ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

گودڑی میں لعل -بتول جون ۲۰۲۳

للہ بھلا کرے مدیرہ بتول کا جنہوں نے برسوں سے اُبلتے دماغی لاوہ کو قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے لیے ایسا اچھوتا عنوان دیا کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ ایسے تمام جذبات، احساسات، تجربات اور اسباق کو ’’ چمن بتول‘‘ کے صفحات پر بکھیرنے کا موقع دینے پر میری طرف سے پیشگی مبارکباد!
بچپن جوانی اور بڑھاپا آنے تک ہم نے خدمت گاروںسے سبق پڑھا بھی اور پڑھایا بھی ، سیکھا بھی اور لکھایا بھی ، سُنا بھی اور سنایا بھی ، بعض اوقات ہمارا علم اور حکمت دونوں دھرے کے دھرے رہ جاتے ، ہم مات کھا جاتے ، چاروں شانے چت پڑے ہوتے نانی یاد آجاتی، پرہمت نہ ہارتے ، ہم نے بھی تہیہ کیا ہؤا تھا کہ ؎
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
تو قارئین کرام ! تلخ و شیریں یادوں کی پٹاری سے انمول موتی آپ کی خدمت میںپیش ہے ۔
’’ شامی ! تمہیں میرے مسائل کا اندازہ ہے کچھ کہ میں کتنی مشکل میں ہوں، مجھے تمہارے ڈیرے اورڈیرے پر موجود خدمت گاروں کے آر پروار ( خاندان) کا کیا فائدہ ؟ میری مدد کے لیے کسی بچی کو بھیجو نا ! اُن کے لیے تو تمہارا اک اشارہ ہی کافی ہے ، میرا کام آسان ہو جائے گا ۔ میری خرابی صحت کا تمہیںخوب علم ہے ‘‘۔
یہ اور اس طرح کے بے شمار پیغام میری طرف سے بہن اور بھانجے کو جاتے رہتے ، وہ بہتیرا مجھے سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرتا ۔
’’ خالہ ! یہ آزاد پنچھی ہیں شہری ماحول اور آپ کے گھر میں یہ بالکل نہیں رہ سکتے آپ کو اندازہ نہیں، میری مانیں تو یہ خیال ذہن سے نکال دیں شہر میںسے جز وقتی انتظام کرلیں ‘‘ دو ٹوک جواب ملتا تو میںمصر ہو جاتی ۔
’’ شامی ! میری ضرورت کل وقتی ہے جزوقتی ملازمہ موجود ہیں، تم فکر نہ کرو، میںسنبھال لوں گی آخر ہماری پچاس سالہ تعلیم و تربیت کس کام آئے گی 10،11سالہ بچی کے سامنے۔ میں تمہیںرکھ کے دکھائوں گی ۔ بھیجو تم ‘‘۔
بات طے ہو گئی میں نے دل ہی دل میںتعلیم و تربیت کے لمبے منصوبے سوچ لیے اور فجوکاانتظارشروع ہوگیا ۔ آخر وہ مبارک لمحہ آن پہنچا، ڈیرے کی مالک میری بڑی باجی اُس کی ڈولی لے کر آئیں ہفتہ دس ساتھ رہیںنئے آدابِ شہریت سکھائے ، بھیڑ بکریاں چراتی ، کھیتوں ، بنّوں پر ہرنی کی طرح چھلانگیںلگاتی صحرائی ملکہ کو لگام ڈال دی گئی۔ سونے کے پنجرہ میںبند کر وعظوں نصیحتوں کاٹوکرا اس کے سر پر رکھ باجی واپسی کے لیے تیارہوئیں توسارے گھر میںبھونچال آگیا۔
’’ بی بی جی ! مجھے ساتھ لے کر جائیں ، میں یہاں نہیںرہ سکتی ‘‘۔ چار دیواری اوربند گیٹ کو دیکھ کر وہ تو بائولی ہوگئی یہ قید خانہ اس کو ایک آنکھ نہ بھایا ، باجی نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ دیا وہ جہاںدیدہ تھیںاُن کے پورے کنبہ قبیلہ کو سنبھال رہی تھیں۔
’’ ہاں!ہاں! ٹھیک ہے میں تمہیںلے جائوں گی چند دن بعد میںاور تمہاری اماں آئیں گی پھر تم چلنا ہمارے ساتھ ‘‘ وقتی طور پر طوفان تھم گیا میں نے بھی اطمینان کا سانس لیا ۔
’’اس کو کبھی کبھار ٹی وی پر کوئی پروگرام دکھا دیا کرنا، ذرا بہل جائے گی ‘‘ باجی نے جاتے جاتے مجھے تاکید کی انہیں ہمارے گھر کے اصول و ضوابط کا علم تھا ، رات ڈھلتے ہی ٹی وی کی فرمائش شروع ہوگئی

بچوںکاپروگرام لگا کر دیا۔
’’ باجی ! روموٹ مجھے دیں میں نے تو انڈیا کا فلاں ڈرامہ دیکھنا ہے ‘‘ میری جانے بلا ، کیا ڈرامہ اور کیا ڈرامہ باز ’’ باجی ! اس میں فلاں ہیروئن ہے ، باجی ! آپ کو نہیں پتہ ؟‘‘ میں ہکا بکا اُس کا منہ تک رہی تھی ’’باجی! فلاں چینل لگائیں ‘‘ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی اٹھایا تو اس کی اماں بول رہی تھی ’’ فجو سے بات کروائیں ‘‘لو جی بات شروع ہوئی موصوفہ نے فون پکڑا باہر گیلری کی راہ لی چہل قدمی کے ساتھ لمبی کہانیاں شروع ہوگئیں، میںپیچھے گئی پورے گھر کے چکر لگ رہے ہیں میں اُس کے پیچھے وہ میرے آگے ، آدھا گھنٹہ گزر گیا سِم والا فون اور وہ بھی میرے شوہر کا۔ وہ میرے آگے بھاگ رہی ہے اور پورے خاندان کی بلکہ تمام ڈھور ڈنگروں کی خیر خیریت دریافت ہو رہی ہے۔
’’میری بکری، تیری مرغی کیسی ہیں کتنے بچے ، کتنے انڈے دیے ؟ ہاںاماں !کچھ نہیں باجی ڈرامہ دیکھ رہی تھیں ہاں ! ہاں ! وہی انڈیا والا ، میںتوویسے ہی پاس بیٹھی تھی‘‘۔
’’ہت تیرا بیڑہ ترے ‘‘
’’ ہاں ! اماں ! باجی تو روزانہ دیکھتی ہے ‘‘اب تو فون کھینچتے ہی بنی۔
قارئین کرام ! فجو کے آنے سے ماشاء اللہ گھر میں ہر روز زلزلہ آنے لگا اس کے آنے سے پہلے دو مدد گار خواتین موجود تھیں آپ بھی سوچ رہی ہوں گی پھر فجوکس مرض کی دوا کے طور پر لائی گئی در اصل مجھے اپنے لیے ایک ہمہ وقت نسبتاً کم عمر بچی کی ضرورت تھی اور وہ بھی اپنے آبائی گائوںکی دھی دھیانی جومیرا زیادہ خیال رکھے اُس کو یہی کہہ کر لایا گیا تھا کرنا خدا کا کیا ہؤا کہ برتنوں والی نے ایک دن چھٹی کرلی فجوسے میںنے مان سے کہا’’ آج تم برتن دھولو ‘‘اُس نے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے جو جواب دیاوہ آپ بھی سنیے اوراُس کے کارو باری ذہن کی داد دیجیے ’’باجی ! میری بات سنیں میں یہ کام کرنے نہیںآئی برتن دھلوانے ہیںتو پہلے میرے ساتھ پیسے طے کریں ہاں‘‘۔
’’ ٹھیک ہے وہ بھی کرلیں گے ‘‘ ۔
’’ آپ ماسی زینو کوکتنے دیتی ہیں؟‘‘
’’ برتن دھوئو فجو‘‘اس کی ہر بات کا جواب تو میرے اوپر لازم نہ تھا۔ اگلے دن ایک نیا چاند چڑھا ماسی زینو نے مکمل چھٹی کا اعلان کر دیا کچن میں تینوں نے شور مچا رکھا تھا کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی وہاں پہنچی کیا دیکھتی ہوںکہ فجو بازو چڑھائے زینواور نسو کے درمیان کھڑی کبھی ایک اورکبھی دوسری سے جھگڑاکر رہی ہے اور وہ دونوں خونخوار انداز میں آپس میں اُلجھ رہی ہیں ۔
’’ ارے بھئی کیا ہوگیا تم دونوں کو ‘‘ میں نے فجو کو فی الحال نظر انداز کرنا مناسب سمجھا ۔
’’ بی بی ! میں کل سے برتن دھونے نہیں آئوں گی ، آپ اسی کلموہی سے دھلوائیے گا ‘‘اُس نے فجو کی طرف اشارہ کیا۔
’’ آخربات کیا ہوئی ، مجھے بتائو گی کچھ ‘‘ میں نے صفائی والی ماسی نسو کی طرف دیکھا ، فجو خوامخواہ درمیان میں کود پڑ ی زبان اور ہاتھ خوب چل رہے تھے میں سمجھ گئی اس کی ذہانت نے اُن دونوں کے دیرینہ تعلقات میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ زینو کومنانے کی کوشش ناکام رہی ۔ بھانڈا تو بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا تھا ۔
’’ بی بی جی ! میں آپ سے سچ کہہ رہی ہوں جب تک یہ منحوس موجود ہے میں نہیں آنے کی‘‘ اُ س نے فیصلہ سنا دیا۔ وہ جہاں دیدہ عمر رسیدہ خاندانی خاتون تھیں بھانپ گئی۔
’’ توبہ ، توبہ ، بی بی ! کہاں سے بلوائی ہے یہ جی ، ہم عزت دار لوگ ہیں کل کلاں کوئی بڑا الزام سر تھوپ دے ، ناں بی بی ناں میرا اب یہاں گزارا نہیں ‘‘۔ ماسی زینو کے جاتے ہی فجو میرے سر ہوگئی۔ مسکان اُس کے ہونٹوں پرکھیل رہی تھی۔
’’ ہاں تو باجی ! اب آپ برتنوں کی بات کریں میرے ساتھ ، بتائیں کتنے پیسے دیں گی ؟‘‘
استغفر اللہ ! فجو! اپنی عمر دیکھو اور کام دیکھو ۔ چال تو اس کی میں پہلے ہی سمجھ چکی تھی ، ان گھڑت ہے میں سدھار لوں گی ، دل ہی دل میں میں آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے لگی۔
ہماری دوسری منزل میں ایک کمرہ ایسا ہے جوہماری مشترکہ

لائبریری بھی ہے سٹور بھی اور بیڈروم بھی ، فجو کو بھی وہی کمرہ دے دیا گیا وہاں دو چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں بیٹی کا ڈبل میٹریس دیوار کے ساتھ کھڑا تھا وہاںکھٹ پٹ اور اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی میٹریس کوچارپائی پہ رکھ کر اس نے اپنا نرم گرم بستر بنا لیا میرے دیے ہوے بستر کو پرے پھینکا کاموں کوجھٹ پٹ کر کے اپنے کنج میں جا پہنچی ، رات گئے تک بتی جلتی رہتی پنکھا کھلا چھوڑ نیچے اتر آتی ، میرے پاس آ بیٹھتی ۔
’’ باجی آپ کیا لکھتی رہتی ہیں ؟‘‘ میں بتاتی تو فوراً بول اٹھتی۔
’’ باجی مجھے بھی لکھنا آتا ہے ، اُردو اور انگریزی دونوں میں ‘‘ ۔
’’فجو! یہ تو بہت اچھی بات ہے ‘‘ میں سدا کی قدر دان اور علم شوقین ، رشک سے اُسے دیکھتی ۔ ’’ چلو یہ لو کاپیاں اور پن پنسلیں لکھ کردکھانا مجھے ‘‘ سازو سامان سمیت اوپر جاتی تو صبح کولدی پھندی اُترتی ۔
’’باجی !میں نے بھی نعت لکھی ہے ، پڑھ کرسنائوں؟‘‘ ہمارا لائونج اس کے ساز اور آواز سے گونج اُٹھتا ۔
’’ تم نے خود لکھی ہے ؟ دکھائو ذرا ‘‘ ذہانت کی تو میں معترف ہو ہی چکی تھی دل ہی دل میں داد دیتے ہوئے میں نے کاپی اپنے ہاتھ میں لی اور پھر میں تو سکتہ میں آگئی خوشی سے نہیں غم سے ، اُس نے لائبریری سے میرے قادر الکلام بیٹے کا دیوان نکال کرخوب تختہ مشق بنایا تھا ۔
’’اللہ اکبر ! فجو! تمہیں یہی کاغذ ملے تھے اور کاپیاں جو میں نے دیں وہ کہاں ہیں ؟‘‘ میں نے سر پٹ لیا۔
’’ باجی وہ تو میں نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے بیگ میں رکھ لیں ، اور باجی ! یہ تو سارے پرانے کاغذ ہیں ‘‘ ۔
’’ فجو ! تم کیا جانو ان کی قدر و قیمت ‘‘۔
’’ باجی ! کیسی ہے میری نعت اور آواز ‘‘ وہ میرے صدمہ سے بے نیاز فاتحانہ اور تعریف طلب نگاہوں سے مجھے تک رہی تھی بچی کو اوپربھیجا پورے کمرہ میں میرے بیٹے کا دیوان بکھرا ہؤا تھا ایک ایک پرزہ اکٹھا کیا تنکوں سے آشیانہ بنایا شکر ہے زیادہ زخمی نہیں کیا تھا اگلے دن کا سورج ہمارے گھر میں ایک اور انقلاب دیکھ رہا تھا۔
گھر اپنا ہے یا کسی اور کا ، پہچانا نہیں جا رہا تھا مین گیٹ سے لے کر چاروں جانب ہر دروازہ ،کھڑکی ، دیوار پر قوس وقزح اُتر آئی تھی تمام رنگین مارکر،پنسلیں ، واٹر کلر آزمائے گئے تھے کہیں فجو کا شجرہ نسب درج تھا تو کہیں کوئی نعت ، کہیں انگریزی توکہیں اُردو، اور تو اور گندم ڈالنے والا ’’پڑولا‘‘ واشنگ مشین بھی سنہری حروف سے جگمگا رہے تھے موٹے مارکروں سے دیواروں پر خوش خطی کی گئی تھی پورا گھر آرٹ گیلری کا نمونہ پیش کر رہا تھا شامی کی باتیں بے طرح یاد آرہی تھیں اورساتھ ہی اپنا چیلنج بھی ، اللہ سے صبر جمیل کی دعا مانگی صفائی کروانی شروع کی سمجھایا بجھایا لگا کہ بات کوئی پلے پڑ گئی ہے ذہنی تربیت مشکل ترین کام ہے مقولہ دہرایا اور اجر بھی بے انتہا ہے۔ اُن کے ہیں سِوا جن کی سِوا مشکل ہے مصرعہ گنگناتے ہوئے آگے بڑھے۔
’’ بیگم ! ابھی میں نے الماری میں امانتی فنڈ رکھا تھا آج جمع کروانا ہے ، آپ نے کہیں اور رکھ دیا ، جلدی دو ،مجھے دیر ہو رہی ہے ‘‘۔صاحب کی آوازکان میں پڑی ، تلاش شروع ہوئی ہم تینوں کے علاوہ گھر میں کوئی نہ تھا۔
’’ فجو ! تم ڈسٹنگ کر رہی تھیں گرے ہوئے دیکھے ہوں تو بتا دو‘‘۔
’’ توبہ کریںباجی ! میں کیوں اٹھائوں گی ، میں آپ کو ایسی لگتی ہوں کیا؟‘‘
’’نہیں بالکل نہیں ‘‘ میں نے اسے تسلی دی اپنے طور پر نظر رکھی ، پھر تو تانتا ہی بندھ گیا میری طرف سے بے فکر ہوکر اُس نے بھی کارروائیاں تیزکردیں۔‘‘
قارئین کرام ! آپ کوبتاتی چلوں ہمارے غریب خانہ میںاور کچھ ہو نہ ہو دوچیزیںوافر مقدار میں میسر ہیں ،قلم کاغذاور مال وزر ، حیران نہ ہوںدو چیزیںوافر مقدار میںمیسر ہیں، قلم کاغذ اور مال و زر ، حیران نہ ہوںبتائے دیتے ہیںقلم قرطاس کے تو سب شیدائی کوئی افسانہ نگار تو کوئی کہانی نویس، کوئی نظم لکھ رہا ہے تو کوئی غزل اور کوئی ٹھوس ، تحقیقی ، علمی مضمون نویسی کا شوقین ، اسی حساب سے مطالعاتی کتب کی چاروںطرف بہار ،رہی بات مال وزر کی تو وہ تو ماشاء اللہ پانی کی طرح بہتا ہے امانتی فنڈ ، زکوٰۃ فنڈ ، انفاق فی سبیل اللہ ، جہاد فنڈ ماہانہ فنڈ ، سٹوڈنٹ فنڈ ، زنانہ فنڈ ،

مردانہ فنڈ ، شادی فنڈ ، کتاب فنڈ رسائل فنڈ ، مسجد فنڈ ، مدرسہ فنڈ … فلاں فنڈ … فلاںفنڈ اور دلچسپ بات یہ کہ جہاں مرضی رکھو ادھر ادھر جا ہی نہیں سکتا ، پرانی خدمت گار تو خود ہماری معاون بنتیں ، نہ ڈر نہ خوف ، راوی چین ہی چین لکھتا تھا اب روزانہ شور مچتا ،میرا فنڈ نہیں، تیرا فنڈ نہیں تو صاف ظاہر تھا کہ خورد برد کرنے والا کون ہے اور مال مسروقہ کہاںجا رہا ہے ؟ میںنے بھی اپنی اماںوالا نسخہ پکڑا تھا سب کو خاموش رہنے کا عندیہ دیاہؤا تھا مال تھا تو آخر گھر میں ہی برآمد ہو جائے گا میں فجو کے اندر چھپی ہوئی تمام خامیاں خوبیاں دیکھنا چاہتی تھی ’’ مرض کی تشخیص کے بعد علاج کرنا آسان ہوتا ہے ‘‘ اماںابا کی نصیحتیں پلو کے ساتھ بندھی تھیں ۔
امی میرے پیسے ، بیگم ! میرا پرفیوم ، میرا فنڈ ، میری جیولری ، غرض ہر طرف ہا ہو کار مچی رہی ، میںدل ہی دل میں فجوکی تربیت کے اعلیٰ منصوبے بناتی ، مسکراتی ،’’ بچُو! ایک نہ ایک دن میری سخت گرفت میںآہی جائے گی ، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ‘‘۔
خیر خدمت میری خوب کرتی ہر کام منٹوں میںنمٹا کاغذ قلم لے بیٹھتی ، چاپلوس بھی بلا کی تھی ’’ باجی ! سر میںتیل ڈالوں؟ لوجی مالش شروع، کانوں میں تیل، بازوئوں پہ ، ٹانگوں پہ تیل ، مجھے تیلو تیل کر دیتی غنودگی طاری ہو جاتی۔
’’ فجو ! تم کتنی اچھی ہو‘‘۔
’’ باجی مزہ آیا نیند آ رہی ہے ؟ چلیںسو جائیںنماز میں ابھی کافی دیر ہے ‘‘ اور میں سرور میںکہیںکی کہیں جاپہنچتی میں نیند اور فجو اپنی کارروائیوں میںمصروف ، ایک دم ہڑا بڑا کر اٹھتی ’’ فجو ! کہاں ہو؟‘‘ آخر کو بیگانی اولاد ہے کہیں باہر ہی نہ نکل گئی ہو ، وہ تو ہوا کے گھوڑے پہ سوار نازل ہو جاتی۔
’’ کہاں تھی تم ؟‘‘
’’ باجی میں نے آپ اورچاچا جی کے سارے دھلے ہوئے کپڑے استر ی کر کے آپ کی الماریوں میں لٹکا دیے ہیں ‘‘۔
شکر ہے میرے مولا !لا حول ولا قوۃ الا باللہ شیطان کیسے کیسے سوئے ظن کے وسوے ڈال رہا تھا ، ہر لمحہ ہر جگہ میںنے اسے ساتھ رکھا آخر کو تربیت مقصود تھی میںدرس دیتی وہ ٹکٹکی باندھے ، دم ساد ھے سنتی ، گھر آکر شروع ہو جاتی۔
’’ باجی ! مجھے بھی درس دینا آگیا ہے۔‘‘ اس دن کی سنی باتوں کا سارا لب لباب گوش گزار کر دیتی ۔
’’ماشا ء اللہ ‘‘ میری زبان بے ساختہ پکار اٹھتی وہ اور شیر ہو جاتی۔
’’ باجی ! اب میںبھی آپ کی طرح گائوںجا کر یہ کام شروع کردوں گی ‘‘ میں لرز کر رہ جاتی۔
’’ نہیں فجونہیں، ابھی نہیں ارے بی بی ! ہم بوڑھے ہو گئے سیکھتے سیکھتے اور تم … نہ ‘‘ اس کا جامعہ میں داخلہ تو پکاہو چکا تھا اس کے لیے میں نے بڑے بڑے خواب دیکھ رکھے تھے ، رمضان آگیا دورہ قرآن ہؤا میرے پاس آئی اورسوال کردیا۔
’’باجی! آپ مجھے یہ تو سمجھائیں ذرا کہ جن لڑکیوں کی شادیاں نہیںہوتیں اُن کے بچے کیسے ہو جاتے ہیں میںنے تو سنا ہے کہ اس کے لیے شادی کرانا ضروری ہے ‘‘ ۔
’’ استغفر اللہ فجو! تم نے یہ باتیں کہاں سے سنیں ‘‘ باجی سنی نہیںدیکھی ہیں ، باجی میرے ماموں کی 13سالہ بیٹی ، چچا کی بیٹی، خالہ ، پھوپھی … ‘‘
’’ بس کرو فجو بس کرو ، چلو سپارہ لے کر آئو ، تم نے آج سبق نہیں پڑھا ‘‘ جھٹ سپارہ آگیا۔
’’ باجی مجھے تیسوا ںپارہ زبانی یاد ہے ، سنائو ں‘‘ میرے جواب سے پہلے ہی قرأت شروع ہو گئی ، اللہ یہ کیا چیز ہے ،خدایا اس کی حفاظت فرما اور مجھے توفیق دے کہ میں اس کو تیری بندی بنا سکوں۔یہ تو بہت آسانی سے قرآن حفظ کر سکتی ہے میں نے جامعہ کی نگران سے بات کی جواب ملا‘‘۔
’’باجی ! سوچ لیں، یہ آفت کی پرکالہ یہاں آکر ہمارے ماحول کوتہ و بالا نہ کردے ، باجی آپ کی ہمت ہے جو برداشت کر رہی ہیں ورنہ تو یہ آسمان سے ٹاکی اتار کردوبارہ لگا بھی سکتی ہے ہماری معذرت ہے باجی ‘‘۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

کے مصداق ہم نے تو ہل چلانا ہی تھا ۔ ہرروز فجوکا ایک نیا روپ سامنے آتا صلاحیتوں سے بھرپور ، ایک طرف میں خوشی سے نہال ہو جاتی دوسری طرف ذمہ داری کا احساس شدید تر ہو جاتا ، اس کے سو رنگ دیکھ کر میں حیرت کے سمندر سے نکل ہی نہ پاتی ، رمضان کا آخری عشرہ آگیا عید قریب تھی آخر کو فجوکی پہلی شہری عید تھی بازار لے کر گئی تاکہ اپنی مرضی سے خریداری کر لے میرے گائوں کی دھی دھیانی تھی ۔ سب گھر والوں کے ریڈی میڈ جوڑے خریدے جیولری لے کر دی واپس آئے روزہ کھولا ’’ چلو اب بیگ تیار کر لو اپنا ، عید کی خریداری بھی دی ساری چیزیں بیڈ پر ڈھیر کردیں کچھ چیزیں دیکھ کر میں چونکی ’’ فجو ! یہ تومیںنے نہیں لے کر دیں، چپ ، سچ سچ بتائو چوری کی ہیں ‘‘ اللہ رسول کا واسطہ دیا ۔روزوں اور قرآن کا خوف دلایا مان گئی ، مغرب کی نماز کے بعد میاں صاحب واپس کر کے آئے ، دکاندار کی نظر بچا کر مٹھی بھر کر انگوٹھیاں ، بندے ، سوئیاں وغیرہ اٹھا لیں ، عید پہ گھر جانے کے دن قریب آگئے مال مسروقہ برآمدکرنے کا وقت آن پہنچا۔
’’ فجو ! بیگ تیار ہوگیا ؟‘‘ جی باجی نیچے لے آئو۔
’’ جی اچھا ‘‘ میں نے بیگ بیڈ پر اُلٹ دیا ، میرے ہاتھ سے پکڑا الٹا کر کے جھاڑا ، سائیڈ والی جیب کو پکڑ کر جھاڑ رہی تھی زبردستی لیا ، مال وزر برآمد ہوگیا۔ کئی ہزار کا فنڈ سامنے پڑا تھا بہت سارا ابھی باقی تھا بیٹی کو اوپر بھیجا گملوں کے پیچھے ، فریموں کے پیچھے ، میٹریس کے نیچے ، مال ہی مال فجوکودیکھوں کبھی مال کودیکھوں۔
’’ہائے پاگلے ! کیا چولیں ماری ہیں تم نے ، حلال طریقہ سے مل گیا تھا حرام طریقہ سے کیوں لیا ؟‘‘
علم جونہ تھا کسی نے سمجھایا ہی نہ تھا ، عید کرنے چلی گئی میرا عزم مزید پختہ ہو گیا۔ عید کے بعد ہم لوگ بھی گائوں گئے اس کا باپ بہت خوش تھا۔
’’ باجی! بڑی مہربانی جی ، فجو تو آپ سے کچھ زیادہ ہی پڑھ آئی ہے جی ۔بہت خوش آئی ہے جی ، ہم سب کو ہر وقت تقریریں سناتی رہتی ہے جی‘‘۔ میں خوشگوار حیرت میں ڈوب گئی۔ آخر محنت کو کچھ رنگ لگ ہی گیا تھا۔ فجو عید کر کے دوبارہ غریب خانہ میں رونق افروز ہوگئی ہمارے گھر کے علمی و ادبی ماحول میں اس کی رگ ادب بھی پھڑکتی رہی میرے منصوبے بھی طویل ترہوتے گئے یکا یک ان سب پر برق بلاگری اور میرے سارے محل مسمار ہو گئے ۔ابھی تو میں سہانے خوابوں میں گم تھی باقی کا سفر شروع ہؤا ہی چاہتا تھا کہ گائوں سے شامی کے ذریعے اس کے مائی باپ کا پیغام آگیا۔
’’ فجو کو واپس بھیجیں ، ان کا پورا خاندان اپنی صلاحیتوں کو آزمانے ولایت کمانے لاہور ڈیفنس منتقل ہو رہا ہے اور فجو تو اس قافلہ کی روح رواں ہے۔ میرے ذہن کے پردوں پہ فجو کی مزید گل افشانیاں جھانکنے لگیں۔
’’ باجی ہم لاہوراورکراچی مزاروں پر بھی جاتے ہیں بہت مزہ آتا ہے کئی کئی دن وہاں رہتے ہیںباجی ! ہم لڑکیاں وہاں یہ کرتی ہیں وہ کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ ‘‘۔ اب پھر وہی تماشا ، میں پریشان ہو گئی اُس کی موجودگی میں ہمیشہ دعا گو رہتی تھی۔
’’ فجو ! تمہیں کوئی نیک بخت ساتھی ملے ‘‘ وہ مجھے اکثراپنے ابا کی چار شادیوں کے قصے سناتی تھی۔
’’ باجی ! میرا ابا ویسے تو بوڑھاہے خضاب لگا کر جوان بنا رہتا ہے ، باجی ! میرارشتہ فلاں جگہ پر ہؤا فلاں نے مانگا مجھے ، یہ ہے وہ ہے ‘‘۔
سنا ہے فجو لاہور کے کسی اسکول میں مالی لگ گئی ہے کینٹین بھی چلاتی ہے کوٹھیوں میں بھی جاتی ہے وہ سب صاحب اور بیگمات کے گھروں میں ہزاروں میں کھیل رہے ہیں کوئی بڑا ہاتھ مارا ہے، بڑا پیکیج ہے شامی کا ڈیرہ بھی نہیں چھوڑا ، باپ ڈیرہ پر اور خواتین بڑے شہر میں کمائی کر رہی ہیں ابا کی بیسوں گھی میں ہیں ، قارئین ! سچی بات بتائوں فجو دل سے نہیں نکلتی بہت یاد رہتی ہے وہ ایک نا تراشیدہ ہیرہ تھی کندن بن سکتی تھی ابھی تو ابتدا کی تھی بچھڑ گئی خوابوںمیں آتی ہے دعا لینے کے لیے ، فجواور ایسے ہی بہت سے کردار گودڑ کے لعل ہیں جوہری کے ہاتھ لگ گئے تو نایاب ورنہ گم نامی گردِ راہ سے زیادہ بے وقعت ہو جاتے ہیں ۔ بے پناہ صلاحیتوں کی مالک فجو بھی زمانہ کے گرداب میں گم ہوگئی ، ہرفن مولا تھی

مثبت راہوں میں موڑنے کی پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی میں نے، زمانے کی چکا چوند نے اندھا کردیا ۔
قارئین کرام ! اس طرح کے نجانے کتنے گودڑی کے لعل مٹی میں رُل جاتے ہیں توکیا ہم ان سب تک علم ، دین اور اس کی دولت پہنچانے میں ناکام ہیں ؟
میرے اس سوال کا جواب کون دے گا ؟ میں نے توفجو کے لیے لمبے لمبے منصوبے بنائے ، حسین خواب بنے ، تصور ہی تصور میں اسے آسمان دنیا پر روشن ستارہ کی مانند دیکھا وہ مستقبل کی ماہر خطاط، آرٹسٹ ، میڈیا سپیشلسٹ ، نا ممکن کو ممکن بنانے کی ماہر ،ادیبہ ، شاعرہ ، نعت گو ، نعت خواں مقررہ، مجاہدہ ،مبلغہ ، حافظ قرآن ، عالمہ فاضلہ ، تحریر و تقریر کے فن کی ماہر ، بہترین سراغ رساں ، اپنے جرم کا کوئی سراغ نہ چھوڑنے والی ، اپنے موقف کا بہترین دفا ع کرنے اور منوانے والی ، طوفانوں اور ہوائوں کا رُخ موڑ دینے کی بھرپور صلاحیت کی مالک ، بڑے بڑے دانشوروں کو چکرا دینے والی ، آنکھوں میں دھول جھونکنے والی حاضر دماغ ، حاضر جواب، چرب زبان ، چٹکی بجاتے ہر کام بجا لانے والی ، ہیرے جیسی انمول ہستی میرے ہاتھوں سے نکل گئی ، مچھلی کی طرح پھسل گئی ایسا طوفان بادو باراں اٹھا کوئی ایسی برق بلا گری کہ میری تمام حسین آرزئوں ، تمنائوں اورمنصوبوں کا شیش محل چکنا چور ہو گیا۔ فجو کو آسمان کی بلندیوں میںپرواز کرتے دیکھنے کی تمام خواہشیں دم توڑ گئیں سہانے خواب کرچی کرچی ہو گئے بادسموم اور مخالف ہوا اسے اڑا کر کسی اور ہی سمت لے گئیں میں نے اس’’ گُنوں (خوبیوں) کی گُتھلی‘‘( تھیلی) کو پاس رکھنے اور راہِ حق میں فائدہ اٹھانے کے لیے اس کا پیکیج بھی بڑھایا مگر ان کے تمام خاندان کی آنکھوں پر حرص و ہوس کی ایسی پٹی بندھی کہ تمام اگلے پچھلے تعلقات ریت کا ڈھیر ثابت ہوئے اور میں کف افسوس ملتی رہ گئی۔ میں جوکہ اُس کی ان تمام خداداد صلاحیتوں کی نہ صرف معترف ہوں بلکہ عینی شاہدین و متاثرین میں سے بھی ہوں یہی تو وجہ ہے کہ میں اس کو کھونا نہیں بلکہ بدلنا چاہتی تھی میںنے اسی روشن مستقبل کے لیے اس کے تمام وار ہنس ہنس کر سہے اور صبر جمیل کیا۔ میں کل کی فجو کو انقلابی روپ میں دیکھ کر تصور ہی تصور میں مسکرا اٹھتی تھی میں نے ہمیشہ اس کے لیے دعائیں مانگیں آج بھی خیالوں پر ہی نہیں میرے خوابوں پر بھی اس کا پہرہ ہے قارئین کرام ! اب تو یقینا آپ بھی پورے انصاف سے پکار اٹھیں گے کہ میںنے واقعی ایک گودڑی کا لعل کھویاہے۔ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی ہیرا ہے ؟
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x