ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

چوڑھا ہی اوئے! – بتول جون ۲۰۲۳

آج برسوں پرانی یادوں نے میرے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں پردستک دینا شروع کردی ہے ۔ خوش آہنگ صدائوں اور خوش رنگ مناظر نے یاد رفتہ کو جگا دیا ہے میں نے پہلی کھڑکی کھولی تو وہ ہماری قدیم مین بازار اچھرہ کی حویلی تھی جو کہ سہ منزلہ تھی ۔ اوائل عمری کے چار پانچ برس میں نے اسی گھر میں گزارے ۔ بچپن کی بہت سی باتیں اکثر یاد آتی ہیں جو آخری عمر تک سرمایۂ حیات بن کر ہمارے ساتھ رہتی ہیں ۔
یہی وہ حویلی تھی جہاں میں نے آنکھ کھولی اور یہی وہ گھر تھا جہاں سے میری والدہ رخشندہ کوکب( بانی مدیرہ عفت و بتول) کا جنازہ اٹھا ۔
اس حویلی کے ساتھ پرانے دور کے طرز تعمیر اور رہن سہن کی ایک تاریخ جڑی ہوئی ہے ۔ اس کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ زمینی یا نچلی منزل میں ایک برآمدہ او رایک بڑا کمرہ تھا جسے بیٹھک کے طور پر استعمال کیا جاتا ۔ اس کے ساتھ دو مہمان خانے تھے ۔ بائیں جانب مویشیوں کے باندھنے کے لیے اصطبل تھا جو اب ویران پڑا ہؤا تھا اور ان کمروں کوسٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ دائیں جانب ایک کنواں تھا جس کے ساتھ ایک سقاوہ بنا ہؤ ا تھا ۔ اس دور میں یعنی یہ پچاس کی دھائی کی بات ہے ہر کنویں کے ساتھ سقاوہ یا حمام بنایا جاتا ۔ اس کنویں کے ساتھ ایک لمبی راہداری عبور کر کے ایک غسل خانہ تھا ، اسی کو سقاوہ کہا جاتا تھا جس کے شروع میں پانی کی ایک ٹینکی بنی ہوئی تھی ۔ جس نے نہانا ہوتا وہ کنویں کے ڈول سے اس ٹینکی میں پانی بھرتا اور پھر نہانے کے لیے جاتا ، ٹینکی کی دوسری جانب ایک نلکا لگا ہؤا تھا ، جسے کھول کر پانی استعمال کیا جاتا ۔ یہ مرد حضرات کے نہانے کی جگہ ہوتی تھی ، اس دور میں نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں تھا نہ ہی کوئی ڈرینج سسٹم تھا ۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہر گھر میں انتظامات کیے جاتے ۔
گھر کی خواتین کے نہانے کے لیے پہلی منزل پر غسل خانہ تھا ۔ اس میں ایک بڑا کنٹینر رکھا ہؤا تھا جسے ماشکی دن میں دو بار آکر پانی سے بھر دیتا ۔ کچھ سالوں بعد کنٹینر کی جگہ ہینڈ پمپ نے لے لی۔ سن ساٹھ کی دہائی میں سرکاری نل کی سہولت بھی میسر آگئی ۔ پھر کنویں کی ضرورت نہ رہی اور یہ کنواں امتدادِ زمانہ کا شکار ہو گیا ۔ بڑوں سے سنا ہے جس کنویں سے لوگ پانی پیتے ہیں وہ کبھی نہیں سوکھتا ، لوگ پانی پینا چھوڑ دیں تو کنواں سوکھ جاتا ہے یہ بڑے راز کی بات ہے ۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہؤا ، سرکاری پانی اورنل لگنے کے بعد کنواں سوکھ گیا اور اسے مٹی سے پاٹ دیا گیا ۔
مہمان خانے اور اصطبل کے درمیان ایک ڈیوڑھی تھی جس سے سیڑھیاں اوپر کی منزل پر جاتی تھیں ۔ پہلی منزل دو حصوں پر مشتمل تھی ۔ ایک مردان خانہ اور دوسرا زنان خانہ کہلاتا تھا ۔ مردان خانے میںڈائیننگ دو چھوٹے چھوٹے کمرے جو مہمان رشتے داروں کو ٹھہرانے کے لیے استعمال ہوتے ، ان کے ساتھ ایک بڑا صحن تھا ، زنان خانے میں دو کمرے ، ایک دالان جسے ہم آج کے عرف عام میں ٹی وی لائونج کہتے ہیں ، باورچی خانہ، صحن اور ایک غسل خانہ تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ۔
باورچی خانے کے باہر بھی ایک کنٹینر تھا جس میں ماشکی دن میں دو بار آکر پانی بھرتا ۔ یہ پانی پینے ، برتن دھونے اور کھانے پکانے کے لیے استعمال ہوتا ۔ حوائج ضروریہ کے لیے تیسری منزل پر دو ٹوائلٹ تھے ایک مردوں کے لیے اور دوسرا عورتوں کے لیے ۔ انہیں ’’ لیٹرین ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ یہ سب سے اوپری چھت پر تھا ۔ وہاں ایک بڑا سٹور تھا جس میں چار پائیاں ، بستر ،پیڈسٹل فین ،پیٹیاں وغیرہ رکھے ہوتے ۔ سردی اور گرمی کے موسموں کی مناسبت سے ان کا استعمال کیا جاتا ، گرمیوں میں کھلی چھت پر سویا جاتا ۔ سونے سے پہلے پورے صحن میں پانی کا چھڑکائو کیا جاتا پھر چارپائیاںبچھائی جاتیں۔سردی کے موسم میں دھوپ سینکنے کے لیے چھت کا استعمال ہوتا ۔

اس پورے سسٹم کے انتظامات کے لیے بہت سے ملازم اور ملازمائیں تھیں ۔ ان تمام خدمت گاروں میں مجھے سب سے منفرد اور انوکھا وہ خدمت گار لگتا جو لیٹرین کی صفائی پر مامور تھا ، اسے عرف عام میں ’’چوڑھا‘‘ کہا جاتا۔ مجھے وہ دنیا کا مظلوم ترین شخص دکھائی دیتا ۔ جیسے ہی وہ آتا سبھی لوگ اس سے دو دو تین تین فٹ دورہو جاتے ، اپنے منہ اور ناکوں پر رومال رکھ لیتے ۔ کچھ اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتے ۔اگر کسی دن وہ لیٹ ہو جاتا تو گھر بھر کے لیے مصیبت بن جاتی کہ کیسے اس بدبو خانہ میں جایا جائے ۔
اس کا نام شرافت مسیح تھا اس نے اپنے کپڑوں پر ایک اپیرن نما چادر لپیٹی ہوتی ، سر اور منہ کو ڈھاٹے سے اس طرح لپیٹ کر آتا کہ صرف آنکھیں نظر آ رہی ہوتیں ۔ پانی کی بالٹی ، تسلااور جھاڑو لے کر وہ تعفن زدہ فضلہ اٹھانے چل دیتا ۔ بہت ممکن تھا کہ صفائی کے دوران اس کے ہاتھ ، بازوئوں اور کپڑوں پر گندگی لگ جاتی ہو لہٰذا اسے گھریلو استعمال کی کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس کے ناپاک ہونے کاخدشہ تھا ، ہمارے ایک پرانے ملازم کو شرافت مسیح سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔ ، وہ ہم سب بچوں سے کہتا کہ جب شرفو آئے تو تم سب نے اونچی آواز میں کہنا ہے ’’ چوڑھا ہی اوئے ‘‘اور ہم سب اس کے ہمنوا بن جاتے ۔ پھر ہماری اس سخن گسترانہ کی شکایت بڑے ابا جی تک پہنچ جاتی۔
’’ میاں جی ان سے کہیں مجھے چوڑھا نہ کہا کریں میں خاکروب ہوں چوڑھا نہیں ‘‘۔
یوں تو چوڑھا کا لفظ بہت سے جملوں میں مستعمل تھا اور اب بھی ہے کسی سے نفرت کا اظہار کرنا ہو ، اس کا مذاق اڑانا ہو، کسی کے حلیے کی تحقیر کرنی ہو تو کہا جاتا ہے ویکھ چوڑا لگدا اے … شکل تو دیکھو چوڑھوں جیسی ہے … کیا چوڑھوں جیسی حرکت کر رہی ہو ۔ غرض ہر گندی ، گھٹیا۔ اور ذلت میں لتھڑی ہوئی بات کو چوڑھوں سے منسوب کر دیا جاتا ۔
مگر اس سب کے برعکس یہ کبھی کسی نے نہ سوچاکہ یہ خاکروب یہ مہتر ، یہ شرافت مسیح جو ہمارے گھروں کی گندگی صاف کر کے انہیں اجلا بناتے ہیں ان کے دل پر کیا بیتی ہو گی ۔
وہ دبلا پتلا ، مسکین سی صورت سیاہی مائل رنگت والا شرافت مسیح جو اپنے منہ میں زبان نہیں رکھتا تھا ، اپنی تذلیل ہوتے دیکھتا اور مسکرا کر سرجھکالیتا جیسے یہ جملے اس کے لیے انعامات تھے ۔ وہ اسی قابل تھا ۔ نہ کوئی ستائش کی تمنا ، نہ کوئی آرزو ، نہ ہی کسی انعام کی چاہت ، بس کبھی کبھار کسی صاحب کی مسکراہٹ ہی مل جاتی تو اس کی عید ہو جاتی ۔
دیکھا جائے تو پورے ملک کی صفائی ستھرائی کا شعبہ ان مسیحوں کے ہاتھوں میں رہا ہے ۔ سڑکوں، پارکوں ، سرکاری اداروں ، ہسپتالوں ، سرکاری و نجی اداروں کے مختلف شعبہ جات ، گھروں وغیرہ غرض ہر جگہ پر یہی مسیح بھائی اور بہنیں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔لاہور کالج فار ویمن کا پیارے مسیح کسے یاد نہیں ہوگا ۔ ہر جگہ ہر شعبے میں اس کا عمل دخل تھا ۔ گرائونڈ کی صفائی ہو یا غسل خانوں کی ، لائبریری ، ہال ، لیب ، کلاسوں کی صفائی جھاڑ پونچھ، ہر طرف ایک ہی نام ایک ہی نام پکارا جاتا ’’ پیارے مسیح سے پوچھو، اسے پتا ہے … وہ کرے گا اس کی ڈیوٹی ہے ‘‘۔ وہ ہر لمحہ متحرک دکھائی دیتا ہر جانب بھاگتا دوڑتا نظر آتا۔
ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ہم لوگ ذیلدار پارک کی بڑی کوٹھی میںمنتقل ہو گئے ۔ ہمارے آنے سے پہلے یہاں ایک سیاسی خاندان آباد تھا ۔ انہوں نے ہمارے گھر کو کرائے پر لے رکھا تھا ۔ جناب محمد احمد خان قصوری اور ان کے صاحبزادے احمد رضا قصوری یہاں رہائش پذیر تھے (نواب محمد احمد خان قصوری جن کے قتل کے جرم میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی )۔
جب وہ گھر خالی کر کے گئے تو گھر میں تزئین و آرائش کا کافی کام ہونے والا تھا، رہائشی کمروں کے ساتھ ملحقہ غسل خانوں کی از سر نو تعمیر ہوئی کیونکہ اس وقت تک ڈرینج سسٹم اس علاقے میں متعارف ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے گھرو ں میں ایک جانب غرقی بنائی جاتی جہاں گھروں کا تمام فضلہ بذریعہ پائپ اکٹھا ہو جاتا ، سال دو سال بعد اس غرقی کی صفائی کروائی جاتی۔
مگر اب ہمارے علاقے میں نکاسی آب اورڈرینج کا انتظام بہترین ہو چکا تھا ۔ نئے سسٹم کے ساتھ نئے ٹائلوں والے غسل خانے

بنائے گئے ۔ بیرونی اور اندرونی لان میں نئے درخت پودے آرائش گملے سجائے گئے ۔ بہر حال جب ہم نئی کوٹھی میں شفٹ ہوئے تو ہمارے سرونٹ کوارٹر میں مسیحوں کا ایک بڑا خاندان آباد تھا جو ہم سے پہلے قصوری فیملی کی خدمت پر مامور تھا ۔ وہ دس بارہ لوگ تھے ۔ انتہائی فرمانبردار ، بااخلاق سلجھی ہوئی فیملی تھی ۔ ہمیں ان کی موجودگی سے بہت سہولت ہو گئی ۔ برکت بی بی نے جسے ہم ماسی برکتے کہتے تھے گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑوں کا انتظام سنبھال لیا ۔ اس کی چھوٹی چھوٹی بچیاں اس کے ساتھ گھر کی صفائی میں اس کا ہاتھ بٹاتیں۔ اس کے شوہر نیامت مسیح کو باہر کے کاموں کے لیے مختصر کرلیا گیا تھا ۔ اس طرح یہ لوگ تقریباً بیس سال تک ہمارے ساتھ اسی گھر میں مقیم رہے ۔ انتہائی شریف النفس ، مرنجاں ونج ، محنتی ، کام سے کام رکھنے والے لوگ تھے ۔ انکار توان کی سرشت میں تھا ہی نہیں ۔ بعد میں ہمارے ایک عزیز نے نیامت مسیح کو بیرون ملک ملازمت دلوا دی اس کے کچھ عرصے بعد یہ ہمارے کوارٹر خالی کر کے چلے گئے ۔
مجھے اپنے الہڑ پن کی یادوں میں ایک یاد اکثر آتی ہے ۔برکتے کی بیٹی کوثر میرے کمرے کی صفائی کرتی تھی ۔ چھیماں بہت خوش اخلاق ، اچھی شکل و صورت کی بچی تھی ، بھاگ بھاگ کر میرے کام کرتی ۔ وہ اپنے حال میں مست رہنے والی تھی نہ ہی اسے اچھے کپڑوں کی خواہش ، نہ ہی رنگین چوڑیوں اورجوتوں کی تمنا تھی ۔ بس ہر وقت منہ ہی منہ میں کچھ نہ کچھ گنگناتی رہتی اور اپنی ڈیوٹی انجام دیتی رہتی ، وہ تقریباً میری ہم عمر تھی ۔ میں اسے بہت پسند کرتی تھی ۔ میں اس کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی میں اکثر سوچتی کہ اس نے مجھ سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اسے کیا چاہیے تھا میں نہیں جانتی تھی میں اس کے لیے کیا کر سکتی تھی یہ مجھے معلوم نہیں تھا ۔ ایکا ایکی میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کاش یہ مسلمان ہو جائے تو اس کی دنیا بھی سنور جائے اورآخرت بھی ۔ ایک روز وہ میرے کمرے کی صفائی کر رہی تھی میں نے اسے اپنے سامنے بٹھا لیا اور اسے کہا ۔
’’ چھیماںکتنا اچھا ہوکہ تم مسلمان ہو جائو ‘‘۔
میری بات سن کر وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی اورآگے کوچلدی ۔ پھر میری طرف پلٹ کر دیکھا اور بولی ۔
’’ باجی میں جانتی ہوں آپ مجھے یہ سب کیوں کہہ رہی ہیں‘‘۔
کیوں ؟ میں نے پوچھا۔
’’ وہ اس لیے کہ میں اگر مسلمان ہوجائوں گی تو میں آپ کے برتن دھو دیا کروں گی ۔ آپ کے پاس آجکل برتن دھونے والی ماسی نہیں ہے نا ۔ آپ کو سہولت ہوجائے گی ‘‘۔
اس کے اس جملے سے مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا ۔ ’’مگر میں ایسا نہیں چاہتی ‘‘ میرے گلے میں میری آواز پھنسنے لگی ۔ مجھے اپنی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ باجی مجھے معلوم ہے آپ اپنے کام کروانے کے لیے مجھے مسلمان کرنا چاہتی ہیں ‘‘۔
اس کی تلخ بات سن کرمجھے دھچکا سا لگا اور میں خاموش ہو گئی۔سب مجھے احساس ہؤا کہ یہ تو وہ طبقہ ہے جسے ہم نے ’’ شودر‘‘ بنادیا ہے وہ ہمارے برتنوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ ہمارے دلوں میں شرافت مسیح کا سراپا نقش ہے ۔ ہمیں ان کی صورتوں میں اسی کی شبیہہ دکھائی دیتی ہے جو فضلہ اٹھاتا تھا ، اسی لیے اسے برتنوں کوہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی وہ ہمارے نہانے والی بالٹی کو ہاتھ لگا دیتا توہم تین بارکلمہ پڑھ کر اسے پاک کرتے پھر اسے استعمال کرتے ۔مگر وہ تو صاف ستھرے لوگ تھے ۔ ان کے لباس بھی اجلے تھے اور دل بھی مگر ہمارے دلوں کی صفائی ہونے والی تھی۔یہ مذہبی تفاوت تھا یا اقلیت ہوناجرم تھا یا ہندوئوں کے ساتھ صدیوں کا سفر طے کرتے کرتے ہم نے ان کے اطوار اپنا لیے تھے ۔ وہ جیسا سلوک مسلمانوں کے ساتھ کرتے تھے کہ جب کوئی مسلمان ان کے باورچی خانے میں داخل ہو جاتا تو وہ گنگا کے پانی یا گائوماتا کے پیشاب کا چھڑکائو کر کے اسے پوتر کر تے ۔ مسلمانوںکے برتن علیحدہ رکھے جاتے جیسے آج ہم نے اپنے ملازمین کے برتن علیحدہ رکھے ہوتے ہیں ۔ یہ بربریت ہم کئی نسلوں سے حاصل کر تے چلے آ رہے ہیں ۔ ان موروثی عادات سے چھٹکارا پانے کے لیے صدیاں درکار ہیں ۔
ہم اپنے مسیح ملازمین کوکسی اورہی دنیا کے باسی سمجھتے ہیںلجاجت

بھرے لہجے ، مہر بلب سپاٹ چہرے ، نہ کوئی شور نہ غوغا، نہ کوئی واویلا نہ احتجاج نہ برتری کا احساس ۔ ہر طرف سے بے نیاز صابر و شاکر کہ شاید اللہ نے انہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے ۔خاموشی سے آتے ہیں اور چپ چاپ اپنا کام کر کے چلے جاتے ہیں ۔شاید ساری دنیا میں اقلیت میں رہنے والے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔
دیکھاجائے تو یہ شرافت مسیح اور نیامت مسیح کیا اپنی مرضی سے عیسائی گھرانے میںپیدا ہوئے یا پھر میں اور آپ مسلمان گھرانوں میں ۔ کیا اس میں ہماری رضا مندی شامل تھی ۔ اگرہمارا رب چاہتا تو چھیماں کی جگہ میں اور شرافت کی جگہ کوئی اور مسلم ہو سکتا تھا ۔ یہ تفاوت تو ہمارے رب کی مرضی سے ہے تاکہ دنیا کا انتظام بہتر طریقے سے ہو سکے لوگ ایک دوسرے کے کام آ سکیں ۔
ہم تو کٹھ پتلیاں ہیں تو پھر غرور و تکبر کیسا ۔ یہ دنیا ہمارے لیے آزمائش گاہ ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں دنیا میںجو کردار دیا گیا ہے اسے ہم کیسے اچھے طریقے سے ادا کرتے ہیں ۔ ہم اپنے مدد گاروں کی کیسے اور کس احسن انداز میں قدر افزائی کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے رویوں اور میل جول کے انداز میں تفافر برتیں ، اپنے غریب مسلمان اورمسیح مدد گار بہن بھائیوں کو کمتر اور حقیر جانیں تو پھرہمارا کردار بھی وہی بن جاتا ہے جو عیسائیوں کے لیے مستعمل جملوں میں ہم اکثر اداکرتے رہتے ہیں ۔ یہ نہ ہو کہ کسی روزدبی زبان سے یا دل ہی دل میں وہ ہمیں کہہ دیں ’’ چوڑھا ہی اوئے !‘‘
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x