ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انمول تھی وہ – بتول جون ۲۰۲۳

میری نور 9مہینے کی تھی جب فیروزاں میرے گھرآئی تھی ۔میں دفتر جاتی تھی اور بچی کی دیکھ بھال کے لیے ایک عورت کی ضرورت تھی ۔ ایک سکول کی پرنسپل مسز سعید نے اس کی ایمانداری اور وفا داری کی گارنٹی دی ۔ وہ اکیس سال ہمارے گھر میں رہی، وہ نہ ہوتی تو میںسکون سے ملازمت نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کی ایک چودہ سال کی بیٹی تھی ۔ اس نے سید پور روڈ پر کسی گھر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا ، شام کوجب میں گھر آتی تو وہ بھی چلی جاتی اس لیے کہ اسے اپنی بیٹی کی فکر رہتی تھی جوسارا دن اکیلی ہوتی تھی ۔ فیروزاں نے پہلے دن نور کوگود میں اٹھا کر کہا تھا ، ’’ باجی آپ بے فکر ہو جائیں یہ میری بیٹی ہے ‘‘۔اس وعدے کو اس نے مرتے دم تک نبھایا ۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ وہ نور سے زیادہ محبت کرتی ہے یا نجمہ سے۔
مجھے اس کی خود داری اور ایمانداری بہت پسندتھی ۔ وہ جس دن میرے گھر کام پر آئی تھی اس نے مجھے کہا تھا ،’’ باجی آپ کسی کو بتائیے گا نہیں ۔ نجمہ سے بڑے میرے چار بچے اور ہیں ۔ میرا شوہر مجھے گھر کا خرچ نہیںدیتا ، بچے بھوک سے تڑپتے تھے ۔ میں نے بچوں کی خاطر لوگوں کے گھروں میں کام شروع کیا ۔ وہ مجھ پر طرح طرح کے الزام لگانے لگا۔ ایک دن اس نے مجھے مار مار کرلہو لہان کردیا ۔ بچے چھین کر مجھے گھر سے نکال دیا صرف چھ ماہ کی نجمہ میری گود میں تھی شاید اسے اس لیے نہیں چھینا کہ یہ ماں کا دودھ پیتی تھی۔ میںاپنے باپ کے گھر گئی جہاںمیرا بھائی رہتا تھا ۔ اس گھر میں میرا حصہ بھی تھا لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میںاپنے بھائی سے حصہ مانگوں گی ۔ میںنے بھائی کی منت کی کہ مجھے ایک چار پائی کی جگہ دے دے لیکن اس نے مجھے گھر سے نکال دیا ، اس ڈر سے کہ میں کہیں اس سے اپنا حصہ نہ مانگ لوں۔ اس وقت میری ایک سہیلی نے مجھے سہارا دیا ، مجھے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دی اور میں لوگوں کے گھروںمیںکام کر کے اپنا اور بچی کا گزارہ کرنے لگی ‘‘۔
فیروزاںمیرے ہی ہاںکام کرتی تھی جب اسے اپنے بھائی کی موت کی خبر ملی ۔ میں نے اس سے بہت کہا کہ وہ اپنے بھائی کا منہ دیکھ آئے لیکن وہ اپنی بات پر قائم رہی کہ اس نے قسم کھائی تھی اپنے بھائی کا مرا ہؤا منہ بھی نہیںدیکھے گی ۔دل پر لگنے والے بعض زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ساری عمر بھر نہیں پاتے۔
وہ انتہائی ایماندار تھی ، میرا پورا گھر اس کے سامنے کھلا رہتا تھا۔ میں بہت لا پروا عورت ہوںکسی الماری میں تالا نہیں لگایا ، اسے میرے زیور تک کا پتہ تھا کہ کہاں کہاں رکھا ہے ۔ اپنی بالیاں یا ٹاپس تبدیل کرتی تو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر چھوڑ جاتی ۔ غسل خانے میں قمیص تبدیل کرتی تھی تواس میں لگے سونے کے بٹن یونہی لگے رہ جاتے ۔ وہ دھونے کے لیے کپڑے اٹھاتی تو اسے پتہ چلتا کہ بٹن توقمیص میں لگے ہوئے ہیں ۔ شام کو میںآتی تو اس کا منہ پھولا ہوتا ، ناراض ہو کر کہتی ،’’ باجی اپنی چیزیں سنبھالا کریں ۔ کسی دن میرے سر نہ لگ جائیں ‘‘۔
ایک دفعہ ہم نے اپنی گاڑی بیچی تو کئی ہزار روپے کپڑوں کی الماری میںبچھے کاغذ کے نیچے رکھ دیے ۔ صبح تیار ہونے کے لیے میںنے الماری میں سے کپڑے نکالے تو مجھے پتہ ہی نہیںچلا اور آدھی سے زیادہ رقم نیچے گر گئی ۔شام کو میں گھر آئی تواس نے پھر ناراضگی کا اظہار کیا کہ باجی آپ بھی کچھ دیکھتی ہی نہیں، میں جھاڑو دے رہی تھی تومجھے یہ پیسے ملے اور اس نے ایک بڑی رقم میرے ہاتھ میں پکڑا دی ۔میں تعجب سے اسے دیکھ رہی تھی ایک عورت اتنی غریب تھی کہ اس کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا

مگر کردار کے لحاظ سے کتنی مضبوط تھی ، اس کا ایمان کبھی ڈولتا نہیں تھا۔
اسے لکھنا پڑھنا بالکل نہیں آتا تھا ، وہ تو فون کے نمبر تک ڈائل نہیں کر سکتی تھی۔ایک بار بڑی مشکل سے اس نے سیونگ سینٹرمیں تھوڑے تھوڑے کر کے چھ ہزار روپے جمع کیے ۔ ایک دن کہنے لگی ،’’ میرا داماد بہت بیمار ہے باجی، اس کے علاج کے لیے پیسے چاہئیں آپ مجھے وہ پیسے نکلوا دیں ‘‘۔
میں اسے لے کر سیونگ سینٹر گئی ، اس کا چیک لکھا، انگوٹھا لگوایا اور کائونٹر پر بیٹھے کلرک کو چیک دے کر فیروزاں سے کہا ،’’ تم بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرو جب تمہارا نام پکارا جائے تواس کھڑکی سے پیسے لے لینا اور رکشہ لے کر گھر چلی جانا مجھے دیر ہو رہی ہے میں دفتر جا رہی ہوں ‘‘۔وہ سیونگ سینٹر میں بینچ پر اور عورتوں کے ساتھ بیٹھ گئی۔
جب اس کی باری آئی تو بہت وقت ہو چکا تھا گھر میں تالا لگا تھا اور اسے یہ بھی فکر تھی کہ نور نے سکول سے آنا ہے تو میں جلدی گھر پہنچوں ۔ فیروزاں نے کائونٹر پر بیٹھے کلرک کے ہاتھ سے پیسے لیے تھیلے میںرکھے اور گھر چلی گئی ۔ نور اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی جب نور گھر آئی تو اس کی اماں جی پریشان بیٹھی تھیں ۔ نور کودیکھ کر کہنے لگی ،’’ نور یہ پیسے تو گن ، مجھے لگتا ہے زیادہ آگئے ہیں ‘‘۔ نور نے مجھے فون پر بتایا کہ امی ساٹھ ہزار ہیں اور اماں جی رو رہی ہیں۔
میں نے فون پر فیروزاں سے مذاق میں کہا، ’’ تم خاموشی سے پیسے رکھ لو میں کسی کو نہیں بتائوں گی اور تم بھی چپ رہنا ‘‘۔
وہ بگڑ کر بولی ،’’ باجی کیسی باتیں کر رہی ہیںمیںدنیا میں تو تنگ ہوں اب اپنی قبر بھی خراب کر لوں ‘‘۔
میں نے سیونگ سینٹر میں فون کیا تو خاتون منیجر جیسے جی اٹھی اور کہنے لگی ،’’ہم تو پریشان بیٹھے ہیں کہ حساب پورا نہیں ہو رہا ۔ میں سوچ رہی تھی کہ اپنا کوئی زیور بیچ کر بینک کا حساب پورا کروں ۔ جب تک حساب پورا نہ ہو ہم گھر نہیں جا سکتے ‘‘۔ انہوں نے اپنا ایک آدمی ہمارے گھر بھیجا جو فیروزاں سے پیسے لے کر چلا گیا تب جا کر اس نے آنسو پونچھے۔
نور کی شادی کے بعد اس نے میرا کام چھوڑ دیا اس لیے کہ وہ بہت ضعیف ہو گئی تھی اور اس سے کام نہیںہوتا تھا لیکن اس سے ہمارارابطہ قائم تھا ۔ پھر اسے فالج ہو گیا اس نے ساری زندگی اپنی بیٹی نجمہ اور اس کے بچوں کے لیے وقف کررکھی تھی ۔ اپنی ساری کمائی ان پر خرچ کرتی تھی۔ نور دبئی میں تھی اور ایک یونیورسٹی میں جاب کر رہی تھی ۔ اسے اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کے لیے کسی عورت کی ضرورت تھی اس نے نجمہ سے کہا کہ آپی آپ آجائیں ۔ نجمہ نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ اماں کی دیکھ بھال کون کرے گا ۔ فیروزاں کو پتہ چلا تو بولی ،’’ اس وقت نور کو ضرورت ہے ، تم چلی جائو اور مجھے دوسری بیٹی کے گھر چھوڑ دو‘‘۔ وہ خود تنگ رہی لیکن اس نے نور کو پریشان نہیں ہونے دیا۔
اس سے وابستہ یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو تھمتا ہی نہیں ۔ میرا آپریشن ہؤا تو ایک لمحہ کے لیے بھی میرے پاس سے نہیں ہٹی ۔ ہسپتال میں ، گھر میں ، وہ کہاں کہاںمیرے ساتھ نہیں تھی۔
وہ کسی سے میری برائی نہیں سن سکتی تھی ایک دن کسی رشتے دار خاتون نے میرے بارے میں کچھ کہا تو بگڑ کر بولی ،’’ میں مان ہی نہیں سکتی کہ میری باجی ایسی بات کہہ سکتی ہے ‘‘۔سمجھ میںنہیں آتا اس کی کون کون سی خوبیاںبیان کروں اس کا پیار ، اس کا خلوص ، اس کی وفا داری ، ایمانداری ، وہ غصہ والی خود دار تھی لیکن اس کا دل شیشے کی طرح صاف تھا ۔ اس کی یاد میرے اور نور کے دل میںہمیشہ فروزاں رہے گی۔
٭…٭…٭

٭ سینئر صحافی نوائے وقت، جنگ

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x