ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سنہری دور اور تین بہنیں – بتول نومبر ۲۰۲۲

میٹرک کے بعد نرسنگ کورس میں رکاوٹیں اور جامعہ اسلامیہ برائے خواتین منڈی وار برٹن میں داخلہ میری زندگی کا سنہری دور اور اللّٰہ کی رحمت تھی ۔
آج بھی وہ تین بہنیں میری چشم تصور میں زندہ ہیں !
تین سالہ ڈپلومہ کورس تھا جس میں عالمہ فاضلہ قاریہ کی سند اور پھر ایک ڈگری لغۃ العربیہ کی بھی تھی ۔یہ جامعہ وفاق المدارس العربیہ ملتان پاکستان سے الحاق شدہ تھا۔
کورس ہوسٹل میں رہ کر کرنا تھا ۔گھر آ کر امی سے مشورہ کیا تو امی نہیں مان رہی تھیں ۔فیصلہ یہ ہؤا کہ مجھ سے چھوٹی بہن بھی میرے ساتھ جائے گی ۔ امی کو منانے کی بہت کوشش وہ بھی بڑی باجی کی، میرے دل سے ان کے لیے بہت دعائیں نکلتی ہیں ۔آج جو کچھ بھی ہوں ان کی کاوشوں کا ثمر ہوں ۔والدین کو کیسے اور کتنے جتنوں سے راضی کیا ۔اس بات کا سہرا باجی کے نام ۔
یوں اللّٰہ کی خاص رحمت سے مسز زبیدہ اسلم صاحبہ کے پرخلوص مشورے اور باجی کی کاوش سے میرا اور چھوٹی بہن کا داخلہ جامعہ اسلامیہ برائے خواتین منڈی وار برٹن میں ہو گیا۔آج بھی یہ سوچ کر تشکر سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ اللّٰہ رب عزوجل کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھ گناہ گار ،حقیر و ناتواں کو کہاں سے اٹھا کرکہاں پہنچا دیا ۔میں اس کرم کے کہاں تھی قابل !کہاں نرسنگ کامیدان اور کہاں اپنے دین سے جوڑ دیا ۔ صالح بندوں کی صالحیت، صلاحیت، ایمان کی چاشنی ملی ۔قرآن کریم سے اوراہلِ قرآن سے ناطہ جڑگیا ۔ وہ نور میں نہائے ہوئے شب و روز ، تلاوت قرآن پاک کی حلاوت ،سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فیضان ، حدیث مبارکہ کی حقانیت کی روشنی، فقہ کا ادراک ۔مخلص ،فہم و فراست علم و عرفان سے مزین اساتذہ حرمت صاحبہ تابندہ صاحبہ اور بندگی کی عملی تصویر فرح صاحبہ کی شاگردی کا شرف ۔میں ان قیمتی لمحات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی جب میرا پہلا دن تھا جامعہ میں۔میں اس نعمتِ عظمٰی سے فیضیاب کرنے والوں کے احسان کا قرض نہیں چکا سکتی جو اس عظیم نعمت کی صورت ملا۔
جامعہ کا ماحول ہماری مادی دنیا سے بہت مختلف تھا۔کچی عمر کےذہن میں وہ نقوش آج بھی ثبت ہیں ۔نمازوں کی پابندی نماز تہجد کے مقدس لمحات ،تہجد کے بعد قرآن کلاس جس میں دیے گئے اسباق کی دہرائی ۔ہمہ وقت قرآن مجید سے فیض یاب ہونا ۔ وہ پاکیزہ فضا، کچھ دنوں تک یوں ہی محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی اور دنیا میں ہیں ۔ پھر ہم اس ماحول کے عادی ہو گئے ۔
ایک بات انصاف کی کہنا بہت ضروری ہے کہ ان دو سالوں میں ہمیں جو بھی پڑھایا گیا اس کا رٹا لگوایا گیا ۔ہم اس وقت بہت خوش ہوتے فخر کرتے جب ہمارے ہر مضمون میں سو میں سےستانوے، اٹھانوے اور ننانوےنمبر آتے ۔مگرجس کی کمی کو میں نے جامعہ سے فارغ ہو کر جانا وہ بہت اہم ہے اور میں تمام جامعات کے منتظمین سے درخواست کرتی ہوں کہ اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔جامعہ میں سبق یاد کروا نے اور پورے پورے نمبر لینے پر بہت زور دیا جاتا ہے مگر قرآن مجید کی اور حدیث مبارکہ کی اصل روح پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی،دلوں کی دنیا میں خلا رہتا ہی ہے جو مجھے بعد میں بہت شدت سے محسوس ہؤا ۔
معذرت کے ساتھ میں ماضی کی یادوں میں بہت دور نکل گئی ہوں ۔ہاں جامعہ میں ہونے والے سالانہ اجلاس آج تک میری روح میں دل ودماغ میں نقش ہیں ۔عموماً یہ اجلاس رات کو ہوتے ۔مجھے یاد ہے گجرات ہمارا سنٹر تھا ،وہاں سے محترمہ ذکیہ صاحبہ اور ان کے ساتھ خصوصی طور پر تین بہنیں آپا عائشہ ، آپا رابعہ اور تیسری بہن غالباً فاطمہ آیا کرتیں ۔

معذرت کے ساتھ میں ماضی کی یادوں میں بہت دور نکل گئی ہوں ۔ہاں جامعہ میں ہونے والے سالانہ اجلاس آج تک میری روح میں دل ودماغ میں نقش ہیں ۔عموماً یہ اجلاس رات کو ہوتے ۔مجھے یاد ہے گجرات ہمارا سنٹر تھا ،وہاں سے محترمہ ذکیہ صاحبہ اور ان کے ساتھ خصوصی طور پر تین بہنیں آپا عائشہ ، آپا رابعہ اور تیسری بہن غالباً فاطمہ آیا کرتیں ۔ ان تینوں بہنوں کی خصوصی پہچان تھی وہ ہمیشہ عبایا میں رہتی تھیں حالانکہ جامعہ میں کوئی مرد نہیں ہوتا تھا خصوصاً اجلاس میں ۔
وہ دیکھنے میں بھاری بھرکم تھیں اور ان کی آواز بھی کافی بھاری تھی۔ یہ سب بہنیں حافظ قرآن تھیں ۔ آپا رابعہ کی تو کمال آواز تھی، جب وہ سٹیج پہ نعت رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پڑھتیں تو اک سماں باندھ جاتا ۔وہ آواز وہ جذبہ وہ شوق محبت آج بھی میرے دل میں تازہ ہے ۔پھر یہ سب بہنیں جب بیان دیتیں تو ان کا لب و لہجہ دلوں کو معطر کر جاتا ۔
اس بات کا بہت چرچا تھا کہ کبھی کسی نے ان کی شکل نہیں دیکھی ، آخر کیا وجہ ہے ۔ پھر یہ بات گردش کرنے لگی کہ یہ تینوں بہنیں مخنث ہیں ۔ چھوٹے دل ودماغ میں اس وقت نہ تو کوئی سوال تھا نہ کوئی جواب نہ ہی کوئی الجھن ۔بس اتنا پتہ تھا کہ وہ نیک سیرت اور دین سے محبت کرنے والیاں ہیں ۔
یہ وقت81۔1980 کاتھا۔ اللّٰہ رب العالمین کا احسان ہے کہ اس نے مجھ گناہ گار کو قرآن مجید سے جوڑے رکھا ۔آج الحمدللہ درس قرآن ،قرآن کے ترجمہ وتفسیر کی تدریس کا شرف حاصل ہے ،صالح ساتھیوں کا ساتھ ہے ۔
زمانے کے نشیب و فراز میں پھر تیسری جنس کو دیکھا جو عورتوں کے روپ میں بہت اضافی بناؤ سنگھار کے ساتھ معاشرے میں ناچنے گانے کی علامت کے طورپر سامنے آئی تو ذہن بہت زیادہ الجھ گیا کہ یہ لوگ تو بہت زیادہ پارسا ،نیک سیرت ہوتے ہیں آپا عائشہ آپا رابعہ کی طرح ۔اس تصور سے ہٹ کران کے کسی اور روپ کا کبھی تصور بھی نہیں تھا ۔ آج شعور نے بہت دکھی کیا ہے کہ کس قدر بھیانک چہرہ ہے یہ معاشرے کا ،کس قدر بےحسی ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ حکیم کی حکمت ہے وہ جس کو جیسا چاہے بنا دے،کسی کو مکمل کسی ادھورا ۔ نہ مکمل انسان کا مکمل ہونے میں کوئی کمال ہے اور نہ ہی ادھورا انسان اپنے ادھورا ہونے پہ مجرم ۔مقام شکر ہے تکمیل آدمیت پر، صبر کا امتحان ہے اور کسی قسم کی کمی پر ،نہ صرف اس انسان کے لیے بلکہ اس کے ارد گرد موجود رشتوں کا ۔
وقت کے حکمرانوں کی ذمّہ داری بھی ہے۔حکمران قوم کے مائی باپ ہوتے ہیں،عوام اور ان کے مسائل ان کی ذمہ داری ہیں ۔اگر معاشرے کے مخنث افراد آپا عائشہ آپا رابعہ جیسے کردار بن سکتے ہیں تو پھر کیوں حکومت ایسے افراد کو معاشرے کے ناکارہ ناپسندیدہ اشخاص بننے پر مجبور کرتی ہے ۔کیوں معاشرے کے مکروہ چہرے والے گرو چیلا نظام کے حوالے کر کے معاشرے کی صالحیت کو ختم کرتی ہے ۔افسوس آج تک کسی بھی حکومت نے اس درد ناک پہلو یہ توجہ نہیں دی اور آج دشمن ان میں سے بعض کو آلہ کار بنا رہا ہے۔ان کے حقوق کے تحفظ کا شور ہے مگر ان کے حقوق کی آڑ میں ایک گھناؤنا کھیل کوئی اور کھیل گیا ہے،ان بیچاروں کا تونام ہی استعمال ہوگا۔ ازل سے ہی ابلیس نے برائی کو خوبصورتی کا لبادہ پہنایا ہے ۔پہلی قوموں پہ جتنے عذاب آئے ان میں سب سے برا عذاب قوم لوط کا عذاب ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اس قبیح فعل میں ملوث نہیں تھی وہ تو بس ساتھ دیتی تھی اوربرے فعل کوبرا نہ جانتی تھی ۔ اس کا یہ جرم اس کو ایک پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود نہ بچا سکا ۔آج ہماری بھی مجرمانہ خاموشی کہیں جرم نہ بن جائے ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x