ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اے کاش! – بتول جون ۲۰۲۳

بلا کی گرمی اور دوپہر کا وقت ۔پنکھا سر پر چل رہا تھا پھر بھی حال برا تھا ۔میں نے سر اٹھا کر چاروں طرف دیکھا ۔عورتیں ہی عورتیں …چند کی گود میں بچے۔
اُف آج تو تین بج گئے! میں نے اپنے آپ سے کہا ۔
نہ جانے کیوں لاشعوری طور پر میں نے اس ایک مخصوص کونے کی طرف دیکھا ۔وہ وہاں اسی طرح کھڑی تھی۔ ایک بچہ دائیں ایک بچی گود میں اور بڑی لڑکی اس کا دامن پکڑے ۔وہ تینوں کبھی مجھے دیکھتے کبھی دبی نظروں سے مریضوں کو ۔مجھے سخت کوفت شروع ہوئی ۔اس کو آنا ضروری تھا ایک دن بھی نہیں رکتی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں امن کی ندیاں بہتی تھیں اور میری کلینک پر مریضوں کا بے تحاشہ رش ہوتا تھا ۔عموما ًدو ڈھائی بجے میں فارغ ہوجاتی تھی لیکن کبھی کبھی رش بہت ہوتا تو تین بھی بج جاتے ۔تھکن سے میرا برا حال ہوجاتا ۔اور سارے مریضوں کے بعد جب کلینک خالی ہوتی وہ ملتجی نظروں سے مجھے دیکھتی ۔ ان دنوں تندور کی روٹی دو روپے کی ملا کرتی تھی ۔اسے پانچ روٹیوں کے لیے دس روپے چاہیے ہوتے تھے ۔نہ جانے ان دنوں میری فیس بھی کیا ہوتی ہوگی شاید دس بیس روپے ۔اور روزانہ بلا ناغہ دس روپے اسے دینا لازمی تھا ۔کبھی وہ خود نہیں آتی تو اس کی بیٹی اسی کونے میں کلینک ختم ہونے سے پہلے کھڑی ہوتی ۔
امی نے بھیجا ہے ۔وہ میرے پاس آکر کہتی ۔
اس کا نام آسیہ تھا ۔پنجاب کے کسی علاقے سے شادی ہو کر کراچی آئی تھی ۔بلا کی باتونی تھی ۔اپنے گاؤں اپنے گھر اپنی گائے بھینسوں کی ہر بات جب موقع ملتا بار بار دہراتی ۔
ڈاکٹر صاحب میری گائے کی آنکھیں…کیا بتائوں آپ کو !
کتنی بے وقوفی کی بات تھی لیکن وہ بڑے مزے سے بار بار یہ نقشہ کھینچتی ۔
چھوٹے سے علاقے سے کراچی شادی کرتے ہوئے ماں باپ بڑے خوش تھے لیکن یہ بات آسیہ کو شادی کے چند عرصے بعد ہی پتہ چل گئی کہ اس کا میاں نشہ کرتا ہے ۔ جو کماتا وہ نشے میں پورا کر دیتا اور اس کے نصیب میں ساس نندوں کی خدمت کے عوض دو وقت کا کھانا مل جاتا ۔جب تک ساس زندہ رہی گزارا چلتا رہا، ساس کے بعد نندوں نے اس کی روٹی پانی تنگ کر دی ۔بچے اوپر تلے کے پانچ تھے اور پیٹ کی بھوک ان سب کو پاگل کر دیتی۔ اور وہ بھوک اسے روز مریضوں کے ہجوم کا حصہ بنا دیتی۔ سچ بات ہے کبھی میں اس سے تنگ آجاتی ۔میرے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا جب وہ وہیں کھڑی میرا راستہ روکتی ۔
پھر وہ اپنازیادہ وقت کلنک پر ہی گزارنے لگی ۔عورتوں سے باتیں کرتی ۔ادھر ادھر کے قصے سناتی ہمدردی سمٹتی اور شاید اسے کچھ پیسے بھی مل جاتے ۔
اور پھر اس کے لیے عزت کا راستہ محنت کی شکل میں میں نے یہ نکالا کہ اسے کلینک پر صفائی اور اوپر کے کاموں کے لیے رکھ لیا ۔یوں آسیہ میری پروفیشنل لائف کا قابل ذکر کردار بن گئی ۔کام وہ بہت اچھا کرتی ۔کونا کونا صاف کرتی ۔اور پھر انجکشن لگانا دواؤں کی پڑیاں بنانا اور نہ جانے کیا کچھ وہ سیکھتی چلی گئی ۔ میں اکثر اس سے کھانا بنوالیتی ۔کپڑے استری کرواتی ۔وہ میرے گھر بھی آنے لگی اور گھر کے بھی اچھے خاصے کام وہ کرنے لگی۔ برتن ایسے دھوتی کہ نئے لگنے لگتے ۔میں تھک جاتی تو زبردستی پاؤں دباتی ۔سر میں تیل ڈالتی ۔بچوں کا خیال رکھتی ۔گھر باہر پھرتی سے سب کام نمٹا دیتی ۔کبھی کبھی میں بہت دور کی سوچتی کہ میں اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گی اس کو بھی سہارا مل جائے گا اور میرے لیے بھی بہت آسانی ہے ۔لوگ نہ جانے کیا کیا خواب دیکھتے ہیں، میرے مستقبل

کے خواب میں ایک پرسکون خوبصورت گھر اور اس میں آسیہ مددگار کی صورت ہوتی ۔
وقت دبے پاؤں گزر رہاتھا ۔آسیہ کے میاں کا نشہ بڑھ گیا تھا اور سسرال والوں کی زیادتیاں بھی ۔وہ ایک کمرہ جو اسے ملا تھا وہ چاہتے تھے وہ یہ بھی چھوڑ دے اور واپس میکے چلی جائے لیکن وہ بڑی عقلمند تھی۔میکے میں بھاوج آچکی تھی ۔ماں باپ کا زور ختم ہوگیا تھا اور خود وہ کراچی میں اپنے پاؤں جما چکی تھی ۔اچھے خاصے پیسے کما بھی رہی تھی اور لوگوں سے بٹور بھی رہی تھی ۔اس کا مجھے اندازہ ہی نہیں ہؤا۔اور وہ جو ایک گھریلو دبی ہوئ عورت تھی ایک شاطر اور ہوشیارعورت بن گئی ۔
سب سے غلط چیز جو اس نے سیکھی وہ چالاکی اور عیاری تھی ۔ہر کسی کو اپنا دکھڑا سناتی اور پیسے مانگتی باوجود اس کے کہ اسے کلینک سے معقول تنخواہ مل رہی تھی ۔رمضان میں پتہ چلا وہ عورتوں کے گھروں پر زکوٰۃ سمیٹنے پہنچ گئی۔
کلینک سے وہ اکثر غائب رہنے لگی ۔پوچھنے پر الٹے سیدھے جواب بنادیتی ۔ کسی نے بتایا کہ اس کا کمرہ سامان سے بھرا رہتا ہے ۔بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کی ۔خوب جہیز دیا ۔اس ایک کمرے کی چھت پر ایک اور کمرہ بنالیا ۔سب کچھ ٹھیک ہوگیا لیکن وہ خود خراب ہوگئی ۔پیسے کی لالچ نے اسے ہوس کے راستے پر ڈال دیا۔ اس راستے پر جہاں عزت اور نیک نامی باقی نہیں رہتی ۔لوگ اس سے بدکنے لگے۔ میرے پاس دبے لفظوں میں شکایتیں آرہی تھیں اور ایک دن جب اس نے کسی مریضہ سے زبردستی پیسے لیے وہ میری کلینک پر اس کا آخری دن تھا ۔
اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے پیسے کی ہوس نہ غریب کو چھوڑتی ہے نہ امیر کو ۔
ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت جو پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر نکلی تھی جسے شرافت اور عزت سے زندگی گزارنے کا پورا موقع ملا آسودگی ملی اس نے اس پر شکر اور قناعت کی بجائے لالچ اور ہوس کاراستہ اپنایا ۔کیا ہی افسوس کا مقام ہے!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x