ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – بتول نومبر ۲۰۲۲

بقائمی ہوش و حواس بقلم خود یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ آج مورخہ پانچ کہ جس کا نصف اڑھائی اور پنجاب زدگان کے لہجہ میں ڈھائی ہوتے ہیں تاریخ کو بتول کا نیا شمارہ موصول ہوا ۔اللہ نظر بد سے بچائے تحفظ آزادی کا دو ماہ یکجا رسالہ شائع ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ تھا کہ رسالہ چودہ پندرہ سے جست لگا کر پانچ کی صبح مل گیا۔ ڈاکیہ پروفیسر صاحب کا جاننے والا اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے موصوف خاصے بے تکلف بھی ہیں اور اس کا بھگتان ہمیشہ پروفیسر صاحب کی نصف بہتر کو بھگتنا پڑتا ہے اور چار کو ملنے والا رسالہ پانچ ،چھے کو ملتا ہے۔ کبھی کبھار یہ بے تکلفی اتنے عروج کو پہنچتی ہے کہ ہفتہ بھر کی ڈاک جمع کر کے تھیلا بھر کر لاتے ہیں۔
خیر نیلی آسمانی رنگ کی زمین پر سفید گہرے گلابی ور لالو لال ادھ کھلے پھول کا سرورق بھی بہت پیارا لگا۔
سیرت پر ڈاکٹر مقبول احمد شاہد اور ڈاکٹر میمونہ حمزہ دونوں کے مضامین بہت اچھے اور عام فہم تھے۔افسانوی حصہ میں نئے ناول کی خبرہی نہیں پہلی قسط بھی موجود ہے ۔اک ستارہ تھی میں ،مجھے یہ پورا مصرع ہی بہت پسند ہے:
اک ستارہ تھا میں،کہکشاں ہوگیا
بہت سی یادیں نائن الیون کے حوالے سے ذہن کے دریچوں میں جھانکنے لگتی ہیں۔اٹھان بہت زبردست ہے ،لیکن بڑھاپے کی آمد کے ساتھ ساتھ یاداشت کھسکنا شروع ہو گئی ہے۔ ناول نگار اسماء اشرف منہاس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا۔بہرحال اس کا تذکرہ سرورق پر موجود ہے۔ اگر اداریے کے نیچے شذرے میں یا قسط والے صفحہ پر مختصراً دیا جاتا تو زیادہ تر قارئین کو اچھا لگتا۔ اب بھی تجویز ہے کہ چند سطور میں گزشتہ قسط کا خلاصہ دیا جائے اچھا تاثر پڑتا ہے۔
سفرناموں میں ذاتی طور پر حددرجہ دلچسپی ہے اس لیے آمنہ راحت کا سفر نامہ بھی پڑھا ۔مختصر سفرنامہ جس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ جائے زیارت کا دلچسپ حال احوال قاری کو بھی ساتھ رکھتا ہے ۔
نبیلہ شہزاد کے لیے تو مشہور زمانہ جملہ ’نام ہی کافی ہے‘کافی ہے ، بہت برجستگی سے انہوں نے سکینہ جی کے ساتھ ڈائٹنگ والوں کو کم خرچ بالا نشین نسخہ فراہم کیا ہے۔
افسانوں میں شاہین کمال کا ہائی وے 80ء، اس وقت کی اذیت اور کرب کی داستان ہے جب کویت عراق جنگ نے دونوں طرف سے مسلمانوں کو تباہ کیااور تباہ کرنے والوں نے اس کا تماشا دیکھا۔ بہت اچھی طرح سے ام قاسم کی زبانی افسانہ نگار نے ترجمانی کی۔ مجھے اپنی قریبی عزیزہ کا کویت عراق جنگ شروع ہونے پر اسی کرب اور اذیت ناک لمحہ یاد آگیا جب انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنی بڑی اسّی سال کے لگ بھگ بہن کو خواب میں دردِ زہ میں تڑپتے دیکھا ہے ،تعبیر پوچھی تو بتایا کہ آپ کی بہن دردِزہ جیسی اذیت میں مبتلا ہیں اور وہ اذیت کیا تھی، ان کا جواں سال بھانجا کویت عراق جنگ میں کویت سے آتے ہوئے لاپتہ ہو گیا تھا۔ تب کا سارا کربناک منظر یاد آگیا اور یہی لکھنے والے کی کامیابی ہے کہ مزاح لکھے توپڑھتا چہرہ مسکرائے، تکلیف میں مبتلا لوگوں کی کہانی لکھے اور خود پر بیتتی محسوس ہو۔
تحریریں تو بہت سی ہیں لیکن بصری مسائل سے فی الوقت اتنا ہی پڑھنا اور پڑھ کر اس پر لکھنا ممکن ہے۔باقی تحریریں بھی حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے ان شاءاللہ بہترین ہی ہوں گی کہ بطور مدیرہ بہت مہارت سے رسالہ چلارہی ہیں، ماشاءاللہ بارک اللہ جزاک اللہ اور فی امان اللہ۔
*ممنون ہوں۔ ناول نگاراسما طاہر کے نام سے ڈائجسٹ میں لکھتی ہیں۔ان کواگست کے شمارے میں ان کی بتول میں پہلی اشاعت پر خوش آمدید کہا ہے چیک کیجیے۔ خلاصہ دوسری قسط سے ہی شروع ہو سکتا ہے تو موجود ہے۔ (مدیرہ)
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Aalia Hameed
Aalia Hameed
1 year ago

بہت اعلیٰ ۔

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x