا کنڈا بجا کر متوجہ کیا اور کہا۔
’’بی بی بیگم کھیت سے کامو کاکا آئے ہیں‘‘۔
کاموکی آمدبھی ایک کام ہی کا آغاز ہوتی ۔ وہ ڈیوڑھی کے دروازے پر آم اور ناشپاتی کے ٹوکرے رکھوارہے تھے ۔
’’ کاکا آپ بھی بس ذرا بارش رکنے کے منتظر تھےجیسے… ابھی کل ہی اناج کے بورے رکھواکر گئے ہیں اور آج یہ اتنے پھل !ابھی گودام میں رہتے تو حفاظت رہتی برسات میں گھر پر سنبھالنا مشکل ہوگا‘‘۔
نور بی بی نے پردے کی اوٹ سے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
کامو کاکا پردے کے باوجود نظریں جھکائے بیٹھے تھے مؤدب ہوکر بولے۔
’’بی بی ہر سال کی طرح برسات نے پھلوں میں رس اور خوشبو تو بسادی لیکن یہ کیسی ہوا چلی ہے کہ انسان کڑوا ہوگیا ۔بھری برسات میں بیرسٹر صاحب کے گودام ان کے مزارع نے بلوائیوں سے مل کر لوٹ لیے کھیت اجاڑ دیے ۔ تب…
عالمگیرشہرت کی حامل کتاب ’’مثبت سوچ کی طاقت‘‘ کا مصنف ونسنٹ پلے ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک فون آیا۔ فون پر موجود شخص رو رہا تھا کہ اس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ ہر چیز تباہ ہو چکی اور وہ مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے اب اس کے پاس جینے کا کوئی جواز نہیں۔ ونسنٹ نے اس شخص کو اپنے دفتر آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔
اگلے روزوہ شخص ونسنٹ پیلے کے آفس میں موجود تھا، ملاقات کی ابتدا اس نے آہ و بکا سے کی۔ وینسنٹ نے مسکرا کر اسے تسلی دی اور سکون سے بیٹھنے کو کہا جب وہ قدرے اطمینان سے بیٹھ گیا تو مینجمنٹ کے اس معروف ماہر نے کہا کہ آئو مل کر تمہارے حالات کا مفصل جائزہ لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ تمہارے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ ونسنٹ نے ایک کاغذ لے کر اس کے درمیان ایک عمودی لکیر کھینچی اور کاغذ اس شخص کے سامنے رکھتے ہوئے کہامیں تم سے بہت سی باتیں پوچھوں گا۔ جو باتیں تمہاری زندگی میں مثبت ہیں انہیں کاغذ پر دائیں کالم میں لکھنا اور جو منفی ہیں انہیں بائیں طرف لکھو…
قائد اعظمؒ کا فکری پس منظر کیا تھا ، وہ خلوص نیت سے کیا محسوس کرتے تھے ، اور انہوں نے پاکستان کا تصور کہاں سے لیا تھا ، ڈاکٹر صفدر محمود کی چند فکر انگیز تحریروں سے انتخاب
سب سے پہلے تصور پاکستان اور تحریک پاکستان کے پس منظر کو واضح طور پر سمجھ لیں تاکہ اس کے بعد زیر بحث آنے والے انفرادی پہلوئوںکو سمجھ سکیں ۔ سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کی بنیاد کب رکھی گئی ۔ آسمانی فیصلوں کی تکمیل اور خواب کو حقیقت بنتے صدیاں گزر جاتی ہیں ۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘ سے رہنمائی لینی پڑے گی کیونکہ ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘ ہندوستان کی ایک قدیم تاریخ پر ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے ۔’’ تاریخ فرشتہ‘‘ کے صفحہ نمبر 101پر وہ خط درج ہے جو 1192-93ء میں شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو لکھا تھا۔ پس منظر کے طور پر یاد رہے کہ شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج کے درمیان 1192ء میں جنگ ترائن ہوئی جو اس لحاظ سے ایک فیصلہ کن معرکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس جنگ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کردیا اور مقامی ہندو راجائوں کی کمر…
اسما اشرف منہاس کوہم بتول کے صفحات پر خوش آمدید کہتے ہیں ۔ قائداعظم یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میںایم فل کیا ہے اور خواتین کے مختلف مقبول ڈائجسٹوں میں اسما طاہر کے نام سے لکھتی ہیں۔
’’ ائے ہئے ہندوستانی ہے کیا ؟‘‘ اماں نے ہرے دھنیے اور سبزمرچوں سے سجی کڑھی دیکھتے ہی کہا۔ ’’ اماں اب کڑھی کا کوئی وطن نہیں رہا ۔یہ جتنی ہندوستانی ہے اتنی ہی پاکستانی بھی ہے ‘‘۔ سعدیہ نے فوراً وضاحت کی حالانکہ جانتی تھی اماں کڑھی کا نہیں بلکہ کڑھی بنانے والی یعنی کہ عالیہ باجی کا وطن جاننے کی کوشش کررہی تھیں جنہوں نے کچھ دن پہلے ہی ساتھ والا گھرخریدا تھا ۔ ’’ اللہ عالیہ باجی کو خوش رکھے آج کڑھی کھانے کو بہت جی چاہ رہا تھا اور بنانے کو بالکل بھی نہیں اور انہوں نے ڈونگہ بھر کے بھیج دیا ۔رات کے لیے بھی کافی ہے ‘‘۔ سداکی چٹوری مگر سست ہانیہ کو اپنا ہی فائدہ نظر آ رہا تھا ۔ ’’افوہ تمہیں دوسروں کی بنائی چیزیں کھانے کا کتنا شوق ہے کبھی خود بھی کچن کی شکل دیکھ لیا کرو ‘‘۔سعدیہ اس کی سستی سے سخت نالاں تھی۔ ’’ارے اس کچن میں کون جائے ۔ہاں اگر امریکن…
دعا یہ ہے وطن میرے !
اجالا امن و راحت کا تری ساری شبوں میں ہو
محبت کی ضیا بکھری ہوئی سب راستوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
خدا رکھے گا خود تجھ کو مگر میری تمنا ہے
وسیلہ میرے جسم و جاں بنیں تیری حفاظت کے
مرے دستِ ہنر سے تیرے سب گیسو سنور جائیں
مرا ذہنِ رسا تیرا مقام آفاق پر ڈھونڈے
ان آنکھوں میں جو ساون ہے ترے صحرائوں پر برسے
بدن میں جولہو ہے منتقل تیری رگوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
کوئی ضرب ِعدو میں دست و بازو پر ترے دیکھوں
تو میری آنکھ جل تھل روح بوجھل ہونے لگتی ہے
بگولے نفرتوںکے بستیوں میں گھومتے پائوں
تو سچ مانو کہ طاقت سوچ کی شل ہونے لگتی ہے
اندھیرے چھانٹ کر گلیوں میں تیری روشنی بھر دوں
تمنا ہے سکت اتنی تو میرے بازئووں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
کبھی ہوتا ہے یوں بھی مصلحت پیشِ نظر آئے
کئی چاہت کے دعویدار دامن چھوڑ جاتے ہیں
مرے جیسے وفا کے گیت لکھتے ہیں کئی شاعر
مگر خود ہی بھرم اپنی وفا کا توڑ جاتے ہیں
دعا یہ ہے مرے مولا! مرے دعوے کی سچائی
مرے اس دیس سے ہر حال میں ساری رتوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے
میرے کشمیر!
میرے کشمیر مرے پاک وطن کی شہ رگ
کون کہتا ہے فضائیں تری آزاد…
وہ ملا تو ایسا تھا اجنبی کہ کبھی تھا جیسے ملا نہیں
کوئی بات اس نے کہی نہیں کوئی قول اس نے دیا نہیں
نہ سوال تھا ، نہ جواب تھا ، نہ نگاہ میں کوئی بات ہی
تھی جو دل کی دل ہی میں رہ گئی جو کہا تو اس نے سُنا نہیں
یہ وہی نویدِ بہار ہے جو تری نظر کا حجاب تھی
جو ہے رائیگاں تری جستجو یہ مری نظر کی خطا نہیں
یہ ہے اور بات بچھڑ کے تم کسی اور سمت چلے گئے
کبھی ساتھ ساتھ چلے تھے ہم یہ خیال دل سے گیا نہیں
یہ گئے دنوں کا ہے تذکرہ کہ جوکہہ دیا سو وہ کر دیا
ہے روش یہ دورِ جدید کی جوکہا کبھی وہ کیا نہیں
یہ جہاں ہے عالمِ کشمکش کہیںدار ہے کہیں تاج ہے
جو فرازِ دار سے ڈر گیا اسے تاج و تخت ملا نہیں
میں بھٹک کے آپ ہی راہ سے ترے پیچھے پیچھے تھی چل پڑی
مرے راہبر نہ ہو بد گماں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
بڑی ابتلا کا یہ دور ہے بڑے چارہ گرہیں قدم قدم
ہیں زباں پہ لاکھ فسوں مگر کوئی ان میں ردِّ بلا نہیں
جو عزیز ہوتی یہ زندگی کبھی چلتے راہ نہ عشق کی !
مرے مہرباں ، مرا امتحاں ، یہ بجا نہیں ، یہ…
ہم کھڑے ہیں منتظر
آنے والے وقت کے
لائے گا جو ساتھ اپنے سر خوشی
آج ہم میں سے ہر اک تنہا ہے کتنا
ذات کے الجھائو میں کھویا ہؤا
ذات کے اس پار کیا ہے دیکھ ہی سکتا نہیں
سوچتا ہے زندگی بے کیف ہے
کس قدر نا مطمئن ہے یہ ہماری نسلِ نو
گھل گئی ہے روح میں گہری تھکن
سانس ہے الجھا ہؤا
ہر اندھیرے میںچھپی ہوتی ہے لیکن روشنی
کل انہی جذبوں سے ابھرے گی سحر امید کی
پھیل جائے گا شفق پر چار سو رنگِ نشاط
لہلہائیں گے چمن میں ہرطرف رنگین پھولوں کے علم
آئے گی وہ صبح فردا وہ سحر امید کی
اپنے دامن میں لیے تازہ بہاروں کی مہک
صبح کا تارہ نئی امید لے کر آئے گا
یاس کے بادل چھٹیں گے
چار سو چھائے
بھرتے ہیں وہ لمحے میری یادوں میں شرارے
جب راہ میں ہر سمت اندھیروں کے ستوں تھے
اک آگ کے دریا کا سفر تھا ہمیں در پیش
ہم قافلہ درقافلہ اس آگ سے گزرے
جلتے ہوئے شہروں کی فضائوں سے گزر کر
ہم نورِ یقین دل میں بسائے ہوئے آئے
اس آگ سے ہم نے کئی گلزار بنائے
پرچم پہ اتر آیا ہلال اور ستارا
چوکس رہے برجوں میں جمائے ہوئے نظریں
جب بھی کسی دشمن نے ہمیں گھور کے دیکھا
دھرتی پہ ، سمندر میں، ہوائوں میں لڑے ہم
یہ دیس ہے پائندہ سبھی مل کے پکارے
افلاک سے اترے کئی رحمت کے اشارے
پھر آج ہر اک سمت یہ نفرت کا دھواں ہے
آواز دو وہ جذبہِ تعمیر کہاں ہے
وہ نورِ یقیں پھر سے اندھیروں سے نکالو
طوفان ہے طوفان ہے کچھ خود کو سنبھالو
تخریب کے طوفان سے پھر لڑنا ہے ہم کو
تعمیر وطن کے لیے ہر سمت بڑھیں گے
تنظیم کے سورج کی بکھرتی ہوئی کرنیں
ہم اپنے ارادوں میں نگاہوں میں بھریں گے
ہم کل بھی بپھرتی ہوئی ظلمت سے لڑے تھے
ہم آج بھی نفرت کے اندھیروں سے لڑیں گے
میں ایک پاکستانی ہوں۔ ہر پاکستانی شہری کی طرح مجھے بھی اپنے وطن سے بہت محبت ہے ۔ میں شادی کے بعد سے تقریباً بائیس سال سے پاکستان سے باہر ہوں ۔ مگر کیا آپ یقین کریں گے کہ میں ایک لمحہ کو بھی اس سے غافل نہیں رہی ۔ یہ مذاق نہیں مگر میرے پرس میں ایک چھوٹی سی ڈبیہ میں اپنے وطن کی مٹی رکھی ہوئی ہے جو میرے اس احساس کواور بڑھا دیتی ہے کہ میں اس سے قریب ہوں اورمجھے اسی سے جڑا رہنا ہے ۔میری موت اور زندگی اسی سے وابسطہ ہے ۔ میرے شوہر کا بزنس پوری دنیا میں پھیلا ہؤا ہے ۔ اور میں ان کے ساتھ بیرون ممالک خصوصاًمغربی دنیا کے ملکوں میں رہتی ہوں۔ مجھے غیر مسلم مغربی خواتین کے سامنے کبھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہوئے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔ بلکہ گیارہ ستمبر اور سات جولائی کے بعد سے تو میں نے اپنے تعارف میں مسلم پاکستانی خاتون کہنا شروع کر دیا ہے ۔ مجھے اپنے وطن کی ہر چیز خواہ وہ کچی پکی گلیاں ہوں یا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، گندے پانی کی نالیاں ہوں یا گلے سڑے پھل اور سبزیاں ، سب بے انتہا عزیز ہیں۔
اگست کا…
’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے ناگواری سے ٹرے پیچھے کھسکائی۔
’’تمہارے بابا کوئی مل اونر نہیں ہیں جو روز مرغ مسلّم بناؤں گی۔اتنی مہنگائی ہے اتنی مشکل سے خرچہ پورا کرتی ہوں پر نواب صاحب کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے‘‘۔
مریم غصےمیں ذرا اونچی آواز میں بولی، پر آج کے بچے کب کسی کی اونچی آواز برداشت کرتے ہیں خواہ سامنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
’’تو یہ بینگن بھی نہ پکاتیں، اپنی بچت کا گلّہ بھر لیتیں…. ہم بھوکے مریں آپ کو اس سے کیا‘‘ تابش نے چیخ کر جواب دیا اور ٹرے کو مزید زور سے دھکیلتا ہوا تن فن کرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ مریم بھی غصہ میں اس کو مارنے کو لپکی پر تابش دروازہ مقفل کرچکا تھا۔
مریم کا دماغ کھولنے لگا، وہ بڑبڑاتی ہوئی فرش پر گری سبزی صاف کرنے لگی۔
مریم کے تین بچے تھے بڑا بیٹا تابش جو چودہ سال کا تھا اور دس سال کی جڑواں بیٹیاں ثانیہ اور ہانیہ ‘تابش حد سے زیادہ خود سر ہوگیا تھا نہ آنکھ میں مروت رہی تھی نہ زبان میں لحاظ ‘بچپن ہی سے تھوڑا ضدی تو…
’’یار یہ پھوپھیاں ہوتی ہی فساد ہیں۔ دماغ کھا گئیں جاوید انکل کا کہ حصہ دو ہمارا… اوپر سے وہ عبداللہ! اپنے ابا کے پیچھے ہے کہ بابا حق دار کو حق دے دیں۔ابھی جاوید انکل سے نیچے ملاقات ہوئی وہ کہہ رہے تھے تم ہی عبداللہ کو سمجھاؤ، کہتا ہے دین یہی ہے مشکل حل کرنے والا اللّٰہ ہے دوکان بیچنے سے رزق کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔ اس کو کون سمجھائے کہ میں چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں ،کیا ملے گا حصے میں!‘‘
’’عبداللہ کے دادا کے انتقال کو ڈیڑھ سال ہوگیا ناں؟‘‘
میں نے اپنے میاں سے پوچھا جو اپنے پڑوسی جگری دوست کے گھر کے متعلق بات کر رہے تھے اور کافی پریشان تھے ۔
’’ ہاں دو سال ہوگئے ۔ مگر دیکھو مجبوری بھی کوئی چیز ہے یوں بنی بنائی دوکان کا بٹوارہ آسان نہیں‘‘۔
’’ہمم… مگر اپنا ہی حق تو مانگ رہی ہیں‘‘۔
’’ان کا ہی ہے کون منع کرتا ہے مگر تھوڑے صبر سے کام لیں ان لوگوں کو کہیں اور اپنے قدم جمانے دیں پھر دے دیں گے ۔یہ عبداللہ جب سے جماعت میں جانا شروع ہؤا ہے یک طرفہ بات کرنے لگا ہے۔ بھئ دین دنیا دونوں دیکھنے چاہئیں ۔اپنے باپ کی مجبوری کو…
سرسہ سے بیکانیر کے راستے فورٹ عباس پہنچنے کا حال…جب موت چاروں طرف منڈلاتی تھی
ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے سرسہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ، اور فیئر ڈیلرز ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے ایک تجارتی ادارہ قائم کیا ،رہائش کے لیے والد صاحب نے حکیم محمد عبد اللہ صاحب اورجماعت اسلامی سے متعارف اور کئی ساتھیوں سے مل کر شہر سے باہردارالسلام کے نام سے ایک بستی تعمیر کی ۔مقصد یہ تھاکہ ایک ایسی بستی بنائی جائے جہاں مکمل طور پر اسلامی اخوت کاماحول ہو اوربچے اس پاکیزہ فضا میں پروان چڑھیں۔
اس سے پہلے سیدابو الاعلیٰ مودودی ؒ پٹھانکوٹ میںدارالسلام کے نام سے بستی تعمیر کر چکے تھے اوردارالسلام سرسہ کی تعمیر میں بھی وہی جذبہ کار فرما تھا۔1946ء کے آغاز تک اس نئی بستی میں تقریباً پندرہ گھر آباد ہوچکے تھے اور ایک مسجد بھی تعمیر کرلی گئی تھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ محترم الطاف حسن قریشی مدیراردو ڈائجسٹ کا گھرانہ بھی سرسہ شہر میں ہی آباد تھا اور جب 1946ء ء میں رمضان المبارک آیا تو ان کے برادر بزرگ حافظ افروغ حسن نے ہمیں تراویح کی نماز پڑھائی ۔
1946ء 1947ء کادور ہندوستان میں سیاسی سرگرمیوں کے عروج…
جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی ،تینوں بڑے بچوں نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی ، شازیہ نے کچن سے آواز لگائی ’’ کون ہے ؟‘‘
’’ ماسی بی بی آگئیں ماسی بی بی آگئیں ‘‘بچوں نے جالی والے دروازہ میں سے دیکھ کر کورس میں جواب دیا۔
شازیہ کام چھوڑ تولیہ سے ہاتھ صاف کرتی تیزی سے دروازہ کی طرف لپکی اور جھٹ سے کُنڈی کھول دی ، ماسی بی بی حسب سابق و عادت ڈھکنے والی پلاسٹک کی ٹوکری اور دو تین گٹھڑیاں دائیں بائیں رکھے بیرونی برآمدہ میں کھڑی تھیں دروازہ کھلتے ہی بچوں نے لپک کر اُن کا سامان اٹھایا اور اندر کی طرف دوڑلگا دی ، وہ جانتے تھے کہ گٹھڑیاںان کے پسندیدہ سامان سے بھری ہوئی ہیں ۔
’’ ماسی بی بی کو اندر تو آنے دو ‘‘شازیہ کی ڈانٹ بے کار رہی ، ماسی بی بی مسکراتی ہوئی شازیہ کے گلے لگ گئیں شازیہ نے پیار سے اُن کے بڑے کمرہ میں بچھے پلنگ پربٹھایا اور بولی ۔
’’میں آپ کے لیے شربت بنا کر لاتی ہوں ‘‘۔
’’ نہیں شازی نہیں ، میں ابھی کچھ نہیں لوں گی میرا من بہت بھرا ہؤا ہے ، بس تم میرے پاس بیٹھ جائو ‘‘انہوں نے محبت سے شازیہ کا…
کریم تپتی دھوپ میں ویران سڑک پر بھاگا جارہا تھا _یہ سڑک مارکیٹ سے کچی آبادی کو ملانے والا ایک مختصر راستہ تھی جس پر ٹریفک بہت کم ہوتی تھی اور اس وقت ویسے بھی گرمیوں کی دوپہر تھی جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں۔
بھاگتے بھاگتے کریم کا سانس پھول رہا تھا لیکن وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔سڑک کے آس پاس خوبصورت بنگلے تھے جن کو وہ کبھی کبھار رک کر دیکھا کرتا تھا لیکن اس وقت اس کا دھیان گھر کی طرف تھا ۔کریم مکینک کی دکان پر کام کرتا تھا،اس سے جو قلیل سی تنخواہ ملتی اس سے بمشکل گھر چلتا۔اس کی چار چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں اور اب اس کی بیوی دوبارہ امید سے تھی ۔کریم اور اس کی بیوی نے بہت دعائیں مانگی تھیں کہ رب اس بار انھیں بیٹا دے دے ۔
امید…. جو اندھیرے میں روشنی کی مانند ہے ،امید جس پہ دنیا قائم ہے….یہ امید کسی انسان کی بجائے خدا کی ذات سے ہو تو اس میں یقین شامل ہو جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک سب کی سنتا ہے !
سڑک کے کنارے ایک پتھر سے کریم کو ٹھوکر لگی تو وہ رک کر اپنا زخمی پاؤں دیکھنے لگا…
یہ 1947کی ایک اداس رات ہے مگر سیاہ اور خاموش نہیں ۔ چاندنی اور ریل نے اسے سفید اور شور زدہ کر دیا تھا۔ چاندنی کسے نہیں اچھی لگتی مگر آج اس ریل پر سوار ہر مسافر کی یہی دعا تھی کہ چاند بادلوں میں چھپ جائے اور ریل بنا آواز کے سفر کرے۔ چاندنی کی ہر کرن اور ریل کی مسلسل چھکا چھک ان کے سینے میں تار کول انڈیل رہی تھی کہ وہ ایسے سفر کے راہی تھے جہاں قدم قدم پر موت کی سنسناہٹ سنائی دیتی تھی۔
یہ پریشان حال مسافر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے بھار ت سے پاکستان جانے والی ریل میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ محو سفر تھے۔ ریل نے اپنی استطاعت سے زیادہ وزن اٹھا رکھا تھا۔ جن کو اندر جگہ نہ ملی وہ چھتوں ، کھڑکیوں اور دروازوں میں چپکے تھے،ہاتھ سن ہو چکے تھے مگر دشمن سے بچ کر پاکستان پہنچنے کی خواہش نے گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔ سامان کی گٹھڑیاں اور انسانوں کے سمٹے سمٹائے اجسام میں کوئی فرق نہیں تھا سب مسلے جا رہے تھے۔ بچوں کی رونے کی آوازوں کو جھوٹی تسلیوں سے دبایا جا رہا تھا ،کھڑکیوں سے چپکے لوگ دور افق کے پار پاکستان کی سرحدوں…
’’مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی پریکٹیکل اور محب وطن کیسے ہو سکتا ہے جتنا کہ محترمہ تسنیم عبدالقدوس ہیں ،استغفراللہ ،حد ہی ہو گئی ویسے ‘‘ نیلم نے ناک منہ چڑھاتے ہوئے اپنی اردو کی نئی ٹیچر کی شان میں کلمات ادا کیے۔
’’واقعی آنٹی ،نیلم بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو اس سے بھی زیادہ ،جب سے وہ ہمارے کالج میں آئی ہیں سارے کالج میں ان کی ذات کو ہی ڈسکس کیا جاتا ہے ۔عجیب سی عادتیں ہیں…. چلیں جی دوپٹہ سے چوبیس گھنٹے سر ڈھانپنا ،اپنی چیسٹ کو کور کرنا تو سمجھ میں آتا ہے اسلامیات کی منزہ عباسی بھی اسی طرح کی ہیں ویل کرنے والی…. دس سال کا بچہ بھی گزر جائے تو منہ ڈھانپ لیتی ہیں، مالی بابا تک سے پردہ کرتی ہیں ۔لیکن یہ تو بھئی ان سے سات ہاتھ آگے ہیں ،کوئی انڈین فلمیں نہ دیکھے انڈین فلمسٹاروں کو ڈسکس نہ کیا جائے کوئی بسنت یا ہولی کی بات نہ کرے اور تواور ہماری جی آر نے بولتے ہوئے چنتا کا لفظ بول دیا توبہ توبہ انہوں نے اس کا جو کریا کرم کیا جو شامت بلائی اللہ ہی معاف کرے ‘‘نیلم کی دوست عالیہ…
یہ دردوغم!
حنا سہیل۔ جدہ، سعودی عرب
ہر دور کے مختلف درد ہوتے ہیں !
بچپن کے درد بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں کہ میری سہیلی نے اگر کسی دوسری لڑکی سے بات کرلی یا اس کو دوست بنانے کی کوشش کی تو سارا دن دل میں کھدبد ہوتی رہتی تھی اور ایک درد سا محسوس ہوتا ۔اس کو ہم دکھ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کہیں میں اپنی عزیز ترین دوست کو کھو نہ دوں یا اس سے الگ نہ ہوجائوں ۔ ٹیچر نے کلاس میں ڈانٹ دیا ،اب یہ اتنا بڑا درد ہے کہ اگلے دن بھی دل میں رہے گا، رات کو بھی سوتے ہوئے یہ سوچ رہے گی کہ سب دوست کیا سوچیں گے۔
اگلی منزل جوانی کی ہے۔ اس کے تو سارے درد میٹھے میٹھے ہوتے ہیں ، محبت کا درد میٹھا اور سرور دینے والا ہوتا ہے، بندہ اس درد کو بہت عزیز رکھتا ہے ،اس درد میں جیتا ہے ۔اگر جس کو وہ چاہتا ہے کسی وجہ سے جدائی مقدر ٹھہرے تو یہ درداور سوا ہوجاتا ہے ، انسان بولایا بولایا پھرتا ہے اس کو سمجھ نہیں آتی کہ اس درد کا مداوا کیسے کرے، کس سے اس کا ذکر کرے یا چپ رہے دل میں اس…
جب چلتے ہوئے آپ کے گھٹنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنی شروع ہو جائیں، نظر کمزور اور داڑھی سفید
ہوجائے، تو کوئی ہے جس کے لیے اس وقت بھی آپ ہیرو سے کم نہیں ہوں گے، فیصلہ آپ کا ہے!
چاہے سارا سر اور داڑھی سفید ہو جائے، کمر خم کھا جائے، ہاتھوں میں رعشہ طاری ہوجائے، دو باتیں کرنے کے بعد تیسری بات کرتے ہوئے کھانسی کا گھونٹ بھرنا پڑ جائے، چلتے ہوئے گھٹنوں، ٹخنوں سے چڑ چڑ کی آوازیں آنا شروع ہو جائیں، تو اس دور میں بھی اکثر حضرات کے دل میں یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ وہ کسی محترمہ کے دل کےمحبوب ہوں!
وہ 60 سال کی عمر میں بھی سر، داڑھی کے بالوں کو کلف لگا کر اپنے آپ کو جوان ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ شادی کے نام پر ان کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح کھل اٹھتے ہیں۔ شرمیلی مسکراہٹیں چہرے پر ڈیرہ جما لیتی ہیں۔
لیکن زندگی کے اس دور میں کسی محترمہ کے دل کا محبوب بننا شاذونادر ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ حضرات اپنے جوانی کے بہترین دور میں یہ نادر موقع گنوا چکے ہوتے ہیں اور ان کے برابر میں بیٹھی سفید بالوں والی اماں ان کے ساتھ صرف…
وہ کیا عوامل تھے جو مسلمانوں کو یہاں تک لے آئے تھے ۔ روز مرہ کی زندگی میں تو چند اہم وغیر اہم حقوق و مراعات کے لیے جدوجہد تھی لیکن ذہنوں کی گہرائیوں میں حفاظت ملی کا جذبہ اور عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی تمنا کار فرما تھی۔ ہر تحریک نے حکمرانوں کے دبدبہ کو کم کیا اور مسلمانوں میں احساس خوداری پیدا کیا ۔ خلافت کی تحریک نے مسلمانوں کی نگاہ کو ہندوستان کی سرحدوں سے باہر تک وسیع کر دیا ۔ سرخ پوشوں نے انگریز کے دبدبے کو وہاں دھچکا لگایا جہاں اُس نے اپنی پوری عسکری قوت مجتمع کر رکھی تھی ۔ احرار نے تحریکِ آزادی کو گھر گھر پہنچا دیا ۔ خاکساروں نے خلافتِ ارضی کے نام پر مسلمانوں کے عزائم کو بے باکی اور خدمت خلق کے نام پر اُن کی نگاہ کو عفت عطا کی ۔ آج اُن تحریکوں کے نفع و نقصان کے گوشوارے زیر مطالعہ آتے ہیں تو لوگ انہیں وقت اور خون کا زیاں سمجھتے ہیں ۔ہر انفرادی تحریک کے ابھار اور انحطاط پر غور کرنے پر شاید یہی تصور ابھرتا ہو لیکن بہتی ہوئی ندی کو ایک مقام پر رُک کر دیکھیے تو لہریں اُبھرتی ، کناروں سے ٹکراتی…
حقیقی اخلاق اور مصنوعی اخلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے، رویے باطن کے گواہ ہوتے ہیں اور اصل اخلاق وہ ہے جو رویوں میں سامنے آتاہے
حسن خلق کیا ہے ؟ اور یہ باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے کیوں اہم ہے۔ آئیے احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔
حسن اخلاق افضل مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ _ﷺنے فرمایا ’’مومنوں میں افضل ترین مومن وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق کامل ترین مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومنوں میں ایمانی اعتبار سے اکمل وہ ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے‘ جو اپنے پہلوؤں کو لوگوںکے لیے جھکانے والے ہیں اور لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ اس آدمی میں بھلائی نام کی کوئی چیز نہیں جو نہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی لوگ اس سے مانوس ہوتے ہیں‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق والا روزے دار اور تہجد گزار کے اجر کا ہم پلہ ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کے سبب رات کا قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کے درجات کو حاصل کرلیتا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق محبت الٰہی کی دلیل ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا:…
اللہ کا شکر ان خوبصورت اشیاء میں سے ہے جس کا صدور اچھے انسانوں سے ہوتاہے۔شکر تین حروف پر مشتمل مختصر سا لفظ ہے لیکن اس کے معنی بہت جامع اور بہت خوبصورت احساس لیے ہوئے ہیں۔اور کیوں نہ ہو کہ جب ہم ’’اللہ تیرا شکر‘‘ کے کلمات دل کے شعور اور احساس کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو پورا انسانی وجود ہی نہیں، اس کی روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔
ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی اندرونی کیفیات سے ہوتا ہے، تو شکر کی پیدائش کا مقام بھی دل ہے۔مومن بندہ اپنے دل کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی تربیت اس انداز میں کرتا ہے کہ وہ اللہ کا ’’شکر گزار بندہ‘‘ بن جائے۔
شکر کے لغوی معنی ’’عرفان الاحسان‘‘ کے ہیں۔ یعنی کسی کے احسان کو پہچاننا اور اس کا اظہار کرنا۔ شکر حقیقت میں ہر نرمی اور آسانی پر راضی اور خوش ہونا ہے۔ اصطلاح میں شکر نعمت کا سامنا معروف طریقے سے کرنا ہے خواہ شکر زبان سے کیا جائے یا ہاتھ سے یا دل سے۔ اس میں بندہ عطا کرنے والی ذات کا شکر ادا کرتا ہے۔یعنی بندے کی شکر گزاری یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر کر…
ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان کے پاس سرگودھا رہنے جاتے۔
کبھی کبھی گھر کے کاموں میں بظاہر مصروف بڑی امی کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ۔ کبھی کسی خاص موسم کو دیکھ کر ، کسی خاص پکوان کو تیار کرتے ہوئے۔ اس کی خوشبو میں شاید کسی کی یادیں چٹکیاں لیتی تھی ۔کبھی بچوں کو ان کے اپنے بچپن کے تانبے اور پیتل کے برتنوں سے’’ آپا بوا‘‘کے کھیل میں منہمک دیکھ کر ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ۔ان کے شوہر، بیٹیاں اور بیٹا جان جاتے کہ پریشانی کیا ہے۔موسم کے رنگوں،پکوان کی خوشبو ،مخصوص کھیل کے تانے بانے کہاں سے جا کر ملتے ہیں ۔وہ سب ان کی دلجوئی کی خاطر جمع ہو جاتے۔تسلیاں دیتے ،دل بہلاتے لیکن ان کی طبیعت کسی غم کے بوجھ تلے دبی سسکتی رہتی۔
کبھی بے کلی کے ان لمحات میں وہ اپنی ایک پرانی کتاب کا ورق کھول کر کافی دیر اسے دیکھتی رہتیں ۔اس میں جذب اور گم ہو جاتیں ۔ آنکھوں سے آنسو قطاراندر قطار بہتے چلے آتے ،پھر وہ اس میں سے ایک پیاری سی چھوٹی سے…
بات بچوں کی تربیت کی ہو رہی تھی اور چلی مرد کی مردانگی پر گئی۔ کچھ کے خیال میں گھر کے کام صرف عورتوں سے منسلک ہیں لہٰذا مردوں سے جوڑنا مناسب نہیں چاہے وہ بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ لڑکوں کے تربیتی مراحل میں ایسا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تعلق گھر کے کاموں کچن وغیرہ سےہو کہ اس سے ان کی مردانگی پر حرف آئے گا۔ ایک صاحبہ کا کہنا تھا گھر کے کام سکھا کر انھیں ہیجڑا نہ بنائیں مردوں سے مردانہ کام ہی کروائیں۔
اس بحث کے تناظر میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے کاموں کو علیحدہ کرنے کا سوچا تو کئی الجھنیں در آئیں ۔کچھ بنیادی سوالات بھی تھے ۔ نفسیات کی ایک پروفیسر سے ملاقات میں کچھ الجھنیں کہہ ڈالیں۔
گویا ہو ئیں ایک بچے کی کامیابی کا سفر اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ وہ مختلف کاموں کا خود تجربہ کرےکسی بھی کام کو غیر اہم اور چھوٹا نہ سمجھےخود سےسوچے غور کرے اپنے عمل کی راہ نکالے۔
یہی چیز انسان کی فطرت میں بھی ہے۔ بچہ ابتدا میں ہر کام کی نقل کی کوشش کرتا ہے اسے ہر کام ہی اہم لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ اپنا دائرہ کار سمجھ کر اپنا…
بڑی مستعدی اور مہارت سے گھر کا رنگ و روغن جاری تھا ۔جو سامان باآسانی کھسکایا جا سکتا تھا اسے مزدوروں کی مدد سے صحن میں رکھوا دیا گیا تھا ۔بھاری سامان کو چادریں ڈال کر ڈھانپ دیا گیا تھا ۔برکت صاحب کے گھر برسوں سے اسی طرح رمضان المبارک کا استقبال کیا جاتا تھا ۔ نماز تراویح میں شرکت کے لیے آس پاس کی گلیوں سے بہت بڑی تعداد میں افراد ان کے گھر آتے ۔اب تو چند سال سے ان کاحافظ قرآن بیٹا اجمل بی تراویاں پڑھا رہا تھا۔دونوں بیٹیوں کے فرض سے فارغ ہو چکے تھے ۔بیٹا اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔بس اب تو ایک ہی تمنا تھی کہ اپنی شریک حیات کے ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ہو جائے ۔اسی لیے اپنی محدود آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ حصہ پس انداز کررہے تھے ۔
لائنز ایریا کی ان تنگ گلیوں میں وسیع صحن والا یہ واحد مکان تھا۔ اس کی پیمائش تو سب مکانوں کی برابر ہی تھی ‘ لیکن برکت قریشی کے گھر کا آنگن چار مکانوں کے برابر وسیع وعریض تھا۔اس کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ کسی زمانے میں اس ساڑھے چار فٹ کی تنگ رو کے بیچوں بیچ…
زندگی کی دی ہوئی مشکلات پر اندر ہی اندر کڑھنا، دنیا کی بےحسی، بے قدری پر نالاں رہنا کہ اس میں احساس و مروت اورخدا خوفی ہی نہیں ہے ۔
پھر خود ہی اس کی وکالت بھی کرنا اس کے مثبت اور منفی پہلو دیکھ کرفیصلہ اس کے حق میں دے دینا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں وہ ہمیشہ سے یہی تو کرتی آئی تھی۔ بچپن میں بھی کسی سے معاملہ ہوجاتا یہی چکر چلتا ایسا ہی کرتی ۔
کسی کا معمولی سا مثبت ردعمل ساری گندگی دھو دیتا اور وہ خوش ہو جاتی سوچتی آئندہ کبھی کسی کے بارے میں برا نہ سوچے گی۔
مگر کیا کہ چکر بار بار چلتا ،جیسے جیسے بڑے ہوئے چکر بھی پیچیدہ ہوتے چلے گئے ۔
سوال اٹھتا ۔ یہ ہر معا ملے میں اونچ نیچ کا چکر بار بار کیوں چلتا ہے ۔زندگی میں تسلسل،ٹھہراؤ کیوں نہیں رہتا ، شکر گزاری ،صبر و قناعت مختلف حالتیں کیوں بدلتی رہتی ہیں ۔اچھائیاں مستقل طبیعت کا حصہ کیوں نہیں بنتیں؟
ایک استاد کا جواب تھا ۔
زندگی ایک مستقل چکر ہے۔ جو اونچ نیچ سے عبارت ہے کچھ بھی تسلسل سے ہو تا ہی چلا جاتاتو اس کی چاشنی ختم ہو جاتی ۔
انھوں نے ایک واقعہ سنایا ۔
ایک خاتون کے…
قارئینِ کرام سلام مسنون
آپ سب کو عید الفطر مبارک۔خدا سب اہل وطن اور اہلِ امت کو عافیت اورخوشیوں کی عید دکھائے، رمضان المبارک میں کی گئی محنتیں اور دعائیں قبول و منظور فرمائے آمین۔ مارچ میں پہلے غیر متوقع گرمی کی لہر نے ڈرا کر رکھ دیااور پھر خوشگوار موسم کی واپسی ہوئی تو شدید بارش اور ژالہ باری کے ساتھ۔ کھڑی فصلوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ روزہ داروں کی خوشی کے لیےآغاز کے روزے ٹھنڈے رہے۔ رمضان کا مہینہ تقویم پر گردش کرتا موسم سرما کی سرحد تک آن پہنچا ہے، روزوں کی طوالت اور حدت دم توڑ گئی ہےاورآنے والے سالوں میں خوشگوار روزے منتظر ہیں۔البتہ حج کے دن ابھی کچھ سال شدید گرمی دیکھیں گے۔
ملک کا منظر نامہ حسبِ سابق امکانات، اندیشوں اور بحرانوں سے عبارت ہے۔ آئینی بحران اب عدلیہ کے بحران تک آپہنچا ہے۔ ہر ادارہ اخلاقی زوال کی انتہا پہ ہے۔امانت و دیانت، سچ اور اصول پرستی، ثابت قدمی اور کردار کی مضبوطی، باضمیر ہونا، نہ جانے یہ مثالیں کہیں ہیں بھی کہ نہیں، نجانے کوئی باکردار بچا بھی ہے کہ نہیں۔شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے! دل گہری مایوسی کی دلدل میں گرنا چاہتا ہے مگر پھرایک خیال حوصلہ…
طیبہ یاسمین مرحومہ بتول کی مستقل کالم نگارتھیں ۔ ان کے شگفتہ طرز تحریر کا ایک نمائندہ کالم اس بارقندِ مکرر کے طور پر منتخب کیا گیا ہے ۔
کرایہ دار کون ہوتا ہے ؟
اس کی تفصیل اور تشریح تو بیان کرنے کی میرے خیال میں کوئی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ یہ ہر ملک کی آبادی کے اہم مکین ہوتے ہیں ۔ ان میں بچے ، بوڑھے ، مرد اور عورت سبھی شامل ہوتے ہیں۔ البتہ اس طبقہ کی مظلومیت ، بے کسی اور بے وقعتی سے کوئی کوئی ہی واقف ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ معاشرہ کے دوسرے درجہ کے شہری ہوتے ہیں ۔ ان کا محلہ میں کوئی مستقل سماجی مقام نہیں ہوتا اور ان سے سماجی لین دین ، میل ملاقات اور راہ و رسم بڑی عارضی سی ہوتی ہے ۔ محلہ کے تصفیہ طلب معاملات میں ان کی رائے کو بڑی کمزور حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ تو خانہ بدوشوں کی طرح آج یہاں ، کل وہاں ہوتے ہیں بھلا ان کی رائے لے کر کیا کرنا ؟
کرایہ دار بے چارہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں ۔ ہزاروں لاکھوں کے حساب سے روپے ادا کر چکتا ہے گھر اس کا اپنا ایک تنکا بھی…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
ماہِ اگست 2022ء کا ’’چمن بتول‘‘ کا شمارہ ( تحفظ آزادی نمبر) سامنے ہے ۔ سبز اورسفید رنگوں سے مزین ٹائٹل ہمارے پیارے پرچم کی ترجمانی کر رہا ہے ۔ گنبد خضریٰ کا رنگ بھی سبز ہے ۔ گنبد خضریٰ کے مکیں ؐ کے صدقے اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو خوشحال ، شادمان اورہر لحاظ سے محفوظ رکھے ( آمین)
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما صاحبہ کا حسب روایت بصیرت افروز تبصرہ و تجزیہ ۔ آپ نے نہایت دردناک لہجے میں تاسف کا اظہار کیاہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن آج تک یہاں اسلامی روح کا ر فرما نہیں ہوسکی ۔ آپ کے جملے اہم ہیں کہ ’’ اس وقت آزادی کی بقا کا سوال بڑی شدت سے اٹھ کھڑا ہؤا ہے۔ آج کی نسل کو پلیٹ میں ملی ہوئی آزادی کا اپنی آئندہ نسلوں کے لیے تحفظ کرنا ہے‘‘۔
’’ اللہ کا شکر ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا ایک روح پرور مضمون ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ جب ہم اللہ تیرا شکر ہے کے کلمات دل کے شعور اور احساسات کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو پورا انسانی وجودہی نہیں…
خلاف معمول روحی کے تمام کام رات کے8بجے تک نمٹ چکے تھے ۔ کھانا تیار تھا ۔ روٹی بھی پک چکی تھی ورنہ عامر کو گھر آکر کھانے کے لیے کافی دیر انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ اور تو اور روحی نماز سے بھی فارغ ہو چکی تھی۔ نومی کا ہوم ورک بھی مکمل کروایا جا چکا تھا ۔ اب تو نومی بھی سمجھ دار ہو گیا تھا۔ وہ بھی ضد کیے بغیر ،بدھ کو بغیر ستائے کام کرلیا کرتا تھا ۔ یہ کمال تھا اس 8بجے والے ڈرامے کا جس کا روحی کو پورے ہفتے بے چینی سے انتظار رہتا تھا ۔ اب تو عامر بھی اس ڈرامے میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔ ڈرامہ بھی بڑی محنت سے تیار کیا گیا تھا ۔ کرداروں کا چنائو ، ان کی ادا کاری ، ہدایت کاری ، کہانی ، ڈائیلاگز سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔ سب سے بڑھ کر اس کی خوبصورت ہیروئن۔ جس کی خوبصورتی ، لباس ، ادائیں ، بولنے کا انداز ۔ ہر چیز دل لبھانے والی تھی۔
’’ اُف کالے لباس میں کیا غضب ڈھا رہی ہے ۔ کتنی اسمارٹ ہے ۔ اس کے چہرے پر سرخ لپ اسٹک کتنا سوٹ کر رہی ہے…
ہم نے پچھلے ماہ ہی تو جشنِ آزادی منایا ہے ۔ ابھی تو گھروں پر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں مگر آزادی کا وہ مفہوم پہلی بار سمجھ میں آیا جب مظفر آباد اورنیلم وادی میں شہدا کے گھرانوں سے ملاقات ہوئی۔
وہ کیا مانگتے ہیں ؟
زندہ رہنے کا حق اور زندگی گزارنے کی آزادی !
یہاں کتنی مائیں اور بہنیں ہیں جن کے کلیجے میں جدائی کے تیر پیوست ہیں ! سبزے کا دو شالہ اوڑھے یہ پہاڑ پیلٹ گنوں سے بے نور کتنی آنکھوں کے نوحے سن چکے ہیں !
ان بے نورآنکھوں کی قسم !
جوان لاشوں پر بہنوں کے نوحے کی قسم !
مائوں کے پارہ پارہ دلوں کی قسم !
بوڑھے باپ کے شانوں کی قسم جو جوان لاشہ اٹھا کر ڈھلک گئے ہیں ان تار تار آنچلوں کی قسم جو آزادی کی قیمت ادا کر تے ہوئے ہوس کی نذر ہو گئے آزادی کی قیمت ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ کبھی نہیں جان سکتا ۔ اس ماں کے جسم کے ہر رونگٹے پر آزادی کی قیمت درج تھی جو اپنے دو بیٹے کھو چکی تھی اور تیسری لاپتہ ہے۔
ان کے لیے وہ زندگی کتنی خوب صورت ہے جس کی سحر آزادی کے بعد طلوع ہو گی ۔
اس روز…
القرآن دستورنا
قرآن کریم آسمان والے کی جانب سے زمین والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، یہ ذکرِ حکیم اور صراط المستقیم ہے۔اس سے عقل میں ٹیڑھ نہیں آتی اور نہ ہی زبان کسی التباس کا شکار ہوتی ہے۔علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اورنہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں۔ یہ مضبوط ومتین کلام ہے محض ہنسی مذاق نہیں۔
انسان کی دنیا وآخرت کی حقیقی فلاح کا واحد ذریعہ اللہ کے بتائے ہوئے دستور ِ حیات کی پیروی ہے۔قرآن کے سائے میں زندگی بسر کرنا ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔اس کی شان اور لذت وہی جانتا ہے جو اس سے لطف اندوز ہؤا ہو۔ اس سے زندگی کتنی بابرکت ہو جاتی ہے، اس کی شان کس قدر بلند ہو جاتی ہے، اور اسے باطل سوچ اور نظریات اور فاسقانہ اعمال سے کس قدر دور کر دیتی ہے، اور اسے کس قدر پاک اور اور ہر گندگی اور نجاست سے آزاد بنا دیتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایک ہی ضابطہء حیات بنایا ہے تاکہ وہ ہر معاشرے میں چلے۔انسانی ترقی کے ہر مرحلے میں اور بنی نوع انسان کے ذہنی ارتقا…
حضرت ابنِ مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں نہیں داخل ہوگا ایسا شخص جس کے دل میں ذرہ بھر کبر ہے۔ ایک آدمی نے یہ سن کر کہا: کوئی انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اور اس کا جوتا خوبصورت نظر آئے؟ آپؐنے فرمایا: اللہ رب العزت جمیل ہیں اور جمال کو پسند فرماتے ہیں، کبر تو یہ ہے کہ حق کو جان کر نہ مانا جائے اور لوگوں کی حق تلفی کی جائے۔(صحیح مسلم)
لباس کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے، یہ جاننے کے لیے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہواور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں‘‘۔ (الاعراف)
یہ تو طے ہے کہ لباس اللہ نے نازل کیا ہے یہ کوئی تدریجی عمل کا نتیجہ نہیں ہے،سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی سی پوشاک انسان کی بھی کیوں نہ بنا دی؟ظاہری…
ریگزاروں میں سرابوں کو سمو کے رکھنا
کیا ستم ہے کہ ہر اک راہ میں دھوکے رکھنا
یہ مرے اشک شرارے ہیں کہ انگارے ہیں
کتنا مشکل ہے انھیں آنکھوں میں روکے رکھنا
شوق سے آؤ مگر یاد رکھو اس دل میں
تم کبھی اپنے قدم اور کے ہوکے رکھنا
جانے کب غیب سے مضمون اترنے لگ جائے
تم سیاہی میں قلم اپنا ڈبو کے رکھنا
کب گوارا ہے کہ پھولوں کو کچل کر گزروں
تم مری راہ میں کانٹوں ہی کو بو کے رکھنا
داستانِ غمِ دل سن کے کہاں ممکن تھا
درد کا سیلِ بلاآنکھوں میں روکے رکھنا
سب سے پھولوں سا ملو کھِل کے مگر اس دل میں
تم ہمیشہ کوئی کانٹا سا چبھوکے رکھنا
سب سے ہنس ہنس کے ملو خوب کرو دلجوئی
یہ مرا دل ہے اسے خوب کچوکے ملنا
میں بھی انساں ہوں اسی میں ہے بھلائی میری
مجھ کو ہر لمحہ غلط بات پہ ٹوکے رکھنا
نعمت بھری جنت اللہ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جو اس نے اپنے متقی بندوں کے لیے تیار کیا ہے، اور اس کا وعدہ کیا ہے۔ اور اسے بندوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھاہے۔یہ نقص اور عیب سے پاک ایک محفوظ مقام ہے جس میں من چاہی نعمتیںمیسر ہوں گی۔یہ ابدی قیام کا ایسا گھر ہے جس کی کوئی مثیل نہیں۔جنت کا سرچشمہ اللہ کے کرم، اس کی عطا اور اس کے فضل اور عنایت سے پھوٹتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور نبی اکرمﷺ نے احادیث کے ذریعے اس جنت کا تعارف کروایا ہے، اور یہ کہہ کر اشتیاق کو دوبالا کر دیا ہے کہ:
’’ان کے لیے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے‘‘۔ (الانعام،۱۲۷)
یعنی ایسی جنت جہاں انسان ہر آفت سے محفوظ اور ہر خرابی سے مامون ہو گا۔
ایک اور مقام پر ان نعمتوں کو انتہائی پیارے انداز میں بیان کیا ہے:
’’پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے‘‘۔ (السجدۃ،۱۷)
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ خفیہ تعلق کی تعبیر کا عجیب انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود اپنے دوستوں کے لیے…
گرج چمک اور برستے بادل
پہاڑ پانی اگل رہے تھے
وہ تندر پلے جو بہتے بہتے
مبر ایک بستی نکل رہے تھے
بہت سے آنگن، پیسے ہوئے گھر
پلک جھپکتے اجڑ رہے تھے
وہ آزمائش میں پڑچکے تھے
تلاطموں سے جھگڑ رہے تھے
مگر بہا در جوان کیسے
بھر تے دریا سے لڑ رہے تھے
تباہ منظر ڈرا رہے تھے
مگر وہ موجوں سے بھڑ رہے تھے
ندا پنی جانوں کی فکر ان کو
دلوں میں جذ بے امڈ رہے تھے
بس ایک دھن تھی سواران پر
بچالیں ان کو جو مر رہے تھے
بنا کے ڈوری کے عارضی پل
غضب کی تدبیر کر رہے تھے
وہ خدمتوں کے عظیم جذ بے
دلوں کو تسخیر کر رہے تھے
مصیبتوں میں مدد کی خاطر
وہاں فرشتے اتر رہے تھے
مگر فرائض تھے جن کے وہ سب
ہوائی ہمدردیاں دکھا کر
ذرا سا راشن فقط گرا کر
لٹے پٹے اور تم رسیدہ
مصیبتوں میں گھرے ہوؤں کی
مزید تحقیر کر رہے تھے
جس بچے کے سرسے باپ کا سایہ اٹھ جائے ٗ وہ شریعت کی اصطلاح میں ’’یتیم‘‘ ہے اور چونکہ یتیم کی حفاظت کرنے والا ٗ اس کی ضروریات پوری کرنے والا اور اسے کما کر کھلانے والا موجود نہیں ہوتا ٗ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے خاص حقوق قائم کر رکھے ہیں تاکہ اس کی زندگی میں جو محرومی آگئی ہے اس کی تلافی ہو سکے۔
کلام پاک اور احادیث نبویہؐ کی روشنی میں یتیم ایک ایسی ہستی ہے جس کی کفالت کرنے والے ٗ نگرانی کرنے والے اور اس سے حسن سلوک کرنے والے کو بے پناہ اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ یتیم غریب بھی ہو سکتا ہے اور امیر بھی ٗ مگر دونوں طرح کے یتیموں کی نگرانی کرنے یا ان سے حسن سلوک کرنے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا گیا ہے اور یتیم کے نگران کو خاص ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرے جس میں یتیم کا فائدہ ہو۔
امیر یتیم کے نگران کی ایک تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس یتیم کی حفاظت کرے اور اس کے کاموں کا بندوست کرے اور دوسرے اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یتیم کے مال…
شکل ایک جیسی تھی نہ عقل ، قد کاٹھ ایک جیسا تھا نہ رنگ روپ ، مگر محبت ، سلوک، اتفاق سب لفظ ان دونوں کے تعلقات کے لیے بنے تھے ۔ دونوں سگی بہنیں نہیں تھیں مگر ان سے بڑھ کر تھیں ، خالہ زاد بہنیں جن کی دوستی میں چڑھائو ہی چڑھائو تھا ، اتار کا لفظ درمیان میں کبھی نہیں آیا تھا ۔ دونوں کی عمروں میں بس چار چھ ماہ کا فرق تھا ۔ ایک جاڑے کے اختتام پر ہوئی دوسری جاڑے کے آغاز پر ۔ بہت پیار تھا دونوں میں ایک ہی گلی میں دونوں کے گھر تھے ۔ ایک اس لمبی پتلی گلی کے شروع میں دوسری کا اختتام میں ۔ مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ شکل عقل فرق ہو ان میں دوستی نہیں ہو سکتی ۔ گو دونوں کی عادات میں بہت فرق تھا ایک پورب تھی دوسری پچھم ، ایک نکتہ چیں اور زبان کی دھار کو تیز ہی کیے رکھتی تو دوسری نرم مزاج صلح جو ، ایک کا ماتھے پر شکنوں کا جال رہتا دوسری کے ہونٹوں پر نرم نرم سی مسکراہٹ چپکی رہتی ۔
ان سگی خالہ زاد بہنوں کے نام ثوبیہ اور روہینہ تھے ۔ ثوبیہ رنگت میں…
دنیا بھر میں دیگر اقوام پر غلبہ پانے کے طریقے تبدیل ہوچکے ہیں۔جنگوں نے بھی اپنی شکل بدل لی ہے۔اب جغرافیائی سبقت لے جانے کے بجائے تہذیبی سبقت لے جانے کا دور ہے۔اسی جنگ کے دوران مسلم معاشرے پر تہذیبی غلبہ پانے کیلئے مختلف ادوار میں کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔حالیہ دور میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کے ذریعے پاکستان کے خاندانی اور معاشرتی نظام پر شدید حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس حملے کا اگربروقت تدارک نہ کیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔
پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عرف عام میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کہا جاتا ہے۔یہ قانون مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے آخری مہینوں میں پاس ہوا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کی بھر پور مخالفت کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔ جب یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوا تو وہاں پر وہ حقائق واضح ہوئے جو پردہ اخفامیں تھے۔آخر کیا وجہ ہے کہ تمام اسلام پسند حلقے اس بل کے حوالے سے تشویش کا شکار…
یوم حنین کا ایک واقعہ
ولید بن مسلم نے بیان کیا ہے، مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے ، ان سے ابوبکر الہذلی نے، ان سے ابن عباس کے غلام عکرمہ نے اور ان سے شیبہ بن عثمان نے روایت بیان کی۔ شیبہ کہتے تھے کہ میں نے یومِ حنین کے موقع پر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ تنہا ہیں۔ مجھے اپنا باپ اور چچا یاد آئے۔ انھیں علیؓ اورحمزہؓ نے قتل کیا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ آج انتقام کا موقع ملا ہے۔
میں نے آپؐ کے دائیں جانب سے آپ ؐ کا رخ کیا۔جوں ہی میں قریب پہنچا تو آپؐ کے دائیں جانب عباسؓ کو دیکھا۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپؐ کے چچا ہیں۔ آپ کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت عباسؓ نے زرہ پہن رکھی تھی، جو چاندی کی طرح سفید تھی اور اس پر غبار نظر آرہا تھا۔ پھر میں نے بائیں جانب سے حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ قریب پہنچا تو آپ کے ساتھ ابوسفیانؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو پایا۔ میں نے سوچا یہ آپؐ کا چچا زاد بھائی ہے، یہ آپ کا بے جگری سے دفاع کرے گا۔ میں پیچھے ہٹ آیا اور سوچا کہ پشت…
دو بھائیوں کی اکلوتی بہن سکینہ جی ، ہر وقت موبائل میں مگن رہنے والی بلکہ موبائل فون تو اس کے ہاتھ کا کھلونا تھا ۔ یہ اس کا ایسا دل پسند کھلونا تھا جس کے بغیر اس کے دس منٹ بھی گزرنا مشکل تھے۔ پھرتیلی ماں کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اسے کوئی گھر کا کام بھی نہ کرنا پڑتا۔ اسے گھر کے کام کاج سے کوئی شغف بھی نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ماں نے کام کرنے کو کہا۔ اگر کبھی بھول چوک سے کہہ بھی دیا تو ہمیشہ کہہ کر پچھتائی کیونکہ تین چار گھنٹے بعد ماں کو وہ کام خود ہی کرنا پڑا۔ فارغ البالی اور خوب شکم سیری نے مل کر سکینہ جی کے بدن کو محض 19 سال کی عمر میں 90 کلو تک پہنچا دیا تھا۔ سکینہ جی تو اپنے پہاڑ جیسے وجود کے ساتھ بھی بے فکری اور مزے کی زندگی جی رہی تھی۔ یہ تو برا ہو ارد گرد بسنے والی نوع انسانی کا جنہیں سکینہ کی جائیداد میں مزید گوشت کا اضافہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اپنی زبان سے سکینہ کے سکون کو ڈسنا نہ بھولتے اور بات بے بات اسے موٹا ہونے کا احساس دلاتے۔
ان…
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کے بہت سے روزمرہ کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات تبدیل ہو جاتے ہیں، عبادات کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ملکوں میں سرکاری محکموں میں دفتری اوقات کم کر دیے جاتے ہیں۔ ذاتی کاروبار کرنے والے بھی اپنے اوقت کار میں ردوبدل کرلیتے ہیں۔ لوگوں کی دین کی طرف رغبت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ نیکیوں کا اجر عام دنوں کی نسبت ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ نیکیوں کی بہار کا موسم ہے۔ ذیل میں رمضان کی برکت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسے کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اس مہینے میں خصوصی طور پر انجام دینے چاہئیں۔
اس مہینے کی مبارک ساعتوں میں زیادہ سے ز یادہ نفع حاصل کرنے کے لیے یہاں کچھ اعمال کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ امید ہے آپ انہیں مفید پائیں گے۔
تیاری اوراستقبالِ رمضان
انفرادی سطح پر تیاری کے لیے رمضان اور روزے کے بار ے میں قرآن و سنت کے احکام سے واقفیت حاصل کیجیے۔ مجموعۂ احادیث میں سے ’’کتاب الصوم‘‘ کو خاص طور سے دہرا لیجیے۔ اس کے علاوہ اس…
پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے جو حالات نظر آرہے ہیں ان کے اثرات مدتوں تک رہیں گے۔
ہر شعبہ زندگی کے دانشور اس آفت کی اپنی اپنی توجیہہ بیان کر رہے ہیں اور ہر کسی کا نقطہ نظر درست ہو سکتا ہے۔ کوئی دین سے دوری کے حوالے سے دیکھتا ہے اور اسے عذاب کہتا ہے، کسی کو آزمائش لگتی ہے اور کوئی حکومت کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے۔ اور کسی کی نظر میں عوام کا اپنا قصور ہے یا یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔
سب کے تجزیے درست ہو سکتے ہیں اور ہر تجزیہ کو غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ اگر مذہب کی خلاف ورزی ہوتی تو کیا صرف کچی بستیوں والے غریب مسلمان ہی گنہگار ہیں؟ دولت مندوں کے گناہ تو کہیں زیادہ خوفناک ہوتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ سیلاب، قدرت کے مادی اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی پہ آیا ہے۔ کرہ ارضی کی موسمی تبدیلیوں اور ان کی وجوہات کو نظر انداز کرنا۔ جنگلات کو کاٹنا، ڈیم نہ بنانا، بارشوں کے زیادہ ہونے کے امکانات کے پیش نظر بر وقت سدباب نہ کرنا بھی قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات…
میرے پیارے
سلامِ محبت!
اس ہفتے کا یہ دوسرا خط کہ تمہیں خوشخبری بھی تو سنانی ہے۔ ابوالقاسم تمہیں اپنا پہلا پوتا بہت بہت مبارک ہو ۔
تمہارا پوتا بالکل تمہاری تصویر ہے۔ ملتے تو تم باپ بیٹا بھی ہو مگر اس کے ماتھے پر دائیں جانب ویسا ہی من موہنا تل ہے، جس نے یونیورسٹی میں مجھے تمہاری جانب ملتفت کیا تھا۔ اللہ کی شان، ڈی این اے کی بھی کیا کیا جادو گری ہے۔ اللہ نے میری گودمیں ہوبہو تماری تصویر مجسم کر دی ہے۔ بہو خیر سے گھر آ گئ ہے اور اس کے چہرے پہ پھیلے ممتا کے نور نے اسے مزید خوب صورت بنا دیا ہے۔ میں تو اسے نظر بھر کر دیکھتی بھی نہیں، سدا کی وہمی جو ہوئی۔ اب اس بات پر بھلا ہنسنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہوتی ہے بھئ اپنی اپنی طبیعت اور تمہیں تو اچھی طرح سے علم ہے کہ مجھے نظر گذر سے کتنا ڈر لگتا ہے۔ قاسم نے دفتر سے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی ہے اور بالکل تمہاری طرح بیٹے کو گود میں لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ مجھے تو وہ پرانا، سہانا وقت یاد آ گیا۔
لو باتوں میں تمہیں پوتے کا نام تو بتایا ہی نہیں۔ تمہارے پوتے کا…
قارئین کرام! سلام مسنون
اب کے دو ماہ کے وقفے سے آپ سے مخاطب ہوں۔یہ عرصہ گویا قیامت خیز رہا کہ بیشتر علاقے شدت کے سیلاب کی نذر ہوئے۔ اب تک بھی آدھا ملک پانی کے زیر اثر ہے اور کثیر آبادی بے خانماں ہے۔جانی نقصان بھی ہؤا اور مال مویشی، گھر ، کاروبار سب تباہ ہوئے۔کھڑی فصلیں، باغات بربادی کا منظر پیش کررہے ہیں۔پاکستان میں اس شدت کا سیلاب ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب کہا جارہا ہے۔ عالمی تناظر میں گلوبل وارمنگ اس کا سب سے بڑا سبب ہے جس کو پیدا کرنے میں تو پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر جس کے اثرات کا سامنا کرنے میں پاکستان سر فہرست ہے۔ دنیا کی فضا کو خراب کرنے میں سب سے بڑا حصہ یو ایس اور یورپی ممالک کا ہے۔یہ خراب فضا مجموعی درجہ حرارت کو بڑھاتی ہے ، گلیشیئرپگھلتے ہیں اور ندی نالے،دریاچڑھ جاتے ہیں۔ یہی عمل جب نہایت تیزی سے اور مسلسل ہوتا ہے اور ساتھ غیر معمولی بارشیں مل جاتی ہیں تو پانی کناروں کو توڑ کر آبادیوں پہ چڑھ دوڑتا ہے ۔
مگراتنا ہی قصورہمارا اپنا بھی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے جو انتظامات کرنے چاہئیں تھے ہم ان سے غافل…
’’ تم نے کبھی جنت دیکھی ہے ؟‘‘
’’خدیجہ کے سوال پر وہ مونگ پھلی کھانے رک گئی تھی‘‘۔
’’نہیں تو … کیا تم نے دیکھی ہے ؟‘‘
’’دیکھی تو نہیں مگر سنا ضرور ہے اپنی دادی سے ‘‘۔
’’کیا کہتی ہیں تمہاری دادی؟‘‘ خدیجہ کی باتوں میں اس کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔
آج مس منزہ کے ہاں عید ملن پارٹی تھی ۔ انہوں نے پوری کلاس کو اپنے گھر پر بلا رکھا تھا ۔ اُسے بڑی منت سماجت کے بعد آنے کی اجازت ملی تھی ۔ ایک تو مس منزہ اس کی پسندیدہ ٹیچر تھیں اور پھر اس کی سب سے اچھی سہیلی خدیجہ بھی تو آ رہی تھی ، وہ کیسے نہ جاتی ۔ سو آج کا سارا دن انہوں نے خوب مزے میں گزارا تھا ۔ مس منزہ نے کھانے پینے کی کافی ساری چیزیں تیار کروا رکھی تھیں اور لڑکیاں بھی اپنے اپنے گھر سے کچھ نہ کچھ لائی تھیں ۔
شام ہونے کو تھی اب سب مس منزہ کے لان میں ادھر اُدھر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں کہ نجانے کیوں باتوں باتوں میں خدیجہ کو جنت کا خیال آگیا تھا اور اسے تو ویسے بھی نئی اور ان دیکھی جگہوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔
’’…
لفظ’’ سیرت ‘‘ کا لغوی مفہوم جانا ، روانہ ہونا ، چلنا ، طریقہ ، مذہب ، سنت ، ہیئت، حالت کردار ، کہانی ، پرانے لوگوں کے قصے اور واقعات ہے ۔’’اس کا مادہ ‘‘ سَارَ یسرو سیراً ہے۔ اصلاحاً سیرت عبارت ہے سرور دو عالم ؐ کے احوال و اوصاف سے چاہے وہ احوال و اوصاف اختیاری ہوں یا غیر اختیاری ، آپؐ کا حلیہ شریف شکل و صورت ، قدو قامت ، کثرت خویش و اقارب یہ سب غیر اختیاری ہیں ۔ آپؐ کے اوصاف تعلیمات، دعوت و تبلیغ، اقوال و افعال، کھانا پینا ، رہن سہن وغیرہ اختیاری ہیں۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ’’عجالہ نافعہ ‘‘ میں لکھا ہے حضورؐ کے وجود گرامی ، آپ ؐ کے صحابہ کرام اور آل عظام سے جو چیز تعلق رکھتی ہے نیز حضور اکرم ؐ کی ولادت مبارکہ سے لے کر آپ ؐ کے وصال تک کی تمام تفصیلات اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں ’’ سیرت ‘‘ کہلاتی ہیں۔
سیرت سے مراد آپ ؐ کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ ہے جس میں اعلان نبوت سے پہلے اور بعد کے حالات دونوں ہی شامل ہیں ۔ آپؐ کی زندگی کا ہرگوشہ آپ ؐ کا کردار ،عادات اطوار…
جاگ اے میرے ہمسائے خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
ٹیلے کے نیچے دبی زچہ، کیچڑ آلود زندگی کی اولین سانسیں لیتا نوزائیدہ وجود ، ہر سورقص کرتی موت اور پانی کا وسیع قبرستان ،ہر سوبکھرے درد ، اشکبار ویران آنکھیں، بے بسی،ویرانگی اورحسرتیں، دردناک ہر سو بدلتےمناظر ،زندہ لاشیں ، ایک ملبہ بنے گھر میں دبی لاش کے دو اٹھے ہاتھ، متاثرین سیلاب کی نمائندگی کرتے سراپا سوال ہیں کہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں ؟
اس وقت موجود دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں اس وقت کا المیہ صرف ہمارا ہی نہیں دنیا کووحشت ناک مستقبل کی بھی پیشگی جھلک دکھا رہا ہے۔ جنگلات جنھیں دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا تھا کٹتے جا رہے ہیں ۔ دنیا کا سب سے بڑا جنگل جنوبی امریکا میں ایمیزون طاس پر محیط برساتی جنگل ہے۔رقبہ 2510000 مربع میل، یعنی تقریباً پورے آسٹریلیا کے برابر، ہے نہ صرف اس کی بلکہ دنیا بھر کے جنگلات کی بے روک ٹوک مستقل کٹائی جاری ہے ۔
سرمایہ دارانہ نفسیات جنگلات کی کٹائی کر تے ،ذاتی مفادات کی خاطر پوری دنیا…
میں ظلمتوں سے بغاوت میں مارا جاؤں گا
اے روشنی تری چاہت میں مارا جاؤں گا
جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی
میں زعم فہم و فراست میں مارا جاؤں گا
میں بچ گیا بھی اگر ظالموں کے چنگل سے
تو منصفوں کی عدالت میں مارا جاؤں گا
میں سر بچا کے عدو سے اگر نکل بھاگا
تو ساری عمر، ندامت میں مارا جاؤں گا
جو آ گئی تو کوئی بھی نہیں ٹلا سکتا
ہر ایک حال میں صورت میں مارا جاؤں گا
تھی رہبروں سے شکایت، نہ تھی خبر مجھ کو
میں آج اپنی قیادت میں مارا جاؤں گا
خدا کا حکم اگر ہوں تو کیسے سمجھاؤ
میں مر گیا تو حقیقت میں مارا جاؤں گا
عدو سے پھر بھی ہے امید میں مرا جب بھی
تو دوستوں کی معیت میں مارا جاؤں گا
خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے
میں اور اور کی چاہت میں مارا جاؤں گا
جہاں میں چرب زبانی کے فن نے گر مجھ کو
بچا لیا تو قیامت میں مارا جاؤں گا
میں جب بھی مارا گیا دوستوں کے ہاتھوں سے
حبیبؔ انھیں کی محبت میں مارا جاؤں گا
زمین و آسمان پر بہار ہی بہار ہے
خدائے مہرباں مرے لیے یہ تیراپیار ہے
نکل پڑی ہیں کونپلیں خزاں رسیدہ شاخ پر
اثر یہ کس ہَوَا کا ہے، کہاں کا یہ نکھار ہے
یہ کہکشاں زمین پر فلک سے آئی ہے اتر
ندی رواں ہے نور کی، اندھیرا سوگوار ہے
جہاں جہاں نظر اٹھے، برس رہی ہیں رحمتیں
یہ بحرِ فضلِ بیکراں کا ایسا آبشار ہے
دلوں کو زندگی ملی تو روح پھر سے کھِل اٹھی
لبوں پہ اب صیام اور قیام کی پکار ہے
صدائے سابقو اٹھی تو مغفرت کو سب بڑھے
وہاں سجی دھجی بہشت محوِ انتظار ہے
ہوائے مہرباں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحرؔ یہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے
مذاق ہی مذاق میں کدو کے رائتے کی خوبصورت لفاظی اور دل نشین لہجہ میں حمنہ نے یو ٹیوب پر ڈیڑھ منٹ کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کردی ۔
ہائیں یہ کیا ! منٹوں سکینڈوںمیں اس کو پسند کرنے والے سینکڑوں سے ہزاروں میں جا پہنچے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنے فریج کی صفائی کی ایک منٹ کی وڈیو کھلکھلاتے جملوں میں بنا کر اپ لوڈ کردی تو سراہنے والے پانچ ہزار ہو گئے۔ اس نے سب کے مشورے پر یو ٹیوب چینل کھول لیا۔ عجیب حیرت کی بات تھی ، وہ مکھی مارنے کی وڈیو بھی بنا کر شیئر کرتی جیسے لوگ اسی کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ ٹک ٹک ٹک … لائکس کو منٹس… اللہ اللہ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ مذاق میں شروع ہونے والے کام میں اتنی لذت، شہرت اور دولت ہے !
پھر جب اس نے اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانے اور مخروطی انگلیوں میں نقلی ہیرے والی انگوٹھی کی وڈیو بنا کر خوبصورت کیپشن اور پس منظر میں دھیمے بہتے سُروں والا لتامنگیشکر کا گانا بھی ڈال دیا تو لوگ جیسے پاگل ہی ہو گئے ۔
آپ خود سامنے کیوںنہیںآتیں ؟ کیا آپ پردہ نشین ہیں ؟ کہیں آپ بھائی جان تو…
” بڑا مشکل کام ہے یہ روزے رکھنا۔ بڑی اماں آپ تو اب کافی بوڑھی ہو چکی ہیں۔ آپ کے لیے تو سہولت ہے نہ رکھا کریں روزے“ اپنی دھن میں بولتا دانیال بڑی اماں کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے قطعی ناواقف تھا۔
سونے پر سہاگہ اس کی چھوٹی بہن عائلہ بھی گفتگو میں شامل ہوگئی تھی۔
”نمازیں پڑھنا بڑا آسان ہے ناں جیسے…. اور یہ رمضان میں تو محترمہ امی جان تراویح پڑھائے بغیر بھی نہیں چھوڑتیں۔ اتنی گرمی، لوڈ شیڈنگ سکول کی پڑھائی اور اف یہ رمضان“ عائلہ نے منہ بنایا۔ اسے اس سال میٹرک کے بورڈ کے امتحانات دینا تھے۔
”سکول کی پڑھائی سے گھبرا رہی ہو میری طرح سیکنڈ ائیر میں پہنچو گی تو پتہ چلے گا کالج کی پڑھائی کتنی سخت ہوتی ہے“ دانیال نے چھوٹی بہن پر رعب ڈالا۔
” اچھا تو بڑی اماں میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ آپ اتنی کمزور اور بوڑھی ہو چکی ہیں نہیں رکھیں روزے “دانیال ایک بار پھر بڑی اماں سے مخاطب تھا۔
بڑی اماں ان کی رشتہ دار نہ تھیں بلکہ ان کی دادی جان کی کوئی دیرینہ سہیلی تھیں۔ دادی جان کی وفات کے بعد چونکہ وہ گائوں میں بالکل اکیلی رہ گئی تھیں اس لیےامی جان اصرار…
منیرہ بیگم کلینک سے باہر نکلیں تو مارے پریشانی کے برا حال تھا ، پائوں کہاںرکھتیں اور کہاں پڑتا ، خشک ہونٹ اورچہرے پر ہوائیاں انتظارگاہ میں بیٹھی انیلا نے یہ حالت دیکھی تو لپک کر ماں کو تھاما، کرسی پر بٹھایا اور پانی پلایا۔
’’کیا ہؤا امی جی ؟ اتنی پریشان کیوں ہیں؟‘‘
جواباً وہ اسے ٹکر ٹکر دیکھتی رہیں ۔ انیلا نے کچھ دیر اصرار کیا مگر وہ بولنے پر راضی نہ ہوئیں ۔ تھک ہار کر وہ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔ اسے علم تھا ڈاکٹرنے اُس کے بارے میں ہی کوئی بات کی ہے ۔ جہاں تک اُسے سمجھ آئی تھی اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔’’ شکر ہے جان چھوٹی‘‘ وہ دل ہی دل میں مسکرائی مگر چہرے پرسنجیدگی طاری رکھی ۔ کچھ دیر بعد منیرہ بیگم نے ہمت جمع کی ۔ ترحم آمیز نظروں سے انیلا کی طرف دیکھا اور اُٹھ کھڑی ہوئیں ’’ چلو گھر چلیں ‘‘۔
رکشے سے اتر کر گھر کی طرف بڑھتی انیلا کا بازو دبوچا ،’’ سنو، کسی سے ذکر نہ کرنا ‘‘۔
’’ کس بات کا ؟‘‘ وہ حیران ہوئیں۔
’’ جوبھی ڈاکٹر نے بتایا ہے اس کا ‘‘۔
’’ بھلا بتانے والی…
بھری دوپہر میں دروازے پر بیل ہوئی اور یوں لگا کہ بجانے والے نے انگلی دروازے پر ہی رکھ دی ہے۔ ہادی کو کمرے سے لاؤنج اور لاؤنج سے دروازے تک جانے میں جتنا وقت لگا اس میں بیل بجتی ہی رہی۔
”کھول رہا ہوں ، کھول رہا ہوں۔ کیا پوری کالونی کو جگانا ہے؟“ چلا کر کہتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا لیکن سامنے کھڑی ہستی کو دیکھتے ہی اس کی سٹی گم ہو گئی۔
”ا آ آپ؟ بوا وہ میں….“
”ارے ہٹو ہٹو سامنے سے۔ پتہ ہے مجھے…. کیا میں میں ؟“ بمشکل اس کو دھکیلتے ہوئے بوا اندر داخل ہو گئیں۔
اس نے مڑ کر دیکھا اور ضبط سے دانت پیس کر رہ گیا۔ دروازہ بند کر کے مڑا تو بوا کو خود کو گھورتے پایا ۔
”اب چلنا ہے یا دروازے پہ کھڑی رہوں؟“۔ ہادی نے ان کو دیکھا ، کچھ سوچا اور لمحے بھر میں اندر کی طرف دوڑ لگا دی لیکن ساتھ ہی وہ مسلسل چلا رہا تھا۔
”بھاگو دوڑو۔ قیامت آ گئی۔ قیامت آ گئی“۔
”ارے کیا ہو گیا ہے؟ کیا اول فول بک رہے ہو۔ کون آ گئی ؟“
ماما چپل اڑستے ہوئے لونگ سے باہر نکلیں۔ لیکن سامنے گیلری میں شاکرہ بوا کو دیکھ کر سٹپٹا کر گلے میں…
ڈھابے پر کھانا کھاتے یونیورسٹی کے تین دوستوں احمد ، عدیل اور شارق کے بیچ بحث چل پڑی کہ کھانا اور نصیب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
’’یہ سالن کی رکابی آگے کرنا ذرا‘‘ ان میں سے احمد جو کھانے کا رسیا تھا مگر جسم کا پھرتیلا تھا ، رکابی کی طرف اس وقت تیزی سے ہاتھ بڑھایا جب ڈھابے کا ملازم میز پر کھانا رکھ کر گیا۔
’’کھانا جو ہوتا ہے وہ نصیب کا ہے، کھائے بغیر بندہ مر نہیں سکتا ، جلدی کیا ہے بھئی ، یہ لو‘‘ ان میں سے عدیل جو کھانے پینے کا کوئی خاص شوقین نہیں تھا مگر کتابی کیڑا تھا ،بولا اور رکابی آگے بڑھا دی۔
’’ہائیں! اس کا مطلب بندہ کھانا کم کر دے تو اس کی عمر لمبی ہو سکتی ہے‘‘ شارق نے جو بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا اور چٹورا لگتا تھا ، کھانے سے ایک لمحے کو ہاتھ کھینچ لیا۔
’’ہاں میں نے ایک بار محلے کی مسجد میں مولوی صاحب کا درس سنا تھا ‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’تو کیا کہتے تھے مولوی صاحب‘‘احمد نے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا ۔
’’یہی کہ سانس آہستہ اور روک کر لو ، اور کھانا کم کھاؤ تو عمر میں اضافہ ہو سکتا…
زرک شدید اُلجھن کا شکار ہے۔اس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکی ایک وطن فروش دہشت گرد کا الزام لے کر اس کے سامنے ہے۔اس معاملے کی تفتیش اس کے ذمے لگائی گئی ہے۔ وہ اس پر رپورٹ بنا کر فوراً اس لڑکی سے الگ ہو جانا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کا تشدد کرنے کو تیار ہے۔پون جئے یا مرے اسے کوئی پروا نہیں۔پون سیل میں شدید خوف اور کمزوری کا شکار ہے۔اسے زرک سے سخت ڈر لگ رہا ہے۔وہ مسلسل اس کی موت کی دعائیں مانگتی ہے۔اسے اپنا سکول،بچے،پودے اور سب سے بڑھ کر بی بی بہت یاد آتی ہیں۔
ابھی کل کے زخم اس کے ہاتھ کی پشت پر اور پون کے دل پرتازہ تھے کہ وہ آج پھراس کے سیل میں موجود تھا اور سوال پر سوال کیے جا رہا تھا۔تکلیف دہ سوال…
چبھتے ہوئے سوال…
طنز سے بھرپور سوال…
’’تمہاری حساس جگہوں کے اردگرد بہت سارے گائوں ہیں اوراُن میں بے شمار لوگ بستے ہیں کیا سب کو پکڑ پکڑ کر اسی طرح سوال کیا کرتے ہو یایہ عنایت صرف مجھی پر ہے ؟‘‘پون زچ ہو گئی تھی اس کے سوالوں سے ۔
’’ نہیں یہ عنایت صرف تمھی پر ہے ‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولا تھا…
محترمہ رخشندہ کوکب اولین مدیرہ’’بتول‘‘26مارچ1959 بمطابق16رمضان المبارک کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ آج ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ان کی تحریروں کے ایک جائزے پر مبنی مریم خنساء مرحومہ کا تحریر کردہ یہ مضمون شائع کر رہے ہیں ۔ دونوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی اصلاحی ادب کی داعی تھیں اور دونوں نے جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کوجنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں لکھے جانے والے اردو ادب پر کئی بیرونی افکار و نظریات کا غلبہ تھا۔ ایک طرف ملحدانہ فکر اور سوشلزم کے رحجانات غالب تھے تو دوسری طرف سفلی اور غیر اخلاقی سوچ نمایاں تھی۔ اس وقت چند با شعور خواتین نے ادب برائے زندگی ، زندگی برائے بندگی کے ادبی نظریے کو پروان چڑھایا۔ اس ہراول دستے میں ایک اہم نام ’’رخشندہ کوکب‘‘ بھی ہےجو پہلے منور سلطانہ اور بعد میں رخشندہ کوکب کے قلمی نام سے لکھتی رہیں۔ انہوں نے متفرق رسائل میں کئی مضامین‘ مراسلے اور افسانے لکھے۔ بعد ازاں اپنا رسالہ عفت ( جو بعد میں ’’بتول‘‘ کے نام سے شائع ہو رہا ہے) جاری کیا جس نے اصلاحی ادبی محاذ کی…
الحمدللہ ایک بار پھر اللہ رب العزت رب رحیم کی رحمتوں کا فیضان تھا ۔ ایک بار پھر یہ حقیر ذلیل گناہوں میں ڈوبی ہوئی ناتواں بے وقعت کمزور محتاج لاچار عاجز و حقیر بندی رب عظیم کے عظیم در پہ حاضر ۔جہاں سب کے لیے رحمتوں کے در وا ہیں ۔ جہاں مغفرت کی برکھا خوب ٹوٹ کر برستی ہے ۔
جہاں جلال وکمال کا کمال ہے ۔ جہاں محبتوں کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔جہاں عطاوبخشش کی انتہا انتہائی عروج پہ ۔جہاں ہیبت ہے ۔ رعب ہے ۔ جہاں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ،بڑے بڑے متقی و پرہیز گارلرزاں ہیں ۔جہاں گناہوں میں لتھڑے ہوئے شان غفاری شان ستاری کی گھنی چھاؤں میں سکون قلب وروح سے مالا مال ہیں ۔
جہاں میرے جیسی گناہ گارجس کے سر پہ گناہوں کی بھاری گٹھری ہے اور دامن عمل صالح سے خالی ۔
اس در پہ اپنائیت کا احساس غالب ہے ۔ یہی تو میرا اللہ ہے میرا اپنا رحیم اللہ کریم اللہ ،الحمدللہ!کتنا سکون ہے یہاں ۔ کیسے دل کا غبار دھل سا گیا ہے۔کہیں یہ منافقت تو نہیں ؟
آنسو کیوں خشک ہیں ۔ پتہ نہیں خوشی ہے ، اپنائیت ہے ؟ استغفر اللہ کہیں میرے…
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
علامہ اقبال کے اس شعر میں مطالب و معانی کا ایک سمندر موجزن ہے۔ اس شعر میں علامہ کے دل کی تڑپ جھلکتی ہے ایک درد پنہاں ہے، دردِ دل ۔ مسلم قوم کے لیے ایک پیغام بیداری کا ، اولولعزمی کا ، اپنے کھوئے ہوئے وقار کو ، مقام کو حاصل کرنے کا پیغام ۔ علامہ جب مسلمانان ہند اور مسلمانانِ عالم کی دگر گوں حالت دیکھتے ہیں تو ان کا دل روتاہے ۔ وہ مسلمان کوان کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہیں جب مسلمان ایمان کی دولت سے مالا مال تھے ، یقینِ محکم ان کے اندر موجزن تھا ۔
یقیں محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
علامہ بار بار اپنے اشعار میںمسلمانوںکو ان کی عظمت رفتہ یاد دلاتے ہیں اوران کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کاش مسلمان پھر اپنا وہ کھویا وہ مقام دنیا میں حاصل کر سکیں ، کاش مسلمان نوجوان یہ یاد رکھیں !
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے…
ہم اکثر مغرب سے شاکی رہتے ہیں ان کی تہذیب کو فرسودہ ، فخش سمجھتے ہوئے معاشرتی اقدار کو تباہی کے دوراہے پہ گامزن خیال کرتے ہیں حالانکہ اگر نیک نیتی کے ساتھ مغرب کا جائزہ لیں تو اخلاقی بے راہ روی ان کے ہاں سرائیت کر چکی ہے مگر معاشرتی اعتبار سے انہوں نے خاصی ترقی کی ہے ۔ انسانی حقوق اور قانون کی پابندی ان کے یہاں بلند مقام پر ہیں ۔ سائنسی ترقی کا تو کہنا ہی کیا ! وہ جو کبھی اقبال کا تصور تھا کہ ’’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘۔ اس کی حقیقی تصویر کی دیگر ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈالنے کی خبریں آتی ہیں ۔ وہ جو کبھی کہا جاتا تھا کہ آسمان پر تھگلی لگائے گا اس کا حقیقی روپ آج کی سائنسی ترقی میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہی نہیں بیماریوں کے حوالے سے پنسلین کی ایجاد نے جو انقلاب برپا کیا تھا وہ اب قصہ پارینہ ہے۔
آج تو اینٹی بائیو ٹیکAntibioticکی چوتھی جنریشن عام استعمال میں ہے البتہ کینسر ، ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں تحقیق جاری ہے کمپیوٹرکی ترقی نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے ۔ ہم ان تمام فوائد…
جب میں جامعہ میں آئی
بنت اصغر
میں ایک عام سادہ سی لڑکی ہوں ۔ دیہات میں رہتی تھی ۔ بس پرائمری تک تعلیم حاصل کی ۔ گائوں گوٹھوںمیں اس سے زیادہ لڑکیوں کو اسکول بھیجا بھی نہیں جاتا مگر میرے والدین او ر مجھے خود کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور پھر ہمارے ہاں سے دو تین لڑکیاں شہر سے باہر پڑھنے بھی گئی تھیں اور ہاسٹل میں رہتی تھیں ۔ مجھے بھی شوق ہؤا سو تھوڑی سی کوشش کے بعد میں مطلوبہ جگہ پہنچ گئی۔
ایک بہت بڑی عمارت جو بہت خوبصورت تھی اس کے اندر داخل ہوئی تو دل خوف سے کانپ رہا تھا ۔ میں یہاں رہ پائوں گی … اماں بابا سے دور ؟ آ تو گئی ہوں واپس گئی تو بڑی سبکی ہو گی۔
آنکھیں تھیں کہ جل تھل ہوئی جا رہی تھیں ۔ اللہ مجھے ثابت قدم رکھنا آمین ۔ تعلیمی ادارہ تھا یا بھول بھلیاں ۔ اتنے ڈھیر سارے دروازے کہ آدمی جانا کہیں چاہے اور پہنچ کہیں اورجائے۔
خیر پرانی طالبات نے بڑی خوشدلی سے خوش آمدید کہا اور ہم ڈرے سہمے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔ہر کام کا وقت مقرر تھا ۔ کالج ٹائم کے علاوہ کھانا ، سونا ، لائبریری ٹائم…
ام ریان ۔ لاہور
مارچ کا بتول اپنے جاذبِ نظر سر ورق کے ساتھ موصول ہؤا۔ نوائے شوق میں ڈاکٹر جاوید اقبال باتش کی غزل اور اسما صدیقہ کی’’ برف رتوں کا المیہ‘‘ پسند آئی ۔ حقیقت و افسانہ میں سب ہی رنگ خوب صورت تھے ۔ جہاں نبیلہ شہزاد کا افسانہ تلخ سماجی حقائق کو عیاں کر رہا تھا ، وہیں قانتہ رابعہ کی سدرہ کا دکھ، دکھی کر گیا ۔ جی چاہا کہ ایک دفعہ تو ضرور وہ اپنے ’’ساسانہ‘‘ اختیارات کا استعمال کر لیتی ۔ ڈاکٹر زاہدہ ثقلین اس خوب صورتی سے میڈیکل سائنس کو کہانی کا لبادہ اڑوھاتی ہیں کہ ذہن سے محو ہی ہو جاتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ’’ ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ لگا ہے ۔ وہ تو آخر میں جب بلی تھیلے سے باہر آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ بہانے بہانے سے ڈاکٹر صاحبہ کونسلنگ کر رہی ہیں۔
توقیر عائشہ کا افسانہ ہلکے پھلکے انداز میں گہرا فہم لیے ہوئے ہے۔ عروبہ منورنے ’’ اک نئی رت‘‘ میں ایک نیا نکتہ پیش کیا ، مگر یہ ہر گھر کے اپنے حالات پر منحصر ہوتا ہے ۔ ایک ہی فارمولا ہر جگہ نہیںچلتا ۔ رسالے کی خاص تحریر طوبیٰ احسن کی ’’…
ارشادِ ربانی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کیے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ (سورة البقرة: 183)
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے تقویٰ ہے تو اس کو مزید نشوونما دینا ہے’’تقویٰ‘‘ ایک نو مسلم یا عامی مسلمان کے لیے جس قدر ضروری ہے اُتنا ہی ایک عالم یا ولی اللہ کے لیے بھی اہم ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں، موت کے آخری لمحہ تک اور زندگی کے ہر لمحہ میں اس کا ہونا لازمی امر ہے۔ قرآن پاک میں تقویٰ کا لفظ 15 مرتبہ آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس سے مشتق الفاظ’’متقین‘‘ 42 مرتبہ، ’’متقون‘‘ 19 مرتبہ، ’’ یتّقِ‘‘ 6 مرتبہ اور’’یتقون‘‘ 18 مرتبہ استعمال ہوا ہے حتیٰ کہ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے۔ مختصر الفاظ میں تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی ناپسندیدہ کام چھوڑ دینا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس پر صبر کرنا اور اپنے…
شاہدہ منیر کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ بمشکل چھ سال کی تھی جب اس نے پہلا روزہ رکھا .اس نے اپنی خالہ زاد بہن کے کہنے پر ابو سے کہا ،’’ابو میں بھی روزہ رکھوں گی….اسوہ نے بھی کل چڑی روزہ رکھا تھا ‘‘۔
ابو مسکرائے ’’جھلیے یہ چڑی روزہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘
امی میدان میں آئیں ۔
’’بچی ہے ناں اتنی گرمی میں سارا دن کیسے بھوکی رہے گی‘‘۔
ابو نے جھٹ سے دلیل دی ’’کیوں جب ہم اسے روزہ رکھنے پر انعام بتائیں گے روزہ کے بارے میں ساری فضیلت سمجھائیں گے تو کیسے نہیں رکھے گی ؟ ‘‘
اماں نے بولنا چاہا تو ابو نے سو سنار اور ایک لوہار والی مثال دی اور کہا ’’کیوں تم بچے کو سات سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے چڑی نماز پڑھاتی ہو یا صرف قیام کے بعد روک دیتی ہو ؟ او بھلیے لوکے! روزے والے کا ساتھ اللہ سوہنا اور اس کے فرشتے دیتے ہیں‘‘۔
پھر اس نے روزہ رکھا۔ ابو نے سارا دن اس کی انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ رکھا۔ سہہ پہر کے بعد اس کی پسند کی سلائی مشین (کھلونا) اور ڈھیر ساری کھانے پینے کی اشیاء بھی خرید کر دیں ۔افطاری کی تیاری اس کی پسند…
اسلام محبت اور رحمت کا دین ہے۔ معاشرتی زندگی میں مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ وہ مضبوط تعلق ہے جس نے اسلام کی عمارت کو نہایت دلکش اور پائیدار بنا دیا ہے۔یہ دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ایسی لڑی میں پروتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور نہ تو بکھرتے ہیں نہ منتشر ہوتے ہیں۔ اخوت کا رشتہ بھائی اور بھائی کا رشتہ ہے۔یعنی یہ ایک دوستی ، محبت، مودت اور تعاون کا رشتہ ہے جو تمام مسلمانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اخوۃ ’’اخا‘‘ کا مصدر ہے، جو یک جہتی اور مودت کا اظہار ہے۔اصطلاح میں اسلامی اخوت ’’باہمی یک جہتی اور مودّت اور افرادِ معاشرہ کے درمیان تعاون کا تعلق ہے۔یہ مسلمانوں کے درمیان ایسا تعلق ہے جس کی بنیاد اللہ پر ایمان، اس کے تقوی ٰاور خشیتِ الٰہی پر ہے۔ یہ دونوں جانب الحب للہ کے فروغ کا ذریعہ ہے۔یہ بھائیوں کے درمیان ایسی محبت، اخلاص،وفا، اعتماد، اور دوستی ہے جس میں نہ کوئی دنیاوی غرض ہے نہ مفاد، بلکہ یہ ایک سچائی کی بنیاد پر قائم رشتہ ہے۔
اسلامی اخوت اللہ تعالیٰٰ کا مومنوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ یہ محبت کی فضا ہے، اور مومن گروہوں کی باہمی مضبوطی کا نام…
ہمارے گاؤں کا واحد ڈاکٹر جس نے شہر میں کسی ڈاکٹر کے کلینک میں صرف چار ماہ کمپوڈری کرکے چھ چھ سال ایم بی بی ایس کی پڑھائی میں سر کھپانے والے ڈاکٹروں کے منہ پر شرمندگی اور پچھتاوے کا طمانچہ مار کر بڑے دھڑلے سے اپنے گھر کی بیٹھک کو ہی کلینک بنا کر ڈاکٹر شبیر کے نام کی تختی لگا لی بلکہ نام کے نیچے ایم بی بی ایس بھی لکھ ڈالا۔ سارا گاؤں حیران تھا کہ اس صاحب نے کس معجزے کے تحت راتوں رات ایم بی بی ایس کر لیا ہے۔ بہرحال وہ پکا ڈاکٹر تھا اور گاؤں والوں نے بھی تسلیم کرلیا۔ یوں ڈاکٹر شبیر کی اپنے ذاتی کلینک میں پریکٹس شروع ہوگی۔ دو چار دن تو ڈاکٹر صاحب فارغ بیٹھ کر مکھیاں ہی مارتا رہا نہ صرف مارتا بلکہ مارنے کے بعد ان کا مکمل معائنہ بھی کرتا اور دوسری جماعت کے بچے کی طرح بلند آواز سبق بھی پڑھتا۔’’آنکھیں، سر،دھڑ، پیٹ‘‘۔ سائنس کی کتاب کا جو سبق ماسٹر جی کے ڈنڈوں سے بھی یاد نہ ہو پایا وہ اب ازبر تھا۔
’’ کاش….. کاش! ان سب باتوں کی سمجھ مجھے سکول کے زمانے میں ہوتی۔ نہ ماسٹر جی کی مار کھانی پڑتی، نہ ہر…
کنویں کی منڈیر کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنے دوست کے ساتھ کھڑا منہ میں تنکا دبائے دور سے آتی ہوئی چھمک چھلو سی لڑکی کو وہ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’اس کے بارے میں کیا خیال ہے پھر….‘‘ اس نے فیقے کو کہنی مار کر کہا۔
فیقا سٹپٹا سا گیا ’’کس کے بارے میں؟‘‘
’’یار وہ سامنے سے آ رہی ہے جو ….کیوں نہ آج اس کوچھیڑا جائے!‘‘
اور فیقے نے جو اس طرف دیکھا تو خوف سے آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں۔
’’ اوئے ناں ناں ….اسے نہیں‘‘۔
فیقے کی بات اور تاثرات کا جائزہ لیے بغیر اس نے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بیروں میں سے ایک لیا اور اس چھمک چھلو کی طرف اچھال پھینکا۔
غراتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے وہ من موہنی صورت قریب آئی ، للکارتی ہوئی شیرنی کی طرح جھپٹی۔
’’ابے اوئے ….تمہاری جرأت کیسے ہوئی؟ ٹانگیں تڑوا دوں گی ، آنکھیں نکلوا دوں گی،سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو….؟ ابھی کرتی ہوں جاکر چچا سے تمہاری شکایت…. پھر دیکھنا تمہارا حشر کیا ہوتا ہے‘‘۔
ایک بیر کے بدلے اتنی خفت…. گرتے گرتے وہ لڑکھڑایا اور سیدھا کھڑے ہوتے پھر لڑ کھڑا گیا۔
’’منہ بند کر لے ، چلی گئی ہے وہ ‘‘ فیقے نے چند ساعتوں بعد اس کے…
تینوں بچیوںکو سکول بھیج کر اب جمیلہ گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ میلے کپڑے سمیٹ کر اس نے ٹب میں ڈالے اور سرف ڈال کر بھگونے رکھ دیئے اور کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگی۔ سبزی وہ گلی میں آنے والے سبزی والے سے پہلے ہی خرید چکی تھی۔ اس نے چھری اور ٹوکری لی اور کچن کے ساتھ برآمدے میں بیٹھ کر سبزی کاٹنے لگی۔
جمیلہ کے ہاتھ تیزی تیز چل رہے تھے۔ ہنڈیا چڑھا کر ابھی برتن دھونے تھے اور پھر جھاڑو بھی لگانی تھی اور وہ چاہتی تھی یہ سارے کام وہ چھوٹو کے اٹھنے سے پہلے پہلے کر لے جوکہ ناممکن تھا۔ لیکن سوچنے میں کوئی حرج تو نہیں تھا۔ ہاتھ اس کے سبزی بنا رہے تھے اور دماغ ڈھیروں کاموں میں الجھا ہؤا تھا۔ آج تو کپڑے بھی زیادہ تھے۔ کل کپڑے دھونے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ لہٰذا آج اس نے پہلے ہی کپڑے بھگو دیے تھے۔
دوسری طرف چھوٹو کی طرف بھی دھیان لگا ہوا تھا۔ ڈیڑھ سالہ سفیان جسے پیار سے سب چھوٹو کہتے تھے بہت شرارتی تھا۔ اپنی شرارتوں سے جمیلہ کا ناک میں دم کیا ہؤا تھا۔ چونکہ اکلوتا تھا اسی لیے بڑی تینوں بہنوں اور ماں باپ کا لاڈلا…
عہدِ نبویؐ میںمسجد کا کردار
تعمیرات کے باب میںہم دیکھ آئے ہیں کہ آپؐ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے جس بات کی طرف توجہ دی وہ مسجد کی تعمیر تھی ۔ مسجد نبویؐ جس جگہ تعمیر ہوئی اس کے بارے میں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں آپؐ کی ہجرت سے قبل نمازپڑھائی جاتی تھی ۔ اسلامی معاشرے میں مسجد کا کردار بہت اہم ہے ۔ آپ ؐ نے نئے معاشرے کی تعمیر کے لیے جو پہلی اینٹ رکھی وہ مسجد ہی تھی ۔ مسجداسلامی معاشرے میں روحانی اورمادی رہنمائی کا اولین سر چشمہ ہے ۔ مسجد عبادت گاہ ، علم کامرکز و منبع اور ادب کی مجلس ہے ۔
اسلام کے دورِ اوّل میں مسجد نبوی بطور مدرسہ استعمال ہوتی تھی ۔ معاشرے کے لیے تمام کوششیں اسی مسجد سے وابستہ تھیں ۔ مسجد ایک اجتماعی ادارہ ہے ۔ مسجد ایک تعلیم گاہ ہے ۔ مسجد ایک تربیت گاہ ہے ۔ نبی کریم ؐ اسی مسجد میں صحابہ کرام ؓ کوتعلیم دیتے تھے۔
یہاںعلمی و قانونی مسائل پر بحث کی جاتی تھی ، قرآنی نکتوں کی وضاحت ہوتی تھی ، یہاں جانثارانِ رسولؐ اکٹھا ہو کر اپنے دامنوں کو علم کے جواہر سے آراستہ کرتے…
قارئین کرام! سلام مسنون
رمضان المبارک کی رخصت کی گھڑیوں میں آپ سے مخاطب ہوں۔ گزشتہ ایک ماہ میں قومی منظر نامے پہ بڑی بڑی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ حکومت تبدیل ہوئی ، عوامی مزاج بدلا، اداروں کی ساکھ مجروح ہوئی، قومی سلامتی اور خودمختاری پر سوالات اٹھے۔ایک بحرانی کیفیت ہے۔ ہر کوئی آئینی تقاضوں کی اپنی اپنی تشریح پر عمل پیرا ہے۔اگرتو اس خفیہ مراسلے میں پاکستان سے اظہارِ ناراضگی کے ساتھ حکومت ہٹانے کابھی ذکرموجود ہے تو پھر معاملہ محض مداخلت کا نہیں کیونکہ وقت کی مطابقت ہے اور ساتھ امریکی ملاقاتوں کے شواہدبھی موجود ہیں۔بہرحال عمران خان نے اس پر تحقیقاتی کمیشن اور سپریم کورٹ کی کھلی سماعت کا مطالبہ کیا ہے ، ملتا جلتاموقف جماعت اسلامی کا بھی ہے ۔محرکات مشکوک سہی مگر پہلی بار پارلیمانی عمل کے ذریعے وزیر اعظم کو ہٹایا گیا ہے ۔ افغانستان کی طرف سے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔تین دن کے اندر حکومت آئی ایم ایف کے پاس منت سماجت کرنے اور پیسہ مانگنے پہنچ گئی ہے، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھانے اور سبسڈی ختم کرنے کو اپنی کامیابی کہہ رہی ہے۔انتخابی اصلاحات کا شور مچا ہؤا ہے تاکہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہؤا جاسکے۔ ای وی…
غصہ ، پریشانی ، چڑچڑاہٹ یہ سب ہماری معمول کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ تنازعات ، اختلافات، کام کا دبائو بعض اوقات ہم سب کے لیے پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ خوشی قسمتی سے انسان چاہے تو ان پر بہت حد تک قابو پا سکتا ہے۔ اصل کام یہ ہے کہ آپ ان حالات سے کس انداز میں نمٹتے ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ایسا رویہ اختیار کریں کہ حالات بہتری کی جانب بڑھیں ۔ یقینا اُس کے لیے ہمیں ضروری معلومات کے ساتھ عملی طور پر کچھ چیزوں کی مشق کرنا ہو گی۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ پریشان کن لمحات سے باہر آنے کے لیے ماہرین کیا مشورے دیتے ہیں۔
دس تک کی الٹی گنتی
کسی کے ناپسندیدہ عمل پر غصہ آنا فطری ہے۔ جب آپ کو لگے کہ غصے کی کیفیت بڑھ رہی ہے تو سب سے پہلے دس تک الٹی گنتی گنیں۔ اس سے آپ کے احساسات اور دماغ کو کچھ وقت مل جائے گا۔ جب آپ گنتی گن رہے ہوں تو آپ کو تصور کرنا ہو گا کہ ہر عدد کے دوران آپ کے غصے میں کمی آ رہی ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ ایک پر پہنچیں تو آپ کے اعصاب…
خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات میں بھی بہت وسعت ہے۔ بسا اوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
خلیل اللہ فراز کہتا ہے، خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے کسی نے خبر دی ’’آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے‘‘انشا ئیہ بنا کہ پنکچر بنوا لو۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق’’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام خورشید فنِ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‘‘۔
برطانوی پبلشر’’لارڈ نورتھ کلف‘‘ کے مطابق’’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
امریکی صحافی ’’کرٹ لوڈر‘‘ کے مطابق’’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو دلچسپ ہو جس کا تعلق دنیا میں…
لایعنی ایسے کام کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی مقصد ہی وابستہ نہ ہو۔ حکماء لایعنی کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’’ہر وہ کام جس میں دین، دنیا کا کوئی بھی فائدہ نہ ہو‘‘۔زندگی مختصر ہے اسی لیے آپ علیہ السلام نے حدیث میں فرمایاکہ ایک مسلمان کے اسلام کو ماننے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔لایعنی میں مبتلا انسان دین دنیا دونوں کو ضائع کرتا ہے اور سب سے بڑی بات وہ اپنی زندگی کو ضائع کرتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ لایعنی سے زندگی کیسے ضائع ہوتی ہے ؟
در اصل زندگی کسی مخصوص لمحے کا کام کا نام نہیں، ایک عربی مقولہ ہے کہ الوقت ھو الحیات کہ وقت ہی زندگی ہے۔ کیونکہ ہم جو زندگی گزارتے ہیں وہ در حقیقت ایک وقت ہی ہوتا ہے جو سیکنڈ سے منٹ، منٹ سے گھنٹوں،گھنٹوں سے دن،دنوں سے ہفتے،ہفتوں سے مہینے، مہینوں سے سال،سال سے عرصہ اور پھر بچپن،لڑکپن ،جوانی ، ادھیڑعمراور پھر بڑھاپے تک سفر کرکے زندگی کو ختم کردیتا ہے۔لہٰذا کوئی شخص اپنا ایک گھنٹہ ضائع کرتا ہے تو وہ ایک گھنٹہ نہیں بلکہ اپنی زندگی کا ایک حصہ ضائع کردیتا ہے۔…
کرونا سے پہلے بھی دنیا میں بہت سی قدرتی آفات آتی رہی ہیں۔ لوگ نارمل زندگی میں بھی بیماری کا شکار ہو کر، حادثے میں یا طبعی موت مرتے رہے ہیں ۔دکھ تکالیف زندگی کا حصہ ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ضرور انسان کو پانچ چیزوں سے آزمائیں گے ، خوف ،بھوک، اورکھیتیوں، جان اور آمدنی کے نقصان سے۔تو یہ سب تو زندگی کا حصہ ہؤا۔اگر غم یا تکلیف نہ ہو تو انسان خوشی کی قدر نہیں کر سکتا۔اور پھر زندگی میں صرف خوشیاں ہی ہوں تو جنت کی خواہش کون کرے گا،کیونکہ دائمی خوشی کا وعدہ تو جنت میں ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو دے کر آزماتا ہے تو کچھ سے لے کر۔قرآن پاک میں انسانوں کو تین طرح کے پتھروں سے تشبیہ دی گئی ہے، یہ بتانے کے لیے کہ ایک وہ ہیں جو کسی حادثے کی وجہ سے اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں ۔دوسرے وہ جو پہلے سے اللہ تعالیٰ کے احکام مانتے ہیں اور جب وہ قرآن کا علم حاصل کر لیتے ہیں تو دوسروںکے لیے بھی ہدایت کا باعث بن جاتے ہیں اور تیسرے وہ جنہیں کوئی حادثہ ، علم یا نعمت بھی اللہ کا شکر گزار بندہ…
بہاولپور میں اجنبی، مظہر اقبال مظہر کی اس تاریخی شہر میں تعلیم کی غرض سے آمد اور قیام کی مختصر یادداشتوں اور ڈائری کا مجموعہ ہے۔ بہا و لپو ر میں اپنے قیام کے آغاز ہی سے مصنف کو اس شہر کی تاریخ اور معاشرت میں گہری دلچسپی پیدا ہو گئی۔انہوں نے ایک اجنبی کی طرح اس شہر میں قدم رکھا اور اپنی آبائی روایات کے ساتھ مقامی معاشرت میں مماثلت تلاش کی۔شہر میں قریہ قریہ سیر کی، مقامی افراد سے ملاقاتیں اور رہنمائی حاصل کی۔
سرائیکی زبان کی مٹھاس کو محسوس کیا اور ہلکے ہلکے پھلکے انداز میں زبانوں کے تنوع میں شناخت کے موضوع پر گفتگو کی۔
تاریخی شہر’اچ‘ کے قریب اس شہر کو شکار پور سے آئے نواب بہاول خان نے آباد کیا ،ایک ایک اینٹ کو اس طرح سینچا کہ صدیوں بعد بھی محسوس ہوتا ہے گارے اور مٹی کی بجائے اس شہر کی اینٹیں تہذیب اور تمدن سے آراستہ کی گئی ہیں۔
کشمیر کے ایک شہر سے علم کی تلاش میں نکلے ہوئے ایک طالب علم کا ٹھکانہ جب کچھ عرصے کے لیے یہ شہر بنا تو علم کے متلاشی نے اپنی تعلیم تو مکمل کی ہی ساتھ ساتھ ہی اس نے اس شہر میں بسنے کا حق…
کن فیکون سے وجود میں آنے والی اس خوبصورت و حسین کائنات ارضی و سماوی کی رب ذوالجلال نے تخلیق فرمائی زمین کو لہلہاتی فصلوں اور کھیتیوں ، سر سبز وشاداب جنگلات، عقل و خرد اور دل و نگاہ کو موہ لینے والی آبشاروں ، دریائوںاور سمندروں، اونچے اونچے پہاڑوںاور لمبے لمبے قد آور درختوں ، خوشبو دار پھولوںاور پھلوں، خوشوںوالی کھجوروں اور بھوسے والے اناج سے مزین فرمایا ، فضا میں چرند، پرند ، ارض پر جمادات و نباتات ، حیوانات پیدا کیے ، کتنی عظمت اور بزرگی والی ہے وہ ذات جس نے متعدد آسمانی کُرّے باہمی مطابقت کے ساتھ طبق درطبق پیدا فرمائے اور اسی نے آسمان دنیا کو چراغوں ( یعنی ستاروں اور سیاروں) سے آراستہ کیا اور ہر سماوی کائنات میں اس نے ایک نظام ودیعت فرمایا اورنظام تخلیق میں ذرہ بھر بے ضابطگی اور عدم تناسب نہیںرکھا کہ ایک کا ناظم دوسرے میں مداخلت کر سکے ۔ روئے زمین پر انسان اللہ تعالیٰ کی اشرف المخلوقات اور خلیفہ ہے ، انسان کو اللہ تعالیٰ نے مخدوم الخلائق کے منصب پر فائز کیا ہے اس کے لیے اس کائنات میں موجود تمام موجودات کو مسخر کر دیا گیا ۔
ترجمہ: ’’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ…
عربی ادب کا قصہ ہے کہ ایک غلام ایک ایسے مالک کے پاس تھا جو خود میدے کی روٹی کھاتا تھا،اور اس کو بے چھنا آٹا کھلاتا تھا۔تو یہ چیز اسے ناپسند لگی ،اس لیے اس نے بیچنے کی درخواست کی تو آقا نے اسے بیچ دیا۔
اس کو ایسے شخص نے خریدا جو بھوسی کھاتا تھا اور اسے کچھ بھی نہیں کھلاتاتھا۔غلام نے اس کو بھی بیچنے کی درخواست کی چنانچہ اس شخص نے بھی اس کو بیچ دیا۔
اب کے اس کو ایسے شخص نے خریداجو خود کچھ نہیں کھاتا تھا،اور اس کا سر مونڈ کر رات میں اسے بٹھاتا اور دیوَٹ( شمع دان) کی جگہ اس کے سر پر چراغ رکھتا۔ وہ اس کے پاس ٹھہر گیااور بیچنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ غلام فروش نے کہا، تو کس وجہ سے اس مالک کے پاس اتنی مدت اس حال میں راضی رہا؟ غلام کہنے لگا،مجھے اندیشہ ہؤا کہ اس مرتبہ کہیں مجھے کوئی ایسا شخص نہ خرید لے جو چراغ کے بجائے میری آنکھ میں بتی ڈالنے لگے۔
اس مذکور قصے میں عدم قناعت کے نقصان کو بتایا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش میں غلام کی مصیبت بڑھ گئی۔سو جو حاصل ہے ہم اس پر قناعت کر لیں۔
قارئین…
میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔ ہمارے گھر سفیدی ہو رہی تھی ۔ سفیدی کرنے والے ادھیڑ عمر کے صاحب سورج چڑھے دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے تھے ۔ ہم گھر کے بچے ان کے جانے کے بعد خوشی خوشی جائزہ لیتے کہ کمرہ میں یہ رنگ ، داروازے پر یہ پینٹ کتنا بھلا لگ رہا ہے ۔
اُس دن چھوٹی بہن نے ان کے چمڑے کے کالے بیگ میں ایک موٹی سی ڈائری دیکھی بولی ’’ انکل تو پڑھے لکھے ہیں ‘‘۔ بھائی نے شرارتاً وہ ڈائری نکال لی اور با آوازبلند پڑھنے لگا ۔میں بھی شوق میں ڈائری لے کر صفحے پلٹنے لگی ہر صفحہ پر کوئی غزل یا نظم تھی ۔ شاعر کا نام مقطع میں سفیدی والے انکل کا نام تھا۔ امی بھی بہت متاثر ہوئیں کہ گفتگو سے تو مہذب آدمی ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ جب ان کی واپسی پر بھائی نے پوچھا تو وہ سفیدی کا کام چھوڑ کر اپنی کتھا سنانے لگے کہ وہ کس ادبی گھرانے کے فرزند ہیں ۔والد بڑے شاعر۔ ان کی ملازمت بوجوہ چھوٹی تو خاندان والوں نے منہ پھیرلیا۔ ان کے پاس کاروبار کے لیے پیسہ نہ تھا اس لیے دوست کے ساتھ مل…
بات اگر ہو گھر کی کام والی یا ماسی کی تو ہرخاتون خانہ کے پاس کم ازکم دس فٹ طویل ماسی نامہ موجود ہوتا ہے جس کو سنتے سنتے آپ اپنا ماسی نامہ سنانا بھول جائیں گے ۔ دوسری طرف اگر ماسی کام والی سے پوچھا جائے تو ان کے پاس بھی کم و بیش اتنا ہی طویل باجی نامہ موجود ہوتا ہے جس کو وہ مناسب وقت ملنے پر ایک دوسرے کو سناتی ہیں ۔ اپنے اپنے شجرے بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے کو خوب پٹیاں پڑھاتی ہیں ۔
کیا بات کس باجی سے کیسے کہنی ہے ؟ کس باجی کو کیا پسند ہے کیا ناپسند ہے ؟ کس بہانے سے باجی موم ہو جاتی ہیں ؟کاموں کے کیا ریٹ چل رہے ہیں ؟ کون سے کام اوپر سے کر لینے ہیں اور کون سے کاموں سے انکار کر نا ہے ؟ کام کرتے ہوئے کون کون سی احتیاط کا خاص خیال رکھنا ہے ورنہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ درپیش ہو سکتا ہے ؟
دوسری طرف باجیوں کی کہانی میں اہم ترین مسئلہ ماسیوں کی نظر کا ہوتا ہے ۔مثلاً:
’’ماسی زرینہ کی نظر تو بڑی ظالم ہے ، آنکھوں سے حرص جیسے ٹپکی پڑتی ہے‘‘۔
اس…
اماں سچ بتائو تم کہیں جن تو نہیں؟ ایک انوکھی ہستی کا تذکرہ، مرحومہ طیبہ یاسمین کے چٹکیاں لیتے طرزِ تحریر میں جو انہی کے ساتھ خاص تھا۔
اگرچہ اماں حشمت کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں مگر اپنی عظیم اور عجیب و غریب شخصیت اور گوناں گوں خصوصیات کی بنا پر آج بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں زندہ و جاوید ہے۔ دن میں کئی بار مختلف مواقع پر سب افراد خانہ کو اپنی یاد اور کمی کا احساس دلاتی ہے ۔
آپ بھی سوچیں گے کہ آخر اماں کون تھی اور اس میں ایسی کون سی خاص بات تھی کہ وہ ہمیں اتنا یاد آتی ہے تو جناب یوں تو اماں مدد گار کی حیثیت سے ہمارے گھریلو کاموں کے لیے آئی تھی مگر پھر گھر بھر پر یوں چھا گئی کہ ہم سب پس منظر میں چلے گئے اور اماں کی کار کردگیاں سارے گھر پر یوں چھاگئیں کہ :
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
کے مصداق ہر طرف اماں ہی کے کارنامے اور اس کے جلوے نظر آنے لگے اور اگر اس کے کارناموں کو بیان کرنے لگوں تو نہ جانے کتنا وقت اور کتنے الفاظ اس کی نذر ہو جائیں…
کام والیوں کے قصے سننا اور سنانا خواتین کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک ہے۔ ہمارے گھروں کا نظام کچھ اس طرح ان گھریلو ملازمین پر منحصر ہے کہ ان کے بغیر گھر چلانے کا تصور بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ان کام والیوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ گشتی ماسیاں ہیں کہ محلے بھر کے پھیرے لگا کر’کھلا‘ کام کرتی ہیں۔ اگر آپ کو بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کا کچھ تجربہ ہے تو آپ ان سے اچھا کام کروا سکتی ہیں۔ کچھ ’بندھا‘ کام کرتی ہیں یعنی سارا دن آپ کے گھر میں ہی ہوتی ہیں اور جو کام گشتی ماسیاں چند منٹوں میں کر کے چلتی بنتی ہیں یہ وہی کام صبح سے شام تک کرتی رہتی ہیں۔
پہلے زمانے میں محلے کی سنسنی خیز خبریں ادھر سے ادھر کرنے کا فریضہ بھی یہی کام والیاں انجام دیا کرتی تھیں۔ ہماری کام والی کو واٹس ایپ ایجاد کرنے والے پہ کافی غصہ ہے کہ اب سب باجیوں نے بھی مل کے ’’کام والی گروپ‘‘ بنا لیا ہے۔ مثال کے طور پہ ایک گروپ شہناز ماسی کے نام پہ بنا لیا اور اس میں وہ سب خواتین شامل ہیں جن کے گھر شہناز ماسی کام کرتی ہے۔ ایک گروپ…
ہم نے خانہ دارانہ زندگی کا آغاز’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت جدہ سے کیا۔ اور وہاں اس زمانے میں مددگار رکھنے کی عیاشی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق تھی۔ جان ناتواں اور اس کی ناتجربہ کاری نےکچھ قابل اور بہت سے ناقابلِ بیان کارنامے سر انجام دیے۔ پیاری ساس کا انوکھا لاڈلا اپنے متلون مزاج کی وجہ سے’’مزاجی خدا‘‘ کے مزے لوٹتا تو بچوں کی آمد ہماری مامتا کا امتحان لیتی رہی۔
ناچیز کو رب العالمین نے جدہ میں عمرہ اور حج کے زائرین کی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ مہمان داری کے لیے منتخب کیے رکھا، کبھی کبھار ہاتھ بٹانے کے لیے کسی فرد کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی۔ اس وقت ڈسپوزیبل برتنوں کی عیاشی بھی میسر نہ تھی۔ بھلا ہو دینی بہنوں کا جنہوں نے خود سے ہی یہ اصول طے کر لیا تھا کہ جس گھر میں رسمی یا غیر رسمی ملاقات کو جانا ہوگا، میزبان کے باورچی خانے کو سمیٹ کر، برتن دھو کر آئیں گی۔ تو اسی ادا پہ نہال ہو کر ہم تھکن سے مجبور دل سے یہ دعا کرتے کہ:
’’یاللہ کرم کر دے، کسی بہن کے دل کو نرم کردے‘‘۔
دل کو دل سے ایسی راہ نکلتی کہ کسی نہ کسی بہن…
بچپن کی یادوں میں ایک ہلکی سی یاد ماسی سیداں کی ہے جو گاؤں میں امی جان کی مددگار تھی۔
جب ہم واہ شفٹ ہوئے تو میں ماسی کی یاد میں بیمار ہو گئی تھی، اور جب ماسی کچھ عرصے بعد ملیں تو انہوں نے بھینچ بھینچ کر پیار کیا۔ وہ مجھے پیار سے بلی کہتی تھیں (یہ الگ بات ہے کہ یہ نک نیم مجھے کسی اور کی جانب سے گوارا نہ تھا، اور بڑی بہن کے بلی پکارنے پر تو ناراض ہو جاتی تھی)ہم گاؤں گئے تو انہوں نے مزے دارستو شکر بھون کر کھلایا۔وہ ایسی وفادار ماسی تھیں کہ ہمارے ساتھ امی جان کے میکے تک چلی جاتیں اور نانا جان کے آخری مرض میں انہیں خون کی ضرورت پڑی تو ماسی کا بلڈ گروپ ان سے میچ کر گیا، مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ انہیں تو خود خون کی ضرورت ہے۔ میں سکول کی ابتدائی کلاسوں میں تھی جب ایک روز قاصد ان کے انتقال کی خبر لے کر آیا۔
راولپنڈی شہر میں سب سے زیادہ ہمارے گھر میں ماسی زیبنی کا وقت گزرا، جو گھر کے عقب میں رہتی تھیں، ہماری بھینسوں کو بھی سنبھالتی تھیں، اور چھت سے دی…
جب عقل بٹ رہی تھی
یہ سب کہاں تھے ؟
معلوم ہے آپ کو جامعہ میں تین یا جوج ماجوج ہیں ۔ ویسے تو دنیا میں دو ہی ہیں مگر جامعہ اہم جگہ ہے نا ، یہاں تین ہیں !
نمبر ایک : رات والا چوکیدار مشتاق ۔ وہ سارا دن کا تھکا ماندہ ہوتا ہے ا س لیے چار پائی بچھائی ، پنکھا چلایا اور وڈیروں کی طرح لیٹ جاتا ہے۔ کوئی کام کہو تو راستہ بتاتا ہے کہ جامعہ کے نگران کو فون کر کے بتائیں کہ جامعہ میں یہ اور یہ مسئلہ ہو گیا ہے ۔ مجھے اس کی سمجھداری اور اپنی نالائقی اور کم عقلی پر شرمندگی ہوتی ہے کہ اسے معلوم ہے کام کس سے کروانا ہے ۔ چوکیدار ہے مگر رات بھر خراٹے لیتا ہے ۔ آوازیں دینے پر بھی نہیں اُٹھتا ۔ قابل رشک ہے یہ بھی کہ کسی چیز کی فکر نہیں ہے ۔ دوسرے نمبر پر ڈرائیور ہے جو شاید دنیا میں ایک ہی پیس ہے ۔ اُسے اپنے ڈرائیور ہونے پر بڑا فخر ہے ۔ جیسے خو و چودھری ہو ۔ سارا دن سوتا اور موبائل پر ٹک ٹک لگا ہوتا ہے ۔ کوئی کام کہو تو کہتا ہے کہ یہ میرا کام…
کئی سال پہلے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اردو کی درسی کتاب میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘۔سو میں نے سوچا میں بھی آج اپنے مضمون کا عنوان کچھ ایسا ہی اچھوتا رکھوں تو میرے ذہن میں یہی عنوان آیا ’’ مجھے ان ماسیوں سے بچائو‘‘۔
چلیے پہلے ماسیوں کے بارے میں اپنے کچھ تلخ تجربات شیئر کروں جب تک بیگم کی صحت اچھی رہی انہوں نے کبھی کسی کا م والی ماسی کی ضرورت محسوس نہیں کی ، کھانا پکانا، گھر بھر کی صفائی ، واشنگ مشین میں کپڑے دھونا ، برتن دھونا ، کپڑے استری کرنا ،سب کام خود ہی شوق سے کرتی رہیں ۔ ساتھ ہی تین بچوں کی پرورش! لیکن جب بیگم کو گھٹنوں کا مسئلہ ہؤا تو مجبوراً گھر کی صفائی کے لیے کام والی عورت رکھنی پڑی ۔ موصوفہ چند دن تو شرافت سے کام کرتی رہی لیکن پھر ہمیں محسوس ہؤا کہ کچن سے ہمارے چمچ دن بدن کچھ کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کچھ دن تو صبر کیا لیکن آخر ایک دن اُس کی چوری پکڑی گئی ۔ بیگم اچانک کچن میں گئیں تو ماسی دو چمچ اٹھا کے جیب میں ڈال…
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
سعدیہ نعمان
ہمارے ارد گرد ایسے کردار موجود ہوتے ہیں جو کسی کی نظر میں بھی اتنے اہم نہیں ہوتے اور دراصل وہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں وہ اپنے حصے کا بوجھ بہت ذمہ داری سے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کی قدر جان کر ان کی حوصلہ افزائی کر یں معاشرے میں مجموعی طور پہ پھیلتی مایوسی میں وہ امید کی کرن ہیں ایسے ہی کچھ کرداروں سے آج میں آپ کو ملوانا چاہوں گی۔
یہ حفیظ انکل رکشہ والے ہیں ٹھیک سات بج کے دس منٹ پہ ”چلو جی ی ی صاب جی ی ی‘‘ کی گرجدار آواز کے ساتھ وہ گیٹ پہ موجود ہوتے اور بچے کبھی سکول سے لیٹ نہ ہوتے وہ پورے ٹاؤن کے حفیظ انکل ہیں ان کا دن صبح فجر کی با جماعت نماز سے شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے تک مسلسل وہ سکول کالج اور اکیڈمی کے بچوں کو چھوڑتے ہیں ریٹا یر فوجی ھونے کی وجہ سے وقت کے اتنے پابند ہیں کہ دو منٹ پہلے تو آ سکتے ہیں دو سیکنڈ دیر سے نہیں سردی گرمی کے شدید موسموں میں جب وہ رکشہ میں بچوں کو بحفا ظت لے جا رہے ہوتے…
اللہ تعالیٰ نے اپنا نام’’الناصر‘‘ اور ’’النصیر‘‘ رکھا ہے۔ مدد کا منبع و سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔
’’…اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے‘‘۔(سورہ آل عمران: 126)
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگار ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 150)
’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (سورہ غافر: 51)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور غم و خوف سے نجات کی خوشخبری اپنے فرشتوں کے ذریعے دے کر بھی کرتا ہے۔
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔ (سورہ فصلت :30)
یقیناً اللہ ایسے راستوں سے اپنے بندوں کا اس طرح مددگار بن جاتا ہے، جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے مددگار فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’اور وہ…
قارئین کرام سلام مسنون!
عیدالفطر ملک کے لیے امید افزا خبروں کے انتظار اور بری خبروں کے دھڑکے میں گزری۔ سیاسی منظرنامے پر ہنوز زبردست ڈیڈ لاک چھایا ہؤا ہے۔ انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آرہی۔بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی اپنے اس فیصلے کی پیروی کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔حالانکہ جس جرأتِ رندانہ سے کام لے کر یہ فیصلہ کیا گیا تھا، اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک بار پھر اسی نعرہِ مستانہ کی ضرورت تھی۔اختیارات کے مناصب پر مامور افراد کے فیصلے قوموں کی تقدیر بنا یا بگاڑ جاتے ہیں۔ ایک بزدل فیصلہ قوم پرلامتناہی بدقسمتی مسلط کردیتا ہے تووہیں بے خوفی کے ساتھ کیا گیاایک جرأت مندانہ اقدام یکایک روشن مستقبل کی نوید بن جایا کرتا ہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہےجب سیاسی وعسکری قیادت اور عدلیہ کی سطح پرایک بھی مخلصانہ ، باضمیر، بے خوف قدم لے لیا جاتا توتاریخ کا دھارا پلٹ سکتا تھا۔ قومی مفاد کے لیے صحیح بات پرڈٹ جانا، کسی دھمکی، دباؤ یا لالچ کو خاطر میں نہ لانایقیناً بڑے دل گردے کاکام ہے مگر جو یہ کام کرجائے اس کے لیے آخرت میں تو سرخروئی اور کامیابی…
(اس جیسا کوئی کلام نہیں )
رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو معجزات عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہیں، جو وحی آسمانی پر مشتمل ہے۔ اور یہی وہ معجزہ ہے جس پر اللہ نے تحدّی کی ہے اور اعلان ِ عام کیا ہے کہ کوئی اس کی مثال پیش کرے، اور پھر قیامت تک کے لیے اس کی پیش گوئی بھی فرما دی کہ دنیا اس کی مثالیں پیش کرنے سے عاجز اور درماندہ رہے گی۔
قرآن وہ کلامِ معجز ہے جسے حضرت محمد ؐ پر تقریباً ۲۳ برس تک مختلف شذرات کی صورت میں نازل کیا گیا، جسے صحیفوں میں لکھا جاتا ہے اور جو آپؐ سے بتواتر منقول ہے۔جس کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
اعجاز کا لفظ ’’عجز‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عدم قدرت و استطاعت کے ہیں۔ اور معجزہ کسی کام کے خارق ِ عادت ہونے کو کہتے ہیں، یعنی جس پر عام قانون کا اطلاق نہ ہوتا ہو، اور وہ ایک چیلنج ہو۔
اعجاز ِ قرآن کے معنی یہ ہیں کہ قرآن ِ کریم فصاحت، بلاغت اور بیان کے اعتبار سے ایسا اعلیٰ اور ممتازکلام ہے کہ تمام انسان اور جن مجتمع ہو کر بھی اس جیسا…
کٹا ہؤا بازو
خبیب بن اسافؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے ایک اور آدمی کے ساتھ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ کسی جنگ میں جا رہے تھے۔ ہم نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہو گئے ہیں؟‘‘ ہم نے نفی میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا:’’ہم مشرکین کے مقابلے پر مشرکین کی مدد نہیں چاہتے۔‘‘
اس پر ہم نے کہا کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہمیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ لڑائی کے دوران دشمن کے ایک جنگجو نے میرے کندھے پر وار کیا۔ میرا بازو کٹ گیا۔
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ نے میرے بریدہ بازو میں لعاب لگایا اور اسے سی دیا۔ میرا بازو جڑ گیا اور میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ پھر میں نے اس دشمن کو قتل کیا جس نے میرے اوپر وار کرکے مجھے زخمی کیا تھا۔
کھجور کے درخت کی آہ و بکا
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک انصاری…
بلند کردار اور اعلیٰ صفات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان صفات اور خوبیوں کا تعلق کسی خاص فرد، قوم و مذہب سے نہیں بلکہ یہ انسانیت کا خاصہ ہیں۔ خود قرآن میں ان افراد کی بھی اچھی خوبیوں کی تعریف کی گئی ہے جن کا تعلق مسلمانوں سے نہیں بلکہ ایک اور قوم سے تھا۔
’’اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کر دے گا اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملے میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جائو۔‘‘ آل عمران ۷۵
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جس خوبی کی تعریف فرمائی ہے وہ امانت ہے اور جس کی مذمت فرمائی ہے وہ خیانت ہے۔ امانت ایسی صفت ہے جس سے اعلیٰ اخلاق کی صفات خود بخود پیدا ہوتی ہیں اور خیانت وہ برائی ہے جس سے کئی برائیاں وابستہ ہیں۔
امانت، معنی و مفہوم
’’امانت‘‘ عربی زبان میں کسی معاملہ میں کسی پر اعتماد کرنے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا ہر وہ کام، چیز…
اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا
باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا
حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ دو لیکن
تم کو مری آنکھوں میں کوئی ڈر نہ ملے گا
پا کر نہ تجھے جیتے جی مر جاؤںگا، میرا
گر تیرے مقدر سے مقدر نہ ملے گا
ہاں سرمہ لگی آنکھ سا دو رنگ کا موتی
جز اشکِ بتاں ایک بھی گوہر نہ ملے گا
یوں چاہنے والے تجھے مل جائیں گے لیکن
کوئی بھی مرے قد کے برابر نہ ملے گا
ہو جس میں پیاسوں کے لیے دریا دلی بھی
دنیا میں کوئی ایسا سمندر نہ ملے گا
جھک جائے گا ظالم جو ترے جبر سے ڈر کر
شانوں پہ مرے ایسا تجھے سر نہ ملے گا
سکہ، کوئی سونے کا نہ چاندی کا ہوں، مجھ میں
ہاں کھوٹ تجھے ذرہ برابر نہ ملے گا
ہر اک کو سبق رہ سے بھٹک جانے کا لیکن
مل جائے گا کھائے بنا ٹھوکر نہ ملےگا
وہ چاہے تو قارون سے بڑھ کر ہمیں دے دے
ورنہ کسی چوکھٹ سے بھی چوکر نہ ملے گا
واللہ حبیبؔ ہاں یہ ترے در کا بھکاری
اک تیرے سوائے کسی در پر نہ ملے گا
عجب یہ شاد مانی ہے
عجب یہ خوش گمانی ہے
ادھر والے کنارے سے
اُدھر والا کنارہ
خوب تر ہوگا
نہایت پر فضا ہوگا
نہایت خوش نما ہوگا
مگر اس خوش گمانی کو
مٹانے پر تُلا ہے دل
میں اس کو کیسے سمجھائوں
کہ ہیںسب ایک سے ساحل
سواچھا ہے کہ نائواورچپو
اس کنارے پرہی رہنے دوں
اداسی اور ویرانی کی لہروں کو
ادھر والے کنارے پر ہی
بہنے دوں
اُدھر والے کنارے کو
ابھی آباد رہنے دوں
دلِ ناشاد کو اپنے
گماں سے شاد رہنے دوں
جب سے پتہ چلا تھا کہ آنٹی ثریا سکاٹ لینڈ سے پاکستان آ رہی ہیں کوئی دہشت سی دہشت تھی۔
آہستہ بولا کرو، آنٹی ثریا آ رہی ہیں، چیزیں ٹھکانے پر رکھو، آنٹی ثریا بہت ڈسپلنڈ خاتون ہیں۔ یہ جوتا اندر کیوں پہن آئے… باہر اتار کر آئو، پتہ نہیں آنٹی ثریا آ رہی ہیں، وہ وقت کی بہت پابند، نفاست پسند اور نفیس مزاج کی خاتون ہیں۔ اور… اور… امی نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی ان کے سامنے کوئی بدتمیزی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ اور ہاں کھانا کھاتے ہوئے دھیان رکھنا کھانے کی آواز نہ آئے، وہ ہمارے کان مروڑ دیا کرتی تھیں جب ہم کھانا کھاتے ہوئے چپڑ چپڑ کی آواز منہ سے نکالا کرتے تھے…
رہی سہی کسر ابا پوری کر دیتے…’’زیادہ ٹر ٹر کرنے کی ضرورت نہیں ان کے سامنے… وہ فضول گفتگو تو کیا ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بولنا یا سننا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
چھوٹی بہن حمیرا نے جل کر کہا ’’آنٹی ثریا نہ ہوئیں گویا سربراہ مملکت ہو گئیں۔‘‘
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ ’’او چھوٹی، عقل کی موٹی، بھلا حکمران بھی کبھی وقت کے پابند، ڈسپلنڈ ہوا کرتے ہیں؟ ایسے ہوں تو سڑکوں پر ان کے پتلے کیوں جلیں؟‘‘
آنٹی ثریا کی فلائٹ پہنچنے والی تھی، ابا…
محبت کاتال میل سارے راستے ہموار کرتا چلا جاتا ہے ۔ دل و دماغ کی کوئی حجت کوئی دلیل کام نہیں آتی ۔
میں CCUکے باہر کھڑی آنسوئوں کی بارش میں بھیگ رہی ہوں۔ شاید یہ سب میری توقع کے بالکل خلاف ہؤا ۔ میں اتنی کمزور دل تو کبھی نہ تھی ۔ ہسپتال سے باہر تیز بارش ہو رہی ہے ۔ رہ رہ کر بجلی بھی کوند رہی ہے ۔ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ نے دل کو سہما دیا ہے ۔
میں ایک یقین کے ساتھ اپنی امید کی زمین پر مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوں ۔ وہ میرا سب کچھ ہیں ۔ میری پناہ گاہ ، میرے لیے تحفظ ۔ میرا چھپر میرا سائبان ۔ دنیا کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں۔ برفیلی ہوائوں کی زد میں بھی رہ کر ہرا بھرا درخت ۔ انہوں نے میرے سارے مسائل اپنی پلکوں سے چن لیے ہیں ۔ بہادری اور اصول پسندی سے موسم کی ہر سختی گرمی کو اپنے اوپر جھیل لینے والے ۔ہر مسئلہ کو حل کرنے والا میرا محافظ ۔ ایک تناور درخت کی طرح خود دھوپ میں رہ کر سب کوتپش اور بارش سے بچانے والا انسان جو ہر لمحہ میرے دل میں رہنے کے لائق ہے سچائی…
ساحر زیرِ تعمیر بلڈنگ سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ تپتی دھوپ میں تیزی سے گزرتا ہو&ٔا گاڑی میں بیٹھا اور سکون کا سانس لیا ۔اے سی کی ٹھنڈک سے کچھ اوسان ٹھکانے آئے۔ آج رمضان المبارک کا دوسرا روزہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ وہ اپنے تعمیراتی کام کا معائنہ کرنے اپنے عملہ کو ہی بھیجتا تھا ۔البتہ گزشتہ کچھ دن سے متواتراس کی میٹنگ سائٹ پر ہی ہورہی تھی۔ آج دھوپ بھی خوب تیز تھی،اتنی سی دیر میں ہی وہ گرمی سے بےحال ہوگیا تھا۔ اس نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ سامنے نظر پڑی تو بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ فائل تو وہ اوپر ہی بھول آیا تھا!
اب واپس ٹھنڈی ٹھار گاڑی سے نکل کر پانچویں منزل تک جانا سوہانِ روح تھا۔رمضان کی وجہ سے کام رکا ہؤا تھا، مزدور بھی نہیں تھے۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی ۔ اس کا یہ پلازہ جہاں بن رہا تھا یہ نچلے متوسط طبقے کا رہائشی علاقہ تھا۔کچھ دور ایک قدرےپرانا بنا ہؤا مکان تھا جس کے نیلے رنگ کے دروازے کے آگے چھجے تلے ایک بچہ بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے…
شمائل کے ابھی گریجویشن کے آخری سال کے امتحانات ہونے ہی والے تھے کہ اس کے گھر والوں کو نبیل کا رشتہ پسند آگیا ۔
نبیل کی والدہ نے کزن کی شادی میں اسے دیکھا تھا ۔ پہلی ہی نظر میں انہیں سادہ سی سر پر دوپٹہ اوڑھے دیگر لڑکیوں سے الگ تھلگ سی شمائل دل میں اتر گئی اوروہ اسی ہفتہ اپنے اکلوتے بیٹے نبیل کا پیام لے کر آن پہنچیں ۔نبیل چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھا گھر گاڑی اچھی تنخواہ خوش شکل و خوش لباس ۔گھر میں صرف اس کی والدہ تھیں جو انتہائی سلجھی ہوئی خاتون تھیں سو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا اور وہ نبیل کی دلہن بن کر آگئی ۔
اس کی ساس واقعی ایک مثالی ساس ثابت ہوئیں انہوں نے بیٹے کی تربیت میں صرف ماں ہی نہیں عورت کی عزت کرنا گھٹی میں ڈالا تھا ۔ نبیل کو کبھی اس نے اپنی کسی کزن کے سامنے بھی بے باکی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا اور وہ خود بھی اسی مزاج کی تھی۔دونوں کی جوڑی کی سارے خاندان میں دھوم مچی رہتی ۔
آہستہ آہستہ وہ ذمہ داریوں میں گھرتی گئی اوپر تلے تین بچوں کی آمد پھر گھر ۔اور اماں ،وہ تو پردیس جو جاتیں تو چھ…
بریانی کی دیگ کھلی اور مہک کچن سے ہوتی ہوئی صحن تک پہنچی جہاں قرینہ سے بچھی دریوں پرعورتیں بیٹھی چنے پڑھ رہی تھیں ۔ دیگ کھلنے کی آواز پر جلدی جلدی چنے سمٹنے شروع ہوگئے ۔ نائلہ اور یمنیٰ نے کھانے کادسترخوان سجا دیا ۔سفید دوپٹہ سنبھالتی عورتیں دسترخوان کے گرد بیٹھ گئیں۔تھوڑی ہی دیر میں درودشریف اور فاتحہ کی آوازوں کی جگہ چمچوں ، پلیٹوں کی کھنکھناہٹ اور عورتوںکی باتیں کرنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔
یہ شاہد صاحب کا گھر تھاجہاں وہ اپنی بیگم ساجدہ خاتون اور دو بیٹیوں نائلہ اوریمنیٰ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ وہ پچھلے کئی برس سے فالج جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے ۔ شہر کے معروف بازار میں ان کی کپڑوں کی دکان تھی جہاں وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کام کرتے تھے لیکن فالج کی وجہ سے وہ کاروبار پر جانا بھی چھوڑ چکے تھے ۔ یوں سارے کاروباری معاملات ان کے بیمار ہوتے ہی بھائیوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔ سارا منافع اپنے پاس رکھ کربھائی ان کو قلیل سا ماہانہ خرچ دے دیتے جو ان کے علاج معالجہ میں ہی لگ جاتا ۔یوں گھر کی گاڑی کھینچنے کے لیے نائلہ اوریمنیٰ نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا…
’’سو سوری یوسف میری آنکھ ہی نہیں کھلی‘‘نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولھے کا برنر آن کیا۔
’’رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو۔ میں نے انڈا ابال کر کھا لیا ہے اور چائے میں کالج میں پی لوں گا۔ تمہاری تمام رات حارث کی وجہ سے بے آرامی میں کٹی ہے، ابھی وہ سو رہا ہے سو تم بھی تھوڑی نیند لے لو‘‘ ۔
میں نے نمرہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ مجھے کالج سے دیر ہو رہی تھی کہ ہر منگل کو میرے پہلے دو پیریڈ ہوا کرتے ہیں ۔
میری اور نمرہ کی شادی کو سات سال ہو چکے ہیں۔ چار سال کی ہانیہ اور اب تین ماہ کا حارث۔ یہ شادی محبت کی شادی ہی سمجھیے کہ کزن کی شادی پر نمرہ کو دیکھا اور دو مہینے کی چَیٹ اور ایک آدھ ملاقات کے بعد زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیا۔ ہماری اچھی گزر رہی ہے، نرم گرم حالات تو ازدواجی زندگی کے پیکج میں شامل ہیں کہ شادی گلابوں کی سیج جو ٹھہری۔ جی جناب گلابوں کے ساتھ منسلک کانٹوں کو بھی ذہن میں رکھیے کہ ایسی ہی مہکتی اور چبھتی ہوئی ہوتی ہے ازدواجی زندگی۔ میں خاصی حد…
پون سے تفتیش جاری ہے۔زرَک روزانہ آکر اس سے گھما پھرا کر طرح طرح کے سوالات پوچھتا ہے مگر ابھی تک اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ زرَک کو یقین ہے کہ وہ اپنی معصوم صورت کا فائدہ اٹھا کر بہت سارے ایسے کام کر چکی ہے جو وطن کے خلاف ہیں مگر اس کے باوجود وہ سخت بے چینی محسوس کرتا ہے۔اسے کبھی کبھی یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں پون کے ساتھ وہ زیادتی تو نہیں کر رہا؟ شدید خوف اور ذہنی اذیت کا شکار پون اللہ سے رابطہ بحال کرنا چاہتی ہے مگر نہیں کر پارہی۔اسے لگتا ہے کہ اس کی آزمائش اس کے اور اس کے خدا کے بیچ کھڑی ہے۔
آج پھر اُس پر مایوسی کادورہ پڑا ہؤا تھا ۔ بے زاری اپنی انتہا کوپہنچی ہوئی تھی ۔ بے چارگی اور اکیلے پن کا احساس تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُسے لگر رہا تھا وہ یہاں سے کبھی نکل نہیں پائے گی، یہیںپر ختم ہوجائے گی۔
مگر کاش وہ ختم ہی ہو جاتی… ایسا بھی تو نہیں ہو رہا تھا ناں !
وہ زندگی اور موت کی کیفیت کے بیچ میں معلق تھی کوئی سہارا نہیں تھا کوئی کنارا نہیںتھا۔
تب ایک بار…
آج صبح اخبار پڑھتے ہوئے میری نظریں ایک تصویر پرجم کر رہ گئیں۔دو ماہرین آثارِ قدیمہ اپنے ہاتھوں میں کچھ ہڈیاں تھامے ہوئے تھے جنہیں وہ بڑے فخر سے دکھا رہے تھے ۔تصویرکے نیچے تفصیل دی گئی تھی کہ ان حضرات نے فلاں علاقے سے صدیوں پرانے ڈائینو سار کی ہڈیاں ڈھونڈ نکالی ہیں۔ میںنے دل ہی دل میںانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’صاحبو ! اتنی بوسیدہ اور بے جان ہڈیاں تلاش کر کے بھلا آپ نے کیا کمال کیا ہے ۔ کبھی مجھ سے پوچھا ہوتا تومیں آپکو اپنی جیتی جاگتی ، زندہ، متحرک دریافت دکھاتی ۔ ایک ایسی ہستی جس کے رہن سہن اور جس کی سوچوں اور خیالات کا تعلق قدیم زمانے سے ہے۔ جن کو دیکھ کر ہمیشہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ وہ غالباًکوئی انسان نما خلائی مخلوق ہیں ۔ شاید کبھی کوئی خلائی طشتری راستہ بھول کر بھٹکتی ہوئی انسانی دنیا کی طرف آنکلی اور پھر نیچے اترتی اترتی زمین پر ٹک گئی ۔اس میں سے ایک مخلوق نکل کر ہماری دنیا میں آباد ہو گئی ۔ اسی مخلوق کا نام ہے ، میری نایاب و کمیاب باجی رافت۔‘‘
میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھی، جب میرے والد کا تبادلہ لاہور ہو گیا اور ہم…
میں اس چرواہے کی طرح ہوں جو اپنی بکریاں چراگاہ سے واپس لاتے ہوئے پہاڑی غزلیں گنگناتا ہو ۔ یہ یاد اس سے بھی زیادہ سہانی ہے
حاجی مرید گوٹھ خاموش کالونی کا قبرستان ہے ۔
میں حاجی نور اللہ خان کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوں ، حاجی صاحب کے ساتھ کئی مرد و خواتین خوابیدہ ہیں ، میں چاروں طرف دیکھ رہا ہوں ، کتبے پڑھ رہا ہوں ، میری بہن کی قبر نہیں مل رہی ۔
وہ دور مجھے بھولا تو نہ تھا کہ جب جان سے عزیز زندگی سے بھر پور زندگی کی علامت کے بچھڑ جانے پر تین سال بلاناغہ میں ہر جمعہ کے دن اپنی بہن کے اس نئے گھر میں اس کے سرہانے بیٹھ جاتا تھا ، کچھ تلاوت کرتا ، پھر خاموش بیٹھ جاتا ، بہن کا حال احوال دریافت کرتا ، قبر پر نظر پڑتے ہی مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتا اور سلام کر کے دعائیں لیتے واپس آتا ، مجھے ہمیشہ ایسا ہی لگا جیسے وہاں قبر نہیں بلکہ زندہ و تابندہ وہ ہمیشہ کی طرح آنکھوں میں زندگی بھر کے مجھے دیکھ رہی ہوتی ، مجھے تسلی دیتی ، امی ابو بہن بھائیوں کے حال احوال پوچھتی ، کچھ اپنی سناتی کچھ…
اس یاد گار دن کا تذکرہ جب میں نے وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرلیا
وقت تیزی سے گزارا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
دن مہینے سال تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں ۔ وقت سیل رواں کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے ۔ کبھی تو وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی انسان کو وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے ۔ کبھی وہ تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں اکثر وہ منہ کے بل گرتا ہے ۔ وقت اب دریا ہے جس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا ۔ گزرے ہوئے وقت پر نگاہ دوڑائیں تو ابھی کل کی بات لگتی ہے ، کل ہم بچے تھے آج ہمارے بچے جو ان ہیں اور ہم ان کے بچوں کی خوشیاں دیکھ رہے ہیں ۔
ہزاروں سالوں سے انسان وقت کو شکست دینے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن وہ ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ جتنی بھی کوشش کر لے وقت اس کے ارادوں کو پچھاڑ دیتا ہے اس کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ابھی اس کام کے ہونے کا وقت نہیں آیا ۔ ہر…
ام ریان۔لاہور
اپریل کا شمارہ رمضان کے حوالے سے گراں قدر مضامین سے سجا ہؤاموصول ہؤا۔ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے بجا طور پر توجہ دلائی کہ ہم رسمی روزے نہ رکھیں بلکہ خاص اور اللہ کی توفیق ہو تو خاص الخاص روزے رکھنے کی کوشش کریں ۔ ڈاکٹر ام کلثوم کی تحریر میں سلاست و روانی ہے ۔ انہوں نے رمضان کا بڑا اچھا پروگرام مرتب کر کے پیش کیا ۔ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ نے ماہِ رمضان میں قرآن کے نزول کے پیشِ نظر قرآن کو زندگی کے دستور کے روپ میں بڑی جامعیت سے اجاگر کیا۔
حصہ نظم مختصر مگر بھرپور تھا ۔ حبیب الرحمن کی غزل کے اشعار
جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی
میں زعمِ فہم و فراست میں مارا جائوں گا
خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے
میں اور اور کی چاہت میں مارا جائوں گا
آج کے انسان کی بڑی صحیح عکاسی کر رہے ہیں ۔ شاہدہ سحر کی مترنم نظم نے سماں باندھ دیا۔
ہوائے مہربا ں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحر یہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے
قانتہ رابعہ نے سوشل میڈیا دیوانوں کا بڑا عمدہ نقشہ کھینچا ہے ۔اس تحریر نے قانتہ کے ’’فالوورز‘‘ میں ضرور اضافہ کیا ہوگا۔
’’ ایک عید و ہ بھی تھی‘‘…
صحت کے لیے چہل قدمی کے حیرت انگیز فوائد ہیں۔ بیٹھے رہنے کے معمول کی وجہ سے طرز زندگی کی بہت سی بیماریاں جیسے ہائی بلڈ پریشر یا ہائی بلڈ شوگر ، کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ باقاعدگی سے تیز چہل قدمی صحت کے لیے حیرت انگیز کام کر سکتی ہے۔
اگر آپ سخت ورزشیں کرنے کے قابل نہیں ہیں اور آپ کے پاس جم یا میں شامل ہونے کا وقت نہیں ہے، تو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے دن سے کچھ وقت نکالیں اور تیز چہل قدمی پر جائیں۔ پیدل چلنا ایک ہلکی، کم اثر والی ورزش ہے جسے کوئی بھی آسانی سے اختیار کر سکتا ہے۔ ناکارہ طرز زندگی کو بہت سی بیماریوں جیسے ہائی بلڈ پریشر ، ہائی بلڈ شوگر یا ذیابیطس، کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ، وغیرہ کی بنیادی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔تاہم، صرف پیدل چلنا کافی نہیں ہے، آپ کو چلنے کی رفتار کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ نیوٹریشنسٹ انجلی مکھرجی نے انسٹاگرام پر شیئر کیا۔
’’ روزانہ چند قدم ہمیں صحت مند زندگی کی طرف بہت آگے لے جا سکتے ہیں۔ چلنے کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن جس رفتار سے ہم چلتے ہیں اس سے…
اسلام آفاقی دین ہے رب العٰلمین نے سیدناﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور قرآن مجید فرقان حمیدھدی للعالمین ہے۔اس دین کا قرآن پاک اور اسوہ رسول صلعم کی تعلیم کا لب لباب یا خلاصہ انسانیت کی فلاح ہے اور اس فلاح کا بنیادی فلسفہ انسانیت کے لیے دعا اور نصیحت ہے۔ نصیحت کے بارے میں واضح ہے کہ’’ الدین النصیحہ‘‘ دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ خیر خواہی زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر شے کے ساتھ ہے۔
محبت کا پیمانہ ،تعلق کا درجہ جیسا ہوگا خیر خواہی اسی قدر اپنا رنگ دکھائے گی۔ دعا اور نصیحت کرنا وہ دلی خیر خواہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی حسنات میسر آتی ہیں.لیکن قرآن نے’’ فزکر ان نفعت الزکریٰ‘‘ کی بھی تعلیم دی ہے۔گر کوئی نصیحت مشورہ رائے یا خیر خواہی کو قبول نہ کرے یا بے رخی بے توجہی اختیار کرے تو اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینے کی بھی تلقین ہے۔نصیحت اس کا حق ہے جو اس کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن دعا کرنا ایسا عمل ہے جو کسی طور بھی چھوڑا نہیں جا سکتا، کوئی چاہے یا نہ چاہے پسند کرے یا نہ…
میری نور 9مہینے کی تھی جب فیروزاں میرے گھرآئی تھی ۔میں دفتر جاتی تھی اور بچی کی دیکھ بھال کے لیے ایک عورت کی ضرورت تھی ۔ ایک سکول کی پرنسپل مسز سعید نے اس کی ایمانداری اور وفا داری کی گارنٹی دی ۔ وہ اکیس سال ہمارے گھر میں رہی، وہ نہ ہوتی تو میںسکون سے ملازمت نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کی ایک چودہ سال کی بیٹی تھی ۔ اس نے سید پور روڈ پر کسی گھر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا ، شام کوجب میں گھر آتی تو وہ بھی چلی جاتی اس لیے کہ اسے اپنی بیٹی کی فکر رہتی تھی جوسارا دن اکیلی ہوتی تھی ۔ فیروزاں نے پہلے دن نور کوگود میں اٹھا کر کہا تھا ، ’’ باجی آپ بے فکر ہو جائیں یہ میری بیٹی ہے ‘‘۔اس وعدے کو اس نے مرتے دم تک نبھایا ۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ وہ نور سے زیادہ محبت کرتی ہے یا نجمہ سے۔
مجھے اس کی خود داری اور ایمانداری بہت پسندتھی ۔ وہ جس دن میرے گھر کام پر آئی تھی اس نے مجھے کہا تھا ،’’ باجی آپ کسی کو بتائیے گا نہیں ۔ نجمہ سے بڑے میرے چار…
بلا کی گرمی اور دوپہر کا وقت ۔پنکھا سر پر چل رہا تھا پھر بھی حال برا تھا ۔میں نے سر اٹھا کر چاروں طرف دیکھا ۔عورتیں ہی عورتیں …چند کی گود میں بچے۔
اُف آج تو تین بج گئے! میں نے اپنے آپ سے کہا ۔
نہ جانے کیوں لاشعوری طور پر میں نے اس ایک مخصوص کونے کی طرف دیکھا ۔وہ وہاں اسی طرح کھڑی تھی۔ ایک بچہ دائیں ایک بچی گود میں اور بڑی لڑکی اس کا دامن پکڑے ۔وہ تینوں کبھی مجھے دیکھتے کبھی دبی نظروں سے مریضوں کو ۔مجھے سخت کوفت شروع ہوئی ۔اس کو آنا ضروری تھا ایک دن بھی نہیں رکتی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں امن کی ندیاں بہتی تھیں اور میری کلینک پر مریضوں کا بے تحاشہ رش ہوتا تھا ۔عموما ًدو ڈھائی بجے میں فارغ ہوجاتی تھی لیکن کبھی کبھی رش بہت ہوتا تو تین بھی بج جاتے ۔تھکن سے میرا برا حال ہوجاتا ۔اور سارے مریضوں کے بعد جب کلینک خالی ہوتی وہ ملتجی نظروں سے مجھے دیکھتی ۔ ان دنوں تندور کی روٹی دو روپے کی ملا کرتی تھی ۔اسے پانچ روٹیوں کے لیے دس روپے چاہیے ہوتے تھے ۔نہ جانے ان دنوں میری فیس بھی…
کہتے ہیں کبھی کوئی ایک شخص کسی کی منزل بن کر سوچوں کا محور و مرکز بن جاتا ہے ۔ماسی زلیخا میں کوئی ایسی خاص بات تو نہ تھی کہ لیس دار محلول کی طرح ہزارجتن کے باوجود ذ ہن کےپردے سے یاد مٹ کر نہ دے لیکن کچھ ایسا ضرور تھا کہ اس کی یاد محو ہوکر نہ دے رہی تھی ۔
میری پہلی ملاقات جب ہوئی تھی تب میرا تیسرا بچہ کم وقفہ سے دنیا میں شان سے آچکا تھا ۔کچی عمر میں امی نے شادی کر دی تھی ۔پہلوٹھی کی لڑکی ربیعہ فطرتاً ضدی تھی ہمہ وقت وہ میرے پلو سے چپکی رہتی یا میں۔ بہر حال میں ،ربیعہ پھر تنزیل پھر صفورا کے دھندوں میں پھنسی رہتی ۔ میاں سمیت ہر قریبی فرد یک زبان یہی شکوہ کرتے نظر آتے کہ اپنے بچوں ہی کے پیچھے لگی رہتی ہو اپنے دائیں بائیں بھی دیکھ لیا کرو ۔ میرے دن رات انہی کی ناز برداری میں وقف ہوچکے تھے۔ ایسے میں ماسی زلیخا کی آمد جہاں میرے لیے بہار کا جھونکا ثابت ہوئی وہیں میاں سمیت گھر والوں نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
زلیخامحنتی تھی۔سندھی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتی تھی۔ کام بھی کبھی نہیں…
الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس دفعہ صائمہ جی کی منفردتجویزتھی۔ خیال کو مہمیز دینے کے لیےیادوں کی پٹاری کھولنی تھی۔ ہم نے سوچ کے در وا کیے اور ماضی کے جھروکوں میں کسی مددگار کو ٹٹولا۔
٭
ہر خاندان کا اپنا مزاج اپنا اصول ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں مدد گار رکھنے پہ سختی سے ممانعت تھی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ریت برقرار رہی۔ سو یادوں کے گھوڑے کو ایڑ دی اور سر پٹ دوڑاتے جا ٹھہرے سولہ سال کی کھٹی میٹھی بانکی عمر میں،جب بچپن کو دامن سے جھٹکنے کی کوشش ہوتی ہے، خود کو عقلِ کل سمجھا جاتا ہے۔
میکے کا آنگن، بے فکر عمریا، حسن کے چرچے، ذہانت کے ڈنکے، اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہوگی؟ سو مغرور تھے تو کیا غلط تھے۔ مسکرانے میں تجاہلِ عارفانہ، بولنے سے یوں گریز کہیں موتی نہ جھڑ جائیں۔ خیر بولتے تو آج بھی کم ہیں پر وہ معصوم سا غرور خاک ہؤا۔ زندگی کب سولہ ساون پہ ٹکی رہتی ہے؟ جب اپنا آپ باور کرانے پہ آتی ہے تو نہ وقت دیکھتی ہے نہ…
جس طرح بند کمرے کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے پتہ چل جاتا ہے کہ باہر دن نکل آیا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے آدمی کاکردار بے نقاب ہوجاتا ہے ۔
ساجدہ ماسی کا حال کچھ ایسا ہی تھا جہاں کام کرتی وہاں کے لوگ اس کو چھوڑ کردوسری ماسی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہاں اگر وہ خود گاؤں جانے کا ارادہ کرلے جو کہ ہر سال ہی کر لیتی تھی تو کسی کے روکے نہ رکتی ۔ جہاں جہاں کام کرتی تھی ….وہاں وہاں کے لوگ مجبوراً کسی دوسری ماسی کو رکھ تو لیتے لیکن دل سے اس کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ….واقعی اچھامدد گار بھی تو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے خاص طور سے خواتین کے لیے…. اُن میں سے بھی خاص اُن خواتین کے لیے جو جاب کرتی ہوں ۔
ساجدہ کی ایک باجی صبح بچوں کو اسکول بھیج کر نکلتی تو ساجدہ آ چکی ہوتی ۔ وہ اسے چھوڑ کر نکل جاتیں ، اس قدر اعتماد تھا ۔ ساجدہ سارے گھر کی صفائی کے ساتھ باورچی خانہ صاف کرتی برتن دھو کر روٹی پکاتی اورپھر باہر کا دروازہ بند کر کے چلی جاتی۔ لاک اندر سے بٹن دبا کر بند…
مددگار نمبر کے لیے تحریر لکھنے بیٹھی تو سوچ کے پنچھی کو آزاد چھوڑ دیا، اس نے اڑا ن بھری اور کئی برس پیچھے تیزی سے مسافت طے کرتا چلا گیا اور پھر اچانک ٹھٹک کر ایک ڈال پر بیٹھ گیا، اور میری یادداشت نے ایک بھولی بسری کہانی یاد دلائی۔ یہ ملازمین ، خدمت گار ، مددگار …کیسی کیسی کہانیاں ان کی زندگیوں سے جڑی ہیں، جنھیں سوچ کر ہی دل اداس ہو جائے ۔
ایسی ہی ایک کہانی میرے ذہن کے کسی کونے میں نقش ہے۔ جب یادوں کی پٹاری کھلی تو ایک کے بعد ایک پرت ہٹتی چلی گئی ۔
٭
وہ ہماری کام والی باجی کی منجھلی بیٹی تھی، کم عمر، خوش مزاج، شوقین اور زندگی سے بھر پور ، کبھی کبھی ماں کے ساتھ آجاتی ، ماں کا ہاتھ بٹا دیتی، ہنستی مسکراتی آتی اور کام کرکے چلی جاتی ۔ وقت کے ساتھ عمر بڑھی، قد نکلا اور اس کی ماں کو بیٹیوں کی شادی کی فکر نے ستانا شروع کر دیا ۔اپنی برادری کی روایت کو دیکھتے ہوئے اس نے بھی اپنے گاؤں میں ،خاندان میں رشتے تلاشے اور پھر جلد ہی کامیابی حاصل ہو گئی ۔ برادری سے رشتہ مل گیا ، رشتے کا بھائی تھا…
خاندان کی چند مشہور و معروف ’’فلمی سٹائل‘‘ شادیوں میں ہماری شادی خانہ آبادی سر فہرست ہے ۔ ہماری ساس امی کا بچپن ممبئ اور کلکتہ شہر میں گزرا۔تمام عمر ان شہروں کے رسم و رواج کا سحران کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ شادی کے موقع پر ان کی ہدایات کے عین مطابق باجے گاجے اور ڈھول تاشے کے ساتھ شادی منعقد ہوئی ۔ ایک وجہ اور تھی اس قدر ہنگامہ آرائی کی وہ یہ کہ ہماری ساس امی کی اولادوں میں آخری اور ہماری اماں جان کی آدھی درجن کی ٹیم میں پہلی بار کسی کے ہاتھ پیلے ہونے جا رہے تھے۔دادی ، نانی، پھپو، خالہ، مامی،چاچی سب نے اپنے ارمان ہماری شادی میں بھرپور طور پر نکالے۔
کئ روز جاری رہنے والی تقریبات میں مہندی کا فنکشن بھی بےحد منفرد انداز میں منعقد کیا گیا۔لڈی، ڈانڈیاں، ڈسکو ، سب نے اپنے اپنے انداز سے محفل میں رنگ بھرے ۔
اس محفل میں ہمارے سسرال کی جانب سے ایک چھوٹی سی لڑکی نے سب کو ششدر کر کے رکھ دیا ۔سنہرے اور لال رنگ کے گھاگھرا چولی پر گھٹنوں تک لمبے لہراتے بال ،گہری سانولی سلونی رنگت پر گہرا میک اپ کیے وہ سب سے الگ ہی دکھ رہی…
داخلی دروازے کی گھنٹی بجی ۔گرمیوں کی دوپہر میں عام طور پہ یہ وقت آرام کا ہوتا ہے۔
اس وقت کون آ گیا؟میں نے کی ہول سے جھانکاسیاہ برقعہ میں ملبوس ایک درمیانی سی عمر کی خاتون اور ساتھ چادر میں لپٹی ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔
’’جی کس سے ملنا ہے؟‘‘
’’خالہ جی ہیں ؟ ‘‘انہی سے ملنا ہے پتہ چلا تھا کہ صفائی کے لیے انہیں کام والی کی ضرورت ہے۔
تسلی کے بعد میں نے دروازہ کھول دیا۔انہیں بٹھا کے میں امی کو بلا لائی۔
خالہ جی ہم کام والیاں نہیں ہیں عزت دار لوگ ہیں۔بڑی مجبوری میں آئے ہیں آپ مہربانی کریں ۔بڑا خاندان ہے اب گزارا مشکل ہو رہا ہے ۔
نظریں جھکائے وہ جھجکتے ہوئے کہہ رہی تھی –
سانولی سلونی سی چہرہ قدرے گولائی لیے ہوئے، درمیانہ قدو قامت ،محنت اور معصومیت کا امتزاج ،آنکھوں میں ایک خاص چمک،گفتگو میں تہذیب کا عنصر نمایاں۔
یہ سلمیٰٰ تھی،جو اپنی نوعمر بیٹی اور نند کے ساتھ اگلے دن سے ہی کام پہ آنے لگی۔
خاموشی سے آتی۔ برقعہ اتار کے کھونٹی پہ لٹکاتی۔ توجہ اور ایمانداری سے کام کرتی اور سلام کر کے واپس چلی جاتی۔
اس کی چودہ پندرہ سالہ بیٹی اور اٹھارہ انیس سالہ نند کام کے دوران البتہ خوب باتیں کرتیں ۔کبھی…
زندگی کی گاڑی کئی اسٹیشنوں سے گزری ۔ پہلے کوئٹہ پھر گوجر ا نو ا لہ میں مختصر قیام ہؤا۔آخری اسٹیشن لاہور کا تھا جہاں مستقل قیام ہؤا تو وہاں پہلے گھر بنایا پھر گھر داری کا شعور آیا ۔ گھر کو گھر سمجھا تو رہنے سہنے کا سلیقہ بھی آیا۔
اس وقت ہر کام مشکل لگا تو کسی ہمدرد کی ضرورت ہوئی جو گھر کے کاموں میں مدد گار ثابت ہو سکے یوں ملازم رکھنے کا سوچا لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ فکر لاحق تھی کہ وہ نہ جانے کیسا ہوگا ۔ کسی اجنبی پر بھروسہ کرنا پھر اس کا رات دن سر پر سوار رہنا یا آنے جانے کے اوقات پر نظر رکھنا بھی مشکل گا۔
ابھی سوچ بچا ر کا مرحلہ جاری تھا اور لوگوں سے مشورے کیے جا رہے تھے کہ گھر بنانے والے مستری نے کہا میرے بیٹے کو رکھ لیں ۔ وہ لڑکا کبھی کبھی باپ کے پاس گائوں سے آتا بھی تھا اس لیے کچھ مانوس بھی تھا اور اعتبار کا بھی تھا ۔ پھر بچہ تھا اس لیے سوچا کہ کام بھی سیکھ لے گا ۔ باپ کو یہ دلچسپی تھی کہ میں اسے پڑھا بھی دوں گی۔ کیونکہ میرا ڈے…
’’چوہدری سرور اعظم کے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے…. سات کوس تک تو پتہ چلنا چاہیے کہ چوہدریوں اور نمبرداروں کے ہاں شادی کیسے وج گج کے ہوتی ہے۔صرف دس دن شادی میں باقی ہیں، نہ کوئی واجا گاجاہے نہ ڈھول ڈھمکا ،نہ لنگر کھلا‘‘۔
چوہدری سرور نے کلف سے اکڑے سوتی سوٹ پر واسکٹ پہنتے ہوئے خفگی کا اظہار کیا ۔
’’آج ہی سے ساری کڑیوں چڑیوں کو بلاؤ۔ کوئی ناچ گانا ہلا گلا ہو….دیگیں کھڑکنے کی آواز سنائی دے….سات گلیوں تک لائٹنگ شائٹنگ کرو، یہ کیا دو زنانیاں سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھی ہیں‘‘۔
اب کے چوہدری صاحب نے اپنی نصف بہترچوہدرانی حشمت بی بی کی خبر لی۔
ان احکامات کے جاری ہونے کی دیر تھی آدھے گھنٹے کے اندر اندر دو کلومیٹر کے فاصلے تک سرخ نیلی پیلی بتیوں کا بھی بندو بست ہوگیا ، ڈھولکی لے کر چوہدری سرور اور حشمت بیگم کی بھانجیاں بھتیجیاں بھی سرخی پاؤڈر تھوپ کر حویلی میں پہنچ گئیں اور گھر سے باہر جیما قصائی مرغیاں ذبح کرنے اور شیدا نائی دیگ کے اندر چمچا کھڑ کانے میں مصروف ہوگیا۔
اس دن جنوری کی تین تاریخ تھی اور شادی تیرہ جنوری کو طے پائی تھی۔ درمیان کے سارے دن ہر چھوٹے بڑے کے لیے ناقابل فراموش…
جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا، صائمہ پانچ سال کے بعد کینیڈا سے پاکستان آنے پر جہاں بہت خوش تھی وہاں اداس بھی تھی۔ان سالوں میں اس کے بہت پیارے کچھ رشتے اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے جن میں ایک اس کے بہنوئی تھےاور دوسری اس کی دوست عشاء۔
کووڈ سے پہلے تو وہ باقاعدگی سے ہر سال اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آتی رہتی تھی لیکن 2018 کے بعد کووڈ کے علاوہ بھی کچھ وجوہات کی بنا پر وہ پاکستان نہیں آسکی تھی۔اور اب پاکستان جاتے ہوئے وہ اپنی دوست اور بہنوئی کے ساتھ پچھلے سالوں میں اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے اداس ہو رہی تھی۔
جہاز اسلام آباد ایئر پورٹ پر اتر چکا تھا۔اس کی بڑی بہن اور بھانجا اسے لینے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
آپا کو سفید بالوں، سفید دوپٹے اور سادہ چہرے میں دیکھ کر پھر سے بہنوئی کا اچانک دنیا سے جانا یاد آگیا۔
وہ ایئر پورٹ پر ان کے گلے لگ کر بہت سارا رونا چاہتی تھی لیکن اِدھر اُدھر لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔
یہ مئی کی نسبتاً گرم دوپہر تھی۔گھر جاتے ہوئے سڑک کے کنارے درختوں پر مٹی کی ایک تہہ کو دیکھتے…
شام ڈھلنے کو تھی۔نوری کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔بات ہی پریشانی کی تھی۔
بالا سویرے سے نکلا اب تک نہ لوٹا تھا۔وہ کبھی اتنی دیر گھر سے باہر اکیلا نہ رہا تھا ۔
سویرے اس کا جھگڑا نذیرے سے ہو&ٔا تھا۔بات تو معمولی سی تھی پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔بالے کو اماں کے ہاتھ کے پکے گڑ والے چاول بےحد پسند تھے ۔پچھلی رات نذیرے نے اپنے حصے کے چاول نعمت خانے میں رکھے تاکہ سویرے کام پر ساتھ لے جائے پر بالا بھوک لگنے پر رات کے کسی پہر سارے چٹ کر گیا۔بس اس بات پر نذیرے کو تو پتنگے لگ گئے ، مار مار کر بالے کا چہرہ سجا دیا۔
کہنے کو تو نذیرا عمر میں بالے سے پورے تین سال چھوٹا تھا ، پر بالے کو اس نے کبھی بڑا بھائی نہ سمجھا۔بات بے بات جھڑکنا اور حقارت آمیز سلوک کرنا ہر دم کا وطیرہ تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد سے نذیرا ہی گھر کا کل مختار تھا۔باپ کی طرح مزدوری کر کےوہ سب کے پیٹ پال رہا تھا ۔جہاں تک بالے کا معاملہ تھا تو وہ تو سدا کا اللہ لوک اور سادھو سا تھا۔پیداہو&ٔا تو تب سے ہی ماں باپ کے لیے آزمائش بن…
زرک پون کے متعلق مزید معلومات کے لیے اس کے ماں باپ سے ملتا ہے ۔ اور پھر اظفر سے بھی ۔ اظفر جو نوکر شاہی کی بد ترین مثال ہے بے حس ، حرام خور اور عیش پسند ۔ اسے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ اپنے مقام ، مرتبے اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔پون زرک کو کئی سال پرانے واقعات بتا تی ہے ۔ جب وہ سکول میں تھی اور ان کا ٹرپ پہلی بار شہر سے باہر گیا تھا تب وہاں اس کے ساتھ عجیب و غریب معاملات پیش آتے ہیں ۔
اس چھوٹے سے جملے میں کچھ تو تھا جومسلسل اس کے دماغ میں چبھ رہا تھا ،ہلچل مچا رہا تھا۔اس نے سنا تھا کہ حقیقی زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں جب لگے کہ یہ واقعہ دوسری بار ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس سے پہلے ایسا ہی کوئی خواب دیکھا ہوتا ہے۔ تو کیا اس نے بھی یہ جملہ خواب میں سنا تھا؟ واقعی وہ اسے دوسری بار سن رہی تھی۔
آخر یہ ہے کیا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا دماغ مسلسل کھوج میںتھا۔ وہ تھک چکی…
بارہ سال کی عمر میں جب میرے والدین مجھے بڑے بہن بھائی کے پاس چھوڑ کرسعادت حج کے لیے سر زمین عرب کی جانب روانہ ہوئے تو دو وجوہات کی بنا پر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری ہو گئی ۔اولاً تو ماں باپ سے چالیس روز کی جدائی اور دوم خانہ کعبہ کے دیدار کی خواہش۔
جب ماما اور ابو چالیس روز بعد گھر لوٹے تو انہوں نے وہاں کی داستانیں سنائیں جن کو سن کر وہاں جانے کی خواہش دل کے کسی گوشے میں شدت پکڑتی گئی اور اللہ سے اپنے بلاوے کے لیے دعائوں کو اور تیز کر دیتی ۔ کئی بار امید بندھی مگر کسی نہ کسی وجہ سے خواب ٹوٹنے لگے ۔ کچھ ان چاہے خیالات ایسے بھی پیدا ہوئے کہ شایدمیری قسمت میں یہ نہ لکھا ہو مگر شیطان کے پیداکیے ہوئے ان وسوسوں کوکتنی بار جھٹکتی رہی ۔ تصاویر اور ویڈیوز میں اللہ کے گھر کو دیکھتی ، دعا کرتی اور اس سے پہلے کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں … اپنا دھیان گھر بچوںاور جاب میں لگا لیتی۔کبھی کبھاراس انتظار کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اور اللہ کے گھر جانے کے لیے بلک بلک…
(۱) گمشدہ افراد
مسجد ذوالحلیفہ میں گمشدہ افراد کے کائونٹر بنائے جائیں جہاں مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے اہل کار موجود ہوں ۔
مدینۃ المنورہ سے جب معتمر ین اور حجاج کرام مکہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں توچند کلومیٹر کے بعد مسجد ذوالحلیفہ (میقات) میں احرام باندھنے کے لیے گاڑیوں کے قافلے رکتے ہیں یہ بہت بڑی مسجد ہے جس کے چاروں اطراف منظر ایک جیسا ہے ۔
جب بسیں رکتی ہیں تو ڈرائیور اعلان کرتا ہے کہ مسافر احرام باندھ کر نیت کر کے نوافل ادا کر کے آدھے گھنٹے میں واپس آئیں اور یہ بھی اعلان ہوتا ہے کہ تاخیر سے آنے والوں کا انتظار نہیں کیا جائے گا اکثر اوقات درجنوں بسیں اور گاڑیاں رکتی ہیں ۔ خواتین اور مردوں کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے اگرچہ غسل خانوں اور ٹائلٹ کی تعداد سینکڑوں ہے لیکن زائرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے بوڑھے لوگ جلدی چل نہ سکنے والے مسافر اور اکثر خواتین دیے گئے وقت میں احرام باندھ کر فارغ نہیں ہو پاتے اور پھر مسجد کے صحن اور دروازے اور باہر بسوں کے سٹینڈ ایک ہی طرز کے ہیں لہٰذا اکثرلوگ بھول جاتے ہیںکہ اُن کی بس کہاں کھڑی ہے۔
مسافر جب احرام کی غرض سے اترتے…
جیو ٹی وی کے معیار پر ایک سوالیہ نشان …تھپڑ کلچر…وحشت اور تشدد کو گلیمرائز کیا جارہا ہے
جیو ٹی وی چینل سے پیش کیا جانے والا سیریل تیرے بن اپنی 46ویں قسط آن ائیر کرنے کے بعد اچانک شدید تنقید کا نشانہ بننا شروع ہؤا اور علم میں یہ بات آئی کہ شاید اسی ردعمل کی وجہ سے رائٹر نوراں مخدوم اور پروڈیوسر سراج الحق کو اگلی قسط کے سین باقاعدہ کاٹنے پڑے اور وائس اوور سے کام چلایا گیا ۔
میں نےاس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی تھی مگر اس کی متنازعہ شہرت سن کے اس تھپڑ سین سے دیکھنا شروع کیا جس پر بڑی لے دے ہو رہی تھی۔مجھے تو چھیالیسویں قسط کے تھپڑ تک پہنچنا ہی مشکل لگ رہا تھا ۔ جو زبان اور سوچ اس ڈرامے کے رائٹر پروڈیوسر اور اداکاروں کی مشترکہ کوششوں سے پردہ اسکرین پہ نظر آرہی ہے وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا تو کیا،اکیلےدیکھنا بھی ذوقِ لطیف کی آبیاری نہیں کرتا۔ یہ سیریل ڈرامہ نگار کے اپنے ذاتی تجربوں ، وڈیرانہ خیالات اور تشدد پسندانہ سوچ کی کھلی کھلی عکاسی کرتی ہے ۔
ڈرامے کا ہیرو ایک مضبوط،اصول پسند اور انتہائی شریف مرد دکھایا جاتا ہے ۔ مگر یہی انتہائی…
ڈاکٹر ام کلثوم۔ لاہور
مجھے کسی فرد یا فرد کے کسی کام پر تبصرہ کرنا ہمیشہ بڑا مشکل محسوس ہوتا رہا ۔ ایک کمزور بندہ کیسے دوسرے کی محنت اور اخلاص کا صحیح اندازہ کر سکتا ہے ۔دعا ہے رب کریم اس خاص نمبر کی تشکیل میں حصہ لینے والے تمام افراد کی مساعی کو شرف قبولیت بخش دیں ،آمین۔
کہا جاتا ہے’’ بندہ بندے دا دارو ‘‘، یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے ضعف اور بےشمار کمزوریوں کے باعث محتاج ہے ، وہ تنہا اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے نہ آسائش کا حصول ممکن ہے ۔ زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر دور میں معاونت کے لیے وہ دوسرے انسانوں کا محتاج ہے ۔ زندگی کی گاڑی کا سفر خوشگوار اور کامیاب ہی اس صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ تعاون خیر خواہی کے جذبات کے ساتھ استوار ہو ۔
یوں ہر رشتہ ، وہ نسب کی بنیاد پر قائم ہو یا احتیاج کی بنیاد پر ، ایک امتحان ہے :لیبلوکم ایکم احسن عملا۔
امتحان آجر کا ہے اور اجیر کا بھی ، افسر کا ہے اور ماتحت کا بھی ، زبردست کا ہے اور زیردست کا بھی ، آقا کا ہے اور غلام کا بھی !
اسلام اپنی معاشرت…
قارئین کرام سلام مسنون!
محرم الحرام سے نئے قمری سال کا آغاز ہے۔ اللہ اس سال کو امت کی بیداری کا سال بنائے آمین۔ساتھ ہی اگست ہے، وہ مہینہ جس میں ہم نے آزاد وطن حاصل کیا، یہاں آکر بسنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں تاکہ لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر لیے گئے خطہِ زمین کو اسلام کی سربلندی کا مظہر بنائیں، نبی کریمﷺ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنا ڈالی آج کے دور میں اس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں، سچ، دیانتداری، امانت کا پاس، عدل و انصاف، برابری،شجاعت، خودداری، محنت، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیرخواہی، بھائی چارہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال حاصل کریں، غیر اللہ سے کنارہ کش ہوجائیں، شرکیہ اعمال ہماری مجبوری نہ رہیں،ہم صرف خدا کی ذات سے ڈرنے والے ہوں، اسی کے آگے خود کو جوابدہ سمجھیں، قرآن کے احکامات کو اپنے ریاستی و سیاسی امور، معیشت اورمعاشرت سازی میں رہنما اصول بنائیں۔ سیرت ِ نبیؐ سے رہنمائی لے کر خارجہ و داخلہ حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ تعلیم وتربیت کے ذریعے ایسے انسان تیار کریں جو اس مملکتِ خداداد کو سنبھالنے والے ہوں اور اس کے قیام کے مقاصد کو بدلتے ہوئے عالمی حالات میں…
فضائل مکہّ مکرّمہ
روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب اور افضل شہر شہرِ مکہ مکرمہ ہے ۔ جس کی فضیلت کا تذکرہ بارہا خود رب العالمین نے کیا ۔ محض تذکرہ ہی نہیں بلکہ اس کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اُس کی قسم بھی کھائی چنانچہ سورت التین میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی ۔ــ(سورہ التین۹۵،۴)
اور دوسری قسم اللہ تعالیٰ نے سورہ البلد کے شروع میں کھائی ‘‘۔ (البلد90:1)
ارشاد فرمایا :
نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔
اور اس شہر کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا ہے ؟ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء افضل الرسل، خاتم الانبیاءرحمتہ اللعالمین جناب محمد ﷺ کی بعثت بھی اسی شہر مبارک میں فرمائی اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے یوں ارشاد فرمایا :
اور سی طرح حضرت عبد اللہ بن عدیؓ کا یہ بیان ہے کہ انہوں نے آپ ؐ کو دیکھا کہ آپ (حزورۃ)مقام پر کھڑے ہو کر ( مکہ مکرمہ کو مخاطب…
محرم الحرام کا اصل پیغام یہ ہے کہ حق کا بول بالا کرنے کو مقصدِ زندگی بنایا جائے
قرآن پاک کی سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اُس کے ( اللہ تعالیٰ کے) نوشتہ میں بارہ ہی ہے ۔ اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ( رجب، ذیقعد،ذالحج،محرم)۔یہی ٹھیک ضابطہ ہے ( کیلنڈر کا ) لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو۔ جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ہی ساتھ ہے (یعنی متقیوں کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ساتھ دے ) ان چار مہینوں میں محرم کی اہمیت مزید رسولﷺکے اقوال مبارکہ سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ محرم کا معنی ہے بہت زیادہ قابل تعظیم، ان مہینوں کی حرمت ابتدائے آفرینش سے ثابت ہے۔‘‘
حج الوادع میں نبی ؐنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔
’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے ۔ سال کے بارہ مہینے ہؤا کرتے ہیں ۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔…
نہ ہم نے کھلتے گلاب دیکھے نظر نہ شکلِ ببول آئی
عجیب منزل تھی جس کی راہوں میں گرد دیکھی نہ دھول آئی
لکھے تھے قسمت میں اس کی شاید نشاط کے صرف چند جھولے
وگرنہ خواہش درختِ جاں کی تمام شاخوں پہ جھول آئی
جو چند اچھے سمے مقدر سے میری جھولی میں آ گرے تھے
انھیں بھی ظالم یہ دشمنِ جان موت جا کر وصول آئی
یہ سچ ہے میں زندگی کے ہاتھوں کئی برس پہلے مر چکا تھا
اے موت اب میری جان لینے تو آئی ہے تو فضول آئی
جو شرک و تثلیث و بت پرستی کی رد میں اخلاص میں اتاری
اُس آیتِ لم یلد کی لوگو سمجھ میں وجہِ نزول آئی
نہیں تھا جب میری آنکھوں، چہرے، جبیں پہ غم کا کوئی تاثر
تو پھر کوئی آہ میرے اندر سے ہو کے کیسے ملول آئی
مجھے تو لگتا ہے زندگی بھی فقط کوئی ایک دائرہ ہے
دنوں میں جس کے نہ عرض دیکھے نہ کوئی شب مثلِ طول آئی
عجب ہے بے کیفیت کا عالم میں ہوکے بھی جیسے میں نہیں ہوں
خدارا اے زندگی مجھے تو بتا کہاں جا کے بھول آئی
امیدِ صبحِ بہار رکھنا
سدا گلوں پہ نکھار رکھنا
بُھلا کے رکھنا خزاں کا موسم
بہار یوں ذی وقار رکھنا
سہانی رُت ہے اب آنے والی
یہ زرد پتے اتار رکھنا
اچھلتی موجیں سمندروں میں
یونہی دلِ بےقرار رکھنا
چھلکنے پائے نہ چشمِ پُرنم
چھپا کے غم صد ہزار رکھنا
اداس موسم کے رتجگوں میں
نئی رتوں کا خمار رکھنا
کبھی تو آئے گا لوٹ کر وہ
ہر آن یہ اعتبار رکھنا
جدا نہ ہوں گے یہ سوچ لینا
نہ پھر دنوں کا شمار رکھنا
فلک کو چھونا ہے،سو ہے لازم
طویل اک انتظار رکھنا
ستاروں پر ڈالنی ہے آخر
کمند اپنی سنوار رکھنا
نہ قافلہ چھوٹ جائے اپنا
نگاہ کو ہوشیار رکھنا
تلاشنا نقشِ پائے محبوبٌ
جبیں وہاں بار بار رکھنا
سحرؔ جو لائی ہے گُل کی خوشبو
اسے نفس میں اتار رکھنا
ہم عظمت ِقرآن کی حرمت کے امیں ہیں
ہم نورِوحی نورِہدایت کے امیں ہیں
ہیں دل میں بسائےہوئے قرآن کو اپنے
ہم زیر زبر پیش ہر آیت کے امیں ہیں
عالم میں ہے گونج اس کی ہر اک سمت ہر اک وقت
صد شکر کہ ہم اس کی تلاوت کے امیں ہیں
مصحف یہ ملا آخری محبوبِ خدا کو
ہم نسبتِ آقا سے سعادت کے امیں ہیں
بچوں کی زباں پر ہے یہ، حفاظ کے دل میں
یوں ذکرِالٰہی سے عبادت کے امیں ہیں
محراب سے، منبر سے، مساجد سے، مکاں سے
ہر طور سے ہم اس کی اشاعت کے امیں ہیں
اعجازِ نبوت ہے یہ شہکارِ الٰہی
ہم اس کی فصاحت کے بلاغت کے امیں ہیں
الحمد سے الناس تلک سب ہے حقیقت
ہرحرف پہ ہم اس کی صداقت کے امیں ہیں
یدعون الی الخیر کی دے ہم کو یہ تلقیں
ہم خیر امم اس کی نصیحت کے امیں ہیں
لاریب ہدایت کا یہ سرچشمہ سراسر
ہم خادم ِقرآن شریعت کے امیں ہیں
اک نقطہ تلک اس کا کبھی مٹ نہیں سکتا
خود ربِّ جہاں اس کی حفاظت کے امیں ہیں
یہ کفر کی سازش سے نہ بدلے نہ مٹے گا
سینے ہیں کئی اس کی جوقرأت کے امیں ہیں
باطل کا کہاں دم تھا اگر ہم یہ دکھاتے
دنیا میں بہت اس کی فضیلت کے امیں ہیں
قرآن کے عاشق ہیں دکھانا ہے عمل…
سامنے جھیل کے نیلے پانیوں پر سفید بگلے اور گرما کے اواخر کی ہلکی مست ہوائیں جو جسم و جان میں تراوت بھر دیں۔ اور آس پاس کے درختوں پر رنگ برنگے پھول پھل اور بہت سے پرندے ، جن کو آج میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ایک گھنے درخت کی شاخ کے اوپر سبز پتوں میں چھپا بیٹھا میں دنیا کو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حیران ہو کر دیکھ رہا تھا۔ایک بار نہیں کئی بار میں نے پروں کو جی جان سے کھول کر انگڑائیاں لی تھیں۔ دائیں بائیں پلٹے کھائے تھے، گر کر سنبھلا اور سنبھل کر گرا تھا، کہ بند پنجروں میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے۔
دنیا اتنی حسین ،عجوبہ روزگار اور وسیع ہے۔ اور میری کمر پر لگے پر اتنے مضبوط ہیں کہ یہ مجھے پنجرے کی قید سے نکال کر اس درخت تک لے آئے اور اگر میں ہمت کروں تو اس کے آگے بھی ان گنت جہاں ہوں گے۔
میں درخت کی شاخ پر بیٹھا، سامنے کی آذاد رنگیلی اور شفاف ہواؤں کا مشاہدہ کر کے حیران و پریشاں تھا۔ اور اس نئی نویلی دنیا میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں فکرمند بھی۔ کیونکہ کچھ منٹ پہلے ہی…
ایک صحن سے دوسرے صحن تک کا فاصلہ لامتناہی بن جائے گا، کسے خبر تھی! اس سرزمین کی کہانی جہاں لکھی جانے والی ہر داستانِ محبت جدائیوں کی پُرپیچ راہوں سے ہو کر گزرتی ہے
” ٹک “کر کے کچھ اس کے سر میں لگا تھا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا اور سامنے دیکھا۔ وہ نظروں کے بالکل سامنے تھا۔ وہ جس کی آنکھیں بولتی تھیں۔ نیلی آنکھوں میں شوق کا جہاں آباد کیے ، ذرا ذرا سی ندامت بھری نرمی لیے وہ صالح نضال….جو صلاحیت، قوت اور طاقت میں اپنے نام کا ایک تھا ، اس لڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ یقیناً وہ اپنے ہم دیوار گھر میں جھکی چچا کے زیتون کی واحد ٹہنی سے لٹک کر اسی کے ذریعے ان کے گھر میں کودا تھا۔
اور وہ سنہری تاروں سے بنے بالوں اور سبز آنکھوں والی خلیلہ یحییٰ جو چند لمحے قبل سر جھکائے اپنی سوچوں میں گم تھی، صالح کو دیکھتی اس کی آنکھوں میں پہلے غصے اور پھر دُکھ نے جنم لیا اور لمحے بھر میں اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
صالح نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور جلدی سے اس کے سامنے پتھر کی سل پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ آس پاس چند سبز زیتون…
سورج اپنی بانہیں سمیٹنے کو پر تول رہا تھا تمام دن اپنی کرنیں زمین کے باسیوں پر نچھاور کرتے کرتے وہ نڈھال ہو چکا تھا ۔ تھکے ماندے قدموں سے افق کے اس پار کہیں چین کی نیند سونے جارہا تھا۔زرد ، نارنجی ، گلابی نرم نرم روشنی نے آسمان کو رنگین چادر اوڑھا دی تھی۔مارچ کے اوائل کی خنک ہواؤں کی ہلکی سرسراہٹ چاروں جانب محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’امجد اینڈ سن ‘‘بناسپتی گھی فیکٹری کے عقبی میدان میں آج میلے کا سا سماں تھا۔بھانت بھانت کی وضع قطع کےسینکڑوں مزدور جمع تھے ۔
جان توڑ مشقت کے پورے ایک ماہ بعد معاوضہ لینے سب جفا کش لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔اس روز ان گنت مسائل کا وزن ہلکا ہو جانے کی مبہم سی امید جاگ جاتی ہے ۔سب بے شمار تفکرات دل و دماغ میں سموئے ہم’’بدرالدین کیشئر‘‘ کی آمد کے منتظر تھےکچھ ہی دیر میں وہ آتا دکھائی دیا ۔
چیک لینے کا سلسلہ شروع ہؤا ‘تو صدمے کا ایک زبردست جھٹکا لگا\سیٹھ امجد کے حکم پر سب کی تنخواہ سے سیلابی بارشوں کے دوران غیر حاضری پر پورے چار دن کی اجرت کاٹ دی گئی تھی حالانکہ شہر کی تمام سڑکیں پانی میں ڈوب جانے سے شہر کئی…
ایک جملہ ہے جس نے پون کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔وہ اسے کسی خزانے کی چابی سمجھ رہی ہے مگر اس کی سہیلی خدیجہ بتاتی ہے کہ یہ کلمہ شہادت ہے۔خدیجہ سے مل کر ماضی کی یادوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ایک خواب اسے اکثر بے چین رکھتا ہے۔وہ ہر طرف آگ لگی دیکھتی ہے۔اس کی زندگی عجیب کش مکش کا شکار ہے۔وہ آگ سے شدید خوف زدہ بھی ہے مگر اس سے بچنے کے لیے جو اسے کرنا چاہیے وہ سب کرنے کی ہمت نہیں ہے اس میں۔اور پھر ایک دن وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔اسلام قبول کرنے کا فیصلہ۔
عائشہ کو اس کی حالت پر تشویش ہو رہی تھی ۔
’’ خوش ہوں ….اب تو بہت خوش ہوں ‘‘ وہ بڑے یقین کے ساتھ بولی تھی ’’ آج تو میرا ذہن بہت سکون میں ہے ، ورنہ آج سے پہلے تک سوتے میں وہ سب کچھ پریشان کرتا تھا جو لا شعور میں تھا اور جاگتے میں وہ جوشعور میں تھا ۔ ایک وقت پر تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے پاگل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ میری بھوک باقاعدہ طور پر مر گئی تھی ۔مگر آج تو میرا دل بہت مطمئن ہے ۔ اس سے بھی…
ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔
آج کا خبرنامہ ابھی ابھی اختتام کو پہنچا ہے ۔ خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ایک بار پھر بات چیت کا آغاز ہؤاہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دور تو مکمل بھی ہو لیا ، اب دوسرے کی تیاری ہے ۔
آج کی یہ اہم خبر جو قطعی تازہ نہیں اور بے پرت ہے ، اس کا گہرا تعلق ایسے تسلسل سے ہے جس میں نقطۂ آغاز ہی جاری و ساری ہے ، سارے اعداد و شمار پر حاوی ہے ۔اور مجھے تو آج بھی وہ اس گھر کی بالائی منزل کی چھت پر کھڑا نظر آتا ہے ….اَنتھک ، مستقل اور سنگی ستون ، ایک مخصوص سمت کی جانب گھورتا ہؤا۔ یہ قصہ ہے نصف صدی کا مگر کہاں ، کیسے ؟ اور میں کس طرح یقین کر لوں کہ ابھی ٹی وی پر کشمیر فائل دیکھی ہے….فلیش بجلی کے کوندے کے مانند لپک کر سامنے آتا ہے اور معدوم ہو جاتا ہے ۔
خبر نامے اور موسم کی غیر یقینی کیفیت کے بعد کشمیر فائل کی سرسری…
باہر نکل کر میںنے بھائی سے رابطہ کیا جو طواف مکمل کر چکے تھے ۔ میں بھائی کا انتظار کرنے کے لیے مطاف ہی میںجائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔ جب بھائی آئے تو انہوں نے خانہ کعبہ کے سامنے میری تصویر اتاری۔ ہم اس کے بعد اپنی بہن کا انتظار کرنے کے لیے پہلی منزل کی سیڑھیوںپر جا بیٹھے ۔ وہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آ رہا تھا ۔ میں نے اوربھائی نے ابھی اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے ہی تھے کہ شرطوں نے ہمیں وہاںبیٹھا دیکھ لیا اور ’’یلہ حجہ‘‘ کرکے وہاں سے اٹھا دیا ۔ ہم وہاں پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے ۔ بہن کے واپس آتے ہی واپس جانے کا ارادہ کیا ۔ میں باربار اپنے ہاتھ اور بازو کو دیکھ رہی تھی سبحان اللہ ! اللہ جی کیسے نا ممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
قیام اللیل کے بعد ایک بار پھر میں طواف کے لیے چکروں کا قصد کر کے ہجوم میں شامل ہو گئی ۔ لا تعداد لوگ تھے ، بے انتہا رش تھا اور سب انتہائی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے تھے ۔ کہیں فرش پر کسی کا جوتا گرا تھا تو کسی کی جراب ۔ لگتا تھا کہ…
حریک پاکستان کے ایک کارکن کا تذکرہ جس نے سید مودودیؒ کی تحریروں سے دو قومی نظریہ پھیلانے کا کام کیا
1961ء میں ہمارے ملک میں انگریزی زبان کی تدریس کے لیے نیا نصاب رائج کیا گیا تھا ۔ اس کی تدریس میں اہم جدت Teaching by direct methodتھی۔ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں انگریزی کی تدریس کے استاد شیخ عبد الحق ؒ ہوتے تھے ۔ انہیں نصابی سفارشات کے مطابق چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کی درسی کتب لکھنے والی فاضل شخصیات میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا ۔ وہ بعض اسباق لکھتے اور ساتھ ہی ہمیں وہ پڑھا کر دکھاتے۔ یوںپڑھاتے ہوئے استاد کو مستعدی اور پورے تحرک سے طلبہ کو متوجہ رکھنا پڑتا تھا ۔دوران تدریس یہ ممکن نہ تھا کہ استاد کرسی پر بیٹھ سکے ۔ مجھ جیسے طلبہ کو بیداری بخت کے سبب جو تصور ِ تعلیم تحریکی لٹریچر سے ملا تھا اس کے تحت استاد کی شخصیت خود نمونہ بن کر طلبہ کی رہنمائی کرتی تھی۔
میں نے اپنے ٹریننگ کے دورانیہ سے فراغت کے بعد 22اگست 1961ء سے ہائی سکول میں پڑھانا شروع کردیا تھا ۔ ستمبر 1962ء میں گورنمنٹ سروس میں تقرر ہؤا اور میں اگست 1963ء میں بہاول پور کے گورنمنٹ ہائی…
مسکین مائوں کی جرأ ت ہی نہیں ہوتی کہ فون پکڑ کر کسی کو فون کر لیں …پہلے وہ اس لڑاکا مخلوق کے سو جانے کی دعائیں مانگتی ہیں … ایک حسبِ حال تصویرکشی
سمارٹ فون ابھی نئے نئے آئے تھے کہ کسی اللہ والے، دانا، سائیں لوک آدمی نے ایک خیالی تصویر بنا کر پیشین گوئی کی تھی کہ جب ہاتھ میں موبائل ہوگا تو انسان کو اپنے اردگرد کی کسی چیز کا ہوش نہیں رہے گا۔
تصویر کچھ اس طرح تھی کہ عورت اپنی گود میں پڑے بچے کو ایک ہاتھ سے فیڈر پلا رہی ہوتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پکڑ کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ پھر مصور اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر بنا کر تھوڑی دیر بعد کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ فیڈر بلی پی رہی ہوتی ہے، بچہ گود سے گر کر قریب ہی فرش پر پڑا رو رہا ہوتا ہے اور خاتون خانہ موبائل میں مگن مسکرا رہی ہوتی ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ دودھ بلی پی رہی ہے اور بچہ رو رہا ہے۔
موبائل نے ہمیں اتنا زیادہ بے خبر کیا ہے یا نہیں اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور سنتے…
نام کتاب/رسالہ : چمن بتول مدد گار نمبر
شمارہ : جون2023
قیمت : 200روپے
عملی کاوش : مخلص و باصلاحیت قلم کاروں کی ٹیم
تنظیم، ترتیب : مجلس ادارت
مرہون منت : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر
چمن بتول ( مدد گار نمبر) کی خوبصورتی ، جامعیت اور تنوع احساسِ زیاں پیدا کر رہی ہے کہ میں اس شمارے کے مصنفین میں کیوں شامل نہ ہو سکی ۔میں نے سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مطالعے اور تحریر کو زیادہ ٹائم دے سکوں گی خصوصاً ’’چمن بتول‘‘ کو لیکن ایک دو سال ہی ایسا ہو سکا ۔ بعض اوقات حالات ایسی کروٹ لیتے ہیں کہ آپ کی مصروفیات یکسر بدل جاتی ہیں ۔ گھر ، شریکِ حیات اور خاندان شاید میرا زیادہ ٹائم لینے لگے ہیں بہ نسبت اپنی ذاتی دلچسپیوں کے لیکن میں اس میں بھی مطمئن رہتی ہوں کہ یہ بھی فرائض زندگی کا حصہ ہے۔ کئی لوگ ( بشمول صائمہ اسما) مجھ سے سوا ل کرتے ہیں کہ ’’ آپ بہت کم لکھتی ہیں ؟‘‘ میری کمزوری یہ ہے کہ میں تیزی سے نہ تو پڑھ سکتی ہوں اور نہ لکھ سکتی ہوں ۔کئی لوگ ایک ہی نشست میں کتاب یا رسالہ ختم کر لیتے ہیں لیکن میری تسلی نہیں ہوتی محض ورق…
یوں ہی تو نہیں!
ثروت اقبال
امی میں شاہد بھائی کی شادی میں لہنگا پہنوں گی۔ آپ مجھے لہنگا بنا دیں نا! میں نے امی سے بڑی لجاجت سے کہا۔
امی نے کہا ،دیکھو بیٹا آج کل ہاتھ بہت تنگ ہے اور پھریہ میرے بھانجے کی شادی ہے تو شادی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، تحائف دینا شادی کی تقریبات میں آنا جانا تمام اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں۔
میں نے کہا، امی کل سب کزنز نے یہی طے کیا ہے کہ سب شادی میں لہنگا پہنیں گی، اگر میں نہیں پہنوں گی تو کتنا عجیب لگے گا نا! مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا،اور ہاں بڑی پھپھو ،چھوٹی پھپھو، چچی اور تائی امی سب ساڑھی پہنیں گی اور امی آپ بھی ساڑھی پہنیں گی۔
ساڑھی کا نام سن کر امی کی آنکھیں کچھ چمک اٹھیں ۔میں سمجھ گئی، امّی تو اپنی وہی پسندیدہ ساڑھی پہنیں گی جسے انہوں نے بہت سنبھال کر دوہرے شاپر میں بند کرکے الماری میں رکھا ہؤا ہے۔ مجھے امّی کی اس ساڑھی کو دیکھے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے تھے کیونکہ امی نے وہ ساڑھی ایک یا دو مرتبہ ہی خاص موقعوں پر پہنی تھی۔
یہ سوچتے سوچتے میں سو گئی۔ رات خواب میں بھی میں لہنگا پہنے…
قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
آج بتول (جولائی) ملا ہے، ماشاءاللہ مددگار سپلیمنٹ بھی خاصے کی چیز ہے۔
تمہاری تحریر اس مرتبہ شائع ہوجانی چاہیے تھی۔ گزشتہ شمارے میں میری روک کر اپنی دے دیتیں، میں تو لکھنے کی بک بک کرتی رہتی ہوں البتہ تمہاری خوبصورت تحریر پڑھے مدتیں بیت گئیں۔
میمونہ حمزہ کا ماسی نامہ اس مرتبہ بھی ٹاپ پر رہا۔آسیہ راشد کا مردم گزیدہ افسانوی رنگ میں شروع ہؤا لیکن وعظ و نصیحت لیےختم ہؤا۔پڑھ کر دل بہت افسردہ ہؤا۔ جن حالات میں والدین مددگار بچیوں کو کام کے لیے بھیجتے ہیں تربیت نام کی چیز تو دور رہ جاتی ہے ۔غریب بھی چاہتے ہیں ان کی بیٹیوں کو عزت سے بلایا جائے مگر جہالت کی انتہا ہے کہ بچی کو چار چوٹ کی مار ماں باپ سے اس لیے کھانا پڑی کہ وہ پکڑی کیوں گئی۔اگر چوری کا سراغ نہ چھوڑتی تو یہی والدین شاباشی دیتے۔دل بہت دکھا ۔ آخرت ان کی بھی ہوگی اور آخرت کام لینے والوں پر بھی برپا ہوگی۔ اللہ ہی جانے روز قیامت کن کا پلڑا نیکیوں میں اور کن کا زیادتیوں میں بھاری نکلے گا۔ لازم نہیں کہ ہمیشہ اور ہر جگہ کام لینے والے ہی ظالم ہوں، بسااوقات کام کرنے والیوں کی زیادتیاں اتنی…
اللہ الخالق سے بڑھ کر اور کس کو علم ہو سکتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں!
سیدنا آدم اور سیدہ حوا علیہما السلام کو اللہ رب العزت نے جنت میں داخل ہونے کا اذن فرمایا تو وہاں ان دونوں کے لیے جو نعمتیں تیار تھیں وہ بفراغت کھانا (روٹی) عمدہ لباس (کپڑا) اور رہنے کو جنت (مکان) تھی۔فرمایا سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۸ میں:
’’یہاں (جنت میں) تو تمہیں یہ (نعمتیں) حاصل ہیں کہ نہ بھوکے رہتے ہو نہ ننگے‘‘۔
جب آدم و حوا دنیا میں اتارے گئے تو زمین ان کے لیے بطور مکان پہلے سے موجود تھی اور ہر نئے آنے والے انسان کی ضرورت اسی ترتیب سے منسلک ہے۔ہر بچے کے لیے ماں کا پیٹ اگر مکان تھا تو اس کی خوراک کا انتظام اسی مکان میں مہیا تھا البتہ ماں کے پیٹ سے جدا ہونے کے لیے کوئی جگہ بھی ضروری تھی جہاں وہ جنم لے سکے اور پھر فوری ضرورت کسی کپڑے کی تھی جس میں اس کا احساسِ تحفظ برقرار رہے اور انسانی فطرت کا پہلا استعارہ اس کے نام ہو جائے کیونکہ لباس ہی انسان اور جانور میں امتیازی نشان ہے۔
اس کے بعد دنیا میں آتے ہی اولادِ آدم پہ بھوک کا احساس…
قارئینِ کرام سلام مسنون!
حسبِ وعدہ جون میں مددگار نمبر حاضر ہے۔ اس موضوع پر ایک نمبر کی شکل میں توجہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری زندگیوں کے اس اہم پہلو سے جڑے مسائل و معاملات پر بات کی جائے، اس کوہم قدرےمختلف زاویہ نظر سے دیکھنے کے قابل ہوسکیں، روزمرہ سے ہٹ کرمعاشرتی اور قانونی تناظر کی بڑی تصویرمیں رکھ کر دیکھیں، اور سب سے بڑھ کران معاملات میں دینی رہنمائی سے مستفید ہوں۔شمارے کے مندرجات پہ نظر ڈالیں تو کم وبیش یہ مقاصد پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر لکھنے والوں نے حقیقی کرداروں اور تجربوں پر لکھنے کو ترجیح دی ہے، اگرچہ افسانے کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اور مہارت سے لکھاجائے تو حقیقت سے بڑھ کر متاثر کرنے کی صلاحیت اس صنفِ سخن میں موجود ہے۔تجربات زیادہ تر مثبت ہیں۔ یہ اچھی بات ہے،البتہ اجرت پر کام کرنے والوں کے ہاتھوں جو تلخ تجربات ہوتے ہیں ان سے سیکھ کر دوسروں کی رہنمائی کرنے کا پہلو تشنہ محسوس ہورہا ہے۔ینز مددگار یا خدمت گار کے ضمن میں گھریلو ماسیوں کے بارے میں تجربات کا پلّہ بھاری رہا ہے،شاید اکثریت خاتون لکھاریوں کی وجہ سے۔اس سے نظر آتا ہے کہ خاتون کی زندگی میں…
اسلام میں آجر اور اجیرکا تصور
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوتکریم بخشی ہے۔ اسلام میں آجریعنی اجرت پر کام کروانے والا بھی معزز ہے اور اجیریعنی اجرت کے بدلے کام کرنے والا بھی! انسان کو روزی کمانے اور اپنی معاش کا انتظام کرنے کے لیے جسمانی، یا دماغی محنت کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اسلام اس پر ابھارتا ہے۔اور جو لوگ مشقت کر کے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔انبیاء علیھم السلام جو عزت و شرافت کے اعتبار سے پوری انسانیت کا جوہر ہیں انھوں نے خود محنت مزدوری کی، اور بکریاں چرانا اور گلہ بانی کرنا تمام انبیاء علیھم السلام کا پیشہ رہا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مزدور کے ہاتھوں میں پڑنے والے گھٹے کو بوسہ دیا ہے۔
حضرت موسیٰؑ کی مزدوری کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ مدین کے کنویں پر جب انہوں نے دو لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا، تو کچھ دیر بعد ان میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور بولی:’’میرے والد صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں‘‘۔(القصص،۲۵)اور ایک بیٹی نے…
محنت کشوں اور خادمین سے متعلق سیرت پاکؐ سے رہنمائی
اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں تمام انسان مساوی ہیں۔ شروع ہی میں یہ واضح کر دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شرف انسانیت میں سب مساوی ہیں،احترام آدمیت پانے میں سب مساوی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے اس نظم کو چلانے کے لیے تمام کے تمام لوگوں کو اعلیٰ مناصب نہیں دیے جا سکتے تھے لہٰذا اسلام نے یہ ذہنیت پیدا کی کہ تمام مناصب ہی قابل تکریم ہیں،محنت کی عظمت واضح کی،انبیاء کی مثال پیش کی گئی جو اپنے ہاتھ کی محنت سے کماتے تھے،داؤد علیہ السلام باوجود حکمران ہونے کے،اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے اور زرہیں بناتے تھے۔
’’آپ ﷺنے فرمایا،اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔صحابہؓ نے عرض کیا اور آپؐ نے بھی چرائیں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں میں چند قیراط اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا‘‘۔(بخاری)
اگر کوئی اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے،اس کو بیچے اور اللہ اس کے ذریعے اس کی آبرو بچائے رکھے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے کہ وہ دیں یا نہ دیں۔ (بخاری)
کسی…
پاکستان میں گھریلو ملازمین کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔وہ طویل دورانیہ ملازمت ، بہت زیادہ کام لینا ،قانونی تحفظ نہ ہونا، دوران ملازمت بدسلوکی اور کبھی مار پیٹ بھی ہونا ۔چھوٹے بچوں کو کام کے لیے رکھنا ،بچوں کے والدین کو ایڈوانس رقم دے کر بچوں کو کام کے لیے رکھ لینا ، تنخواہ کا مقرر نہ ہونا اور کم ادائیگی کرنا ،بروقت ادائیگی نہ ہونا ادارہ جاتی پشت پناہی مہیا کرنا ،کھانا پورا اور بروقت نہ دینا ،پرائیویسی کا لحاظ نہ رکھا جانا وغیرہ گھریلو ملازمین کی کم سے کم تنخواہ اوقات کار وغیرہ صوبائی ملازمین سوشل سکیورٹی آرڈنینس کے دائرے میں آتا ہے۔
دنیا بھر میں کل کتنے افراد گھریلو ملازم ہیں ،اس کے کوئی مستند اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں مگر ایک سروے کے نتیجے میں جو تخمینہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر چوتھے گھر میں ایک ملازم موجود ہےاور ان کی اکثریت خواتین اور بچے ہیں ۔عالمی لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں چار تا دس فیصدافراد گھریلو ملازمین ہیں ۔پاکستان میں گھریلو ملازمین کی تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ ملین ہے۔
ہمارے لیبرلازمیں گھریلوملازمین کا ذکر دوبار کیا گیا ہے ۔ صوبائی ملازمین کے سوشل سکیورٹی…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرے۔(بخاری )
مندرجہ بالا حدیث ایک انقلابی پیغام لیے ہوئے ہے ۔ جس پر عمل سے معاشرے، ملک و ملت کے حالات سدھارے جا سکتے ہیں ۔
بنیادی طور پرفساد کی شروعات اہلِ طاقت کی اس ذہنیت سے ہوتی ہیں کہ وہ بڑا ہے اس کے لیے کمزور پرہر رویہ یا حربہ جائز ہے۔
اسلام نے ہر مقام پر کمزوروں کے حقوق کو نمایاں کر کے ان کے دفاع کا باقاعدہ نظام بنایا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں غلام کے لفظ سے غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ یہ احکام غلام کے لیے ہے جبکہ اس وقت غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ علمائےکرام نے اس کا اطلاق ہر ماتحت پر کیا ہے۔ اس وقت ماتحتی کی سب سے بڑی اور نمایاں شکل…
کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو
جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو
غلام اب ہے کوئی، کوئی نہ آقا اب کسی کا ہے
انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیارا دو
جہالت، درد، غربت کی نہ چکی پیس دے ان کو
اخوت، عدل، شفقت اور محبت کا نظارا دو
سفینہ ڈوبنے پائے نہ ان مجبور لوگوں کا
انہیں طوفان سے لڑنے کو چپو دو، کنارا دو
علوم و فن کے جوہر سے انہیں بھی آشنا کر دو
پلٹ دو روز و شب ان کے، اک ایسا استعارا دو
پڑھاؤ نونہالوں کو، جگاؤ نوجوانوں کو
جہادِروزوشب میں آگے بڑھنے کو سہارا دو
پلٹ دیں گے زمانے کو، یہ ایسا عزم رکھتے ہیں
بس ان کو اپنا جوہر آزمانے کا اشارا دو
اٹھاؤ خاک سے ان کو، بناؤ سیرتیں ایسی
کوئی خالد، کوئی غزنی، سکندر اور دارا دو
ادا سیکھیں جہاں میں سر اٹھا کر آگے بڑھنے کی
جہاں میں دوسروں جیسا انہیں درجہ خدارا دو
وطن کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہیرے ہیں یہ موتی ہیں
نہ بے قیمت سمجھ کر ان کو جینے میں خسارا دو
یہ کہسارِ عزیمت ہیں، جھکے شانوں پہ مت جانا
زماں کی تلخیوں میں بس محبت کا سہارا دو
سحرؔ کا عکس ان ویران آنکھوں سے جھلکتا ہے
شبِ تاریک کو رخصت کرو، روشن ستارا دو
بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے
مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا دیجیے
ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے
ہو سکے اپنے خونِ جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے
مر چکے ہیں اگر دل تو غم کس لئے ان کو زندہ کریں حشر برپا کریں
صور اک پھونک دیں ہر طرف اور پھر ہر قدم پر قیامت اٹھا دیجیے
آپ بیشک نہیں راہبر مہرباں رہنما ہی سہی، راہ میں جو کئی
لے کے جائے جو منزل کی جانب مجھے ان میں وہ راستہ تو بتا دیجیے
دشمنوں کی نہ باتوں میں آپ آئیے شک نہیں کیجئے میرے اخلاص پر
میں نہیں بے وفا بے وفائی کروں پھر جو دل چاہے مجھ کو سزا دیجیے
منزلیں دور ہیں اور رستہ کٹھن ،کوئی تو لے مرے ہاتھ کو ہاتھ میں
سن کے میں نے بڑے عزم و امید سے کان میں اس کے جاکر کہا دیجیے
تھا مرے زیبِ تن ریشمی پیرہن ،تھے سبھی جو مرے دائیں بھی بائیں بھی
اب کڑے وقت میں کس سے جاکر کہوں مجھ کو ان دوستوں کا پتا دیجیے
اس کا وعدہ تھا جیسے فسانہ کوئی اور دعویٰ کہانی کا عنوان سا
آپ بھی زیرِ لب…
ازل سے اپنا تو ایک منظر
ابد بھی ایسا ہی ہو گا منظر
ازل یہی ہے ابدیہی ہے
ہمارا کوئی ازل نہیں ہے
ہمارا کوئی ابد نہیں ہے
سنا ہے صدیوں کی صدیوں پہلے
ہماری صبحیں اسی طرح تھیں
ہماری شامیں اسی طرح تھیں
محل ہمارے مقدروں میں لکھے ہوئے تھے
محل ہمارے مقدروں میں لکھے ہوئے ہیں
ہماری عمریں مگر گزاری ہیں دوسروں نے
ہماری خوشیاں مگر منائی ہیں دوسروں نے
محل سجے ہیں ہمارے ہاتھوں
کچن چلے ہیں ہمارے ہاتھوں
سبھی لباسوں کے داغ مٹتے ہیں اپنے دم سے
سبھی بزرگوں کے عیب چھپتے ہیں اپنے دم سے
ان انگلیوںسے ہی برتنوں کوچمک ملی ہے
ان انگلیوں سے ہی خواہشوں کو کھنک ملی ہے
نہ جانے کتنی بہکتی نظریں ہمارے آنچل سنبھالتے ہیں
نہ جانے کتنی ہی پیش رفتیں ہمارے اعصاب ٹالتے ہیں
ہماری نسلیں تو کتنی صدیوں سے یوں ہی جیتی ہیں
زخم سیتی ہیں، خون پیتی ہیں
نہایت ِکار جب بھی نکلیں برونِ درہم
تو پولی تھین کے فضول تھیلوں کے ساتھ کتنی
خبیث نظریں بھی جسم و جاں سے اتار کر ہم
گلی کے کچرے میں پھینکتی ہیں
ہماری مشکل ترین محنت
ہماری افضل ترین عبادت بھی بس یہی ہے
ہماری آئندہ نسل برتن لباس دھونا
تو سیکھتی ہے ہمارے ہاتھوں
مگر نگاہوں کی میل دھونا تو جان جاتی ہے
خود بخود ہی
ازل سے اپنا تو ایک منظر
ابد بھی ایسا ہی ہے یقیناً
٭٭٭٭
ڈیوٹی پہ آئے دن نہیں آتی ہیں ماسیاں
سو سو طرح کے حیلے بناتی ہیں ماسیاں
رو رو کے اپنے دکھڑے سناتی ہیں ماسیاں
اس ایکٹ سے بھی پیسے کماتی ہیں ماسیاں
حیراں ہے اِس نظارے پہ شوہر کی بے بسی
بیگم کو جیسے آنکھیں دکھاتی ہیں ماسیاں
جھاڑو ادھر کو پھینک، چلی ہاتھ جھاڑ کر
پل بھر میں اپنا رنگ دکھاتی ہیں ماسیاں
ماسی کو ہیں شکایتیں اپنی کولیگ سے
اک دوسرے کو نیچا دکھاتی ہیں ماسیاں
یعنی اسامیوں سے ہیں زائد امیدوار
جاتی ہے ایک، دو نئی آتی ہیں ماسیاں
دشواریاں ہیں کام میں جن بیگمات کو
دن بھر سو ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں ماسیاں
شوہر کو کیوں گلہ نہ ہو خاتونِ خانہ سے
فارغ ہیں آپ، گھر تو چلاتی ہیں ماسیاں
ان ہی کے دم سے آج محلے میں ربط ہے
قصے یہاں وہاں کے سناتی ہیں ماسیاں
ہوتی ہیں دیس میں تو بہت انڈر ایسٹِمیٹ
پردیس جا کے یاد پھر آتی ہیں ماسیاں
بنتے ہیں بے جواز گداگر یہاں جو لوگ
محنت کا درس ان کو پڑھاتی ہیں ماسیاں
آرزو کا شمار کیا کیجیے
وصل کا انتظار کیا کیجیے
کوئی قابض ہؤا خیالوں پہ
تو بہانے ہزار، کیا کیجیے
ان کی اب گفتگو کسی سے ہے
لفظ اپنے شمار کیا کیجیے
آپ ہی آپ مسکرانے لگے
ان کا بھی اعتبار کیا کیجیے
جس نےتھاما ہے ہاتھ اوروں کا
اس پہ یہ جاں نثار کیا کیجیے
دل کی پروا رہی کہاں ان کو
دل کو پھر تار تار کیا کیجیے
چھن گیا جو عزیز تھا سب سے
آیتوں کا حصار کیا کیجیے
موت کی منتظر ہوئیں نظریں
زندگی کا خمار کیا کیجیے
فہمیدہ غسل خانے سے نہا کر نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک چینی کی پرچ تھی جس میں لائف بوائے کی ایک ٹکیہ تھی۔ اس کی نوکرانی نے دیکھ کر کہا۔
’’میں بھی نہانا چاہتی ہوں، مجھے صابن دیجیے‘‘۔ فہمیدہ نے اسے وہ پرچ دے دی اور خود آ کر تلاوت قرآن شریف میں مصروف ہو گئی۔ مسلم پاس بیٹھا اسکول کا کام کر رہا تھا۔ وہ لکھتے لکھتے رک گیا اور پوچھا۔
’’مائی کہاں ہے؟‘‘
’’غسل خانے میں ہے‘‘۔ فہمیدہ نے جواب دیا۔
مسلم نے کہا ’’پرچ ٹوٹ گئی ہے‘‘۔
مائی نے غسل خانے میں بہت دیر لگائی اور جب باہر نکلی تو ڈرتی جھجکتی فہمیدہ تک آئی اور کہنے لگی۔ ’’میں… ایک نشکان (نقصان) ہو گیا ہے‘‘۔
فہمیدہ نے پلٹ کر دیکھا تو مائی کے ہاتھ میں پرچ کا ایک بڑا ٹکڑا تھا اور زرد چہرے پر افسوس اور ندامت کے آثار ۔
فہمیدہ نے کہا ’’کوئی بات نہیں‘‘۔ اور پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔
لیکن اب وہ آیات کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکی۔ اسے رہ رہ کر خیال آتا تھا ’’مائی کو اپنے ایک ادنیٰ سے قصور پر اتنی ندامت ہو رہی ہے اور میرے سامنے آنے سے گھبرا رہی ہے۔ ہم دن میں کئی کئی مرتبہ اللہ کے بڑے بڑے…
’’ آج تو بہت دیر ہوگئی ہے ۔‘‘ بلال بالوںمیں کریم لگا کر کنگھاکر رہا تھا ۔ پھر اپنے لیپ ٹاپ کو بیگ میں بند کر تے ہوئے رانیہ سے کہا ’’میرا بلیزر لا دو دوسری الماری میں ہے۔‘‘
رانیہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی۔ آج اس کی فلائٹ پر ڈیوٹی تھی۔ ائیر ہوسٹس کا اپنا کام ہی وقت پر ختم نہیں ہو پاتا ۔
’’ لادو ‘‘ بلال نے جوتے کے بند باندھتے ہوئے رانیہ کی طرف دیکھ کر کہا ۔
رانیہ کی زبان پر کچھ آتے آتے رہ گیا پھر جلدی سے بلیزرلاکر دے دیا ۔ بلال نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ پھیلا دیا کہ پہنادے ۔ رانیہ نے دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیا اور کوٹ مسہری پر رکھ دیا ۔ اس کے پاس وقت کہاں تھا ۔ گاڑی کسی بھی لمحہ اسے لینے آنے والی تھی ۔ دیر کر کے وہ کوئی خطرہ تو مول نہ لے سکتی تھی ۔
ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات گھر میں وقوع پذیر ہوتے رہتے تھے ۔ رانیہ یہ نو کری اپنی مرضی اور خوشی سے کر رہی تھی اس لیے ہر کام اسے اپنی نوکری سے پیچھے ہی نظر آ تا تھا ۔
ثانیہ بڑی تھی ، اب پندرہ برس کی ہونے کو…
عفت نے پڑھنا شروع کیا۔لکھتا تھا۔
’’زویا چندے آفتاب و چندے ماہتاب تو ہرگز نہیںپر دلکش اور سلیقے طریقے والی ضرور ہے۔والدین بھی نجیب الطرفین ہیں‘‘۔
کچھ طنزیہ ،کچھ ناگوار سا تاثر چہرے پر بکھرا اور جیسے اندر کی ہلکی سی سٹرانڈ اس کے لہجے میں گھل کر ہونٹوں کے راستے باہر بھی آگئی۔
’’لو یہ تو جیسے اُن کا جدّی پشتی وہ گوانڈی تھاجو ایک دوسرے کے پوتڑوں تک کے بھیدی ہوتے ہیں‘‘۔
نجیب الطرفین پر دوبارہ نظریں پڑیں ۔اس بارتلخی ایک دوسرے رنگ میں باہر آئی۔
’’نہ گئی اس کی یہ بھاری بھرکم بوجھل سے الفاظ استعمال کرنے کی گندی عادت۔پوچھے کوئی مطلب بھی آتا ہے تمہیں اس کا۔ بس فضول کی علمیت بھگارنی ہے‘‘۔
’’عفت تم آگے چلو۔تبصرے بعد میں کرنا‘‘کمرے میں موجودعباس کی تیز آواز گونجی تھی۔
’’سن 1926میں گورداسپور سے زویا کا دادا اپنے بال بچوں اور بھائی کے ساتھ یہاں کیپ ٹائون آئے تھے۔زویا کی ساری سکولنگ اور تعلیم لندن میں ہوئی کہ بڑا بھائی اور چچا چچی وہاں تھے۔کاروباری لوگ ہیں ۔ اس وقت ہیروں کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں۔دنیا میں نایاب اور قیمتی ہیروں کی سپلائی کے لیے یہ خاندان بڑی شہرت کا حامل ہے‘‘۔
اب پڑھنا پھر رُک گیا تھا۔ساتھ فٹ نوٹس بھی شروع ہوگئے تھے۔
’’دیکھو…
کئی دنوں سے سب گھر والے نوٹ کر رہے تھے کہ مجیداں کام میں سست ہو گئی ہے ۔ایک بات دو تین مرتبہ کہنا پڑتی ،پھر جا کر اسے سنائی دیتی ، چہرے مہرے سے بھی بیزاری اور تھکاوٹ دکھائی دیتی ،کہاں تو یہ کہ وہ کام مکمل ہونے کے بعد دس ایک منٹ سانس درست کرنے کے بہانے بے فکری سے بیٹھ کر اپنے نکھٹو میاں اور نافرمان اولاد کے قصے سناتی،کچھ مشورے لیتی اور زور دار آواز میں سلام دعا کے بعد رخصت ہوتی۔اور اب یہ حال کہ کام ادھورا رہ جاتااور وہ اچانک ہی ،اچھا بی بی جی میں تاں چلی آں ،کہہ کر یہ جا وہ جا۔
جب مسلسل ایسے ہی ہوتا رہا تو امی جی ( ساس) نے اسے وقت رخصت روک کر پوچھا ۔
’’کیا بات ہے آج کل بجھی بجھی سی رہتی ہو کام بھی ڈھنگ کا نہیں کر پارہیں کوئی مسئلہ ہے ؟‘‘
’’نئیں وڈی بی بی جی کج وی نئیں‘‘اس نے جواب دیا ۔
اس پر امی جی نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر اس کی دماغی غیر حاضری کے دس قصے سنائے ۔
بیٹھی چپ چاپ سنتی رہی پھر سسکی بھر کر رقت آمیز لہجے میں بولی ۔
’’اپنا کرتا اوپر کرو تو اپنا ہی پیٹ…
نہ جانے کس مخصوص غذائی جز کی کمی تھی کہ ’ روشنی‘ نام ہونے کےباوجود بھی وہ سیاہ رنگت کی تھی۔ بنگلہ نمبر بی تینتیس میں روشنی کی ماں جب اپنی گیارہ برس کی بچی کو کام کے لیے چھوڑ کر گئی تو چھ ماہ کے پیشگی معاوضہ کے طور پر اس کی پوٹلی میں ستر ہزار سکہ رائج الوقت بھی بندھا تھا ، اس ستر سے اس کے کنبے کی سات ضروریات کچھ عرصہ ہی پوری ہوتیں، جس میں غذا کی فراہمی سے لے کر موبائل کارڈ کی خریداری بھی تھی۔ اب بھی دس ہزار کم ملے تھے۔ پچھلی گلی کے سفید بنگلہ والی اماں جی نے سال بھر کا ایڈوانس اور پیسے بھی بہو کی ناپسندیدگی کے باوجود زیادہ دیے لیکن روشنی دو ماہ میں ہی بھاگ گئی ، وہ تو شکر ہے بھاگ کر کالونی باغ ہی گئی جہاں اس کا ماموں مالی تھا۔
ماموں گیٹ کے ساتھ لگی باڑھ کی کاٹ چھانٹ میں مصروف تھا جب روشنی کی منمناتی آواز اس کے کانوں میں آئی تو وہ اسے دیکھ کر پہلے حیرت اور پھر طیش میں آگیا اور اسے گھسیٹتا وہیں پہنچا جہاں سے وہ آئی تھی لیکن انہوں نے کسی بڑی آفت میں گھرنے سے پہلے…
وہ کوڑے کا ڈھیر تھا جس پہ وہ سب دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے۔ سب کی شکلیں بگڑی ہوئیں جن پہ مردنی چھائی تھی۔بچوں کے چہروں پر بچپن میں ہی بڑھاپے کی جھریاں نمایاں تھیں۔ سب کے پاس ایک ایک آٹے کی خالی بوری دھری تھی جن پر مکھیاں ایسے بھنبھنا رہی تھیں جیسے روشنی کے گرد پتنگے… مکھیاں ہی ان کی واحد رفیق تھیں جو بھری دوپہروں میں بھن بھن کرتی ان کی سوتی زندگیوں میں ارتعاش پیدا کرتیں۔
وہ سب ایسے ہی روز وہاں آتے ۔ابھی دکانوں کی اور سبزیوں کے ٹھیلوں کی شٹریں نہ اٹھی ہوتیں کہ وہ اپنی اپنی بوریاں لیے حاضر ہو جاتےاور یوں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ کر انتظار کرتے۔ سب کے چہروں بشروں سے بے فکری عیاں تھی مگر انتظار نمایاں ہوتا، مانو ابھی دکانوں کے شٹر اٹھیں گے اور یہ سب دھاوا بول دیں گے – ان میں بچے، بوڑھے، جوان، زن و مرد ہر نوع کے انسان موجود ہوتے- ان سب کی بیٹھک کوڑے کے ڈھیر پر ہوتی مگر وہ ایک دوسرے سے اتنے ہی لاتعلق…. سب کے ذہنوں میں اپنے مسئلوں کے انبار تھے اوروں سے کیا سروکار، مگر سب کا مقام ایک تھا ،کوڑے کا ڈھیر….
عورتوں کی گودوں…
زرَک کئی دنوں سے پوَن سے تفتیش کرنے نہیں آیا۔وہ کسی انسان کی شکل کو ترس جاتی ہے۔اسے یاد آتا ہے بی بی کے گھر آخری دن کا سبق تھا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا یہ سوچ کر ہی اسے نئے سرے سے امید ملتی ہے۔زرَک پون کے شہر جا کر اس کے والدین اور سہیلی سے ملتا ہے۔اس پر کچھ ایسے انکشافات ہوتے ہیں جو ناقابلِ یقین ہیں۔مگر اصل بات تو پون ہی بتا سکتی ہے ۔
اور آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا وہ نہیں آیا تھا۔ وہ چاہتی تھی وہ اسے سزا دے رہا ہے۔ ایسی سزا جو اسے پاگل بنا دے اور واقعی وہ آہستہ آہستہ پاگل ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا اس کا دماغ اس کے اختیار میں نہیں ، ایسی ایسی عجیب و غریب سوچیں آتیں کہ اسے یقین ہو جاتا اس نے اپنے ہوش و حواس گم کر دیے ہیں۔
کبھی اسے لگتا وہ مرنے والی ہے اس کی موت بالکل قریب ہے۔ پھر اسے قبر کا خیال آتا وہ کہاں ہوگی۔ شاید وہیں کسی تہہ خانے میں… اگر وہ مرنے سے بچ بھی گئی، رہا بھی ہو گئی تب بھی اپنے ہوش و حواس گم کر چکی ہو…
میں دھوپ میں بیٹھی بال خشک کر رہی تھی جب بھیا اسے لے کر آئے۔ اس کے ہاتھ، منہ، ٹانگیں اس بری طرح سے پھٹ رہی تھیں کہ دیکھ کر وحشت ہونے لگی۔
’’لو عذرا اسے کچھ کھانے کو دو، کل سے بھوکا ہے، باہر آوارہ گردی کر رہا تھا‘‘۔ بھیا نے اسے میری طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔
’’مگر یہ ہے کون بھیا؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’جانے کون ہے۔ نوکری چاہتا ہے۔ کہتا ہے میرا کوئی نہیں‘‘۔
لڑکے نے سر اوپر اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔ میں بھی غیر شعوری طور پر ادھر دیکھنے لگی مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ بھیا کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
’’یہ تیری طرف دیکھ رہا ہے پگلی، کم بخت بھینگا ہے۔ مگر دیکھو اس کی آنکھوں سے کس بلا کی ذہانت ٹپک رہی ہے‘‘۔
میں بھی ہنس دی، وہ غالباً میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں 120o ڈگری کا زاویہ بنا رہی تھیں۔
’’امی کو بازار سے سودا منگوانے کی سہولت ہو جائے گی‘‘۔ بھیا بولے۔ اور اس طرح یہ گیارہ سالہ بھینگا لڑکا ہمارے ہاں ملازم ہو گیا۔ میں نے اسے ویسلین دی کہ اپنے سارے جسم کو مل کر دھوپ میں بیٹھے۔ شام کے قریب اسے نہلا کر چھوٹے بھائی کے کپڑے…
سیاہ رنگت ، ماتھے پر بکھرے سیاہ بال ، آنکھوں پر عینک ، بھاری بھرکم ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ،یا تو باورچی خانے میں یا پھر ٹوکری پکڑے بازار کی طرف رواں دواں ۔ شادی کے بعد جب میں پہلی مرتبہ اپنے سسرال ساہیوال گئی تو امین شاہ مجھے ہر طرف چھایا نظر آیا۔’’ سلام بھین جی ‘‘ ٹانگے پر سے سامان اُتارتے ہوئے اس نے شرما کر مجھے سلام کیا ۔ ہم لوگ شام کے وقت گھر پہنچے تھے ۔ امی شکوہ کر رہی تھیں تم لوگ اپنے آنے کا فون کردیتے تو امین شاہ سٹیشن جا کر تم کو لے آتا ۔ سہیل نے مسکراتے ہوئے کہا :’’ ابھی میں اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولا ‘‘۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ باتھ روم سے میں کمرے میں آئی تو سہیل نے کتاب کھولی ہوئی تھی ۔ میں نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔ نئی جگہ تھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ ابھی میں سونے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ باہر سے نور جہاں کی آواز میں پنجابی گانے کی آواز آئی ۔ پھر اس کی آواز میں گھنگھروئوں کی چھن چھن شامل…
للہ بھلا کرے مدیرہ بتول کا جنہوں نے برسوں سے اُبلتے دماغی لاوہ کو قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے لیے ایسا اچھوتا عنوان دیا کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ ایسے تمام جذبات، احساسات، تجربات اور اسباق کو ’’ چمن بتول‘‘ کے صفحات پر بکھیرنے کا موقع دینے پر میری طرف سے پیشگی مبارکباد!
بچپن جوانی اور بڑھاپا آنے تک ہم نے خدمت گاروںسے سبق پڑھا بھی اور پڑھایا بھی ، سیکھا بھی اور لکھایا بھی ، سُنا بھی اور سنایا بھی ، بعض اوقات ہمارا علم اور حکمت دونوں دھرے کے دھرے رہ جاتے ، ہم مات کھا جاتے ، چاروں شانے چت پڑے ہوتے نانی یاد آجاتی، پرہمت نہ ہارتے ، ہم نے بھی تہیہ کیا ہؤا تھا کہ ؎
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
تو قارئین کرام ! تلخ و شیریں یادوں کی پٹاری سے انمول موتی آپ کی خدمت میںپیش ہے ۔
’’ شامی ! تمہیں میرے مسائل کا اندازہ ہے کچھ کہ میں کتنی مشکل میں ہوں، مجھے تمہارے ڈیرے اورڈیرے پر موجود خدمت گاروں کے آر پروار ( خاندان) کا کیا فائدہ ؟ میری مدد کے لیے کسی بچی کو بھیجو نا ! اُن کے لیے تو تمہارا اک اشارہ…
آج برسوں پرانی یادوں نے میرے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں پردستک دینا شروع کردی ہے ۔ خوش آہنگ صدائوں اور خوش رنگ مناظر نے یاد رفتہ کو جگا دیا ہے میں نے پہلی کھڑکی کھولی تو وہ ہماری قدیم مین بازار اچھرہ کی حویلی تھی جو کہ سہ منزلہ تھی ۔ اوائل عمری کے چار پانچ برس میں نے اسی گھر میں گزارے ۔ بچپن کی بہت سی باتیں اکثر یاد آتی ہیں جو آخری عمر تک سرمایۂ حیات بن کر ہمارے ساتھ رہتی ہیں ۔
یہی وہ حویلی تھی جہاں میں نے آنکھ کھولی اور یہی وہ گھر تھا جہاں سے میری والدہ رخشندہ کوکب( بانی مدیرہ عفت و بتول) کا جنازہ اٹھا ۔
اس حویلی کے ساتھ پرانے دور کے طرز تعمیر اور رہن سہن کی ایک تاریخ جڑی ہوئی ہے ۔ اس کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ زمینی یا نچلی منزل میں ایک برآمدہ او رایک بڑا کمرہ تھا جسے بیٹھک کے طور پر استعمال کیا جاتا ۔ اس کے ساتھ دو مہمان خانے تھے ۔ بائیں جانب مویشیوں کے باندھنے کے لیے اصطبل تھا جو اب ویران پڑا ہؤا تھا اور ان کمروں کوسٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ دائیں جانب ایک کنواں…
’’آپ اتنے دن بعد آئی ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے آگے بڑھ کر امی کا استقبال کیا۔ میں نے امی کا ہاتھ تھاما۔ دیکھا تو دو موتی سفید براق ہاتھ پر جگمگا رہے تھے۔ یہ کس کے آنسو تھے؟ اب نظریں سوالیہ نشان تھیں۔ میں نے ان کی طرف دیکھا لیکن وہ اپنی عادت کے مطابق مسکرا رہی تھیں او رکسی خیال میں گم۔
پھر یہ کس کے آنسو تھے؟ … یہ جاننے کے لیے میں نے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھا تو وہاں دو کیا بے شمار موتی پھیل رہے تھے۔ لیکن میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور امی سے مخاطب رہی۔
’’آپ اتنے دن سے کہاں تھیں۔ میں روز انتظار کرتی ہوں اور آپ کو یاد کرتی ہوں‘‘ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہی تھیں۔
’’میں یہیں تو تھی تمھارے پاس! اس دن جب تم پریشان تھیں… میں نے ہی تو تمھیں پیار کیا تھا۔ کیا تم بھول گئی ہو۔‘‘ وہ رک رک کر بولتی رہیں …’’ تم بیمار ہوتی ہو تو کون تمھاری خدمت کرتا ہے؟ کون تم کو دوا پلاتا ہے ؟ کون تمھارا سر دباتا ہے؟ کون تسبیح…
اظفر سے ملاقات نے پون کو مایوسیوں میں دھکیل دیا۔وہ ملک اور قوم کے مجرم کے روپ میں اس کے سامنے تھا۔ پون نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا اس کے والد اور بھائی سخت ناراض ہیں۔اور اس کا رشتہ چچا زاد انیل سے طے کر دیتے ہیں۔ پون خدیجہ کے گھر آ جاتی ہے جو لاہور منتقل ہو گئی تھی۔ زندگی ایک بہت بڑی آزمائش بن چکی ہے۔مگروہ تنہا نہیں ہے۔اسے یقین ہے کہ اللہ اسے ضائع نہیں ہونے دے گا۔
اُس پر آج کل کام کا بہت بوجھ تھا۔ صالحہ آنٹی اپنے کسی عزیز کی وفات کی وجہ سے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں لہٰذا اب ساری ذمہ داری اُسی پر تھی ۔ سارا دن کیسے گزرتا پتہ بھی نہ چلتا ۔ نین تارا کی پیشکش کے بارے میں سوچنے کا وقت ملا تھا نہ ہی وہ صالحہ آنٹی سے کوئی بات کر پائی تھی ۔ اُن سے واپس آتے ہی وہ بات کرے گی اُس نے سوچ رکھا تھا ۔
اور پھر اس نے یہی کیا تھا ۔ اُس کی بات سن کر وہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں جس کی اسے توقع نہیں تھی۔
’’ آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ اگر آپ کومیرے لیے یہ نوکری…
اب میں واقعی پشیمان ہو رہا تھا۔
اورپشیمانی عجب تجربہ ہے ۔ کہیںاندر ہی اندر آدمی اپنے آپ کو ڈوبتے دیکھتا ہے ، اس وقت بھی مجھے اپنے کان بند ہوتے محسوس ہوئے ، جیسے گہرے پانی میں غوطہ لگا دیا ہو۔ مجھے اپنے آپ پر حیرت کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس بھی ہونے لگا کہ آخر میں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔
وہ بڑے مزے سے میرے برابر کی سیٹ پر اپنے جملہ ساز و سامان کے ساتھ براجمان تھی۔ گاڑی کے کھلے شیشے میںسے اس کا مووی کیمرہ معلوم نہیں کیا کچھ فلم بند کرتا چلا جا رہا تھا ۔ اچانک گاڑی ایک کھڈے سے بچتی بچاتی دوسرے میں گر کر اچھلی اور سامنے وہ نابکار پتھر معلوم نہیں کہا سے آگیا ۔
’’ سوری‘‘ میں نے معلوم نہیں کتنویں بار کہا اور وہ پھر اُتنویں ہی بار اپنے پتلے پتلے لکیر نما ہونٹوں میں مسکرا دی ۔ وہ مسکراہٹ بھی نہ تھی ۔ عجب آسیبی جنبش تھی ۔ کیونکہ اس وقت وہ باہر کے دھول مٹی اَٹے مناظر فلمانے میں مصروف تھی ۔ اس لیے میں نے اسے غور سے دیکھنے کی مہلت پا لی ۔ گو سچی بات تو یہ ہے کہ اس کو اپنے اتنے قریب…
جماعتِ اسلامی حلقۂ خواتین کی گل سرسبد تو محترمہ حمیدہ بیگم مرحومہ تھیں مگر اُن کے ساتھ ساتھ ایک پورا گروہ جس سے لوگوں نے تربیت حاصل کی محترمہ بلقیس صوفی مرحومہ، محترمہ ام زبیر مرحومہ، محترمہ زبیدہ بلوچ مرحومہ،محترمہ بنت الاسلام مرحومہ اور محترمہ نیر بانو مرحومہ تھیں۔ موخر الذکر کا انتقال دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہؤا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنھوں نے اپنی ایمانی و اخلاقی کیفیات سے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے پودے کو جسم و جاں کی تمام توانائیوں سے سینچ کر ایک تن آور درخت بنایا۔
تین چار سال پیشتر ترجمان القرآن کے خاص نمبر میں حمیرا مودودی صاحبہ کا ایک مضمون ’’ہمارے والدین شجر ہائے سایہ دار‘‘ شائع ہوا جسے بعد میں انھیںبتقاضہ وسعت دے کر ایک کتابچے کی شکل میں چھپوانا پڑا۔ میں نے بہت تعریف کی اور انھیں کہا کہ ایسے مضامین و واقعات ایک دو بتول کے لیے بھی لکھیے۔ کہنے لگیں۔
’’مرحوم والدین کے حالاتِ زندگی لکھنے کے لیے ماضی میں جانے کی ہمت اب مجھ میں نہیں رہی۔ بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے، کاغذ بار بار آنسوئوں سے بھیگ بھیگ جاتے ہیں اور مجھے دوبارہ لکھنا پڑتاہے‘‘۔
بات اُن کی بالکل ٹھیک تھی اگرچہ میری وہ کیفیت تو نہیں مگر آپا جی…
نومبر کا آخری ہفتہ آن لگا ۔ دن بہت چھوٹے ہو گئے تھے اس لیے نمازوں کے اوقات بھی کافی پیچھے آچکے تھے ۔ ابا جی پر ضعف و کمزوری غالب تھی ۔ دن دوبجے کے قریب وہ بڑی مشکل سے اٹھے ہانپتے کانپتے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی پھر جائے نماز پرہی لیٹ رہے۔ بڑے بھائی بھی ان کے قریب بیٹھے ، قرآن کریم کے مطالعے میں مصروف تھے ۔ ابا جی نے وقت پوچھا تو بڑے بھائی نے کہا تین بجے ہیں کہنے لگے کہ کیا عصر کی اذان ہو گئی ۔ بھائی نے بتایا کہ سوا چار بجے ہو گی، بولے مگر اہلحدیثوں کے یہاں تو اذان کچھ جلد ی ہو جاتی ہے ذرا باہر جا کر سنوشاید اذان ہو ہی رہی ہو ۔ بڑے بھائی صحن میں آئے انتہائی توجہ سے آنے والی آوازیں سننے لگے۔اندازہ ہؤا کہ محمدی مسجد اہلحدیث میں اذان ہو رہی ہے۔ مؤذن نماز اور فلاح و کامرانی کے لیے پکار رہا ہے ۔
بڑے بھائی نے کمرے میں آکر ابا جی کو بتایا کہ ہاں مسجد اہلحدیث سے اذان کی آواز آ رہی ہے جس پر وہ اٹھ بیٹھے اورمنہ قبلے کی طرف کر کے نماز ادا کرنے لگے ۔…
’’اس بار چھٹیوں میں جا رہی ہیں پاکستان؟‘‘سہیلی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے عادتاً پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘مزید استفسار ۔
’’آذربائجان جائیں گے‘‘۔
’’ہائیں‘‘حیرت کا شدید جھٹکا تھا جو انہیں لگا ’’لو بھلا یہ کون سی جگہ ہے…گھومنے کولوگ دبئی جاتے ہیں ترکی جاتے ہیں‘‘۔
ہم شرمندہ سے ہو گئے ۔دل میں پہلے ہی چور تھا لہٰذا شام کو میاں کے آتے ہی ان پر چڑھائی کر دی۔
’’بھلا آپ کو آذربائجان کی کیا سوجھی؟ آج تک کسی سے نہیں سنا کہ کوئی گھومنے گیا ہو۔ بندہ ایسی جگہ تو جائے کہ بتاتے ہوئے کچھ فخر محسوس ہو‘‘۔
میاں صاحب جو فیس بک کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے جھٹ باہر نکل آئے اور منہ اونچا کر کے ہمیں یوں گھورنے لگے گویا ہم نے دنیا کی کوئی احمق ترین بات کر دی ہو۔ دوسرے ہی لمحے ہمارے سامنے مختلف یوٹیوبرز کی ویڈیوز تھیں، گوگل پر آذربائجان ٹور گائڈز کی ویب سائٹ، لوگوں کے ریویوز ،تصویریں وغیرہ وغیرہ۔ بچے پہلے ہی ہر چیز سرچ کر کے رکھ چکے تھے ۔آذربائجان کا نقشہ، مشہور مقامات، اہم چیزیں ۔یوں بھی وسط ایشیا کے مسلم ممالک خصوصاً روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی سیر یقینا ًایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوگا۔ ہمیں…
’’اس بار چھٹیوں میں جا رہی ہیں پاکستان؟‘‘سہیلی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے عادتاً پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘مزید استفسار ۔
’’آذربائجان جائیں گے‘‘۔
’’ہائیں‘‘حیرت کا شدید جھٹکا تھا جو انہیں لگا ’’لو بھلا یہ کون سی جگہ ہے…گھومنے کولوگ دبئی جاتے ہیں ترکی جاتے ہیں‘‘۔
ہم شرمندہ سے ہو گئے ۔دل میں پہلے ہی چور تھا لہٰذا شام کو میاں کے آتے ہی ان پر چڑھائی کر دی۔
’’بھلا آپ کو آذربائجان کی کیا سوجھی؟ آج تک کسی سے نہیں سنا کہ کوئی گھومنے گیا ہو۔ بندہ ایسی جگہ تو جائے کہ بتاتے ہوئے کچھ فخر محسوس ہو‘‘۔
میاں صاحب جو فیس بک کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے جھٹ باہر نکل آئے اور منہ اونچا کر کے ہمیں یوں گھورنے لگے گویا ہم نے دنیا کی کوئی احمق ترین بات کر دی ہو۔ دوسرے ہی لمحے ہمارے سامنے مختلف یوٹیوبرز کی ویڈیوز تھیں، گوگل پر آذربائجان ٹور گائڈز کی ویب سائٹ، لوگوں کے ریویوز ،تصویریں وغیرہ وغیرہ۔ بچے پہلے ہی ہر چیز سرچ کر کے رکھ چکے تھے ۔آذربائجان کا نقشہ، مشہور مقامات، اہم چیزیں ۔یوں بھی وسط ایشیا کے مسلم ممالک خصوصاً روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی سیر یقینا ًایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوگا۔ ہمیں…
2011ءمیں ادا کیے ہوئے اس حج کی روداد بتول میں شائع ہوئی ۔اس کا ایک احساس جس کی تکمیل اب ہوئی، نذرِ قارئین کررہی ہوں (ق۔ر)
اللہ نے حج کے لیے جس کا جووقت لکھا ہے بندہ اس سے پہلے کر سکتا ہے نہ بعد میں۔ بنے بنائے پروگرام اچانک ایسے ختم ہوتے ہیں کہ مدت تک ذہن قبول نہیں کرتا اور بسا اوقات بیٹھے بٹھائے ایسے بلاوا آجاتا ہے کہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں آتا۔ اس سال بہت سے قریبی عزیزوں کے علاوہ بھی لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ جو بھی جاتا ہے دعاؤں کی درخواست کی جاتی ہے اور ساتھ ہی چھم سے آنکھوں میں اپنے حج کا سفر آجاتا ہے۔ ایک ایک چیز سامنے آتی ہے اور تڑپ شدید سے شدید تر ہوتی ہے کہ دوبارہ بلاوا کب آئے گا،آنکھوں کی پیاس کب بجھے گی،کب روح کوتسکین ملے گی۔ بھلا پہلا حج بھی کوئی حج ہوتا ہے! وہ تو سراسر سیکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔کچھ کاموں کا پہلے سے علم ہوتا ہے اور کچھ کا تو علم بھی نہیں ہوتا۔
واپس آنے کے بعد مجھے بہت مدت لگی تھی اپنے شہر کے راستوں اور گلی کوچوں سے مانوس ہونے میں…. جہاں سے گزرتی وہی سڑکیں…
مضبوط جڑیں
شازیہ نعمان
امی امی! وہ دیکھیں درخت کی جڑوں نے کیسے پہاڑ کے ایک حصے کو باندھ کر رکھا ہؤاہے اور جو حصہ پہاڑ کے ساتھ نہیں تھا وہ گر گیا ہے‘‘۔
عافیہ نے اپنی امی سے کہا جو اپنی فیملی کے ساتھ سوات کی سیر کررہی تھی۔ہاں بیٹا! جو جڑیں مضبوط ہوں اور ان کے ساتھ جڑ کر رہا جائے وہ جڑیں مضبوط حصار فراہم کرتی ہیں ۔
جیسے ہم بہن بھائی امی بابا، دادا دادی کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور دادا دادی ہمیں اچھی اچھی باتیں اور اپنے تجربے بتاتے ہیں۔
بالکل صحیح سمجھی میری بیٹی ۔
صائمہ کی یہ کوشش رہتی کہ کھیل وتفریح میں بھی اپنے بچوں کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔
یہی وجہ تھی کہ بچے بھی ہر موقع پر اچھے اچھے سوالات کرتے نصیحتیں سنتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا ۔دیکھتے ہی دیکھتے عافیہ شادی کی عمر کو پہنچ گئی ۔
عافیہ اپنے گھر کی ہوگئی ۔عافیہ کی ساس تیز مزاج اور اس کا شوہر غصہ کا تیز تھا ۔عافیہ نے کبھی گرم مزاجی کا سامنا نہیں کیا تھا ۔اس کے امی بابا ٹھنڈے مزاج کے حامل جبکہ ساس اور شوہر بالکل متضاد ۔
شروع میں…
ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ ہے ۔ جس میں نوزائیدہ بچے کے لیے مکمل غذائیت موجود ہے ۔ اس سے بڑھ کر کوئی غذا نہیں جو بچے کی بہترین نشوونما میں مدد کر سکے اس میں نہ صرف غذائیت کے بھرپور اجزا موجود ہیں بلکہ اس میںقوت مدافعت بڑھانے والے صحت بخش لحمیات(antibodies)موجود ہیں جو بچے کو بہت سی بیاریوں سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ جیسے کہ دست ، ڈائریا وغیرہ ۔ اس کے علاوہ ماں کا دودھ بچے اورماں کے درمیان مامتا کا قریبی تعلق اور خوبصورت احساس پیدا کرتا ہے ۔ جو بچے پہلے چار سے چھ ماہ میںماں کا دودھ پیتے ہیںاور دوسرا کوئی ٹاپ فیڈاستعمال نہیںکرتے وہ نسبتاً باقی بچوں سے کم بیمار ہوتے ہیں۔ ان کی قوت مدافعت اور آئی کیو لیول باقی بچوں سے بہتر پایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک نئی تحقیق کے مطابق دمہ (asthema)الرجی (allergy)اور دیگرایگزیما (eczema) کا کم شکار ہوتے ہیں ۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی شرح اموات infant mortalityبھی دو اڑھائی فیصد کم ہوتی ہے نسبتاً ان بچوں کے جو کسی بھی وجہ سے ماں کا دودھ نہیں پی پاتے۔ اسی طرح اگرچہ پہلے چھ ماہ تک صرف ماں…
ایک دلخراش گوشوارہ….شیخ علی طنطاوی کی پوتی کی تحریرجو بہت سی خوش گمانیاں ختم کردیتی ہے
آج بڑی تیزی سے اہل اسلام یورپ اورمسیحی ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی کرتے رہے ہیں؛ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بنیاد مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسلیں ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں اور کنبے کا کنبہ مرتد ہوتا چلا جارہا ہے۔ معروف مصری عالم شیخ علی الطنطاوی کی پوتی مومنہ العظام کی اس سلسلے میں ایک چشم کشا، فکر انگیز اور دل و دماغ جھنجھوڑ دینے والی ایک رپورٹ پڑھیے، وہ کہتی ہیں کہ:
میرے داداشیخ طنطاوی نامور عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بڑے روشن دماغ اور مستقبل شناس تھے۔ دادا کی عالمی شہرت کی وجہ سے ہمارے پاس یورپ جانے کے بہت سے مواقع تھے، آسانی سے ویزے مل سکتے تھے؛ لیکن وہ ہمیں ہمیشہ دیارِ غیر میں جانے سے روکتے تھے۔ مجھے بڑا غصہ آتا تھا کہ یہ کیا دقیانوسیت ہے، سارے لوگ ہجرت کررہے ہیں، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں؛ مگر ہمارے مذہبی خاندان نے عجیب قسم کی پابندی ہمارے اوپر لگا رکھی ہے۔
لیکن جب میں بڑی ہوئی، یورپ کے دورے کیے،اور بہت سارے مہاجر خاندانوں سے…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘ ‘ اب کے مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا تحریر کردہ اداریہ دل دہلا دینے والا ہے ۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر جس پُر درد اور تلخ لہجے ( اور سچ تلخ ہی ہوتا ہے )میں آپ نے تبصرہ کیا ہےاُسے جرأت مندانہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ واقعی حالاتِ حاضرہ پر آپ کی کڑی نظر رہتی ہے جو ہر ماہ تبصرے کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ کاش ارباب اختیار بھی یہ تبصرہ غور سے پڑھ لیا کریں ۔ اداریہ کے یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ نبی اکرمؐ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنیاد ڈالی اُس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں ، سچ ، دیانت داری ، امانت کا پاس، عدل وانصاف ، مساوات ، شجاعت ، خودداری ، محنت ، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیر خواہی ، بھائی چارہ اور حقوق العبادمیں کمال حاصل کریں ‘‘۔ مدیرہ صاحبہ نے تو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔واقعہ کربلا پربھی آپ کا تبصرہ زبردست ہے ۔یہ جملے قابل داد ہیں ’’ واقعہ کربلا اصول پسندی، جرأت و شجاعت ، فرض شناسی اور حق گوئی کی…
شہر کی معروف اور مصروف ترین سڑک پہ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا، ہر کسی کی خواہش تھی کہ صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ وہاں ایک سائیکل والے مزدور کی ٹکر ایک کار سے ہوگئی تھی۔ ہجوم کی اکثریت کار والے کو برا بھلا کہہ رہی تھی، سب لوگ اپنے ضروری کاموں کو بھول کر اس حادثے کے ذمہ دار کا تعین کرنے میں لگے ہوئے تھے، راہ گیر زیادہ تر درمیانہ طبقہ تھا جس کی رائے یہ تھی کہ قصور کار والے کا ہے، عینی شاہد وں میں سے کسی نے سائیکل والے کا قصور ظاہر کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اس بات پہ توجہ نہ دی۔ سب کار والے کی امارت کو لعن طعن کر رہے تھے اور کار کو نقصان پہنچا نے پہ آمادہ تھے ، اس بات کو جانے بغیر کہ معاملہ کیا ہے۔ سب اپنا وقت برباد کر رہے تھے جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی کام نہیں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کے کچھ بین الاقوامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ، ذہنی تربیت، اخلاقی رویے، وقت کی اہمیت ، کا اندازہ ٹریفک قانون کی پاسداری…
انسان کہاں سے چلا اور کہاں پہنچا ….کرۂ ارض کی تاریخ میں انسانی سفر پر ایک طائرانہ نظر
باغ بہشت سے مجھے حکم ِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
(علامہ اقبالؒ)
اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتدا اُس وقت ہو گئی تھی جب حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ کو یہاں اتارا گیا اور پھر اس کرہ ارض پر انسان کا ایک طویل سفر شروع ہو گیا۔ حضرت آدمؑ سے نسلِ انسانی چلی ۔ ان کے ہاں لڑکے لڑکیاں پیدا ہوتے رہے اور نسلِ انسانی بڑھتی رہی ۔ پھر دنیا میں انسان کا پہلا قتل ہؤا۔ قابیل نے جذبہ رقابت میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا ۔
ث حضرت آدمؑ دنیا میں پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ چشمِ فلک نے اس کرہ ارض پر ان گنت واقعات وحادثات رونما ہو تے ہوئے دیکھے ۔حضرت نوحؑ کی قوم نے جب گمراہی کا راستہ ترک نہ کیا تو ایک خوفناک سیلاب آیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا ۔ چند ایمان لانے والے مرد و خواتین اور جانوروں، پرندوں کے جوڑے کشتی میںسوار ہو کر حضرت نوحؑ کے ساتھ کوہِ جودی پہ پہنچے اور زندہ بچے ، حضرت نوحؑ سے دوبارہ نسلِ انسانی چلی…
قارئینِ کرام سلام مسنون!
بٹگرام میں دریا پرڈولی میں پھنس جانے والے سکول کے بچوں اور ان کے استاد کو بچا لیا گیا۔ اگرچہ اس ریسکیو آپریشن میں کئی ادارے متحرک ہوئے مگرمقامی افراد کی ہمت اور حوصلے کو داد ہے جنہوں نےبالآخر جانیں خطرے میں ڈال کر ان لوگوں کو بچایا۔ خصوصاً وہ ایک بہادر نوجوان اعلیٰ سول ایوارڈ کا مستحق ہےجس نے رات کے اندھیرے میں رسّے کے ذریعے سب کو باری باری ریسکیو کیا۔ اس بات کا ندازہ بھی ہؤا کہ ان پہاڑوں پہ رہنے والے ،جری اور شجاع لوگ ہیں ،کم ڈیویلپمنٹ اورناقص انفرا سٹرکچر کے باعث ایسی مشکلات سے نبرد آزما ہوناان کی زندگی کا حصہ ہے، ایسی مہمات بھی سر کرتے ہیں جوسہولیات کے باوجود دوسرے نہیں کرسکتے۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے پیری مریدی اور وڈیرہ شاہی کے اتصال سے بنی ہوئی گدّیاں ،ظلم کا گڑھ بن چکی ہیں۔ظلم کے نظام کے سب سے بڑے رکھوالے یہی طبقات ہیں جو سیاسی طاقت حاصل کر کے حکومتی مناصب اور وسائل پر بھی قابض ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہتا کیونکہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کےگھرکی لونڈی بن جاتے ہیں اور جہالت اور غربت میں دھنسے ہوئے عوام…
اس جیسا کوئی کلام نہیں !
حضورِ اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت کے لیے دو معجزوں سے لیس کر کے میدان عمل میں اتارا۔ ایک معجزہ ٔکردار اور دوسرا معجزۂ قرآن۔وہ قرآنِ عظیم جو پے در پے اور موج در موج آپؐ پر نازل ہو رہا تھا۔اس کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں، شاعروں، ادیبوں، شعلہ بیان مقرروں اور زبان آوروں کی زبانیں گنگ تھیں۔وہ جلیل و جمیل،عظیم وکبیر، فصیح و بلیغ، زور آور و زور دار، ہولناک و ہیبت ناک ، دہشت ناک و مرعوب کن، گرفت کرنے والا اور دبا دینے والااور وراء الوراء ہیبت کا حامل بالاتر از انسان الٰہی کلام تھا۔ قرآن ایک ایسا معجزہ ، جس کا کسی کے پاس کوئی توڑ نہ تھا، جو سیلاب کی مانند یلغار کرتا، برق کی طرح کڑکتا، بارش کی طرح برستا، بادل کی طرح چڑھتا، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا، طوفان کی طرح امڈتا اور پھولوں کی طرح مہکتا تھا، یہ دعوت ِ اسلامی کا انقلاب آفرین ہتھیار تھا۔
قرآن کی خصوصیات
قرآن کی خصوصیات حیران کن ہیں، یہ جمیع الاوصاف کتاب ہے:
ث اس میں علوم ِ عقلی اور علومِ روحانی و اخروی دو نوں پرزور دریاؤں کی طرح پہلو بہ پہلو جوش مارتے…
آج بہت ضروری ہو چکا ہے کہ عورت کےمصنوعی حقوق کی آوازوں کو بے نقاب کیا جائے ۔مگر اس سے پہلے اور اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ عورت کے ان حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا اور بنوایا جائے جن کی ادائیگی میں غفلت،تساہل نے عام گھریلو عورت کو بھی باغی بنا دیا۔آخر معاشرے میں یہی دو گروہ کیوں پنپ رہے ہیں جن میں سے ایک عورت کو مادر پدر آزاد کر کے قابل رحم حالت تک پہنچا دینا چاہتاہے اور دوسرا، ظلم پر احتجاج کے سارے راستے بند کرکےعورت کو کولہو کا بیل بنے رہنے پر مجبور کرتا ہے؟بحیثیت امت وسط ہم اعتدال کی روش پر چل کر دنیا کو عورت کے مثالی حقوق سے روشناس کیوں نہیں کروا دیتے؟
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنی بیویوں کے ساتھ احسان،نیکی،اور بھلائی کا سلوک کیا کرو۔تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر تمہارے کچھ حق ہیں اور تمہاری بیویوں کے لیے تمہارے اوپر ان کے کچھ حق ہیں۔پوچھا گیا وہ کیا ہیں؟فرمایا:زوجیت کی وجہ سے بیویوں پر فرض ہے کہ شریعت نے جو انہیں دیا ہے اس حق میں کسی اور کو شریک نہ کریں۔ (بخاری)
اسود کا بیان ہے کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی…
بیسویں صدی میں اسلام کی انقلابی دعوت کو اپنے علم ، فھم سے متعارف کرانے والے ، اہم ترین مفکر
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا سن ولادت 1321ھ بمطابق1903ء ہے۔ جائے پیدائش اور نگ آباد دکن ہے اور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتداءمیں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہؤا تھا ۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جوخواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے ۔
سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود ِ چشتی کے نام نامی سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلا تا ہے۔ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انہیں مذہبی تعلیم خود دیتے تھے۔ اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلا قی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انہیں کسی مدرسے میں داخل نہیں کرایا، بلکہ گھر پر…
عقیدت یاد رہتی ہے اطاعت بھول جاتے ہیں
نبی کے نام لیوا ہو کے سنت بھول جاتے ہیں
بصد تعظیم جاتے ہیں سبھی آقا کے روضے پر
زیارت یاد رہتی ہے ہدایت بھول جاتے ہیں
رسولؐپاک کی حرمت پہ ہم کٹنے کو راضی ہیں
مگر معمول میں نبوی طریقت بھول جاتے ہیں
بھلا کر سیرتِ احمد رہِ اغیار چنتے ہیں
وہ امت کے لئے آقا کی کلفت بھول جاتے ہیں
کہ دیں کے واسطے وہ ہجرتیں، قربانیاں ساری
جو طائف میں ملی وہ ہر اذیت بھول جاتے ہیں
دلوں میں بغض رکھتے ہیں خصومت پال لیتے ہیں
نبیؐ کی درگزر کی ہم روایت بھول جاتے ہیں
بڑی بے جاں نمازیں ہیں، جبینیں شوق سے خالی
یہی آقا کی آنکھوں کی تھی راحت بھول جاتے ہیں
ہمیں اپنی ستائش کی تمنا یاد رہتی ہے
نبیؐ کی منکسر رہنے کی عادت بھول جاتے ہیں
سنہرا وقت وہ، دورِخلافت یاد رہتا ہے
خلافت کے لیے جو تھی ریاضت بھول جاتے ہیں
وہی ہیں شافعِ محشر وہی کوثر کے والی ہیں
وہ روزِحشر جو ہوگی ندامت بھول جاتے ہیں
ساون آیا، برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ڈالی ڈالی کوکے کوئل، کیا یہ سندیسہ لائی ہے
سکھیوں نے ڈالیں پینگیں اور اُڑیں فلک کو چھونے
رنگ برنگے آنچل بکھرے، قوس ِ قزح سی چھائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
پیار کا موسم آ پہنچا، ہے ساون کا پیغام یہی
ٹپ ٹپ گرتی بوندوں نے تیری ہی یاد جگائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ایک تو برکھا برسے باہر، اور اک برسے آنکھوں سے
مل کر دونوں ایسا حشر اٹھائیں بس کہ دہائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
سحر تلک تھم جائے گا پانی، ابر بھی چھٹ ہی جائے گا
موسم اور میں، دونوں نے ہی وفا کی ریت نبھائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ماں خوشبو کے جیسی ہے
ماں روشن چاند ستارہ
ماں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا
ماں دل کا سکون آنکھوں کی ٹھنڈک
گہراپیار سمندر
دکھ سہہ کےبھی سکھ دیتی ہے
میرے اشکوں کو آنچل میں
اپنے وہ سمو لیتی ہے
گھر جنت جیسا ہوتا ہے
جس گھر میں ماں ہوتی ہے
شب بھر جو دعائیں مانگے
تو پھر وہ کہاں سوتی ہے
ماں موتی ہیرے جیسی
ماں صبح کی شبنم جیسی
مجھ کو وہ چھوڑ گئی ہے
جو رونے نہ دیتی تھی
اب اشکوں پہ وہ میرے
اک ٹک خاموش پڑی ہے!
غزل
نہیں ہے بیری تو کیوں مرے گھر برس رہے ہیں
سبب تو ہوگا جو اتنے پتھر برس رہے ہیں
خطاؤں کے داغ سب دھلیں گے جو آنسوؤں کے
اگر یہ بادل جو دل کے اندر برس رہے ہیں
بجھے گی کس طرح پیاس دھرتی کی میری یارو
جو سارے بادل سمندروں پر برس رہے ہیں
بشر میں شر ہے تو کیوں یہ پتھر ملامتوں کے
ہر اک طرف سے مرے ہی سر پر برس رہے ہیں
جو کوئی بولا ہمیں بھی حق دو تو حاکموں کے
انھیں پہ غیظ و غضب کے خنجر برس رہے ہیں
تجھے خبر ہے جہاں بھی ظلمت کی کھیتیاں ہیں
انھیں پہ کیوں تیرے بادل آ کر برس رہے ہیں
جہاں بھی قانونِ عدل و انصاف حکمراں ہے
انھیں زمینوں پہ لعل و گوہر برس رہے ہیں
جو ظلمتوں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں
انھیں پہ ابرِ ستم برابر برس رہے ہیں
جو چاہتے ہیں جہاں میں ظلمت کا خاتمہ ہو
انھیں پہ تاریکیوں کے لشکر برس رہے ہیں
حبیبؔ ہمارے سوا قفس میں کہیں ہیں زندہ
دکھائیں ہم کو بھی جو پچھتر برس رہے ہیں
پانچ پانچ سو روپے کی مبارکبادیاں لے کر اب عملے کا رخ ان کی طرف یعنی چوہدری شہزاد وڑائچ کی بیگم اورنومولود کی دادی نصرت کی طرف ہؤا۔انہوں نےتفاخر سے ہزار ہزار روپے کے نوٹ بغیر گنے بانٹنا شروع کر دیے ،دو چار دس ،جتنے ملازم تھے سب آنے بہانے وہاں پہنچ گئے۔
ہیڈ نرس ،ہیڈ بوائے وارڈ بوائے ،پیرا میڈیکل سٹاف سب ان کے دست مبارک سے نیلے نوٹ وصول کر چکے تھے اور تقریباًپچیس تیس ہزار روپے مبارکبادیوں کی مد میں دینے کے بعد ان کے چہرے پر عجیب سا تکبر کا احساس تھا۔ ڈاکٹر کمرے میں آئیں تو اس وقت تک نومولود بچی کو والدہ کے ساتھ کمرہ میں شفٹ کردیا گیاتھا۔
ڈاکٹر فرخ اور ڈاکٹر شہناز امجد نے ہاوس جاب والی بچیوں کو کیس ہسٹری لکھوائی ۔جب ڈاکٹرز کمرہ سے رخصت ہوئے توہائوس جاب والی بچیاں بھی سینئرڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے نکلنے لگیں۔ بیگم چوہدری شہزاد وڑائچ نے بیگ سے پانچ پانچ ہزار کے کڑکتے نوٹ نکال کر ہائوس جاب والی بچیوں کی طرف بڑھائے۔
وہ نئی تو تھیں ہی اور شاید نہیں یقیناً کسی دوسرے شہر سے تھیں جو انہیں اس ہستی کا تعارف نہیں تھا ۔جونہی بیگم نصرت وڑائچ نے مبارکبادی کے نوٹ ان کی طرف…
آج معیز کے انتقال کو چار ماہ دس دن گزر چکے تھے۔اچھا خاصاجواں سال معیز اسنیچنگ کا شکار ہو گیا۔
راحمہ کے میکے میں دور دراز کے رشتے داروں کے سوانہ والدین نہ بہن بھائی ….شادی کےوقت صرف اس کی امی تھیں وہ بھی شدید بیمار۔ راحمہ کی ساس اور امی اسکول کے دَور کی سہلیاں تھیں۔راحمہ کی شادی کےایک سال بعد اس کی امی بھی ساتھ چھوڑ گئیں۔یوں راحمہ کی مکمل دنیا اب اس کی سسرال تھی۔
معیز نہایت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر تھا ۔راحمہ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔تین سالہ معوذ، راحمہ اور بوڑھے ماں باپ….بس اللہ ہی بہتر جانتاتھا ۔ یقناًاس نے کچھ اچھاہی سوچا ہوگا۔
” دیکھو بیٹا اب تمھاری عدت کی مدت پوری ہو گئی ہے تم شادی کرلو “راحمہ کی ساس آمنہ بیگم نے اپنی جواں سال بیوہ بہو کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
” نہیں امی میں اپنے بیٹے کے بنا نہیں رہ سکتی۔ میرے لیے بس آپ لوگ ہیں نا‘‘۔
’’آپ بابا اور معوذ“اس نے گود میں لیٹے معوذ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر معیز کی یادیں میرے کافی ہیں‘‘اس کی آنکھیں چھلک پڑیں’’مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘اس نے قطعیت سے جواب دیا۔
’’اور اگر کوئی معوذ کے ساتھ…
ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔
کھانا وہ بڑا لذیذ پکاتا تھا ،مگر کبھی کبھی ہنڈیا جلا دیتا ۔ اماں اس پر ناراض ہوتیں کہ آئے دن تم ہانڈی ساڑ دیتے ہو ۔ تو شرمندہ سا ہو کر بڑی حلیمی سے جواب دیتا ،’’ میں کیا کروں ، مجھے بڑے بڑے دیگچوں میں بہت سا پکانے کی عادت ہے ۔ یہاں تین چار بندوں کے لیے پکاتا ہوں ، اسی لیے جل جاتا ہے‘‘۔ خیر رفتہ رفتہ اس نے اپنے آپ کو اس کا بھی عادی بنالیا۔
بہت صاف ستھرا اور پاک صاف ، نماز اور تلاوت کا سختی سے پابند تھا ۔ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کی عادتیں اس سے مختلف تھیں۔ زبان کابھی مسئلہ تھا ، یہ کشمیری اردو اور پنجابی ملا کر بولتا تھا ۔ اور بلتی زبان بولتے تو غل کی آوازیں اس کے پلے نہ پڑتیں ۔ اوپر سب سے بالائی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرا خالی پڑا رہتا تھا ، وہ اسے رہنے کے لیے دے دیا گیا ۔ بہت سویرے اٹھ کر غسل کرتا…
پون اور عائشہ کی باتیں اظفر نے سن لی تھیں۔بعد میں اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور پون کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا حتٰی کہ شادی کی پیش کش بھی کی جو پون کے لیے ان حالات میں بہت بڑی امید اور تسلی بن گئی۔یونیورسٹی میں اظفر بہت بدل گیا تھا وہ پون سے باہر ملنا چاہتا تھا جو اسے قبول نہیں تھا۔یونیورسٹی کے دو سال ختم ہونے کے بعد اظفر نے شادی کا کوئی ذکرنہیں کیا تھا،تب پون نے اس کے دفتر جا کر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
’’ کہو کیسے آنا ہؤا کوئی خاص کام تھامجھ سے ؟ اُس کے پہلے ہی سوال نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔
’’ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی اس طرف سے گزر رہی تھی سوچا تم سے بھی ملتی چلو ں‘‘ اس نے اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ سوری میں نے بھی بہت دنوں سے فون نہیں کیا سخت مصروف تھا ‘‘۔
’’ کیا کام کر رہے ہو تم آج کل ؟ ‘‘اس نے برسبیل تذکرہ پوچھاتھا۔
’’ ہر وہ کام جو میرا بینک بیلنس بڑھائے‘‘ وہ مزے سے بولا تھا ’’تم تو جانتی ہو میں نے بہت…
محترمہ قانتہ رابعہ۱۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو ضلع خانیوال اور اس وقت کے ضلع ملتان کے شہر جہانیاں میں پیدا ہوئیں ۔آپ نے ابتدائی تعلیم جہانیاں سے حاصل کی اور شادی کے بعد اپنے سسرال گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ منتقل ہو گئیں، بعد ازاں آپ نے وہاں سے ہی گریجویشن کیا ۔ آپ بہترین لکھاری ہیں جن کا قلم سماجی رویوں کے ساتھ ساتھ سچائی اور صراط مستقیم کی راہ بھی دکھاتا ہے ۔ قانتہ رابعہ کو ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے ادبی ماحول ملا۔ آپ کی دادی اماں شاعرہ تھیں اور ان کی بہنیں بھی فارسی میں شعر کہا کرتی تھیں ۔ محترمہ کے نانا ابو بھی شاعر تھے ۔ محترمہ کے والد کی بھی کتاب شائع ہوئی اور ماموں بھی مشہور مصنف تھے ۔آپ کی چچی رشیدہ قطب نے خواتین کے لیے لکھا ۔ گویا ادبی ماحول آپ کو گھر میں میسر تھا ، اس لیے آپ کو اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا خوب موقع ملا۔
محترمہ نے بچپن سے ہی لکھنے لکھانے کا آغاز کردیا تھا۔ بتول ، اردو ڈائجسٹ ، سیارہ ڈائجسٹ اور ایشیا ابتدا سے ہی گھر میں آتے تھے ، اس لیے بچپن سے ہی ان کا مطالعہ کرتی رہیں۔ آپ کی والدہ کو رسائل…
کانفرنس، سیمینار اور سیر و تفریح بھی
ملائشیا میں چند روز… مکالمہ، مباحثہ، کانفرنس، سیمینار اور سیر و تفریح بھی’’کیا آپ ہماری کام یابی،خوشیوں میں شریک ہونے اور ہماری دو تین کانفرنسز میں بطور مہمان مقرّر ہمارے پاس ملائشیا آسکتی ہیں؟‘‘ہماری بہت ہی عزیز دوست اور ملائشیا کے صوبے، کلنتان کی ویمن ڈیویلپمنٹ کی وزیر ،حاجۃداتو ممتاز ناوی کا اصرار کے ساتھ دعوت نامہ اور فون آیا ۔اُن کا کہنا تھا کہ ’’ملائشیا میں ہماری اسلامی پارٹی کی، جسے عرفِ عام میں’’پاس‘‘ کہا جاتا ہے، پانچ صوبوں میں حکومت بن چُکی ہےاوریوں ہم سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرے ہیں، تو کلنتان اور ترنگانو میں ’’خواتین اور علماء کانفرنسز‘‘ اور کوالالمپور میں ’’انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘‘ کا اجلاس منعقد کررہے ہیں، جس میں آپ کی شرکت ہمارے لیے باعثِ افتخار ہوگی۔‘‘
ان کی محبّت و چاہت دیکھ کر ہم نے گھر اور پارٹی دونوں سے اجازت لی، تو امیر جماعت، سراج الحق صاحب کا اجازت نامے کے ساتھ حوصلہ افزائی سے بھرپور فون بھی آیا کہ ’’آپ حلقۂ خواتین، جماعت اسلامی اور ہمارا فخر ہیں کہ پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کی نمایندگی کرتی ہیں۔ہماری دُعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور انقلاب کی جو لہریں تُرکیہ اور ملائشیا میں اُبھری…
جس کا فیض آج بھی جاری ہے، کیا خاص بات اس سے منسوب ہے؟
مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں۔انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیااور جلد ہی آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔
اس کے بعد آپ کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہوجبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی۔
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے۔آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا۔اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراکی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس…
بچپن کا ایک واقعہ اکثر یاد آتا ہے کہ ہمارے ہمسائے میں فوتگی ہو گئی۔ میں اور میرا بھائی اپنے گھر کے بیرونی دروازے کے پاس کھڑے ہو کر ان کے گھر آتے مہمان دیکھنے لگے۔ جوانی کی موت تھی وہ بھی اچانک کرنٹ لگنے سے واقع ہوئی۔ گھر میں کہرام مچا ہؤا تھا۔ لواحقین غم میں مدہوش، بے ہوشی کی کیفیت میں تھے۔ قریبی رشتہ دار روتے کرلاتے بھی آ رہے تھے اور کچھ خاموشی سے لیکن اس فوتگی کا غم سب کے چہروں سے جھلک رہا تھا۔ اس وقت ہماری عمر ہی ایسی تھی کہ رویوں کی گہرائی سمجھ سے بالاتر تھی لیکن اب یہ باتیں یاد آئیں تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ دوسروں کے انتہائی کرب اور مصیبت کے وقت بھی دوغلے پن کی پالیسی نہیں چھوڑتے۔
ہؤا کچھ ایسے کہ مہمانوں میں ایک درمیانی عمر کا جوڑا راستے میں آتے ہوئے ہمارے قریب سے ہی گزر رہا تھا۔ مرد نے آسمان کی طرف منہ کیا، اپنا بازو اپنی آنکھوں پر رکھا، ایک سو اسّی کے زاویے پر منہ کھول کر ابھی باں…. ہی کیا تھا کہ اس کی زوجہ محترمہ نے اسے پیچھے سے ٹہوکا دیا اور کہنے لگی ۔
’’ذرا گھر کے سامنے…
روداد ایک اجتماع کی
عالیہ حمید
ہم تحریکی سوچ والے کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے، اسی لیے اجتماع ارکان کی منزل کے سفر میں ہماری امیر سفر نے ہمیں راستے میں لہسن جلدی چھیلنے، چھیل کر فریج میں محفوظ کرنے ،کڑوے کریلے لذیذ کیسے پکائیں، لہسن موٹا اگانے اور شرارتی بچوں کو قابو کرنے کے نسخے بتانے کے ساتھ چند قرآنی دعائیں بھی یاد کروائیں۔ ہم ہنستے مسکراتے اجتماع گاہ میں پہنچے تو تقریب حلف برداری جاری تھی جس نے سنجیدہ کر دیا پھر ڈرتے ڈرتے حمیرا بہن کا خطاب سنا کہ نہ جانے کون دھر لیا جائے….اور اس بار سب ہی دھر لیے گئے کہ تیس تیس سال حلف کو اٹھائے پھرتے ہیں اور نہ مطالعہ ہے نہ ڈسپلن۔
ڈاکٹر رخسانہ جبین کی’’ کتاب الایمان‘‘ کی رونمائی کے لیے رکھے ہوئے موتیا اور گلاب کے گجروں پر ہماری نظر بھی تھی کہ کیا پتہ کوئی ایک آدھ بچ جائے مگر نہیں….یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ گجرا ہوتا!
’’ایمان‘‘ پر پروگرام کرتے ہوئے طیبہ صاحبہ کو اگر ایک چھڑی بھی پکڑا دی جاتی تو یونہی لگتا کہ ہم سب ڈگری کالج میں ان سے تاریخ کا لیکچر پڑھ رہے ہیں اور سر ہلانے کی بھی گنجائش نہیں۔ ویسے پروگرام پر…
ڈاکٹر رخسانہ جبین۔ کھاریاں
بتول کا مددگار نمبر جون ۲۰۲۳ دیکھا، بہترین کاوش ہے۔جتنے مضامین میں پڑھ سکی سب بہترین تھے۔ یہ موضوع وقت کی بہت ضرورت تھی۔ گھریلو یا نچلے درجے کے ملازمین، دیکھا گیا ہے کہ عموماً استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔اجرت کم ہوتی ہے۔ دس دس پندرہ پندرہ ہزار کے لباس پہنے ہوں، بچہ ایک بار تقاضا کرے تو مہنگی فاسٹ فوڈ دلا دی جاتی ہیں، مگر ان کی تنخواہ ہزار دو ہزار بڑھانے میں بہت ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ معمولی چیزوں باسی کھانوں پہ ٹرخا دیا جاتا ہے۔ کام زیادہ لیا جاتا ہے، اوورٹائم کی اجرت کا بھی الا یہ کہ ڈرائیور ہو یا کوئی اور ملازم، ماسیوں کے لیے عموماً رواج نہیں۔عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے، تشدد بھی ہے حتیٰ کہ پڑھے لکھے گھرانوں میں۔ آجکل بھی ایک ایسا واقعہ خبروں کی زینت بنا ہؤا ہےمگر سب واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔اس اعتبار سے بہت اچھا شمارہ ہے، تقریباً تمام پہلوؤں کو مختلف انداز میں سامنے لایا گیا ہے۔ اسے بڑے پیمانے پہ پھیلانا چاہیے،دینی حلقوں کے علاوہ اپنے اردگرد ہمسائیگی میں، محلہ اور اقارب میں جہاں جہاں ملنا جلنا ہے اسے پھیلائیں، لوگ پڑھیں تو ہو سکتا ہے کسی کے لیے نصیحت کاباعث ہو۔ٹائٹل پر مزید…
قارئین کرام سلام مسنون!
امید ہے اس ہوشربامہنگائی اورشدت کی گرمی میں بھی عید الاضحیٰ نے چہروں پر ضرور خوشیاں بکھیری ہوں گی، روح کو سرشار کیا ہوگا، اللہ کی رحمت کی پھوار برستی محسوس کروائی ہوگی، دلوں اور دسترخوانوں کو وسعت دی ہوگی۔ اللہ کرے سب کا جذبہِ قربانی منظور و مقبول ہو کہ اللہ نے فرمایا مجھے ان جانوروں کا گوشت اور خون نہیں ، بس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہےکہ وہ کیسا ہے!اللہ تمام حجاج کرام کے حج بھی مقبول و مبرورفرمائے، اورجن کو یہ سعادت اب تک نصیب نہیں ہوئی انہیں بلاوا بھیج دے۔
سانحہ نو مئی کے ملزمان کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب سمیت سب حقیقی سیاسی حلقوں نے مخالفت کی ہے۔بین الاقوامی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی فوری طور پر ان سب مقدمات کو سول عدالتوں میں منتقل کرنے کو کہا ہے کیونکہ یہ ملکی سطح پر انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان فوجی عدالتوں کی اجازت سانحہ اے پی ایس کی وجہ سے اکیسویں ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے لی گئی تھی اور صرف دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے ان کو عارضی طور پر قائم کیا…
قبر یا عالم برزخ سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔حدیث میں ’’ قبر ‘‘ کا لفظ مجازاً عالم بزرخ ہی کے لیے استعمال ہؤا ہے حدیث کے منکر اس بات پر مصر ہیں کہ عالم برزخ محض عدم کا عالم ہے جس میں کوئی شعور اور احساس نہیں اور نہ کسی قسم کا عذاب و ثواب ہوگا ۔ لیکن قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جب کافر کی روح قبض کی جاتی ہے تو وہ موت کی سر حد کے پار کا حال اپنی توقع کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتا ہے ۔دوسری طرح متقی کی روح جب قبض کی جاتی ہے تو ملائکہ اس کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہیں ۔ برزخ کی زندگی ، احساس و شعور ، عذاب و ثواب کا اس سے زیادہ کھلا کوئی اور ثبوت نہیں ہو سکتا ۔ سورہ مومن میں ارشاد ِ ربانی ہے ۔
’’ ایک سخت عذاب ( فرعون اور آلِ فرعون کو) گھیرے ہوئے ہیں ۔ یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔پھر جب قیامت کی…
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں بیمار ہؤا تو تو نے میری عیادت نہ کی۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب ٗ میں تیری کس طرح عیادت کرتا جب کہ تو رب العٰلمین ہے۔
خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہؤا تو تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو مجھے کھانا نہ دیا۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب میں تجھے کیسے کھانا دیتا جبکہ تو رب العٰلمین ہے۔ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا ٗ تو تو نے اسے کھانا نہ دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب میںتجھے کیسے پانی…
ڈاکٹڑ عافیہ صدیقی ایک پاکستانی خاتون جن کو امریکہ نے بغیر ٹھوس الزام کے عرصہ بیس سال سے جیل میں ڈال رکھا ہے،حال ہی میں ان کے حوالے سے رہائی کی کوششوں کا مطالبہ دوبارہ میڈیا کی زینت بنا،جب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس معاملے کو سینیٹ کے اندر اور باہرزوروشور سے اٹھایا اوران کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے پیش رفت کا مطالبہ کیا۔ بتول کے لیےاس خصوصی مضمون میں انہوں نے اپنی حالیہ جدوجہد کے تناظر میں ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی تمام تفصیل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی رہائی کے امکانات پر بات کی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا خیال مجھے کیسے آیا اور یہ سب کچھ کیسے ممکن ہؤا، اس کے لیے میں تھوڑا سا پس منظر میں جاؤں گا۔
سینیٹ میں اس مسئلے کو ترجیح
میں مارچ 2018 میں سینیٹ میں آیا اور سینیٹ میں آنے کے بعد پہلے دن سے ہی جو ترجیحات میں نے طے کیں، ان میں سے ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی، گوانتانامو میں قید پاکستانی اور ملک کے اندر جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کے معاملے کو ہائی لائٹ کرنا اور اس پر کام کرنا تھا۔ ویسے تو اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے کے…
لک تیرے غلام ہیں سر کو- جھکائے ہم
در پہ ترے کھڑے ہوئے نظریں اٹھائے ہم
مانا کہ زندگی کے ستم بےشمار ہیں
اور بندگی میں راہ کے پتھر ہزار ہیں
لیکن تیری عطا کے ہی امیدوار ہیں
آنکھوں سے آنسوؤں کے ہیں موتی لٹائے ہم
مشکل بڑی ہے یارب اس عہدِ جدید میں
ہم جی رہے ہیں جس طرح یاس ووعید میں
لیکن تیرا نشان ہے حبلِ ورید میں
بےشک اسی یقین پہ گرنے نہ پائے ہم
یارب یہ ارتقاہے کوئی یا جمود ہے
انساں کے آستاں پہ خدائی نمود ہے
جلتے ہوئے زمانے میں گویا وجود ہے
کب تک جئیں گے اس طرح دہشت کے سائے ہم
ہر شے کوئی ترکیب جدا اوڑھے ہوئے ہے
معلوم نہیں کون ہے کیا اوڑھے ہوئے ہے
ہر آن نئے رنگ میں ہوتی ہے نمودار
ہر لمحہ نئی ایک فضا اوڑھے ہوئے ہے
سورج ہے لپیٹے ہوئے خود اپنی شعاعیں
اور چاند بھی سورج کی ضیا اوڑھے ہوئے ہے
افسردہ و دل تنگ ہے حالات سے اپنے
اور چادرِ تسلیم و رضا اوڑھے ہوئے ہے
اندر نہ خدا ہے نہ کہیں خوف خدا کا
باہر سے مگر خوفِ خدا اوڑھے ہوئے ہے
اِس حبس کے عالم میں ہے یوں شاداں و فرحاں
تُو کون سے ساحل کی ہوا اوڑھے ہوئے ہے
اِس باغ میں کوئی بھی برہنہ نہیں اجملؔ
خوشبو بھی یہاں گُل کی قبا اوڑھے ہوئے ہے
ہم چلو دودھ کے جلے ہوئے ہیں
آپ کیوں چھاچھ سے ڈرے ہوئے ہیں
جاگتی ہی نہیں ہے شرم و حیا
لوگ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں
چین سے وہ نہ جی سکیں گے کبھی
تیری باتوں کے جو ڈسے ہوئے ہیں
آپ سے ہم ہی شکوہ سنج نہیں
آپ بھی تو بہت بھرے ہوئے ہیں
کامیابی بہت بڑی ہے مگر
امتحاں بھی بڑے کڑے ہوئے ہیں
اجنبی کب ہیں ایک ساتھ ترے
کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں
کیا عجب دور آ گیا ہے کہ اب
کھوٹے سکے بھی سب کھرے ہوئے ہیں
فتح حاصل ہوئی ہے جب بھی کبھی
ایک پرچم کے ہم تلے ہوئے ہیں
سب کی سب سے یہاں ٹھنی ہوئی ہے
اپنی اپنی پہ سب اڑے ہوئے ہیں
کچھ بتائیں ہمیں خدا کے لیے
روٹھ بیٹھے ہیں یا بنے ہوئے ہیں
تیر و تیغ و تبر کی چھاؤں کہاں
ہم درختوں تلے پلے ہوئے ہیں
پار اتریں گے کیا ہے ڈر کہ اگر
کچی مٹی سے ہم گھڑے ہوئے ہیں
سچ بتائیں کہ کیا عدو کے لیے
ہم کبھی لوہے کے چنے ہوئے ہیں
آپ نے جتنے، آپ سے وہ دیے
جو جلائے تھے، سب جلے ہوئے ہیں
وقت پر تجھ کو سارے چھوڑ گئے
دیکھ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں
بات کیا ہے حبیبؔ آپ سے وہ
کچھ دنوں سے کھنچے کھنچے ہوئے ہیں
کہانی کے کردار ہماری آنکھوں دیکھے ہیں ۔ کچھ موجود ہیں کچھ ملک عدم کو سدھار گئے ۔ ان میں دیہاتی اور شہری تڑکے کا حسین امتزاج ہے ۔ یہ گائوں کی ’’مچھیاں ‘‘ ( ٹافیاں ) اور شہر کی چاکلیٹ ہیں ۔ پڑھیے، کبھی ہنسیے اور کبھی روئیے ۔
بھائی ماکھا
ابا ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تو تمام خدمت گار اُن کے نقش پا تلاشتے ہوئے ان کی حویلی تک آن پہنچے ۔ ان میں سر فہرست بھائی ماکھا تھا ، ابا کا خاموش دستِ راست۔ وہاں بھی ابا کی سواری ( گھوڑی ) کی دیکھ بھال ، خواتین کو اُس پہ بٹھا ، خود پیدل لگام پکڑ کبھی میکہ اور کبھی سسرال۔ خوشی غمی میں لے کر جانا بھائی ماکھے کا کام تھا ۔
نام تو مبارک علی تھا نجانے کیسے ماکھا ہی مشہور ہو گیا ۔ عام لوگ اسی نام سے پکارتے مگر ہمارے خاندان کا ہر بچہ تہذیب میں گندھا ہونے کی بنا پر ساتھ بھائی لگانا نہ بھولتا ۔ ہندوستان ہویا پاکستان ، انہوں نے ابا کے ساتھ یاری اور وفا داری خوب نبھائی ۔ اپنے موضع میں ابا نے گائوں کی چوکیداری کی ملازمت بھی انہیں دی ، چوپال میں اپنا ایک بڑا احاطہ دیا…
دھوپ کی تمازت ختم ہو گئی تھی ۔ سورج ڈھل گیا تھا مگر گھر کے کام تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ کام سمیٹتے سمیٹتے امی تھکاوٹ سے چور دکھائی دے رہی تھیں ۔ جب سے ماسی شریفاں ملازمت چھوڑ کر گئی تھی کوئی نئی ملازمہ مل ہی نہیں رہی تھی ۔ ایک دو دن کام کرتیں اور چل دیتیں نہ جانے انہیں کیا چاہیے تھا جو ٹک کر کام نہیں کر رہی تھیں ۔ نئے ملازم کو ڈھونڈنا اور اسے سیٹ کرنا بہت صبر اور حوصلے کا کام دکھائی دے رہا تھا۔ ملازمہ جو ان بھی ہو، صحت مند بھی ، کام کرنا جانتی ہو ایماندار بھی ان تمام محاسن و فضائل کے ساتھ ساتھ با اخلاق بھی ہو بد زبان اور جھگڑالونہ ہو ۔
کوئی ملازمہ بھی اس پیرا میٹر پر پوری نہیں اتر رہی تھی۔ بڑے بھیا کا خیال تھا کہ ان خوبیوں کی حامل تو آرڈر پر تیار کرنی پڑے گی ۔ امی اپنے کسی بھی بچے سے گھر کا کام کروانا جرم سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا گھر کے کام بچیاں ایک دو ماہ میں میں سیکھ ہی لیتی ہیں ۔ یہ ان کی پڑھائی کی عمر ہے اگر…
ہم اپنے بچپن سے ہی انہیں دیکھتے آرہے تھے ۔ نکلتا ہؤا قد ، درمیانی جسامت ، گندمی رنگت ، بڑی بڑی آنکھیں ، ماتھا چوڑا ، گھنے بال۔ وہ اور ڈاکٹر معراج کا گھرانہ لازم و ملزوم تھے ۔ ادھر ہم بچوں کا بیماری سے چولی دامن کا ساتھ تھا چنانچہ اکثر ہی ڈاکٹر صاحب کے گھر جانا پڑ جاتا جن کا گھر دادی اماں کے گھر سے چند گھر چھوڑ کر تھا اور یہیں وہ شخصیت پائی جاتی تھی جسے ڈاکٹر ککا اور باقی سب ککا جی کہتے تھے۔
ککا جی ڈاکٹر صاحب کے گھر کی روح رواں تھے ۔ کھانا پکانا، صفائی، کپڑے دھو کر اوراستری کر کے سب کے کمروںمیں پہنچانا،پودوں کو پانی دینا ، غرض اندر باہر ہر طرف ککا جی ہی ککا جی نظر آتے تھے ۔ ککا جی اورڈاکٹر صاحب کا ساتھ کیسے ہؤا، یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق کوٹلہ سے ہے جوگجرات کے راستے بھمبر جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے ۔ ان کے والدین کے گھر ایک ہندو میاں بیوی کام کرتے تھے جن کی چھ سات بیٹیاں تھیں ۔ بیوی نے منت مانی کہ اگر بیٹا ہؤا تو اپنی ٹنڈ کرائوں گی۔ چنانچہ جب بیٹا پیدا…
۲۰۰۴ میں ہمارے بچے کویت منقل ہو گئے، ہم نے ان کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیوں کے مزے لیے، ستمبر میں ہمیں ایک سمسٹر کی پڑھائی کے لیے پھر پاکستان آنا پڑا۔ ہمارا قیام والدہ صاحبہ کے گھر تھا، جو ان دنوں کافی علیل تھیں۔بستر پر لیٹے لیٹے اپنی مددگار کو ہدایات دیتیں اور وہ ناشتا کھانا سب تیار کر کے گرما گرم انہیں پیش کر دیتی، اور اب تو ان خدمتوں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ ایک روز چائے کا کپ ختم کرنے کے بعد اس کی تہہ میں جھانکا تو کچھ داغ نظر آئے، ہم امّی جان کی لاڈلی رخسانہ صاحبہ کو سمجھانے باورچی خانے میں گئے، کہ کچھ داغ واقعی برے ہوتے ہیں، اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی! رخسانہ صاحبہ نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ چائے کے کپ دوبارہ دھو کر رکھ دیے۔ اگلے روز کھانا بنانے کے لیے کچن کا رخ کیا تو ایک دو نہیں ساری دیگچیاں اور پریشر ککر داغ شدہ پائے۔ ہمیں شدید رنج ہئواا، ہماری پیاری امی جان جو اتنی نفیس اور سلیقہ مند تھیں، جو ماسیوں سے صفائی ستھرائی کرواتیں تو انہیں بھی صاف ستھرابنا دیتیں، اور آج وہ بستر پر پڑ گئیں ہیں تو ان کا کچن…
ہم لوگ نئی کالونی میںشفٹ ہوئے تو گھر کی صفائی کے لیے ملازمہ کی تلاش شروع ہوئی ۔ ڈرائیورنے محلے کے گارڈز سے مدد مانگی تو اس نے روزانہ ایک دوعورتوں کو بھیجنا شروع کر دیا ۔ مسکراتے چہرے اور بڑی بڑی خوبصورت آنکھوںوالی فاطمہ مجھے پہلی نظر میں پسند آگئی۔ فاطمہ کی تین بیٹیاں بھی ساتھ تھیں ۔ فاطمہ کمرے میںآئی تو اس کے کندھے کے پیچھے اس جیسی بڑی بڑی آنکھوں والی پندرہ سولہ سال کی ایک لڑکی مجھے بہت غور سے دیکھ رہی تھی جیسے پرکھ رہی ہو کہ یہ کیسی ہوں گی ۔ اس لڑکی کی آنکھیں اپنی ماں کی طرح تھیں لیکن چہرے پر مسکراہٹ کا نام نہ تھا بلکہ بلا کی سنجیدگی تھی جومجھے عجیب سی لگی۔ فاطمہ نے بہت محنت سے کام کیا تو اس کی ملازمت میرے پاس پکی ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی دو بیٹیاں کسی اور گھر میں کام کرتی ہیں بس ایک لڑکی اس کے ساتھ آئے گی دونوںمل کر کام کریں گی۔
دوسرے دن وہی گہری سانولی رنگت اور بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی جس کا نام سویرا تھا فاطمہ کے ساتھ کام پر آئی۔ فاطمہ نے کہا کہ سویرا غسلخانے صاف کرے گی اوروہ باقی…
مسز بیگ اپنے سامنے قدآدم آئینے میں خود کو دیکھ کر ہاتھ میں موجود پیپر سے دیکھ کر تقریر یاد کر رہی تھیں ۔
’’ تم عورت ہو مگر مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہو ،تم دکھ درد کی ساتھی ہو ، تم ٹھنڈا سایہ ہو جس کی چھاؤں میں تھکے ہارے آرام کرتے ہیں اور تازہ دم ہوجاتے ہیں ،تم مرض کی دوا ہو ،تم فیملی کی مسیحا ہو ،دنیا کے دیے ہوئے زخموں کا مرہم ہو ،تم جاب کرتی ہو ،گھر چلاتی ہو ،تم ماں ہو تو جنت تمہارے قدموں تلے ہے ،تمہاری عظمت سے کون انکار کرسکتا ہے…. ‘‘
یہاں رک کر مسز بیگ نے ایک نظر خود پر ڈالی اور بے اختیار تالیاں بجا کر خود کو داد دی ،کل صبح یہ تقریر انھیں ایک کانفرنس میں کرنی تھی۔ پھر انہوں نے اپنی وارڈروب سے نیا ڈریس نکالا، لائٹ گرے سوٹ پر سلور ڈیزائننگ بہت گریس فل لک دے رہی تھی ۔ کل کا میلہ میرا ہی ہوگا ،وہ دل میں سوچتے ہوئے سونے چل دیں مگر اچانک میسج ٹون نے موبائل کی طرف متوجہ کردیا ۔
دوسری طرف ان کی پرانی دوست فاکہہ تھی جو چند روز قبل دوبئی سے فیملی کے ہمراہ پاکستان آئی تھی اور…
یہ سن 1985ء کی بات ہے ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آ کر آباد ہؤا،نثار صاحب ان کی اہلیہ حسنہ اور ان کے دو بچے، ایک بیٹا ایاز اور ایک بیٹی روبینہ۔
یہ بہت اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی تھی۔ حسنہ آنٹی انتہائی خوبصورت، خوب سیرت ،با اخلاق اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ان کی بیٹی روبینہ جو میری ہم عمر تھی وہ بھی اپنی امی کی طرح بہت پیاری اور خوش اخلاق تھی۔ جلد ہی ہم دونوں بہت گہرے دوست بن گئے ۔ میں اکثر اپنا ہوم ورک کرنے روبینہ کے گھر چلی جاتی تھی کیونکہ آنٹی ہوم ورک کرانے کے بعد ہمیں کہانیاں بھی سناتی تھیں۔لیکن جب بھی دسمبر کا ذکر آتا تو وہ بہت اداس ہو جاتی تھیں۔ ہم جب ان سے اداسی کی وجہ پوچھتے تو جواب دیتیں۔
’’بیٹا دسمبر دراصل ستم گر ہے….اس سے بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں ‘‘۔
سانحہ مشرقی پاکستان کو یاد کرکے وہ روتی تھیں۔آئیے ان کی کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں:
میرا نام حسنہ ہے۔ میری پیدائش مشرقی پاکستان کی ہے ۔جس وقت مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اس وقت میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی ۔ ہم چار بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کا انتقال بنگلہ دیش بننے سے…
’’ویڈیوز دیکھی نہیںجاتیں، بچوں کی بےدھڑ خون آلود کٹی پھٹی لاشیں…. طبیعت خراب ہونے لگتی ہے‘‘صائمہ کی طبع نازک متاثر تھی۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہو ذہن پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید مایوسی طاری ہوجاتی ہے اللہ بس اپنا رحم کردے‘‘عالیہ نے تائید کی’’کل چھوٹے عمیر نے غلطی سے ایک ویڈیو کھول لی یقین جانو بچہ میرا ایسا سہم گیا ….رات کو بھی میرے پاس ہی سویا،اتنا ڈر گیا تھا‘‘وہ اپنے بچے کے لیے فکرمند تھی۔
’’اب یہ بائیکاٹ کا شور…. ویسے تو میں فاسٹ فوڈ کے ہی خلاف ہوں لیکن بس ویک اینڈز پر میاں بچوں کا تھوڑی آئوٹنگ وغیرہ کا موڈ بن جاتا ہے تو کےایف سی ،میکڈونلڈ وغیرہ کھلا دیتے ہیں‘‘ عالیہ نے بیزاری سے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا ہم کون سا ان کی محبت میں مرے جارہے ہیں ….ہمیں بھی پتہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔یہ تو بس فیملی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہے …. ایک برگر اور ڈرنک ہی تو ہے‘‘صائمہ بولی۔دونوں ہمسائیاں اپنے اپنے دروازے پہ کھڑی آپس میں محوِ گفتگو تھیں۔
عالیہ کو اب تک مصنوعات بائیکا ٹ ہضم نہیں ہورہا تھا۔فیس بک، واٹس ایپ ،انسٹاگرام ہر جگہ دشمن کو مدد فراہم کرنے والی مصنوعات کی تفصیل موجود تھی جسے دیکھ کر وہ…
کوٹ لکھپت جیل میں یہ ہمارا تیسرا دورہ تھا ۔ وہاں کے ماحول سے کچھ کچھ شناسائی ہوتی جا رہی تھی ۔ اب پہلے والی گھبراہٹ بھی باقی نہ رہی تھی ۔جس کمرے میں ہمارا کلینک سجتا تھا اس کے راستے کوبھی ہم پہچان چکے تھے ۔
اپنے کلینک کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے ہمیںتیز میوزک کی آواز سنائی دی ہمارے بڑھتے قدم رک گئے ۔ اپنی دائیں جانب دیکھا تو چھوٹی سی عمارت کے دو کمروں کے باہر دو حبشی عورتیں جودرمیانی عمر کی تھیںتیز میوزک پرناچ رہی تھیں۔ ہم حیرت سے انہیںدیکھنے لگے جیل میں ایسا تفریحی منظر ہمارے لیے حیران کن تھا ۔ انہوںنے جب چھ سات خواتین کواپنی جانب دیکھتے ہوئے پایا تو وہ تیوریاںچڑھا کر اندر چلی گئیں دونوںکمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور دونوںساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے ، اندر کامنظر بخوبی دیکھاجا سکتا تھا ۔ دونوںکمرے جدید سہولتوں سے آراستہ تھے ۔ فوم کے گدوں والے بیڈ ، کولر، فرج ، ٹی وی ، ڈیک اور بے شمار الیکٹرونکس کی اشیا تھیں جو کمرے میں پوری نہ آنے کی وجہ سے باہر رکھ دی گئی تھیں ۔کمروںکی دیواریں جلتی بجھتی چھوٹی چھوٹی بتیوںسے آراستہ تھیں جوڈیک کے میوزک کے ساتھ جل بجھ رہی…
پون رہا ہو چکی ہے۔اسے ہر الزام سے بری قرار دیا گیا ہے۔زرک کے کام سے اس کے افسران خوش ہیں۔رہائی کے بعد زرک اعتراف کرتا ہے کہ اس نے پون پر بہت سختی کی مگر یہ اس کی نوکری اور اس کا فرض تھاکہ وہ درست رپورٹ تیار کرتا ،لیکن اب وہ نادم ہے اور اپنے کیے کی تلافی کرنا چاہتا ہے۔
وہ دروازہ جو صبح و شام لوگوں کوپکارتا ہے، آئومیری طرف آئو میں تمہیں باغوں نہروں اورچشموں کی سر زمین پر لے جائوں ….تمہیں کامیاب کردوں۔
وہ بھلا اسے یہاں کیوں لایا تھا ؟ اُس نے بہت راز داری کے ساتھ خود سے سر گوشی کی تھی ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی …. اتنی کہ اسے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا ۔ ہاتھ پائوں ٹھنڈے اوربے جان ہو رہے تھے ۔ لگتا تھا وہ اپنی ایک انگلی بھی نہیں ہلا پائے گی ۔ اب بھلا زندگی کون سا رنگ دکھاتی ہے ! وہ سامنے موجود دروازے کودیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
’’ پون !‘‘ بہت دیر بعد گاڑی میں اس کی آواز گونجی تھی ۔ اُس نے اپنا سارا رخ اس کی طرف پھیر لیا تھا ۔ اور زرک اس کے چہرے کوبہت غور…
موبائل کی بیل بج رہی تھی۔ اسکرین پر نام دیکھ کر چونک گئی۔ خدیجہ کا فون تھا ضرور کوئی سیریس بات ہوگی جب ہی فون کیا ہے۔
’’ السلام علیکم‘‘۔
’’وعلیکم السلام‘‘ خدیجہ کیسی ہو؟
میں تو ٹھیک ہوں لیکن آپ کہاں غائب ہیں؟ نہ کوئی فون کر رہی ہیں اور نہ واٹس ایپ گروپس میں نظر آرہی ہیں
خدیجہ کی پیاری سی مان بھری ناراضی والی اواز سنائی دی۔ بس یہی بات تو مار دیتی ہے خدیجہ کی اور گھڑوں پانی ڈال دیتی ہے۔
’’ ارے ارے یہیں ہوں تمہارے شہر میں مجھے کہاں جانا ہے‘‘۔ ہم نے شرمندہ ہوتے ہوئے بات کو مزاحیہ رنگ دینے کی کوشش کی۔
نہیں بھئی اتنی سی وضاحت کافی نہیں ۔ آپ مجھے بتائیں کہ اتنے مقابلے ہوئے، مخصوص دن گزرے ان کے حوالے سے میں آپ لوگوں کو باخبر کرتی رہی کہ تحریر بھیجیں۔ بلاگز کے بارے میں معلومات دیں کہ کچھ مختصر ہی لکھ لیں اگر زیادہ لکھنے کا ٹائم نہیں ہے تو لیکن آپ ٹس سے مس نہ ہوئیں‘‘۔
آئے ہائے بچی بڑی ڈس ہارٹ ہو رہی ہے۔ اب کیا بتاؤں شرمندگی ہو رہی ہے۔ لیکن خیر سچ بتانا ہی پڑے گا۔
’’ارے بھئی بات کچھ سیریس تو نہیں لیکن کچھ نہ لکھنے کی وجہ بس سمجھو اپھارا…
قبالا کی مسجد میں
تقریباً ساڑھے پانچ بجے کے قریب پارک سے اس ارادے سے نکلے کہ کچھ کھانے پینے کی جگہوں کو دریافت کر کے دوپہر اور رات کا کھانا جمع کیا جا سکے۔
دور سے اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی جو کہ بہت جلد ہمارے قریب آگئی کیونکہ ہم اتفاق سے مسجد کے راستے پر تھے۔ پونے چھےبجے عصر کی اذان ہو رہی تھی ۔بڑی سی مسجد خوبصورت طرز تعمیر اور وسیع احاطہ ۔پورے ٹرپ میں آج پہلی بار کسی مسجد میں جانے کا موقع مل رہا تھا اوپر والے حصے میں خواتین کے لیے انتظام تھا۔ ہمارے ساتھ دو خواتین اور تھیں جو نماز پڑھ رہی تھیں دو چھوٹی بچیاں کھیل رہی تھیں ۔نماز کے بعد تعارف حاصل کیا ،سلام کیا تو بڑی عمر کی خاتون نے انگریزی انگریزی کہہ کر نوجوان خاتون کی طرف اشارہ کیا مطلب کہ انگریزی میں بات کرنی ہے تو ان سے کر سکتے ہیں۔ ہم اس خوبصورت آذری لڑکی کی طرف متوجہ ہو گئے جو خالص قبالا سے تعلق رکھتی تھی اور گبالا کے گاؤں سے بیاہ کر شہر آئی تھی۔ دو چھوٹی پیاری سی بچیوں کی ماں اور قبالا کے ایک اسکول میں انگریزی کی ٹیچر۔
انگریزی سمجھنے والی خاتون کیا…
لہو کے قطرے مثالِ شبنم مرے چمن میں بکھر گئے ہیں
یہ دسمبر 1906 ہے۔
نواب سلیم اللہ کی سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی پر شکوہ کوٹھی، عشرت منزل ڈھاکہ ، آ ج بر صغیر کے مسلم رہنماؤں کی میزبانی پرنازاں ہے۔ پورے ملک کے رہنما آ ج یہاں جمع ہیں ۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس جاری ہےجس کی کارروائی گزشتہ کئی دنوں پر محیط تھی حتیٰ کہ آج دسمبر کی 30 تاریخ آپہنچی ہے۔ آج کے اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک کر رہے ہیں ،مولانا محمد علی جوہر، راجہ صاحب محمود آباد، حکیم اجمل خان، نواب محسن الملک اور بعض دوسرے رہنمااس میں شریک ہیں۔ مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کے قیام کا فیصلہ ہو گیا ہے ۔’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘کے نام سے بننے والی یہ جماعت اب برصغیر میں مسلمانوں کی سیاست کا نیا عنوان ہے ۔
یہ 1940 ہے،اسٹیج سجا ہؤا ہے ،مجمع جوش سے بے قابو ہے، نعروں کی گونج کے پس منظر میں شیر بنگال مولوی اےکے فضل حق قرار داد پاکستان کی تائید ی تقریر کر رہے ہیں۔ ادھر ذرا ہٹ کر صدارتی کرسی پرقائد اعظم تشریف فرما ہیں۔
کیا فسانہ کہوں ماضی وحال کا
شیر تھا میں بھی اک ارضِ بنگال کا
شرق سے غرب تک…
عالمی یوم حجاب کے سلسلے میں کراچی کے نظم نے گزشتہ دنوں ایک خوبصورت پروگرام بعنوان’’گھرا ہؤا ہے ابر، مہتاب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ فاران کلب بینکوئیٹ میں ترتیب دیا۔ تقریب میں دردانہ صدیقی صاحبہ، رخشندہ منیب صاحبہ،اسماءسفیرصاحبہ اورشہر کی چیدہ چیدہ شخصیات شامل تھیں جبکہ نوجوان لڑکیوں کی نمائندگی بھی خوب تھی۔مہمان خصوصی صدر انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کی اورسابق ممبر پارلیمنٹ و نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ تھیں۔
وقت مقررہ پر خواتین کی بڑی تعداد ہال میں پہنچ چکی تھی۔وسیع وعریض فاران بینکوئیٹ کی تزئین و آرائش ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورتی سے کی گئی تھی ۔پروگرام کی تھیم کی مناسبت سے گلابی اور سفیدپھولوں کے گلدستے جابجا لگا ئے گئے تھے۔ میزبانی کے فرائض ثمرین احمد اور ڈاکٹر فضّہ نے انجام دیے۔
تلاوت قرآن اور ہدیہ نعت کی بابرکت سماعت سے پروگرام کاباقاعدہ آغاز کیا گیا۔اسما سفیر صاحبہ نے خوش آمدید کہتے ہوئے بولیں کہ ہم سب باشعور خواتین ہیں اور یہی شعور ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے جب ہم اپنے اردگرد کے حالات کو دیکھتے ہیں، وطن عزیز کی ناگفتہ بہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں، پستی کا یہ سفر کب اور کہاں رکےگا۔ان…
وہ آئیں تو بھانجی کی شادی میںشرکت کے لیے تھیں مگر قانتہ رابعہ کراچی آئیں اور لکھاریوں کی محفل نہ سجے ایسا ممکن ہی نہیں !
ابھی ان کے آنے کی اطلاع ہی ملی تھی کہ ادبی حلقے میں ہلچل مچ گئی اور بے چینی سے ان کی آمد کا انتظار ہونے لگا ۔ اتنی محفلیںسجیں کہ بھانجی کے ساتھ وقت گزارنے کاموقع تومشکل ہی سے مل سکا ہوگا ۔
اصل میں اتنے معروف لوگوں کامسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ ہر ایک انہیں اپنا ’’اثاثہ‘‘ سمجھنے لگتا ہے یعنی ہمارا بھی حق ہے تم پر ۔ قانتہ نے اس حق کو خوب نبھایا اورکسی محفل میں شرکت پر اپنی ذاتی مصروفیت کا کوئی عذر نہ رکھا ۔
صدر حریم ادب عالیہ شمیم کے گھر سجی لکھاریوں کی اس محفل میں ہم بھی شریک ِ محفل تھے ۔ گھر کے برآمدے میں ایک کشادہ اونچا چبوترا سا ہے ۔ اس پر صوفے قرینے سے رکھے تھے اور نیچے کمرۂ جماعت کے انداز میں ایک کے پیچھے ایک کرسیاںدھری تھیں اہل مجلس کے لیے ۔ دائیں طرف دو میزیں سفید میز پوش سے ڈھکی نفاست کا پتہ دیتی تھیں۔ بیلے کے پھولوں کے ساتھ ائیر فریشزکی مہک بھی عجب تازگی دے رہی تھی۔ تازگی…
ایسا نشہ جس میں آ پ کا ریموٹ کنٹرول ایک فرد کے پاس ہوتا ہے!
دنیا میں بہت سے نشے ہیں ،منشیات کا،موبائل کا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن انسان کا نشہ سب سے برا نشہ ہے ۔یہ آپ کا وقت، صلاحیتیں سب کچھ کھا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اب تعلق رہ ہی ضرورت کا گیا ہے ۔بغیر غرض کا تعلق بچا ہی نہیں چاہے رشتہ کوئی بھی ہو۔ ہماری ایک روایت بن گئی ہے کہ جب تعلق جوڑنا پڑتا ہے تب تک ہم فرد کو بہت وقت دیتے ہیں اور یہ ضرورت ہی طے کرتی ہے کہ لہجہ کتنی دیر اور کب تک میٹھا رکھنا ہے۔ اور تعلق کب تک رکھنا ہے اور کتنا مضبوط یہ بھی ضرورت ہی طے کرتی ہے ۔
میرے نزدیک انسان کا نشہ سب سے برا نشہ اس لیے ہے کہ اس میں آ پ کا سارا ریموٹ کنٹرول اسی فرد کے پاس ہوتا ہے۔ کب ہنسنا ہے، کب رونا ہے، کب خوش ہونا ہے، اور اگر وہ آ پ کو بہت زیادہ وقت دیتا ہے اور آ پ کو لگتا ہے کہ آ پ اس کے لیے بہت اہم ہیں، بہت خوب صورت لہجہ اور بہت خوب صورت باتیں،تو آ پ خود کو آ سمان پہ محسوس…
کوئی قاتل ملا نہیں
حنا سہیل۔جدہ
منیبہ ایک سائکاٹرسٹ تھی۔ اس کے پاس بہت سے کیسز آتے رہتے تھے اور کچھ تو بہت زیادہ خراب کنڈیشن میں ہوتے تھے ۔اپنے آپ سے بیگانہ گندے حلیہ میں ، ان میں پڑھے لکھے مریض بھی تھے جنہیں زمانے کی چوٹوں نے اس حالت پر پہنچایا تھا اور کچھ ان پڑھ بھی تھے۔ مگر ان مریضوں میں ایک خاتون ایسی بھی تھی جو بولتی نہیں تھیں ،یعنی خاموش جیسے گونگی ہوں،انھیں بولنا نہیں آتا ہو۔ گھر کے سارے کام کرتی تھیں مگرروتی رہتی تھیں۔خاتون جن کا نام عطیہ تھا، انھیں گھر والے ڈاکٹر منیبہ کے پاس ہرہفتہ تھیرپی سیشن کے لیے لے کر آتے مگر ان کی حالت میں پانچ سال میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا _
عطیہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔شوہر بھی ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز افسر تھے۔ اللہ کا کرنا کہ چھ سال تک یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم رہا ، شادی شدہ عورت میں اولاد کی خواہش اللہ نے فطری طور پر رکھی ہے اور جب دنیا والے طعنہ دینے لگتے ہیں تو یہ خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے ، عطیہ تہجد میں اٹھ اٹھ کر اپنے اللہ سے گڑگڑا کر صالح اولاد کی نعمت…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ اکتوبر2023ء زیرمطالعہ آیا۔ سب سے پیشتر سر ورق کے بارے میں کہناچاہوں گا کہ فوٹوگرافک سر ورق کی بجائے آرٹسٹ کا ہاتھوں سے ڈیزائن کردہ سر ورق زیادہ دیدہ زیب لگتا ہے ۔ آرٹسٹ کے بنائے رنگ برنگے پھولوں سے سجے سر ورق دل کو بھاتے ہیں اور ’’ چمن بتول ‘‘ کو سجاتے ہیں ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ حالات حاضرہ پر ڈاکٹر صاحبہ کی کڑی نظر رہتی ہے ۔ اس لیے ہمیں آپ کے تند و تلخ سچے تبصرے پڑھنے کوملتے ہیں۔ اداریہ کے یہ جملے قابل غور و فکر ہیں ’’ حالات سنگین تر ہوگئے ہیںایسے میںحکمرانوں کی تفریحات اورعیاشیاں زخموں پرنمک چھڑک رہی ہیں ۔ بے حسی انتہا پر ہے مالِ مفت دل بے رحم ۔ قرض کی مَے ہے اور رنگ لائی ہوئی فاقہ مستی ‘‘ غالب کے شعر کا خوب استعمال کیا ہے ۔
’’ اللہ کی طرف بلانے والے رسولؐ ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا بصیرت افروز مضمون اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے پیارے رسول پاک ؐ نے دعوت حق لوگوںتک پہنچانے کا فریضہ بہترین طریقہ سے انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میںکسی لالچ ،خوف یا مصیبت سے متزلزل…
اس سے بڑی حقیقت کچھ نہیں کہ ماں کا دودھ ، قدرت کا ایک انمول تحفہ ہےاوربچے کے لیے بہترین غذا ہےلیکن جب بچہ کم و بیش چھ ماہ کا ہو جائے توصرف ماں کا دودھ اس کی تمام غذائی ضرورتوں کوپورا نہیں کرتا چنانچہ اس کی غذا میں دوسری چیزوں کا اضافہ کرنا پڑتا ہے ۔
بچے کی خوراک خاص احتیاط کے ساتھ بنانی چاہیے ۔ خوراک بچے کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ عام طورپر گھروں میں دن میں ایک یا دومرتبہ کھانا پکتا ہے ۔ چنانچہ کھانے کے وقت تک جراثیم پیدا ہو سکتے ہیں جوکہ بچے کوبیمارکرتے ہیں ۔ بچے کے لیے کھانا بناتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے :
بازار سے تازہ اوراچھی چیز خرید کرلانی چاہیے۔
اناج اوردالوں میںمٹی اورڈوڑےنہیںہونے چاہئیںاس کے علاوہ نہ تو ان کو گیلا ہونا چاہیے اورنہ ہی ان کو اُرلی لگی ہونی چاہیے ۔
تازہ پھل اورسبزیاں خریدنی چاہئیں۔ خیال رکھیں کہ وہ نہ تو گلے سڑے ہوںاور نہ ہی ان میں کیڑے ہوں ۔استعمال سے پہلے ان کو اچھی طرح دھولینا چاہیے۔
ہرقسم کا گوشت اورمچھلی تازہ ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ اس کا رنگ بھورا یا سبز نہیں ہونا چاہیے۔
مرغی کا گوشت بھی تازہ ہونا چاہیے اور اس میں سے…
رائے قائم کرنے کا مطلب کسی واقعہ، معاملہ، خبر، یا کسی بات کی اطلاع ہونے کے بعد اپنے علم و فہم، ذہن، تعلیم و تربیت، حالات، ماحول، خصوصاً مزاج اور نیت کے مطابق اظہارِ بیان کرنا یا ردِّعمل ظاہر کرنا ہے۔ اور یہی بیان یا ردِّعمل انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
سب سے پہلا اظہارِ بیان جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے وہ آدم کے زمین پہ خلیفہ بنائے جانے کی خبر پہ فرشتوں کی طرف سے تھا۔ فرشتوں نے اپنے علم کے مطابق یہ رائے قائم کی کہ’’وہ تو خلیفہ بن کر فساد کرے گا‘‘ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زمین پہ جنات کو اختیارات دیے گئے تھے تو انہوں نے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا۔ دوسری رائے فکر و اندیشے لیے ہوئے تھی کہ ایسا تو نہیں کہ ہم الله رب العزت کی حمد و ثنا میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں۔
اس کے بعد شیطان کی طرف سے اظہارِ بیان، اور رائے آتی ہے تو یہ کہ’’میں اس سے بہتر ہوں‘‘ اور ردِّعمل میں اولادِ آدم سے انتقام کا جذبہ سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان نے اپنا تعارف خود کرا دیا… الله الخالق نے فرشتوں کی رائے پہ اظہار فرمایا’’انی اعلم…
قارئینِ کرام !
سلام مسنون
اس بار تو بیان کرنے کو بس غزہ پر ٹوٹی ہوئی قیامت ہے، اہلِ غزہ کے ایمان و استقامت پراظہارِ رشک ہے اور امت پر حکمرانی کرنے والے طبقے کی بے حسی کے نوحے ہیں۔ انتیس روز سے غزہ کی آبادی پرانتہائی مہلک بموں سے بمباری جاری ہے، جن کے مقابلے میں حماس کے پاس بس اپنی جانیں ہیں اور جذبہِ جہاد ہے۔سب کو نظر آرہا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے نام پہ یہ غزہ کے شہریوں کاقتل عام ہے جس میں اب تک ساڑھے تین ہزار بچوں سمیت ساڑھے آٹھ ہزار افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں اورجن میں ستر فیصد سے بھی زیادہ عام شہری ہیں۔اس اندھا دھند بمباری میں اسرائیل نے نہ مساجد اورہسپتالوں کو چھوڑا، نہ ہی پریس اور امدادی عملے کو،نہ خود ان کی ہدایات پر نقل مکانی کرتے قافلوں کو ۔اسرائیل نامی ناجائز قوت نے شیطانیت اور درندگی کا ایسا کھیل رچایا ہے کہ دنیا چیخ اٹھی ہے۔ ہر خطے اور ملک میں عام لوگ اپنی حکومتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے احتجاج کے لیے نکل آئے ہیں۔جس شخص کے اندر بھی انسانیت کی رمق موجود ہے اور ضمیر ذرا سا بھی بیدار ہےوہ اسرائیل کی مذمت کررہا ہے۔…
حضور اکرم ؐ کی سیرت مبارکہ کے لاتعداد پہلو ہیں۔ آپ کی پاکیزہ زندگی کے واقعات لاتعداد کتابوں میں محفوظ اور ہر مسلمان کو ازبر ہیں۔ لیکن بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ کا ایک عظیم انقلاب جس نے پہلے عرب کا اور پھر پوری دنیا کا نہ صرف سماجی ، اخلاقی اور معاشرتی بلکہ سیاسی منظر نامہ بھی بدل ڈالا ،اس طرف لوگوں کی توجہ بہت کم جاتی ہے۔ یوں عام لوگوں کی نظر سے آپؐ کی زندگی کا سیاسی پہلو اوجھل رہتا ہے۔
پیارے آقا محمد ؐنے نہ تو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور نہ ہی زمام کارکفر کے ہاتھ میں رہنے دی۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہت سے پہلے پیغمبروں کو حکومت سے نوازا بھی اور جہانبانی اور فرمانروائی کے گُر بھی سکھائے اسی طرح محمد ﷺ کو بھی سکھایا کہ طرز حکومت کیا ہو – فرمایا :
’’حکم اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کےسوا کسی اور کی بندگی نہ کرو یہی صحیح دین ہے‘‘۔(یوسف 40:12)
سورہ المائدہ آیت 44 میں فرمایا:
’’ جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل کا فر ہیں‘‘۔
سورہ آل عمران آیت 154 میں فرمایا: ’’وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات…
مؤمن تو آپس میں بھائی ہیں
اللہ تعالیٰ نے امت ِ مسلمہ کو ایک عالمگیر برادری بنایا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو دنیا کے کسی اور یا مسلک کے ماننے والوں میں عنقا ہے۔یہ وہ عالمگیر برادری ہے جو شرق، غرب اور شمال جنوب کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔اور جماعتِ مسلمہ کے درمیان محبت، سلامتی، تعاون و اتحاد ہی باہمی تعلق کی بنیاد ہے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے تمام امت کو اخوت کے رشتے میں جوڑ دیا:
’’اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ (آل عمران، ۱۹۳)
یہ اسلامی سوسائٹی کی بنیاد ہے۔ صرف اللہ نام پر برادری، اسلامی نظامِ زندگی کی رفاقت، اسلامی نظام ِ زندگی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنے کی رفاقت! اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے، جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آ سکتی ہے۔
اسلام سے پہلے پورا عرب ایک دوسرے کا دشمن تھا، بچہ بچہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا دشمن تھا۔ ایک ایک خون کا بدلہ کئی کئی پشتوں تک چلتا تھا۔ اس…
فلسطینی مسلم آبادی پر اسرائیل کے بہیمانہ ظلم اوردہشت گردی کا پس منظرکیا ہے،مسئلہ فلسطین دراصل کیوں پیدا ہؤا ، اقوام عالم میں کس نے کیا کردار ادا کیا ، اس میں کون کون سے نمایاں تاریخی موڑ آئے ، یہ تحریرجومسجد اقصیٰ میں ہونے والی آتش زدگی کے بعد 1970 میں شائع ہوئی ان سوالوں کے جواب دیتی ہے ۔
یہودی عزائم کی تاریخ
بیت المقدس اورفلسطین کے متعلق آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباًتیرہ سوبرس قبل مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اوردو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخراس پرقابض ہوگئے تھے۔ وہ اس سر زمین کے اصل باشندے نہیں تھے ۔ قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میںتفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، اور بائبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتلِ عام کر کے اس سر زمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنیگوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians)کو فنا کرکے امریکہ پر قبضہ کیا ۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث میں دے دیا ہے ، اس لیے انھیں حق پہنچتاہے کہ…
سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس
اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس
پھر دیکھیے وہ جوش وہ جذبہ عوام کا
جھوٹی امید ان کو دلانی ہے اور بس
نفرت کی وہ مچے گی قیامت ہر ایک سے
ایک ایک کی ہزار لگانی ہے اور بس
ہاں آج تک اسی کی سزا کاٹتا ہوں میں
آنکھیں ہیں اور ان آنکھوں میں پانی ہے اور بس
کُل زندگی، بڑھاپا و بچپن کے درمیاں
اک مختصر سا دورِ جوانی ہے اور بس
تم کیا ہو، کس لیے ہو، کہاں لوٹ جاؤ گے
اتنی سی بات سب کو بتانی ہے اور بس
بھولا ہے مان لے گا کہاں دیر ہو گئی
گھر جاکے کوئی بات بنانی ہے اور بس
پھر دیکھیے گا رات کی سیماب پائیاں
ہر دل میں ایک جوت جگانی ہے اور بس
اُس کے حبیبؔ سارے فسانے حقیقتیں
لیکن مری کہانی کہانی ہے اور بس
سنہرے گنبد سے اپنارشتہ تو اس قدر ہے
خدا نے رکھی جہاں پہ برکت یہی وہ در ہے
گئے تھے آقا فلک کی جانب
یہی تو وہ جائے معتبر ہے
ہزار نبیوں کو جس نے پالا یہی وہ گھر ہے
حصارِ جوروجفا جہاں اب سواہوا ہے
بہت ہی ملعون وحشیوں میں گھرا ہوا ہے
زمینِ اقدس کی اس تباہی کاعکس دیکھوگےہرخبرمیں
جو مثلِ خنجر ہوئی ہیں پیوست ہرنظرمیں
ندائے اقصی میں سن سکو تو
لہو نہاتی ہزار آھیں جو مرتعش ہیں
تجلیوں سے جولاالہَ کی منعکس ہیں
جو زخمی کلیوں کی آہ و زاری میں ملتمس ہیں
نبی کی حرمت کے نام لیوا ادہر تو آؤ
کسی اخوت کے نام لیوا بکھر نہ جاؤ
تمہیں یہاں کے سوال چہرے پکارتے ہیں
زمینِ اقدس پہ بڑھتے حملے پکارتے ہیں
سپاہیانِ وفا کے لشکر کے مرد آہن چلے بھی آؤ
حروفِ قرآں کاتھامے دامن چلے بھی آؤ
قلوبِ ایماں کی بن کے دھڑکن چلے بھی آؤ
زمینِ اقصی تمھارے پرچم کی سبز رنگت سے کہہ رہی ہے
یہاں کی حرمت سے جس کا رشتہ تو دائمی ہے
اگر نہ آؤ تو پھر بتاؤ یہ لازمی ہے
تمھاری نسبت کا مان کیا بس ستائشی ہے؟
تمھاری طاقت کا زعم کیا بس نمائشی ہے؟
گھنگھور گھٹاؤں نے پیغام سنایا ہے
ہر دل کو لبھانے کا موسم یہ آیا ہے
گونجے ہے جہاں سارا اک شوقِ نوا سے اب
مرغانِ چمن نے بھی کیا رنگ جمایا ہے
من بھر گیا خوشیوں سے، غم دور ہوئے سارے
امیدِ وصل کا اک سندیسہ لایا ہے
رم جھم ہے بوندوں کی، دل پر بھی گرتی ہیں
آنکھوں میں بھی گویا کہ اک ابر سا چھایا ہے
یاں برکھا، واں من میں سیلاب سا اترا ہے
اک شور عجب مل کر دونوں نے مچایا ہے
اے کاش سدا یونہی، ہر جا چٹکیں غنچے
مہکائے جگ ہر سو، یہ گیت جو گایا ہے
اپنے کمرے میں آ کر میں نے وقت دیکھا ۔پاکستان میں اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہوں گے ،ماما جاگی ہوئی ہوں گی میرے فون کے انتظار میں۔۔۔ ایک ٹھنڈی سانس بے اختیار میرے منہ سے نکلی، موڈ کو خوشگوار کیا ،سارے دن کی بے کلی اور کوفت کو ایک طرف رکھ کر میں نے کال ملائی ۔
وہ انتظار ہی میں تھیں ۔سلام دعا کے بعد جو پہلی خبر انہوں نےمجھے سنائی وہ حمزہ کی تھی۔ اس کا بھی باہر جانے کا ہو گیا ہے، اماں نے سادے سے انداز میں اپنی طرف سے خوشی کی خبرمجھے سنائی ۔ میری کافی عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی ۔جب میں کال کرتا تھا وہ عموماً گھر پر نہیں ہوتا تھا۔ من موجی لڑکا تھا پڑھائی میں اچھا تھا اور اب ڈاکٹر بن چکا تھا، ہاؤس جاب مکمل ہونے والی تھی اس لیے گھر والوں کی طرف سے اس کی روٹین کے حوالے سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
میں نے ان کے حسب توقع خوشی کے چند جملے بولے اور فون بند کردیا۔
یہ کال مجھے آج سے چار سال پیچھے لے گئی۔ ایک انجنئیرنگ یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے گریجویٹ ہونے کے بعد میرے بھی یہی خیالات تھے…
’’دیکھو نی میں سیراں (سائرہ ) بن گئی‘‘ گڈو خسرے نے جھوم جھوم کر تالیاں بجائیں اور ہنستی اور سب کو ہنساتی ہوئی چلی گئی۔
ہر سال ہمارے گاؤں میں جب گندم کی کٹائی ہوتی گاؤں کے غریب لوگ جنہیں کمی کہا جاتا اور بہت سے خواجہ سرا آتے ، جس جس گھر میں لڑکا پیدا ہوتا وہ وہاں خوب گانے بجانے کرتے، ودھائیاں (مبارکبادیں ) دیتے ،انہیں بدلے میں مٹھائیاں، کپڑے ، ڈھیر ساری گندم اور پیسے دے کر رخصت کیا جاتا ، اور وہ دعائیں دیتے چلے جاتے ۔
باقی لوگ تو ایک ہی دن میں چلے جاتے لیکن خواجہ سراہفتہ بھر ہمارے گاؤں میں ہماری مویشیوں والی حویلی کی ایک طرف بنے ہوئے خالی کمروں میں رہتے ، انہی میں ایک خواجہ سرا گڈو بھی تھا، گڈو ہر روز شام کو ہمارے گھروں میں آجاتا اس لیے اس کی میری پھپھو اور کچھ اور رشتہ دار خواتین سے دوستی ہو گئی . ہمارا گھر بہت بڑا تھا جس میں ہمارے دادا دادی ، پھپھو ، تایا کی فیملی اور ہماری فیملی سب اکٹھے رہتے تھے ، باورچی خانے سب کے الگ الگ تھے لیکن ایک ہی بہت بڑا صحن ہوتا تھا وہاں بہت رونق ہوتی تھی ۔
تقریباً ہر شام…
دھم دھما دھم دھم…. دھم دھما دھم دھم
ملک ڈتو کے گھر سے رات گئے سے ڈھول کی اواز آنا بند نہیں ہوئی تھی۔
اور بند بھی کیوں ہوتی ،خوشی ہی اتنی بڑی تھی! ملک’’ڈتو‘‘ کے گھر پوتا جو پیدا ہؤا تھا ۔پچھلے کافی سالوں سے ملک کا گھر بچوں کی شرارتوں اور رونقوں سے محروم تھا ۔اس کے بیٹے’’بالو‘‘ کے بعد کسی کی بچے کی پیدائش نہ ہوئی تو اس کے صحن نے کسی بچے کی کلکاریاں اور رونقیں نہ دیکھی تھیں….آج جیوے لکھ تھیوے ’’بالو‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے چاند مکھڑے اور روشن پیشانی والا بیٹا دیا تھا تو ملک ڈتو ڈھول بجوا کے بیٹے کی پیدائش کی خوشی منا رہا تھا۔ڈتو کی اس خوشی میں گردونواح کے سارے علاقے والے اور دوست قرابت دار شامل ہوئے تھے۔
لالہ مبارک باد اللہ ہمارے بھتیجے کو ہنستا بستا رکھے۔
او جی خیر مبارک میرے بھائی ہماری اس خوشی کے موقع پہ شریک ہوئے۔
ملک ڈتو کے بچپن کے یار وسائے نمبردار نے اس کے پوتے کی پیدائش کی مبارک اس کے گھر پہ آ کے دی تو ملک ڈتو کا سینہ خوشی سے چوڑا ہو گیا۔
نمبردار پہلا یا آخری بندہ نہ تھا جو مبارکباد کے لیے آیا ہو۔ لوگ تو رات سے آنا شروع…
” انوبی میں نے سنا ہے کہ اگلی اتوار اپنی سونو دھی آ رہی ہے، تو نے بس مجھے ہی نہ بتایا، تیرے دکھ سکھ کی ساتھی تو میں ہوں اور پتہ چلا مجھے ماسی برکتے سے “۔
نوری کے شکوہ کرنے پر مشین پر جھکی سلائی کرتی انوبی کے ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”جھلی ہے تُو تو ….تجھے نہ بتاؤں گی تو کسے بتاؤں گی، وہ تو برکت ماسی کے گھر میری سونودھی کا فون آ گیا یوں اس کو پتہ چلا“ انوبی نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ”تجھے پتہ ہے نوری اگلے ہفتے داماد صاحب بھی آ رہے ہیں اور ساتھ ہی میرا ننھا نواسہ بھی سوا مہینے کے بعد اپنی نانی کے گھر آ رہا ہے۔ جی چاہ رہا ہے کہ پورا گھر سمیٹ کر اس کے قدموں میں نچھاور کر دوں“ آنکھوں میں دیپ جلائے انوبی منہ سے دھاگہ توڑتے ہوئے بولی۔
”واہ بھئی ویسے قسمت کی دھنی ہے ہماری سونو، سسرال والے بھی نیک ملے اور داماد بھی بالکل بیٹوں کی طرح ۔۔۔اور تو اور اس لالچ بھرے زمانے میں جہیز لینے سے بھی انکار کر دیا ، اللہ ان لوگوں کو خوش رکھے“ نوری نے صدقِ دل سے دعا دی ، انو…
سلاخوں کے پارسے اٹھتی سوندھی سوندھی گیلی مٹی کی مہک نے اسے ماضی میں گم کردیا ۔ اس کاکچی مٹی سے تعمیرکردہ ایک کمرے اورصحن پرمشتمل مکان بھی بارش کی بوندیں پڑتے ہی یوںہی مہک اٹھا تھا۔ اس کچے پکے مکان میں وہ کنچے کھیلتا ہؤا بڑا ہؤا، اورجانے کب رنگ برنگے کنچے کھیلتے ہوئے اس کی ماں انیلہ اسے سرکاری اسکول میں داخل کرا آئی ۔ اس کی عمر غالباً سات سے اٹھ برس تھی جب اس نے پہلی بارکاغذ قلم کوچھوا۔آہستہ آہستہ اسے اسکول کاماحول بھانے لگا۔ اساتذہ کے نرم گرم رویہ کا بھی وہ دھیرے دھیرے عادی ہوگیا ۔ اب وہ کاغذ قلم کے ساتھ بستہ میں کنچہ بھی بھر کرلاتا ۔ کھانے کے وقفہ میں رنگےبرنگے کنچے بستہ سےنکلتے اورکھیل کا میدان گویا کنچوں سے رنگین ہوجاتا ۔
یہ موسم گرما کا وسط تھا ۔مون سون شروع ہوچکا تھا۔بارش کی رم جھم اس کے کچے گھر کو مہکا جاتی ۔لیکن ایک دن مینہہ اس زور سے برسا کہ اس کا کچا پکا مکان ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو گیا ۔لوگوں نے اسے ، اس کی ماں اورچھوٹی بہن کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا ۔ کچھ دن زیرعلاج رہنے کے بعد جب وہ واپس…
17دسمبر 1987 سردیوں کی ایک شام تھی جب ہم اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے میں اپنے ساتھ اپنی پرانی مدد گار کچھ دنوں کے لیے لے آئی تھی تاکہ نئی جگہ پہ جا کرمشکل نہ ہو اورگھر سیٹ کرنے میں مدد گاربنے ۔ میرے ساس سسربھی میرے ساتھ رہتے تھے۔ میری مرحومہ ساس نے محلے میں صفائی کے لیے جلدہی ایک خادمہ کا بندو بست کردیا جس سے کافی آسانی ہو گئی لیکن کچن کے لیے مجھے مدد گار کی سخت ضرور ت تھی۔
بچے چھوٹے تھے مستقل ساس سسر کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مہمان داری بھی بہت تھی ، جب ہمارا گھر بن رہا تھا توچوکیدار اپنی فیملی کے ساتھ ادھر ہی رہتا تھا ، اس کی ایک بیٹی دبلی پتلی کمزور سی جان صبح سویرے سردی میں کسی دفتر کی صفائی کے لیے جاتی تھی ۔میری ساس نے اس کے والد سے کہا کہ تمہاری کمزور سی بچی ہے اور تم اس کو صبح سویرے اتنی ٹھنڈ میں دفتر کی صفائی کے لیے بھیج دیتا ہے۔بہتر یہ ہے کہ تم اس کو اندر باجی کے ساتھ کام پہ لگا دو، وہ اس کے پاس رہے گی اورکام میں بھی ہاتھ بٹائے گی کھائے پئے گی تو…
ٹھیک پندرہ روز بعد ہم سب دوبارہ کو لکھپت جیل جا رہے تھے ۔ ہمارے ساتھ لیڈی ہیلتھ وزیٹرفرحت ( مرحومہ) غزالہ ہاشمی ، فرزانہ ، اسما خان اوردونوجوان بچیاں تھیں جنہوں نے میڈیکل باکس اوربلڈ پریشر چیک کرنے والے آلات اُٹھا رکھے تھے۔
اس دن کی طرح دوبارہ ہماری شناخت ہوئی اورکچھ دیر بعد ہم جیل کی چار دیواری میں بنی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں سے ایک عمارت میں بیٹھے تھے ۔ خالدہ بٹ صاحبہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں وہ بہت متحرک دکھائی دے رہی تھیں۔وہ ہمارے سوالات کے جواب بہت تسلی اور اطمینان سے دے رہی تھیں ۔ میرے دل و دماغ میں بہت سے سوالات پنپ رہے تھے جو میں ان سے پوچھنا چاہ رہی تھی ، قیدی بیمار عورتیں ایک ایک کرکے کمرے میں آنے لگیں اور کمرے میں پڑے بنچوں پربیٹھنے لگیں ۔سبھی لوگ مستعدی سے ان کا چیک اپ کر نے لگے ۔ ایک نے بلڈ پریشر چیک کیا ، دوسری نے تھرما میٹرلگایا، فرحت نے ان کے گلے ، آنکھیں ، کان چیک کیں اور نسخہ لکھ کر گروپ کی ایک ممبرکوپکڑا دیا جو دوائیوں کا باکس کھولے بیٹھی تھی۔ اس نے دوائیاں لفافے میں ڈال کر مریضہ عورتوں کودینا شروع کیں…
خلاصہ:نین تارا غیر ملکی مذموم مقاصد کو پورا کرتی ایک این جی او چلا رہی ہے۔وہ پون کو نوکری کی پیشکش کرتی ہےجو کہ صالحہ آنٹی کے مطابق ایک خطرناک پیش کش ہے۔مگر نین تارا خود ہی لا پتہ ہو جاتی ہے۔پون کو ہاسٹل میں ایک لڑکی نظر آتی ہے جو اسی کے محلےکی رہنے والی تھی۔وہ اس سے ڈر کرگائوں کے سکول میں استانی کی نوکری کے لیے درخواست دے دیتی ہے۔حمیرا اس کی سہیلی ہاسٹل چھوڑ کر جا رہی ہے۔خود پون کا اگلا ٹھکانہ کیا ہو گا وہ نہیں جانتی۔
وہ بہت دیر پہلے خاموش ہو چکی تھی اور اب گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھی تھی ۔ ماضی کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہؤا تھا ۔ وہ ذہنی طور پر بُری طرح سے تھک گئی تھی مگر اتنا ضرورہؤا تھا کہ اس نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا تھا جو وہ آج تک کسی سے نہیں کہہ پائی تھی۔ وہ سارے دکھ وہ ساری تکلیفیں وہ ساری یادیں جواس کے اندربیماری بنتی جا رہی تھیں ، آج اس نے نکال کراس شخص کے سامنے رکھ دی تھیں جوبیک وقت اجنبی بھی تھا اور اپنا بھی…جو بے نیاز تھا ، لا تعلق اور خود پسند تھا … پھر بھی…
ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا کی ہمہ پہلو اور متحرک شخصیت کا تذکرہ جو حسنِ عمل کی بہت سی راہیں دکھا رہا ہے
بے شک پوری انسانیت کے لیے ، قیامت تک کے لیے اسوۂ حسنہ ، نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ ہے۔ اُمہات المومنین تمام خواتین کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔
اخلاقِ حسنہ کی جھلک آج کے دور میں بھی جہاں کہیں ہمیں نظر آتی ہے ، وہ ہمارےعمل کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔
اپنی امی جان کی زندگی کے چند روشن پہلو اس نیت سے آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں کہ آج کے حالات میں ، عمل کے لیے ، کسی کو کوئی نکتہ مل سکے تو اُن کے لیے اجر کا باعث ہوگا ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ ان کو عافیت والی زندگی عطا فرمائیں آمین۔
میری والدہ محترمہ ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا کے اتنے پہلومثالی ہیں کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کن پہلو ئوں پربات کی جائے ۔ ایک خاتون کی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ مصروف گائناکالوجسٹ ، مخلص سوشل ورکر، ذمہ دار کونسلر اور صوبائی کونسل کی رکن ، تمام معروف میڈیکل دینی ، ریلیف اور خواتین کے حقوق کے لیے متحرک تنظیموں سے مضبوط رابطہ رکھنے والی، علوم و فنون ،…
بلندیوں کا سفر
قبالا آذربائجان کا ایک تاریخی شہر ہے جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے منگول خان، تیمور لنگ اور ایسے کئی جنگجوؤں کے قدم اس زمین پر پڑے ہیں۔باکو سے قبالا کا بائی روڈ راستہ ساڑھے تین گھنٹے کا ہے لیکن جگہ جگہ اسپیڈ چیک اور ریڈار بورڈز نصب ہیں جس کی وجہ سے رفتار کبھی کم اور کبھی زیادہ رکھنی پڑتی ہے ۔پہاڑوں کے درمیان سطح مرتفع پر واقع وادیاں، وسیع سرسبز میدان اور چراگاہیں، کھیت، مویشیوں کے جھنڈ ، خوبصورت لکڑی سے بنے مکانات، سرائے ،ہوٹل ،دکانیں کہیں ملیں اور فیکٹریاں کہیں ہوائی چکیاں، سولر پلانٹ اور ان سب کے درمیان صاف ستھری بل کھاتی سڑک، کہیں دریائی راستوں پر پل بنائے گئے ہیں جہاں ابھی تو بالکل ہلکا سا پانی نظر آرہا تھا لیکن برف باری کے بعد یقینا ًیہ دریائی راستے پانی سے بھر جاتے ہوں گے۔
تقریباً دو ڈھائی گھنٹے چلنے کے بعد ایک جگہ گاڑی روک کر تھوڑی چہل قدمی کا فیصلہ کیا۔لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر چھوٹی چھوٹی بیٹھکوں کی شکل میں قہوہ خانے پورے راستے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود تھے جنہیں مقامی لوگ ہی چلاتے ہیں، جو نہ صرف ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے بلکہ آذری لوگوں…
’’پل میں تولہ پل میں ماشہ‘‘ کا محاورہ شاید بنا ہی ان کے لیے ہے۔ جن میاں بیوی کے
درمیان محبت اور دوستی زیادہ ہوتی ہے ان کے درمیان نوک جھوک ضرور ہوتی ہے۔
دو انسانوں کے درمیان بننے والا سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا ہے جو انسان کے اس روئے زمین پر قدم رکھنے سے پہلے جنت میں ہی بنا دیا گیاجبکہ باقی سب رشتے زمین پر بنے ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے والدین جیسے اہم ترین رشتے کی بجائے اس کا گھر بسانے اور دل لگانے کے لیے ایک بیوی کا وجود اس کے لیے پیدا فرما دیا اور اس رشتے کے درمیان ایک خاص محبت کی سند اپنی طرف سے عطا فرما دی ۔
یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی، لڑا کے اصیل مرغوں کی طرح آپس کی لڑائی جھگڑے میں چونچوں سے ایک دوسرے کو لہو لہان بھی کر دیں تو ہانپتے ہوئے کچھ دیر لڑائی چھوڑ کر سستانے کے لیے بھی ایک دوسرے کی گردن پر ہی سر رکھ کر آرام فرمائیں گے۔ کہتے ہیں کہ ایک جگہ پر پڑے برتن بھی آپس میں کھٹک جاتے ہیں لیکن یہ رشتہ ایسا رشتہ ہے کہ ان کے کھٹکنے کی آواز ڈھول کی تھاپ سے بھی…
اے میرے غزہ کے پھول!
تمہیں شکوہ ہے
کہ تمہیں اس دنیا میں ٹھہرنے نہیں دیا گیا
تمہیں تو ابھی رنگوں سے کھیلنا تھا
خوشبوؤں کو محسوس کرنا تھا
پنسل سے کاپی پر کچھ لکھنا تھا
تتلیوں کے پیچھے بھاگنا
اور پھولوں کو کھلتے دیکھنا تھا
تمہیں شکوہ ہے کہ تم نے
سورج کی حرارت محسوس نہیں کی
چاند کی چاندنی بھی نہیں دیکھی
اور وہ جو جگمگ جگنو ہوتے ہیں
اور وہ جو کوئل نغمے سناتی ہے
کچھ بھی تو نہیں
تم نے یہ دنیا نہیں دیکھی
لیکن میں تمہیں بتاؤں
تم دنیا کے جس خطے میں آئے تھے
پیارے!وہ خطہ غزہ کہلاتا ہے
کھلے آسمان تلے یہ اس زمیں کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے
اگر تم یہاں کچھ دن ٹھہر بھی جاتے
تو بحیرہ روم کے نیلے پانیوں کے ساحل پر رہنے والے پیارے بچے
پینے کے صاف پانی تک تمہیں رسائی نہ ملنی تھی
اور اب جب یہ دنیا ٹیکنالوجی کے آسمان کو چھو رہی ہے
تمہیں بجلی چوبیس گھنٹوں میں فقط چار گھنٹے ہی ملنا تھی
اور تم جی تو رہے ہوتے
مگر تم میں خون کی کمی ہوتی
اور کسی شب جب
ماں کی آغوش میں تم چھپ کے سو رہے ہوتے
اور اسرائیلی فضائیہ تم پہ آگ برساتی
شور، آگ اور دھواں
خون، زخم، آنسو اور چیخوںمیں گھِر کر
تم خوف کے عارضے کا شکار بن جاتے
یا اگر اپنے باہمت والدین کی نگہداشت…
علامہ اقبال اپنے اشعار میںجوبھی الفاظ استعمال کرتے تھے ان کا انتخاب لاجواب اور با مقصد ہوتا تھا۔ ’ لا ہوتی‘ تصوف کا وہ درجہ ہوتا ہے جہاں سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ انسان دنیاوی حرص و لالچ سے ماورا ہو کر صرف اللہ سے لولگا لیتا ہے اور یہ درجہ بلا شبہ ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا ۔ خال خال متقی انسانوں کو یہ درجہ حاصل ہوتا ہے ۔
تو پھر علامہ نے بجا فرمایا ہے کہ اللہ والے انسان تجھے کبھی گوارا نہ ہوگا کہ اللہ کے سوائے کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ۔ علامہ خود بھی عشق خدا اور عشقِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے تھے وہ طائر لا ہوتی کو یوں مخاطب کر سکتے تھے کوئی عام انسان ایسی جرأت نہیں کر سکتا تھا ۔
علامہ مسلمانانِ ہند بلکہ تمام عالم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا ایک ذلت سے کم نہیں ۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اور
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اللہ تعالیٰ تو انسان…
نگران ماہنامہ بتول ثریا اسما صاحبہ کے نام
میری پیاری ثریا خالہ جان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاۃ‘
خیر وعافیت کی دعائوں کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں ۔ فون پر آپ کی ٹھنڈی میٹھی آواز سننے کی عادی ہو چکی ہوں ۔ اور اب یہ کمی تو مسلسل محسوس ہوتی ہے ۔امید ہے کہ آپ نئے گھر شفٹ ہو گئے ہوں گے اور وہاں پر سامان کی از سرِنو ترتیب دی گئی ہو گی۔ یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے ۔ لیکن اس سے بھی ایک بڑا اورمشکل مرحلہ یہ ہے جب ہماری Shifting یہاں سے اخروی گھرکی طرف ہو گی ۔ اللہ آسان کرے۔
ہم نے بھی ادھر آکر اپنا گھربسایا ہے ۔ضرورت کی تمام چیزیں اول سےآخر تک خریدنی تھیں ۔یہاں کے Life styleمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا اتنا رحجان ہے کہ ’’ عارضی گھر ‘‘ کا تصور ذہن میں جما رہتا ہے ۔ آج ادھر ہیں اورکل شاید نہ ہوں ۔ اوریہ پوری امریکی قوم کا مزاج ہے مگر پھر جب وہ زندگی کے کسی دور میں سیٹ ہوتے ہیں توپھراس طرح کہ جیسے یہی گھرآخرت میں ملنے والی جنت ہیں۔
اللہ ہمارا آخرت میں بہترین گھردے ۔فلاحِ دارین دے ۔ آمین۔
آپ کا کام اورصحت کس حال میں…
دورانِ حمل باقاعدہ طبی معائنے کا مقصد ماں اور بچے کی مکمل صحت اورخیر وعافیت کے ساتھ اس انتہائی نازک لیکن خوش آئند سفر جس میں ایک عورت ماں بن کرنہ صرف مکمل ہوجاتی ہے بلکہ قدرت کےحسین ترین تحفے یعنی اولاد کوپا لیتی ہے ۔ اسے ان تمام مراحل کو اچھے انجام تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ جس دوران ماں اوربچے دونوں کی زندگی محفوظ رہے ۔
دورانِ حمل طبی معائنہ جسے طب کی زبان میں قبل از پیدائش کی تشخیص(Antenatal checkup)کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے خاتون کوحمل کے دوران یا اس سے پہلے کی مختلف بیماریوں کی تشخیص ہوسکتی ہےاور ساتھ ہی ساتھ ایک ڈاکٹر یا میڈیکل پروفیشنل سے مل کرحمل اورڈیلیوری کے بارے میںمفید معلومات اورمشورے مل سکتے ہیں جس سے نہ صرف ماں کے لیے بچہ پیدا کرنے میں آسانی ہو بلکہ آگے چل کراس کی پرورش میں بھی آسانی رہے ۔ جیسے کہ اس دوران بریسٹ فیڈنگ کے بارےمیں رہنمائی دی جاتی ہےجو نومولود بچے کے لیے انتہائی اہم ہے ۔
حمل کو عام طورپرتین سہ ماہی یعنی Trimestersمیں تقسیم کیا جاتا ہے ۔پہلے تین ماہ کے دورانیے کی پہلی سہ ماہی First trimesterکہا جاتا ہے ۔
پہلی سہ ماہی
اس دوران عام…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ ستمبر 2023ء کا ٹائٹل ہمارے کلچر کی عکاسی کر رہا ہے ۔ ملتانی نیلے نقش ونگاروالے برتن بھلے لگ رہے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ (مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ ) آپ نے بجا طورپر بٹگرام کے اس جری نوجوان کی تعریف کی ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کرڈولی میں پھنسے بچوں کوبچایا ۔ سندھ میں پیری مریدی اوروڈیرہ شاہی کے ظلم وستم پر آپ نے جرأت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے ۔
’’ اعجاز قرآن‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون) آپ نے بیان کیا ہے کہ قرآن پاک وفصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہےیہ جملے خوبصورت ہیں ’’ یہ سیلاب کی طرح یلغار کرتا ، برق کی طرح کڑکتا ، بارش کی طرح برستا ، بادل کی طرح چڑھتا ، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا طوفان کی طرح امڈ تا اورپھولوں کی طرح مہکتا تھا ‘‘۔
’’ بیوی کے حقوق (ندا اسلام) واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں بیویوں کوبہت سے حقوق حاصل ہیں ۔ لکھتی ہیں ’’بحیثیت مرد نہ جانے ہم نے یہ کیسے سمجھ لیا…
عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک…
قارئینِ کرام سلام مسنون
اکتوبر کا آغاز ہے مگر گرمی ابھی تک پھن پھیلائے کھڑی ہے۔ خیر ،موسم آج نہیں تو کل بہتر ہو ہی جائے گا، مگر جس کا بہتر ہونا مطلوب ہے وہ تو مسلسل خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔ مہنگائی اوربجلی کے بلوں میں مسلسل اضافے کے خلاف ملک گیر ہڑتال بھی ہوئی ۔ہر جگہ عوام سراپا احتجاج بن گئے کہ بجلی کا بل دیں تو پٹرول کہاں سے خریدیں اور پٹرول لے لیں تو کھائیں کہاں سے!خود کشی کے واقعات بھی ہوئے جو اشارہ کرتے ہیں کہ حالات سنگین تر ہو گئے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کی تفریحات اور عیاشیاں زخموں پہ نمک چھڑک رہی ہیں۔ بے حسی انتہا پر ہے۔ مالِ مفت ہے اور دلِ بے رحم۔ قرض کی مے ہے اوررنگ لائی ہوئی فاقہ مستی۔ انتخابات کب ہوتے ہیں ، کن حالات میں، اور ہوتے بھی ہیں یا نہیں، کوئی خبر نہیں۔ جن کاکام انتقال اقتدار کی نگرانی تھا انہیں برسراقتدار ہونے کی غلط فہمی ہوگئی۔ وہ راستے کو منزل بنا بیٹھے اور خیمے کو گھر۔ دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے کہ بیرونی دوروں کی کیا تک بنتی تھی جبکہ وہاں کرنے والے کام منتخب حکومت کے ہوتے ہیں۔
کند تلوار سے طاقت نہیں…
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا، اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے پے در پے انبیاء و رسل بھیجے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص نمائندے تھے۔ جنھوں نے ہر دور میں انسانوں کو اللہ کی طرف بلانے کا فریضہ انجام دیا۔جن کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ کی توحید کا بیان اور شرک کا ابطال تھا۔ ہر نبی کی دعوت یہی تھی، کہ صرف اللہ کی بندگی کرو، صرف اکیلا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا تقوی کیا جائے۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر اور اس کی نافرمانی کے نتائجِ بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکرو عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کے دونوں گروہوں کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا، تاکہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ کریں، تاکہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بنیں اور اس کی ناشکری نہ کریں۔اور کیونکہ عبادت اور بندگی کے طریقوں کی معرفت اللہ کے رسولوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔اور اسی دعوت کے بیان کے لیے کتابیں نازل ہوئیں۔اللہ تعالیٰ کا امتِ…
سیرت طیبہ سے رحمت وشفقت کی چند کرنیں
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اپنے اندر خیر و شر اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت ودیعت فرمائی ہے۔
اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک اللہ کا کلام، دوسرے انبیاء علیہ السلام کی شخصیتیں۔ جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ ، تعلیم اور تفہیم کا ذریعہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا ۔تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشاء پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر صالح کریں ….یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہو سکا اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے خدا نے آ پ ؐ کی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین…
’’ کارکن اورقیادت سےتحریک کے تقاضے ‘‘ کاایک باب
ہر تنظیم کسی مقصد کے لیے قائم ہوتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں وہ جتنی مؤثر (effective) اور جتنی کارگر (efficient) ہوگی اتنا ہی وہ تنظیم زیادہ کامیاب ہوگی۔ اس لحاظ سے ہم سب کے لیے یہ جاننا ضروی ہے کہ وہ کون سے اصول اور تدابیر ہیں جو کسی ایسی تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر اور کارگر ہو سکتے ہیں جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے قائم کی گئی ہو۔
تنظیم کیا کرتی ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
عمومی نقطہ نظر سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تنظیم کے دو کام ہیں:ایک یہ کہ وہ افراد کو جمع کر کے ایک ایسا مجموعہ بنائے جس کی طاقت اور قوت افراد کے مجموعے سے کئی گنا زیادہ ہو۔ اگر آپ ریاضی کے جمع کے فارمولے سے افراد کی قوتوں اور طاقتوں کو جمع کریں تو تنظیم میں آکر وہ اَضعافاً مُضاعَفَۃ ،یعنی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گی۔ اس کو اردو کے ایک عام محاورے کے لحاظ سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک اور ایک کو جمع کر کے دو بنانا تنظیم کا کام نہیں ہے، بلکہ ایک اور ایک کو گیارہ بنانا تنظیم…
وہ جو ماں کے تلخ سے تند سے مجھے چھٹ پنے میں رلا گئے
وہی لہجے ڈانٹ کے پِیٹ کے مری زندگی کو بنا گئے
مرے سب گناہ مٹا گئے، ترا آسمان ہلا گئے
مرے نالے تیری جناب میں عجب ایک حشر اٹھا گئے
نہ وہ چہرہ اب ہے گلاب سا نہ رہا ہوں مثلِ شہاب سا
وہ جو دن تھے ہجر و فراق کے مرے رنگ روپ کو کھا گئے
وہ جو بت تھے ریت کے راکھ کے وہ تو دودھ تھے کسی آکھ کے
نہ تھے اہل عزت و ساکھ کے جنھیں ہم سے جانے خدا گئے
وہ جو روز و شب تھے وصال کے وہ جو روز و شب تھے فراق کے
کبھی یاد آکے رلا گئے کبھی یاد آ کے ہنسا گئے
وہ جو اٹھے لے کے کتاب کو بنا حرص اجر و ثواب کو
کیے ترک چنگ و رباب کو وہی اس جہان پہ چھا گئے
وہ جو ظلمتوں سے جہاد میں کبھی اپنے خوں سے جلائے تھے
یہ و ہی تو گھر کے چراغ ہیں جو مرے ہی گھر کو جلا گئے
میں تو اب بھی ان کا غلام ہوں، میں غلام ابنِ غلام ہوں
وہ عجب تھے لوگ سفید سے مرا خوں سفید بنا گئے
کبھی نیم شب کی دعاؤں میں جو گرے خطا کی چتاؤں میں
وہی چند اشک…
ابھی یہ عمر باقی ہے
ابھی یہ سانس چلتی ہے
ابھی یہ دل دھڑکتا ہے
یہ دھڑکن شور کرتی ہے
ابھی قوسِ قزح
آنکھوں کے پردے پر اترتی ہے
ابھی پلکوں کی باڑوں پر
سجے ہیں ان گنت سپنے
ابھی دہلیزِدل پہ نت نئے موسم ابھرتے ہیں
ابھی ہے دلکشی باقی ابھی ہے چاشنی باقی
وہ جیسے گرتی بوندوں کی
ہے رہتی راگنی باقی
لبِ دریا ابھی وہ چاندنی راتیں لبھاتی ہیں
پہاڑی راستوں میں آبشاریں گیت گاتی ہیں
ابھی جوبن پہ بزمِ دوستاں ہے مسکراہٹ ہے
ہنسی سرگوشیاں ہیں بولتے جذبوں کی آہٹ ہے
ابھی دامن پہ
جھلمل سے ستارے ٹانک لیتے ہیں
دریچے یاد کے ہم کھولتے ہیں جھانک لیتے ہیں
ابھی شبنم کے قطروں کی مہک کاہے فسوں باقی
ابھی سرخی شفق کی دیکھنے کا
ہے جنوں باقی
ابھی گاؤں کی پگڈنڈی پہ چلنے کی تمنا ہے
ابھی تو بھاگ کر جگنو پکڑنے کی تمنا ہے
ابھی تو ریل کی سیٹی کی باقی بازگشتیں ہیں
ابھی چھک چھک سے پٹری سے جڑی کچھ داستا نیں ہیں
غباروں نے ہواؤں میں ابھی بھرنی اڑانیں ہیں
ابھی خواہش ہے ہم دیکھیں جو برفیلی چٹانیں ہیں
ابھی تو ارغوانی بدلیاں منظر سجاتی ہیں
نئی کچھ منزلیں آواز دیتی ہیں بلاتی ہیں
ابھی پت جھڑ کے موسم میں غزل فرقت پہ لکھنی ہے
دسمبر کی کہانی بھی بڑی فرصت سے لکھنی ہے
ابھی مصرع ادھورا ہے کہر آلود خنکی پر
ابھی لکھنا ہے افسانہ…
گیت کیا سناؤں میں ،شادماں نظاروں کا
غم زدہ سے موسم میں خوش بیاں نظاروں کا
تلخ سی حقیقت میں قہقہوں کے افسانے
کھوکھلی سی جدت میں لذتوں کے دیوانے
روشنی کی قیمت میں جل رہے ہیں پروانے
ماجرا تو ایسا ہے بس ٹھہر کے دیکھو تو
واسطہ تو ایسا ہے آنکھ بھر کے دیکھو
٭
عجیب ہیں یہ معرکے یہ روزوشب کے حادثے
قدم قدم ہیں دور تک شقاوتوں کے سلسلے
یہ روگ نارسائی کا یہ سوگ کج ادائی کا
نہیں رہا ہےدسترس میں مول ناروائی کا
نظر نظر میں روگ ہے نفس نفس میں یاس ہے
تو منظروں میں سوگ ہے یا خوف ہے ہراس ہے
تھما تھما رکا ہؤا،ڈرا ہؤا ہے ہرکوئی
عجیب کشمکش میں جیسے ڈولتا ہے ہرکوئی
یقیں بھی پاش پاش ہے،گماں فقط نراش ہے
سکوت بھی ہے چیختا،پکار میں بھی یاس ہے
عجب طرح کی وحشتوں میں گھر چکا معاش ہے
یہ قلتیں عجیب ہیں ہراک کا جو نصیب ہیں
کہ رابطوں کے شور میں نہ رابطے قریب ہیں
نہ فاصلوں میں حوصلے،نہ حوصلوں کی پشت پہ
لگن کی کوئی آس ہےملن کی کوئی پیاس ہے
کہ مرگِ جذب وچاہ میں ہے زندگی بکھر گئی
ٹٹولتا ہے ہرکوئی کہ روشنی کدھر گئی
نظرمیں دور دورتک نہیں بہارِ شادماں
بچانہیں ہےآنکھ میں کوئی بھی خوابِ خوش بیاں
نگر سبھی جھلس گئے ہیں حسرتوں کی آگ میں
ڈگر سبھی جھلس گئے ہیں قلتوں کی…
ان کی آہ و بکامیں ان راستوں کی تلاش تھی جوان کے گھروں کوجاتے تھے …. ایک انوکھے تجربے کا احوال
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمن ایڈ ٹرسٹ کا ایک گروپ قیدی خواتین کے مسائل حل کے لیے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ جو خواتین کسی بھی وجہ سے جیلوںمیں قید تھیں اور ان کے پیچھے کوئی پر سانِ حال نہیں تھا اور نہ ہی ان کو دیکھنے والا تھا، دوران قید فی سبیل اللہ ان کی مدد کی جا رہی تھی ۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت قانونی مشورے اور وکیل کی خدمات (WAT)کی طرف سے سبھی ان کو مفت فراہم کیا جا رہا تھا ۔ قید سے رہائی کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے جا تے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وسائل اور رہنمائی بھی دی جاتی۔
خواتین کا ایک گروپ ہر ہفتے یا پندرہ دن کے بعد جیل جا کر خواتین کا میڈیکل چیک اپ کرتا ۔ ان کے ساتھ ایک لیڈی ڈاکٹر یا ہیلتھ وزیٹر ہوتیں جو ان خواتین کا بلڈ پریشر چیک کرتیں ان کا مکمل طبی معائنہ ہوتا اور روز مرہ کے معمولی بخار ،…
صبا اپنی سوچوں میں گم تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ پڑوس کے گھر سے نیرہ نور کی مترنم آواز آ رہی تھی۔
ہمیں ماتھے پر بوسہ دو
کہ ہم کوتتلیوں کے، جگنوئوں کےدیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
کبھی ہم خوبصورت تھے
صبا تصور میں اس منے سے خوبصورت بچے کو دیکھ رہی تھی جو پھولوں کے ، تتلیوں کے ، جگنوئوں کے دیس میں رہتا تھا ۔ وہ اور اس کی چھوٹی بہن سارا دن اپنی جنت میں دوڑتے بھاگتے کبھی تتلیوں کے پیچھے ، کبھی جگنوئوں کوامی کے نیٹ کے دوپٹے میں قید کرنے ، دوپٹے میں جگمگ کرتا جگنو ، بہت خوبصورت لگتا ۔
وہ بچہ احمد اور اس کی بہن صبا ایبٹ آباد میںپہاڑوں سے گھری ہوئی ایک چھائونی میں اپنے امی ابو اور بڑے بھائی کے ساتھ رہتے تھے ۔ اس وادی میں سبزے کی ، پھولوں کی اورپھلدار درختوںکی بہتات تھی ۔ انگریزوں کے زمانے کی بنی ہوئی لکڑی کی بیرک نماHuts تھیں جن کی ڈھلواں چھتیں جن کی ڈھلواں چھتیں سرخ،سفیداورگلابی گلاب کی بیلوں سے ڈھکی ہوئی بہت خوبصورت منظر پیش کرتیں ۔ باغیچوں میں رنگا رنگ پھول خوبانی ، لوکاٹ اور آلوبخاروں کےدرخت ہوتے ۔ ان…
ترتیب کا اس کی زندگی میں بڑا عمل دخل تھا۔ صبح کتنے بجے اٹھنا ہے اور کتنے بجے سونا ہے سب طے شدہ تھا۔گھرشخصیت کاآئینہ ہوتا ہے ۔بکھری ہوئی یا لاابالی شخصیت کا گھر بھی بکھرا ہؤا بے تر تیب ہؤاکرتاہے اور رباب کاگھر اس کی شخصیت کی طرح مکمل اور باترتیب تھا۔
لیکن یہ ترتیب دا نیا ل کے آنے تک تھی ۔وہ جب بھی ان کے گھر آتا ہر چیز تہس نہس کر دیتااور رباب اس کےپیچھے پیچھے گھومتی رہتی۔ جہاں چادر پہ کوئی شکن پڑی اور وہیں رباب نے کھینچ کر اسے شکنوں سے پاک کیا ۔دانیال جانتا تھارباب کی کمزوری، اسی لیے اسے چڑانے کو مزید پھیلاوا کرتا اور رباب کے غضب کا نشانہ بنتا۔
’’خالہ ! آپ کے گھر مہمانوں کی خاطر تواضع کا رواج نہیں ہے کیا‘‘۔دانیال کچھ دیر پہلے ہی وارد ہؤا تھا اور اب صوفہ پہ نیم درازتھا اس کے پاؤں میز پر تھے۔ شکر ہے جوتے اس نے کمرے سے باہر ہی اتار دیےتھے۔
’’ بدتمیز مہمانوں کی تواضع کا واقعی رواج نہیں ہے ہمارے گھر‘‘۔ رباب نے جلے کٹے انداز میں کہا ۔
’’ جاؤ بیٹا چائے لے کر آؤ‘‘۔ فاطمہ خالہ کو اپنا یہ بھانجا بڑا عزیز تھا۔ انہوں نے دل ہی دل…
’’یہ گڑیا اتنی پیاری ہے…. اس کے کپڑے کتنے اچھے ہیں‘‘….نورین نے حسرت سے لائبہ کے ہاتھ میں پکڑی گڑیا کو دیکھ کر کہا۔
’’ ہاں یہ مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہے ۔ یہ میرے بابا نے مجھے پاس ہونے کی خوشی میں گفٹ دیا تھا‘‘ ۔ لائبہ نے فخریہ لہجے میں کہا ۔
’’ تمھارے بابا نے بہت اچھا گفٹ دیا تمہیں!‘‘نورین کی نظریں گڑیا پر ہی جمی تھیں۔
’’چلو لائبہ چلیں ! بہت دیر ہو گئی ہے ۔ بہت کھیل لیا‘‘ ۔
دانیہ اپنی پانچ سالہ بیٹی کو پارک میں کھیلنے لائی تھی۔ یہیں اس کی دوستی اپنی ہم عمر نورین سے ہوئی جوکہ بہت معصوم اور پیاری بچی تھی ۔
’’مما ! نورین کے پاس گڑیا نہیں ہے میں اسے یہ گڑیا دے دوں؟ ‘‘لائبہ نے اپنی والدہ سے اجازت چاہی ۔
’’ ہاں دے دو آپ کے پاس اور بھی ہیں‘‘ ۔
لائبہ نے خوشی خوشی وہ گڑیا نورین کو دے د ی۔ نورین کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔’’ نورین آپ کہاں رہتی ہو ؟‘‘
’’یہیں قریب ہی میں‘‘….نورین ابھی تک گڑیا کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی جیسے اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آرہا ہو کہ یہ گڑیا اس کی بھی ہوسکتی ہے۔
’’ اچھا کبھی آپ کی امی…
’’امامن بوا شام کے جھٹپٹے میں کیسے نکل آئیں ‘‘۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر بیگم ڈیوڑھی کی بتی جلانے باہرآئیں تو پوٹلی سنبھالے بوا کو بیٹھا دیکھ کر حیران ہوگئیں۔
’’ارے بیوی صبح کس نے دیکھی ہے،ہم توزندگی کی شام گزار آئے۔اللہ تمہیں نئ صبحیں مبارک کرے۔ سنا ہے پاکستان جانے کا قصد کرلیا ہے‘‘ بوا جذبات سے لبریز ہوکر بولیں ۔
’’ہاں بوا کتنی جانگسل جدوجہد کے بعد ہمیں الحمدللہ اپنا وطن ملا ہے‘‘۔ بے ساختہ بیگم کے لہجے میں جوش سا نمایاں ہؤا، وہ امامن بوا کے قریب بیٹھ گئیں۔’’ مگرپاکستان بننے کی خبر کے ساتھ ہی فسادات کی آگ بھڑک گئی ہے‘‘۔
’’اب امن صرف اپنے وطن کی فضا میں ملے گا۔ تم بھی چلو ہمارے ساتھ ایک اکیلی جان ہو‘‘ بیگم نے بوا کو سمجھایا۔
’’اپنے پیاروں کی قبریں چھوڑ کر کیسے جائوں بی بی !‘‘ بوڑھے چہرے کی شکنوں میں چند آنسوخاموشی سے نکل کر کھو سے گئے ’’ہاں اپنی امانت حضرت جی کو دینے آئی ہوں ‘‘۔
امامن نے سینے سے لگی پوٹلی , ان کے سامنے کھول دی , حضرت جی مسجد سے آکر وہیں بیٹھ گئے تھے، بچےبھی اردگرد کھڑے ,سب حیران نظروں سے کھلے سامان کو دیکھ رہے تھے۔ ماں کی یادگار چاندی کی بالیاں…
رسولؐ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخر ت پر ایمان رکھتا ہؤا اسے اپنے مہمان کا احترام کرنا چاہیے ایک دن رات تو عمدہ اور بہتر کھانے سے اس کی خاطر داری کرنی چاہیے ، مہمان تین دن تک ہے اس کے بعد بھی اگر مہمان کھانا کھتا رہے تو وہ میزبان کی طرف سے صدقہ خیرات ہے مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنےمیزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے ۔(بخاری)
مہمان کا احترام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ میزبان ،
ث خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔
ث جہاں تک ہو سکے اسے راحت اور سکون دینے کی کوشش کرے۔
ث اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔
ثاس کی دلآزاری اور تحقیر سے پرہیز کرے۔
پہلے دن تو میزبان کو اپنی استطاعت کے مطابق نہایت عمدہ اور پر تکلف کھانے سے اپنے مہمان کی تواضع کرنی چاہیے دوسرے اور تیسرے دن اسےوہ کھانا کھلائے جوگھرمیں تیارہوتا ہے ۔ جوشخص تین دن تک کسی کے یہاں ٹھہرتا ہے اور اس کے گھر سے کھانا کھاتا ہے وہ اس کا مہمان ہے اور اپنے میزبان سے دعوت کھاتا ہے ۔
رہا وہ شخص جو تین دن کے بعد بھی اپنے میزبان کے پاس رہتا ہے…
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح کی سب سے زیادہ امید اس قوم سے کی جا سکتی ہے ، جو حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد میں سب سے پہلے وحی الٰہی کی امانت دار بنی، اسی لیے قرآن نے ان سے کہا : وَلَا تَکُوْ نُوْ ا اَوّلَ کَافِرِ بِہٖ( البقرہ /۴۱)اور سب سے پہلے تم ہی پیغام ِ الٰہی کے منکرنہ بنو ، مگر یہ قوم سخت جان ہونے کے ساتھ ساتھ سخت دل بھی ثابت ہوئی ۔ اس نے مختلف زمانوں میں اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، انہیں تکلیفیںدیں ، بلکہ قتل تک کر ڈالا، حضرت موسیٰ ؑاور ان کے بعد کوئی پیغمبر ایسانہ ہوگا ، جس نے ان کی سنگ دلی کا ماتم نہ کیا ہو اور ان کی سر کشی پر ان کے حق میں بد دعا نہ کی ہو ۔ ان کی سر کشی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے انبیاء کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔قرآن کریم کا بیان ہے :
’’ اور وہ نا حق پیغمبروں کو قتل کر تے ہیں ، اس لیے کہ وہ نا فرمان اور حد سے بڑھنے والے ہیں‘‘ ۔(البقرہ۶۱)
’’ سورہ آل عمران ‘‘ میں اس سے بھی بڑھ کر…
اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں
جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں
تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں
وہ پہلے پہل کرےگاکہ پہلے بولوں میں
کسی کے دل کو کوئی ٹھیس کیسے پہنچے گی
ہر ایک بات جو کہنے سے پہلے تولوں میں
اک اور رنگ کی دنیا ہو سامنے، آنکھیں
جو بند کرکے کبھی دل کی آنکھیں کھولوں میں
سبب ہے کیا سبھی مجھ سے کھچے کھچے کیوں ہیں
کبھی اکیلے میں خود کو ذرا ٹٹولوں میں
نہ کٹ سکیں گے اکیلے یہ عمر کے رستے
نہ دے جو ساتھ کوئی، ساتھ اپنے ہولوں میں
میں جھوٹ، جھوٹ کو اور سچ کو سچ ہی کہہ کہہ کر
کیوں زندگی کے فسانے میں زہر گھولوں میں
جہاں بھی سچ پہ زبانوں کو کاٹا جاتا ہو
وہیں تو فرض ہے مجھ پر کہ سچ ہی بولوں میں
جو اہلِ بیت سے نسبت اگر نہ ہو مجھ کو
تو شہرِ علم کا دروازہ کیسے کھولوں میں
جو شب گزار کے لوٹا ہو، گھر کا دروازہ
تو ایسے صبح کے بھولے پہ کیسے کھولوں میں
کبھی لگے نہ زمانے کی بد نظر، سر سے
حبیب بڑھ کے تمہارے بلائیں تو لوں میں
درد کی رفاقت میں بے طرح کی شدت ہے
بے کسی کے ہاتھوں میں چیختی ہے تنہائی
منتظر زمانوں میں مضطرب فسانوں میں
وحشتوں کے پہرے ہیں اور بہت ہی گہرے ہیں
جسم وجاں بھی گھائل ہیں،یاسیت پہ مائل ہیں
دل کشی کے منظر بھی ہرقدم پہ زائل ہیں
بے حسی کے نرغے میں بے بسی کے قبضے میں
یہ خیال چبھتاہے ،اک سوال اٹھتا ہے
دکھ کو سکھ میں آنے تک،زہرکتنا پینا ہے
کتنا جی کے مرنا ہے کتنا کرکے جینا ہے
بے کراں سے جنگل کے اک سفر کے سنگم پہ
دہشتوں کے سناٹے راستوں میں حائل ہیں
کیسی نارسائی ہے ،قید یا رہائی ہے
قسمتوں کے پھیرے میں کیسی کج ادائی ہے
اس عذابِ پیہم سےمل سکے گا کیوں کر پھر
راستہ خلاصی کا
منصفی کے چرچے میں واسطہ ثلاثی کا
غفلتوں کی شدت جب جرم بن کے چھاجائے
دہشتوں کی جدت جب ظلم بن کے آ جائے
بےحسی وقلّت سے کیسے ہو مسیحائی
وقت کتنا گزرا ہے ،اور کتنا گزرے گا
قید سے نکلنے میں ،بیڑیوں کے کٹنے میں
بےحسی کے مٹنے میں ،بےبسی کے کٹنے میں
صبغہ اکلوتی بیٹی ،نہ بہت ذہین فطین کہ اس کے فرمودات سوشل میڈیا کی ہر دو منٹ کے بعد زینت بنیں، نہ ہی اتنی بے وقوف کہ روٹی کو چوچی کہے!
اسی طرح پڑھنے میں بھی درمیانی ،نہ کتابی کیڑا نہ رٹو طوطا۔
کم عمری میں شادی ہوئی، پڑھائی کے دوران نکاح ہؤا اور چار چھ ماہ کے بعد پڑھائی کے دوران ہی شادی ہوگئی ۔صبغہ اشرف ،پہلوٹھی کی اولاد ابھی تو ماں باپ کے چائو لاڈ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ میاں کو پیاری ہوگئی۔عمر اتنی کم تھی کہ ابھی دنیا کے بارے معلوم تھا نہ دنیا والوں کے۔ایک مرتبہ دور پار کی چچی زلیخا ملنے کے لیے آئیں تو لمبے سفر کی تھکاوٹ سے انہیں بخار سا محسوس ہؤا اور سارا جسم درد کرنے لگا ۔
امی نے صبغہ سے کہا ’’میری میز کی دراز سے پیناڈول اور فریج سے پانی کی بوتل لے آئو‘‘۔
چند لمحوں کے بعد صبغہ بی بی تشریف لائیں تو پلیٹ میں پانی کا گلاس اور چمچ کے ساتھ چھوٹے بھائی بہزاد کو دیا جانے والا سیرپ پیناڈول رکھا ہؤا تھا!
امی تو بیٹی کی حرکت پر خود ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی رہیں لیکن چچی زلیخا بہت حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں…
’’ٹین ڈبے والا، بھوسی ٹکڑے والا، ردی والا، کباڑ والا‘‘۔
جون کے وسط کا سورج سوا نیزے پہ نہ تھا مگر اس کی تپتی شعاعیں کسی انی کی طرح جسم کے آر پار ہورہی تھیں۔ کنپٹی سے رستا پسینہ اور تر بتر گریبان اس کی مشقت کے گواہ تھے۔ وہ خستہ حال ہوائی چپل اور ابا کے بوسیدہ، پیوند زدہ کتھئی شلوار قمیض میں ملبوس اس پوش علاقے میں صبح سے اپنا ٹھیلا گھسیٹتا چلا جارہا تھا۔ ان علاقوں میں اس کے دوچار اچھے گاہک لگ جاتے تو اس کا کافی فائدہ ہوجاتا ورنہ گلی محلوں میں تو چند لوگ فقط بھوسی ٹکڑے ہی بیچنے آتے کہ زیادہ کوئی کباڑ ان کے گھروں سے نہ نکلتا یا شاید دل سے ہی نہ اترتا تھا۔ تمام بیکار چیزوں کو یہ سوچ کے سنبھال لیتے کہ شاید کبھی نہ کبھی کام آجائے۔ پھپھوند زدہ روٹی بیچتے بھی یوں دام طے کرنے میں چک چک کرتے گویا کوئی خزانہ ہو۔ روٹی کے انمول ہونے میں اسے کوئی شک نہیں تھا۔ وہ روٹی کی قیمت سمجھتا تھا۔ یہ روٹی ہی تو تھی جو سترہ سال کے فیقے کو یوں در بدر پھراتی تھی۔
ہسپتال کے پرچے میں جانے ماں نے اس کا نام توفیق لکھوایا تھا…
گئے وقت کے کسی لمحے میں فلک سے دو قطرے زمین پر برسے اور صدیوں سے سوئے ہوئے براعظم جاگ اٹھے۔ مگر یہ دونوں قطرے مختلف سمت میں ایک دوسرے سے کئی میلوں دور گرے۔ اور ایک دوسرے کو پانے کی کھوج میں نکل پڑے۔ یعنی وجود کی زندگی ایک تلاش ہے۔ مزار کی سیڑھیوں سے اتر کر کچھ فاصلے پر نظر آنے والی ساحلی پٹی کی طرف جاتے ہوئے میرا ذہن کا ئنات کے اسرار ورموز جاننے کی سوچوں میں مگن تھا۔ رات گہری ہو رہی تھی۔ ساحل پر سیر کو آئے لوگ گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ سمندر سے لہروں کا شور بدستور اٹھ رہا تھا۔ دن بھر کی دھوپ سہنے اور تھکاوٹ کے باوجو دافق پر چمکتے ہوئے چاند نے ان کا سکوت چھین لیا تھا۔ بھنور سے لے کر ساحل اور دوبارہساحل سے لے کر گرداب تک ان لہروں کا سفر بھی کسی کی تلاش میں ہی ہوتا ہوگا۔
’’تلاش کا سفر بہت لمبا اور کٹھن ہے مگر پھر بھی یہ طے ہو ہی جاتا ہے۔ مگر کیسے؟ وہ کونسی چیز ہے جو انسان کو راستے کے پتھروں سے ٹکرا کر گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے؟ کچھ تو ہے ‘‘۔ ساحل کنارے چلتے ہوئے…
علیزے کی چلبلاہت پورے خاندان میں مشہور تھی ۔ شوخ چنچل ہنسنے مسکرانے والی بات بات پر چٹکلے چھوڑتی ساری سہیلیاں اور چچا زاد خالہ زاد اس پر فدا اور وہ ان پر فدا ۔ جس محفل میں ہوتی باتوں کی آوازیں اور ہنسی بتادیتی کہ علیزے یہاںموجود ہے۔
کالج میں بھی سب کی سہیلی تھی اساتذہ کو بھی اس کا نام اور کام خوب پتہ تھے ۔ چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے سب کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ۔ ابھی انٹر کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ اسے کھونٹے سے باندھنے کا بندو بست ہو گیا ، لڑکے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ پڑھا لکھا اور بھاری تنخواہ والا تھا ۔ دوسری دو بڑی خوبیاں علاوہ تھیں کہ مناسب عمر اور اکیلا … والدین دور… سب کی نظر میں تو جیسے علیزے کی لاٹری نکل آئی۔
جھٹ پٹ رشتہ طے ہؤا ۔ والدین رخصتی کے لیے مقررہ تاریخ سے پہلے آگئے ۔ تصویر دیکھ کر پہلے ہی خوشی سے حامی بھر لی تھی ۔ سارے خاندان والے علیزے کی قسمت کے گن گا رہے تھے ۔ رخصتی کی تاریخ اتنی جلدی آگئی یہ کوئی علیزے سے پوچھے ۔ یونیورسٹی جانے کا خواب لیے علیزے پیا دیس سدھار…
وہ کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ تھا۔
چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل درمیانے طبقے کی آبادی تھی۔ انہیں میں سے ایک گھرانہ فوزیہ کا تھا۔
’’چلو آ جائو، جلدی سے سب لوگ ناشتہ کر لو۔ پھر کہیں گے چائے ٹھنڈی ہو گئی‘‘فوزیہ کی اماں نے روز کی طرح صدا لگائی۔
یہ ناشتہ صرف دو چیزوں پر مشتمل ہوتا۔ کبھی کبھار اگر رات کا سالن بچا ہؤا ہو تو اور بات ہوتی۔ ورنہ پتیلی بھر چائے میں اماں ایک پاؤ دودھ ڈال کر ابال دیتیں جو دوسری مرتبہ گرم ہو جائے تو مزید گہرے رنگ کی ہو جاتی۔ اس کے ساتھ اماں کے ہاتھ کے پراٹھے۔ ہاں پراٹھوں پر اماں کبھی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ پیٹ بھر کھا کر ہی گھر سے باہر نکلنا چاہیے، تبھی بندہ دن بھر توانا رہتا ہے۔ وہ گرما گرم سرخ اور خستہ پراٹھے بناتیں جن کو چائے سے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ایسے میں اس پتلی اور گہرے رنگ والی چائے کی کلفت بھی دور ہو جاتی۔
فوزیہ کے ابو کسی سبزی والے آڑھتی کے پاس نوکر تھے۔ اس لیے انہیں صبح تڑکے ہی سبزی منڈی جانا پڑتا۔ اور جب شام میں واپسی ہوتی تو کوئی سبزی ساتھ…
نقاہت زدہ وجود میں تھوڑی سی حرارت وقوت محسوس ہونے پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ممی ابھی لیٹی رہیں‘‘، لائبہ نے گرم سوپ کا آخری چمچہ ان کے منہ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’الحمدللہ اب تو طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی ہے بیٹا‘‘، نازیہ نے کہا۔
’’اللّہ کا شکر احسان ہے۔ میرا خیال ہے آپ تھوڑی دیر سو جائیں، پھر عصر تک اٹھ جائیے گا‘‘،لائبہ ان کا کمبل درست کرتے ہوئے بولی’’میں بھی اتنی دیر اپنا اسائنمنٹ پورا کر لوں‘‘لائبہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو نازیہ نے مسکرا کر جیسے اسے اجازت دی۔
ایک ہفتے کی علالت کے بعد وہ رات کو ہی ہسپتال سے گھر آئی تھیں لیکن شدید کمزوری نے انہیں اٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور کیا ہؤا تھا۔ اس عرصے میں لائبہ نے جس جانفشانی سے دن رات ان کی خدمت کی تھی، وہ اس کی احسان مند تھیں۔ ان کے کھلانے ، پلانے، دوائی اور دوسری ضروریات کا لائبہ نے ہی خیال کیا تھا تب جا کے ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا تھا۔
لیٹے لیٹے نازیہ کچھ اکتا سی گئی تھیں، انھوں نے اپنے کمزور و ناتواں جسم کو کھینچتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کی۔ دکھتی کمر کو بستر کا سہارا دیتے ہوئے انہوں نے اپنا…
جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا تھا۔اس نے بے ہوشی سے پہلے کا منظر یاد کرنے کی کوشش کی۔اچانک ہلکی ہلکی تلاوت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو غورکرنے پر اسے اپنے بالکل نیچے کی طرف سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ کیا ہم شہید ہو کر اجتماعی قبر میں ہیں؟‘‘
’’ شہید بے شک زندہ ہوتے ہیں لیکن ابھی ہمارے حصے کا کچھ کام باقی ہے‘‘۔
حمدان کی آواز نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا، کیسے وہ ہاسپٹل میں لائے جانے والے مریضوں اور زخمی بچوں کی وڈیوز بنا رہا تھا کہ اسی دوران قریب ہی ہونے والےدھماکے کے بعد ہونے والی افرا تفری میں حمدان اور وہ تیزی کے ساتھ بھاگنے لگے،عمارتیں گرتی جارہی تھیں۔ جانے کب ڈھیتی ہوئی چھتوں سے بچتے بچاتے،بھاگتے آخر وہ بھی زد میں آ ہی گئےاور انہوں نے اپنے ہوش گنوا دیے۔
’’حمدان….حمدان…. تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں شاید….ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا‘‘۔
اوہ میرا کیمرہ ۔
اس نے جلدی سے اپنی کمر اور کندھے کے گرد بیلٹ کو ٹٹولا اور الحمدللہ کہہ کر بڑی کوشش کے بعد خود کو سیدھا کیا۔ جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کرتے ہی اسے ارد گرد کا منظر واضح نظر آنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ملبے کا…
وہ پراٹھے بناتے تھے ، گول گول لچھے دار پراٹھے ، ان کی خوشبو ہی دور سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔ وہ اپنے کام میں بہت ماہر تھے ایسی پھرتی سے ان کے ہاتھ چلتے کہ دیکھنے والا پلک جھپکنا بھول جاتا ۔بڑے سے توے پر گھی ڈال کر وہ ایک کے بعد ایک بل دار پیڑے کو بیل کر اس پر ڈالتے جاتے اور مشینی انداز میں ان کو سینکتے اور پلٹتے اور بڑی مہارت سے کاغذ پر ڈال کر گاہک کے ہاتھ میں پکڑا دیتے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں ایک درد کا جہاں نظر آتا تھا ۔کبھی انھیں نماز چھوڑتے نہ دیکھا تھا۔
’’ سنا ہے آپ کا بیٹا باہر ملک جا رہا ہے روزی روٹی کی خاطر“۔
آج انھوں نے پراٹھے بناتے ہوئے ہاتھوں کو باقاعدہ روک کر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
”جی ہاں بابو بھائی، رکھا کیا ہے اس ملک میں جی …نہ نوکری نہ تعلیم ڈھنگ کی، آخر بہترین مستقبل کے لیے بیرون ملک تو جانا ہی پڑے گا ، بڑی مشکل سے میں نے پائی پائی جمع کی ہے اپنا آبائی گھر بیچ کر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو گیا ہوں کہ بس اس کا مستقبل سنور جائے“…
جیل آفیسر کی زبانی
جیل آفیسر شمیم چیمہ نے کہانی شروع کی ۔
ضلع چکوال کے نواح میں گھومتی ، پہاڑیوںکے درمیان واقع گھنے جنگل سے گھرا ہؤا کاشانہ فصیح اس کے مکینوں کے دولت اور امارت کامنہ بولتا ثبوت تھا ۔ یہ ایک عظیم الشان پرانا گھر تھا جس میںبلوط اور شیشم کے بلند و بالا دروازے سپین کی طرز کی بنی ہوئی محرابوںوالی شیشے کی کھڑکیاں اس کی شان و شوکت میں اضافہ کر رہی تھیں ۔ اس گھر کی دیواروں پر لگے ہوئے آبائو اجداد کے کرخت چہروںوالے بڑے بڑے پورٹریٹ اس گھر سے جڑی تاریخ کی عکاسی کر رہے تھے جس میں وہاں کے مکینوںکی وضع داری ، روایت پسندی، جدت طرازی اورکہیںکہیں رحم دلی کی داستان رقم تھی ۔ بیرون ملک سے لائے گئے انواع و اقسام کے نوادرات اس گھر کی سطوت کو بڑھا رہے تھے ۔شاہ بلوط اور صندل کی لکڑی کے بھاری سامان ، قدیم طرز کی پوشش اورپرانی یادوںکی دیر پا خوشبو کاشانہ فصیح کے اندر کے ماحول کو خوشگوار بنا دیا تھا ۔
جب اس گھر کی اکلوتی بیٹی شانزے کے اٹھلاتےہوئے قدم گھر کی راہداریوں میں چلتے پھرتے ،اوراس کے گونجتے ہوئے قہقہے زندگی کا احساس دلاتے تو اس گھر کی رونق…
گھر میں عجیب سی بے چینی پھیلی ہوئی تھی سب اپنی اپنی جگہ پریشان اور سوچوںمیں گُم تھے ، ’’ بھلا ڈاکٹر نے یہ کیوںکہا ؟‘‘
’’ یہ کینسر کے مریضوںوالا انجکشن ہم کیوںلگوائیں ؟‘‘
’’ نمرہ کوکینسر تو نہیں‘‘۔
’’ اس سے زیادہ نقصان ہو گیا تو…‘‘
’’ کسی اورسے مشورہ کر لینا چاہیے….‘‘
’’فلاں کہہ رہی تھی….‘‘
’’فلاں کےساتھ یہ ہؤا ….‘‘
’’ ڈاکٹر تو یونہی ڈرا کررکھ دیتے ہیں‘‘
’’ اللہ خیر کرے گا ‘‘
اسی شش و پنج میں مزید کچھ دن گزرگئے اور پھر وہی ہؤا جس کا ڈر تھا ۔ اور وہ نمرہ کو ہسپتال لے کر بھاگے۔
کچھ روزقبل کی بات تھی۔
’’ بھابھی لگتا ہے دوبارہ good newsہے‘‘ فرح نے نمرہ کی اُتری ہوئی صورت اورکھانے سے عدم دلچسپی سے نتیجہ اخذ کیا ۔
نمرہ مسکرادی’’ صحیح کہہ رہی ہو، کل ہی ٹیسٹ کیا ہے ، پازیٹو (مثبت) ہے ‘‘ اس نے دیورانی کے شک کی تصدیق کی ۔
’’ ڈاکٹر کے پاس کب جانا ہے ؟‘‘
’’ اب اتنی تو تجربہ کار ہو گئی ہوں، خود ہی فولک ایسڈ یک گولی کھانا شروع کردی ہےاگلے ماہ ہی چیک کرائوں گی ‘‘ نمرہ مسکرائی۔
’’ شکر ہے آپ کے تینوںبچوں کی بار کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی ۔ اللہ اب بھی کرم کرے گا ۔میرےلیے بھی دعاکیجیے گا…
پچھے چھ ماہ میں میں نے خود انحصاری کا نیا مفہوم جانا ۔ اس کے فائدوں سے میں نے لطف اٹھایا۔
ہمیشہ یونہی ہوتا رہا ہے کہ صبح ہوئی تو ماسی کا انتظار شروع کردیا ۔ ماسی دیر سے آئی توصبر کا پیمانہ لبریز ۔ پہلے اپنی توانائی اس کو صلواتیں سنانے پر خرچ کی، لہجہ تندوتیز ہو تو ذہن الگ مائوف ہوجاتا ہے ۔ ان بے چاری ماسیوں کے دسیوں گھر اور ہر ’’ باجی‘‘ کا الگ الگ مزاج ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم مطلوبہ معاوضہ دیتے ہیں لہٰذا ہماری خدمت پوری ہونی چاہیے ۔
ہم میں کون ایسا ہے جو اپنی کام والی کی کار کردگی سے مطمئن ہو؟ دل عجیب مضطرب سا رہتا ہے کہ کاش اس سے اچھی کام والی مل سکتی۔
یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ آدھے دن گھر پھیلا ہؤا بے ترتیب پڑا رہا تب ماسی دوپہرڈھلے ماتھے پردوپٹہ باندھے ’’ پینا ڈول‘‘ طلب کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی ۔ ادھر ہانڈی چڑھانا دوبھر کہ اتنے پھیلے بے ترتیب کچن میں یہ کیسے ممکن ہو !
اس بے کسی و محتاجی میں ایک عمرگزری ۔ دن کا سب سے بہترین وقت تا عمر ماسیوں کی صحبت میں گزرتا رہا ۔ یہ حقیقت ہے کہ…
نام کتاب:قیادت کا سفر
مرتّبہ:روبینہ فرید
صفحات :216، قیمت:۱۰۰۰روپے
شائع کردہ:تدوینِ تاریخ کمیٹی،حلقہ خواتین،جماعت اسلامی پاکستان
ملنے کا پتہ:الفلاح مرکز کراچی،مرکز خواتین منصورہ لاہور
دورِ حاضر میں یہ تصور کہ اسلام بطور دین زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور دینِ حق کے طور پہ انسانیت کے دکھوں کا ازالہ کرنے، دنیا کو حق و انصاف پر قائم رکھنے کے لیے بطور نظام اس کا غلبہ ناگزیر ہے، اسلامی تحریکوں کی بنیاد ہے۔ یہ تحریکیں اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے جغرافیائی، تمدنی،اور سیاسی حالات کے مطابق اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ جدوجہدایک طرف ذاتی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے، تزکیہِ نفس اور کردار سازی پر مشتمل ہے تو دوسری طرف اجتماعی نظام کو خدائی احکام کے تابع لانے کی کوششیں بھی اس کے دائرے میں شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس تصور کی فکری بنیاد سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے فراہم کی جنہیں بیسویں صدی کا مجدد دین کہا جاتا ہے۔
مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کا حلقہ خواتین منظم کرنے کی طرف بھی توجہ کی ۔ بیگم محمودہ مودودی، حمیدہ بیگم، ام زبیر اور نیر بانو وہ ابتدائی خواتین تھیں جنہوں نے اقامتِ دین کے…
حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ یہاں آتے ہی لوگ ان کا شین قاف درست کروانے میں جت گئے۔ متاثرین میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔
سکول میں ہماری بلند خوانی پر دبی دبی ہنسی سنائی دیتی تھی اور ہماری چھوٹی بہن سے تو سہیلیاں فرمائش کرتیں کہ بولو’’قرطبہ کا قاضی‘‘ اور وہ جھوم کے کہتی’’خرطبہ کا خاضی‘‘ تو سب کے کھلکھلا نے کی وجہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن چونکہ بچپن سے بغیر کسی وجہ کے خوش رہنے کی عادت ہے تو وجہ تلاش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری ایک دوست کہتی بولو’’کائد اعظم‘‘، دو نکتوں والی بڑی کاف سے ’’کائد اعظم‘‘ اور ہم کہتے کیوں؟ جب ہمیں پتہ ہے کہ خائد اعظم ہوتا ہے تو کیوں کائد اعظم بولیں. وہ جھلا کے کہتی نہیں کائد اعظم …. کائد اعظم…. مگر جناب ہمیں اپنے حق پر ہونے کا اتنا یقین تھا کہ ہم بڑی خوداعتمادی سے کہتے خائد اعظم…. خائد اعظم! اور دل ہی دل میں ان معصوموں کی حالت پر ترس کھا رہے ہوتے تھے کہ ان لوگوں کو کتنی شرمندگی ہوگی جب صحیح تلفظ…
اس دلہن کا جب سرخی پاؤڈر اترتا ہے، تو بس پھر یا تو قسمت پر رشک آتا ہے یا قسمت پھوٹ جانے پر
رونا …. اور ہم کرائے داروں کو تو اکثر رونا ہی نصیب ہوتا ہے….ایک ستم ظریف تحریر
انسان کہیں بھی ہو مگر موت کی تلوارہمیشہ اس کے سر پر منڈلاتی رہتی ہے ۔ بالکل اسی طرح کسی کرایہ دار کے سر پر بھی ایک دو دھاری تلوار منڈلاتی رہتی ہے، اور وہ ہے گھر خالی کرنے یا کرایہ بڑھانے کی تلوار۔ لہٰذا ایک کرایہ دار کی حیثیت سے آج مالک مکان نے ہم پر بھی اس تلوار سے وار کیا ،بولا یا تو کرایہ بڑھا دو ،یا اگر اسی کرائے پر رہنا ہے تو اسی بلڈنگ کے نئے فلیٹ میں شفٹ ہو جاؤ جوکہ سائز میں اس فلیٹ سے آدھا ہے پر نیا ہے، یا فلیٹ خالی کر دو۔
ہمارے مقدر میں تیسری آپشن کا قرعہ نکلا۔ پہلی آپشن پر عمل ناممکن تھا۔ دوسری آپشن میں مسئلہ یہ تھا کہ اس نئے فلیٹ میں سامان پورا نہیں آئے گا۔ ہمارا سامان اتنا زیادہ ہے کہ کچھ نہ پوچھیں، بس ہم اور ہمارے شوق۔ ہمارے سامان کا حال یہ ہے کہ ہر گھر میں ہم ایک کمرے کو مکمل سٹور بنا…
لاہور پہنچے دوسرا دن تھاکہ حریم ادب کی نشست میں شرکت کی دعوت ملی۔ یہ بیت احسن میںہونے والی ماہانہ نشست تھی ۔ ہماری رہائش سے ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا ۔ فرزانہ چیمہ اس میںشرکت کا کراچی میںہی وعدہ لے چکی تھیں، لانے لے جانے کا وعدہ بھی کر لیا تھا جو انہوں نے نبھایا۔ ان سے بہترین قلم کار کے لحاظ سے تو خوب واقفیت تھی اب دوستی بھی ہو گئی اور وہ بھی با وفا دوست ثابت ہوئیں ۔ ایک گھنٹے کا سفر کچھ عدم واقفیت اور کچھ راستے کی خرابی کے باعث ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہؤا اور ان کی پیشانی خندہ ہی رہی۔
سو کراچی سے لاہور پہنچنے کے وقت کے برابر وقت میں ہم بیت احسن پہنچ گئے۔ یہ اسلامیہ پارک میں واقع ہے گلی میں داخل ہوئے تو پہلے لال اینٹوں کے احاطے والے تاریخی گھر ’’ فصیح منزل‘‘ کو بھی دیکھا ۔ ہاں بھئی تاریخی ہی ہؤا کہ بنت الاسلام کا گھر تھا جن کی کہانیاں اور افسانے پڑھ پڑھ کر مجھ سمیت کتنی ہی نسلیں جواں ہوئیںاورلکھنے کے شوق میںبھی مبتلا ہوئیں۔
ہمیںفرزانہ باجی کی زبانی یہ سن کر بڑا مزا آیا کہ بنت الاسلام کے بھی ہماری طرح تین نام تھے ۔…
اصل رونق تو دو بوڑھے وجود تھے جن کے دم سے زندگی ہنستی تھی!
دسمبر شروع ہے۔ ہڈیوں میں گھستی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ شاعر لوگ دسمبر کو اداس کہتے ہیں ، ہم شد و مد سے اس تصور کی نفی کر دیا کرتے تھے۔ جب تک کہ امی جی (نانی امی) کا گرم نرم محبت میں پور پور بھیگا وجود دسمبر کی ایک سرد ٹھٹھرتی سہہ پہر ساکت جامد پڑا نہ دیکھا تھا۔
نجانے کس احساس کے تحت میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کا چہرہ چھو لیا ، مگر اس سے پہلے ہاتھ رگڑ کر گرم کرنا نہ بھولی ۔ اب خیال آتا ہے کہ تب یہ نہ سوچا کہ بھلا اب گرم سرد کہاں کچھ کہے گا!چھو کر دیکھ بھی لیا تو زندگی کی کوئی رمق نہ اس چہرے پر نظر آئی ،نہ ہمیں دیکھ دیکھ پیار چھلکاتی آنکھیں ہی وا ہوئیں۔ کرب سے آنکھیں میچ کر آنسوؤں کو راستہ دیتے دھیرے سے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
کبھی کبھی ہاتھ بالکل ہی خالی لوٹ آتے ہیں۔ اور ہم وقت کی تمسخر اڑاتی ہنسی سے بچنے کے لیے مٹھی زور سے بند کر کے خالی ہاتھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ گھر میں کئی تبدیلیاں ہو گئیں۔ وہ…
ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین غذا ہے ۔ لیکن جب بچہ چار سے پانچ ماہ کا ہو جاتا ہے تو صرف ماں کا دودھ اس کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا ۔ چنانچہ اس کی غذا میں دوسری چیزوں کا اضافہ کرنا پڑتا ہے ۔
بہت سی مختلف چیزیں بچے کو کھانے کے لیے دی جا سکتی ہے ۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ بچے ہر قسم کی خوراک کھائیں ۔ اکثر چیزیں موسمی ہوتی ہیں ۔ سال کے کچھ حصوں میں وہ نہ تو خریدی جا سکتی ہیں اور نہ ہی اُگائی جا سکتی ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ خوراک کی قیمتیں موسم اور اس کے ملنے اور اس کی ضرورت کے مطابق اور نیچے ہوتی رہتی ہیں یہ ضروری نہیں کہ بچے کو صرف مہنگی اورخاص خوراک ہی کھلائی جائے ۔ اگر عام اور سستی خوراک بچے کو صحیح طریقے سے کھلائی جائے تو وہ بھی اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جتنی کہ مہنگی خوراک اچھی ہوتی ہے ۔
بچے کی ٹھوس غذا کے بارے میں کچھ ضروری باتیں یہ ہیں ۔
(۱) بچے کو چھ ماہ کی عمر میں ٹھوس غذا کھلانی…
ام ریان۔لاہور
چمن بتول میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ چلنے والا ناول ’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ اپنے اختتام کو پہنچا ۔ ایک نسبتاً نئے نام والی مصنفہ کے قلم سے اتنی پختہ تحریر پر خوشگوار حیرت ہوئی ۔کہانی پر مصنفہ کی گرفت مضبوط رہی ۔ کردار نگاری اورمنظر کشی عمدہ تھی ۔ گائوں ہو یا خواتین کا ہوسٹل ، مصنفہ نے بڑی چابک دستی سے اس کا احاطہ کیا ہے۔ سکول کی ہیڈ مسٹریس کا کردار بڑا مختصر مگر دلچسپ اوربھرپور تھا ۔پون ، بی بی اور زرک کے کردار نمایاں ہیں ۔ زرک دیر سے کہانی میں شامل ہؤالیکن پوری کہانی پر چھا گیا۔کہانی میں تجسس تھا ۔ دل پون کے ساتھ ساتھ دھڑکتے رہےکہ اب کیا ہوگا ؟ چنانچہ خوشگوار انجام پر مسرت ہوئی ۔جہاں یہ بات اچھی ہے کہ مصنفہ نے لسی میں پانی ڈال ڈال کر کہانی کو اتنا نہیں بڑھایا کہ قاری بور ہوجائے ، وہیں بعض مقامات پر تشنگی کا احساس بھی ہؤا۔ گائوں ، بی بی اور خواتین ہاسٹل دو تین بھرپور قسطوں کے متقاضی تھے ۔ آخری قسط بہت خوبصورت تھی ۔ایک کامیاب ناول پر اسما اشرف بجا طورپر تحسین کی مستحق ہیں ۔ امید ہے آئندہ بھی ان…
قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے معرکے ہی دنیا کی تاریخ میں اچھا یا برا مقام بنا پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کوئی بھی قوم اپنے کردار کا تعین کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اور ان سے عقل مند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالاتِ حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ احساس زندہ رکھنا ہی امتِ مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمۂ حق سے ناآشنا ہوگئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔
ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے۔ یہ مومنوں کے دل ہی ہیں جو امتِ مسلمہ کو کہکشاں بنا دیتے ہیں۔
یہ خوبصورت احساس صدیوں کے بعد دوبارہ…
ابتدا تیرے نام سے
قارئین کرام! سلام مسنون
تسبیحِ روزوشب کے دانے شمار کرتے کرتےسال خاتمے پر آلگا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نہایت مشکل اور مایوس کن حالات سے پُرسال ثابت ہؤا ۔معاشی حالات کے اشاریے تیزی سے نیچے کی طرف گئے، مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہؤا،سیاسی حقوق پامال کیے گئے، اظہارِ رائے پر قدغنیں لگیں۔قومی خزانے کے مجرموں کو چھوٹ دی گئی۔سیاسی منظرنامے کو ایک بار پھر ازسرنوتشکیل دیا گیا۔ اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے مگر بے یقینی کی کیفیت ہے۔انتخابات ہوئے بھی تو نتائج کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں ریہرسل ہوچکی ہے۔ دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھایا،بلوچستان میں کشیدگی بڑھی۔ عمومی لحاظ سے ملک بھر میں بے چینی اور اضطراب کا ماحول ،آنے والے وقت کے لیے بے شمارخدشات پائے جاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے بہتری کی کوئی صورت پیدا ہو، آمین۔
چشم فلک نے یہ نظارہ بھی کب دیکھا تھا!
بلامبالغہ لاکھوں انسان فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ صیہونیت کامکروہ چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ خودہزاروں یہودی اسرائیل کے ظلم کے خلاف سڑکوں پہ ہیں۔مسلمانوں کے جہاد کو دہشت گردی ٹھہرا کربدنام کرنے کی کوشش اس…
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے زیادہ کوئی غیرت کھانے والا نہیں ہے اس بنا پر اُس نے فواحش (بے حیائی کی باتوں) کو حرام کیا ہے چاہے وہ کھلی ہوں یا چھپی۔ اور اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کو اپنی تعریف سب سے زیادہ پسند ہو۔ اس بنا پر اُس نے اپنی تعریف کی ہے۔‘‘(مسلم)
’’اللہ تعالیٰ کے غیرت کھانے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کو اس سے روکا ہے۔ بے حیائی کی باتوں (فواحش)کا اطلاق اگرچہ :
۱۔ زبان درازی
۲۔ طعن و تشنیع
۳۔ عریانی
۴۔ عمل قومِ لوط
۵۔ سوتیلی ماں سے نکاح
۶۔بدکاری کے جھوٹے الزام
۷۔ بخل اور کنجوسی
پر ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ تر ’’زنا‘‘ کے مفہوم میں مستعمل ہے۔ جو شخص علانیہ بدکاری کرتا ہے یا چھپ کر زنا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کو چیلنج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص ان برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے جو ’’فواحش‘‘ کی تعریف میں آتی ہیں وہ رب ذوالجلال کی غیرت کو للکارتا ہے اور اپنے آپ کو اس سزا کا مستحق بناتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایسے بے ہودہ مجرم کے لیے تیار کررکھی ہیں۔
’’بے…
غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں پر مظالم بڑھنے کی خبریں جب میڈیا پر موضوع بنتی ہیں تو نوجوان نسل کے ذہن میں سوال اٹھ سکتے ہیں کہ آخر فلسطین کا مسئلہ ہے کیا؟
فلسطین انبیا کی مقدس سرزمین ہے۔ توریت و انجیل میں جس نبیِ برحقؐ کے آنے کی خوش خبری تھی الحمدللہ اس نبی ؐکی امت میں ہونے کا شرف ہمیں حاصل ہے ۔جس مسجد اقصیٰ کے اطراف بمباری کی جاتی ہے، اس کی بے حرمتی کی کوششیں کی جاتی ہیں ،اسی مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے ہمارے نبی پاک ؐ نے سترہ ماہ نماز ادا فرمائی تھی۔ اس مقامِ مبارک سے آپؐ معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے جہاں آپؐ نے انبیا ؑ کی امامت فرمائی۔ یہ عالم اسلام کے تین مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔
ہمارے چھوٹے سے گھر پر کوئی ناجائز قبضہ کر لے تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچ جاتے ہیں۔ راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔
کیا اپنے اتنے مقدس مقام کو ہم خدا کے باغیوں، توہین رسالتؐ کرنے والوں، انبیا ؑ کو قتل کرنے والے اسرائیلیوں کے حوالے کر دیں؟
اگر نہیں اور یقیناً ہمارے دل کی گہرائی سے نکلے گا کہ ’’نہیں‘‘! تو پھر ہمیں مسئلۂ فلسطین کی تاریخ کو…
اڑ کرمدینہ پہنچی جو کل میں ہَوا کے ساتھ
یوں ہمکلام دل ہؤا ربّ العلی کے ساتھ
حبِّ نبیؐ کے نور سے دے جگمگا مجھے
اٹھے ہیں میرے ہاتھ اسی اک دعا کے ساتھ
نیند ایسی دے کہ جس میں ہو دیدار ِمصطفٰیؐ
جاگے نصیب پھر مرا انؐ کی دعا کے ساتھ
پستی میں ڈوبتی ہوئی امت یہ جان لے
وابستہ ہے عروج نبی ؐسے وفا کے ساتھ
اگلے جہاں میں پائے گا وہ اجر بے حساب
جو یہ جہاں گزار لے صبر و رضا کے ساتھ
دنیا و آخرت میں ہے وہ نفس مطمئن
دل اپنا باندھ لے جو رضائے خدا کے ساتھ
رشکِ ملائکہ ہو صباؔ پھر یہ زندگی
عمر ِعزیز گزرے جو حمد و ثنا کے ساتھ
کسی کو نرم بنا ئے کسی کو سخت کرے
سلوک آگ ہر اک شے کے حسبِ بخت کرے
جو کذب و جھوٹ کا تکیہ سفیرِ رخت کرے
وہ سچ پہ کیسے بھلا اپنی مہر ثبت کرے
یہ کس کے لمس کی تاثیر تھی کہ سوکھا ہؤا
اکھاڑ دینے پر آہ و بکا درخت کرے
امیر شہر کا حق فقط، اُسے مارو
غریب شہر جو لہجہ کبھی کرخت کرے
غلام نے جو کیا رحم ایک ماں پہ، کہا
خدا صلے میں عطا تجھ کو تاج و تخت کرے
کہے، نہیں ہے مساوات یاں، جو اس سے کہو
وہ اور ہی نہیں جینے کا بندوبست کرے
یہ بالا دست کا حق ہے فقط، اٹھاؤ اسے
کوئی جو رائے کا اظہار زیرِ دست کرے
گو انقلاب یہاں پر بہت ضروری سہی
مگر یہ کام کوئی کیسے ابنِ وقت کرے
جو پست پست ہے اور جو بھی ہے بلند تو بس
کوئی نہ بحث یہاں پر بلند و پست کرے
ہے فرق کیا کسی اپنے میں غیر میں وہ ذرا
بیاں جو ہم سے کبھی اپنی سر گزشت کرے
کہاں کا صبر کہ وہ ہے بہت حریصِ جزا
سو اتنا حوصلہ کیسے خدا پرست کرے
ہے سخت کاذب و مخبوطِ ہوش و عقل و خرد
ترے سوا جو کوئی دعوئے الست کرے
حبیبؔ دل میں کسی سے بھی دوریاں نہ رہیں
اگر حساب ہر ایک اپنا بود و ہست…
کوئی توروک لے دریا کواب روانی سے
نکال دے مرا کردار بھی کہانی سے
تمہارے حق میں ہی بہتر ہے عشق سے توبہ
تو بچ گیا ہے کسی مرگِ نا گہانی سے
چمکتے نیلگوں موتی ہیں ریگِ دریا پر
تری تلاش میں نکلے ہیں گہرے پانی سے
مجھے تو شہر میں اتنا بھی گمشدہ نہ سمجھ
ملے گی میری ہی خوشبو مری نشانی سے
کتابِ زیست بڑے شوق سے جو پڑھتے ہو
مجھے بھی ڈھونڈ نکالو کسی کہانی سے
محل سرا میں کنیزوں پہ کیا گزرتی ہے
سوال پوچھ کسی بادشاہ کی رانی سے
شکستِ فاش مرے عشق کو ہوئی باتش ؔ
اُلجھ گیا تھا بڑھاپا کسی جوانی سے
یہ میرے ہونے کا اک پتہ ہے
ہر اک سفر میں ہراک خطر میں جوتھام لیتا ہے بن کے رہبر
کبھی یہ دھیرے سے لاج رکھ لے،کبھی بنا ہے یہ سرکی چادر
جو نوعِ انساں کودے تمدن،عطائے رحمت ہے جو سراسر
یہ میرے ہونے کاایک پتہ ہے
ہراک تعلق کاراستہ ہے
یہ معجزہ جوہر عہدکاہے کئی زمانوں سے جاملا ہے
اندھیری شب کی کثافتوں میں کرن خزانوں کا اک ذخیرہ
بہت مقدس بہت مکمل ہیں باب سارے ،بہت منزہ ہیں مثلِ ہیرا
سدا سے دارو یہ ہرستم کا ،بنا تسلی کاایک مظہر
قسم قلم کی جوکھارہا ہے خدائے برتر
سرشت ِانساں میں چھپ گیا ہے اسی صداقت کاایک جوہر
قلوب واذہاں کی روشنی ہے
یہ کتنے سینوں میں جاگزیں ہے
خدائے واحد کی قربتوں کا جبھی امیں ہے
جو نوعِ انساں کی عظمتوں کا یہ ہم نشیں ہے
حروف اس کے تمام روشن، جہان ِمعنی میں لعل و گوہر
کہ اس کی سنگت میں جاگ جائے ہراک مقدر
یہاں پہ حکمت کے باب سارے شعورووجداں سے ہیں منور
کھلے جو فطرت کے راز سارے ظہورِ عرفاں سے ہیں معطر
ضیاوظلمت میں فرق کرنا اسی کے دم سے
وفاکو وحدت میں غرق کرنا اسی کے دم سے
جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ مختلف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
’’بھلا اتنے نیک اطوار باپ کے گھر ایسی اولاد کسی آزمائش سے کم ہے کیا‘‘۔
’’ایسی اولاد سفید کالر کے داغ کی طرح ہوتی ہے جسے نہ چھپا سکتے ہیں نہ اپنا سکتے ہیں‘‘۔
’’بڑھاپے میں یہ رسوائی دینے سے اچھا تھا ایسی اولاد پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں! اور یہ سب تو ان کے منہ پہ کہا جارہا تھا ، پیٹھ پیچھے جو طنز و تضحیک کی جارہی تھی اس سے بھی وہ ناواقف تو نہ تھے پر سب کچھ بےبسی سے سننے پہ مجبور تھے کہ اب وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔
کئی روز سے ہمت مجتمع کرنے کے باوجود مشہود اپنی خواہش اپنے والد کے گوش گزار کرنے سے قاصر تھا۔ اس کو یقین تھا کہ عمل کرنا تو درکنار وہ اس کی بات سنتے ہی رد کردیں گے۔ وہ اس کے احساسات نہیں سمجھ سکتے اگرچہ ان کی بردباری اور سمجھداری کے پورے خاندان والے ہمیشہ سے ہی قائل تھے۔ کسی کی بیٹی کا رشتہ آتا یا بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھی جاتی، کوئی خوشی غمی ہو یا رشتہ داروں کے درمیان چپقلش، ان کو خصوصی طور پہ مشورے کے…
بہت دیر سے وہ اپنے کچے کوٹھے کے باہر لکڑی کے دروازے میں کھڑی دور گلی میں پر امید نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ ہر روز کی طرح آج بھی اپنے پڑوسیوں کے چھوٹے لڑکے ماجد کا انتظار کر رہی تھی۔ روزانہ اسے چودھری فضل دین کی حویلی میں بھیجتی اور ریڈیو سے خبر سن کر آنے کا کہتی۔ اور اس کے آتے ہی پوچھتی۔
’’میرا خیلہ نہیں بولا ؟ ‘‘
مگر ہر روز جواب’’ نہیں بولا‘‘ میں آتا ۔
خوف و امید کے بیچ لرزتے دل کیساتھ وہ پھر سے روز مرہ کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی اور ساتھ ہی خیلہ کی واپسی کی دعائیں کرتی۔اس کے پڑوسی تو ایک طرف سب اہلِ محلہ اس کا بے حد احترام کرتے تھے کہ وہ ایک سپاہی کی ماں تھی۔وہ سپاہی محمد خلیل جس نے پینسٹھ کی جنگ میں میجر عزیز بھٹی کی کمان میں بی آر بی کا دفاع کیا تھا۔ تب سے ہی سب اہلِ محلہ کو اس سے بے حد پیار تھا اور مائی بشیراں کے کام تو ہر کوئی جلدی جلدی کر دیتا تھا۔ خلیل جب ڈیوٹی پر ہوتا تو محلے کی ڈیوٹی مائی بشیراں کی خدمت کرنا ہوتا۔ ہر چھوٹے بڑے کو سمجھا دیا گیا تھا…
نیند صبا کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دل درد سے پھٹا جارہا تھا۔وہ اپنا غم کہتی بھی تو کس سے؟ بہن کوئی تھی نہیں اور اماں پہلے ہی اس کی وجہ سے دل کی مریض بن چکی تھیں۔دو دفعہ انجائنا کا اٹیک ہوچکا تھا۔اس لیے وہ اماں سے بات کرتے ہوئے محتاط رہتی تھی۔پرآج تو بات ہی کچھ ایسی ہوئی تھی جس نے اس کا دل ہلا کر رکھ دیا تھا۔وہ اپنی ننھی اریبہ کے لیے عید کی پیاری سی فراک خرید کر لائی تھی اور بہت خوش تھی کہ ننھی اریبہ میچنگ کی چوڑیاں اور ہئیر بینڈ لگا کر ’’ننھی پری‘‘ لگے گی۔
لیکن عدنان نے انتہائی معمولی سی بات پر غصے میں آکرفراک کو چولہے پر رکھ کر جلا دیا تھا۔پھراحتجاج کرنے پر ایک بھرپور طمانچہ اس کے گال پر پڑا تھا۔اس سے پہلے بھی اس کا دل کئی مرتبہ ٹوٹا تھا ۔لیکن آج تو جیسے ریزہ ریزہ ہو گیا تھا ۔ چہرہ غم سے سفید پڑ گیا۔رمضان کا آخری عشرہ تھا اور قبولیت کی گھڑی….اللہ تو ٹوٹے دل کی فریاد ضرور سنتا ہے۔ اس نے گڑگڑا کر دعا کی۔
’’یا اللہ میرے لیے جو فیصلہ بہتر ہو مقدر فرمادے۔میں…
عقیدہء آخرت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بعد عقیدۂ آخرت ہی انسان کی زندگی کو درست رنگ اور سمت عطا کرتا ہے۔انسان کی زندگی کے دو مراحل ہیں، ایک محدود اور دوسرا لا محدود۔دنیا کی زندگی محض ایک ساعت یا دن کا کچھ حصّہ ہے اور آخرت کی زندگی حیاتِ جاوداں ہے۔ دنیا کی زندگی اس کرۂ ارضی پر ہے اور آخرت کی مکانی وسعت میں کامیاب لوگوں کا مقام جنت ہے جو ’’کعرض السماء والارض‘‘ (زمین و آسمان کی وسعت جیسی )ہے، اور ناکام لوگوں کا مقام جہنم ہے، اور وہ بھی اتنی وسیع ہے کہ اس میں اول وآخر کے تمام فاجرین پورے آجائیں گے اور وہ پھر بھی نہ بھرے گی۔
قرآن کریم میں دنیا و آخرت دونوں کے الفاظ (۱۱۱) مرتبہ وارد ہوئے ہیں۔آخرت اپنے الفاظ اور معنی دونوں میں دنیا کے برعکس ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی، دنیا لھو و لعب اور کھیل تماشا ہے تو آخرت اصلی حقیقی اور پائیدار زندگی! دنیا دھوکے اور فریب کا گھر ہے تو آخرت سچائی اور حقیقت کا مقام۔دنیا اور اس کی ہر شے فنا ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی کو خلود حاصل ہے۔
آخرت کا تعلق علم…
صدقہ اردو زبان میں برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے ، جس میںکوئی ریا کاری نہ ہو ، کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ ’’صدق‘‘ سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی حال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جبکہ اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بنا کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو ۔ ارشاد ربانی ہے :
’’ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے اورجو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، ان کے لیے ان کا اجر ان کا نور ہے ۔ خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس…
وہؐ ہے شاہِ عرب وہؐ ہے طٰہٰ لقب
وہؐ ہے جانِ جہاں اُس پہ قربان سب
اس جہانِ محبت پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰ ؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام ؎۱
بے وسیلوں کا تنہا وسیلہ بنا
بے سہاروں کا واحد سہارا بنا
ظلمتِ کفر میں وہ نویدِ سحر
شامِ غم میں سحر کا ستارہ بنا
اس نبیؐ کی رسالت پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰ ؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
وہ ہے بحر سخا وہ ہے گنجِ عطا
وہ دعائے خلیل و حبیبِؐ خدا
اس کی شانِ سخاوت پہ لاکھوں سلام
وہ شہِ ذی حَشَم ہے خدا کی قسم
وہ شفیع الامم ہے خدا کی قسم
اس نے راہِ ہدایت دکھائی ہمیں
وہ خدا کا کرم ہے خدا کی قسم
اس چراغِ ہدایت پہ لاکھوںسلام
مجھے اپنا عکسِ جمال دے مجھے حسنِ حرف و خیال دے
مجھے وہ ہنر وہ کمال دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
مرے آئینے میںنہ بال دے نہ تُو سیم و زر کا ملال دے
مجھے کر غنی جو تُو مال دے مرے ہاتھ میں نہ سوال دے
نہ تو مست کر دے وہ حال دے نہ ہی نعمتوں کا زوال دے
تجھے جو پسند ہے میرے رب مجھے زندگی کی وہ چال دے
مری سمت سکّہ اچھال دے مری کوششوں کو مآل دے
مجھے موسموں سے بچا کے رکھ مجھے اپنے لطف کی شال دے
مجھے حرفِ کُن سے نواز دے مری مشکلوں کو تُو ٹال دے
مری لغزشیں ہیں قدم قدم مرے ہر قدم کو سنبھال دے
کوئی شاہ کیا کوئی جاہ کیا مجھے حیرتوںسے نکال دے
میں غلام تیرے حبیب کا مجھے سوز و ساز ِ بلال دے
ترے دشمنوں سے ہو واسطہ تو مجھے تُو حق کا جلال دے
مجھے اپنی نصرت ِ خاص دے مجھے اپنے نام کی ڈھال دے
مجھے رزق میرا حلال دے نہ خیانتوں کا وبال دے
میری آنکھ ٹھنڈی رہا کرے مجھے ایسے اہل و عیال دے
تُو دعائیں میری قبول کر مجھے ربِّ جاہ و جلال دے
ہو تری جناب میں محترم مجھے ایسا دستِ سوال دے
’’اّماں، امّاں، جلدی آؤ، دیکھو تو بوا رحیم بی بی نے کیسے اپنے سر پر خاک ڈالی ہوئی ہے……مٹی میں بیٹھی ہیں اور انگلیوں سے مٹی میں لکیریں مار رہی ہیں ……ساتھ ساتھ بڑبڑاتی بھی جا رہی ہیں، میری طرف دیکھ ہی نہیں رہیں‘‘۔
چھوٹی بیٹی جو اپنے بچوں کے ساتھ سسرال سے چھٹیاں گزارنے میکہ آئی ہوئی تھی پریشانی سے اپنی ماں کو آوازیں دیےجا رہی تھی۔ امّاں سب کام چھوڑ چھاڑ بھاگی آئیں اور بہت ہی محبت کے ساتھ بُوا کو اٹھایا، سر اور کپڑوں سے خاک جھاڑی، منہ ہاتھ دھلوایا اور اپنے ساتھ کمرہ میں لے گئی۔ چھوٹی بیٹی ثمرہ سوچتی رہ گئی۔
یہ روزانہ کا معمول تھا، بُوا اپنے آپ سے بیگانہ ہو چکی تھیں وہ مٹی میں لکیریں کھینچتی رہتیں خود سے باتیں کرتیں نہ کھانے کا ہوش اور نہ پہننے کا پتہ، وہ ایسی تو نہ تھیں، بہت پرہیزگار، ملنسار، خوبصورت خاتون تھیں ۔اس حال کو کیسے پہنچ گئیں، ثمرہ کا ذہن بہت پیچھے جا چکا تھا۔ اس کے کانوں میں اّماں کی آواز گونج رہی تھی ۔وہ بڑی بہن کو آواز دے رہی تھیں۔
’’شمو!اری شمو!چھوٹی گڈی کو بلانا ‘‘۔
اماّں کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ چھوٹی زقندیں بھرتی اّماں کے سامنے آن کھڑی…
شادی سے پہلے جان پہچان تو دور کی بات نام کا بھی علم نہ تھا ۔ روائتی کہانیوں اور فلموں ڈراموں والا سین ہؤا ۔ابا کو ہارٹ اٹیک ہؤا، کارڈیالوجی سنٹر لے جاتے ہوے اماں کو شوہر کی زندگی ختم ہونے کی کم اور اکلوتے بیٹے کی شادی نہ ہونے کی ٹینشن زیادہ تھی۔
اور ہوتی بھی کیوں نہ…..اٹھارویں گریڈ کا سرکاری افسر،بنگلہ، گاڑی بمع ڈرائیور، نوکر چاکروں کی فوج ۔نہیں تھی تو بیوی …..جس کی تلاش میں دونوں بہنوں اور ماں نے جوتے گھسالیے۔ اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے اشتہار کے نیچے دیے گئے نمبروں پر رابطے کے بعد دیکھنے جاتیں۔رشتہ کروانے والیوں کی مٹھی بھی گرم رکھتیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات،کسی بھی رشتے پر فریقین میں اتفاق نہ ہوسکا۔
بالآخر ابا کو پڑنے والا دل کا دورہ ہی کام آیا۔ حسن اتفاق سے ایک دن قبل ان کی چھوٹی بیٹی نے اپنی نند کی دیورانی کی چھوٹی بہن کا ذکر کیا تھا جو فلموں کی ہیروئن والا حسن بھی رکھتی تھی، زمانے کے ساتھ چلتے ہوے میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس کے ساتھ فارغ وقت میں بیکنگ ہی سے نہیں کڑھائی سلائی کے علاوہ اون سلائیوں سے…
وہ آڈیٹوریم سے با ہر آ چکی تھی۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ ویک اینڈ ہونے کے با عث سڑکوں پر رش تھا۔ گاڑیاں بھگاتے لوگ اپنی اپنی منزلوں کی طرف گا مزن تھے۔ وہ چلتی چلتی مین روڈ تک آئی ،خوشی اور تشکر کے ملے جلے جذبات اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہے تھے۔ وہ اب رک کر ماضی کو یاد کر کے خود کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ ماضی کی بیوقوف لڑکی سے حال کی سمجھ دار لڑکی بن چکی ہے، وہ ناممکن کو ممکن بنا آئی ہے۔
وہ اپنے خیالوں میں گم تھی جب سامنے سے آتی گاڑی کی تیزروشنیوں نے اس کی آنکھوں کو چندھیانے پر مجبور کر دیا تھا۔ گاڑی اس کے قر یب آ کر رکی، اندر سے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے با ہر نکل کر اس کے لیے دروازہ کھولا تو وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے با ہر آ ئی ۔وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔گاڑی کے اندر کی خاموشی اس کے اندر کی دنیا سے برعکس تھی۔
سفر یوں ہی گزرتا گیا، یہاں تک کہ گاڑی سوسائٹی میں داخل ہوئی جہاں اس کا گھر تھا۔گیٹ سے داخل ہوتے ہی سامنے اس جگہ کو دیکھ کر اسے بہت کچھ یاد…
زیبو نے اپنی بیٹی گڑیا کو اچھا سا تیار کیا۔ اس کے ماتھے پر کالا ٹیکا لگایا اور پیار کیا۔ میری گڑیا کتنی پیاری ہے۔زیبو نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔آج اسے کام کے لیے ایک نئے گھر میں جانا تھا۔
زیبو نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر ٹھنڈے کمرے کے اندر قدم رکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔سامنے بڑے سےخوبصورت پلنگ پر بیٹھی بیگم صاحبہ کسی سے فون پر محوِ گفتگو تھیں۔انہوں نے ایک اچٹتی سی نگاہ زیبو پر ڈالی اور پھر باتیں کرنے میں منہمک ہو گئیں ۔کوئی دس پندرہ منٹ بعد انہوں نے اس کو اشارے سے اپنے قریب بلایا جو ایک طرف ٹھنڈے کمرے میں سکون محسوس کر رہی تھی تو دوسری طرف انتظار کر کرکے ہلکان ہو رہی تھی۔
اب بتاؤ ۔بیگم صاحبہ نے اس سے پوچھا۔ تمہیں میری پہلے والی ماسی نے تو سب کچھ بتا دیا ہوگا کہ گھر میں کیا کیا کام کرنا ہے؟
زیبو نے فوراً کہا، جی باجی اس نے سب کچھ سمجھا دیا ہے۔
اچھا تو پھر تم کام کرنے پر راضی ہو؟ بیگم صاحبہ نے پوچھا۔
جی میں کل صبح سے ہی کام کے لیے آ جاؤں گی۔
بھئی یہ کیا تمہارے ساتھ آیا کرے گی؟انہوں نے…
چررررر……
ارے یہ کیا ہؤا؟
ایمبولینس کو بلاؤ……
خون بہت بہہ گیا ہے……
کیا یہ زندہ ہے؟
٭٭٭
جھلستی جولائی کی دوپہر میں ایک عمارت کا نا مکمل ڈھانچہ بڑی رعونت سے کھڑا ہے۔سورج کی شدید تپش سے بارہماسی اور کنیر کی جھاڑیاں سوکھ کر کانٹا ہو رہی ہیں،جبکہ روزحساب جیسی گرمی نے پرندوں کو نڈھال کر رکھا ہے۔ایسے میں پسینے سے شرابور ، تپتے چہرے لیے کئی مزدور اینٹیں ڈھوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھوک پیاس سے بے نیاز،قہر برساتی دھوپ سے بے پرواہ،ستائیس اٹھائیس سالہ گندمی رنگت اور مضبوط قد کاٹھ کا ایک لڑکا ریڑھی میں اینٹیں ڈھو رہا ہے۔
’’ اوئے بابو! ٹھیکیدار سے پوچھ کر روٹی ٹکر کا بندوبست کر یار‘‘بوڑھے مجیدے مزدور نے اعظم عرف بابو کو ہانک لگائی۔
’’چاچا مجید! کام پورا ہوگا تو ہی روٹی حلال ہوگی ہم پر۔ اینٹیں ڈھونے کے بعد ہی کھانا کھائیں گے‘‘۔
اعظم نے مجیدے کی آسوں پر پانی انڈیلا جو ریڑھی گھسیٹتے ہوئے ہر تھوڑی دیر بعد کھانے کے لیے دہائی دینے لگتا تھا۔
جب سورج کا قہر ماند پڑنے لگا اور شفق کی سرخی نے پرندوں کو گھروں کی جانب واپسی کا عندیہ دیا تو اعظم عرف بابو بھی اپنے گاؤں کی بڑی نہر والی پگڈنڈی پر چل پڑا۔ اس کے گھر میں دو ہی نفوس…
ہے کہ آپ کسی بھی جگہ داخل نہیں ہو سکتے جب تک ماسک چہرے پر نہ ہو۔ کچھ دن پہلے ہمارے میاں صاحب ہمیں کام پر چھوڑنے آئے اور ماسک گھر بھول گئے۔ راستے میں ایک سبزی کی دکان سے کدو خریدنے کے لیے گئے تو دکان دار نے فرمایا کہ پہلے ماسک لگا کر آئیے۔
پردے کے بے شمار فوائد میں سے ایک کا تعلق کورونا سے بھی ہے۔ خواتین کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر انہوں نے کپڑے کے نقاب سے چہرہ ڈھکا ہؤا ہے تو وہ سرجیکل ماسک نہ لگائیں۔ ہمیں تو یہ بہت اچھا لگا، اگرچہ ہمارے پیشے کی بدولت ہمیں کام کی جگہ پر سرجیکل ماسک ہی لگانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہم دوہرا ماسک لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات سانس کا مسئلہ بھی ہو جاتا ہے۔ الحمدللّٰہ مملکت کی سب رونقیں واپس آ رہی ہیں، سڑکوں پر ٹریفک بھی تقریباً پہلے جیسا ہی واپس آ گیا ہے، کیونکہ بہت سے اسکول، کالج اور سب جامعات کھل گئی ہیں۔عمرے کے لیے بھی اجازت نامے زیادہ کر دیے گئے ہیں۔
یہاں پر ویکسین کا انتظام بھی بے حد اچھا تھا اور ہے۔ہم سب گھر والوں نے تو بھلے وقتوں میں تھوڑے کو…
طالبان کی فتح نے ان وقتوں کی یاد کو تازہ کردیا ہے جب روس حملہ آ ور تھا اور شوقِ شہادت ہمارے جوانوں کو چین نہ لینے دیتا تھا۔شہیدِ کنّڑ، فرحت اللہ بھائی کا مشک بوتذکرہ
فرحت اللہ بھائی مانسہرہ سے آگے تور غر کے قریب پہاڑوں کے درمیان ایک خوبصورت وادی بیلیاں کے رہنے والے تھے۔ ان کے گاؤں جانے کے لیے پہلے ہم مانسہرہ پہنچتے، وہاں سے ویگن میں آگے جاتے، پھر سوز وکی میں جا کر ایک موڑ پر اتر جاتےاور چند کلومیٹر پیدل سرسبز وادیوں ، چاول کے کھیتوں سے ہوتے ہوئے اپنے فرحت اللہ بھائی اور ان کی ماں کی محبتوں کے پاس پہنچ جاتے۔ رات گزار کر صبح ماں جی کے ہاتھ کے گرم گرم پراٹھے کھانے کے بعد فرحت اللہ بھائی کو اپنے ساتھ پشاور لے آتے۔
ماں جی کا ذکر کرتے ہی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ کیوں …..آگے شاید معلوم ہو جائے!
فرحت اللہ بھائی بہت شرمیلے سے تھے۔ خاموش طبع ، بہادر اور ملنسار۔ایک بار پشاور کے چوک یادگار دفتر میں کسی ساتھی نے شامت سے ان کےنئے جوتوں کی تعریف کردی۔اس جوان نے فوری اپنے جوتے اتار دیے اور ساتھی کو کہا کہ اب یہ آپ کے۔وہ ساتھی پریشان کہ یار مجھے اچھے…
آج سکول سے واپسی پر گاڑی میں دوستوں کے ساتھ ’’ شرار ‘‘ کے موضوع پر بحث ہوگئی ۔
میرا خیال تھا کہ شرار دور سے نظر آنے والی، آسمان سے اترتی ہوئی سرخ روشنیوں کا نام ہے ، جنہیں ہم بچپن میں دیکھ کر ڈرتے تھے اور شام ہوتے ہی گھروں کو واپس لوٹ آتے تھے۔جب کہ ایک دوست کا خیال تھا کہ شرار لفظ شرارت سے نکلا ہے یعنی اشرار کا ہم معنی،یہ ایسی تمام غیر مرئی مخلوقات ہیں جو انسان کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر کسی دوسرے کام میں لگا دیتی ہیں مگر اس کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ وہ کہنے لگی مثلاً آپ کسی ویرانے میں کوئی کام کر رہے ہیں جیسے کھیتی باڑی، ہل چلانا دوستوں کے ساتھ کھیلنے جانا،اس ویرانے سے گزر کے سبزی لینے جانا،کسی رشتہ دار سے ملنا، حتیٰ کہ رفع حاجت کے لیے جانا،یا دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے اس علاقے میں آنا یا اپنے ہی گاؤں کی طرف پلٹ کر آنا،یہ شرار آپ کو راہ سے بھٹکا دیں گے۔
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، کیسے کریں گے وہ؟
کہنے لگی ابھی جیسے آپ ایک مرغی کو دیکھتے ہیں اور اس کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن وہ آپ کے ہاتھ…
میرے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے میرا رشتہ اسلام اور ایمان کا ہے۔ وہ میرے رسول ، خاتم النبیین،اور رحمت اللعالمین ہیں۔ میں ان کی ایک ادنیٰ امتی اور پیروکار ہوں۔ ان پر آخری نبی ہونے کی حیثیت سے ایمان کامل رکھتی ہوں، دوجہاں کے لیےان کی رحمت عام میں سے حصہ دار ہوں۔ خاص کرعورتوں کے لیے ان کی رحمت سے فیض یاب ہوتی ہوں۔
میں یقین کامل رکھتی ہوں کہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ سے تعلق کے بعد دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے میرے سارے تعلق، سارے رشتے، اور معاملات نبیؐ مہربان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میرا اپنے نبیؐ الصادق الامین سے تعلق دنیا کی سرحدوں سے ماورا عالم برزخ اور پھر عالم آخرت تک وسیع ہے ۔میں قبر میں ان کے رسول ہونے کا اعتراف کروں گی ان شاء اللہ۔ میں روز قیامت ان کی امتی کی حیثیت سے پہچانی جاؤں گی۔ اور ان کے دستِ مبارک سے حوض کوثر پر جام کوثر حاصل کرنے اور پینے کی خواہش مند ہوں گی۔ اور ان کی شفاعت کی امیدوار بھی ہوں گی۔
نبی ؐ آخر الزماں میرے معلم و رہنما ہیں۔ میں وحی الٰہی کے علم کے حصول کے لیے ان کی کامل محتاج ہوں۔ میں…
ناکام زندگی کا باعث بن جانے والی 13 چیزیں اور کامیاب زندگی سے روکنے والی 22 عادتیں جنہیں چھوڑنا ضروری ہے
ایک صحافی نیپولین ہل نے 20 سال کا عرصہ لگا کر 500 سے زائد اپنی محنت سے کامیاب ہونے والے افراد پر تحقیق کی اور اس کے بعد ایک کتاب تحریر کی۔اپنی اس کتاب میں امیر ہونے کے’ ‘ راز‘ بتانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے زندگی میں ناکامی کا باعث بننے والی بڑی وجوہات کا بھی ذکر کیا۔
یہاں ان میں سے کچھ کا ذکر کیا جارہا ہے جن پر قابو پاکر ہوسکتا ہے آپ بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرپائیں۔
1۔کوئی واضح مقصد نہ ہونا
ایسے شخص کی کامیابی کی توقع نہیں کی جاسکتی جس کے پاس کوئی مقصد یا واضح ہدف نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر امیر ہونا چاہتے ہیں تو بچت کے اہداف کا تعین کریں اور پھر اپنے مالی منصوبے کو تشکیل دیں۔
2۔عزم سے محرومی
نیپولین ہل لکھتا ہے کہ ہم ایسے کسی شخص کے بارے میں کیا امید کرسکتے ہیں جو زندگی میں آگے بڑھنا ہی نہ چاہتا ہو اور مشکلات کی قیمت چکانے کے لیے تیار نہ ہو۔ کامیابی آسانی سے نہیں ملتی اور آپ کو اس کے حصول کے لیے تحمل اور تسلسل…
الحمد للہ ، اب میری بیگم بھی ساس بننے والی ہیں ۔ کل میں نے ان سے پوچھا ، تم بہو لانے کے بعد اپنے گھر کا ماحول خوشگوار رکھنے کے لیے کیا کچھ کرو گی ۔
وہ اس وقت تو چپ رہیں ۔ لیکن آج صبح میں سو کر اٹھا تو تکیے کے نیچے ان کی یہ تحریر پڑی تھی ۔
’’میں آپ کو لکھ کر دے رہی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ بیٹے کی شادی کے بعد ‘‘۔
1۔ میرا بولنا اور میرا چپ رہنا ، سب گھر کے خوشگوار ماحول کے لیے ہوگا ۔
2 ۔بہو کی ہر اچھی بات اور اچھے کام پہ اس کی تعریف کروں گی اور اسے دعائیں دوں گی ۔
3 ۔شادی شدہ بیٹیوں کو اپنے گھر میں مداخلت کی اجازت نہیں دوں گی ۔
4 ۔اپنے کسی رشتہ دار ، بہو کے رشتہ دار ، کسی پڑوسی ، اور کسی بھی جاننے والے کے سامنے ، اپنی بہو کی برائی نہیں کروں گی ۔
5۔ گھر میں جو چاہے ہو جائے ، اس کے میکے کے کسی بھی فرد سے اس کی شکایت نہیں کروں گی ۔
6۔ اسے اس کی کسی ایسی بات پہ نہیں ٹوکوں گی ، جس سے میرے گھر یا میری ذات کا کوئی…
افشاں نوید۔ کراچی
ستمبر کے شمارے کی فہرست پر ایک نظر ڈالی اور’’بتول ‘‘ کا مطالعہ شروع کیا جس نے حاضر و موجود سے گویا بےنیاز کردیا ۔اتنے مختلف عنوانات اور ہر قلم کار نے اپنے عنوان کا حق ادا کردیا۔ بتول کی بڑی خوبی یہی ہے کہ معیار پرسمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔یقیناً صائمہ اسما بھی تحریروں کی نوک پلک درست کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں۔
اداریے میں افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلقہ حقائق کو پیش کیا گیا۔نائن الیون کے بعد اس صدی کا بڑا واقعہ ہے طالبان کو اقتدار ملنا۔مگر اس سے جڑی توقعات،خدشات،غیروں کی پیش گوئیاں اور اپنوں کی امیدیں ۔ درست کہا کہ ؎
کشتی بچا تو لائے ہیں عاصمؔ ہواؤں سے
پیوند سو طرح کے سہی بادبان میں
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے اپنے مضمون میں آخرت کی تیاری کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کی۔یہ سچ ہے کہ ؎
اللہ کی رہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پہ چلنا چھوڑ دیا
سلیس سلطانہ صاحبہ کی تذکیر قارئین کے لیے نافع ہوگی انشاءاللہ۔اچھی یاد دہانی کرائی۔پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے جو اصلاحات ہورہی ہیں یہ وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔ادارہ بتول اس…
دروازہ ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہے ۔ دروازہ کھلا ہو یا بند اس کے ساتھ ہماری بہت سی نفسیاتی جہتیں وابستہ ہیں ۔
بند دروازے بھی نعمت ہیں ۔حفاظت اور رازداری اور ذاتی معاملات کی پردہ داری رکھتے ہیں ۔اگر دروازے بند نہ ہوسکتے کسی الماری کے گھر یا کمرے کے تو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔اس موضوع پہ جتنا غور کریں تو بند کواڑ کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔
لیکن یہی بند دروازے جب کھل نہ سکیں یا کوئی ہمارے لیے کھولنا نہ چاہے تو کتنی کوفت ہوتی ہے۔ اور در کے نہ کھلنے یا نہ کھولنے کے ساتھ بھی کس قدر جذباتی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غرض ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور دونوں اپنے مقام ، موقع و محل کی نسبت سے اہم ہوتے ہیں ۔
کسی زمانے میں شہروں کے بھی دروازے ہوتے تھے جو شہریوں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے تھے ۔اجنبی لوگوں کا داخلہ شہر میں آسان نہ ہوتا تھا۔ بڑے گھروں میں بیرونی اور داخلی دروازے ہوتے۔ مردان خانے اور زنان خانے کے درمیان بھی پردہ داری ہوتی تھی ۔ ہر شہر ، محل، حویلی ، گھر چھوٹا ہو یا بڑا یا جھونپڑی اندر داخل ہونے کا…
یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے ، میں ایک درمیانے سائز کی کمپنی چلا رہا تھا، ہم لوگ امریکی کمپنیوں ’’ کو آئی ٹی سلوشن‘‘ دیتے تھے، ہمارے سلوشن دس پندرہ ڈالرمالیت کے ہوتے تھے لیکن ہمارے گاہکوں کی تعداد زیادہ تھی چنانچہ دس پندرہ ڈالر ایک دوسرے کے ساتھ ضرب کھا کر بڑی رقم بن جاتے تھے، ہمارے کام کے ساتھ تین ساڑھے تین سو لوگ وابستہ تھے ، یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتے تھے ، ہمارے کام کے ساتھ تین ساڑھے تین سو لوگ وابستہ تھے، یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتے تھے ، ہم ان کا کام ’’پول‘‘ کرتے تھے اور اس کی نوک پلک سنوار کر اسے انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق بنا کر کمپنیوں کو بھجوادیتے تھے، ہماری زندگی ہموار اور رواں چل رہی تھی مگر پھر اچانک صدر اوبامہ نے پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کردیں ، یورپ اور امریکہ میں پاکستان کا امیج بھی مزید خراب ہوگیا لہٰذا کمپنیوں کو جوں ہی پتا چلتا تھا ہم پاکستانی کمپنی ہیں ، وہ ہم سے رابطہ منقطع کر دیتی تھیں ، یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے وہاں پہنچ گیا جہاں ہمارا بزنس تیزی سے نیچے آنے لگا ،…
قارئین کرام!افغانستان کا غیر ملکی تسلط، لوٹ مار اور قتل و غارت سے آزاد ہونا اس ماہ کا نہیں اب تک رواں صدی کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ یہ وہ صدی ہے جس کا آغاز ہی نو گیارہ کی صورت میں دنیا پر امریکہ اور اس کے حواریوں کی مسلط کردہ نحوست سے ہوا۔ ان ’’مہذب‘‘ملکوں نے نہ صرف ایک کے بعد ایک اسلامی ممالک کو تاخت و تاراج کیا ،افغانستان سمیت ان سب ملکوں میں انسانیت کے خلاف کریہہ ترین جرائم کی تاریخ رقم کی ،بلکہ ساری دنیا میں مسلمان آبادیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔
امریکہ نے اس جنگ کے ذریعے دور جدید کے انسان پر اتنی سنگین چارج شیٹ رقم کی ہے جس کی مثال کرہ ارض پر انسانی وحشت کے تاریک دور میں بھی مشکل سے ہی ملے گی۔اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں پر ڈیزی کٹر، کلسٹر بم اور ڈرون حملے، دشت لیلی کی المناک داستان، گوانتانامو کے ٹارچر سیلوں کے ذریعے اکیسویں صدی کا آغاز ہی ایسا کیا کہ پتھر کے دور کاانسان بھی منہ چھپا جائے، جاہل اور پسماندہ ، جو پیٹ بھرنے کے لیے اپنے ہی ہم جنسوں کو کھا جانا جائز سمجھتا تھا مگر اس کام کے لیےترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے لیس…
رشتوں کی نازک ڈور سے بندھی ایک کہانی
’’فیصلے تو سارے اوپر ہوتے ہیں ہم نے تو ان کو دیکھنا، برداشت کرنا اور ان کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے رویے اور مزاج کو تبدیل کرنا ہوتا ہے‘‘۔ خاکوانی نے انور کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’بڑے ابا اگر فیصلے اوپر ہوتے ہیں تو پھر ہم ایک دوسرے کو الزام کیوں دیتے ہیں۔ ملنا اور بولنا چھوڑ دیتے ہیں۔ رشتوں کی ڈور کو کاٹ دیتے ہیں‘‘۔ انور نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاتے ہوئے کرسی بڑے ابا کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا۔
’’اس لیے کہ ہم اس سپر پاور کی معرفت نہیں رکھتے، پہچان ہی نہیں ہے کہ اس کا فرمان ہر چیز پر چلتا ہے ۔ اسے جانا ہوتا، اس کی کتاب میں غور و فکر کیا ہوتا تو ہمارا رویہ مختلف ہوتا‘‘۔
’’میرا خیال ہے بڑے ابا آپ کا بیٹا بلا رہا ہے تو آپ ناروے چلے ہی جائیں ان کا فرض ہے کہ آپ کی خدمت کریں۔ اور آپ کا بھی دل چاہتا ہو گا‘‘۔
’’تم اچھی طرح جانتے ہو میں سلمیٰ ‘اس کے بچوں اور تمھیں کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں‘‘۔ انھوں نے بڑے پیار سے سمجھایا۔
’’ساری زندگی کوئی کسی کے لیے انتظار تو نہیں کر سکتا‘‘۔
’’خاندان کا مطلب کیا…
ٱدنیا کا ہر مذہب اپنی ایک تہذیب رکھتا ہے اور اس تہذیب کے تناظر میں ہی مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔الحمدللہ ہمارا دین ایک مکمل تہذیب ہمیں دیتا ہے۔ جس کے اصول و ضوابط متعین ہیں۔ایک پاکیزہ سوسائٹی کیسے قائم ہوگی۔ صرف ہمیں احکامات ہی نہیں دیے گئے بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں کی روشنی میں ایک پاکیزہ سوسائٹی ہمیں قائم کرکے دکھائی۔
ہم کہیں کہ یہ اصول و ضوابط خاص اس دور کے لیے تھے آج ان احکامات میں ترمیم وتبدل کی ضرورت ہے تو معاذ اللہ انسان کو تخلیق کرنے والا کیا یہ نہ جانتا تھا کہ قیامت تک حضرت انسان میں کیا کمزوریاں پیدا ہوسکتی ہیں؟اور کیا ان کے حل نہ بتائے ہوں گے؟ سورۂ الملک میں ارشاد ہے:
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا‘‘۔
ہم ان اصول و ضوابط پر عمل نہ کریں،خود فساد کے بیج بوئیں،من چاہا لائف اسٹائل اپنائیں یعنی نیم کے درخت بو کر آموں کی خواہش رکھیں تو وہی فساد پیدا ہوگا جس کا سامنا اس وقت ہماری سوسائٹی کر رہی ہے۔خواتین پر تشدد کے پے در پے واقعات سامنے آرہے ہیں اور پھر سوال یہ پوچھا جاتا ہے…
بتول سے تین چار ماہ سے غائب ہوں. بہت سے لوگ لاپتہ ہونے کی وجوہات جانتے ہیں تو بہت سے لاعلم بھی ہیں۔یادش بخیر سات فروری 2020ء کو مزنہ اور تیرہ فروری 2020ء کو محسنہ کی رخصتی طے پائی۔ اللہ کے کرم سے سب کام بخیر وعافیت ہوئے ۔دھند اور شدید بارش کی شادیوں کا رج کے سواد چکھ لیا۔
شادی کے بعد اگلا مرحلہ خانہ آبادی ہی ہوتا ہے اس لیے قدرت نے محسنہ کی طرف سے یہ خوشخبری بھی جلد سنادی مگر عملی صورت میں خوشخبری کے ظہور سے پہلے کرونا کی دوسری لہر کا شکار ہوگئی ۔اس کا تفصیلی ذکر بتول کے گزشتہ سال کے کسی شمارے میں موجود ہے….. بخار ،خشک کھانسی اور سانس لینا محال!
ڈاکٹر نے جتنے ٹیسٹ لکھے سب کروائے ۔لوگوں کا خون سفید ہوتا ہے، ہمارا پھیپھڑا سفید ہونا شروع ہوچکا تھا۔ڈاکٹر نے خوب گیان دھیان سے رپورٹس ملاحظہ فرمائیں۔
’’آپ کا کرونا symptoms ٹیسٹ تو پوزیٹو ہے اور آپ دو ہفتوں کے لیے آئیسو لیٹ ہوجائیں…..مگر آپ کو کرونا نہیں ہے‘‘۔
ساری تکلیف بھگتنے کے دوران ہم ڈاکٹر کے اسی فقرے کی شرح ڈھونڈتے رہے کہ کرونا سمپ ٹمز ٹیسٹ پوزیٹوہے مگر کرونا نہیں ہے۔ہاہ! کیا مطلب ہے …..بخدا آج تک نہیں سمجھ پائے کہ…
دادی جان کے ماہانہ معمولات میں سےتھا ایک دن بچوں کی دعوت کیا کرتیں۔ایک نمکین اور ایک میٹھی ڈش بنا کرتی۔ دادا جان کو یہ شور شرابہ اور معمول پسند نہ تھا ۔ایک دن عجیب معاملہ ہؤا۔ صبح اٹھتے ہی کہنے لگے۔ آج بچوں کی دعوت کر لیتے ہیں ۔سبھی حیران ہوئے آج سورج کہاں سے نکلا ہے۔
کہنے لگےرات کو عجیب خواب دیکھا۔ بہت سے بچے دعوت کے لیے آئے ہیں۔ واپسی میں ان کے ہاتھوں میں برتن ہیں۔میں بچوں کے برتنوں میں جھانکتاہوں۔ ان میں سے کسی میں کیڑے مکوڑے کسی میں سانپ، بچھو اور کسی میں عجیب و غریب مخلوقات ہیں۔ڈر سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
ہم کم ظرف لوگ آنکھوں دیکھی کو حاصل اور حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔کسی کی معاونت احسان سمجھ کر کرتے ہیں۔خبر نہیں کہ اصل محسن وہ ہیں۔جو کئی بلاؤں سے آڑ بنے ہوتے ہیں ۔مصائب سےبچاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ایک ہاتھ سے دینے والے جانتے نہیں کہ ان کے رب کے پیمانے اور ہی ہیں۔اس کی عطا کردہ خیر بے بہا بارش کی صورت ہر سمت برستی ہے۔
ایک دن کہیں سے راشن آیا۔میری کوشش ہوتی ہےحقدار کو حق فوراً پہنچے۔بیٹے سے سامان اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔میں بھی ساتھ ہو لی۔جیسے…
حریم ادب کانیر تاباں میٹ اپ
عصمت اسامہ حامدی۔ لاہور
ایک ادیب یا لکھاری کا قلم معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے،وہ انسانیت کے مسائل کو سمجھتا ہے پھر اپنی دماغ سوزی اور درددل سے ان مسائل کا حل سوچتا ہے۔ پھر ایک مرحلہ آتا ہے کہ اس کے قلم سے نکلے الفاظ لوگوں پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں،اس کا درددل انسانیت کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہے۔ پھر یہ عالم ہوتا ہے کہ؎
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان ِشوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا۔
خواتین کا ادبی فورم حریم ادب پاکستان بھی اسی مشن کے لیے مصروف عمل ہے۔ حریمِ ادب کی مختلف سرگرمیاں نہ صرف لکھاریوں کی رہنمائی اور اور ان کی صلاحیتوں کومہمیزدینے کا کام کرتی ہیں بلکہ ممتاز قلم کار خواتین کے ساتھ نشستوں کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کی ممتاز قلم کار’’نیر تاباں‘‘ کی کینیڈا سے پاکستان آمد کا غلغلہ سنائی دیا تو ہم نے بھی ان سے ملاقات کی ٹھان لی۔ اگرچہ ان کی مصروفیات کی وجہ سے یہ کام کٹھن نظر آرہا تھا لیکن حریم ادب نے ان سے لاہور آنے کی صورت میں ایک نشست کا وقت لے ہی لیا ۔
نیر تاباں خواتین کے…
پروفیسر خواجہ مسعود۔ راولپنڈی
خوبصورت شفاف پانیوں کی ندیوں اور گھنے سر سبز درختوں سے مزین ٹائٹل سے آراستہ ماہ اگست 2021 کا چمن بتول سامنے ہے ۔ کاش ہمارے ملک میں ایسے درختوں کے جنگلات بے شمار ہوں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اپنے اداریہ میں محترمہ مدیرہ صاحبہ نے بارشوں سے بے تحاشہ نقصانات کا ذکر کیا ہے ۔آپ کے یہ جملے قابل غور ہیں ’’ ہم تو ویسے ہی اللہ کے حوالے ہیں ۔ اسلام آباد کا ایک سیکٹر ڈوب گیا تو کوئی حیرانی نہیں ‘‘۔خواتین کے بڑھتے ہوئے بہیمانہ قتل کے واقعات پر بھی آپ نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں ’’ ظلم کسی بھی شکل میں ہو اس کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے …ریاست کا یہ بھی فرض ہے کہ ملک میں اسلامی تعلیمات کو عام کرے‘‘۔
’’ صبرو ثبات‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون آپ نے یہ جملے خوب لکھے ہیں ’’ ایمان کے دو حصےہیں ایک صبر اور دوسرا شکر ۔ایک مومن ان دونوں کا حریص ہوتا ہے اور ان دونوں کو تھامے ہوئے دین کی راہوں پر چلتا ہے۔ بے صبری دکھانے والا مایوسی…
انسان دنیا میں جو بھی کوشش، محنت کرتا ہے اس کی بنیادی وجہ خوشی کی تلاش ہوتی ہے ۔ یہ خوشی آخر کیا جذبہ ہے؟ اس کی وضاحت سے شاید سبھی مطمئن نہ ہوں کیونکہ خوشی کی اقسام انسانوں کی طرح مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک نارمل انسان کی خوشی کا تعلق اپنی زندگی کے مقصد سے منسلک ہوتا ہے اگر مقصد ہی غیر فطری ہوگا تو خوشی حاصل کرنے کے سارے پیمانے غلط ہوں گے نتیجتاًخوشی بھی بے مقصد نا پائیدار اور منفی ہوگی ۔
سچی اور پائیدار خوشی حاصل کرنے کے لیے سچے اور پائیدار جذبے درکار ہوتے ہیں اور سچے جذبے انسانیت کا شعور رکھنے والے انسانوں میں ہوتے ہیں ۔
تکبر کے ساتھ مال و دولت کے انبار ،اقتدار کی اعلیٰ مسند ، حسن و وجاہت کا مجسمہ ہوجانا سچی خوشی کی ضمانت نہیں ہو سکتے البتہ گزارے لائق وسائل زندگی کے ساتھ وسیع القلبی، عاجزی و انکساری بے بہا سچی خوشی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں سچی خوشی کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ اپنا انسان ہونا یاد رہے اور بحیثیت انسان سب کا برابر ہونا کبھی نہ بھولے ۔
کیا ہم واقعی خوش ہیں ؟
اپنے آپ سے ،اپنے شریک حیات سے ،اپنی اولاد…
حکومت کی طرف سے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بنائے جانے پر کافی شور مچا ہؤا ہے۔ میں نے اس اتھارٹی کے متعلق مجوزہ ڈرافٹ نہیں پڑھا۔ حکومتوں کی طرف سے عموماً میڈیا کو قابو کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے اب بھی یہی ہو رہاہو لیکن میری رائے میں اگر میڈیا اپنی خوداحتسابی نہیں کرتا، ذمہ دارانہ صحافت نہیں کرتا، اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کا خیال نہیں رکھتا تو پھر کوئی دوسرا یعنی جس کا زور چلے گا اس پر اپنی مرضی کے قواعد مسلط کر کے اس کو قابو کرنے کی کوشش کرتا رہے گا جس کی وجہ سے ذمہ دارانہ صحافت ہی کو دراصل مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صحافی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گزشتہ پانچ چھ سال پاکستانی صحافت کے لیے بہت مشکل رہے، طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا رہا اور کچھ ایسے قومی نوعیت کے سنجیدہ معاملات تھے جن پر لکھنا اور بولنا تقریباً ناممکن رہا۔ لیکن اس کے برعکس غیر ذمہ دارانہ صحافت کی بات کی جائے تو وہ مادر پدر آزاد سی ہو گئی۔ صحافت کو دیکھیں تو جس کا جی چاہا دوسرے پر جھوٹے الزامات لگا دیے، کسی کی بھی پگڑی اچھالنا…
قارئین کرام!یوم آزادی کا مہینہ اور نئے اسلامی سال کا آغاز ہے۔ اس دعا کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں ایک صحیح معنوں میں آزاد ،خو دمختار اور اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے والی قوم بنائے،جو بانیان پاکستان کے خوابوں کی تکمیل، دنیا میں باعث عزت و وقارہو، آمین۔
اس بار بارشوں کے نتیجے میں سیلابوں نے دنیا میں کئی حصوں کو متاثر کیا ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ تباہی اور جانی نقصان جرمنی میں ہؤا۔بھارت میں مہاراشٹر بہت بری طرح متاثر ہؤا۔یہاں تک کہ اس غیر متوقع آسمانی آفت کے آگے چین بھی اپنی تمامتر پھرتیوں سمیت بے بس ہو گیا۔ ہم تو ویسے ہی اللہ کے حوالے ہیں ، اسلام آباد کا ایک سیکٹر ڈوب گیا تو کوئی حیرانی نہیں۔ موسموں کی شدت اور تباہ کن بارشوں کا تعلق کرہ ارض پرموسمیاتی تبدیلی سے ہے۔پہلے کہیں صدی بھر میں جو واقعات پیش آتے تھے اب معمول بن گئے ہیںاور موسم کا غیر متوقع روپ ہی اب متوقع موسم ہونے لگا ہے۔ ڈیولپمنٹ کے نام پربلا امتیاز ہر جگہ آباد کاری اور انسانی سرگرمی ، ٹیکنالوجی کا اندھادھند استعمال زمینی ماحول کے قدرتی توازن کو بہت حد تک خراب کر چکا ہے۔ بے شمار سائنسی تحقیق…
صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔وہ ایسا باہمت ہو ہر مشکل کا مقابلہ کرے، نہ مصیبت کو دیکھ کر دل ہار جائے، اور نہ جزع فزع کرنے لگے، بلکہ صبر ،مصابرت اور تحمل اور برداشت سے کام لے، اور حق کو مضبوطی سے تھام لے۔امت ِ مسلمہ کو پوری دنیا کے سامنے حق کی گواہی پیش کرنے کا منصب سونپا گیا ہے، اسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دولتِ صبر سے مالا مال ہو۔
ایمان کے دو حصّے ہیں، ایک صبر اور دوسرا شکر۔ مومن ان دونوں کا حریص رہتا ہے،اور وہ ان دونوں کو تھامے ہوئے رب کی راہوں پر چلتا ہے اور اس کی زندگی صبر و شکر کا مجموعہ بن جاتی ہے۔صبر ایسی سواری ہے جو سوار کو اوندھے منہ نہیں گراتی، اور مشکلات میں سیدھا کھڑا رکھتی ہے۔وہ ایسا لشکر ہے جو پسپا نہیں ہوتا، اور ایسا قلعہ ہے جو مضبوط ہے۔صبر کے ساتھ نصرت ملتی ہے اور کرب کے بعد فراخی میسر آتی ہے۔اور تنگی کے ساتھ آسانی ملتی ہے، زندگی کی مشکلات اور مصائب میں صابرین ہی کامیاب ہوتے…
قارئین کرام! حج کا مبارک مہینہ شروع ہونے کو ہے ۔ ان دنوں حجاج کے قافلوں کی تیاری ،روانگی اور رونقیں عروج پر ہوتی تھیں۔ ابھی تک محدود پیمانے پر ہی حج کا دوبارہ آغاز ہو سکا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیرو عافیت رکھے تو انشا ء اللہ اگلے سال معمول کی سرگرمی ہو گی۔
گھوٹکی میں ہونے والے ریل کے حادثے میں بہت سا جانی نقصان ہؤا۔ اللہ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر دے۔ دنیاجبکہ تیز رفتار ٹرینوں سے بھی بڑھ کر سپر سونک مقناطیسی ٹرینوں کو ممکن بنارہی ہے ، ہم ابھی تک دو صدی پرانے انگریز کے دیے نظام کو ہی گھسیٹ رہے ہیں بلکہ اسے بھی ٹھیک سے سنبھال نہیں پارہے۔ آج کے دور میںمعاشی ترقی کے منصوبے معیاری ریلوے کے نظام کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔موجودہ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی۔ ریل حادثے کے وقت عوامی جذبہِ خدمت کی بہترین مثالیں سامنے آئیں۔’’الخدمت‘‘ ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے پہنچی، اردگرد کے علاقوں سے لوگوں نے رضاکارانہ پہنچ کر مصیبت میں پھنسے ہوئے مسافروں کی ہر ممکن خدمت کی۔ ہم عموماً معاشرتی بگاڑ اور بے حسی کا رونا روتے ہیں مگربے لوث جذبوں کے یہ مظاہر اس…
اسلام میں انصاف کی تلقین کی گئی ہے۔ انصاف راست بازی اور سچائی ہی کی عملی شکل ہے۔اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص سے وہ معاملہ کیا جائے اور اس کے بارے میں وہ بات کہی جائے جس کا وہ مستحق ہو۔انصاف ہر انسان کا حق ہے اور بحیثیت انسان اسے ملنا چاہیے۔ قرآن ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جانب رہنمائی کرتا ہے، جہاں ایسی عالمی دعوت اور تحریک برپا کی جائے جو کسی گروہ، قبیلے اور کسی نسل کی طرف دار نہ ہو۔ اس دعوت میں اجتماعی رابطے اور تعلق کی بنیاد کسی عصبیت اور قومیت پر نہ ہو۔اور ان تعلیمات اور اصولوں پر افراد ِ اقوام اور امم کو پورا بھروسہ ہو۔ یہ ایسا عادلانہ نظام ہو، جو کسی کی خواہش سے متاثر نہ ہو۔ رشتہ داری اور اقربا پروری کا اس میں نام بھی نہ ہو۔ امیر و غریب کے لیے یکساں ہو، اور قوی اور ضعیف کے حقوق اس میں برابر ہوں۔ یہ عدل اپنی راہ میں سیدھا چلے اور اس میں سب کے لیے ایک ہی معیار اور ایک ہی پیمانہ ہو۔
انصاف کے معنی
انصاف کا مادہ ’’ن ص ف‘‘ ہے، اور یہ فعل متعدی ’’انصف‘‘کا مصدر ہے۔ اس کے معنی ہیں’’کسی کو کسی…
عرب کے صحرا میں اسلام کا سورج پوری آب و تاب سے چمکا اللہ تعالیٰ کی بھٹکی ہوئی مخلوق اپنے اصل مرکز پر جمع ہو گئی ۔ اسلام کے عقائد و اعمال اور شریعت کے اصول و فروع مکمل ہو گئے۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آگیا اور سارے عالم کی رہنمائی کے لیے ایک پاکیزہ جماعت تیار ہو گئی تو اللہ کا فرمان نازل ہؤا ۔
’’ جب خدا کی مدد آگئی اور (مکہ) فتح ہو چکا اور آپ ؐ نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں ۔ آپ ؐ خدا کی حمد کی تسبیح پڑھیں اور استغفار کریں اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘(سورہ نصر)۔
اس صورت کے نزول سے حضور اکرم ؐ سمجھ گئے کہ رحلت کا وقت آگیا ہے ۔ اس لیے ضروری تھا کہ شریعت اور اخلاق کے تمام سیاسی اصول مجمع عام میں پیش کر دیے جائیں ۔ ہجرت کے بعد ایک مدت گزر گئی تقریباً9سال ہو چکے تھے مگر آپؐ نے فریضہ حج ادا نہیں فرمایا تھا ۔ چنانچہ ذی القعدہ 10ھ میں اعلان ہؤا کہ حضور اکرم ؐ حج کے ارادے سے مکہ تشریف لے جا رہے ہیں ۔ اس خبر کے…
رفاہی کاموں کی ابتدا
رفاہی کاموں کی ابتدا تو در حقیت اُسی دن سے ہوئی ہے جس دن حضرت انسان (آدم علیہ السلام)نے دنیا میں زمین پر پہلا قدم رکھا اور اسے متعدد اشیاء کی ضرورت ہوئی ۔ چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، لہٰذا اسے ضروریات زندگی کی تلاش ہوئی ۔ اس کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اشیاء کا علم اور اس کے نام بتا دیے تھے ۔ لہٰذا اس نے وہ بتائی ہوئی چیزیں تلاش کرنی اور جمع کرنی شروع کردیں ۔
اس عمل میں اسے تعاون اور امداد کی ضرورت ہوئی اور اس نے کسی سے امداد لی اور کسی نے امداد دی تو اس طرح باہمی تعاون کی ابتدا ہو گئی ۔ سماجی مسائل کی ابتدا کے بارے میں ایک اقتباس پیش ہے ۔
’’سماجی مسائل ہر سماج ( معاشرے)میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے بغیر سماج کا تصور نہیں کیاجا سکتا اور یہ سلسلہ زمانہ دراز سے جاری و ساری ہے ۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انسان اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کرتا رہا ہے جو وقت اور حالات کے لحاظ سے بدلتی رہیں ہیں اس طرح سماجی خدمات زمانۂ قدیم سے ہر سماج کا جز لازم رہی…
مبارزت ہے
لعینِ دوراں! مبارزت ہے
(مگر کدھر سے؟)
گھرے ہوئے غم زدہ نگر سے
نہیں وسیلہ جنھیں میسر
نہ کوئی سامانِ جنگ حاصل
جو اپنے گھر میں ہوئے ہیں بے گھر
جو رزم گاہوں میں ہیں مسلسل
ادھورے پن میں بھی ہیں مکمل
نہتے لوگوں کے دستِ بےکس میں
سنگ پاروں کا اسلحہ ہے
یقیں کی دولت سے جو غنی ہیں
خدا کی الفت کے جو دھنی ہیں
قسم خدا کی وہی جری ہیں
زمینِ اقدس میں پھر
مقدس لہو کی خوشبو بسی ہوئی ہے
شہادتوں کی صدا ہے لیکن
امید فتحِ مبیں ہری ہے
دریدہ جسموں کے زخم گننا ہے گرچہ مشکل
رقم اسی میں ہوئی ہے وجہِ شکست باطل
بلکتے چہروں پہ جیسے ٹھہری نویدِ منزل
غم وستم سے جو ہیں شکستہ
قیامتوں سے نہیں وہ پسپا
صداقتوں میں نہیں وہ تنہا
مگر حمایت کا سارا لشکر
کبھی تو پہنچے بیاں سے آگے
وہ کاروانِ سپہ کے رہبر
جو سرفروشی کا اک حوالہ بنے ہوئے ہیں
ازل کے دشمن کی دل دہی کوجوصف بہ صف تھے
یہ دردِ عالم کا مسئلہ ہے،بتا رہے تھے
اِدھر بھی دیکھیں سنہرا گنبد
ہمارے خطے کی حرمتوں سے
بھرم کی تجدید مانگتا ہے
ہمارے پرچم کی رنگتوں سے
عمل کی تصدیق مانگتا ہے
سوال امت کےرہنماؤں سے کررہاہے
کوئی تو ایوان ہو جہاں بیٹھ کر یہ سوچیں
نہ سنگ بازوں کے کام آیا
تو اسلحہ پھر کہاں کھپے گا
سپاہیوں کا چٹان لشکر یونہی رہے گا
بچایا اس کو تو کیا…
میں نے کوئی پندرہ سولہ سال کے ایک لڑکے کو پہلی دفعہ مسجد میں دیکھا تو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ ہمارے اس وسیب کے تقریباً سبھی گھرانوں سے ہمارا پڑوسیوں جیسا معاملہ ہے اور اس لڑکے کو میں نے اب تک کیوں نہ جانا ! جب غوری صاحب نے اپنے نوافل ختم کیے تو میں نے ان سے اس لڑکے کے متعلق پوچھا وہ کہنے لگے بھٹی صاحب کے ہاں ایک خاتون کام کرتی ہے یہ اس کا بیٹا ہے اور بھٹی صاحب از راہ ِ کرم فرمائی اس لڑکے کو اپنے بیٹے مظہر کے ساتھ سکول بھیج رہے ہیں تاکہ یہ بھی ایک اچھا طالب علم بنے اور کل کو یہ اس قابل ہو جائے کہ اس کی والدہ کو لوگوں کے گھروں میں نوکری نہ کرنی پڑے ۔
پھر جب اس کی والدہ بھٹی صاحب کے ہاں سے نیاز کے چاول لیے ہماری بیٹی کے گھر آئی تو میں نے نزہت بیٹی سے اس خاتون کے بارے میں پوچھا ۔ مجھے اس خاتون کی دکھ بھری کہانی سنا دی گئی ۔ یہ خاتون ایک ایسے ایڈیشنل کمشنر کی بیوی ہے جس نے شہر کی ایک گریجو ایٹ لڑکی سے شادی کرلی ہے اور اس بے چاری کو…
لوبان کی مسحور کن مہک مہمان خانے سے نکل کر بنگلے کے بیرونی گیٹ سے پار پھیل چکی تھی ۔جمعرات کے روز عقیدت مند خواتین کا جم غفیر ماہ پارہ بانو کا خصوصی درس سننے کے لیے جمع ہو چکا تھا ۔
ماہ پارہ بانو گزشتہ بارہ سال سے اپنے وسیع وعریض بنگلے میں دروس کی محافل سجاتی آ رہی تھیں۔خوش لباس،خوش گفتار اور نفیس ذوق کی حامل ماہ پارہ بانو کو اللہ تعالیٰ نے غضب کی سلاست اور انداز بیان عطا کیا تھا ۔ درس شروع کرتیں تو پورے مجمع پر سناٹا چھا جاتا ۔سیکڑوں احادیث و واقعات انہیں ازبر تھے ۔اپنی شیریں آواز میں جب وہ سیرت رسولﷺ بیان کرتیں تو حاضرین محفل کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔انبیا ء کے قصے ‘ اسلا می تاریخ،حالات حاضرہ الغرض معلومات کا لامحدود خزانہ ان کی یاداشت میں محفوظ تھا اور اپنے دروس میں وہ اس کااستعمال بہت ذہانت سے کرتیں ۔مالی مدد کے علاوہ گرمیوں سردیوں اور عید تہوار پر غریب خواتین کے لیے کپڑے بھی تقسیم کرتیں ۔
ان کےشوہر رضی صاحب معروف رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مالک تھے ۔سوجھ بوجھ اور تیز قسمت کی بدولت ان پر چاروں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں کی مثال صادق آتی تھی ۔بڑا…
’’کیا ہؤا تم کو۔۔۔ ۔ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟‘‘ عمارہ نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ امی ! میں یہ کپڑے نہیں پہنوں گی۔‘‘
’’یا اللہ اب کیا خناس سمایا ہے تم میں، کیوں نہیں پہنوگی؟ بابا تیار ہوچکے ہیں، دیر ہو رہی ہے، مجھے باتیں سنواؤگی، مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔ تمہاری ہی تو پسند کا کلر ہے؟‘‘ جھنجھلائی ہوئی عمارہ نے ہاتھ پکڑ کر ہالہ کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’فوراً یہ کپڑے پہنو اور تیار ہوجائو، میں یہیں کھڑی ہوں۔‘‘
’’جب میں نے کہہ دیا کہ میرے لیے بغیر آستین کی قمیص نہ سلوایا کریں مجھے نہیں پہننی تو کیوں سلوائی آپ نے، نہیں جانا مجھے۔۔۔۔ آپ لوگ جائیں۔‘‘ بارہ سالہ ہالہ نے ضدی لہجے میں کہا۔
ارے تو تم کو کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں گی، اور پھر وہاں تمہاری دادی کو کیا جواب دوں گی کہ کیوں نہیں لائیں بچی کو، کس کے پاس چھوڑ آئی ہو، چاچا کے گھر کی شادی اور تمہارا یہ عین وقت پر نیا ڈرامہ۔ اب سیدھی طرح پانچ منٹ میں تیار ہوکر باہر آجاؤ ورنہ تم جانتی ہو، میرا ہاتھ اٹھ جائے گا تم پر، جان عذاب میں آگئی، پینٹ نہیں پہننی، ٹی شرٹ نہیں پہنو گی، اب یہ اسٹائلش قمیص شلوار سلوایا تو اس…
مسز جلیل عالی شان کوٹھی میں دوسری منزل کے ایک سجے سجائے بیڈروم کے بیڈ پر آج کی خریداری کے تمام لوازمات انڈیلے بیٹھی تھیں۔چاروں بچے اپنے اپنے بیڈ رومز سے بہت دفعہ بلانے کے بعد آئے تھے۔کسی کے کان میں ہیڈفون لگا ہےتو کسی کے ہاتھ میں موبائل اور کوئی انگڑائیاں لیتا ہؤا چلا آ رہا ہے۔لیکن عید کی شاپنگ کا سامان دیکھتے ہی سب کی سستی جاتی رہی،بھاگ کر چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔
’’اوہ ماما یہ کلر تو فرحان چچا کے بیٹے نے بھی لیا ہے۔تو کیا اب میں اس جیسا کلر پہنوں گا ماما سائز تو ٹھیک ہے لیکن کلر چینج کرادیجیے‘‘ سب سے بڑے بیٹے نے تبصرہ کیا۔
’’مام !شرٹ کا سائز اور کلر تو مجھے پسند آگیا ہے مگر پینٹ کا کلر کچھ میچ نہیں کرتا مام پلیز اس کو چینج کروا دیں‘‘چھوٹے کی بھی تسلی نہیں تھی۔
’’اووو ں ں……ممی یہ تو پرانی ڈیزائننگ لگ رہی ہے پچھلے سال کی۔لگتا ہے کہ مارکیٹ میں پرانا مال بک رہا ہے‘‘لاڈلی مریم نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’تو ساتھ چلتے خود اپنی مرضی کی شاپنگ کرلیتے سب…… اتنی محنت سے خریداری کی ہے میں نے اور تم لوگ ہو کہ ایک جھٹکے میں ہی سب کچھ ریجیکٹ کر…
وہ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں آگئی تھی ۔گلے میں ڈھیلا سکارف تھا، جینز اور اسٹائلش سا کرتا ،پاؤں میں جوگرز۔ بالوں کو سمیٹ کر اونچی پونی کی شکل دی ہوئی تھی۔ میک اپ سے بے نیاز چہرہ یا شاید کوئی نیچرل سی لپ اسٹک لگی تھی جومجھے دور سے نظر نہیں آرہی تھی۔کافی خوبصورت لگ رہی تھی وہ……..اپنے گروپ کے ساتھ تھی، دو لڑکے اور تین لڑکیاں……..یہ کلاس کا سب سے اچھا گروپ تھا ہر طرح سے ……..پرسنیلٹی میں بھی اور پڑھنے میں بھی۔
وہ کسی بات پر ہنسی اور ہنستے ہوئے نظر مجھ پر پڑی تومسکرائی اور ہاتھ ہلایا۔ میں نے ویسی ہی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلایا اور نظریں اس پر سے ہٹا لیں-
اسے دیکھنا مجھے ہمیشہ سے ہی اچھا لگتا تھا لیکن ایسا نہیں تھا کہ میں اس سے متاثر تھی ۔وہ مجھ جیسی ہی تو تھی۔ ہم دونوں ہی پڑھنے میں اچھے تھے ۔میں اگر اس جتنی خوبصورت نہیں تھی تو کم بھی نہیں تھی۔ شہر کے اس مہنگے بزنس انسٹیٹیوٹ میں آکر میں نے بھی اپنے آپ کو مینٹین کر لیا تھا۔ ہاں کمی تھی تو ایک اس جیسی بے نیازی مجھ میں نہیں تھی۔ وہ اچھی اور پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس…
میرٹھ کینٹ میں چائے کاکپ پی کر سب قیدی سستانے لگے تھے۔ کافی دنوں کے انتہائی تکلیف دہ سفر کے بعد یہ چائے کا ایک کپ اُن کے لیے گویا ایک راحت اور سکون کا باعث تھا۔ ہمیں چٹا گانگ بنگلہ دیش ( سابقہ مشرقی پاکستان ) کی بندر گاہ سے کلکتہ (بھارت) بندرگاہ تک بھیڑ بکریوں کی طرح ایک کارگو جہاز میں لا د کر لایاگیاتھا۔ وہاں سے ٹرین کے ذریعے میرٹھ پہنچایاگیا جس میں مزید تین سے چار دن لگ گئے تھے۔ ابھی ہم سب چائے پی کر تھوڑا سستانے لگے تھے کہ حکم ہؤاکہ سب لائنوں میں کھڑے ہوجاؤ۔ چار و ناچار سب لائنوں میں کھڑے ہوگئے۔ بھارتی فوجیوں نے تعدادپوری کرنے کے لیے کئی بار گنتی کی پھر جا کر انھیں تسلی ہوئی کہ نفری پوری ہے۔
میرٹھ چھاؤنی کے کیمپوں میں
میرٹھ کینٹ برصغیر میں برٹش انڈیا دور کی ایک بہت بڑی چھاؤنی ہے۔ اس چھاؤنی کو مختلف کیمپوں میں تقسیم کیاگیاتھا جیساکہ میرٹھ کیمپ نمبر۱،۲،۳وغیرہ ۔ ہر کیمپ میں پانچ سے چھ بڑی بڑی بیرکیں تھیں۔ ہمارے کیمپ میں پانچ بڑی بیرکیں تھیں، ہر بیرک کو خار دار تاروں سے ایک دوسرے سے الگ کیاگیاتھا۔ خار دارتاروں کے کئی سلسلے تھے اور اس طرح خار دار…
میری نانی جن کو ہم اماں جان کہتے تھے ایک خاموش طبع ، انتہائی صابر، ہر وقت ذکر اذکار میں مصروف اللہ والی خاتون تھیں۔ کوئی جو بھی کہے وہ بس خاموشی سے مسکرا دیتیں۔سنا تھا کہ جب ساس اور نند یں اماں جان پر غصہ ہوتیں تو وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر ذکر شروع کر لیتیں۔
اماں جان صاحبزادہ عبدالقیوم خان ( بانی اسلامیہ کالج پشاور) کی بھتیجی تھیں۔
پہلا نواسا ہونے کی وجہ سے میں ان کی توجہ اور محبتوں کا مرکز رہا اور اکثر وہ مجھ سے اپنی زندگی کی کہانیاں شئیر کرتیں۔ ہم دونوں ایک اچھے رازدار اور غم خوار دوست بن گئے تھے۔مجھے ویسے بھی بزرگوں سے بڑا لگاؤ رہا ہے۔ کتابوں سے زیادہ بزرگوں کو پڑھنے کا شوق رہا۔ وہ مجھے علم و تدبر سے بھری معصوم گڑیاں سی لگتیں۔ اب یہاں بھی مختلف کلچر اور مذاہب کے بزرگوں سے یاری بنائی ہوئی ہے۔
اماں جان( نانی صاحبہ) نو سال کی تھیں جب ان کےوالد صاحب فوت ہوگئے پھر ان کی اور ان کے دو بھائیوں کی پرورش صاحبزادہ صاحب نے کی۔ وہ ان تینوں بچوں سے بہت پیار کرتے اور نانی کے بقول بازار والوں کو حکم تھا کہ یہ جولینا چاہیں ان کو…
’’لہور لہور اے‘‘ کا احساس قلب و جان پر حاوی تھا۔ زندہ دلانِ لاہور نے ادبی لوگوں سے ملاقات کروا کے میرا لہو گرما دیا تھا اور خلوص و محبت کی جو پوٹلیاں ہر فرد اور ہر گھر سے حاصل ہوئی تھیں ان کو رکھنے کے لیے دل میں بھی خود بخود وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ دل محبتیں پا کر کیسے کھِل جاتا ہے… جیسے ننھی سی کلی پھول بن جاتی ہے! اور مجھے لاہور کو الوداع کہنا تھا۔ میرا اگلا سٹاپ مری تھا۔
میرے شوہر نے فون پہ ہدایت کی (جو کہ خود مری میں تشریف رکھتے تھے) ’’لاہور سے بس پکڑو اور پنڈی فیض آباد پہنچو، وہاں سے وین لو جو کہ چند قدم کے فاصلے سے مل جائے گی اور بس آرام سے مری آ جائو‘‘۔
ان کی حاکمانہ سی معلومات کو سنتے سنتے میں نے فیض آباد بس سٹاپ پر دو بیگ اٹھائے چند قدم چلنے کا تصور کیا اور کہا۔
’’میں اس بس پہ آئوں گی جو سیدھی مری آتی ہو گی‘‘۔
ان کی طرف سے بہادری کے جذبات کو ابھارنے او رعورت کی کمزوری کا احساس دلانے والے لہجہ میں ارشاد ہؤا۔
’’مرد بنو‘‘۔
میں نے مردانہ زندگی کی ناہمواریوں کا سوچا اور کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں مرد بن جاتی…
سال نو کا آغاز اس لحاظ سے خوشگوار رہا کہ حریم ادب کراچی کی فعال ٹیم نے اپنی قلم کار بہنوں اور پڑھنے لکھنے کی شیدائی خواتین کے لیے حسبِ روایت ، جاتے جاڑوں کی ایک دلفریب سہ پہر کو الخدمت کے نرم گرم خوبصورت گوشے میں مدیرہ بتول محترمہ صائمہ اسما کے ساتھ ایک محفل دوستاں سجالی ، جہاں ثمرین احمد نے ان سے بہت سی باتیں کیں ، ماہنامے کے بارے میں ، کتب بینی اور اشاعت کے بارے میں، اچھی تحریر کے لوازم کے بارے میں۔ حاضرین جن میں کراچی کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی لکھاری خواتین اور کئی نو آموز قلم کار بھی موجود تھیں، دلچسپی سے سنتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے۔
ماہنامہ بتول کے اغراض و مقاصد سے حاضرین محفل کو روشناس کرواتے ہوئے صائمہ اسما صاحبہ نے بتایا کہ ادبی رسالہ چمن بتول اس وقت ملک کا واحد رسالہ ہے جوبلاتعطل 1957سے اپنی اشاعت کے مراحل کامیابی سے طے کر رہا ہے ۔ جس وقت بتول کا اجرا ہؤا اگرچہ کئی رسائل شائع ہو رہے تھے لیکن ان میں خواتین کے لیے ایسے مواد کی کمی تھی جو ادب اور ذہنی تفریح کے ساتھ ساتھ درست سمت میں رہنمائی بھی کرے۔نیز گھریلو خواتین…
ویکسین لگوا کر پہلا دن تو اچھا گزر گیااور ہم خوش رہے کہ سب ٹھیک جا رہا ہے۔ دوسرے دن اس قدر تھکاوٹ کہ لگ رہا تھا پورا جسم ٹوٹ گیا ہے۔ سر تک کمبل لے کر لیٹنے سے بے حد سکون مل رہا تھا۔ اسی حالت میں ہسپتال گئے، کلینک کیا اور شکر کیا کہ گھر آ کر بستر پر لیٹ گئے ہیں۔ تیسرے دن الحمدللّٰہ طبیعت بالکل ٹھیک تھی۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ہر ایک کا ویکسین کے بعد مختلف ردعمل تھا۔ کچھ ہفتوں تک ہمیں چکر بھی آتے رہے، جن میں سے ایک آدھ تو گھبرانے والا بھی تھا۔ اس کے بعد سب کچھ معمول پر آ گیا۔
غم اور خوشی زندگی کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔ سعودی عرب میں رہائش کے دوران مختلف قوموں کو ان دونوں کیفیتوں سے گزرتے دیکھا۔ سعودی اپنی معاشرتی زندگی میں اسلام کے پابند ہیں۔ اسلام کا آغاز بھی اسی خطے سے ہؤا ہے اس لیے اسلام کی کئی چیزیں بیان کرتے ہوئے ان کی معاشرت کا ذکر آیا ہے جیسے اونٹ، صحرا، پہاڑ، عربی تمثیلات، کھجور، وغیرہ۔ ان کے ہاں غم بہت سادا ہے۔ جو بھی ہو جائے یہ عموماً اس پر جزع فزع نہیں کرتے۔ اللہ کا حکم سمجھ کر…
زندگی میں کبھی کبھی بہت ہی ناقابل یقین غیر متوقع طور پہ انسان ایسے مقام پہ آجاتا ہے جب وہ اپنے اندر کی جان لیوا اذیت کو لفظوں میں نہیں ڈھال سکتا۔
جب وہ اپنی داستان کسی کو نہیں سنا سکتا…… اپنے پیاروں کو نہیں، عزیز و اقارب کو نہیں، حتیٰ کہ شیشے میں سامنے کھڑے اپنے عکس کو بھی نہیں۔ اپنے آپ کو سنانے کی بھی ہمت نہیں پاتا۔ زمانے بھر میں اپنے کمائے ہوئے اعتماد اور عزت نفس کے نازک آبگینے کو کرچیوں میں بکھرا نہیں دیکھ سکتا۔ عمر بھر کی مشقت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نیک نامی داغدار نہیں دیکھ سکتا۔ وہ انسان کہیں بھی کوئی بھی ہو سکتا ہے، وہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ جب اذیت ناک کشمکش توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔ جب زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں، ہمت جواب دے جائے، جب اذیت جان لینے کے در پے ہو جائے اور اس کا وجود بھی خوف سے لرزا دے، نہ جیا جائے اور نہ ہی مرا جائے۔
سوال ایسی کیفیت طاری ہونے کا نہیں……سوال یہ ہے کہ یہ کیفیت کس وجہ سے ہے۔ دراصل ہر انسان کی شخصیت اپنے رویے، جذبات اور ردعمل کی وجوہات پہ اپنی شناخت کرواتی ہے۔
غصہ ور…
کرامت بخاری ۔ لاہور
آپ کا جریدہ ادب ’’بتول ‘‘ حسب روایت باقاعدگی سے معیار وقار اور اعتبار کی منزلیں طے کر رہا ہے ۔ اس کی ترتیب ، تدوین ، تزئین ، تشکیل ، ترسیل اور توازن اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ ہمارا نسائی شعری ادب اورنثری ادب ، مذہبی ثقافتی شعور اور تہذیبی شعور بتدریج ارتقائی منازل پہ ہے ۔ آپ کے ذمہ انتہائی اہم شعبہ ہے، 50فیصد آبادی کو تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی پہلوئوں سے مضبوط مربوط اور متوازن افکار سے مالا مال کرنا ۔ مغربی مادر پدر آزادی بلکہ بے را ہ روی کو روکنا کوئی معمولی کام نہیں ۔ اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ طویل غیر حاضری پر معذرت خواہ ہوں ۔ تین چار غزلیںروانہ کر رہا ہوں اپنی سہولت کے مطابق جگہ عنایت کر دیں اللہ آپ کو صحت اور تندرستی سے رکھے محترمہ نجمہ یاسمین کی غزلیں نظر نہیں آئیں اللہ انہیں صحت سے رکھے ۔٭
نسیم راشد ۔کراچی
مارچ 2021 کا شمارہ پڑھا۔ اداریہ میں عورت مارچ کے حوالے سے بہترین تجزیہ کیا اور مدلل اور ٹھوس تجاویز دیں۔
عبدالمتین صاحب نے ’’خوشگوار ازدواجی زندگی کے راہنما اصول‘‘ میں مختصر مگر پراثر انداز میں شوہر وبیوی دونوں کی رہنمائی کی…
ممتا بنرجی نے تیسری بار مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کر دیا‘ یہ بھارت کی تاریخ میں 15 سال مسلسل سی ایم رہنے والی پہلی سیاست داں ہوں گی‘ ممتا جی انڈیا کی طاقتور ترین اور دنیا کی سو بااثر ترین خواتین میں بھی شامل ہیں اور یہ دنیا کی واحد سیاست داں بھی ہیں جو سیاست داں کے ساتھ ساتھ گیت نگار‘ موسیقار‘ ادیب اور مصورہ بھی ہیں۔
یہ 87 کتابوں کی مصنفہ‘ سیکڑوں گیتوں کی شاعرہ اور تین سو بیسٹ سیلر پینٹنگز کی مصورہ بھی ہیں اور یہ ہندوستان کی پہلی سیاست داں بھی ہیں جس نے سادگی اور غریبانہ طرز رہائش کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کو شکست دے دی ‘ یہ بنگال میں ’’دیدی‘‘ کہلاتی ہیں اوردُنیا میں کامیاب سیاست کی بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں‘ ممتابنر جی نے کیا کِیا اور یہ کیسے کیا؟ ہم اس طرف آئیں گے لیکن ہم پہلے اس خاتون کا بیک گراؤنڈ جان لیں۔
ممتا بنر جی1955 میں کولکتہ میں پیدا ہوئیں‘ والد چھوٹے سے سیاسی ورکر تھے‘ والدہ ہاؤس وائف تھیں‘ یہ چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں‘ والد فوت ہو گئے‘ خاندانی برہمن ہیں‘ چھوت چھات کے پابند ہیں‘ ممتا کالج پہنچیں تو اسلامی تاریخ سے متعارف ہوئیں…
فہرست
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
وحیِ الٰہی کا مختصر تعارف
عبد المتین
وعدہ پورا کرنے کی اہمیت
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
اسرائیل فلسطین تنازعہ
تزئین حسن
نعت
نجمہ یاسمین یوسف
غزل
حبیب الرحمن,عزیزہ انجم,اسامہ ضیا بسمل
غزہ کے پھول
شہلا خضر
آخرِ شب
بشریٰ ودود
آرگینک
سلمان بخاری
ایک ڈیلیٹڈ ای میل کا جواب
اسد محمود خان
جنگی قیدی کی آپ بیتی(5)
سید ابو الحسن
مَنور گلی کا آدھا چاند
صائمہ اسما
پر سکون نیند ایک عظیم نعمت ہے
فریدہ خالد
زوال کو عروج میں کیسے بدلیں
افشاں نوید
سفر ہے شرط(۲)
ڈاکٹر فائقہ اویس
ہمارا جسم اور اللہ کی نعمتیں
حبیب الرحمن
سپر ائوٹس
محمد سلیم
محشرِ خیال
پروفیسر خواجہ مسعود
سرائیل کا وجود کیسے ممکن ہؤا
آصف محمود
اسرائیل کم از کم منافق نہیں ہے
وسعت اللہ خان
دنیا بدل جائے گی ؟
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
قارئین کرام! عید الفطر سے چند روز پہلے لیلۃ القدر کی تلاش کی گھڑیوں میں اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں موجود نمازیوں پر فائرنگ کی۔اس سے چند روز قبل وہ مشرقی یروشلم میں مسلمانوں کے مکانات پر جبری قبضہ کرنے کا تنازعہ بھی کھڑا کرچکے تھے۔اس کے نتیجے میں مقامی آبادی میں شدید اشتعال پیدا ہؤااور فلسطینیوں نے مزاحمت کا آغاز کیا۔ مگر اس مزاحمت کا کوئی تناسب نہ تھا کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے زندان میں مقید اس آبادی کے مقابل دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی رکھنے والی فوج تھی۔ شہری آبادیوں پر اسرائیل کے جوابی حملوں میںسینکڑوں فلسطینی خاص کربچے شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں ، ہسپتال، سکول اور میڈیا کے دفاتر بھی نشانے پر رکھے گئے۔
اسرائیل جس کا وجود ہی ناجائز ہے کیونکہ وہ فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہے،لہٰذا اپنے اس ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے پاس دہشت گردی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۱۹۴۸ سے اب تک اسرائیل کے جرائم پر نگاہ ڈالی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ملک ہے اور دہشت گردی کی اگر کوئی تعریف ہو سکتی ہے تو وہ ہے جو اسرائیلی فوج…
وحی کی اہمیت
انسان اپنی زندگی میں ان سوالات پر بہت زیادہ غور و فکر کرتا ہے۔
میں کیوں پیدا ہؤا؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات کو کس نے اور کیوں بنایا؟ جب سب ختم ہوجائے گا تب کیا ہوگا؟ زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟
علم کے ذرائع ان تمام سوالات کے جواب کے لئے علم ضروری ہے اور علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔
۱۔ حواس خمسہ
۲۔ عقل
۳۔ وحی
مثلاً بندوق کو دیکھ کر حواس خمسہ کے ذریعےاس کا سائز اور رنگ معلوم ہوتا ہے اور عقل کے ذریعے پتہ لگتا ہے کہ اس کو چلانے سے بندہ مرجاتا ہے۔ لیکن اس بندوق کو کہاں چلانا ٹھیک ہے اور کہاں نہیں یہ علم ہمیں نہ حواس سے ملتا ہے اور نہ ہی عقل سے بلکہ اس کے لیے ”وحی“ کی ضرورت ہے اور وحی ایسا علم ہے جو ایسی چیزوں میں رہنمائی کرتا ہے جہاں حواس اور عقل ناکام ہوجاتے ہیں۔
وحی اور سائنسی علم میں فرق
سائنسی علم کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہے یعنی جب تک کسی چیز کا تجربہ نہ کیا جائے یا آنکھوں سے دیکھا نہ جائے تب تک اس کا اقرار کرنا یا اس کا علم ہوجانا ممکن نہیں۔جبکہ وحی کے علم کی بنیاد ایمان بالغیب پر…
وعدے کا پاس رکھنا اور اسے پورا کرنا یعنی ایفائے عہد انبیا و رسل علیھم السلام کی صفات میں سے اور متقین و صالحین کی نشانیوں میں سے ہے۔ایفائے عہد ربانی ادب ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی وصف اور بلند پایہ اسلامی رویہ ہے۔مسلمان اپنے عہد کی حفاظت کرتا ہے اور اسے پورا کرتا ہے خواہ وہ لکھا گیا ہو یا محض زبانی طور پر کیا گیا ہو۔ مسلمان جب عہد کر لے تو ایفائے عہد لازم ہے، اور یہ بھی اس کے لوازمات میں سے ہے کہ عہد اللہ کی فرمانبرداری کے دائرے میں ہو اور خیر کے کاموں کا ہو، اور اس کی حدود کو توڑنے اور اس کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی نہ ہو ورنہ نہ کوئی عہد ہے اور نہ اس کے ایفاکا تقاضا۔
ایفائے عہد سے مراد عہد و پیمان کی حفاظت کرنا ، وعدوں کو پورا کرنا، اور جس چیز کا وعدہ کیا ہو اسے پوری سچائی اور امانت داری سے ادا کرنا۔ عہد کی پابندی مردوں کا شیوہ اور عظیم لوگوں کی صفت ہے۔رسول کریمﷺ کے مکارم ِ اخلاق میں عہد کی پابندی بدرجہ اولٰی شامل ہے۔رسول اللہ ؐ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی عہد نہیں توڑا۔ قرآنِ کریم میں عہد کے…
بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈسکلیمر: اس مضمون کا مقصد جذبات سے ہٹ کر غیر جانبدارانہ طور پر بین الاقوامی قانون کے تناظر میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے رویہ کا جائزہ لینا، پاکستان اور مسلم دنیا میں اس حوالے سےجو غلط فہمیاں موجود ہیں انکا علمی و فکری ازالہ کرنے کی کوشش ہے
فلسطین کی صورتحال پر پاکستان اور مسلم دنیا کے عوام بہت تکلیف اور کرب محسوس کرتے ہیں اور اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ریلیوں کا یا ان کے حق میں آواز اٹھانے کا کیا فائدہ ہے؟ عالمی اداروں نے تو خود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جنم دیا ہے، وہ کیوں فلسطینیوں کے حق میں کچھ کریں گے؟ انسانی حقوق کی بات کرنے سے کیا ہوگا؟ کیا طاقت کے نشے میں چور اسرائیل ایسی باتوں سے متاثر ہو کر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے پر راضی ہو جائے گا یا انہیں دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کر دے گا؟ غزہ کا محاصرہ ختم ہو جائے گا؟
مسلم دنیا میں اس حوالے سے بجا طور پر بہت شدید مایوسی اور بے بسی کے احساسات پائے جاتے ہیں-اتنا سمجھ لیجئے کے ایسے پیچیدہ عالمی تنازعات صبر کے ساتھ طویل کثیر الجہتی جدوجہد کے…
نظام نو کی طلعت ہے محمدؐ مصطفیٰ کا دیں
ترقی کی بشارت ہے محمدؐ مصطفی کادیں
تمدن کی ہیں داعی جتنی تہذیبیں زمانے میں
انہیںرشد و ہدایت ہے محمدؐ مصطفیٰ کا دیں
اسی دیں نے دیا ہے اجتہاد و فکر کا مژدہ
فراست ہے بصیرت ہے محمدؐمصطفیٰ کا دیں
جہاںکی نیم مردہ زندگی کو سوز نو بخشا
کرامت سی کرامت ہے محمدؐ مصطفیٰ کادیں
بناتا ہے قوی کو ناتواں کا قوتِ بازو
توازن سے عبارت ہے محمدؐمصطفیٰ کا دیں
یہ جس کو مل گئی وہ احسن مخلوق کہلایا
گراں مایہ امانت ہے محمدؐ مصطفیٰ کا دیں
خدا کے بعد ہیںجس کاحوالہ مرتضیٰؐ اس کو
سرِ محشر شفاعت ہے محمدؐ مصطفیٰ کا دیں
نہیں ہے یاسمیںؔ یہ شرط آئیں لالہ وگل ہی
چمن میں سب کو دعوت ہے محمدؐ مصطفیٰ کا
غزل
مسئلہ کوئی بھی ہو حل بڑے آرام سے ہو
کام ہر فرد کو اپنے ہی اگر کام سے ہو
تذکرہ تیری جفاؤں کا بھی لازم ٹھہرا
غم کے ماروں کو دلاسہ مرے انجام سے ہو
عقل ہر درد کا احساس کہاں کرتی ہے
روح انجان اگر اپنے ہی اندام سے ہو
ضبط ایسا ہے کہ ہر صبح فراموش کروں
حوصلہ یہ ہے کہ ہر شام ترے نام سے ہو
بات کرتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر جیسے
رابطہ اُن کے خیالات کا الہام سے ہو
(اسامہ ضیاء بسمل)
غزل
ہو وقت کڑا ڈھال بھی تلوار بھی ہم ہیں
ٹل جائے تو دہشت گر و غدار بھی ہم ہیں
جب دیس پکارے تو ہتھیلی پہ رکھیں سر
اور لائقِ تعزیر و سزاوار بھی ہم ہیں
موقع ہو تو چھوڑیں کوئی مردار نہ زندہ
کہنے کو بڑے صاحبِ کردار بھی ہم ہیں
ہے جس میں مہک آج بھی پُرکھوں کے لہو کی
اس گھر کے شکستہ در و دیوار بھی ہم ہیں
یاروں کیلئے ریشم و کمخاب ہیں لیکن
دشمن کیلئے حیدرِ کرار بھی ہم ہیں
اے آسماں اب تیری ضرورت ہی رہی کیا
اپنے ہی اگر در پئے آزار بھی ہم ہیں
اب عشق مفادات کا تابع ہوا یعنی
اقرار بھی ہم ہیں کبھی انکار بھی ہم ہیں
ہے سلطنت کون و مکاں اپنی اسی کے
ہم تخت بھی ہم تاج بھی دربار بھی ہم ہیں
جرأت ہے کسی…
’’مجھے سب یاد ہے جو آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ کیا۔ میری بیوی کا ذرا خیال نہ کیا۔وہ بے چاری بیمار تھی اور آپ نے‘‘۔
غصہ کے مارے اس کی آنکھیںسرخ ہورہی تھیں۔مریم سخت حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ اس کا بیٹا بول رہا تھا۔
’’آہستہ بولو بیٹا ماسی بھی گھر میں ہے‘‘اس نے بمشکل کہا۔
’’نہیں بولوں گا آہستہ…..ساری دنیا سن لے…..سمیں کسی سے نہیں ڈرتا۔ہر بات میرے دلِ پہ لکھی ہے۔ آپ نے کیا کیا نہیں کیاہمارے ساتھ…..سمیرے بچوں کوکبھی نہیں بلایا کبھی ان کو نہیں سنبھالا‘‘۔
وہ ایسے چیخ رہا تھا کہ اب مریم کو اس سے ڈر لگنے لگا تھا۔ اس کی دھمکیاں،اس کے دعوے…..سب اس کے دلِ پر لگ رہے تھے۔
’’خود کشی کرلوں گا میں۔ختم کردوں گا سب کچھ‘‘۔
’’ارے بیٹا کیا ہو گیا ہے ایسا کیا کر دیا ہم نے….. تمہاری بیوی کی خواہش تھی کہ وہ الگ گھر میں رہے گی تو ہم نے پوری کر دی۔ اب تمہیں اس پر بھی شکوہ ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اب تو یہ بھی کہیں گی آپ۔خود تو اتنے بڑے گھر میں آرام سے ہیں آپ لوگ اور میںایک سو بیس گز کے گھر میں مر رہا ہوں۔کبھی لائٹ نہیں کبھی پانی نہیں‘‘۔
’’بیٹا ہم…
بظاہر وہ سمجھدار انسان تھا۔ملنسار اور خوش اخلاق بھی، مگر جیسے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری اور کمی ضرور ہوتی ہے، مراد میں بھی تھی اور وہ تھی کارو باری سوجھ بوجھ اور فیصلہ سازی کی کمی۔
میرا اور اس کا یارانہ کافی پرانا تھا۔ ہم ایک ہی علاقے میں پروان چڑھے ،ایک ہی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ کالج میں اس نے بزنس پڑھنے کا فیصلہ کیا اور میں انجینئرنگ کی طرف چلا گیا اور ہم دونوں اپنی اپنی فیلڈ میں تعلیم مکمل کر کے زندگی کے عملی مرحلے میں پہنچ گئے ۔ مراد شروع دن سے اپنا بزنس کرنا چاہتا تھا ،والد سے کچھ بحث مباحثہ کر کے کچھ سرمایہ بھی اسے مل گیا،جو سب اس نے امپورٹ ایکسپورٹ میں جھونک دیا مگر ایک دو سال ہی میں کرنسی کی قدر گرنے کے با عث آدھے سے زیادہ سرمایہ گنوا بیٹھا اورافسردہ رہنے لگا ۔
ماضی میں جب بھی اس پر اس قسم کی افسردگی کا دورہ پڑتا تھا تو میں ہی اسے واپس امید کی سیڑھی چڑھانے کی اپنی سی کوشش کرتا تھا ۔ اب بھی جب پہلے بزنس میں اسے بھا ری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے اسے کئی مثالیں دیں کہ کیسے…
’’ ڈیئر آمینا بنت فاتحی!
فیصلہ تو ہو چکا ہے …
ایک فیصلہ جو تم لے چکی ، ایک فیصلہ جو میں نے کیا ہے اور ایک فیصلہ جو اب پوری امت مسلمہ کو کرنا ہوگا ۔ سچ کہتی ہو ! انتظار کی اذیت لمحہ لمحہ کھاتی ہے لیکن ادراک کی دوری ایک لمحے میں سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے ،تم خوش قسمت ہو جو ادراک کی انگلی پکڑ کر چلی ، جبھی تو انگلیوں کے لمس میں پوشیدہ دھڑکن ہی تمہاری دھڑکن ہے جہاں فیصلوں کا ادراک ودیعت کر دیا گیا ہے ۔تم فقظ انتظار کا لمحہ جی رہی ہو لیکن ہمیں دیکھو جو ادراک سے دوری کا ایک لمحہ بیت رہے ہیں ،وہ ایک لمحہ جو زندگی سے دور ، ایک بد تر موت سے قریب کا ہے لیکن نہ میں مرنے کی خواہش رکھتا ہوں اور نہ ہی تمہیں یوں بے رحمی سے مر جانے کی اجازت دوں گا ۔
ٹھہرو! آمینا بنت فاتحی!
ٹھہرو! اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور مجھے اپنے گناہوں کی معافی کا کوئی ایک آخری لمحہ بھی میسر نہ آئے ، مجھے کھل کر بات کرنے دو…مجھے کہنے دو ، وہ سب جو میں تمہاری ای میل سے ضبط کیے بیٹھا رہا…
ابوجان بخیریت واپس ڈھاکہ پہنچ چکے تھے۔ اپنے بڑے بیٹے کے ہاں چند دن قیام کرکے وہ اپنے آبائی گھر چٹاگانگ چلے گئے۔ میرے والد جتنا عرصہ لاہور میں ہمارے ساتھ رہے ہمیں اپناگھر بنانے کی ترغیب دیتے رہے۔ مجھے اور میری اہلیہ کو خاص طور پر نصیحت کرتے رہے کہ زیادہ سے زیادہ بچت کرو اور اپناگھر بنانے کی کوشش کرو۔ آج اُن کی اور ہمارے دیگر بزرگوں کی دعاؤں کانتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے گھر سے نوازا۔ وہ بزرگ اگر آج حیات ہوتے تو ہمارا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دے ،آمین۔
زندگی رواں دو اں تھی ۔ والد صاحب کے جانے کے بعد میں اُن سے بہت زیادہ اداس ہوگیا اور والد صاحب سے ملاقات کے بعد وہاں بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے کو دل بے چین ہوگیا۔ اسی بنا پر میں نے بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کیا ۔ لاہور سے ڈھاکہ کے لیے ٹکٹ لیا اور روانہ ہوگیا۔ ڈھاکہ میں بڑے بھائی نے خیر مقدم کیا ۔ دو دن اُن کے پاس رہا ، پھر بھائی کو لے کر چٹاگانگ گیا جہاں میرے باقی سب بھائی اور اکلوتی بہن رہتے تھے۔ دو…
ء 2005 کے زلزلے سے محض ڈیڑھ ماہ پہلے وادیٔ منور کاغان میں ایڈونچر کا حال
ایڈوانس کیمپ میں ایک رات گزارنے کے لیے ہم روانہ ہوئے تو ہمارے قافلے میں دو ‘‘ ذی روح ‘‘ مزید شامل تھے ۔ ایک گدھا اور ایک گھوڑا ۔ گدھے کے ساتھ ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکا اعجاز تھا ۔ جبکہ گھوڑے والے کا نام تو نجانے کیا تھا ، مگر اس کی شکل بھٹی ( جیکی چن )کے ساتھی بٹ سے بہت ملتی تھی ۔ لہٰذا بچوں نے اس کا اصل نام جاننے کی زحمت ہی گوارانہ کی ۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ دس ہزار فٹ پر واقع منزل پر پہنچنے کے لیے ہمیں تین پہاڑ پار کرنے ہوں گے ۔ پھر چوتھے پہاڑ پر پہنچ کر ڈیرہ ڈالنا ہے اور چونکہ زیادہ تر راستہ شدید چڑھائی کا ہے ،لہٰذا 4سے 5گھنٹے لگ جائیں گے ۔ موجودہ بیس کیمپ آٹھ ہزار فٹ پر تھا ۔ یعنی ہمیں دو ہزارفٹ اور اوپر چڑھنا تھا ۔ اس آخری انجانے پہاڑ کا نام ہم نے کوہ قاف رکھ دیا ۔ ہم سب نے زادِ سفر اپنی پشت پر اٹھا رکھا تھا … ایک ایک رُک سیک جس میں رات بھر کا سامان ، ایک جوڑا کپڑے…
چند رہنما اصولوں کو اپنا کر آپ اپنی نیند کا معیار بہتر کر سکتے ہیں
نیند کیا ہے
رات کو جب انسان آنکھوں کو بند کرکے جسم اور ذہن کو آرام پہنچانے کی غرض سے لیٹتا ہے ایسے میں اس کا شعور عملی طور پر معطل ہو جاتا ہےاور اعصابی نظام نسبتاً غیرفعال ہو جاتا ہے تو اس فطری عمل کو نیند کہتے ہیں۔ نیند کے دوران انسان اپنے ماحول سے بے خبر رہتا ہے۔اگرچہ بیہوشی میں بھی انسان اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ لیکن نیند ایک قدرتی عمل ہے اور اس سے بیدار ی لیےانسان کو کسی طبی امداد کی ضرورت نہیں ہو تی۔ جبکہ بیہوشی ایک مرض ہے اور انسان کو ہوش میں لانے لیےطبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔
نیند اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت اور نعمت ہے جوانسان کے تھکے ماندھے جسم اور ذہن کو راحت ، اطمینان اور سکون مہیا کرتی ہے۔رات کو چند گھنٹوں کی نیند انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا فطری عمل ہے جس میں انسان کی تقریبا ایک تہائی زندگی گزرجاتی ہے۔کوئی انسان اس ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نےرات کو نیند حاصل کرنے کا زریعہ بنایا ہے اور اس کے…
تہذیب و تمدن اسی کا ہوتا ہے جس کی علوم وفنون میں اجارہ داری ہوتی ہے۔ اندلس کی گمشدہ تہذیب و ترقی کا ایک نوحہ!
غزہ پر اسرائیل کی حالیہ ظالمانہ کارروائیوں کے بعد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم صرف فنڈنگ اور مظاہروں پر اکتفا نہ کریں ۔ ہم اپنی تاریخ کو بھی جانیں، اپنے ماضی سے نسبت جوڑلیں۔مسلمانوں کاشاندار ماضی اس بات کا پیغام رکھتا ہے کہ اس امت کا مستقبل بھی شاندار ہو سکتا ہے اگر یہ اپنے اسلاف سے نسبت جوڑ لیں،اپنے سازشیوں سے ہوشیار رہیں اور تاریخ کے جھروکوں کو کھلا رہنے دیں تاکہ اس حبس زدہ ماحول کو عظمت رفتہ کی ٹھنڈی ہوائیں معطر رکھیں ۔ تاریخ کا مطالعہ حیات تازہ ہے ۔ حکیم الامت اقبال یونہی تونہیں بار بار مسلمانوں کو عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ رومیوں کے مقابل جس شیر کی بابت علامہ اقبال نے پیش گوئی کی تھی، فلسطین سے آتی نعرہ تکبیر کی آوازیں بتارہی ہیں کہ وہ شیر عنقریب ہوشیار ہونے کو ہے ۔
آج ہم امریکہ اور یورپ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ہماری نوجوان نسل کو علم بھی نہیں ہوگا کہ کسی زمانے میں مسلمان یورپ کے استاد تھے۔ اگرچہ اندلس کی سر زمین سے مسلمانوں کا نام و…
بے نور آنکھوں کا نور بھرا چہرا میری ہتھیلیوں میں ہے اور ان کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے میرے آنسو ٹپ ٹپ ان لبوں پر گرے ہیں جو آج سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ کا ورد نہیں کر رہے۔
میری نازک سی امی جان….. دھان پان سی امی جان…..ایک لحظہ میں ماضی کے کتنے ہی ورق پلٹ گئے۔
پہلی یاد بچپن کی تھی جب پشاور میں گھر کی چھت پہ گرمیوں میں چارپائیوں کی ایک قطار لگی ہوتی اور بھیگی چھت پر پیڈسٹل فین باری باری ہوا دیتا ۔ اس ایک جھونکے کے انتظار ہی میں آنکھ لگ جاتی۔ صبح دم چڑیوں کی چہکار سے پہلے میری آنکھ ہمیشہ امی جی کے ہلانے سے کھلتی۔ ان کی عادت تھی کہ فجر کی نماز کے لیے اٹھتیں تو میری چارپائی کے قریب سے گزرتے ہوئے میرا پاؤں کا انگوٹھا ہلا دیتیں اور میری فجر بھی ادا ہو جاتی۔
سردیوں میں ان کا معمول تھا کہ صبح فجر پڑھ کر سویٹر، جرابیں اور گرم شال پہن کر باورچی خانے جاتیں ، وہاں چولہے پہ نمکین چائے کا رس پک رہا ہوتا اور امی سیڑھی پر بیٹھی اپنا سبز غلاف والا قرآن دھیمے دھیمے لحن کے ساتھ پڑھ رہی ہوتیں۔ اسی دوران ہمیں سکول جاتے…
ہماری زندگی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔روز کوئی نہ کوئی کہانی سامنے آتی ہے۔اور بحیثیت معالج توہم کئی واقعات کا مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں۔ آج مجھے بھی ایک کہانی یاد آ گئی۔
نومولود مریم کی کہانی
یہ ہے تو کہانی لیکن اصلی اور حقیقی ہے۔ میں جب سعودی عرب میں نئی نئی آئی تو میرے پاس ایک خاتون بلکہ لڑکی آئی جس کا پہلا حمل تھا۔ وہ کسی اور ہسپتال میں چیک اپ کرا رہی تھی۔ ہمارے پاس حمل کے آٹھویں مہینے میں آئی۔ جب میں نے اس کا الٹراساؤنڈ کیا تو اس میں کچھ چیزیں نارمل نہیں تھیں۔ آنے والا بچہ جوایک لڑکی تھی اس کی جلد کے نیچے، اور پیٹ میں پانی تھا۔ خاتون کو تفصیلی الٹراساؤنڈ کے لیے بھجوایا۔ انہوں نے بھی یہی رپورٹ دی اور ساتھ یہ بتایا کہ انڈے دانی میں پانی کی بہت بڑی تھیلی ہے۔ یہ سب تفصیلات اچھے پیشہ ورانہ انداز میں ،پہلے ماں کو اور پھر دونوں یعنی ماں اور باپ کو بتائی گئیں۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، انہیں اپنی ہونے والی بچی کے بارے میں اس تشخیص پر یقین کرنے میں اور اسے سمجھنے میں کچھ وقت لگا، اور کچھ سیشن کرنے پڑے۔ یہ سب انہیں بالکل ناقابل یقین لگ…
آج کے دور میں اس بڑے خطرے سے کیسے محتاط رہا جائے؟ ایک باہمت خاتون کی کراچی یونیورسٹی
کے پروفیسر کو سائبر ہراسانی کے جرم میں سزا دلوانے کی یہ داستان بہت اہم معلومات دے رہی ہے
کراچی کی ٹرائل کورٹ میں سائبر کرائم کے ایک مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی۔
وکیل نے مدعی خاتون سے کہا کیا آپ ننگی تصاویر کی تعریف بیان کریں گی کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کی ننگی تصاویر اپ لوڈ کی گئی ہیں۔خاتون جج سے پوچھتی ہیں کیا یہ مہذب سوال ہے، تو جج صاحب کہتے ہیں کہ وکیل کا حق ہے کہ وہ سوال پوچھے جس پر وہ خاتون کہتی ہیں چہرہ ان کا تھا لیکن جسم ان کا نہیں تھا اور اس پر (نامناسب کپڑوں میں) تصاویر ہیں۔اس پر وکیل نے کہا جج صاحب (نامناسب کپڑے) بھی تو کپڑوں میں شمار ہوتے ہیں پھر یہ ننگی تصاویر تو نہ ہوئی ناں، ان خاتون نے غلط بیانی کی ہے۔ اور پھر چیمبر میں موجود مرد حضرات مسکرانے لگے۔
سائبر کرائم کا یہ مقدمہ ریاستِ پاکستان کی جانب سے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے پروفیسر فرحان کامرانی کے خلاف سنہ 2016 میں درج کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ ایک خاتون پروفیسر کا جعلی…
آپ ؐ انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے
آپ قرآن مجید کی آیات کے مضامین و موضوعات پر توجہ دیجیے اور اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو اپنے اموال کے استعمال اور خرچ کرنے کا کون کون سا راستہ تجویز کرتا ہے ۔انہیں مخلوق خدا کی خدمت اور مستحقین کی امداد کے لیے کیسے توجہ دلاتا ہے ۔
ان احکام اور ترغیبات کا ایک نقشہ ہمیں عہدِ رسالت مآبؐ کے مکی دور کے تیرہ سالوں اور مدنی عہد کے دس سالوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔حضورﷺ نے زمانہ قبل نبوت میں بھی چالیس سال تک ایک ایسے طرز عمل اور سیرت کا نمونہ پیش کیا ہے جو مخلوق خدا کی خدمت ، رفاہ عامہ کے اقدامات ، قبائل کے درمیان اصلاحی اور تعمیری کاوشوں اور مظلوموں کی داد رسی پر مشتمل ہے ۔ عفوان شباب میں حلف الفضول جیسے تاریخی معاہدے میں شرکت ، پینتیس سال کی عمر میں تعمیر کعبہ کے دوران میں حجراسودکی تنصیب کے موقع پر حکیمانہ روش اور حرب الفجار میں قبائل کو کشت و خون سے نجات دلانے کی تدابیر تو اجتماعی نوعیت کی خدمات ہیں ، انفرادی سطح پر آپؐ کا طرز عمل ایک جدا گانہ حیثیت اور اسلوب کا حامل ہے۔ آپؐ…
جماعت اسلامی کے قیام کو اگست2021 میں 80 برس ہو جائیں گے ۔ اس موقع پر آپ مولانا مودودیؒ کی مربوط اور جامع فکر ، ان کے تعلیمی افکار ، لسانی و ادبی خدمات، تشکیل جماعت ، دارالاسلام سے منصورہ تک کے سفر وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ پڑھیں گے ۔ مولاناابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسی’حکیم جہادآرا‘ شخصیات جس گود میں پروان چڑھی ہوں ان کے بارے میں جاننے کی امنگ پیدا ہوتی ہے!
ہر بڑے آدمی کو جان کر جب اس کی ماں کے بارے میں جانا، تو پتہ یہی چلا کہ گہوارے کی تربیت شخصیت سازی کا لازمی عنصر ہے ۔ ہم کسی فردکو ڈگریوں میں ناپیں تو یہ ہماری کم فہمی ہو گی ۔ تعلیم ، تربیت، خاندانی پس منظر ان کاغذی ڈگریوں سے بہت بلند سطح کی چیز ہے ۔
جب مولانا مودودیؒؒ کی والدہ کے بارے میں پڑھا تو جی چاہا کہ ان کی عظیم ماں کا ذکر بھی بار بار کیا جائے جس نے عالم اسلام کو ایسا فقید المثال مجتہد عطا کیا۔
خواجہ اقبال احمد ندوی ’’ مولانا مودودی کی رفاقت میں‘‘ نامی کتاب جو ان مضامین پرمشتمل ہے جو اخبار ’دعوت ‘ اورماہ نامہ زندگی نو میں شائع ہوئے تھے ۔ سلیم منصور خالد نے…
اسکول اور تعلیمی ادارے اچانک بند ہونے کی خوشی سے سیراب بھی نہ ہوپائے تھے کہ ٹونٹی ٹونٹی منسوخ ہونے کی اطلاع جبران اور شارق پر بجلی بن کر گری…… ایسی چھٹیوں کا فائدہ بھی کیا؟
جی ہا ں یہ فروری 2020 ء کی بات ہے جب کرونا کی وبا نے پاکستان کارخ کرلیا۔ چنانچہ فوری اقدام کے تحت تعلیمی ادارے اچانک بند کردیے گئے۔ بچے ان ناگہانی چھٹیوں کا مصرف کیا کرتے جب بقیہ ساری سرگرمیوں پر بھی پابندی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سختی بڑھتی گئی اور بچے بھی بیزار ہوتے گئے۔
یہ وہ دن تھےجب ان کے والدین عمرے سے واپس آچکے تھے اور عظمیٰ آپا کی واپسی کی تاریخ قریب آگئی جو ان کے والدین کی غیر حاضری میں دیکھ بھال کے لیے نوشہرہ سے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک شاندار خاندانی دعوت رکھنی تھی۔ اس کے لیے23مارچ کی تاریخ مناسب سمجھی گئی تھی کہ اس تاریخی دن کے حوالے سےلڑکوں کی تیار کردہ ویڈیوبھی لانچ کرنی تھی۔ مگر ٹھیک اس دن سے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
یہ اصطلاح بچوں کے لیے دلچسپ تھی تو بڑوں کے لیے حیران کن! انہوں نے کرفیو کو کسی زمانے میں برتا بھی تھا مگر یہ لاک ڈاؤن بھلا…
غزل
ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں
ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں
حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں
وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں
بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ
سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں
غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی
قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں
[آمنہ رُمیصا زاہدی]
غزل
آنکھیں جلتی رہتی ہیں
تنہائی میں بہتی ہیں
فرقت کے غم سارے یہ
چپکے چپکے سہتی ہیں
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
ملن کی آس میںراہوں کو
ہر دم تکتی رہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
فلک تلک جو جاتا ہے
اُس رستے کو تکتی ہیں
جو تقدیر کا مالک ہے
اس کی رضا میں راضی ہیں
شاہدہ اکرام سحرؔ
سفید ستاروں سا لباس اس کے جسم پر سج سا گیا تھا۔حسن و نور بکھیرتا دمکتا چہرہ دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا۔ سفید ہی پھولوں کا زیور چہرے سے چھلکتی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک اسے حوروں سا حسین بنا رہی تھی۔ ہر سُو بس خوشی ،رنگ اور خوشبو اور دور تک پھیلی چاندنی……بس ہر جانب حسن ہی حسن تھا ۔
اس کے بے حد اپنے اس کے ارد گرد اسے اپنی محبتوں کے حصار میں لیے آگے بڑھ رہے تھے۔کچھ ہی دور اس کے سامنے سنہرا چمکتا محل جیسے اس کےآنے کا منتظر تھا اور اس محل کے آگے اس کا شہزادہ جس سے وہ پچھلے چند سالوں سے منسوب تھی آج اسے اپنا بنانے کا عہد نبھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا۔
’’انس….انس…..‘‘
اس نے اسے پکارنا چاہا مگر اس کی آواز جیسے اسی کے کانوں میں گونج کر رہ گئی……انس اس کی جانب دیکھ کر مسکرا تورہا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ دھند میں غا ئب ہوتا چلا گیا ۔
’’انس… انس…..‘‘وہ چلائی۔
اور پھرشیما کی آنکھ کھل گئی۔اس کے سرہانے رکھا اس کا موبائل کسی کا پیغام آنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔اس نے گہری سانس لے کر خواب کے اثر سے نکلنا چاہا۔ فون کی…
’’ بہت بہت شکریہ سر !‘‘ عامر صاحب سے رقم لیتے ہوئے اصغر کے چہرے پر بے انتہا شکر تھا ۔’’ بڑی مہر بانی ۔‘‘
’’ لیکن اصغر ، قرضے کی واپسی ہر ماہ آپ کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کٹوتی کی صورت میں ہو گی‘‘ عامر صاحب نے یاد دہانی کرائی۔
’’ جی سر مجھے علم ہے ‘‘ اصغر سلام کرتا ہؤا کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
’’ شکر ہے شائستہ ، اللہ نے بڑا کرم کیا ‘‘اصغر نے رات کو بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا ۔ گو کہ ہر مہینے کا آخر دونوں میاں بیوی کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا اور تنخواہ کی کٹوتی ان مشکلات میں اضافہ ہی کرنے والی تھی لیکن ایسے وقت میں جب کہ بیٹی کی شادی سر پر تھی ، رقم کا انتظام ہو جانا ، اس وقت بہت غنیمت لگ رہا تھا۔
’’ میں کل ہی جا کے فرنیچر کا آرڈر دے آتا ہوں ‘‘ اصغر نے شائستہ سے اپنے فیصلے کی تائید چاہی۔
’’ ہاں بالکل۔ اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ‘‘شائستہ نے ہاتھ سے چادر ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
کمرے کے باہر کھڑی ، ماں باپ کی باتیںسنتی شیبا کے چہرے پر قوس و قزاح کے رنگ بکھر گئے ۔ شادی…
ستّر کی دہائی میں لکھا گیا افسانہ جو جدیدیت کے ہاتھوں تہذیبی کشمکش کا شکار ہوتے مشرقی معاشروں میں ہمیشہ ترو تازہ رہے گا
’’دلی جا کرکہیں اپنے ہوش و حواس نہ کھو بیٹھنا‘‘
یہ بات چھوٹی سے پیارے نے کوئی دسویں بار کہی تھی۔
جیسے چھوٹی بالکل ہی سرن دیوانی ہے ۔ وہ خود شہر نہ گئی تو کیا ہؤا، اس کی دو سہیلیاں شہر میں بیاہی گئی تھیں ۔ جب وہ میکے سے لوٹیں تو چھوٹی کی قابلیت میں شدید اضافہ ہؤا تھا ۔ ان کی نقل میں چھوٹی بھی کمر پر سے قمیض کو تنگ کرنے لگی تھی اور خورجے کے میلے سے پیارے اس کے لیے ناخن رنگنے کا رنگ لایا تھا جنہیںناخنوں پر لگانے کے بعد چھوٹی کی انگلیاں چم چم چمکنے لگی تھیں۔
وہ بسولی کی فیشن ایبل بہو کہلاتی تھی جو ہمیشہ پنڈلیوں پر منڈھا ہؤا چست پاجامہ پہنتی تھی ۔مِسّی کی بجائے لاکھا جماتی اور شہر والیوں کے انداز میں آڑی مانگ نکال کر بال کانوں تک نیچے گرا دیتی تھی ایسے بال پیارے نے ایک پرانے فلمی رسالے میں مس لیلاچٹنس کے دیکھے تھے اور فوراً اس نے یہ ہیئر سٹائل چھوٹی کو دکھایا تھا ۔
چھوٹی لیلا چٹنس سے کیا کم تھی !وہ تو کھلا…
وہ کہانی جو جافنا کے ساحلوں سے پھوٹتی ہے اور نیو یارک سے ہوکرکولمبو میںڈوبتی ہوئی ہمارے وطن کابہت سا عکس دکھا جاتی ہے
پَل کے ہزارویں حصے میں بھی لاریف ہادی اس بات کاتصور تک نہیںکرسکتا تھا کہ اس کا بیٹا’’ لبریشن ٹائیگرز آف تامل‘‘ جیسی جنگجو اور دہشت گرد تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کرتا ہے ۔تنظیم کے بانی ویلو پلائی پربھاکرن سے عقیدت، اس کے مقاصد سے ہمدردی اور تاملوں پرسِنہا لیوں کی زیادتیوں کے خلاف جافنا کے مضافات میں ہونے والے چھوٹے موٹے جلسے جلوسوں میں کچی پکی تقریریں جھاڑتا ہے۔ حالیہ خود کش حملوں میں مرنے والے چند نوجوانوں سے بھی اس کا یارانہ تھا ۔
اس کی آنکھوںمیں حیرت ہی نہیںتھی وہ شدید کرب سے بھی خوفناک حد تک پھیلی ہوئی تھیں ۔اس کا دل وسوسوں کی آماجگاہ بنا ہؤا تھا۔یہ کیسے ممکن ہے ؟وہ اتنا بے خبر تھا ۔کیا وہ اس پر یقین کرے یا نہ کرے ؟اس کابیس سالہ پانچ فٹ گیارہ انچ لمبی قامت والا بیٹا کب اورکیسے اس جال میں پھنسا اورکیوں پھنسا؟یہ سارے سوال جواب وہ خودسے کیے چلا جاتا تھا ۔
ڈاکٹر حسب اللہ نے آہستگی سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ وہ اس کے اندر کے اتار چڑھائو سے…
گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم اکثر اپنی دادی کے پاس گاؤں جایا کرتے۔ ہمارا گاؤں خیبر پختونخوا کے ایک دوردراز پسماندہ علاقے میں ایک خوبصورت دریا کے کنارے آباد تھا اس لیے گرمی بھی پشاور کی نسبت کم ہوتی۔
اس زمانے میں کچھ سیاستدان کہتے کہ واپڈا والے تربیلا ڈیم میں ہمارے پانی سے ساری بجلی نکال کر خالی خولی پانی ہمارے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ تو وہ ’’خالی خولی ‘‘پانی سب سے پہلے ہمارے گاؤں سے گزر کر باقی پاکستان کو سیراب کرتا تھا۔
دریا کے اس طرف ریت کے پہاڑ اور گھنے جنگل تھے جن کو’’بیلے‘‘کہتے تھے۔ گاؤں میں جن کے گھر شادی ہوتی وہ بیلے جا کر بہت ساری لکڑی لے آتے۔
ہم اپنے کزنز کے ساتھ کھیتوں سے ہو کر دریا تک جاتے۔وہاں خوب تیرتے کھیلتے اور جب بھوک لگ جاتی تو اپنی پھوپھی زاد بہنوں سے جو دریا کے ایک طرف کپڑے دھو رہی ہوتیں، پیاز اور رات کی بچی ہوئی تندور کی روٹی لیتے اورکھا کر پھر کھیلنے لگ جاتے۔ میں نے دنیا بھر کے ریستورانوں میں کھایا لیکن اس وقت اس پیاز اور باسی روٹی کا جو مزہ ہوتااس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
کچھ بچے دریا پار کرکے ریت کے پہاڑوں سے ہو کر ’’بیلے‘‘ چلے جاتے…
ابوکو میں نے اپنی یہ تمام سرگزشت سنائی جو انہوں نے بہت توجہ سے سنی اور اس دوران مسلسل اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اُن کے لیے یہ ساری صورت حال ناقابل برداشت تھی ۔ میں نے بات ختم کرنے کی کوشش کی مگریہ اذیت کی داستان، ہند و بنیے کی دھوکہ دہی اور مکاری کا قصہ یہاں ختم ہو جائے ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ میرے خاموش ہونے سے یہ ایک حقیقت اور ان کی سیاہ تاریخ بدل تو نہیں سکتی تھی۔
ابو بھی کہنے لگے کہ جنگ آزادی میں بھی ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ دہی کی، تاریخ آج بھی اس کی گواہ ہے۔ ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کینٹ (جہاں مسلمان قید تھے) سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی تحریک میں مسلمان بہت بہادری سے لڑے تھے۔ اس تحریک میں ہندوؤں نے انگریزوں کاساتھ دے کر مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا مگر مسلمانوں کی جدوجہد نے اس تحریک کو پورے ہندوستان میں پھیلایا۔ یہ تحریک مسلمان مجاہدین نے بہت کم وسائل سے شروع کی تھی۔ اس تحریک میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ۔ ڈھاکہ کالال باغ مسلمانوں کے خون سے نہلا دیا گیا ۔ لوگ ڈھاکہ کے لال باغ سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے کیونکہ…
انسانوں کے معاشرے خامیوں اور خوبیوں دونوں سے مزین ہوتے ہیں۔مزین اس لیے کہ اگر خامیاں نہ ہوں تو خوبیاں چمک اور نکھر کر سامنے نہ آئیں۔
سعودی معاشرہ بھی یقیناً اس سے پاک نہیں ہے لیکن اب بھی خیر شر پر غالب ہے۔ وطن عزیز اور ہمسایہ ممالک سے جانے والے تو اس مملکت کو جنت محسوس کرتے ہی ہیں، مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے بھی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے ایک دعوت میں شرکت کی جہاں زیادہ تر افراد مغرب سے آئے ہوئے تھے۔ بچوں بلکہ بچیوں سے بات چیت ہوتی رہی۔ ایک بچی لاہور سے آئی ہوئی تھیں، اپنے بابا کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لیے۔ ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے کہا، ریاض میں۔ اسی طرح کچھ بچیاں لندن اور دیگر شہروں سے اب یہاں منتقل ہو چکی ہیں اپنے خاندان کے ساتھ۔ انہوں نے بھی اپنی فوری پسندیدگی ریاض کے لیے ظاہر کی۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ہاں کچھ دوست جو لندن سے منتقل ہوئے تھے، کھانے پر تشریف لائے۔ ان کی بچیوں نے بھی یہی کہا کہ ہمارا یہاں پر زیادہ…
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان پر دہشت گردی کے مہیب بادل نہیں چھائے تھے اور ہماری وادی سوات میں ہر طرف بہار تھی ، رونقیں تھیں امن و سکون تھا ۔ ہمارے خاندان کی چار فیملیز نے وادی کی سیر کا پروگرام بنایا۔ایک کوچ ہائر کی گئی اور ہم اس سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ہمارے گروپ میں بچے بھی تھے بڑے بھی ۔ سب ہی اس سفر کے لیے نہایت پر جوش تھے۔
پشاور روڈ پہ کوچ روانہ ہوئی تو ٹیکسلا، واہ کینٹ ، حسن ابدال ، برہان سے گزرتے ہوئے کامرہ اور لارنس پور سے آگے جہانگیرہ آیا۔ اب ہم صوبہ پنجاب کراس کر کے صوبہ سرحد ( کے پی ) میں داخل ہو چکے تھے۔ وہاں سے پھر مشہور شہر نوشہرہ پہنچے۔
نوشہرہ میں ملکی وغیر ملکی کپڑوں کی بہت بڑی مارکیٹ تھی اس لیے خواتین نے تھوڑی دیر رُک کے اپنا شاپنگ کا شوق پورا کیا۔ نوشہرہ کے بعد رسالپور اور پھر رشہ کئی آیا ۔ یہاں بھی غیر ملکی کپڑے کی ایک مشہور مارکیٹ تھی جس میں شاپنگ کے لیے خواتین کا رش تھا ۔ ہمارے ساتھ کی خواتین بھی نہ رہ سکیں اورشاپنگ کا شوق پورا کیا ۔ رشہ کئی اترنے…
نام کتاب: گوشہِ تسنیم
قیمت: 400 روپے
پبلشرز:ادارہ بتول لاہور
منگوانے کاآرڈر37424409-042
ہمارے اطراف بہت سے لوگ بہت سے کام ’’شوقیہ‘‘کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن شوق کی ایک مدت اور موڈ ہوتا ہے۔آپ نے سنا ہوگا کہ:
یہ اس وقت کی بات ہے جب گھڑسواری میرا شوق تھا،
مصوری میرا جنون ہوتا تھا،
سرساز کی دنیا کا میں دھنی تھا….. یا
قلم سے میرا رشتہ بڑا استوار تھا…… وغیرہ۔
ایسے کم لوگ ہوتے ہیں جو شوق کو جنون بنا لیں۔زندگی بھر تسلسل کے ساتھ اس شوق کو پورا کریں اور اس کو عبادت کا درجہ دے دیں۔بلاشبہ لفظ قیمتی ہیں زبان سے نکلیں یا قلم سے۔بشریٰ تسنیم نے ماشاءاللہ قلم سے بہت سوچ سمجھ کر رشتہ استوار کیا ہے۔کئی عشروں پر محیط یہ رشتہ تاریخ بنتا جارہا ہے ان کی کتابوں کی اشاعت کی صورت میں۔
چھبیسواں روزہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کی کتاب’’گوشہ تسنیم‘‘کے ساتھ گزرا ۔یہ بھی کسی مصنف کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس کا قاری کتاب ہاتھ میں لے اور کتاب ختم کرتے ہی بن پڑے۔افطار سے قبل کتاب مکمل ہو چکی تھی۔
ان کی تحریر میں قرآن کی تفسیر بھی ملتی ہے اور کائنات کی تعبیر بھی۔دھیرے سے قاری کا ہاتھ تھامے آفاق کی وسعتوں میں لے جاتی ہیں۔قدم زمین پر اور ذہن آفاق کی نشانیوں میں…
آج بلوچستان کے ‘نیلگ ‘ ڈیم کے زیریں راستوں سے پہلی دفعہ بہنے والے بارشی پانی کے ریلےاپنے ساتھ خوف ،دہشت اور مایوسی کے اس گند کو بھی بہا کر لے گئے جس نے پچھلے کئی سالوں سے مکران کے دشت کےاس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہؤا تھا۔
چار سال قبل جب ہمارے مشاورتی ادارے ’’رحمان حبیب کنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کے انجینئرز سروے کے لیے اس علاقے کی طرف نکلنا چاہ رہے تھے تو پہاڑوں پر موجود بھائی لوگوں کی طرف سے انہیں اس علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ مقامی اکابرین کی منت سماجت کے بعدانہیں صرف دو گھنٹے میں اپنا کام مکمل کر کے وہاں سے نکلنے کو حکم دیا گیاتھا۔
یہ خبر ہمارے مین سٹریم میڈیا تک رسائی نہیں پا سکی کیونکہ ان کی ترجیح صرف سیاسی سرکس لگانا ہے۔نیلگ کے آس پاس کے علاقے کی سب سے بڑی نعمت پینے کےپانی تک بروقت رسائی ہے۔اس سے اگلی عیاشی ان کے جانوروں کے لیے پینے کا پانی میسر ہوجانا ہے اور مالک کی بہت مہربانی ہو تو اپنی ضرورت کا اناج کاشت کرنے کے لیے پانی مل جاتا ہے اور وہ بھی ہر سال نہیں۔اور اوپر سے بھائی لوگ آکر پہاڑوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔
خشک…
جتنی جلدی تشخیص ہو گی ، اسی قدر کامیاب علاج ممکن ہوگا
انسان کسی بھی نوعیت کے مرض میں مبتلا ہو تو خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے انتہائی مایوس ہو جاتا ہے ۔ اسی بناء پر خوش گوار زندگی کو صحت اور تندرستی سے مشروط سمجھا جاتا ہے ۔ نبی اکرامﷺ کی ایک حدیث مبارکہ بھی ہے جس میں آپ ؐ نے نصیحت فرمائی ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ صحت کو بیماری سے پہلے ۔ بعض عوارض اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی خطرناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ کینسر کا مرض میں انہی میں سے ایک ہے ۔ ٹیکنالوجی ، انفارمیشن اور جدت کی اس دنیا میں اگرچہ کینسر اب لا علاج نہیں رہا تاہم بعض صورتوں میں یہ مرض اب بھی باقی تمام امراض کے مقابلے میں کافی خطر ناک ہے ۔
کینسر کا مرض اور اموات کی شرح
WHOکے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد18.1ملین ہے ۔ ادارے کی تحقیق کے مطابق کینسر دنیا بھر میں اموات کی وجہ بننے والی بڑی بیماری ہے ۔ گزشتہ سال دنیا بھر…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
شمارہ جولائی 2021ء سامنے ہے وادی ہنزہ اور گلگت کے حسین پہاڑی مناظر سے مزین ٹائٹل دلکش ہے ۔ آج کل تو دل یہی چاہتا ہے کہ اُڑ کے وہاں پہنچ جائیں۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے ریلوے کے سانحہ گھوٹکی کے موقع پر ’’الخدمت‘‘والوں کی احسن کار کردگی کا ذکر کیا ہے یہ لائق تحسین ہے ۔ بجٹ سیشن کے موقع پر ہماری پارلیمنٹ میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پر آپ نے بڑی درد مندی سے تبصرہ کیا ہے ۔ خواتین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات پر آپ نے صحیح تجزیہ پیش کیا ہے کہ سب سے پہلے انٹر نیٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے ، پھر ان جرائم پر کڑی سزائیں بھی دی جائیں ۔
’’ عد ل و انصاف‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے اسلام میں انصاف کی بہت تلقین کی گئی ہے ۔ہمارے رسول پاک ؐ سب سے بڑے عادل تھے ۔ عدل و انصاف کسی معاشرے میں امن و سلامتی کی پہچان ہے، ظلم امن عالم کو تباہ کر دیتا ہے ۔
’’ خطبہ حجۃ الوداع‘‘ (ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ) آپ نے یہ تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ لفظ لفظ پیش کیا ہے…
تم مجھے بتاتے ہو کہ پاکستان میں پانی کے کولر سے گلاس باندھنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بے ایمان ہیں ۔
لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ جس کولر کے ساتھ یہ گلاس بندھا ہوا تھا وہ بھی کسی پاکستانی نے کبھی ایصال ثواب کے لیے اپنے کسی عزیز کا نام لکھ کر یا ویسے ہی آخرت میں ثواب کے حصول کے لیے اس چلتی راہ میں لگا دیا ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ مسجد سے جوتے اٹھا لیے جاتے ہیں اب تو اللہ کا گھر بھی محفوظ نہیں لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ اس مسجد کی تعمیر میں کتنے پاکستانیوں نے اپنی محدود اور لامحدود آمدنی سے چند سکے جوڑ کر یا لاکھوں کے چیکس کی صورت میں حصہ ڈالا ہے ۔
تم یہ نہیں بتاتے کہ وہاں لوگوں کے سکون کی خاطر بجلی کا بل کوئی بھر رہا ہے وہاں پنکھے ہیٹرز اور اے سی سسٹم کے لیے کچھ لوگ خاموش رہ کر مسلسل حصہ ڈالتے ہیں ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ کسی ایک جگہ ایکسیڈنٹ ہوا تو لوگوں نے زخمیوں کے بٹوے تک نکال لیے لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ ان رخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والے بھی اسی دھرتی کے باسی تھے یہی وہ لوگ…
دنیا میں انسان نے خود اپنے لیے جو سب سے بڑا فساد کھڑا کر رکھا ہے وہ ’’حق لینے‘‘ کا ہے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کی ایک لا متناہی لسٹ ہے جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں آرام و آسائش کے وسائل وافر، وسیع اور سہل الحصول ہوتے جا رہے ہیں تو حقوقِ انسانی بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے زندگی کس قدر ہلکی، آسان اور پر سکون تھی۔ جب وصول کرنے کی نسبت دینے کی فکر رہتی اور اسی میں قلبی خوشی و راحت محسوس کی جاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات، ذاتی حقوق کا حصول مقصد زندگی نہیں بنا تھا اور اپنے حقوق کےبارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نہ ہی یہ اس قدر گھمبیر مسئلہ تھا۔ اب ہر انسان وہ نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو اپنے حقوق کا پرچم لیے پھرتا ہے۔ والدین سر توڑ کوشش میں لگے ہیں کہ بچوں کو مطمئن کر سکیں مگر اولاد اپنے حقوق پہ سمجھوتہ کرنے پہ راضی نہیں۔
میاں بیوی نے ایک دوسرے سے حقوق لینے والی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح باہم سمدھیانوں کے دل ایک اندھا کنواں بنتے جارہے ہیں۔ ہر رشتہ، تعلق جو…
ایکتھا بادشاہ اس کی ایک ہی بیٹی تھی ۔شہزادی بہت زیادہ گوری تھی اس لیے بادشاہ نے اس کا نام بیانکا(بالکل سفید) رکھ دیا۔شہزادی کو اپنے گورے رنگ پہ بہت ناز تھا۔ کالا یا کالے رنگ سے ملتا جلتا کوئی رنگ پسند نہیں تھا۔ ویسے وہ بہت فرمانبردار تھی لیکن اس کی اس بے تکی عادت سے ملکہ عالیہ بہت پریشان تھیں جبکہ بادشاہ ہمیشہ اس کا بچپنا کہہ کر بات کو ٹال دیا کرتے تھے۔ انھوں نے حکم دے رکھا تھا کہ شاہی محل میںان رنگوں والی چھوٹی سے چھوٹی شے بھی نظر نہ آئے ۔
ایک دن بیانکا محل کی پچھلی طرف بنے باغیچے میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ چلتے چلتے سبزیوں والی جگہپر آ گئی۔مولی،گاجر،گوبھی کودیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائی مگر جیسے ہی اس کی نظر بینگن پہ پڑی تواس کا منہ بگڑ گیا۔
’’ یہ کالے بینگن میرے محل میں کیا کر رہے ہیں؟ میں ابھی بابا جان سے کہہ کرانھیں اترواتی ہوں۔‘‘
شہزادی اپنی چھوٹی سی ناک پھلا کر محل میں داخل ہوئی اور زور زور سے ’’بابا جان بابا جان ‘‘ پکارنے لگی۔
بادشاہ نےاس کی آواز سنی تو تخت سے اٹھ کر باہر آیا جہاں شہزادی نوکروں پہ گرج برس رہی تھی۔
’’کیا ہوا بیانکا،…
دن بہ دن بڑھتی ہوئی آلودگی زندگی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے ۔ ایک طرف توجنگلی اور آبی حیات ختم ہورہی ہے، دوسری طرف نت نئی بیماریاں انسان کوکھوکھلا کررہی ہیں اور یہ سب انسان کی اپنی کمائی ہے ۔کچرے کے ڈھیر ، صنعتی فضلہ، فیکٹریوں ، گاڑیوںکا دھواں ، پلاسٹک کے شاپر ، درختوں کی بے تحاشا کٹائی غرض انسان اپنے ہاتھوں اپنی موت کا بندوبست کررہا ہے ۔
حال یہ ہے کہ کراچی جو کبھی عروس البلاد اورروشنیوں کا شہرکہلاتا تھا ، اب اُسے کچرے کے ڈھیر سے تشبیہہ دی جا رہی ہے ۔ لاہور جو اپنی قدیم عمارتوں اوراہل علم و فن سے پہچانا جاتا تھا ، آج اس کی شہرت دنیا کے آلودہ ترین شہر کے حوالے سے ہے ۔ہر سال سردیوں میں اسموگ سے حادثات اورسانس کی بیماریوں کارونا رویا جا تا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے بچائو کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کچرے کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے ۔پلاسٹک کا استعمال بند یا کم از کم محدود کیا جائے۔ گاڑیوں کی دیکھ بھال کی جائے تاکہ دھواں کم سے کم نکلے۔ فیکٹریوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوں تاکہ ان کا فضلہ پانی کو آلودہ کرکے آبی حیات کے لیے نقصان کا باعث نہ…
٭ استاد : بتائو جہلم، راولپنڈی اور پشاور کہاں ہیں ؟
شاگرد: ’’ مجھے کیا معلوم ماسٹر صاحب ۔ اپنی چیزیں آپ خود سنبھال کر رکھا کریں ۔‘‘
(مریم کائنات۔ لاہور)
٭…٭…٭
٭تین افیمی ایک تین منزلہ عمارت دیکھ کر ایک دوسرے کے اوپر چڑھ گئے اور سمجھنے لگے ک وہ ایک عمارت ہیں ایک پولیس والا وہاں سے گزرا تونیچے والے افیمی کی ٹانگ پر ڈانڈا مارا۔اوپر والا بولا:’’ دیکھو۔ دیکھو ۔ پہلی منزل کا دروازہ کون کھٹکھٹا رہا ہے ۔‘‘
(کامران جٹ ۔ لاہور)
٭…٭…٭
٭مریض:’’ ڈاکٹر صاحب مجھے رات کو سوتے میں گدھے فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔‘‘
نفسیاتی معالج:’’ میں دوا دیتا ہوں ۔ آج ہی رات سے شروع کر دینا ‘‘۔
مریض :’’ آج رات سے نہیں ڈاکٹر صاحب ۔‘‘
نفسیاتی معالج:’’ وہ کیوں ؟‘‘
مریض :’’ آج فائنل میچ ہے ۔‘‘
(شہلا کرن ۔ کراچی)
گاہک: ’’ یہ ٹائی کتنے کی ہے ؟‘‘
دکان دار:’’ چار سو کی ۔‘‘
گاہک:’’ اتنے میں تو جوتوں کا جوڑا مل جاتا ہے ۔‘‘
دکان دار :’’ تو پھر آپ وہ گلے میں لٹکا لیں ۔‘‘
(عادل گجر ۔ لاہور)
٭…٭…٭
٭ ٹرین کی ایک بوگی میں دو مسافر سفر کر رہے تھے ۔ ایک نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا: ’’ میں شاعر ہوں۔‘‘
دوسرے نے اپنے کان کی طرف اشارہ کیا اور بولا :’’ میں…
شاہ زیب اور سلیمان اپنے والد شاہنواز صاحب کے ساتھ چڑیا گھر کی سیر کو آئے تھے۔
جب سے انھوں نے سنا تھا کہ چڑیا گھر میں بہت سے پرندے اور جانور ہوتے ہیں ، تو ان کا دل انھیں دیکھنے کو مچل رہا تھا ۔ان کے شہر میں چڑیا گھر نہیں تھا ۔اُن کے والد نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی ان کا جانا قریبی شہر ہوا جہاں چڑیا گھر موجود ہے، تو وہ ان کو بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔چناںچہ آج وہ چڑیا گھر کی سیر کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔
پرندوںاور جانوروں کے شور سے چڑیا گھر گونج رہا تھا ۔ بچے ایک پنجرے کے پاس جا کھڑے ہوئے جہاں بندر پھرتی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگیں ماررہے تھے۔ایک بندر درخت پر بیٹھا مزے سے کیلا کھا رہا تھا ۔
’’ ابو ابو ! وہ دیکھیں درخت پر کون سا جانور ہے ؟‘‘سلیمان نے پوچھا۔
شاہ زیب تیزی سے بولا ! ’’یہ بھالو ہوگا ؟‘‘
’’ خرگوش ہو گا نا ابو !‘‘سلیمان نے پوچھا۔
اُن کوجانوروں کے نام تو معلوم تھے ، مگر ان کے بارے میں کم جانتے تھے کہ وہ کیسی حرکتیں کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان کے والد صاحب لے کر آئے تھے…
سردیوں کی یخ بستہ رات میںزیبانہ جانے کن سوچوں میں گم تھی۔ سب سورہے تھے اور وہ اکیلی جاگ رہی تھی۔بسترپہ لیٹےلیٹے وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں کوئی حسین پری ہوتی۔ جودل چاہتاکرتی۔ کھاتی، پیتی، مزے اڑاتی اور سکول سے بھی جان چھوٹ جاتی ۔یہی کچھ سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادی میں کھو گئی۔
٭٭٭
صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کوایک شان دار جگہ پر پایا۔ایک بہت حسین جنگل تھا جہاں طرح طرح کے پھول اور درخت تھے۔ ہرطرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔رنگ برنگی تتلیاں اس کے ارد گرد منڈلانے لگیں۔ وہ اتنا خوش تھی جیسے وہ کوئی حسین پری ہو ۔
اچانک اسے خیال آیا کہ ہائے اگردیر ہو گئی تو امی ڈانٹیں گی سکول بھی جانا ہے اور ناشتہ بھی ابھی نہیںکیا۔ اس نےراستہ تلاش کرنے کے لیے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو سوائے خوب صورت جنگل اور وادیوں کے کچھ دکھائی نہ دیا۔اس نے سوچا کہ کیوں نا آج سکول سے چھٹی کر کے جنگل گھوما جائے۔پھر اسے خیال آیا کہ وہ تو سونے کے کپڑے پہنے ہوئے ہے ۔ یہ خیال آنا تھا کہ جھٹ اس کا لباس تبدیل ہو گیا ۔ اب وہ ایک خوب صورت فراک پہنے ہوئے…
کرونا
وطن میں جب سے آیا ہے کرونا
مسلسل پڑ رہا ہے ہم کو رونا
مگر ہم حوصلہ ہارے نہیں ہیں
بُری تقدیر کے مارے نہیں ہیں
ہمارے ڈاکٹر ، نرسیں ہماری
لڑائی ہے سبھی کی تجھ سے جاری
تُو ہارے گا ہماری جیت ہو گی
فغاں ہونٹوں کی اِک دن گیت ہو گی
یہاں سے تجھ کو جانا ہی پڑے گا
کرونا ہم سے توُکب تک لڑے گا
خدا نے حوصلہ ہم کو دیا ہے
مئے ہمت کا جام ہم نے پیا ہے
مٹانے والا ہم کو خود مٹے گا
ڈرانے والا ہم کو خود ڈرے گا
ہمارے ہم قدم فضلِ خدا ہے
تبھی تو ایسا ہم میں حوصلہ ہے
ہمارا شیوہ ہے تجھ سے لڑائی
ہے اس پر کار بند ساری خدائی
پیارے بچو! بہت عرصہ گزرا ایک گائوں میں تین چوہیاں رہتی تھیں ۔ ایک کا نام ’’ چک چکیسر‘‘ دوسری کا ’’ راہ رہیسر‘‘ اور تیری کا’’ دھان دھنیسر‘‘تھا۔ وہ تینوں آپس میں سگی بہنیں تھیں ۔ ان کی آپس میں بہت محبت تھی ۔ چک چکیسر چوہیاں کسان کے گھر میں اُن کی ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی میں رہتی تھی ۔ راہ رہیسر کا گھر سڑک کنارے پڑے ہوئے سوکھے کپاس کے پودوں میںاور دھان دھنیسر کسان کے دھان ( چاول) کے کھیتوںمیں مزے سے رہتی تھی ۔ ہر روز صبح سویرے کسان اپنے گھر سے کھیتوں میں چلا جاتا۔ اُس کی بیوی بچے گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتے۔ چک چیکسر مزے سے چکی میں سے آٹا ، دانہ اور دالیں کھاتی رہتی ۔ کسان کی بیوی جوچیز بھی پیستی ،چوہیا اس میں سے کچھ حصہ کھا لیتی ۔ راہ رہیسر کے لیے تو باہر بہت کچھ کھانے کو تھا ۔ دھان دھنیسر کھیتوں سے کچے چاول کھاتی رہتی ۔ یوں وہ تینوں بہنیں مزہ سے زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ بچو! کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن کسان صبح سویرے منہ اندھیرے اپنی بیل گاڑی جوڑ کر گھر سے باہر…
وہ ایک خوبصورت باغ تھا ۔ جہاں طرح طرح کے پھول کھلتے تھے ۔ جن میں بھینی بھینی خوشبو تھی ۔ اس باغ میں ایک بڑا سا نیم کا گھنا درخت تھا ۔ اس درخت کی ایک شاخ پر شہد کا بڑا سا چھتا تھا جس میںڈھیروں مکھیاں صبح سے شام تک شہد جمع کرتی تھیں ۔ رانی مکھی چھتے میں بیٹھی حکم چلاتی تھی یوں تو ساری مکھیاں مل جل کر رہتی تھیں ۔ لیکن وہ دو مکھیاں جو ٹینی اور مینی کہلاتی تھیں۔آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں ۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا ۔ بھن بھن بھن کرتی ٹینی کو بھوک لگی تھی وہ بہت دیر سے کسی رس دار پھول کی تلاش میں تھی ۔ آخر اسے ایک بڑا سا سرخ گلاب دکھائی دیا ۔ وہ خوش ہو گئی ۔
’’ اس گلاب کا رس پیتے ہی میرا پیٹ بھر جائے گا اور اس کارس رانی مکھی کو بھی پسند آئے گا۔‘‘اس نے پھول کے ارد گرد بھن بھن کر کے ایک دو چکر لگاتے ہوئے سوچا اور پھر اپنے پائوں پیچھے کر کے پر سمیٹے ۔ لو پھول پر پہلے سے بیٹھی مینی کی چیخ نکل گئی ۔’’ ہائے میں مر گئی ، موٹی ٹینی…
بی گوبھی کے گھر کافی چہل پہل تھی کیوں کہ اُن کے دوست جاپان سے آ رہے تھے۔ بی گوبھی نے تمام سبزیوں کو اپنے گھر دعوت دے رکھی تھی تاکہ اُن کے نئے دوست کو خوش آمدید کہا جا سکے۔ تمام سبزیاں نہا دھو کر گوبھی بی کے گھر آ چکی تھیں اور ایک دوسرے کا حال چال پوچھ رہی تھیں۔
’’بھنڈی بی! کیا راز ہے تمھاری سمارٹ نیس کا؟‘‘
بینگن کے چھوٹے بیٹے بینگو میاں نے بھنڈی کو ایک کرسی پر براجمان جوس پیتے دیکھا تو اس کے قریب چلے آئے۔
’’اللہ کا شکر ہے کہ میں ہمیشہ سے ایسی ہی ہوں۔‘‘بھنڈی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر بھی۔‘‘بینگو میاں نےکریدا۔
’’بینگو میاں! میں گرمیوں کی پیداوار ہوں اس لیے روز نہانا میری عادت ہے، ہو سکتا ہے یہی میری صحت کا راز ہو۔‘‘
بھنڈی نے ایک ادا سے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس میز پر رکھا اور خوشی سے اپنی سبز ٹوپی سر پر جما ئی۔
’’یہ تو بالکل ٹھیک کہا آپ نے، نہانا واقعی صحت کےلیے بہت اچھا ہے۔‘‘بینگو میاں نے اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
’’بھئی! کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ مجھے بھی پتہ چلے۔‘‘ کدو میاں خراماں خراماں چلتے ہوئے اپنا چشمہ درست کرتے وہاں آ پہنچے۔
’’کچھ خاص نہیں۔‘‘بھنڈی…
گاڑی فراٹے بھرتی ابو ظہبی کی طرف رواں دواں تھی ۔پھوپھا جان ہمیں جامع مسجد شیخ زاید کی چیدہ چیدہ خصوصیات بتا رہے تھے۔’’ یہ مسجد دنیا کی دس بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔متحدہ عرب امارات کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے ۔ یہ 1996ء میں بننا شروع ہوئی تھی اور 2007 میں تکمیل کوپہنچی ۔دنیا کے مختلف ممالک سے منگوائے گئے سفید سنگ مر مر کی بنی یہ مسجد دور سے ایک چمکتا ہوا موتی معلوم ہوتی ہے ۔ اس پر دو ملین درہم لاگت آئی ہے ۔اس میں تقریباً اکتالیس ہزارنمازیوں کی گنجائش ہے۔‘‘
مسجد دیکھنے کا ہمارا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا ۔ تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مسجد کی پارکنگ میں رُکے ۔ بہت بڑی پارکنگ میں بے شمارگاڑیاں اوربسیں کھڑی تھیں ۔ نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والوں کے علاوہ سیاح بھی اس خوب صورت مسجد کو دیکھنے جوق در جوق آتے ہیں۔
ہم مسجد کی طرف بڑھے۔ راستے میں جگہ جگہ پھولوں کی قطعات اور فوارے لگے تھے ۔ مسجد کے ڈھیر سارے گنبدوں کی طرف اشارہ کر کے بابا نے کہا ’’ انھیں دیکھ کر تو ترکی کی مساجد یاد آتی ہیں ۔‘‘
’’ اوریہ محرابیں مسجد قرطبہ کی…
ستمبر1947 کی ایک سرد رات تھی ، میں اپنے خیمے میں لیٹا ہوا تھا ۔ ہم چند لا وارث بچے تھے جن کے ماں باپ آزادی کے سفر میں کھو گئے تھے۔ ہمیں مختلف قافلوں کے ساتھ شامل کر کے یہاں تک لایا گیا تھا۔
کیمپ میں بہت سے لوگ تھے جو سرحد پار سے لٹے پٹے آئے تھے۔ ان لٹے پٹے خاندانوں میں بڑے بڑے زمیندار ،سرمایہ دار اور کاروباری لوگ بھی شامل تھے ۔ محلوں کے مکین جھونپڑیوں میں زندگی گزار رہے تھے ۔ سونے کا نوالہ کھانے والے مٹی کے پیالے ہاتھوںمیں پکڑ کر قطاروںمیں کھڑے تھے ۔سب لوگ اتنی اذیتیں اور تکلیفیں اس لیے برداشت کر رہے تھے کہ ان کا اپنا وطن پاکستان بن چکا تھا۔
کچھ دنوں بعدوالٹن کیمپ میں موجود سبھی لوگوں کو مختلف علاقوں میںبھیج دیا گیا ۔زیادہ مسئلہ ہم لاوارث بچوں کا تھا ۔کیمپ میں موجود لوگوں کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ ہم لا وارث بچوں کو گود لیتے ۔بڑی سوچ بچار کے بعد ہم سب لا وارث بچوں کوبے اولاد جوڑوںمیں تقسیم کر دیا گیا ۔ میں جس گھر میں آیا وہ لوگ گائوں چھوڑ کرشہر میں آباد ہوئے تھے۔دونوں میاں بیوی بے اولاد تھے اور ادھیڑ عمری کو پہنچ…
’’میں نہیں رکھ سکتی روزہ!‘‘ عائشہ نے ڈرتے ڈرتے اپنی زبان سے یہ جملہ ادا کیا۔
’’ کتنی بری بات کر رہی ہیں آپ آپی! آج ہی مس نے بتایا تھا کہ روزہ رکھنا فرض ہے۔‘‘ دس سالہ عمر نے اسے دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔
’’ لیکن……اللہ تعالیٰ تو ہم سے بہت پیار کرتے ہیں نا۔ پھر وہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہم بھوکے پیاسے رہیں۔‘‘ گول مٹول سی بارہ سالہ عائشہ سامنے رکھے برگر کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
’’ اتنا ثواب بھی تو ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کتنےےےے…. سارے انعامات دیں گے آخرت میں۔‘‘ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرکے عمر نے کتنے سارے انعامات کی تعداد کو بتانے کی کوشش کی۔
’’ بس میں نے سوچ لیا ہے،میں سب سے کہہ دوں گی کہ میرا روزہ ہے۔‘‘ عائشہ نے بےدلی سے کہا۔
’’ سب سے کہہ دوں گی، یعنی آپ روزہ رکھیں گی؟‘‘ عمر نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
’’ نہیں بھئی۔ سب سے کہوں گی کہ روزہ ہے۔ لیکن چھپ کر کھا پی لوں گی۔‘‘عائشہ نے معصومیت سے برگر کا ایک ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈالا اور جواب دیا۔
’’آپ جھوٹ بولیں گی؟‘‘
’’ جب میری کوئی بات سن ہی نہیں رہا کہ میں نہیں رکھ سکتی روزہ…… تو اور کیا کروں گی؟‘‘…
مومو نے امی اور دادی جان کو آمنہ کے اسکالر شپ کے امتحان میں پاس نہ ہونے کی خبر دی تو امی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
’’ آمنہ اسکالر شپ حاصل نہیں کر سکی؟ مگر کیسے ؟ آمنہ تو ہمیشہ ہی اول آتی رہی ہے ۔‘‘ ان کا صدمے سے برا حال تھا۔
دادی جان البتہ بالکل حیران نہ ہوئیں ’’ ہمیں اسی بات کا ڈر تھا ۔‘‘ مگر پھپھو جان ۔ اب آمنہ کیا کرے گی ؟ ہم یونیورسٹی کی فیس کیسے ادا کریں گے ؟ یا خدا! ہماری پریشانیاں کب ختم ہو ں گی ؟‘‘آسیہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
’’ جو بھی ہو آسیہ ، آمنہ کو اپنے آپ کو خاندان کا حصہ بنانا چاہیے اور گھر کی ذمہ داریوںمیں شریک ہونا چاہیے ۔ رات کو عشاء کے بعد سب بچوں کو اکٹھا کرو تاکہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے ۔‘‘
’’ جی پھپھو جان ، جویریہ اور جنید کو سُلا کر ہم سب بیٹھ جائیں گے ‘‘ انھوں نے سر ہلایا۔
’’ نہیں آسیہ ، جویریہ اور جنید کا بھی اس میٹنگ میں ہونا ضروری ہے ۔وہ کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں ، سمجھدار ہیں ۔ ہارون ایک دو سال تک سرجری…
دن گزرتے جا رہے تھے ۔ اسکپ اب اور بھی غور سے محمدالمصری کے ہر انداز کو پرکھ رہا تھا ۔ اس کا رہن سہن ، بات چیت ، گوں کے ساتھ معاملات ہر چیز گویا اس کے لیے حیرت کے نئے در وا کر رہی تھی ۔وہ عربی نہیں جانتا تھا نہ ہی اسے عربی کے کسی لفظ کا مطلب معلوم تھا۔ اس کے باوجود جب کبھی دورانِ سفر محمد المصری قرآن مجید کی کسی سورہ کی تلاوت کرتا تو اسکپ کان لگا کر سننے لگتا، اگر وہ جلدی پڑھتا تو اسے کہتا’’رکو! اسے ذرا ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘ سنتے ہوئے اس کی کیفیات بھی بدلتی رہتیں، سمجھ نہ آنے کے باوجود کبھی اسے ان آیات کو سن کر رونا آتا اور کبھی خوشی کا احساس ہوتا۔
ایک دن پیٹر جیکب ایک بار پھر محمد کے ہمراہ مسجد چلا گیا۔ صبح سے شام ہوگئی، وہ دونوں واپس نہیں آئے یہانتک کہ چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا۔اسکپ اور اس کے والد پریشان تھے ، نہ جانے ان دونوں کے ساتھ کیا ہوا ہے، شاید کوئی حادثہ پیش آیا ہے یا شاید پادری بیمار ہوگیا ہے۔
اسکپ ان کو ڈھونڈنے کے ارادے سے باہر نکلا تو اسے دور سے محمد آتا دکھائی دیا…
ماہ رمضان اور قرآن پاک کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ کلامِ پاک میں ارشاد ہے:
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ۔‘‘(البقرۃ،۱۸۵)
لہٰذا یہ قدرتی بات ہے کہ اس مہینے میں قرآن کی تلاوت خصوصی طور پر زیادہ کی جاتی ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی ہر رات جبرئیل ؑ آپؐ سے ملتے تھے اور رسولؐ اللہ انھیں قرآن سناتے تھے ۔(بخاری) حضورؐ کا فرمان ہے کہ قرآن کے ہر حرف کو پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیںاور آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ رمضان میں ہر نیکی کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ پھر رمضان میں قرآن پڑھنے کا اجر و ثواب کتنا بڑھ جائے گا ؟
قرآنِ کریم ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل ہوا ہے ۔ یہ ہمارا محسن ہے ۔ اس کے احسان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاوت ہمارے معمول میں شامل ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاقْرَئُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰن
’’قرآن جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہوں پڑھو‘‘(المزمل ۴۰)
حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے کھڑے ہو کر دس آیات پڑھیں۔ ( یعنی نماز میں ) وہ غافلوں میںنہیںلکھا جائے گا اور جس نے کھڑے…
حمد ِ باری تعالیٰ
ہیں نور کے شرارے
شمس و قمر ستارے
تیرے حسیں نظارے
چلتا یہ کارواں ہے
تجھ سا کوئی کہاں ہے
چلتی ہوئی ہوائیں
نغمے ترے ہی گائیں
دنیا کو یہ بتائیں
تو مالکِ جہاں ہے
تجھ سا کوئی کہاں ہے
دنیا کا آنا جانا
ہے سلسلہ پرانا
یہ نہ کسی نے جانا
اپنا تو راز داں ہے
تجھ سا کوئی کہاں ہے
نوری ساتھیو!
السلام علیکم۔
جب بچپن میں ہم حساب سیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے جمع کا قاعدہ سکھایا جاتا ہے کیوں کہ یہ سب سے آسان ہوتا ہے ۔2+2=4 سے شروع کر کے ہم ہزاروں ، لاکھوں اور کروڑوں جمع کرنا سیکھ جاتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ہم سارے قاعدے اور کلیہ سیکھ جاتے ہیں ۔ حساب کا ایک دلچسپ قاعدہ یہ ہے کہ آپ ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں جمع کریں اور پھر حاصل جمع کو صفر سے ضرب دیں تو سب کچھ صفر ہو جاتا ہے ۔
زندگی میں بھی ہم اسی طرح چیزیں جمع کر رہے ہوتے ہیں ۔ پیسہ ، گھر ، گاڑی، ایک اور گھر ، ایک اور گاڑی، سونا ، موتی، دولت ، عزت ، شہرت کہ اچانک ایک دن موت کا فرشتہ آ پہنچتا ہے اور جیسے سب کچھ صفر سے ضرب کھا جاتا ہے۔ اور اگر کہیں یہ سب کچھ سود ، رشوت ، ذخیرہ اندوزی ، دھوکا دہی یا اور کسی غلط طریقہ سے حاصل کیا ہوا ہو تو میزان منفی میں چلا جاتا ہے ۔ کیسا خسارے کا سودا ہے !
اللہ رحیم و کریم نے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں ، کوتاہیوںکو مٹا سکیں اور…
فہرست
اللہ کے نام سے
آپ کی باجی
حمد(نظم)۔
شاہدہ سحر
سراجاً منیر
طس
روشنی کاسفر
نزہت وسیم
(بچو سنو اک کہانی(نظم
امان اللہ نیّر شوکت
عمر پر کیا گزری(ناول)
حمیرا بنت فرید
دعا کی برکت
ثوبیہ رانی
ایموجی
مریم شہزاد
(میٹھا سیب(نظم
انصار احمد
(رم جھم لاج(ناول
مدیحہ نورانی
ڈیزرٹ سفاری
ریان سہیل
نیا سال/جاڑا(نظم)
قمر جہاں علی پوری
پراسرار گٹھری
روبینہ بنت عبد القدیر
میری کہانی
محسن حیات
بچے ہمارے عہد کے
شہزادی پھول بانو
پھول کی فریاد( نظم)
غلام زادہ نعمان
نہیں نہانا
سلمان یوسف سمیجہ
میری پریاں(نظم)
عائشہ ساقی
ریڈیونورستان
ذروہ احسن
بکری کا بچہ(نظم)
محمد رمضان شاکر
آپ نے پوچھا
فارعہ
کھلتی کلیاں
نوری ساتھی
آپ کا خط ملا
حبیبہ عارفین
جناب ایڈیٹر صاحبہ،ماہنامہ ، نور ۔السلام علیکم
مارچ کا ماہنامہ نور مل گیا ہے ۔ رسالہ کو دیکھ کردل خوش ہو گیا ۔ انتظار کی ساری کوفت ختم ہو گئی ۔ یہ رسالہ اتنا زیادہ طویل نہ تھا کہ پڑھنے میں بوریت محسوس ہوتی یا کوئی دشواری پیش آتی ۔ یہ رسالہ بہت مختصر اورجامع تھا ۔ جیسے پڑھتے وقت دلچسپی پیدا ہوتی رہی۔ اس میں مختلف کہانیا ں، نظمیں موجود تھیں۔ جس میں بڑوں اور بچوں کے لیے سبق آموز کہانیاں موجود تھیں جس کو پڑھ کر ہم سبق حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ رسالہ مجھے بے حد پسند آیا ۔ اس کی ابتدا اللہ کے نام اور اس کی تعریف سے ہوئی ۔ نظم ’’حمد ‘‘ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر کوئی غم یا مصیبت ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ صبر سے کام لینا چاہیے کیونکہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت شامل ہوتی ہے ۔
اس کے بعد ایک اور مضمون جو اس میں موجود ہے وہ ام حبیبہ کا تحریر کردہ ہے ۔ اس مضمون کا عنوان اللہ کے پسندیدہ لوگ ہے ۔ اس مضمون میں اللہ تعالیٰ کے…
چوہدری قمر جہاں ۔ ملتان
س: کہتے ہیں کہ ہاتھ میں کھجلی ہو تو دولت آتی ہے ۔ لیکن اگر پائوں میں کھجلی ہو تو ؟
ج: اُسے کھجا لینا چاہیے۔
٭…٭…٭
احمد ابراہیم ۔ ملتان
س: کیا خواب تعبیر پاتے ہیں ؟
ج: خواب اور تعبیر کے درمیان جو فاصلہ ہے ، اُسے قوت عمل کہتے ہیں ۔ اگر یہ آپ میں موجود ہے تویقین جانیے آپ کا ہر خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
٭…٭…٭
سلمان یوسف سمیجہ ۔ علی پور
س: فارعہ آپی، لوگ ہمیں خوش کیوںنہیںدیکھ سکتے ؟ اور خود کیوںکسی حال میں خوش نہیں رہ سکتے ؟
ج:حسد کی بیماری کی وجہ سے ہمیں خوش نہیں دیکھ سکتے اور نا شکری کا مرض خود انھیں خوش نہیں ہونے دیتا۔ لیکن اپنے آپ کو بھی چیک کر لینا چاہیے کہیں ہم بھی تو اس مرض میںمبتلا نہیں ؟
٭…٭…٭
سعدیہ آفتاب۔ کراچی
س: جلدی سے اس پہیلی کاجواب دیں ۔ ایک گدھا دیوار کی طرف منہ کیے ہنستا جا رہا تھا ۔ کیوں؟
ج: اس لیے کہ وہ گدھا تھا۔
٭…٭…٭
ام عمارہ ۔ اسلام آباد
س: امتحان میں بچوں کے فیل ہونے کی کیا وجہ ہوتی ہے ۔ پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا یا…؟
ج: کوئی بھی ہو سکتی ہے۔کبھی کبھی تو معصومیت بھی وجہ بن جاتی ہے ۔
’’ باپ نے پوچھا ۔’’ تمھارا آج…
بکری کا بچہ
بکری کا بچہ گول مٹول
پیٹ اس کا جیسے ہو ڈھول
ٹکر ٹکر دیکھے ہے سب کو
گھما کے آنکھیں گول گول
اچھلے کودے ایسے جیسے
ربڑ کی ہو تی ہےکوئی بال
میں میں میں میں کرتا جائے
بولے میٹھے میٹھے بول
پاس چلا آئے گا شاکرؔ
جلدی سے تُو بانہیں کھول
بکری کا بچہ گول مٹول
پیٹ اس کا جیسے ہوڈھول
ٹک۔ٹک۔ٹک۔ السلام علیکم ۔ میٹربینڈ ۷۸۶پر ہم ریڈیو نورستان سے بول رہے ہیں ۔ صبح کے چھ بجا چاہتے ہیں ۔ آئیے اپنی آج کی مجلس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کرتے ہیں ۔ تلاوت و ترجمہ کی سعادت حاصل کررہے ہیں ۔قاری عبدالرحمن۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَیَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃ ِوَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِحِسَاب۔
ترجمہ :جن لوگوں نے کفرکیا ، ان کے لیے دنیا کی زندگی سجا دی گئی ہے اوروہ ان لوگوں سے مذاق کرتے ہیں جوایمان لائے ہیں اورجو متقی ہیں ، وہ قیامت کے دن ان سے بلند مرتبہ ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے ۔(البقرۃ۲۱۲)
٭…٭…٭
یہ ریڈیونورستان ہے ۔ اب آپ عبد اللہ سے احادیث مبارکہ سنیے۔
٭ حضرت ابوالدرداؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ تو سبحان اللہ اورالحمد اللہ اورلا الٰہ الا اللہ اوراللہ اکبرکو پڑھنا اپنے اوپرلازم کر لے ۔یہ کلمات گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح درخت اپنے (پرانے ) پتے جھاڑ تا ہے۔( ابن ماجہ)
٭ حضرت عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے رہو کیوں…
میری پریاں
اک دن مجھ کو پری ملی
کلیوں سی وہ کھِلی کھلی
نٹ کھٹ کرتی اس کی ادا
چہرہ پھول سا کھلا کھلا
مجھ کو پریوں کی رانی لگے
ملنے سے اس کے بھاگ جگے
رب سے مانگوں اس کی خوشی
چہکے باغ میںجیسے کلی
وہ ہے میرے دل کی جان
ثوائبہ میرے گھر کی شان
رحمتِ رب کا اشارہ ہے
آنکھ کی ٹھنڈک سارہ ہے
خوشی سے آنگن بھرا مرا
ساقیؔ پر ہوا کرم ترا
’’تبریز! میں کہتی ہوں کہ رُکو!‘‘امی جان نے تیکھے لہجےمیں گیٹ کی طرف بھاگتےہوئے تبریز میاں کوپکارا۔
’’نہیں نہاؤں گا،نہیں نہاؤں گا!!!‘‘تبریز میاں نےزورسے کہااورگیٹ پار کرکےیہ جاوہ جا۔امی جان پیچھےسےپکارتی رہ گئیں اورتبریزمیاں میدان کی طرف بھاگ گئے۔
دراصل تبریز میاں کئی دن سے نہائے نہیں تھے۔ سردیوں کے دن تھے،اور سردی میں نہانے سے تو اُنہیں بہت ڈر لگتا تھا۔امی جان جب بھی نہانےکو کہتیں تو وہ کوئی نہ کوئی بہانا بنادیتے،اگر بہانہ کام نہ آتا تو بھاگ جاتے، مگر جسم پر پانی بہانا گوارا نہ کرتے۔
’’چھی! کتنی گندی بدبو اُٹھ رہی ہے تمہارے جسم سے! ‘‘ہاشم نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’اور تمہارے بالوں میں خشکی بھی بہت ہے۔ نہاتے نہیں ہو کیا؟ ‘‘عبداللہ نے کہا۔
تبریز میاں شرمندہ سے ہوگئے۔
وہ گھر سے بھاگ کرکھیل کے میدان میں آ گئے تھے، جہاں ان کے دوست کرکٹ کھیلنے کے بعد ایک جگہ بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔
’’نہیں، کون سردی میں نہائے!‘‘تبریز میاں نے یوں کپکپا کر کہا، جیسے ان پر ٹھنڈے پانی کی پوری بالٹی ڈال دی گئی ہو۔
’’اچھا۔ اتنے ڈرپوک ہو کہ پانی سے ڈرتے ہو۔ ہاہاہا! ‘‘شاہ میر ہنسنے لگا۔
’’کتنے دنوں سے نہیں نہائے تم؟ ‘‘ عبیر نے پوچھا۔
’’شاید……شایدایک ماہ سے! ‘‘تبریز میاں نےکچھ خجل ہوکر کہا۔
’’ارےےے! ایک ماہ سے!!!‘‘سب…
پھول کی فریاد
پیارے بچو! مجھے نہ چھیڑو
کوئی پتی نہ ٹہنی توڑو
جب تم چمن میں آتے ہو
مجھے سے ہی جی بہلاتے ہو
مجھ سے ہے چمن کا نکھار
میں ہی تو ہوں وجۂ بہار
خوشبو سے بھری ہیں میری پتیاں
نرم و نازک پیاری پتیاں
پہلے تھا میں ایک شگوفہ
بن کر پھول بنا اِک تحفہ
مجھ سے موسم کی بہار
کر لو بچو مجھ سے پیار
میں ہوں تمھارا پیارا پھول
توڑ نے کی نہ کرنا بھول
کرونا لاک ڈائون جہاں بہت کچھ لے کر گیا ، وہاں بہت کچھ سیکھا بھی گیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے سب کچھ بند ہو گیا لیکن ایک چیز جو چل رہی تھی وہ NET،اور اس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے وابستہ رہے اور بہت کچھ سیکھنے سکھانے کے ساتھ الحمد للہ قرآن کی تعلیم سے اور زیادہ جڑ گئے اورفراغت کے ان اوقات میں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔
مجھے ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ ہم جو کچھ بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں وہ باتوں سے نہیں عمل سے سکھانا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہترین موقع دیا کہ اپنے نواسے محمد عالیان کو جوماشاء اللہ بہت ذہین ہے ،( ویسے توسارے بچے ہی ذہین ہوتے ہیں لیکن جب اس سے 24گھنٹے کا ساتھ رہا تو اندازہ ہوا)، کچھ سکھا سکوں۔ جب میں موبائل پرقرآن پڑھا رہی ہوتی سیکھ، اور سیکھا رہی ہوتی تو عالیان بہت دھیان سے سنتا اس نے علم کے اضافے کی اورمجلس کے کفارے کی دعا سن سن کر یاد کرلی ۔ میں بہت محتاط ہو گئی تھی کہ جو میں کہتی ہوں ، میرا عمل بھی اُس کے مطابق ہونا چاہیے ۔لیکن ظاہر ہے انسان ہونے کے ناطے بھولنے کی…
’’بیٹا ! یہ جنگل کا بادشاہ شیر ہے۔‘‘میں نے یہ آواز سن کر اپنا سر اوپر اٹھایا۔ میرے سامنے ایک آدمی اپنے دو بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ بچوں کی آنکھوں میں تجسس اور چہروں پر دبا دبا جوش تھا۔ وہ آدمی ان سے میرا تعارف کر وا رہا تھا۔ اس کی بات سن کر میں مسکرا دیا۔ میں نے تو ساری عمر چڑیا گھر کے اس پنجرے میں گزاری تھی۔
’’یہ بہت طاقتور اور دلیر جانور ہے۔‘‘ اس آدمی نے میری مزید تعریف کی۔ بچے مجھے قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے میں اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میں جالی کے قریب گیا۔ بچوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ ان کو خوش دیکھ کر میں بھی خوش ہوگیا۔ بچے تھوڑی دیر وہاں رکے اور آگے بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں بھی بیٹھ گیا۔ زیادہ دیر کھڑے رہنے کی طاقت مجھ میں نہ تھی۔
آپ لوگ شاید اس طرح میری بات نہ سمجھ پائیں۔ میں آپ کو اپنی مکمل کہانی سناتا ہوں۔ میں افریقہ کے ایک گھنے جنگل میں پیدا ہوا تھا۔ میرے ابو جنگل کے بادشاہ تھے۔ ان کا رعب و دبدبہ پورے جنگل پر تھا۔ میں…
گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر تھی، گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ حیا،حرا اور حنین کو زبردستی سلانے کے بعد خود بھی وہیں ٹھنڈے فرش پر لیٹ گئی تواس کی آنکھ لگ گئی۔ ابھی سوئے نہ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ ایک زوردار آواز نے خاموشی کو توڑڈالا۔ وہ گہری نیند سے ہڑبڑا کر اٹھی۔ جلدی سے چپل پیروں میں اڑس کر وہ باہر نکلی۔ صحن میں عین باورچی خانےکےسامنےپڑی چیزکودیکھ کراس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
٭ ٭ ٭
’’اسلم! جلدی سے گھر آ جائیں، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ کانپتے ہاتھوں سے ریسیور کان سے لگائےحیا کی نظریں ابھی تک صحن میں جمی ہوئی تھیں۔
دھماکےنے دونوں بچوں کو بھی جگا دیا تھا جو اب ماں سے لپٹے متوحش کھڑے تھے۔
’’لیکن ہوا کیا ہےکچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘ اسلم نے تشویش سے پوچھا۔
’’یہ میں فون پر نہیں بتا سکتی، پلیز آپ جلدی چھٹی لے کر آ جائیں۔‘‘ اس کی آواز باقاعدہ کپکپا رہی تھی۔
’’حیا! تم پریشان مت ہو۔ میں اس وقت ایک ضروری میٹنگ میں مصروف ہوں، فارغ ہوتےہی گھرآتاہوں۔تب تک تم کمرابندکرکےبیٹھی رہو۔‘‘ اسلم نے تسلی دیتے ہوئےفون بندکردیا۔
’’امی! کیا بابا نہیں آ رہے؟‘‘ حرا نے اس کے چہرہ دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں بیٹا! آؤ ہم اندر بیٹھ…
نیا سال
سال نیا ہے بچو آیا
تازہ حوصلے ساتھ ہے لایا
باندھو آج سے نئے ارادے
دل میں کر لو پکے وعدے
درسِ اخوت کو پھیلائو
الفت کے تم دیپ جلائو
احسن وہ اعمال کرو تم
بچو نیک فعال بنو تم
مستقبل کو کرکے بہتر
شام و سحر خوشیوں سے پُر کر
جیپ زور سے اچھلی۔ ہمارے سر چھت سے ٹکراتے ٹکراتے بچے ۔ پھر اس نے تیزی سے ایک موڑ کاٹا اور سیدھی ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھتی چلی گئی ۔ ہم پیچھے کی طرف جھک گئے ۔ جیپ پوری قوت سے صحرا میں دوڑ رہی تھی۔ اونچے نیچے ٹیلوں پر چڑھتی ، اترتی، لہراتی اور ہمارا دم خشک کرتی۔ دور دور تک سنہری ریت چمک رہی تھی ۔ سڑک کا نام و نشان نہیں تھا ۔ کوئی رہنمائی کرتا بورڈ یا تیر کا نشان بھی نہیں تھا ۔ جیپ کے پہیے خود ہی اپنا راستہ بنا رہے تھے۔
’’ اگر ہم راہ بھٹک گئے تو ؟‘‘ میرے ذہن میںسوال ابھرا تو میں نے گھبرا کر امی کی طرف دیکھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ خوف زدہ ہوں گی ، لیکن انھیں اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر تعجب ہوا۔
’’ امی !آپ کو ڈر نہیں لگ رہا ؟‘‘ میرے خیال کو آپا نے زبان دی ۔
’’ نہیں ۔‘‘ انھوں نے بے نیازی سے جواب دیا۔
’’ تعجب ہے ۔‘‘ بھائی بھی امی کی بہادری پر حیران تھا۔
’’ اگر ہم گلگت بلتستان جانے سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو شاید لگتا ۔ اب تویہی لگ رہا ہے جیسے جی ٹی روڈ پر ٹیکسلاسے…
ٹھیک اڑھائی بجے ابراہیم ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں داخل ہوا ۔ اندر ہیڈ ماسٹر کے ساتھ سر قاضی، سرمرتضیٰ اور عثمان کے والد بیٹھے تھے ۔ عثمان کے والد لمبے ، چوڑے ،رعب دار شخص تھے جو اپنے غصے کی وجہ سے مشہور تھے ۔ ان کو دیکھ کرابراہیم کے پائوں تلے زمین نکل گئی ۔ اس نے خودکو سنبھالتے ہوئے کہا :
’’السلام علیکم ہیڈ ماسٹر صاحب ۔ آپ نے مجھے بلایا؟‘‘
’’ جی ہاں ! اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ کیوں! میں آپ سے ایک ہی دفعہ پوچھوں گا اور مجھے صرف سچ سننا ہے ۔ ابراہیم ہارون ! کیا آپ نے وہ بوتل کھڑکی سے پھینکی تھی جو عثمان کے سر پر گری ؟‘‘ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
’’ ج…ج…جی سر ! لیکن سر مجھے ہر گز علم نہ تھا کہ وہاں سے اس وقت کوئی گزر رہا ہوگا۔ سچ سر ‘‘ ابراہیم کے لبوں سے کپکپاتے ہوئے نکلا۔
’’آپ کو بوتل پھینکتے ہوئے ذرا خیال نہ آیا کہ آپ کتنی غیر ذمے دارانہ اور خطر ناک حرکت کررہے ہیں ؟ ‘‘ انہوں نے غصہ سے کہا ۔
’’ نہیں سر ! آئی ایم ویری سوری سر ! مجھے نہیں پتا…
”میرے تایا بہت بیمار ہیں پلیز پلیز ان کے لیے دعا کریں اللّہ ان کے لیے آسانیاں کریں‘‘۔
”کیا ہے یہ سب ؟“امی نےارم کےموبائل پرآنےوالےمیسج کودیکھتےہوئےکہا۔” اسے پڑھ کر تو دعا کرنے کے بجائے ہنسی آنے لگتی ہے ،مذاق محسوس ہوتا ہے ،بھلا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اتنا پریشان ہو اور ان الٹی سیدھی ایموجیز کے ساتھ دعا مانگنے کو کہے۔“
’’امی لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں جبھی تو دعا کرنے کو کہتے ہیں۔ ‘‘
ارم نے فیس بک کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
’’میرے ماموں جان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اچانک دل کا دورہ پڑا اور جان کی بازی ہار گئے۔‘‘
امی نےایک اورمیسج پڑھا۔پھرارم سےدریافت کیا۔
’’ اچھا! فرض کرو کہ تمہارا کوئی قریبی بیمار ہو تو تم کیا فیس بک کھول کر اسٹیٹس ڈالنے بیٹھ جاؤ گی ،؟ اتنی پھول پتیوں اور ایموجیز کے ساتھ سب سے دعا مانگنے کے میسج کرنے لگو گی یا اس پریشانی میں تم کو یہ خیال آئے گا کہ صرف اور صرف اللّہ پاک سے مدد مانگو ؟‘‘
’’ اوہو امی ، ہم ہر جگہ خود کو کیوں رکھ کر سوچیں ، بھئ کسی نے کہا ہے کہ دعا کرلو تو بس ہم آمین لکھ کر آگے بڑھ گئے ،کیا پتا کس کی دعا قبول…
” اوہ! آج تو دیر ہوگئی‘‘۔وہ ہر بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ ”لیکن الارم کیوں نہیں بولا ؟‘‘وہ یہ سوچ کر ہی رہ گیا۔دیرہورہی تھی۔اس نے جلدی سے کمبل اُتارکر پھینکااوربرش لے کر غسل خانےمیں گھس گیا۔
’’امی جان!اسکول کاوقت ہورہا ہے۔آج الارم بھی نہیں بجااورآپ نے بھی نہیں جگایا۔“اس نے اپنی امی کی جانب دیکھتے ہوئے منہ بسور کر کہا:
’’بیٹا! میں سمجھی آپ جاگ گئے ہو‘‘۔ امی جان نے اس آگے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا۔
حماد نے جلدی جلدی ناشتہ کیااور امی جان کو خدا حافظ کہتا ہوا اسکول کے لیے روانہ ہو گیا۔
حماد اپنی پیاری سائیکل کو تیزی سے چلاتے ہوئے اسکول جا رہا تھا۔ ُاس نے اپنی سائیکل کا نام ”صبارفتار“ رکھا ہوا تھا۔اسےاس کی رفتارپربڑانازتھا۔پچھلے سال کلاس میں اول آنے پر بابا جانی نے اسے یہ تحفہ میں دی تھی۔اچانک سامنےسے ایک کار تیز رفتاری سے اس کی جانب آئی۔وہ بوکھلااٹھا۔ کار سے بچنے کےلیے اس نے جلدی سے سائیکل کا رخ دوسری جانب موڑا لیکن بد قسمتی سے سائیکل فٹ پاتھ کے ساتھ کھڑےگھنے درخت سے جا ٹکرائی ۔ اس کے حلق سے دہشت ناک چیخ بلند ہوئی، اس کی آنکھوں کےآگےاندھرا چھا گیا اور اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔وہ اچھلتا ہوا دور جا گرا۔ حواس…
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
بارہ فروری کو صبح اٹھے، نماز ادا کی اور دھند کو ہر طرف چھائے ہوئے دیکھ کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگے۔دوبارہ سو کر اٹھنےکے بعد ناشتہ وغیرہ کر کے ہم ساڑھے دس بجے تک فارغ ہو چکے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ موٹر وے کھلنے کی اطلاع آئے تو ہم روانہ ہوں۔ اگر ہم گھر سے جلدی نکل آتے توموٹر وے پر چڑھنے کے لیے بہت دیر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا۔ رات کے پر مشقت تجربے کے بعد ہم دوبارہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے ساڑھے گیارہ گھر سے نکلے اور جب تک انٹر چینج پر پہنچے، ٹریفک کا ہجوم ختم ہو چکا تھا۔
سرگودھا پہنچتے پہنچتے ہمیں اڑھائی بج گئے۔ ہم نے ایک گھنٹے میں سامان سمیٹا۔ آتے ہوئے تو سامان رکھنے کے لیے جگہ نہیں تھی اور جاتے ہوئے سوٹ کیس بھرنے کے لیے سامان نہیں تھا۔ یوں بھی پرواز پر دس سے زیادہ مسافر لے جانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے بھی ہمیں وزن کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ خیر ہم نے حسب معمول اپنے سوٹ کیسوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھرنا شروع کیا۔ گھر کا بنا ہؤا اچار، ایک اور قسم…
پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو فطرت کی جانب سے اس کے دماغ میں ہزاروں لاکھوں ’’سافٹ ویئر‘‘ ڈال دیے جاتے ہیں جو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ دنیا میں پیش آنے والی ضرورتوں کے مطابق اجاگر سے اجاگر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابتداً اسے یہ شعور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غذا کیسے اور کہاں سے حاصل کرے گا اور اپنی راحتوں اور مشکلات کا اظہار کیسے کرے گا۔
کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے منہ میں دانت نہیں ہوتے۔ اگر بچے کو دانت پیدائشی طور پر عطا کر دیے جاتے تو ماؤں کا براہِ راست انھیں دودھ پلانا کسی طور ممکن ہی نہ ہو پاتا۔
عمر کے ساتھ ساتھ شعور بھی پختگی اختیار کرتا جاتا ہے اور دانت بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پلانے کا عمل ابھی باقی رہتا ہے۔ اس دوران ماؤں کو یقیناً دقت اٹھانا پڑتی ہے لیکن ایک جانب بچہ ہلکی پھلکی ڈانٹ کا مطلب سمجھنے لگتا ہے تو دوسری جانب اسے کسی کو اذیت یا راحت پہنچانے کی بھی پہچان ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ماؤں کی پریشانی نہایت عارضی ثابت ہوتی…
چین 328 کلوگرام کے ساتھ پوری دنیا میں سب سے زیادہ سالانہ فی کس سبزیاں کھانے والا ملک ہے۔ چینی جسیم اور لحیم شحیم نہیں ہوتے۔ بیماریوں کی شرح کسی بھی ملک سے کم اور اوسط عمر کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔
سبزیوں میں ایک کھائی جانے والی چیز مختلف دالوں کے سپراؤٹس بھی ہیں جو فوائد میں قدرتی طور پر دالوں سے دس گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ بنانا بہت آسان اور کھانا بہت مزیدار ہوتا ہے۔
ہاضمے کی درستگی، میٹابولیزم کی بڑھوتری، خون کی کمی کا خاتمہ، وزن میں کمی کا سبب، کولیسٹرول کا خاتمہ، آنتوں کے امراض کے لیے شافی، سکن کی شادابی، بلڈ پریشر کا خاتمہ ، امراض چشم کا خاتمہ، قوت مدافعت میں اضافہ اور وٹامن سی کی وافر مقدار ملتی ہے۔
مونگ، سویابین اور مونگ پھلی کے سپراؤٹس زیادہ قابل ذکر مگر جو یا گندم کے سپراؤٹس زیادہ صحتمند ہوتے ہیں۔
بنانا بہت آسان: ڈیڑھ چمچ مونگ کو کسی بوتل میں پہلے چھ گھنٹے بھگو کر رکھیے۔ پھر پانی گرا کر بوتل کو کھلے ڈھکن مگر نمی والا کپڑا اوپر ڈال کر اندھیرے میں رکھیے۔ صبح شام ایک بار بوتل میں پانی ڈال کر ہلائیے اور پھر پانی گرا کر نمی میں اندھیری جگہ پر رہنے دیجیے۔ تیسرے…
’’چمن بتول‘‘ شمارہ مئی2021ء پر تاثرات پیش خدمت ہیں ۔
خوبصورت پہاڑوں ، سر سبز وادیوں ، نیلے پانیوں اور خوش رنگ پھولوں سے مزین ٹائٹل د کو بھا گیا ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ صائمہ اسماکا اداریہ حسب روایت اہم مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو اس وقت ہمارے وطن عزیز کو درپیش ہیں ۔ یہ جملے خوب ہیں :
’’ سیاسی قوتوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ حقیقی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائیں استعمال ہونے سے بچیں ۔فطری انداز سے عوام میں اپنی جگہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں اپنا سوچا سمجھا پروگرام اور سیاسی ایجنڈا لے کر چلیں جو آئین کی بالا دستی ، عوا م کے مسائل اور دنیا میں ہمارے با وقار مقام کے گہر ے شعور کا آئینہ دار ہو‘‘۔
ان میں آپ نے ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک بہترین منشور کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیا ہے ۔
’’ اللہ کا تقویٰ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحب نے بخوبی واضح کیا ہے کہ تقویٰ گناہوں سے بچانے کا سبب ہے اور یہ قیامت کے روز نجات کا سفینہ ہو گا یہ جملہ بڑا خوبصورت لکھا ’’ تقویٰ کا شجر ایسا بلند پایہ ، سایہ دار درخت ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں…
اسرائیل زمینیں خرید کر نہیں،زمینیں ہتھیا کر قائم ہوا۔ اس صدی کی تاریخ کے تناظر میں کچھ حقائق
سلطنت عثمانیہ کی یہودیوں کو گاؤں کے گاؤں اونے پونے داموں بیچنے کی غلطی اپنی جگہ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہودیوں نے عربوں سے زمینیں خرید کر یہاں ا سرائیل قائم کیا تھا۔یہ واردات زمینیں خرید کر نہیں ، زمینیں ہتھیا کر کی گئی۔ معاملے کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کی ترتیب ٹھیک رکھی جائے۔
یہود کو زمینیں بیچنے کے دو ادوار ہیں
ایک 1882 سے 1908 تک ہے اور دوسرا دور1908 سے 1914 تک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں ادوار کے اختتام پر یہودیوں کے پاس فلسطین کی صرف دو اعشاریہ چھ فیصد زمین تھی۔
ان دو ادوار میں بیچی گئی زمینوں کی غلطی اپنی جگہ اور یہی غلطی یہودی ریاست کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک عامل ہے لیکن اصل واردات اس کے بعد ہوئی جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور ایڈ منڈ ایلن بے نے کہا :’’ اب صلیبی جنگیں اپنے اختتام کو پہنچیں‘‘۔
عربوں کو برطانیہ نے اس وعدے پر ساتھ ملایا تھا کہ ان علاقوں میں عربوں کی حکومتیں بنیں گی۔ شریف حسین سے ایک تحریری وعدہ بھی کر لیا…
اسرائیل کو بھلے آپ جو بھی کہیں مگر ایک صفت کی تعریف تو بنتی ہے۔ سوائے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے اس نے کچھ نہیں چھپایا۔ جو کہا ببانگِ دہل کہا۔ جو کیا سینہ ٹھوک کے کیا۔ طاقت کو دلیل کی ضرورت نہیں۔ دلیل تو کمزور کا ہتھیار ہے۔ اب تو اسرائیل بھی شدید بوریت کا شکار ہے۔ وہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کسی بھی کارروائی کے بعد زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا۔
وہ (فلسطینی) اپنے گھروں اور بچی کچھی زمین پر قبضے کی مزاحمت میں غلیل، پتھر، ڈنڈے یا زیادہ سے زیادہ کباڑ لوہے سے بنائے گئے نام نہاد راکٹوں کا استعمال کریں گے اور ہم انھیں ٹینکوں، میزائیلوں اور سمارٹ بموں سے خاک چٹوا دیں گے۔
وہی معمول کا شور اٹھے گا۔ چند مقامات پر مظاہرے ہوں گے۔ ملکوں ملکوں تہتر برس سے رکھے ہوئے سائیکلو سٹائیل مذمتی بیانات تاریخ بدل کر جاری ہو جائیں گے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا عادتاً اجلاس ہو گا۔ امریکہ کسی بھی قرار داد میں اسرائیل کو ہلکی سی سرزنش کے الفاظ بھی ویٹو کردے گا۔نام نہاد عالمِ اسلام ایک بار پھر جھولیاں پھیلا پھیلا کر اسرائیل کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی بددعا دے گا۔ غربِ اردن اور غزہ کے…
تبدیلی ایسا پرکشش لفظ ہے جس کے پیچھے یقینی بہتری اور امید کا تصور ہی غالب رہتا ہے۔ تبدیلی کی ایک حقیقت وہ ہے جو خالق نے انسان کے اندر فطرتاً ودیعت کر دی ہے۔ بہتر سے بہترین کی تلاش اسے ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ غذا سے لے کر بودوباش تک تبدیلی کی خواہش جسمانی و ذہنی آ سودگی کا باعث بنتی ہے۔ گھروں میں ہر ممکن آرام و آسائش کے مالک معمول کے لیل و نہار سے نکل کر دریا و صحرا دیگر قدرتی مناظر میں خیمے لگا کر شب وروز گزار کر تبدیلی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی کے پاس سارے قدرتی مناظر گھروں کے اندر قید کر لینے کی قدرت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی کائنات میں دن کے پہر اور سال کے موسم بدلنے کی ترتیب رکھ دی ، موسم کے لحاظ سے پھل سبزیاں مہیا کر دیں، کہیں خشک سالی ہے تو کسی خطے میں بارشوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔
کرۂ ارضی میں کچھ تبدیلیاں ترتیب وقت سے ہٹ کر بھی لائی جاتی ہیں۔ طوفان بادو باراں سیلاب اور زلزلے، وبائیں ,ناگہانی حادثے جو تبدیلی کا مظہر ہوتے ہیں تو مصائب کا پیام بھی ہوتے ہیں۔
ہر مصیبت انفرادی ہو یا اجتماعی انسانی…
والٹیئر فرانس کا مشہور فلسفی اور ادیب تھا جس کی تحریروں نے انقلابِ فرانس کی بنیادیں کھڑی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُس نے فرانس کے لوگوں کو طاقتور حکمرانوں اور کیتھولک چرچ کے بارے میں سوالات اٹھانے کی جرأت دی اور اسی لیے کئی بار جیل بھی گیا۔
والٹیئرنے 1736میں مسلمانوں کے پیارےؐ نبی حضرت محمدﷺ کے بارے میں ایک ڈرامہ لکھا جس میں کچھ گستاخانہ جملے شامل تھے۔ چرچ کے حامیوں کا خیال تھا کہ والٹیئر نے حضرت محمدؐ پر تنقید کے ذریعے دراصل فرانس کی مسیحی آبادی کو چرچ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران والٹیئر نے ایک اور فرنچ ادیب ہنری ڈی بولیولیرز کی حضرت محمدؐ کے بارے میں کتاب پڑھی تو اس کے خیالات بدل گئے اور پھر اُس نے اپنی تحریروں میں رسول کریمؐ کی مذہبی رواداری کا کھل کر اعتراف کیا۔
پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں والٹیئرکے خیالات سے جرمنی کا مشہور شاعر اور ادیب گوئٹے بہت متاثر ہؤا۔ گوئٹے نے کھل کر پیغمبر اسلامؐ کی عظمت کا اعتراف کیا اور اس اعتراف نے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو گوئٹے کا پرستار بنا دیا۔
والٹیئراور گوئٹے کی اسلام دوستی پر بہت تنقید کی گئی اور اُنہیں غلط ثابت کرنےکے لیےفرانس اور جرمنی…
انسان کا قلب ایک آئینے کی مانند ہے جو اگر صاف شفاف ہو تو اس میں تجلیات کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ چار امور ایسے ہیں جنہیں زندگی میں قوت ایمانی سے شامل کیا جائے تو یہ عکس حاصل ہونا ممکن ہے:
۱: گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب کو خالص نیت اور ثابت قدمی کے ساتھ مکمل طور پہ ترک کرنے کی ایسی ہی کوشش کی جائے جیسے جہاد اور ہجرت کے لیے کی جاتی ہے بالخصوص وہ گناہ جو جنسی شہوات یا منفی اخلاق، جذبات و خیالات سے متعلق ہوں۔
۲: استغفار کی کثرت ہو، یہ دل پر موجود گناہوں کی تاریکی اور سیاہی کو مٹاتا ہے۔ توبہ و انابت سے دل صیقل ہو جاتا ہے۔
۳: خاموشی اور تنہائی میں علمِ حقیقی کے لیے مطالعہ کرنا، غور وفکر کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنا، اپنا محاسبہ کرنا، اور صلہ رحمی کے ساتھ دیگر حقوق العباد ادا کرنا، اُن کی ضروریات کو احسان جتائے بغیر احسن طریقے سے پورا کرنا یہ اس آئینے کومزید چمک فراہم کرتا ہے۔
۴: آخری اور سب سے زیادہ ضروری امر ہے آیات قرآنی، صحیفہ کائنات و موجودات، نفسِ انسانی اور واقعات و حالات پر قرآن حکیم کی روشنی میں مسلسل تدبر و تفکر کرنا۔…
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
ماہنامہ ’’چمن بتول‘‘ اپریل 2021ء کا شمارہ سامنے ہے۔ نیلے پانیوں، سفید برف، سبز و سیاہ درختوں اور افق پر تیرتے ہوئے اودھے اودھے بادلوں سے مزین ٹائٹل دل کو بھاتا ہے۔
مدیرہ صاحبہ نے کرونا کی تباہ کاریوں سے بجا طور پہ خبردار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے صدقے ہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے اور عید کی پرمسرت گھڑیاں ہم سب کو نصیب ہوں (آمین)۔
بدنام زمانہ اور مسلمانوں کے قاتل مودی کی بنگلہ دیش یاترا پر آپ نے صحیح تبصرہ کیا ہے کہ اس ظالم کا یہ دورہ انتہائی ناخوشگوار رہا ہے۔
’’صیام اور قران‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ)
رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے ایک روح پرور مضمون تحریر کیا ہے۔ آپ نے یہ خوبصورت جملہ لکھا ہے۔ ’’قرآن اس دنیا کے لئے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور یہ موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔‘‘
’’دعا عبادت ہے۔‘‘ (سید محمود حسن)
آپ نے اس مضمون میں وضاحت کی ہے کہ دعا بھی ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے۔ رسول پاکؐ کا فرمان نقل کیا ہے ’’تمہارا رب بڑا باحیا اور کرم والا ہے۔ جب بندہ دعا کے لیے ہاتھ…
یادیں بچپن کی
شہزادی پھول بانو۔لاہور
آج جامن کھاتے کھاتے پھر ہمیشہ کی طرح سے بچپن کا وہ جامن کا درخت یاد آگیا جو لگا ہؤا تو صحن کے ایک کونے میں تھا لیکن پھیلا ہؤا تین گھروں میں تھا ۔ دائیں طرف کے اور پیچھے والے ہمسایوں تک۔
پھل اُس کا اتنا میٹھا اور اتنا زیادہ ہوتا کہ بازار میں جامن آکر ختم بھی ہو جاتے لیکن اس پر جامن دیر تک اپنی بہار دکھاتے رہتے۔ مجھے اب سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے اس درخت کے جامن میں اتنی برکت کیوں تھی۔
جب بھی پھل پک جاتا، امی اُترواتیں اور تین حصے کر تیں ۔ ایک حصہ اتارنے والے کو ، ایک حصہ محلے اور محلے میں کیا پوری کالونی میں اور ایک حصہ خاندان والوں میں تقسیم کرنے کے لیے ۔
خاندان والوں کو ایسے پہنچاتیں کہ زین کا ایک بڑا سا تھیلا بنایا ہؤا تھا ، اس کو جامن سے بھر تیں اور بھائی کے حوالے کرتیں کہ یہ خالہ ، چچا ، پھوپھو اور دیگر رشتہ داروں کو دے آئو ۔ میں سوچ رہی ہوں کہ آج سب کے پاس اپنی سواریاں ہیں لیکن ہمارے بچے یہ کام نہیں کرتے جو تب بسوں ، ویگنوں پر جا کر اور اتنا…
ہم میں سے بہت سے لوگ دوسروں کے ماضی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لادے پھرتے ہیں
ریسیپشن سے معلومات لینے کے لیے ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی ۔ ایک خاتون کی باری آئی ۔آگے بڑھیں اور ریسپشنٹ کو دیکھتے ہی شناسائی کا دعویٰ انتہائی گرم جوشی سے کرنے لگیں۔
ارے تم وہی ہو نا شبانہ کی لڑکی!
لڑکی نے چونک کر اجنبیت سے ان کو دیکھا پھر پرچی بنانے لگی اور ظاہر کیا کہ اس نے پہچانا نہیں ہے۔
لیکن خاتون نے اس کو کافی نہ جانا پھر کہنے لگیں ،امی ٹھیک ہیں ؟ تمھارے شوہر کا کیا بنا اب تو مار پیٹ نہیں کرتا ؟ بڑا بھائی گھر واپس آگیا چرس کی لت ختم ہوئی کہ نہیں ؟
ایک ہی سانس میں اس پرانی شناسائی نے لڑکی بے چاری کا سارا کچھا چٹھا بیان کردیا تھا ۔لڑکی نے ساری بات سن کر مسکراتے چہرے کے ساتھ اعتماد سے بلند آواز میں کہا ،آنٹی میں نے آپ کو پہچانا نہیں میں وہ نہیں جو آپ مجھے سمجھ رہی ہیں ۔سب لوگ ہنسنے لگے اور آنٹی صاحبہ پرچی ہاتھ میں لے کر بڑبڑاتے ہوئے لڑکی کے رویے کوڈرامہ قرار دیتے ہوئے چالاک مکار عیار کے القاب سے نوازتی ہوئی آگے کو بڑھ گئیں۔
مسئلہ لڑکی…
بچپن کی یادیں عام طور پر بہت خوبصورت اورہوتی ہیں۔ وہ باغ و بہار جیسے دن بھلائے نہیں بھولتے۔ بچوں کے لیے اپنے دادا دادی اور نانا نانی وہ میٹھے رشتے ہیں جن کی مٹھاس انہیں بڑا ہونے تک نہیں بھولتی یا کہنا چاہیے کہ بے شک بوڑھے ہوجائیں اپنے پیارے رشتوں کی یاد ان کے دل میں برابر روشن رہتی ہے۔ یہی ان رشتوں کی اصل خوبی ہے۔
داد ا جان کی کچھ یادیں نہاں خانۂ دل میں روشن ہیں۔ دادا جان ، چوبیس برس ہوتے ہیں،اللہ میاں کے پاس چلے گئے ( ۱۹۹۷ء)مگر اب بھی بسا اوقات ان کی دل نواز یادوں میں کھو جاتی ہوں۔
دادا جان، محمد محبوب شاہ ہاشمی،(پ: ۱۹۲۰ء)نے اپنی زندگی اپنی خوشی اور خواہش کے مطابق گزاری اور بہت اچھابھرپور وقت گزارا۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیو بند گئے مگر اپنی افتادِ طبع کے باعث وہاں تعلیم پوری نہ کرسکے۔ ان کی طبیعت کے اضطراب اور بے چینی نے ان کو تاعمر یونہی مضطرب رکھا تھا۔ بعد ازاں دہلی کے ایک مدرسے میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔ مستقل مزاجی ایک کارِ دشوار تو ہے، مگر منزل تک پہنچنے والوں کو اس دریا کو پار کرنا پڑتا ہے۔تبھی کچھ حاصل حصول ہوتاہے۔ دادا جان نے…
نام کتاب: قلم کاوش
مولف: پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عمر
صفحات: 200
قیمت: دعائے خیر ،ڈاک خرچ ،مبلغ100کے ٹکٹ ارسال کریں۔
ناشر ،ملنے کا پتہ: راشد جمال پبلی کیشنزT-473 کورنگی نمبر ۲ کراچی
زیرِ تبصرہ کتاب ہمارے ملک کے شعبہ تعلیم کی معروف شخصیت اور خدمت خلق کے حوالے سے ایک معتبر نام پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عمر کے مضامین اور افسانوں کے مجموعے پرمشتمل ہے ۔ کئی تحریریں ’’ بتول ‘‘ میں شائع ہو چکی ہیں ۔
ڈاکٹر ممتاز عمر نے نہ صرف اپنے عملی کام سے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لیے خدمت کا ایک نمونہ پیش کیا ہے بلکہ اپنی تحاریر میں بھی ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے لازمی قدروں کو سادگی اور روانی سے شامل کیا ہے۔
ممتاز عمر صاحب کی شخصیت میں موجود انسانی ہمدردی واخلاص کا عکس ان کی تحریروں میں بھی جا بجا جھلکتا محسوس ہوتا ہے ۔ جہاں آپ نے عمرِ عزیز کا ایک طویل عرصہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی احسن انداز میںادائیگی کرتے ہوئے گزارا وہیں آپ نے اپنے سفرِ حجاز کو محبت اور وارفتگی کے انداز میں سپردقلم کیا ہے۔اس مضمون سے ان تمام لوگوں کو جوارضِ مقدسہ اور رسولِ محترم ﷺ کی محبت سے سر شار اس سفر کے متمنی ہیں…
پی آئی اے کے جہاز جیسے بھی ہوں، لیکن اندر داخل ہو کر ایسا لگا جیسے ہم پاکستان پہنچ گئے ہوں۔ فضائی میزبان کے منہ سے اردو سن کر بہت اپنائیت کا احساس ہؤا۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کو دیکھ کر ہم نے بڑے آرام سے بغیر کوئی تکلف کیے اپنے چھوٹے سوٹ کیس ان سے اوپر والے کیبن میں رکھو ائے۔ یہ سہولت کسی اور ائیر لائن کے جہاز میں اس آسانی سے نہیں ملتی، کیونکہ ان جہازوں میں پاکستانی اتنے نہیں ہوتے۔اس جہاز میں کوئی بھی غیر ملکی نہیں تھا۔
جہاز نے ٹیکسی کرنا شروع کیا تو ایک بار پھر شکر کیا۔ پرواز کے بلند ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی۔
ہم اپنی زبان کا مزہ لیتے ہوئے اور میٹھی اردو کی لوری سنتے سنتے نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ کھل گئی۔ روشن دن طلوع ہو چکا تھا۔ باقی کا سفر بادلوں کے نظارے دیکھتے ہوئے گزر گیا۔ جہاز کے کپتان نے اسلام آباد آمد اور لینڈنگ کا اعلان کیا اور جہاز اپنی بلندی کم کرنے لگا۔ چند ہی لمحوں میں زمینی مناظر واضح ہونے شروع ہو گئے۔ اسلام آباد کا پوٹھو ہاری لینڈ سکیپ سبزے سے بھرے ہوئے قطعوں کے ساتھ نظروں کے…
’’کل رات کچھ سرسری مطالعہ کےدوران آئن اسٹائن کی بیوی کے بارے میں جان کر میں چکرا کر رہ گیا ۔ کچھ لوگوں کے مطابق وہ قابلیت میں آئن اسٹائن سے زیادہ نہیں تو کم ازکم ہم پلہ ضرور تھی۔لیکن ایسا کیوں ہؤا کہ وہ نمایاں نہ ہوسکی ؟‘‘
معزز قارئین ! یہ الفاظ ڈاکٹر شیمازیم کے ہیں جوانہوں نےدو سال پہلے اپنی ٹوئٹ میں کہے تھے ۔مجھ تک بذریعہ محترمہ صائمہ اسما پہنچے جس کے لیے میں ان کی شکر گزار ہوں ۔ڈاکٹر نے ٹوئٹر میں اپنے تعارف میں بہت سے حوالوں کے ساتھ ایک تعارف بطور باپ کروایا ہے جو ان کے خواتین اور خاندان سے متعلق احساسات کا مظہر ہے ۔
اپنی ٹوئٹ میں وہ استفسار کرتے ہیں کہ ہم سب مادام کیوری کو جانتے اور یاد رکھتے ہیں ۔ کیوں ؟
اس لیے کہ وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں ۔ وہ پہلی شخصیت اور واحد خاتون ہیں جنہوں نے دو مرتبہ یہ اعزاز جیتا اور یہ اعزاز بھی صرف ان کے پاس ہے کہ انہوں نے سائنس کے دو مضامین طبیعات اور کیمیا میں نوبل پرائز جیتا ۔
اس کے بعداپنی بات وہ یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ:
’’ اب آئیں میلاوا میرک آئن اسٹائن کی طرف…
پہاڑ ہمیں ہمیشہ وحشت کی علامت لگتے تھے ، صحرا کے احسانوں میں ایک احسان کا ہم پہ اضافہ ہونے والا تھا، ہمیں پہاڑوں سے محبت ہونے والی تھی
یونہی گوگل گوگل کھیلتے کھیلتے گاڑی رکی تو سامنے ایک قدیم مسجد تھی، مسجد بودھیسر ۔
1505 میں تعمیر کردہ کارونجھر کے دامن میں واقع ڈیم کے کنارے بنی یہ مسجد اپنے وقت کی خوبصورت مسجد تھی ۔ یہ مسجد مکمل طور پہ سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کردہ ہے ، بورڈ پہ لکھی معلومات پڑھ کے اندازہ ہؤا کہ اس مسجد کی تعمیر بھی گنبد کے لحاظ سے ہندو اور جین مذاہب کی عبادت گاہوں کے تعمیراتی انداز میں کی گئی ہے ۔ گوری مندر کے مقابلے میں یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی ، دونوں ہی کی تعمیر میں سنگِ مر مر کا استعمال کیا گیا تھا لیکن گوری مندر اندر سے کافی بند اور گھٹا گھٹا سا تھا جب کہ یہاں کشادگی کا احساس ہوتا تھا ۔
مرکزی دروازے سے مسجد کے برآمدے تک جانے کے لیے ایک کچی راہداری بنی ہوئی تھی جس کے اطراف کئی قبروں کے تعویذ ابھرے ہوئے تھے ۔ ایک دو قبریں بے حد پرانی محسوس ہو رہی تھیں ، بے نام و نشان قبریں…
ہوسٹل لائف اور چار کی منڈلی
خیر میرا داخلہ اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایم اے اکنامکس میں ہوگیا۔ میں سول لائنز کے ہاسٹل میں منتقل ہوگیا ۔ یہاں بھی میرے لیے ہر لحاظ سے آزاد زندگی گزارنے کی سہولت موجود تھی مگر میں نے یہاں بھی قید کی زندگی ہی گزاری ۔ ہاسٹل کے ہلہ گلہ سے میرا کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہی مغرب کے بعد باہر نہ جانا، وقت پر کھانا کھانا اور پڑھنے بیٹھ جانا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہاسٹل میں شروع سے ہی مجھے بہت سی نعمتوں سے نوازاتھا۔ کالج کے پرنسپل بہت شفیق انسان تھے۔ مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ہاسٹل کے ساتھ والے کمرے میں جناب طیب گلزار صاحب میرے ہمسائے بنے اور پوری زندگی میرے لیے انمول سرمایہ ثابت ہوئے۔ جناب محترم عبدالحفیظ احمد صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے جو البدر پبلی کیشنز کے مالک تھے۔ ہمارا وقت بہت اچھا گزرتاتھا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد جناب عبدالوحید سلیمانی صاحب پیدل سنت نگر سے ہمیں ملنے آتے تھے۔ یہاں ہم چاروں کی منڈلی تھی۔ کھانے کے بعد تقریباً روزانہ مال روڈ سے ہوتے ہوئے مسجد شہدا تک جاتے اور واپس آتے ۔ عبدالوحید سلیمانی صاحب بہت نفیس آدمی تھے ۔…
اس روز جس کو بھی اطلاع ملی وہ فوراً ہی پہنچ گیا تھا۔
بس نوید نہ آسکاامریکہ سے۔ یہ جمعہ کی بات ہے، اسے امریکی پاسپورٹ پر بھلا پیر سے پہلے ویزا کیسے ملتا ۔ اس وقت تک تدفین تو ہو ہی چکی تھی ۔ محض جذباتی تسکین کے لیے دو روز آنے میں لگتے ، دو جانے میں ۔ محض ایک یا دو دن ہی وہ رک پاتا ۔ یہ میرے نہیں اسی کے الفاظ تھے ۔ ورنہ وہ تو بہت آنا چاہ رہا تھا ۔ جلدی میں خریدے گئے ٹکٹ کی قیمت بھلا ڈیڑھ ہزار ڈالر سے کیا کم ہوتی ۔ یہ بات بہر حال اس نے نہیں کہی تھی لیکن یہ ویزے کا مسئلہ واقعی ٹیڑھاہے ۔ اس کی پیدائش اس شہرکی ہے لیکن اب اوقات کے ساتھ اس کی شہریت بھی بدل گئی ہے ۔ ویسے وہ اب بھی اسی کھال میں سانس لیتا ہے جس میں پیدا ہؤا تھا ۔ باپ کا نام ، ماں کا نام ، جائے پیدائش بھی نہ بدلا جا سکا لیکن اب اسے اس جگہ آنے کے لیے ویزا درکار ہے ۔ بعض اوقات ہم اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ پھر واپسی کے لیے ویزا درکار ہوتا ہے۔
اور نوید ہی…
مومن کا وکیل اللہ ہے جو ہر مشکل گھڑی میں اسے سنبھالتا ہے ، بچاتا ہے اورشر سے اس کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جس طرح ایک وکیل اپنے Clint کومخالفوں کے ہاتھوں رسوا ہونے سے بچا کر با عزت زندگی گزارنے کا اہل بناتا ہے اور اس سے بڑھ کر جو عمل اور نیتوں کے حساب سے کھرے کھوٹے کو الگ چھانٹ کر رکھ دیتا ہے ۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ۔ ہوایوں کہ ایک دن میری بہو بچوں کے ساتھ شاپنگ کے لیے جا رہی تھی ، میں بھی ساتھ ہو لی ۔ جب گاڑی پارک کی تو وہ کہنے لگی ( میں اس کی خالہ ساس ہوں ) ’’ خالہ جان بہت اچھا ہؤا آپ ساتھ آگئیں ۔ آج ہم دونوں لائبریری بھی جائیں گی اور وہاں سے آپ بھی اپنی من پسند کتاب لے لینا۔ میں نے بچوں کے لائبریری ٹکٹ بنوانے ہیں ‘‘۔
’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے … اچھی کتاب تو میری کمزوری ہے‘‘۔
میری بہو جانتی ہے میرا فارغ وقت مطالعے میں گزرتا ہے ۔ طے یہ پایا کہ پہلے شاپنگ کی جائے اور شاپنگ سے فارغ ہو کر آخر میں لائبریری کا وزٹ کیا جائے ۔ میری…
چلتی پھرتی ،بھاگ دوڑ کر کام نمٹاتی نورین کے لیے ایک ٹک چارپائی پر رہنا مشکل ترین اور صبر آزما کام تھا۔اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے زبردستی سزا کے طور پر بستر کے ساتھ باندھ دیا ہو۔بستر پر لیٹے رہنا اس کے لیے اندھیری کوٹھڑی میں قید سے بھی بدتر تھا۔اسے ٹانگ کے فریکچر سے زیادہ محتاجی کا درد محسوس ہوتا تھا ۔
اب اسے بڑی بوڑھی خواتین کی رب کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تڑپ کے ساتھ مانگی جانے والی یہ دعا کہ یا اللہ محتاجی کی زندگی سے بچانا اور چلتے پھرتے اس دنیا سے لے جانا،کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آچکا تھا۔وہ جان چکی تھی کہ یہ محتاجی جہاں اردگرد والوں کے لیے مصیبت ہوتی ہے، وہاں یہ بندے کے اپنے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کیا جائے اس چیز کے بارے میں جہاں انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں صرف اللہ کا اختیار ہے وہاں تو صرف صبر کا حکم ہے ۔ نورین بھی پلستر لگی ٹانگ کے ساتھ اللّہ تعالیٰ کے اسی حکم کی فرماںبرداری میں دن گزار رہی تھی۔لیکن اس کے لیے صبر آزما لمحات تب آتے جب اس کے ارد گرد بکھیڑا…
گرمیوں کی لمبی دوپہریں،اور چھوٹی چھوٹی راتیں کیسے پلک جھپکتے میں گزر جاتیں اسے کچھ خبر نہ ہوتی۔دن بھر گھر کے کام نبٹاتے،سوتے جاگتے وقت کا پتہ ہی نہ چلتا اور پھر رات کو اس دشمنِ جاں کا فون آ جاتا اور صوفے پہ پھسکڑا مارے دنیا جہان کی باتیں کرتے جب روزن سے پو پھٹنے کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا تو وہ حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جیسے چلا اٹھتی۔
’’احمر صبح ہو گئی‘‘۔
اور وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوتا ’’ہاں تو!‘‘
وہ ان دنوں جیسے ہواؤں میں تھی۔جی چاہتا تھا چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتا دے کہ اسے وہ مل گیا ہے جیسی اس کی چاہ تھی۔
بھاری سی آواز،خوبصورت آنکھیں،گھنے چمکتے بالوں کا چھتہ سر پہ لیے جب وہ بھرے بھرے ہونٹوں سے مسکراتا تو مانو اس کا دل مٹھی میں آ جاتا۔
ٹھہریے،رکیے یہ سب افسانوی باتیں نہیں ہیں حرف حرف حقیقت ہے۔وہ ایسا ہی ساحر تھا۔اسے یاد ہے پہلی بار اس کی آواز سن کر وہ دیر تک حیرت زدہ سی رہی تھی۔
’’تمہاری شکل تو معصوم سی لگتی ہے اور آواز ایسی بھاری جیسے کوئی بڑی عمر کا مرد ہو‘‘۔
یہ اس کا پہلا تبصرہ تھا۔وہ کھل کر ہنسا تھا اور وہ جھینپ سی گئی۔جانے کیوں!
پھر پتہ نہیں…
’’آپ کو ہوأ کیا ہے پپا؟ مجھے کیوں نہیں دیں گے پیسے آپ؟ کیا میں آپ کا کچھ نہیں لگتا یا سوتیلا ہوںیا آپ نے مجھے ایدھی کے جھولے سے اٹھایا تھا؟‘‘سدید کا غصے سے تنفس تیز ہو رہا تھا ۔بات ختم نہیں ہوئی تھی، ہو بھی کیسے سکتی تھی ۔ اس کے کلاس فیلوز کالج ٹرپ پر شمالی علاقہ جات میں جارہے تھے ۔تیس بتیس ہزار روپے معمولی رقم تو نہیں ہوتی جو نوشاد علی نے بیٹے کو چپ چاپ پکڑادی ۔پتہ تھا چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔بھائی کہاں اڑیل گھوڑا،جو بدکنے کو تیار ہی رہتا ۔تیس بتیس ہزار روپے گننے میں کون سا ماہ و سال خرچ ہونا تھے ۔یوں چٹکی بجاتے گن لیے اور گننے کے بعد اس پر ايسی کوئی جنونی کیفیت طاری ہوجاتی۔آنکھوں سے شعلے نکلتے تو سب کو نظر آ ہی رہے تھے ۔
نوشاد علی نے تحمل سے کام لیتے ہوئے بلکہ ضبط کرتے ہوئے بس اتنا کہا۔
’’بیٹا اتنی رقم تو غریب چوکیدار ،ریڑھی والے ٹھیکے والے چار ماہ دن رات کی محنت سے کماتے ہیں ،تمہاری بہنوں کی ذمہ داری باقی ہے۔پیسے کوئی پتے تو نہیں ہوتے جو’’درختوں سے توڑ لیے جائیں‘‘۔تنفر سے پپا کی بات کاٹ کر سدید نے فقرہ مکمل…
عنیزہ کالج وین کی کھڑکی سے نظر جمائے باہر دیکھ رہی تھی۔ لڑکیاں زور و شور سے باتوں میں مشغول تھیں لیکن عنیزہ کو کسی کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی ۔ بس وہ باہر دیکھنے میں مگن تھی۔
آدھا راستہ تو شہر کے گنجان علاقوں سے گزرتا تھا لیکن مضافات شروع ہوتے ہی ٹریفک کا رش کم ہو جاتا تھا اور پھر کھیت کھلیان اور گوٹھ آجاتے ۔سر سبز لہلہاتے کھیت دور تک سبزے کی بہار دکھاتے ، درمیان میں کچے پکے کوٹھے دکھائی دیتے ۔ گوٹھ کے باہر کے بڑے اور کچے راستے پر چھوٹے بڑے لڑکے اپنے اپنے ڈھور ڈنگر کو لاٹھی سے ہنکاتے گزر رہے ہوتے۔ان نو عمر چرواہوں میں بھی اسے غضب کا اعتماد نظر آتا جو گائے بیل بکریاں اور بھیڑیں لیے چلے جا رہے ہوتے ۔کچھ بیلوں کے بڑے بڑے گول نوکیلے سینگ ہوتے ۔ ایسے بیلوں کو ’’ چاند بیل ‘‘ کہتے ہیں ۔ بچپن میں جب بقر عید پر وہ بھائی کے ساتھ چاند بیل دیکھنے جاتی تو اسے ان سے بڑا ڈر لگتا تھا اور ابھی دیکھتی کہ یہ چھوٹے لڑکے ان سے ذرا نہیںڈرتے اور سارے مویشی بھی اُن کے اشاروں کو خوب پہچانتے ہیں … ذرا کوئی ادھر…
جب بابا تاج فوت ہو گیا تو ریاست بہاولپور میں مقیم اس کے بھائی اس کی تعزیت کے لیے اپنی بھاوج کے پاس ہمارے گائوں میں آئے ۔ وہ ایک مدت پہلے یہاں سے اپنا زرعی رقبہ فروخت کر کے چلے گئے تھے ۔
نواب بہاولپور کو ان کے ایک ڈپٹی کمشنر نے زمینوں کو زیر کاشت لانے کے لیے اچھے مشورے دیے تھے جن کے تحت ہیڈ سلیمانکی سے ایک نہر ضلع بہاول نگر کو سیراب کرنے کے لیے نکالی گئی تھی ۔ پنجاب کے مشرقی شمالی اضلاع کے لوگ نہایت جفا کش اور بہتر کاشت کار تھے لیکن ان کے پاس زرعی اراضی فی خاندان کم تھی۔ ضلع بہاولنگر کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے نواب صاحب کو تجویز دی کہ وہ اپنی ریاست کی بے کار پڑی ہوئی زمین کی اُسی طرح چک بندی کرائیں جیسے انگریزوں نے پنجاب میں گنجی بار اور ساندل بار میں چکوک بنوا کر لوگوں کو زراعت میں ترقی کا موقع دیا تھااور پنجاب کے زمین داروں کو مناسب داموں پر آباد کاری کے لیے آنے کا اعلان کروائیں ۔
اس اعلان کا فائدہ یہ ہؤا کہ اُدھر کے کاشتکار اپنا ایک ایکڑ بیچ کر جب ریاست بہاولپور آتے تو اسی قیمت میں…
خواتین کی جسمانی و ذہنی صحت اور مضبو ط سماجی حیثیت معاشرے کی بہتری کے لیے کیوں ضروری ہے ، حقائق کی روشنی میں ایک جائزہ
باشعور خواتین اور با شعور مردوں سے ہی ایک صحت مند ،مستحکم خاندان وجود میں آتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ مضبوط اور صحت مند ہوتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں کئی حوالوں سے خواتین میں شعور اور آگاہی کی کمی رہ جاتی ہے جس کے اثرات خاندان اورمعاشرے پر پڑتے ہیں۔ اگر خواتین کو احساس ہو جائے کہ خالقِ کائنات نے انہیں کن خصوصی صلاحیتوں اور قوتوں سے نوازا ہے اور وہ ان کا مثبت استعمال کر سکیں تو معاشرے میں بہترین انقلاب رونما ہو سکتا ہے ۔ ان کی گود میں ہی وہ لیڈر پرورش پاتے ہیں جن کی ذہن اورکردار سازی میں وہ بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ان ہی کی محنتوں اوردعائوں سے دنیا کو عظیم ترین عالم ، محقق، محدث، فیقہہ،منتظم،مجاہد اور رہنما نصیب ہوتے ہیں ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بحیثیت مجموعی معاشرہ عورت کی اس خصوصی حیثیت کی قدر کر رہا ہے اور نہ خود عورت کو اس کی اہمیت کا احساس ہے ۔
اس ضمن میں خواتین کا اپنا کردار بنیادی اہمیت کا حامل…
حضور اکرم سید عالم ﷺ کی ذات بابرکات، عالی صفات تمام اخلاق و خصائل، صفات جمال میں اعلیٰ اور اشرف اور اقویٰ ہے ۔ وہ تمام کمالات جن کا عالم امکان میں تصور ممکن ہے ، سب کے سب نبی کریم ؐ کو حاصل ہیں ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ علم و حکمت کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔سب سے زیادہ محترم، سب سے زیادہ منصف ، سب سے زیادہ حلیم و بردبار، سب سے زیادہ پاک دامن اور عفیف اور لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے اور لوگوں کی ایذارسانی پر سب سے زیادہ تحمل کرنے والے تھے۔
نبی کریم ؐ کی مجالس خیرو برکت
آپؐ کی مجلس حلم و علم ، حیا و صبر اور متانت و سکون کی مجلس ہوتی تھی اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور کسی کی حرمت پر کوئی داغ نہ لگایا جاتا تھا اور کسی کی غلطیوں کی تشہیر نہ کی جاتی تھی ۔
آپؐ کے اہل مجلس ایک دوسرے کی طرف تقویٰ کے سبب متواضعانہ طور پر مائل ہوتے تھے ۔ اس میں بڑوں کی توقیر کرتے تھے اور چھوٹوں پرمہر بانی کرتے تھے اور صاحب حاجت کی اعانت کرتے تھے اور بے وطن پر رحم…
اللہ کا تقویٰ بندے کوگناہ سے بچانے کا بڑا سبب ہے، اور یہ ایمان کے بڑے مقامات میں سے ہے۔ تقویٰ قیامت کے روز نجات کا سفینہ ہو گا۔قرآن کریم میں تین سوسے زائد مرتبہ تقویٰ کے مشتقات کا ذکر آیا ہے۔ اور ۸۱ مرتبہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو اس کی انسانی زندگی میں اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تین مرتبہ فرمایا: ’’انّ اللہ یحب المتقین‘‘ بلا شبہ اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔تو یہ متقین کے لیے کس قدر خوشی کی بات ہے۔
تقویٰ کے لغوی معنی بچاؤ اور حائل ہو جانے کے ہیں، یہ’’ وقی ‘‘ سے بنا ہے۔ یعنی تقویٰ بندے کو اللہ کے غضب اور اس کی معصیت سے بچاتا ہے۔ تقویٰ بندے میں اللہ کا خوف اور اس کی خشیت پیدا کرتا ہے، بندہ اپنی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کر لیتا ہے اور اس سے ڈر کر گناہوں اور معصیت کے کاموں سے اجتناب کرتا ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ وہ بنیادی شرط ہے جو ہدایت اور رہنمائی کے راستے پر چلنے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے اور یہ ’’ھدیََ للمتقین‘‘ ہے۔اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ’’متقی‘‘…
قارئین کرام!
ملک میں کرونا کی صورتحال تشویش ناک حد تک بگڑ گئی ہے۔روزانہ اموات کی تعداد ہر روز پچھلے دن سے بڑھ کر نیا ریکارڈ قائم کردیتی ہے۔ پابندیوں سے حالات کچھ بہتر بھی ہو گئے تو عید کے دنوں میں دوبارہ خرابی کا امکان رہے گا۔ آبادی کو دیکھتے ہوئے ویکسی نیشن کا عمل بہت سست رفتار ہے۔ ایسے میں احتیاط کے سوا کوئی چارہ نہیں۔کم از کم اتنا ہؤا ہے کہ ہمارے لوگوں میں کرونا کے وجود سے انکار کرنے کے رویے میںخاصی کمی آئی ہے، لہٰذااصولوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہلکی پھلکی سختی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ مقامی ویکسین کی تیاری کی خبر بھی ہے جس سے یقیناًحالات بہت بہتر ہوں گے۔
رمضان المبارک کا چاند اس حال میں طلوع ہؤاکہ ملک گیر ہنگاموں اور احتجاج نے راستے بند کررکھے تھے۔ روزوں سے قبل مسافرت اختیار کرنے والے پھنس کررہ گئے۔ توڑ پھوڑ، ڈنڈے بردار ٹولیوں کی گردش، جلاؤ گھیراؤ، تشدد، اغوا، زبردستی، اس مبارک ماہ کے آغاز پر تحریک لبیک کا یہ رویہ ہرگزدرست نہیں کہا جا سکتا۔نبی اکرم ﷺ سے محبت ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے اور ان کے ناموس کا مسئلہ ہم سب کا مسئلہ۔اس حساس مسئلے پرنہ تو قوم…
فہرست
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
اللہ کا تقویٰ
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
نبی کریمﷺ کی مجالس اور گھریلو زندگی
ڈاکٹر محمد عَبْدُ الحيّ
صحت مند خواتین صحت مند معاشرہ
ڈاکٹر فلزہ آفاق
تزکیہ قلب کیسے ہو
ڈاکٹر بشری تسنیم
توہین رسالتؐ کیسے روکی جائے؟
حامد میر
ماں واہلی
دانش یار
راستے
غزالہ عزیز
عافيت
قانتہ رابعہ
آرزو بدل جائے
مدیحہ الرحمان
عیادت
نبیلہ شہزاد
اللہ بہترین وکیل ہے
نسیم طارق
سائے کی تلاش
سعید نقوی
جنگی قیدی کی آپ بیتی
سید ابو الحسن
صحرا نورد
نیّر کاشف
عورت بے چاری!
فرحت طاہر
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
ڈاکٹر فائقہ اویس
تبصرہ کتب
یاسمین صدیقی
ہمارے دادا جان
قدسیہ بتول
زہریلے رویّے
نگہت حسین
بتول میگزین
خواجہ مسعود,…
محشر خیال
خواجہ مسعود
پیارے نوری ساتھیو!
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
ۓنئے عیسوی سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ سردی کی شدت ہے۔ پہاڑوں نے برف کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ۔ دنیا اجلی اجلی لگ رہی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ یہ اجلا پن ہمیشہ برقرار رہے۔ اس اجلے پن کو اس پاکیزگی کو ہم ہی یا تو برقرار رکھیں گے یا میلا کر دیں گے کیوں کہ اس دنیا کو صاف ستھرااور خوب صورت بنانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے جو اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب نصیحت کی ہے کہ جب تم کسی جگہ کو چھوڑ کر جائو تو اسے پہلے سے زیادہ صاف ہونا چاہیے۔مگر ہم اس دنیا کو دو طرح سے میلا کر رہے ہیں۔ ایک تو آلودگی پھیلا کر جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پھول کملا گئے ہیں اور سبزہ خاک ہو رہا ٕہے ، جنگلی اور آبی حیات مر رہی ہے، نت نئی وبائیں اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ خوش و خرم، صحت مند افراد کے چمکتے ہوئےچہروں کی جگہ زرد رو، خستہ تن، مردہ دل اور مایوس افراد آلام زندگی کا نوحہ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوسرے اپنے رویوں کی بد صورتی سے۔ ہم نے وہ تمام اخلاق…
فہرست
اللہ کے نام سے
آپ کی باجی
(حمد(نظم
ظفر محمود احمد
قرآن اور ہم
ام حبیبہ
روشنی کا سفر
نزہت وسیم
رم جھم لاج
مدیحہ نورانی
انعام
انعام توصیف
بدلتا آسمان
غلام زادہ نعمان صابری
جامع مسجد شیخ زاید
ریان سہیل
بینگو میاں
آئمہ بخاری
بھن بھن مکھی
ڈاکٹر الماس روحی
چک چکیسر
شاہدہ اکرام
(کرونا (نظم
محمد شریف شیوہ
حسین پری
ظہیر ملک
چڑیا گھر کی سیر
ذوالفقار بخاری
(بچپن ہے پر تو جنت کا(نظم
طاہرہ طلعت
ذرا مسکرا لیجیے
نوری ساتھی
شہری جنگلات
سلیمان ملک
آئو بچو سنو کہانی
ام عبد منیب
مغرور شہزادی
ایمن بخاری
مصلحت
ثوبیہ رانی
ریڈیونورستان
ذروہ احسن
(بچوں کے خواب(نظم
شہلا کرن
آپ نے پوچھا
فارعہ
کھلتی کلیاں
نوری ساتھی
اللہ بخش درزی
محسن ابڑو پنجتنی
اللہ بخش کی شروع سے ہی پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ والد صاحب بہت سمجھاتے تھے کہ بیٹا پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب۔
اللہ بخش اسکول تو جاتا تھا مگر اس کی کارکردگی ہمیشہ مایوس کن ہی رہتی ۔ وہ بہت کوشش کے باوجود سبق یاد نہ کر پاتا ۔ یوں رفتہ رفتہ وہ پڑھائی سے ہی بے زار ہو گیا۔ اللہ اللہ کر کے اس نے میٹرک پاس کیا۔
ایک دن اللہ بخش کے والد عبد الرحمن کو ان کے دیرینہ دوست راشد صاحب نے مشورہ دیا ’’اگر تمھارے بچے کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تو اس سے پوچھو تو سہی آخر وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
چناں چہ عبد الرحمن صاحب نے اللہ بخش سے پوچھا: بیٹا آپ کا پڑھائی کی طرف رحجان نہیں ہے تو آپ کی کیا خواہش ہے ؟ آپ کا کیا بننے کا ارادہ ہے ، ہمیںبتائیں ہم آپ کی وہ خواہش پوری کر دیں گے ۔
اللہ بخش ان کے نرم لہجے اور حوصلہ افزا رویے پر سخت متعجب ہوا ۔ جھجکتے ہوئے بولا :
’’ بابا جان میں نے جتنا پڑھنا تھا وہ پڑھ لیا اب میں کوئی ہنر سیکھنا چاہتا ہوں ۔‘‘
بابا جان بولے :’’ ٹھیک ہے…
ٔآپ نے پوچھا
فارعہ
حسن عمر ۔نارووال
س: آپ خوش قسمت ہیں یا بد قسمت، اس کا فیصلہ کون کرتا ہے ؟
ج: وقت ۔کبھی ہم ماضی کے وہ دن یاد کرکے ہنستے ہیں جب ہم سمجھتے تھے کہ ہم سے زیادہ ستم رسیدہ اورکوئی نہیں اور کبھی وہ لمحات یاد کر کے رو دیتے ہیں جب ہم سوچتے تھے کہ ہم سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں
٭…٭…٭
رضا سجاد ۔اسلام آباد
س: آپ کی نظر میں سب سے بڑی حماقت کیا ہے ؟
ج: یہ سوچناکہ ’ لوگ کیا سوچتے ہیں ‘ بھئی اگر یہ بھی ہم ہی سوچیں گے تو پھر لوگ کیا سوچیں گے؟
٭…٭…٭
فریحہ یوسف۔اوکاڑہ
س: چاہے کتنا ہی پھونک پھونک کرقدم اٹھائیں ، پھربھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ۔ آخر کیوں ؟
ج: زندگی کے امتحان میں بہت سے لوگ اس لیے بھی فیل ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر ایک کو پرچے میں مختلف سوال آتے ہیں ۔
٭…٭…٭
عظمیٰ فاروق۔ کراچی
س: کوئی نصیحت؟
ج: بے وقوفوں کے ساتھ کبھی بحث نہ کریں ۔ وہ آپ کو اپنی سطح تک کھینچ لاتے ہیں اور پھر تجربے کی بنا پر ہر ا دیتے ہیں۔
٭…٭…٭
احمد ابراہیم ۔ ملتان
س: کیا یہ ممکن…
نماز
دین اسلام کا نگینہ نماز
زندگی کے لطائف کا قرینہ نماز
قربِ الٰہی کا وسیلہ نماز
گناہوں کی بخشش کا حیلہ نماز
درس الفت انسان دیتی ہے نماز
ہربُرے کام سے روکتی ہے نماز
جنت و دوزخ کی تفریق اس سے
مومن و کافر کی تفریق اس سے
جو پڑھتا نہیں نماز پنجگانہ
اس کا طرز عمل زندگی کا فرانہ
خشوع وخضوع سے پڑھو نماز
پاک باطن وضو سے پڑھو نماز
’’ ارے بیٹا!اب بس بھی کرو ۔ کب سے چکر لگا رہے ہو ۔‘‘ حماد کی امی نے اسے ٹہلتے ہوئے کہا۔حماد جوبہت دیر سے کمر میں ادھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا بولا:
’’ میری پیاری امی آج ٹیوشن پر میری بہت اہم کلاس ہے میں مس نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘ اس نے مسلسل چکر لگاتے ہوئے فکر مندی سے کہا ۔
’’بیٹا ! تمہارا دوست آنے والا ہی ہوگا اس کو کوئی کام آن پڑا ہوگا ۔‘‘ امی پیار سے سمجھاتے ہوئے بولیں ۔ آج فزکس کی بہت اہم کلاس تھی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھا ۔ اس کی نگاہیں اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر مرکوز تھیں ۔ہر گزرتا لمحہ اس کی بے چینی میں اضافہ کر رہا تھا ۔ اسے مزید انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔
‘‘ میں جا رہا ہوں … مجھے دیر ہو رہی ہے … سیف آئے تو آپ اسے بتا دیجیے گا ۔‘‘ حماد یہ کہہ کر ٹیوشن کے لیے روانہ ہو گیا ۔ حماد اور سیف اللہ بچپن کے گہرے دوست تھے ۔ دونوں نویں کلاس کے طالب علم تھے ۔ وہ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے ٹیوشن بھی ایک ساتھ جاتے تھے ۔ سیف اللہ کا گھر…
آج عید ہے
زینب منیب
’’ مغیرہ اُٹھو آج عید ہے ۔ عید کی نماز پڑھنے جانا ہے۔نہا کرتیار ہو جائو۔‘‘ امی نے مغیرہ کو اٹھاتے ہوئے کہا ۔مغیرہ اٹھا اور نہا کرتیار ہوگیا۔
مغیرہ نے کہا :’’امی کیا میں کچھ کھا سکتا ہوں؟‘‘امی نے کہا : عید الاضحی کی صبح کچھ نہیں کھاتے۔پہلے نماز پڑھتے ہیں۔ پھرقربانی کرتےہیں پھرقربانی کے گوشت سے کھاتے ہیں۔ یہ حضرت محمد ؐ کی سنت ہے ۔ ہالہ نے پوچھا :امی جان اگرکسی سے بھوک برداشت نا ہو تووہ کھا سکتا ہے ؟
امی جان نے کہا : ’’جی ہاں ، جس سے بھوک برداشت نہیں ہوتی ، وہ کھا سکتا ہے ۔‘‘
اُس کے بعد سب بچے اپنے بڑوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے گئے ۔نماز کے بعد مردوں نے بکرا ذبح کیا اورعورتوں نے کھانا بنایا۔ سب نے کھانا کھایا۔
ہالہ نے کہا: ہم اپنے رشتہ داروں اور ضرورت مند لوگوں کوگوشت کیوں دیتے ہیں ؟
ابو نے کہا : اس لیے کہ یہ حضرت محمدؐ کی سنت ہے ۔
مغیرہ نے کہا : قربانی کرنا کس کی سنت ہے ؟
امی جان: قربانی کرنا حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔
ہالہ نے کہا : آج اسلامی تاریخ کیا ہے ؟
مغیرہ نے کہا : آج دس ذوالحجہ ہے ۔
ابونے کہا…
رابعہ سے ملاقات اور بات چیت کے کئی دنوں بعد تک نینا اُداس اور بے چین رہی۔ وہ سوچتی تھی کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ شاید اس کے دوستوں کے حق میں بہتر نہ ہو ۔ وہ کبھی بالکل چُپ ہو جاتی ، کبھی بے تحاشہ ہنسنے لگتی ۔ اس ذہنی دبائو نے اس کی صحت پر بھی اثر ڈالا تھا ۔ وہ بہت کمزور اوربیمار نظر آنے لگی تھی ۔ بلو سائیں کی عقابی نگاہوں نے نینا میں آنے والی تبدیلی بھانپ لگی تھی ۔
اتوار کی رات بلوسائیں اور فہیم بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ نینا تیار ہو کر باہر جانے کے لیے نکلی۔
’’ کہا جارہی ہو؟‘‘ بلو چیخا۔
’’ مجھے نہیں معلوم۔‘‘ نینا نے جواب دیا۔
’’ تو مجھے معلوم ہے ۔تم کہیں نہیں جا رہی ، بیٹھ جائو۔‘‘ بلونے اسے زبردستی کرستی پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ مجھے جانا ہے بلو۔ پلیز مجھے جانے دو،۔‘‘ نینا نے التجا کی۔
بلو سائیں ایک دم طیش میں آگیا ۔وہ اسے کھینچتا ہوادوسرے کمرے میںلے گیا ۔ نینا نے مزاحمت کی ۔ اسی وقت گھنٹے نے بارہ بجائے ۔ آدھی رات ہو چکی تھی۔اب باہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔وہ تھک کر بیٹھ گئی۔ بلو اس پر چیخ…
’’آپی!تم نے سینڈوچز پلیٹ میں غلط طریقے سے رکھے ہیں۔ یہ دیکھو اس تصویر میں کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔تمہیں ذرا ڈیکوریشن نہیں آتی‘‘۔
مشعل کا منہ بسور کر آپی کے ساتھ’’تم‘‘ کہنا اس کی نٹ کھٹ شخصیت کا حصہ تھا۔
’’مشعل!یہ چھری کیسے رکھی ہے تم نے؟ خالہ مہ پارہ کی باتیں بھول گئیں جو اسی بات پر سنی تھیں تم نے اس دن؟‘‘
’’ہاں ہاں یاد ہے۔خواہ مخواہ نحوست ہوتی ہے….ہنہہ!‘‘
’’مگر ٹھیک بات ہے کہ خطرناک بھی تو ہے اس طرح رکھنا۔اگر لگ جائے پلیٹ اٹھانے والے کے تو….‘‘
مصباح نے ناصحانہ انداز میں چھوٹی بہن کو سمجھانا ضروری سمجھا۔
’’مصباح….مشعل کیا کر رہی ہو؟ تم دونوں کیا آپس میں ہی لگی رہو گی؟ مصباح !تم نے دھلے ہوئے میز پوش ابھی تک نہیں بچھائےاور مشعل! تمہیں موبائل سے فرصت ہوتو ذرا گیلری میں آجاؤ۔نرسری سیٹ کراؤ میرے ساتھ‘‘۔
کاموں کے انبار کے درمیان مشعل کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر نازیہ کے لہجے میں تنبیہ اور ناگواری نمایاں تھی۔دونوں بہنیں اپنی بحث چھوڑ کر ماں کے ساتھ جت گئیں ،اس تجسس کے ساتھ کہ مہمان داری تو گھر میں ہوتی ہی رہتی ہے،آج کیا خاص بات ہے کہ امی صبح سے لگی ہوئی ہیں اور ان کا اطمینان ہی نہیں ہورہا۔آخر نازیہ نے…
وہ آپ میں سے بہت سوں کے گھروں کے عقبی حصے کے گمنام سے گوشے میں ہے، گھٹنوں پر اس کا وہ سر دھرا ہے جس میں انمول اسباق محفوظ ہیں، مچلتے ار مانوں والا دل لیے وہ خاموش اور بیکار بیٹھا ہے!
ایک پرانی مثل ہے !
منگنی ہوئی کتاب سے گئے ! شادی ہوئی ماں باپ سے گئے! بچے ہوئے اپنے آپ سے گئے! گویا’’ ایک لال پالے، سارا جوبن گھالے‘‘ ۔
یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ہماری تہذیب نے آج جیسی ترقی نہیں کی تھی جب دولہا میاں گھر میں وہ واحد شخص ہوتے تھے، جو خاندان کے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں مہینوں اپنی دلہن سے بات چیت نہیں کرسکتے تھے اور شادی سے قبل لڑکے لڑکی کا ملنا تو درکنار ایک دوسرے کو دیکھنا بھی ایسا خیال کیا جاتا گویا آگ اور پھونس کا بیر ہے ۔ دو نسلوں میں خلیج کا مسئلہ اس وقت بھی موجود تھا۔ چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان تال میل کی کمی ان دنوں بھی محسوس کی جاتی تھی لیکن بزرگوں کے تجربات اور دانائی پر مشتمل فیصلوں کو اہمیت نہ دینا بڑی بے ادبی تصور کی جاتی، ان سے بحث کرنے والے کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ۔
بزرگ کی…
قارئین کرام! گرمی کی لہر کے ساتھ ہی ملک میں کورونا کی تیسری لہربھی آچکی ہے اور ایسی زوردار ہے کہ بیماری اور اموات کے اعدادو شمار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ کہاں تو فروری کے مہینے میں زندگی معمول پہ آنے کو تھی اور کہاں مارچ شروع ہوتے ہی ایک دم وبا کے پھیلاؤنے دوبارہ زور پکڑ لیا۔نتیجہ یہ کہ ایک بار پھر ہم مکمل لاک ڈاؤن پر مجبور ہو گئے ہیں تاکہ وبا کے اعدادو شمار اس حد تک نہ جائیں کہ صحت کی سہولیات کا نظام فیل ہو کر رہ جائے۔ اللہ کرے اس بار تدابیر مؤثر ثابت ہوں ۔ ہمارے ہاں بے احتیاطی کا کلچر دیکھتے ہوئے اصول و ضوابط کی پابندی کروانے کے لیے سخت نگرانی اور قانون کے نفاذ کی ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کا آغاز ہورہا ہے، اللہ کرے کہ ہم اس ماہِ مبارک کو اس کے حقیقی تقاضوں کے ساتھ گزاریں، قرآن سے تعلق مضبوط کریں، تقویٰ اور تزکیہ کے حصول کو اپنا مطمحِ نظر بنائے رکھیں ، گناہوں کی معافی کے خواست گار ہوں، اللہ سے اس کا رحم طلب کریں، اللہ کی راہ میں حسنِ نیت سے خرچ کریں تاکہ زندگی آزمائشوں سے نکلے آمین۔
بنگلہ دیش اپنی آزادی کی…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔راولپنڈی
’’چمن بتول‘‘ شمارہ دسمبر2020 سامنے ہے سب سے پہلے نیلے، پیلے ، اودے،سبز رنگوں سے مزین سر ورق دل کو بھاتا ہے۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ صاحبہ نے کرونا کی بڑھتی ہوئی وبا پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، اس کے بعد آپ نے سقوط ڈھاکہ پرمختصر لیکن جامع تبصرہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے غور کے لائق ہیں ’’سقوط ڈھاکہ ایک ایسی المناک داستان ہے کہ جب تک سینے سے باہر نہ آجائے سینوں کو چیرتی رہتی ہے اور دلوں پر آبلے ڈالتی ہے ‘‘۔
’’ قرآن کی اثر انگیزی ‘‘( ڈاکٹر مقبول احمد شاہد) نے خوب لکھا ہے ’’ قرآن جس زبان میں نازل ہؤا وہ اس کے ادب کا بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے ۔ کلام اتنا اثر انگیز ہے کہ کوئی زبان دان آدمی اسے سن کر سر دُھنے بغیر نہیں رہ سکتا حتیٰ کہ یہ کلام سن کر مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ‘‘۔
’’ رسولؐ اکرم کی حکمت تبلیغ‘‘ ( الماس بن یاسین امان اللہ)اس مضمون میں رسول پاکؐ کی تبلیغ اسلام کے چیدہ چیدہ اصول واضح کیے گئے ہیں ۔ مثلاًاصول تدریج، حکمت، عمدہ نصیحت، مجادلہ حسنہ، نرم بات،…
فہرست
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
قرآن میں سائنسی حقائق کا بیان
ڈاکٹرمقبول احمد شاہد
عشقِ رسول اللہ ﷺ
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
جنگ71ء کے مشہور بیانیے حقائق کی روشنی میں
تزئین حسن
غزل
حبیب الرحمن
غزل
عزیزہ انجم
سیاستدان
قانتہ رابعہ
سات چاقو
سلمان بخاری
سوال
فرحی نعیم
ہیلیوسی نیشن
ڈاکٹر کوثر فردوس
جب احساس ہؤا
نبیلہ شہزاد
ہٹلر
نسترن احسن فتیحی
پانی بچائیں
فریدہ خالد
ترکی بہ ترکی
در شہوار قادری
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
ڈاکٹر فائقہ اویس
کرو مہر بانی تم اہل زمیں پر
ڈاکٹر ثمین ذکا
یہ کس کی آواز ہے
ربیعہ ندرت
پیاری خالہ جان کی جدائی
الیفہ فاطمہ
خواتین اور سیلف ڈیفنس
راحیلہ چوہدری
محشر خیال
پروفیسر خواجہ مسعود،نسیم راشد
عہد وفا
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
یہ جون 2009 کی بات ہے۔ سنگا پور کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ہم تقریباً ایک ہفتہ ٹھہرنے کی نیت سے پہنچے ۔ سامان رکھتے ہی دل چاہا کہ تازہ دم ہونے کے لیے شاور لیا جائے ۔ باتھ روم میں گھسی تو معلوم ہو&ٔا کہ وہاں بس ایک ہی شاور تھا جو کہ باتھ ٹب پر نصب تھا ،ایک عدد نلکا بھی وہیں موجود تھا۔ مجھے تو جلدی سے نہا کر فارغ ہونا تھا تاکہ باقی لوگ بھی نہا دھو سکیں۔ میاں جی سے مسئلے کا حل مانگا۔ وہ آئے اور خوب اچھے سے باتھ روم کا معائنہ کرنے کے بعد فرمانے لگے کہ ٹب میں ہی شاور استعمال کرنا پڑے گا کیونکہ اگر ٹب سے باہر پانی گرا تو وہ ڈرین نہیں ہوگا۔ مجھے تھوڑی جھنجھلاہٹ ہونے لگی کہ یہ کیا ہے ۔ اتنے میں روم سروس والا لڑکا آیا ۔ ہم نے اس سے ماجرہ معلوم کیا کہ ٹب کے باہر شاور یا نلکا کیوں نہیں ہے۔ اس کا جواب سن کر میں سوچ میں پڑ گئی اور پھر مجھے سنگا پور کی ترقی کا راز معلوم ہوگیا ۔
اس نے بتایا کہ اس کے ملک میں پانی ضا ئع کرنا سخت ناپسند کیا جاتا ہے کیونکہ…
دل سے ہر شک نکالیے صاحب
اب نہ شجرے کھنگالیے صاحب
چاند کا دل دھڑک رہا ہوگا
اپنا آنچل سنبھالیے صاحب
اک ذرا سی زبان نے کتنے
دوست دشمن بنا لیے صاحب
تم بھی اپنی کمر کو کس رکھو
ہم نے لنگر اٹھالیے صاحب
کتنے کلیوں سے پھول چہروں کے
وقت نے، رنگ کھالیے صاحب
خون کیوں آنکھ میں اتر آیا
شک کو دل سے نکالیے صاحب
بعد مدت ملیں کفِ افسوس
وقت اتنا نہ ٹالیے صاحب
ایک ہم کیا، عطا ہوئے لمحے
کس نے کتنے بچالیے صاحب
آپ ہی کچھ کہیں کہ اس دل کو
کتنے سانچوں میں ڈھالیے صاحب
کب پلٹ جائیں دن، کسی سر کی
پگڑیاں مت اچھالیے صاحب
جلوہ گر آج حبیبؔ ہوتے ہیں
اپنی آنکھیں سنبھالیے صاحب
کالی رات اکیلا چاند
پھرتا ہے آوارہ چاند
چمکیلا بھڑکیلا چاند
پاگل من کا سودا چاند
دل داروں پر ہنستا چاند
سوکھی شاخ سا پتلا چاند
آنکھیںدیکھیں اک سپنا
بھیگی رت اور پورا چاند
سارا گاؤں نکل آیا
جب ندی میں اترا چاند
دل کی بات سنے کوئی
دیواروں سے کہتا چاند
جوبن پہ جب آئی رات
تم نے بھی تھا دیکھا چاند
اس نے بال بکھیرے جب
شرمایا گھبرایا چاند
ہم نے بھی دیکھے تھے خواب
ہم نے بھی مانگا تھا چاند
نکاح ایک ایسا عہد وفا ہے جس کو اللہ رب العزت کے نام پہ گواہوں کی موجودگی میں قائم کیا جاتا ہے۔ اور ’’عہد الست‘‘ کے بعد یہ وہ پہلا اقرار ہے جو اولاد آدم کے درمیان لازمی قرار پایا ہے ۔ رب العلمین نے اولاد آدم سے اقرار لیا کہ وہ ہر حال میں اسی کو رب تسلیم کریں گے یہ خالق اور مخلوق میں وہ ’’عہد وفا‘‘تھا جس کے گواہ فرشتے اور کل کائنات تھی ۔ دنیا کا نظام چلانے کے لیے مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ نکاح کی شکل میں لازم ہؤا جس پہ گواہ لازمی اور اعلان مستحسن ہے ۔ دنیا کی کوئی تہذیب اس سے انکار نہیں کر سکتی ۔ جانوروں اور انسانوںکے طرز زندگی میں یہی بنیادی فرق ہے ۔
’’عہد الست ‘‘میں مکمل وفا کا تقاضا ہے ۔ قولی عملی اور ظاہری و باطنی طور پہ ایک ہی رب کا ہو کر رہنا اور اور اس کو’’ ادخلوا فی السلم کآفۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
سیدنا آدم عليہ السلام اور اماں حوا کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فرماں برداری کی پہلی شرط کے ساتھ ایجاب و قبول کروا کر ایک دوسرے کے ساتھ سر تاپا وفا کی پاسداری کا پابند کر…
ٹھٹھرتا ہؤا موسم سرما آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا تھا جس کی وجہ سے سورج کی شرماہٹ میں کمی آ رہی تھی اور اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا ۔ لہذا اب وہ کہر میں آنکھ مچولی کھیلنے کی بجائے اپنی تمازت کے ساتھ ہنستا مسکراتا سر عام نظر آتا تھا۔نرم دھوپ نے ہر چیز کو جلا بخش کر ماحول کو خوب صورت بنا دیا۔ درختوں میں جان پڑنے لگی ڈالیاں لہرانے لگیں۔ ان پر لگے رنگ رنگ کے پھول مسکرانے لگے۔ پرندوں کے گیتوں نے فضا میں ترنم گھول دیا۔
مکین جو دو ماہ سے گھروں میں سخت سردی کی وجہ سے دبکے بیٹھے تھے، وہ اس طلسماتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھروں سے نکلنے لگے۔
تنویلہ اور سمیر، دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچوں کو لے کر پارک آئے تھے۔ تنویلہ کے میاں کی کاروباری مصروفیت، اس لیے وہ ان کے ساتھ نہ آسکا اور سمیر کی بیوی کو اپنی کسی سہیلی کے ہاں جانا پڑ گیا۔
ماموں پھوپھو کے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کھیلنا شروع کر دیا۔
پارک دونوں کے گھروں کے درمیانی فاصلے پر واقع تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گھر قریب قریب تھے بلکہ ان کے درمیان…
غم کے گہرے اندھیروں میں روشنی کی ایک ہی کرن نظر آتی ہے اور وہ ہے اللہ رحمن ورحیم کی رحمت جو ہر چیز سے زیادہ وسیع ہے۔ میں غم میں ڈوبی ہاتھ میں قلم لیے دیر تک سوچتی رہی کہ کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟ آخر اس حقیقت نے حوصلہ دیا کہ دنیا کا قیام عارضی ہے اور پیاروں کی جدائی بھی عارضی ہے۔ آخر ہم سب کو ایک دوسرے سے جاملنا ہے۔خوش قسمت بندے وہی ہیں جو یہاں سے اپنا زاد سفر لے کر جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک پیاری شخصیت کی یاد آج مجھے تڑپا رہی ہے۔
قدرت کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ جس کسی نے بھی اس دنیا میں آنا ہے اس نے ایک نہ ایک دن لازماً یہاں سے رخصت ہو جانا ہے۔ کچھ لوگ بچپن میں اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں، کچھ جوانی میں اور کچھ بڑھاپے میں موت کی گھاٹی میں اتر جاتے ہیں۔ غرض دنیا مثل مسافر خانہ کے ہے۔ ہر آنے والے کو ایک روزیہاں سے چلے جانا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا چلے جانا اس قدر غمزدہ کر دیتا ہے کہ جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک غمزدہ خبر ایک شب سننے کو ملی۔…
اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کو رسالت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے مبعوث فرمایا، اور آپؐ نے اس فرض کو پوری لگن اور جانفشانی سے ادا کیا، اور انسانوں کو قعرِ مذلت سے اٹھا کر شرفِ انسانیت کی بلندی پر لا کھڑا کیا۔ آپؐ سے جتنی بھی محبت کی جائے اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل آپؐ کی محبت کے اسیر ہیں۔ وہ اس ذات سے عشق کرتے ہیں جو محسنِ انسانیت اور رحمت للعالمین ہے۔
عشقِ رسولؐ کیا ہے؟
مومن کے دل کا ایسا لگاؤ کہ وہ اس ذات کے سامنے اپناسب کچھ لٹانے کو تیار ہو جائے، اس کے والدین، اولاد، بہن بھائی، ازواج، قوم، قبیلہ، مال و دولت، گھر، تجارت، عیش پسند زندگی اور اس کے سب لوازمات اللہ اور اس کے رسولؐ کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے ہوں، بلکہ اسے اپنے آپ سے بھی وہ محبت نہ ہو جیسی خالص محبت اللہ اور اس کے رسول ؐ کے لیے ہو۔وہ ہر آن اس فکر میں غلطاں رہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکو کس طرح خوش اور راضی رکھے۔اپنے قول اور عمل سے مسلسل اسی محبت کو پیش کرتا رہے، اور یہ اس…
بچو سنو اِک کہانی
بچو سنو تم مجھ سے اچھی سی اِک کہانی
تم نے سنی نہ ہو گی ایسی کبھی کہانی
لڑکا حمید ہے اِک معصوم و سیدھا سادا
تم کو سُنا رہا ہوں اُس کی ہی میں کہانی
پڑھتا ہے آج کل وہ گائوں کے مدرسے میں
چھوٹی سی جان ہے وہ، لیکن بڑی سیانی
ہے شوق اُس کو لکھنے ، پڑھنے کا خوب زیادہ
بنتی ہے روز جیسے اِک نت نئی کہانی
مجید نامی لڑکا اُس کا ہے بھائی چھوٹا
اب تم کو میں سنائوں اس کی کوئی کہانی
پڑھنے کا شوق ہے نہ لکھنے کی خواہش اس کو
کیا تم کرو گے سُن کے ایسی بُری کہانی
تصویرِ زندگی میں پھیکے سے رنگ بھر کر
برباد کر رہا ہے اچھی بھلی جوانیا
کاموں میں ایسے پڑ کر کیا ہوگا اُس کو حاصل
ایسے تماش بینوں کی کب چلی کہانی
لیکن ملی ہے جس کو تعلیم کی یہ دولت
دُنیا میں سب سے اونچی اس کی بنی کہانی
اب یہ بتائو بچو! کیا رائے ہے تمہاری
دونوں میں تم کو کس کی اچھی لگی کہانی
سکپ کا ایک دوست سٹریٹ پریسٹ تھا۔ یعنی سڑک کا پادری۔ وہ ایک بہت بڑی صلیب اٹھائے گلیوں میں پھرتا، جب کوئی اس کی طرف متوجہ ہوتا یا بات چیت کرتا تو موقع پاتے ہی اسے ایک چھوٹی سی بائبل پڑھنے کے لیے دے دیتا۔ ایک دن سکپ محمد المصری کو عیسائیت کی دعوت دینے کے سلسلے میں مشورہ لینے کے لیے اس سے ملنے چلا گیا۔
”میرا ایک مصری مسلم دوست ہے۔“ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ دوست نے غصےسے گھورتے ہوئے پوچھا: ”مسلم؟ تم اس سے کیوں ملے،اس سے دور رہو۔“
سکپ نے جواب دیا: ”وہ بہت اچھا اور نفیس آدمی ہے۔“
دوست بھاری آواز میں بولا: ”اس کی کتاب ہرگز نہ پڑھنا۔“
”کون سی کتاب؟“ سکپ نے تعجب سے پوچھا۔
”کووران۔“ دوست نے انگریزی لہجے میں قرآن مجید کا نام لیا۔
سکپ نے ابھی تک ایسی کوئی کتاب احمد کے پاس نہ دیکھی تھی، نا ہی اس کا ذکر سنا تھا۔ خیر مجھے اس سے کیا۔ یہ سوچ کر وہ دوسری باتوں میں مشغول ہوگیا۔
٭ ٭ ٭
ایک دن محمد المصری معمول سے کچھ وزنی کتاب اٹھائے سٹور میں داخل ہوا اور سکپ سے پوچھا: ”یہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید ہے۔ کیا میں اسے پڑھنے کے لیے سٹور میں ایک…
حضرت محمد ؐ سید المرسلین ، رحمتہ اللعالمین خاتم النبین کی حیات طیبہ ، شریعتِ اسلامی کا اہم ماخذ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی زندگی کے لیے واجب التقلید نمونہ ہے ۔ اس سے جہاں شریعت کے احکام و ہدایات ملتی ہیں ، وہاںاسلامی زندگی کا ایک مثالی نمونہ بھی نظر آتا ہے ۔ اس حیاتِ مبارکہ کو پڑھ کر اور سن کر ، مسلمان کا دل و دماغ جو اخذ کرتا ہے، اُس سے اس کی دنیا بھی بنتی ہے اور دین بھی ۔
حضورؐ کا مقام بہ حیثیت نبی بہت اونچا ہے کہ آپؐ امام الانبیا ہیں ۔ لیکن اسی کے ساتھ بہ حیثیت انسان آپ اخلاق، روا داری ، ہمدردی ، تواضع، مہمانداری ، غربا پروری، غرض تمام انسانی خوبیوں کا اعلیٰ پیکر تھے ۔ ارشادِ ربانی ہے۔ لَقدَ کَانَ لکم فیِ رَسولِ اللہ اُسوۃ حَسنَۃ۔(تمھارے لیے نبی کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔)
آپ ؐ عظیم معلم تھے ۔ مُقنن تھے ۔ مدبر تھے ۔بہترین فرماںروا تھے ۔ دیانت دار تاجر ۔ غم گسار ساتھی تھے۔ مہر بان شوہر اور پر شفقت باپ تھے ۔ غرض زندگی کے ہر شعبہ میں آپ ؐ کی شخصیت کے نقوش جگمگا رہے ہیں۔
حق وہی ہے جو آپ ؐ…
حمد
کتنا حسیں اس نے انساں بنایا
فرشتوںسے سجدہ بھی اس نے کرایا
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
بھٹکے ہوئوں کو ہے رستہ دکھایا
دوزخ میں گرنے سے ہم کو بچایا
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
رہِ زندگی میں ہدایت عطا کی
محمدؐ کی صورت شفاعت عطا کی
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
فہم دین و دنیا کا اُس نے دیا ہے
عمل کا بھی سامان اُس نے کیا ہے
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
ہوا میں پرندوں کو اُڑنا سکھایا
ترانۂ حمد مل کر ان سب نے گایا
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
پیارے نوری ساتھیو!
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
ۓنئے عیسوی سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ سردی کی شدت ہے۔ پہاڑوں نے برف کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ۔ دنیا اجلی اجلی لگ رہی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ یہ اجلا پن ہمیشہ برقرار رہے۔ اس اجلے پن کو اس پاکیزگی کو ہم ہی یا تو برقرار رکھیں گے یا میلا کر دیں گے کیوں کہ اس دنیا کو صاف ستھرااور خوب صورت بنانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے جو اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب نصیحت کی ہے کہ جب تم کسی جگہ کو چھوڑ کر جائو تو اسے پہلے سے زیادہ صاف ہونا چاہیے۔مگر ہم اس دنیا کو دو طرح سے میلا کر رہے ہیں۔ ایک تو آلودگی پھیلا کر جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پھول کملا گئے ہیں اور سبزہ خاک ہو رہا ٕہے ، جنگلی اور آبی حیات مر رہی ہے، نت نئی وبائیں اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ خوش و خرم، صحت مند افراد کے چمکتے ہوئےچہروں کی جگہ زرد رو، خستہ تن، مردہ دل اور مایوس افراد آلام زندگی کا نوحہ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوسرے اپنے رویوں کی بد صورتی سے۔ ہم نے وہ تمام اخلاق…
نابینا رخسانہ کی کہانی
1995ء کی بات ہے ایک عورت بچوں کی دوائی لینے آئی جس کی بینائی کافی کمزور تھی۔ سات سالہ بیٹے نے ماں کا ہاتھ تھاما ہؤا تھا۔ ڈیڑھ سال کا بیٹا گود میں اور چار سالہ بچہ پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔
اس نے اپنا نام رخسانہ بتایا۔ ’’شوہر کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی ہم تو فقیر ہیں، جو صدقہ، خیرات مل جاتا ہے اس پر ہماری دال روٹی چل رہی ہے‘‘۔
’’مگر یہ تو کوئی پیشہ نہ ہؤا۔ اخراجات کے لیے محنت مشقت کرنی چاہیے‘‘۔
وہ تو جیسے یکدم پھٹ پڑی۔ ’’جی میرا بندہ ترکھان ہے۔ عزت کی روٹی کھاتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی کا سامان خراب ہو گیا۔ انہوں نے اُجرت تو کیا دینی تھی دھکے دے کر نکال دیا۔ اب اس کا دل اتنا ٹوٹ گیا ہے کہ کوئی کام نہیں پکڑتا‘‘۔
میں نے فوراً بات بدلی ’’کتنے بچے ہیں؟‘‘
’’جی یہ تین بیٹے ہیں اور ان سے بڑی دو بیٹیاں ہیں وہ گھر میں ہیں‘‘۔
’’بچے پڑھتے نہیں ہیں؟‘‘
’’جب حالات اچھے تھے تو بڑی دوسری میں پڑھتی تھی چھوٹی پہلی میں… ابھی بیٹے کو داخل کرنا تھا کہ کاروبار ختم ہو گیا۔ وہ بھی گھر بیٹھی ہے‘‘۔
’’انہیں پڑھنے کا شوق ہے؟‘‘
’’جی بڑی ارم کو تو بہت…
فہرست
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
صیام اور قرآن
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
دعا عباد ت ہے
سید محمود حسن
رمضان المبارک کیسے گزاریں
فریدہ خالد
رحمت کا مہینہ
عزیزہ انجم
غزل
حبیب الرحمن
غزل
اسامہ ضیابسمل
غزل
حریم شفیق
گھروں کی جنت
اسما صدیقہ
دولے شاہ کے چوہے
قانتہ رابعہ
قبول ہے
میمونہ حمزہ
بزرگی
طہورہ شعیب
ساحر آنکھیں
سید مہتاب شاہ/فرحت زبیر
جنگی قیدی کی آپ بیتی
سید ابو الحسن
امیر بریانی غریب بریانی
ڈاکٹر سعدیٰ مقصود
عورت بے چاری!
فرحت طاہر
بھول بجھولوں والے بوڑھے
فریحہ مبارک
صحرا نورد
نیّر کاشف
سرخ مالٹوں کی سر زمین
خواجہ مسعود
محشرِ خیال
افشاں نوید، خواجہ مسعود ، روبینہ اعجاز
سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ
ڈاکٹر فائقہ اویس
فیصلہ انسان کا ہے
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
مومن کے لیے صوم (روزہ) اور قرآن ، رمضان المبارک کے دو بڑے تحفے ہیں۔ان کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔روزے کی مشقت میں وہ صبر کر کے بڑی نیکیاں کماتا ہے،وہ دن کو تلاوت ِ قرآن کی سعادت حاصل کرتا ہے اور رات کو قیام اللیل میں قرآن کی آیات سے اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، یہی وقت تو قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ سارا دن صبر کے ساتھ مشقت میں گزارنے والا بندہ رات کو تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود نرم بستر کو چھوڑ کر جسم کی پکار کو روند ڈالتا ہے۔ یہ گویا اعلان ہے کہ اس نے اللہ کی دعوت پر لبیک کہہ دیا ہے، اور اس دعوت پر وہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ رات کو قرآن کریم اچھی طرح پڑھا جا سکتا ہے، قیام اللیل کی اپنی مٹھاس ہے، اس وقت کی نماز نہایت ہی خشوع وخضوع سے ادا ہو سکتی ہے۔رات کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض و معذرت کرنے، اور اس کے بھیجے ہوئے پیغام کو سمجھنے کے لیے جو یکسوئی درکار ہے، ان گھڑیوں میں حاصل ہوتی ہے، اس میں اللہ سے محبت پیدا ہوتی ہے، دل سکون اور…
سعودی عرب کے کھانوں کا جب تذکرہ ہو رہا تھا تو کسی نے یاد کرایا کہ اس میں ایک بہت مشہور ریستوران کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔ یاد دلانے والی تھیں ہماری محترمہ بنت شیروانی اور ان کے مطابق ہر کوئی ’’لبیک لبیک‘‘ کہتا ہؤا جاتا ہے اور ’’البیک البیک ‘‘کہتا ہؤا واپس آتا ہے۔
ان کی یہ یاددہانی بہت دل کو بھائی اور اس بار آپ کو’’البیک ریستوران‘‘کا تذکرہ پڑھنے کو ملے گا۔ ہم جب حج کے لیے آئے تو مناسک حج کی تفاصیل، سفر اور حضر کے مسائل اور ان کی حل کے ساتھ ساتھ جو ایک اور رہنمائی ہمیں ملی، وہ البیک کا تعارف تھا۔ پہلے دن تو میزبانوں نے ہمیں ریستوران تک جانے کا موقع ہی نہیں دیا۔ دوسرے دن ہمیں اندازہ ہؤا کہ حرم کے قرب و جوار میں کہیں بھی البیک کی شاخ نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے، یہ نہ معلوم ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد کسی نے بتایا کہ یہ کسی معاہدے کے تحت ہے جس کے مطابق کے ایف سی وغیرہ نے یہ شرط لگائی تھی۔ کیونکہ انہیں ڈر تھاکہ البیک کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ ایک سنی سنائی ہے جس کا کوئی حوالہ ہمارے…
یہ 1983ء کا ایک یاد گار دن تھا ۔ صبح کے نو بج رہے تھے ۔ میں زندگی میں پہلی بار بہ ذریعہ ریل گاڑی پنڈی سے کراچی جا رہا تھا ۔میرے ساتھ خاندان کے کچھ اور لوگ بھی تھے ۔ آپس میں گپ شپ کرتے ہمارا سفر خوب مزے میں کٹ رہا تھا ۔ گاڑی میں جوبھی پھیری والا آتا ، ہم اسے مایوس نہ لوٹاتے ۔ نتیجتاً ہمیں بار بار ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آتی ۔
ہماری نشستوں کے پیچھے ایک اورخاندان بیٹھا تھا ۔ ٹوائلٹ کی طرف جاتے ہوئے ان پر نظر پڑنا لازمی تھی۔ یہ ایک معقول خاندان دکھائی دیتا تھا ۔ مگر وہ آنکھیں … وہ آنکھیں کتنی خوب صورت تھیں دو تین بار میری نگاہ ان حسین آنکھوں پر پڑی اور میں ان کے سحر میںگرفتار ہو گیا ۔جی چاہتا تھاکہ بار بار ان آنکھوں کا نظارہ کروں ۔ چنانچہ پیٹ میں درد کا بہانہ کر کے ٹوائلٹ جاتا ۔ گزرتے گزرتے ان خوب صورت آنکھوں کا دیدار کرتا ۔ واپس آتا تو دوبارہ جانے کے لیے نیا بہانہ سوچنے لگتا۔
اللہ اللہ کر کے رات گزر گئی اور دن نکل آیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھاجیسے دن گاڑی کے ساتھ ساتھ آگے کوبھاگا جا…
تھر ہمیں اپنی محبت کے سحر میں جکڑچکا تھا … ہمیں یقین ہؤا کہ محبت لمحے میں وارد ہو جاتی ہے!
صاف ستھری سیدھی سڑک پہ گاڑی تیز رفتاری سے رواں تھی ۔ سڑک کے دونوں جانب صحرا تھا، ہم کہا نیوں اور ناولوں کی بنیاد پہ بننے والے تصورکے مطابق صحرا میں تاحد نگاہ ریت تلاش کر رہے تھے جب کہ یہاں دونوں طرف چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلے اور بے شمار صحرائی پودے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ جانوروں کے ریوڑ چرنے میں مصروف نظر آئے۔ کہیں بکریاں ، کہیں بھیڑیں ،کہیں گائیں اور کہیں اونٹ ، یہ اونٹ ہمارے کراچی کے ساحل پہ نظر آنے والے اونٹوں کے مقابلے میں خوب اونچے لمبے اور صحت مند تھے ۔خاص بات یہ تھی کہ ان جانوروں کے ساتھ کوئی چرواہا دور دور تک نظر نہیں آیا، صاحب نے بتایا کہ یہ جانور خود ہی کھا پی کر شام ڈھلے واپس اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں ، اونٹ اور گائیں وغیرہ بعض اوقات اتنی دور بھی نکل جاتے ہیں کہ دو دن بعد واپس پہنچتے ہیں لیکن ان کے مالکوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک مزے کی بات ان جانوروں ، خصوصاً بکریوں کی یہ تھی کہ…
چلیے آج آپ کو ریڈ بلڈ مالٹوں کی سر زمین کی سیر کراتے ہیں ۔ آپ نے خوش ذائقہ ریڈ بلڈ مالٹے تو ضرور کھائے ہوں گے یاان کا جوس پیا ہوگا ۔ ان کا ذائقہ ہلکا سا ترش لیکن میٹھا ہوتا ہے ۔ یہ نہ صرف پاکستان میں شوق سے کھائے جاتے ہیں بلکہ سردیوں کے سیزن میں یہ عرب ممالک ، یورپ اور جاپان تک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔
ہم لوگوں نے جنوری کے وسط میں ان خوش نما اور خوش ذائقہ مالٹوں کی سر زمین کی سیر کا پروگرام بنایا ۔ ہماری فیملی تھی ۔ میں ، بیٹا خرم، بہو زوبیہ اور پوتاعلی اور پوتیاں آمنہ اور مریم… دوسری فیملی ہمارے بھانجے سعید کی تھی ان کی اہلیہ صائمہ ، بچیاںدعا اور بسمہ ، تیسری فیملی ہماری بھانجی عظمی کی تھی ۔ ان کے میاں خاور ، بیٹیاں ،فاطمہ ، فارعہ اور ان کا بیٹا شہیر۔
تینوں گھرانے اپنی اپنی گاڑیوں پہ سوار تھے ۔ صبح گیارہ بجے ہم راولپنڈی سے روانہ ہوئے ۔ سفر کوئی لمبا نہیں ہے ، قریباً ایک گھنٹے میں یہ سفر طے ہو جاتا ہے ۔ راولپنڈی سے ہم پشاور روڈ پہ محو سفر…
اس قیمتی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے عملی نکات پر مبنی رہنمائی
رمضان روزوں کا مہینہ ہے ۔روزے کی فرضیت اور مقصدیت سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں ہم سب کو آگاہ کردیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ءکے پیرووں پر فرض کیےگئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘(البقرہ: 183)۔یعنی روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا اور اس کا مقصدتقویٰ کا حصول ہے ۔ اس کی رحمتوں سے فیضیاب ہونے کے لیےیہاں اس ماہ کی چند خصوصیات اور کرنے کے کچھ کاموں کا ذکر مختصراً کیا جارہا ہے ۔
استقبالِ رمضان
تقویٰ کے حصول ، اللہ کی رضا پانے ، اپنے نفس کی تربیت اور تزکیہ کرنے کے لیےضروری ہے کہ ہم رمضان کو بہترین انداز میں گزاریں ۔اس کے لیے ہمیں بہترین منصوبہ بندی اور تیاری کرنی چاہیے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے گھر آنے والے کسی بہت خاص مہمان کی آمد سے پہلے تیاری کرتے ہیں۔ رمضان ہمارے گھر آنے والے تمام مہمانوں سے زیادہ معززاور بابرکت ہے لہٰذا اس کا استقبال بھی شاندار انداز سے کرنا…
آسمان پر بادل چھائے اور خوب برسے، پسینہ میں شرابور نفوس نے جہاں سکھ کا سانس لیا وہاں ان کے چہروں پر تشویش کی لہر بھی تھی۔ پہاڑی راستے کی مسافر بارات کہیں تاخیر نہ کر دے۔ ظہر کی اذان سے قبل مسجد کے قرب میں دو ویگنیں آ کر رکیں اور جن سے تین خواتین اور کچھ مرد باہر نکلے۔ بارات کا استقبال خوش آمدیدی کلمات سے کیا گیا، سب باراتیوں میں دولہا کی پہچان اس کا سہرا اور ہار نہیں بلکہ اس کے چہرے کے لو دیتے دیے تھے، اور سڈول جسم پر کھبتا ہؤا سفید قمیص شلوار اور بسکٹی رنگ کی واسکٹ!(شاید دولہا کا کردار ہی خاص ہوتا ہے)۔
نماز ِ ظہر تک کچھ اور مہمان بھی مسجد میں پہنچ گئے اور خطبہ نکاح اور’دولہا دلہن کے‘قبول ہے ‘‘ کے تحریری اقرار نامے کی خوشی میں سب کو مٹھائی پیش کی گئی۔دولہا کا تعلق آزاد کشمیر کے ایک شہر سے تھا اور دلہن راولپنڈی کی رہائشی تھی، جس نے لاہور ملتان اور فیصل آباد کے علاوہ کو ئی شہر نہ دیکھا تھا۔ آزاد کشمیر کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن تو دور کی بات اسے تو اس کا حدود اربعہ تک معلوم نہ تھا۔ دونوں خاندانوں کے…
بڑی پرخار ہیں راہیں مگر دامن بچانا ہے
کہ میر کارواں ہوں میںمجھے رستہ بنانا ہے
نگاہوں کو جھکا رہنے دوں عصمت کا تقاضا ہے
کہ ان کا کام تو ہر دن نئے سپنے سجانا ہے
زمانے کی نگاہیں ہیں بہت بےباک اے ساتھی
سنبھل کر چل اگر خود کو نگاہوں سے بچانا ہے
کبھی لگتا ہے تنہا ہوں اور اک عالم اکٹھا ہے
کوئی اپنا ملے جس کو کہ حال غم سنانا ہے
جگر چھلنی ہے اپنوں نےچلایا تیر کچھ ایسے
ہمیں بھی ضد ہے ہونٹوں پر تبسم کو سجاناہے
غزل
قیامت کا منظر دکھائی دیا ہے
ہمیں ایسا اکثر دکھائی دیا ہے
وہ کہتے ہیں جس کو فقط دوستی ہے
کوئی اور چکر دکھائی دیا ہے
یہ چٹھی ترے نام کی ہوگی لازم
احاطے میں پتھر دکھائی دیا ہے
سمجھتے ہیں باہر کی اوقات کیا ہے
جنہیں من کے اندر دکھائی دیا ہے
بتایا گیا ہے فلک بے کراں ہے
اور انسان محور دکھائی دیا ہے
حقیقت بتائی ہے اتنا جھجکتے
بہانے کا عنصر دکھائی دیا ہے
اترتے ہوئے جھیل آنکھوں کے اندر
ہمیں اک سمندر دکھائی دیا ہے
’’کچھ عرصہ پہلے جب میں بے انتہا مصروفیت کے گرداب میں پھنسی کچھ لکھنے کے لیے سخت محنت کر رہی تھی ،میری ایک کولیگ نے مجھے تجویز دی کہ میں بڑے بڑے نامور تخلیق کاروں کے روز مرہ کے شیڈول کے بارے میں پڑھوں تاکہ اس کے مطابق اپنے اوقات کو ترتیب دے سکوں۔لیکن اس مشورے پر عمل کے بعدخلاف توقع میں بہت ناامید ہوئی کیونکہ ان تمام مشہور اور نابغہ روزگار شخصیات کے،جن میں اکثریت مرد حضرات تھے ،روزو شب ان کی نصف بہتر خواتین کے مرہون منت تھے ‘‘۔
معزز قارئین !یہ اس بلاگ کا ابتدائی حصہ ہے جو ڈیڑھ سال پہلے دی گارجین میں شائع ہؤا تھا جسے بریگیٹ شاولٹ نامی ایوارڈ یافتہ فیمنسٹ صحافی نے تحریر کیا تھا ۔ وہ آگے لکھتی ہیں :
’’ان کی بیویاں ان کو مداخلت سے محفوظ رکھتی ہیں ۔خادمائیں ناشتہ کھانا میز پر پہنچادیتی ہیں ,وقت بے وقت ان کو چائے کافی مہیا کرتی ہیں ۔ان کو بچے کے بال کٹوانے جیسے معمولی معمولی کاموں سے دور رکھتی ہیں ۔سگمنڈ فرائیڈ کی بیوی مارتھا اس کے کپڑوں کا ہی خیال نہیں رکھتی بلکہ اس کے ٹوتھ برش پر پیسٹ تک لگاتی تھی ۔مارسل پروسٹ کی خادمہ نہ صرف اس کو کھانے پینے…
افشاں نوید۔کراچی
مارچ کے پرمغز اداریے کے اختتام پر صائمہ کی اس معصوم خواہش نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ رسالہ پڑھ کر چند جملوں کے ذریعے قارئین اپنا فیڈ بیک دیا کریں۔ یقیناً اس محنت شاقہ کا حق ہے قاری پر کہ فیڈ بیک دیا جائے۔مزید بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود رہتی ہے سو،اپنے رسالے کو اپنی رائے سے مزید بہتر بنایا جائے۔
عبدالمتین صاحب نے خوشگوار زندگی کے لیے عملی ٹپس دیے، یہ باتیں بار بار دہرائی جانی چاہئیں۔ میمونہ حمزہ کی علمیت و عملیت کا قائل ہونا پڑتا ہے،ہر موضوع کا ماشاءاللہ حق ادا کردیتی ہیں۔امانت کا ہر جہت سے مفہوم بیان کر دیا۔ شمارے کا ’’خاص مضمون‘‘ واقعی بہت خاص ہے۔ یہ تو کسی پی ایچ ڈی مقالے کے لیے بہترین لوازمہ فراہم کرسکتا ہے۔ دجالی فتنوں کے اس دور میں اصطلاحات کو جس طرح redefine کیا جا رہا ہے یہ مضمون اسی کو آشکارا کر رہا ہے ۔مضمون ایک سے زیادہ بار پڑھ کر سمجھنے سے دلیل کی قوت مہیا کرے گا۔ڈاکٹر آسیہ شبیر اور صائمہ آپ کا شکریہ۔
’’گیسوئے اردو کو شانہ ملا‘‘میں صائمہ اسمانے تحریر کیا کہ ان لفظوں کی جڑیں اور مادے عربی مبین سے ہیں جس سے ہمیں اپنے نبی پاک…
( قسط ۲ شمارہ مارچ میں آخری پیراگراف سے پہلے ایک پورا صفحہ میری غلطی کی وجہ سے کمپوز ہونے سے رہ گیاتھا، جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مدیرہ صاحبہ نے اس کمی کو اپنی بہترین صلاحیت سے پُر بھی کردیاتھا مگر تشنگی باقی رہی لہٰذا اس کو آج کی قسط میں شامل کیاجارہا ہے۔ سید ابوالحسن)
میںان حالات میںبس ایک چیز کا منتظر تھا اور وہ تھی اللہ کی مدد، بار بار اس کی مدد مانگتا رہا۔ اتنے میں چند افراد میرے پاس آئے اور آکر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک بنگالی بولنے والابھی تھا۔ مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور یوں لگا کہ میری دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ انھوںنے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ ہمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒنے آرمی کیمپ بھیجا تھا۔ وہاں سے اُن لوگوں نے اس مسجد میں آپ کی موجودگی کا ذکر کیا۔ ہم آپ کو لینے کے لیے آئے ہیں ۔ مسجد میں تین چار جیل کے اور ساتھی بھی تھے،انہوں نے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا۔
سید مودودیؒ سے شرفِ ملاقات
چنانچہ ہم سب کو گاڑی میں بٹھا کر اچھرہ مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ کے قریب ۱۔ اے ذیلدار پارک لے جایا گیا۔ ہم نے جب ۱۔ اے ذیلدار…
قرآنِ مجید نے پہلے انسان کی تیاری کے لیے مٹی کی مختلف کیفیات کا ذکر کیا ہے۔ وہ أحسن تقویم اس وقت بنا جب خاکی پتلے میں روح پھونکی گئی۔
بطنِ مادر میں نظامِ ربوبیت کے محیر العقول کرشموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باری تعالیٰ بچے کی حیاتیاتی تشکیل کے یہ تمام مرحلے ماں کے پیٹ میں تین پردوں کے اندر مکمل فرماتا ہے۔ یہ بچے کی حفاظت کا کس قدر خوشگوار اِہتمام ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے (الزمر، 39: 6):
’’وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ (تدرِیجاً پرورش فرمانے والا) ہے۔ اُسی کی بادشاہی (اندر بھی اور باہر بھی) ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو!‘‘
17ویں صدی عیسوی میں Leeuwen Hook نے خوردبین (microscope) اِیجاد کی۔ صاف ظاہر ہے اِس سے پہلے اندرونِ بطن اُن مخفی حقیقتوں کی صحیح سائنسی تعبیر کس کو معلوم ہو سکتی تھی! آج سائنس اُن پردوں کی حقیقت بھی منظرِ عام پر لے آئی ہے جس کی رُو سے اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ واقعی بطنِ مادر میں بچے کے…
نبی ﷺ نے فرمایااللہ کے ہاں دعا سے بڑھ کر با عزت کوئی چیز نہیں (ترمذی)۔
ہر نیکی اپنی جگہ اہم ہے ، ہر نیک کام اور اچھا عمل اللہ کی نگاہ میں مقبول ہے وہ اس کا اجردے گا ۔ لیکن سب سے زیادہ با عزت اور قابل احترام عمل صرف ’’ دعا ‘‘ ہے دعا کے معنی ہیں پکارنا ، عاجزی سے مانگنا ، مدد چاہنا ، مصیبت کو دُور کرنے اورحاجت روائی کے لیے التجا کرنا ، بیماری ، افلاس اور تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے درخواست کرنا ۔
مطلب یہ ہے کہ جسمانی اور روحانی آفتوں سے چھٹکارا پانے اور ہر طرح کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے درخواست کرنے کا نام ’’دعا‘‘ ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس سے مانگیں ، اس کی بار گاہ عالی میں اپنی درخواستیں لے کر پہنچیں جب انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو یا کسی رنج اور مصیبت سے رہائی حاصل کرنا ہو تو اس کو پکاریں دینے کے لیے اس کے خزانے بلا حساب ہیں اور وہ کسی کو خالی نہیں لوٹاتا۔
دُعا بھی عبادت ہے
نبی ؐ نے فرمایا ۔ دعا عبادت ہے پھر آپؐ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔
’’تمہارا رب کہتا ہے…
’’سچ سچ بتائو ایمن کیا واقعی تمہاری ساس، نندیں اچھی ہیں ؟‘‘ سارہ امتیاز نے اپنی دوست اور کزن ایمن سے سوال کیا۔
’’ہاں بہت سوں سے تو اچھی ہی ہیں ‘‘۔ایمن نے جواب دیا ۔
’’ تمہیں تنگ تو نہیں کرتیں ؟اصل میں تمہاری شادی میں تمہاری ساس راضی نہیں تھیں اپنی بھانجی کو لانا چاہتی تھیں ، اس لیے پوچھا ہے‘‘۔ سارہ نے اپنی کزن کو وضاحت کی۔
’’ تنگ تو ہم میں سے ہر کوئی ہر کسی کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے ۔ پتہ نہیں میں انہیں کتنا تنگ کرتی ہوں گی ۔ دو مختلف مزاج کے لوگ ایک جگہ پر رہنا شروع کردیں تو ایک دوسرے کو سمجھنے میں دیر تو لگتی ہے ‘‘۔ ایمن نے بہت جلد پریشان ہو جانے والی چچا زاد بہن سارہ کوتسلی دی جس کی شادی کومحض دو ماہ تین دن ہوئے تھے ۔ اب بھی اس کے چہرے پر بہت سی داستانیں تحریر تھیں اور ایمن اسے بخوبی سمجھ رہی تھی۔
’’ اصل میں میری شادی ہوئی تو اپنوں میں ہی ہے مگر دورپار کی رشتہ داری ہے نا تو مجھے بہت سے مسائل ہیں کیا تمہاری ساس تمہیں کھانا پکانے میں بھی تنگ کرتی ہیں جیسے مجھے … سر پر…
ہم لوگ گورنمنٹ کے جی او آر ون کے گھر میں رہتے تھے۔ عمارت تو اندر سے اتنی ہی تھی جتنی ایک کنال گھر کی ہوتی ہے مگر آگے پیچھے بہت بڑے بڑے باغ تھے پھر دیوار اورگیٹ ۔گھنٹی بجتی تو گھر کے اندر سے نکل کر کافی چل کر گیٹ تک جانا پڑتا ۔ پچھلے پہر تو بچے اور بڑے گھر آجاتے تو گھنٹی سن کر کوئی نہ کوئی باہر چلا جاتا مگر صبح کے وقت مشکل ہو جاتا کیونکہ سب چلے گئے ہوتے ۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اب جب آزاد کشمیر چھٹی پر جائو گے تو کوئی چھوٹا لڑکا لے آنا جو گھنٹیاں سننے باہر جائے ۔
ڈرائیور جب چھٹی گزار کر واپس آیا تو اُس کے ساتھ ایک گیارہ بارہ سال کا لڑکا تھا ۔
’’ یہ لڑکا میںلایا ہوں یتیم بچہ ہے نام جاوید ہے حادثہ میں ماں باپ دونوں فوت ہو گئے تھے ۔ پہلے تو چچا نے اس کو اور اس کی تین بہنوں کو رکھا پھر بیوی نے جھگڑا شروع کر دیا کہ میں اپنوں کو پالوں یا ان چار کو ‘‘۔ اس کے چچا نے مجھے دیا کہ اس کو لاہور لے جائو کہیں نوکر کرا دو جب یہ پیسے بھیجے…
جسمانی طور پہ چا ق و چوبند رہیے تاکہ اپنا دفاع کرسکیں
چند ماہ پیشتر سانحہ موٹر وے نے ایک مرتبہ پھر ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ بدقسمتی سے ہر بار آنے والی حکومتوں نے عام شہری کے تحفظ اور سیلف ڈیفنس کی تربیت کو اہم نہیں سمجھا۔ہم سب کو اپنی مدد آپ کے تحت سیلف ڈیفنس کے متعلق کچھ نہ کچھ بنیادی معلومات حاصل کر کے اپنی اور بچوں کی تربیت کا لازمی حصہ بنانا ہو گا۔کچھ طریقے ایسے ہیں جن کا علم خاص طور پر خواتین اور بچوں کے پاس ہونا چاہیےتاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورت ِ حال کا مقابلہ کر سکیں۔
عورتیں ہوں یا مرد، صبح شام معوذتین، گھر سے نکلتے وقت حفاظت کی دعا اور سفری دعاؤں کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے اور بچوں کو بھی ان کا عادی بنانا چاہیے۔ عورت کے لیے اگرچہ اللہ تعالیٰ نے پردے کو بطور خاص اس کی ڈھال بنایا ہے تاکہ وہ بدنیت اور بد نظر افراد کے شر سے بچی رہے اور وہ اس کے کردار کے متعلق کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔لہٰذا نکلنے سے پہلے خود کو ڈھانپنے کا اہتمام اللہ کا حکم سمجھ کر کیا جائے اس یقین کے ساتھ کہ اللہ…
لاکھوں سال پرانی بات ہے کسی جنگل میں میں نندرتھال نسل کا ایک قبیلہ رہا کرتا تھا ۔کہنے کو تو یہ قبیلہ تھا مگر اس میں صرف سات مرد تھے اور ان کی بیویاں اور بچے ۔
پتھر کے اس دور میں زندہ رہنے کے لیے شکارپر ہی ان کا مکمل انحصار تھا ۔ وہ دن بھر پتھروں کوپتھروں پر رگڑ کر نوک دار بنا کر ان سے اوزار بنایا کرتے اور ان اوزاروں سے جانوروں کا شکار کیا کرتے اور اپنے قبیلے کے پڑا ئو میں لاکراس شکار کو کھایا کرتے اور آگ کو سجدہ کر کے سو جایا کرتے ۔
کبھی کبھار ان کا کھانا کم پڑ جاتا اور وہ ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے مگر تیز دھار آلے نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی نوبت نہ آ پاتی ۔
لڑائی جھگڑا روز کا معمول ہوتا ہر روز وہ ساتوں کھانےکے معاملے پر گتھم گتھا ہوتے ۔ مگر اگلے دن پھر مجبوراً انہیں مل جل کرہی شکار کرنا پڑ تا تاکہ خود بھی زندہ رہ سکیں اور ان کی اولاد اور بیویاں بھی ۔
ایک روز شکار کی تلاش میں وہ قریبی ٹیلے کی اونچائی پر پہنچ گئے ۔ انہیں وہاں ایک خام لوہے کاپتھر دکھائی…
آخر وہی ہؤا نا جس کا ڈر تھا ۔ سندس کے منہ پھٹ ہونے میں اگرچہ عنبر کو پہلے بھی کبھی کوئی شبہ نہ تھا لیکن آج تواس نے حد ہی کر دی تھی ۔ آپا کیسے مسکرامسکراکر سب سے باتیں کر رہی تھیں ۔ اپنے گھر اور میاں کی تعریف میں رطب اللسان تھیں ،لیکن اس سندس کی بچی نے اپنی قینچی کی طرح چلتی زبان کو ہمیشہ کی طرح قابونہ کیا اور اپنے منہ پھٹ ہونے کا ثبوت ایک دفعہ پھر دہرایا ۔ آپا کی شکل، اُف! آپا کی شکل ، اس کی بات سن کر شرمندگی سے کیسے سرخ ہو گئی تھی ۔عنبر کا نازک دل تو دھک ہی سے رہ گیا تھا ۔ اگر وہ بر وقت بات کو نہ سنبھالتی تو آپا تو پھر شاید اس چوکھٹ پر قدم بھی نہ رکھتیں اور پھر وہ میاں اور باقی گھر والوں کے سامنے بے قصور ہوتے بھی کتنی شرمندہ ہوتی ۔ پر اس کا احساس سندس کو ہو تب نا !
٭…٭…٭
تبسم باجی جنہیں سارا خاندن ہی نہیں بلکہ سسرالی ، محلہ دار سب ہی آپا کہتے تھے اسم با مسمیٰ تھیں ۔ دھیرے دھیرے گفتگو کرتیں ، دھیمی دھیمی مسکراٹ چہرے پر سجائے وہ سب کو…
’’مجھے آج اپنا اے ٹی ایم کارڈ ڈھونڈتے ہوئے کسی کی گم شدہ رقم ملی ہے ۔جس کسی کی بھی ہو نشانی بتا کے لے سکتا ہے‘‘بابا جان نے کھانا کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے سرسری سے لہجہ میں کہا۔
سب سے پہلے دادی جان کے کان کھڑے ہوئے۔
’’اے شہاب الدین میری کچھ ر قم نہیں مل رہی دو تین دن سے ‘‘ دادی جان نے بیان نامکمل ہی رکھا ۔
’’اماں بی آپ تو کہتی ہیں میں ساری رقم ہاتھ کے ہاتھ غریب غربا میں بانٹ دیتی ہوںدنیا سے چل چلاؤ کا وقت ہے تو بندہ خالی ہاتھ ہی جائے ‘‘چھوٹے چچا کمال الدین بولے ۔
’’اےسو ضرورت جیتی جان کو پڑ سکتی ہے تو بس تم سب جو پیسے پکڑاتے ہو اس سے ہی کچھ رکھ لیتی ہوں آخر کل نہلانے دھلانے والی کو بھی دینا ہوگی ناں ۔ مفت میں تو کوئی غسل دینے سے رہا‘‘اماں بی نے ناک سے مکھی اڑا ئی۔
’’مگر آپ رقم دینے کے لیے کیا کفن سے منہ نکال کے بتائیں گی کہاں رکھی ہوئی ہے ‘‘چھ ساڑھے چھ سالہ ظہیر الدین بولا ۔
’’آئے نوج ۔کفن سلواکے رکھا ہے تو بیچ میں رقم کا لفافہ بھی رکھا ہے اس میں ڈال دوں…
میرے پچھلے مضمون میں قہوے کا ذکر ہؤا تھا۔ قہوہ عربی زبان کا لفظ ہے اور کافی اسی کی تبدیل شدہ شکل ہے۔جس طرح عربی کے کچھ اور الفاظ تبدیل ہو کر انگریزی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، اسی طرح قہوے نے بھی کافی کی ہیئت اپنا لی ہے۔ قہوے کی دکانوں کو ’’مقہی‘‘ کہا اور لکھا جاتا ہے۔
پاکستانی کھانے بھی یہاں پر کافی پسند کیے جاتے ہیں۔ ہمارے پچھلے شہر میں بھی کچھ مشہور پاکستانی ریستوران تھے جن میں سے ایک ’’ایسٹ اینڈویسٹ‘‘ تھا۔ اس ریستوران کا ذکر پہلی بار میں نے ایک سعودی سے ہی سنا تھا۔ میں اپنے بینک مینیجر کے کمرے میں کسی دستاویز کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک سعودی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے میرے کوٹ سے اندازہ لگا لیا کہ میں نیول بیس ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘‘ ان کا ریستوران ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ اس میں ایک پاکستانی کے ساتھ حصہ دار ہیں۔ ہمیں ابتدا میں اس ریستوران کے کھانوں کا ذائقہ روایتی پاکستانی کھانوں سے مختلف لگا، اگر چہ فرق اتنا زیادہ نہیں تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ جب ہم سعودی عرب میں رہنے کے اور ذائقوں…
جب اردو محاورے وجود میں آ رہے ہوں گے تب نہ کوئی عالمی سیاست تھی نہ ہی دنیا نے گلوبل ولیج کی شکل اختیار کی تھی ۔ اُس وقت دلوں کودہلانے کے لیے سپر پاورز کے تنازعات بھی سامنے نہیں آئے تھے اور نہ ہی سائبر کرائمز کی ہنگامہ خیزیاں موجود تھیں ۔ محاورہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے تخلیق ہؤا تو کچھ عرصہ بعد لنکا میں سب باون گز کے مارکیٹ میںآگیا ۔ گویا بات صرف سری لنکا تک پہنچی ۔ پھر آیا ترکی کانمبر ۔ اردو لفظ ترکی زبان کا ہے جس کا مطلب ہے لشکری زبان ۔ بہرحال بہت عرصے سے ترکی دیکھنے کی خواہش دل میں تھی اوروہ بھی بہت سے مضبوط دلائل کے ساتھ ۔ صرف ایک پہلو مزاحم تھااوروہ تھا زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم۔
جوعوامل ہمیں ترکی لے کر آئے ان میں سر فہرست حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار کی زیارت کرنا تھا ۔ ترکی سلطنت عثمانیہ کا مرکز رہ چکا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ نے دنیا کے بڑے حصے پر صدیوں حکومت کی جو عالم اسلام کا ایک کامیاب دور تھا ۔ پچھلے دنوں ٹی وی سے دکھائی جانے والی ارطغرل سیریز نے بھی عوامی حلقوں میں ترکی کی شہرت…
ڈسکلیمر: اس مضمون کا مقصد مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے آپریشن کو صحیح ثابت کرنا یا اس کےلیے جواز تلاش کرنا نہیں- صرف سرمیلا بوس اور دوسرے عالمی شہرت یافتہ مصنفین کی تحقیق کی روشنی میں حقائق کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش ہے- انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی بھی فریق کی جانب سے سامنے آئیں، راقمہ ان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے (تزئین)
تعارف
سقوط ڈھاکہ ایک ایسا قومی سانحہ ہے جس کا صرف ذکر ہی بہت سے زخموں کو کھول دیتا ہے۔ یہ واقعہ ملک کا آدھا بازو کٹ جانے کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور خود پاکستانی قوم کو دنیا میں بری طرح بدنام کرنے کا سبب بنا جس کا شعور شاید ملک کے اندر کم پایا جاتا ہے۔ اس بدنامی کے پیچھے پاکستان کے مقتدرین کی فاش غلطیاں بھی موجود ہیں اور عالمی سطح پر انڈیا اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈا بھی۔ جو ہؤا وہ پلٹایا نہیں جا سکتا لیکن زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آج بھی وطن عزیز کی سلامتی کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز در پیش ہیں۔ ان سب چیلنجز سے باوقار طریقے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ جذباتیات سے…
میرے چچا زاد بھائی کی شادی تھی جو میرا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا اور میرا بہترین دوست بھی تھا۔ میں نے شادی میں شرکت کرنے کے لیے دفتر سے چار دن کی چھٹی لے لی۔ سفر کی تیاری کرکے میں بس کے اڈے پر پہنچ گیا اور ٹکٹ لے کر انتظار گاہ میں آرام دہ صوفے پر بیٹھ گیا کہ بس کے روانہ ہونے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں بے حد خوش تھا کہ میرے کئی پرانے دوست مختلف شہروں سے اس شادی میں شرکت کرنے کے لیے آ رہے تھے۔
اس مشینی دور میں دوستوں کی یہ بیٹھک اک نعمت سے کم نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم سب مل کر اپنی شرارتوں اور نادانیوں کے قصے دہرائیں گے۔ گزرے دنوں کی خوشگوار یادوں کو یاد کریں گے۔ اپنی حماقتوں پر خود ہی قہقہے لگائیں گے۔ اپنے درمیان ہونے والے چھوٹے چھوٹے بے بنیاد جھگڑوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہوں گے۔ آپس کی چھینا جھپٹی کے تصور کو تازہ کریں گے۔ بچپن کی رنگ برنگی اور معصوم خواہشوں کا تذکرہ کریں گے۔ بچپن کے سنہرے دنوں کی وہ انمول یادیں کہ جن کا خیال آتے ہی میری آنکھوں کے سامنے قوس قزح کے رنگ…
قارئین کرام سلام مسنون! غزہ میں زمینی جنگ جاری ہے اور مزاحمت کی قوتیں اس بے جگری سے لڑ رہی ہیں کہ قابض فوج کواپنی کامیابی کا وہم تک نہیں ہونے دیا۔ شہریوں کے قتل عام پردنیا میں احتجاج کا دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ بعض ممالک میں ان کی تاریخ کے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔تازہ معرکے میں فلسطینیوں نے جانیں دے کر نئے سرے سے اپنا مقدمہ بطور مقبوضہ محصور آبادی دنیا کے سامنےپوری قوت سے پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی حمایت تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئی ہے۔اس مقام پر اگر عرب ممالک ذرا سی بھی حمیت دکھائیں اور مسلم دنیا کو ساتھ ملائیں تو فلسطین کی آزادی کچھ بھی دور نہیں،مگر افسوس ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی مہینےبھر سے اسلام آباد میں دھرنا دیےاحتجاج کررہے ہیں۔ان کے لانگ مارچ پر اسلام آباد میں داخل ہونے پر لاٹھی چارج کیا گیا،راستہ روکا گیا اور شہر سے باہر دھکیلنے کی کوشش کی گئی مگرسوشل میڈیا پر بات اتنی پھیل گئی کہ اتھارٹیز کے لیے مشکل پیدا ہوگئی۔ ان کا مطالبہ ان کے غائب کیے گئے افراد کی بازیابی ہے ۔ بہت عرصے سے بلوچستان…
حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کی اللہ تعالیٰ سے دعائیں افراد کے لیے بھی ہیں، قوم اور نسل کے لیے بھی ہیں اور معزز اور محترم شہر کے لیے بھی۔آپؑ کی زندگی اہلِ ایمان کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ کافر باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا لیکن جب معلوم ہو گیا کہ وہ تو دشمن ِ خدا ہے تو اس سے بھی رک گئے۔ حضرت ابرائیمؑ نے مکہ شہر کے لیے دعا ئے امن کی تھی، اور اولاد کو بت پرستی سے بچانے کی:
’’پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ (ابراہیم،۳۵)
یہ وہ انعامات ہیں جو اللہ نے انھیں دیے تھے اور وہ ان کا دوام مانگ رہے ہیں۔فرمایا:
’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے قریب لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز ادا کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں‘‘۔ (ابراہیم،۳۷)
اس دعا میں کس قدر رقت ہے اور فضا میں کس قدر سرور ہے، دل میں کتنا گداز پیدا…