ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جیسے چاہو جیو – بتول نومبر ۲۰۲۲

اشتہاری کمپنیاں جب کسی چیز کی فروخت کے سلسلے میں سلوگن بناتی ہیں تو وہ کوئی سیدھا سادہ معاملہ نہیں رہتا۔ عوام الناس میں پذیرائی کے بعد وہ ایک نظریہ بن جاتا ہے۔
’’جیسے چاہو جیو‘‘ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ گھر میں رہنے والے سب افراد جب اس سلوگن کے ساتھ اپنی زندگی کو آزاد سمجھتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان فاصلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بچے والدین کی مداخلت سے اپنے طرزِ حیات پہ قدغن محسوس کرتے ہیں۔پھر اس کی اگلی منزل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات انجام کار فتنہ عظیم بن کر سامنے آتے ہیں۔اسلام نے ہر بڑے فتنے کے نمودار ہونے کے پہلے ہی مرحلے پہ راستے کی بندش کا انتظام کر دیا ہے۔
مرد کوعورت کی مشابہت اور عورت کومرد کی مشابہت اختیار نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ مشابہت چہرے مہرے کی ہو، بالوں کی تراش خراش کی یا لباس کی۔ مردوں کے لیے ہاتھوں پہ مہندی اور سونے کا زیور اور ریشم کا استعمال منع ہے۔ لباس کے رنگوں میں بھی شوخ رنگ عورتوں کے اور ہلکے رنگ مردوں کے لیے ہؤا کرتے تھے۔
لباس کی یکسانیت نے مرد و عورت کی تفریق پہ پانی پھیر دیا۔ مردوں نے میک اپ، زیور اور شوخ رنگ کے لباس اپنا لیے تو معاشرے میں’’جیسے چاہو جیو‘‘کا عملی نمونہ سامنے آنے لگا۔شریف گھرانوں میں بھی دوپٹہ عنقا ہوگیا اور ٹائیٹس نے کھلی شلوار کی جگہ لے لی تو’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا فلسفہ خوب صورت لگنے لگا۔
افکار کی رَو شیطانی ہو جائے تو پھر میرا جسم میری مرضی کا فلسفہ مزید ترقی کرتا ہے اور منفی احساسات غالب آنے پر اپنی مرضی کا جسم بھی ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے۔ انسان جب چاہے مرد بن جائے اور جب چاہے عورت کا روپ دھار لے۔
اللہ رب العزت نے دو ہی جنس مرد اور عورت بنائیں۔ مرد اور عورت کے جسمانی اعضاالگ بنائے۔ سارے مرد ایک جیسے اور ساری عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ سب انسان دو آنکھوں، ایک ناک، منہ، دو بازو، دو ٹانگوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ الخالق کی کامل حکمت کے ساتھ کبھی کبھار کوئی معذور بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کی طبی وجوہات سے انکار ممکن نہیں لیکن دراصل اللہ الخالق کی مشیت ہی کار فرما ہوتی ہے اور یہ بہت کم ہوتا ہے کہ بچہ آنکھوں سے معذور ہو یا ہاتھ پاؤں سے۔ اور بالکل اسی طرح اسی رب کی مشیت سے کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں صنفی طور پہ کچھ نقص ہو۔ یہ طبی نقطہ نگاہ سے قابل علاج ہے اور اس میں کوئی بات قابل نفرت نہیں۔ جس طرح گونگے، بہرے، نابینا یا ہاتھ پاؤں سے معذور افراد معاشرے کا حصہ ہیں اسی طرح صنفی طور پہ معذور افراد معاشرے کے لیے کار آمد ہو سکتے ہیں۔کافی مدت تک حرمین الشریفین میں یہ افراد صفائی ستھرائی یا نظم و ضبط کے لیے مقرر کیے جاتے تھے۔ایسے افراد کے حقوق کسی طرح دوسرے افراد سے کم نہیں ہو سکتے۔
البتہ ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کو قانون بنانے کی آڑ میں جو ایجنڈا سامنے آیا وہ سراسر غیر انسانی فعل ہے۔جسمانی طور پہ مکمل مرد کا عورت بن جانا اور مکمل عورت کا مرد بننے پہ اصرار ایسا شیطانی فعل ہے جس کا تصور گزشتہ کسی زمانے میں نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیشہ سے شیطان کی کار گزاریوں سے آگاہ کر رکھا ہے۔
’’میں انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا۔ اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں۔ سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا‘‘۔ (سورہ النساء:119)
کیا اس آیت مبارکہ کے ہوتے ہوئے کوئی مسلم ریاست رحمان سے دشمنی اور شیطان سے دوستی کرنے کی جسارت کرتے ہوئے اپنا

نقصان کرسکتی ہے؟
ہمارے دین میں تو روزمرہ کی معمولی اشیامیں ملاوٹ کرنا اور دھوکا دینا جائز نہیں، اکثر فقہا کے نزدیک بڑی عمر کا آدمی سفید بالوں کو سیاہ رنگ نہیں کرسکتا تاکہ معاشرے کو اس کی حقیقی عمر کے بارے میں مغالطہ نہ ہو۔ جو دین اس قدر حقیقت پسند اور فطرت سے قریب ہے اس میں اتنے بڑے فراڈ کی گنجائش کیسے ممکن ہے کہ ایک عورت، راتوں رات محض اپنے اندرونی احساس کی بنا پر مرد بن جائے، اور دوسری طرف ایک مرد ٹرانس وومن ہوجائے؟ ٹرانس جینڈریعنی مرد سے عورت بن کر، یا عورت سے مرد بن کر ہم جنس پرستی کرنے والا راستہ کھول لے۔
یو این او کے مطابق مکمل شناخت ہونے کے باوجود یہ سب مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے قابل احترام انسان ہیں، جبکہ ہمارے دین کے مطابق یہ سب لوگ انسانی تہذیب کے لیے ننگ وعار اور قابل سزا مجرم ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول (بدفعلی کرنے اور کرانے والے) دونوں کو قتل کر دو۔ (جامع ترمذی، 1456)
ایسی حرکات کرنے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ لعنت فرمائی.(مسند احمد،2915 )
ایسے ٹرانس جینڈر افراد جب خود اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرکے لعنت کے مستحق ہورہے ہیں، تو وہ اپنے اسی معاشرے سے اپنے حقوق کس منہ سے مانگتے ہیں؟ ایسے افراد معاشرے کے مجرم اور غدار ہوتے ہیں، اسلامی معاشرے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اس طرح کی جنسی بے راہروی میں مبتلا افراد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں بودوباش کے لائق نہیں سمجھاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرز عمل کے حامل افراد کو گھروں سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔
جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخنث(ٹرانس جینڈربننے والے) مردوں پر اور مردوں کی چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا کہ ان(اپنی مرضی سے) زنانہ بننے والے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو نکالا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں کو نکالا تھا۔ (صحیح بخاری، 5886)
آج کا نام نہاد ترقی یافتہ انسان اپنی خواہشات کا ایسا غلام ہؤا ہے کہ اس کی عقل پر خواہشات نفس کے دبیز پردے پڑ چکے ہیں، اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے جانوروں سے بھی بدتر سطح پر اتر آئے ہیں، ایسے لوگوں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے قرآن مجید دو ٹوک کہتا ہے:
’’کیا آپ نے اسے بھی دیکھاجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے‘‘۔(سورہ جاثیہ 23)
جب ان شیطانی احساسات کو مزید ترقی مل جائے تو انسان پہ انسان رہنا بھی شاق گزرنے لگتا ہے۔اب تو مغرب بالخصوص امریکا میں ایسا طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے، جو خود کو انسان نہیں، جانور کہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ادرکِن کہتے ہیں ۔ دنیا میں ایسا پہلا شخص آج سے 32 برس قبل 1990ء میں امریکا میں نمودار ہؤا۔ یہ جامعہ کینٹکی (Kentucky University) کا ایک طالب علم تھا۔ اب ان دو ٹانگوں والے جانوروں کی ایک پوری کمیونٹی وجود میں آچکی ہے اور Elfin kind Digest کے نام سے ان کی سب سے پرانی ویب سائٹ بھی ہے۔ یہ خود کو انسان ماننے سے انکاری ہیں۔ ان میں سے کچھ خود کو کتا، کچھ بلی، کچھ لومڑی اور بعض بھیڑیا کہتے ہیں اور حرکتیں بھی ایسی ہی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے کئی پیجز ہیں، جن میں اپنے حیوانی تجربات اپ لوڈ کرتے ہیں جبکہ کئی یوٹیوب چینلز بھی ہیں۔
یہ انسانی ذہن کی پستی کی انتہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پہ پیدا کیا اور وہ اسفل السافلین پہ رہنے کو پسند کرے؟دین اسلام دین فطرت ہے اور اس میں ہی انسان کی فلاح ہے اور اس فطرت میں تبدیلی انسانیت کی تباہی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:’’پس یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو۔ قائم ہو جاؤ اس فطرت پہ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل

ارشادِ ربانی ہے:’’پس یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو۔ قائم ہو جاؤ اس فطرت پہ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔(الروم 30 )
امت مسلمہ پہ بہت کڑا وقت ہے اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کو بچانا دنیا کا سب سے اہم کام ہے۔ پوری امت مسلمہ کے ہر باشعور مسلمان گھرانے کو ہنگامی بنیادوں پہ نسل نو کی تربیت کے لیے قرآن وسنت سے جوڑنے کی سعی تیز تر کر دینے کی ضرورت ہے۔

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x