ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

امین شاہ – بتول جون ۲۰۲۳

سیاہ رنگت ، ماتھے پر بکھرے سیاہ بال ، آنکھوں پر عینک ، بھاری بھرکم ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ،یا تو باورچی خانے میں یا پھر ٹوکری پکڑے بازار کی طرف رواں دواں ۔ شادی کے بعد جب میں پہلی مرتبہ اپنے سسرال ساہیوال گئی تو امین شاہ مجھے ہر طرف چھایا نظر آیا۔’’ سلام بھین جی ‘‘ ٹانگے پر سے سامان اُتارتے ہوئے اس نے شرما کر مجھے سلام کیا ۔ ہم لوگ شام کے وقت گھر پہنچے تھے ۔ امی شکوہ کر رہی تھیں تم لوگ اپنے آنے کا فون کردیتے تو امین شاہ سٹیشن جا کر تم کو لے آتا ۔ سہیل نے مسکراتے ہوئے کہا :’’ ابھی میں اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولا ‘‘۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ باتھ روم سے میں کمرے میں آئی تو سہیل نے کتاب کھولی ہوئی تھی ۔ میں نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔ نئی جگہ تھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ ابھی میں سونے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ باہر سے نور جہاں کی آواز میں پنجابی گانے کی آواز آئی ۔ پھر اس کی آواز میں گھنگھروئوں کی چھن چھن شامل ہو گئی جیسے کچھ لوگ ناچ رہے ہوں ۔ آواز ہلکی تھی جو کچھ بھی ہو رہا تھا بند دروازے کے پیچھے ہو رہا تھا ۔ چاروں طرف خاموشی چھائی تھی اور اس میں یہ سب بہت پر اسرار لگ رہا تھا ۔ میں کچھ دیر تو چپکی پڑی رہی ۔ پھر سہیل کو ہلایا۔
’’یہ آوازیں کیسی ہیں ‘‘۔
’’ سو جائو سو جائو ‘‘۔ اس نے اتنا ہی کہا اور پھر انہی آوازوں کو سنتی ہوئی سو گئی۔
میرا یہ سسرالی گھر کافی بڑا تھا ۔ باہر وسیع لان تھا جس میں آم اور جامن کے درخت تھے ۔ پیچھے کھلا صحن تھا ۔ دوسرے دن جب میں اپنی نند ثوبیہ کے ساتھ باہر لان میں ٹہل رہی تھی تو مجھے رات والی آوازیں یاد آئیں ۔ نور جہاں کے گانے اور گھنگرو جیسے کوئی ناچ رہا ہو ۔ آوازوں کا تو میں نے اس سے نہ پوچھا ، لیکن کونے میں بنے کوارٹر کے بارے میں استفسار کیا ۔
’’ یہ امین شاہ کا کمرا ہے اس کا ایک دروازہ تو گھر کے اندر کھلتا ہے لیکن دوسرا ساتھ والی گلی میں کھلتا ہے ‘‘۔اُس نے جواب دیا ۔ یقینا وہ آوازیں اسی کمرے میں سے آ رہی تھیں۔
ایک دو دن میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ امین شاہ ہی اس گھر کا مختار کل ہے ۔ بازار سے سودا لانا ، کھانا پکانا، گندم صاف کروانا ، پسوانا ، مہمانوں کی خاطر و مدارت کرنا ، کسی کے بھی پکارنے پر باہر جا کر دیکھنا ، امی کے ساتھ بازار جانا یعنی اندر باہر کا ہر کام امین شاہ کے سپرد تھا ۔ امی تو باورچی خانے میں بھی بہت کم جاتیں بلکہ شاید ہفتوں بیت جاتے ۔ ان کو کچن میں جھانکنے کی ضرورت بھی نہ تھی ۔ اتنا صاف ستھرا باورچی خانہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا ۔ مصالحوں کے ڈبے صاف ستھرے ، ہر ہفتے وہ دروازوں میں نئے اخبار بچھاتا ۔ برتن ایسے چمکتے جیسے ابھی ابھی خرید کر لائے گئے ہوں۔
کھانا وہ بے حد مزے دار بناتا ۔ اور سب سے نئی بات تو یہ لگی کہ جب سب لوگ میز پر بیٹھ جاتے تو یہ پھلکے اُتارنا شروع کرتا ۔ دوڑ دوڑ کر گرم پھلکے وہ میز پر لاتا رہتا ۔ میں نے ایک روز کہا تم پھلکے بنا کر سب کو میز پر بلایا کرو تو منہ بنا کر بولا بھین جی ایسے کھانے میں کیا مزا ۔ یعنی گرم گرم توے سے اترے پھلکے تو دوسرے کھاتے تھے لیکن حظ یہ اٹھاتا تھا۔
سہیل نے بتایا کہ امین شاہ پندرہ برس سے ہمارے گھر میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیل کر ہم لوگ بڑے ہوئے ہیں ۔ ایک مرتبہ کسی کے ورغلانے پر یہ دوسری جگہ چلا گیا تھا ۔ لیکن چند دنوں بعد واپس آکر امی کے پائوں پکڑ لیے ۔ ایسا گھر اسے کہاں ملنے والا تھا ۔ گھر میں تین لوگ تو تھے ۔ میرے ساس سسر اور نند ثوبیہ ۔ جب ہماری شادی ہوئی وہ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔ تینوں بیٹے لاہور میں تھے ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں یا عید پر سب اکٹھے ہوتے ۔ امی بھی ان دنوں کا انتظار کرتیں اور امین شاہ کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ ہوتا۔
میں شادی کے ابتدائی دنوں کی بات کر رہی تھی ۔ امین شاہ سے ایک دو دن میں ہی بے تکلفی ہو گئی ۔ ایک روز وہ کھانا بنا رہا تھا میں بھی کچن میں چلی گئی ۔’’امین شاہ تمہارے کمرے سے گانوں اور گھنگھروئوں کی آوازیں آتی ہیں ؟‘‘
وہ شرما کر بولا :’’ یونہی یار دوست شغل کرتے ہیں ‘‘۔
’’ اور گھنگھروئوں کی آواز ؟ کوئی ناچتا بھی ہے ؟‘‘
ابھی اس نے جواب نہیں دیا تھا کہ امی نے مجھے پکار ا اور میں اندر چلی گئی ۔ شام کو میں اور ثوبیہ لان میں بیٹھے تھے کہ باہر سے کسی نے گیٹ بجایا ۔ امین شاہ باہر گیا ہؤا تھا ۔ ثوبیہ بولی رہنے دیں بھابھی امین شاہ کا کوئی ملنے والا ہوگا خود ہی چلا جائے گا ۔ لیکن کوئی تسلسل سے گیٹ بجا رہا تھا۔
’’میں دیکھتی ہوں ‘‘۔ میں نے گیٹ کھولا تو بھونچکی رہ گئی ۔ ایک عجیب مخلوق کھڑی تھی ۔ پر نٹڈ شلوار قمیص( مردانہ ) ۔ چہرہ بھی مردانہ جس پر خوب میک اپ کیا ہؤا تھا ۔ گلے میں سکارف باندھا تھا۔
’’سلام بھابھی جان ‘‘۔ اس نے لجا کر سلام کیا ۔
’’ و۔علیکم۔سلام ‘‘۔ میں نے اٹک اٹک کر جواب دیا ۔
’’ امین شاہ ہے ؟‘‘
’’ وہ تو بازار گیا ہے ‘‘۔
’’ اچھا ، اسے کہیے گا شبنم آئی تھی‘‘۔
وہ رخصت ہؤا ۔ میں گیٹ بند کر کے بوکھلائی ہوئی لوٹ آئی ۔ اس کا حلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے تھا ۔ مردانہ چہرہ ، تھپا ہؤا میک اپ ، گہری سرخ لپ اسٹک ، پرنٹڈ شلوار قمیص۔ ثوبیہ میرے تاثرات دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ اسی اثناء میں امین شاہ واپس آگیا ۔
’’ تمہارا دوست شبنم آئی تھی‘‘۔میں نے ہونقوں کی مانند کہا ۔ ثوبیہ تو پیٹ پکڑ کر اندر دوڑی۔
’’ بھین جی وہ تو فردوس ، نغمہ ، گل بہار بھی آپ سے ملنا چاہ رہی تھیں ۔ میں نے کہا آپا جی ( یعنی میری ساس) سے اجازت لے کر ملوائوں گا‘‘۔
میں اندر گئی تو ثوبیہ ہنس ہنس کر امی کو سارا قصہ سنا رہی تھی۔ ان کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ تھی ۔ میری طرف مڑ کر بولیں :
’’ تم ان لوگوں سے ملنے کی حامی نہ بھر لینا ‘‘۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوال کرتی سہیل نے کمرے سے نکل کر امین شاہ کو آواز دی :’’ چائے کا ایک کپ تو پلوا دو ‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہ چائے لے آیا ۔ ٹرے میں ٹرے کلاتھ بچھا ہؤا۔ دو کپ، کیتلی میں چائے دم کر کے ڈھکی ہوئی ، دودھ دان میں دودھ اور چینی دان میں چینی ۔ میرا اپنا دل اس وقت چائے پینے کو چاہ رہا تھا ۔ بس تکلیف میں خاموش رہی تھی ۔ ٹرے میز پر رکھ کر وہ باہر چلا گیا۔
میں نے چائے بناتے ہوئے سہیل سے پوچھا :’’ یہ امین شاہ کیا چیز ہے ؟‘‘
’’ چیز سے مطلب ؟‘‘
میں نے شبنم کا حلیہ بتایا ۔ پھر باقی دوستوں کے نام لیے فردوس ، نغمہ ، گل بہار ۔ سہیل ہنس دیے :’’ یہ درمیانی قسم کے لوگ ہیں ۔ یعنی عورت بھی مرد بھی یا عورت بھی نہیں مرد بھی نہیں ۔مڈل سیکس یہاں ساہیوال میں ان کی تعداد کافی ہے ۔ مانگتے نہیں پھرتے ۔ گھروں میں کام کرتے ہیں ۔ بے حد وفا دار لیکن بہت حساس ۔ یہ کہہ سکتے ہیں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے‘‘۔
’’ امین شاہ تو میک اپ نہیں کرتا لیکن اس شبنم نے تو باقاعدہ تھوپا ہؤا تھا ‘‘۔
’’ جن گھروں میں لوگ اعتراض نہیں کرتے وہ تو سارا دن میک اپ میں رہتے ہیں ۔ باقی لوگ رات کو فارغ ہو کر کسی ایک جگہ منڈلی جما لیتے ہیں تو ناچ گانے اور میک اپ کرنے کا شوق پورا کرتے ہیں ‘‘۔
’’ امین شاہ بھی؟‘‘ میں نے احمقانہ لہجے میں پوچھا۔
’’ امی اس معاملے میں سختی کرتی ہیں ۔ لیکن لاہور والوں سے میک اپ کی چیزوں کی فرمائش کرتا رہتا ہے ۔ مجھ سے تو ڈرتا ہے لیکن خرم ، کوثر کے پیچھے لگا رہتا ہے ‘‘۔
اب مجھے گھنگھروئوں اور گانوں کا اسرار سمجھ میں آنے لگا ۔ یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ وہ کیوں بے تکلفانہ گھر کے اندر کمروں میں آتا جاتا ہے ورنہ مرد نو کر تو باقاعدہ کھانس کے دروازے تک آتے تھے ۔ امین شاہ کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔ کوئی نئی فلم لگتی تو وہ مجھے اطلاع دیتا :’’ بھین جی فردوس کی نئی فلم لگی ہے ‘‘۔ میں اسے دس روپے دے دیتی ۔ عام طور پر وہ نو سے بارہ کا شو دیکھتا ۔ فلم دیکھ کر آتا ۔ میں پوچھتی کیسی تھی فلم ؟ کہانی وغیرہ میں اسے کچھ دلچسپی نہ ہوتی بس فردوس یا ہیروئین کے ڈانس اور کپڑوں کی تفاصیل بتاتا رہتا اگر کوئی ڈانس زیادہ ہی بھا جاتا تو ایک فلم کئی کئی مرتبہ دیکھی جاتی ۔ پھر اس فلم کا کیسٹ بھی خرید لیا جاتا۔
عام طور پر لوگ ان کو زنانہ یازنانے کا نام دیتے ۔ لیکن منہ پر نہیں۔ ایک مرتبہ سہیل کی تایازاد بہن انگلینڈ سے آئیں ۔ امین شاہ کو دیکھ کر بولیں :’’ یہ زنانہ ابھی تک ٹکا ہؤا ہے ۔ آپ کے تو عیش ہیں چچی! ہم لوگ تو خود ہر کام کر ، کر کے ہلکان ہو جاتے ہیں ‘‘۔
اس کا زنانہ کہنا امین شاہ کو بہت برا لگا ۔ شام تک جب امین شاہ اندر نہ آیا تو امی کو فکر ہوئی ۔ کوارٹر میں جا کر دیکھا تو وہ کھلا پڑا تھا ۔ عام طور پر وہ تالا ڈال کر رکھتا تھا ۔ ثوبیہ نے اندازہ لگایا کہ شندہ باجی کی بات اُسے بری لگی ۔ امی اور پاپا جی نے بھی اس وقت محسوس کیا تھا کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ ساتھ والی کوٹھی میں اس کا دوست رضیہ کام کرتا تھا ۔ امی نے اسے اس کے گائوں ملکہ ہانس دوڑایا ۔ لیکن وہ وہاں نہیں گیا تھا ۔ امی تو سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ۔ اب کیا ہوگا ۔ دودھ والی ایک مائی پکڑ کر لائی ۔ اس نے اتنا بد مزہ کھانا بنایا کہ نوالہ حلق سے نہ اترتا تھا ۔ لاہور انہوں نے ہمیں فون کیا اور امین شاہ کی ناراضگی کا بتایا۔ سچی بات ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں خود بے فکری رہتی ۔ ماموں کی طرف فون کیا کہ شاید ان کے ہاں چلا گیا ہو۔ وہاں بھی وہ نہ پہنچا تھا ۔ گھر کا یہ حال کہ وہ مائی تو رخصت کی ۔ امی کی ایک دوست نے ایک اور عورت کا بندو بست کیا کہ سارا دن رہے گی شام کو گھر چلی جائے گی ۔ اب کہاں تو امین شاہ کہ بغیر کچھ کہے سب کام ہو جائے اور کہاں یہ عورت کہ ایک کام کرتی تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتی۔ امی کہتیں :’’ اس کو تو بلانا ہی اپنی مصیبت کو دعوت دینا ہے ۔سارا دن اپنے دکھڑے روتی رہتی ہے ۔ اس پر باہر کے کاموں کی مصیبت ‘‘۔ امی تو اس دن کو کوستیں جب شندہ آئی تھی۔
دس پندرہ دن گزرے تھے کہ ایک شام امین شاہ ہمارے ہاں آگیا ۔ مجھے تو سمجھ میں نہ آئے کہ حقیقت ہے یا خواب دیکھ رہی ہوں ۔ وہ بھی برے حالوں تھا۔ اترا ہؤا چہرہ ، میلے کپڑے ۔
’’ تم تھے کہاں امین شاہ ؟ کہاں کہاں نہیں تلاش کیا ۔ اس طرح چلے جاتے ہیں؟‘‘
وہ سر جھکا کر بیٹھ گیا ۔
’’ بس بھین جی غصے میں نکل آیا‘‘۔
’’ شندہ باجی کے کہنے کا کیا تھا امی پاپا جی نے کبھی تمہیں کچھ کہا؟‘‘
’’ وہ تو فرشتہ ہیں بھین جی ‘‘۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
’’ اچھی قدر کی تم نے ان کی نیکی کی ‘‘۔
’’ باجی ہم بھی انسان ہیں ۔ ہم نے تو خدا سے نہیں کہا تھا کہ ہمیں زنانہ بنا کر بھیجو ‘‘۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اتنے میں سہیل کمرے سے نکل آئے ۔
’’ واہ یار اچھی کی ، سارے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ‘‘۔
’’ گئے کہاں تھے تم ؟‘‘ مجھے تجسس ہو رہا تھا۔
’’ بس ایک واقف نے گلبرگ میں رکھوا دیا تھا ۔ بڑی مشکل سے یہ چند دن گزارے ۔ سوچا تھا تنخواہ ملے گی تو آپا کے پائوں پکڑ لوں گا لیکن دن ہی نہیں گزر رہے تھے ‘‘۔ وہ عینک کے شیشے صاف کرتا ہؤا بولا ۔’’ آج ان کو بغیر کچھ کہے چلا آیا ہوں ‘‘۔
ہمیں معلوم تھا کہ ساہیوال جیسی بادشاہت اُسے کہیں نہیں مل سکتی تھی۔ میں نے امی کو فون کیا ، وہ بولیں اسے اسی وقت خود جا کر بس میں بٹھائو اور کہو سیدھا گھر آئے ۔ سو سہیل نے اسے ساتھ لیا ، چوک یتیم خانہ سے بس میں بٹھایا کچھ روپے نقد دیے اور ہم نے سکھ کا سانس لیا۔
امی کی ایک کزن راشدہ خالہ کے ہاں بھی اسی قسم کا ایک ملازم تھا۔ اس کی صورت میں نسائیت زیادہ تھی ۔ اور اس کا میک اپ خدا کی پناہ ۔ اسے دیکھ کر میں نے راشدہ خالہ سے پوچھا:’’ کیا یہ ہمیشہ ایسے ہی تیار رہتی ہے ؟‘‘ ( وہ خود کو سلمیٰ کہلواتی تھی )۔
وہ ہنسنے لگیں :’’ آگے پیچھے تو کوئی ہے نہیں ساری تنخواہ قیمتی کپڑوں اور میک اپ پر خرچ ہوتی ہے ۔ بچے لاہور سے آتے ہیں تو سب سے قیمتی جوڑا اس کا ہوتا ہے ۔معمولی چیز تو پسند نہیں آتی ۔ رافعہ (بہو) امریکہ سے آئی تو میک اپ کٹ دیکھنے والی تھی ۔ سچی بات ہے کہ ہماری زندگی تو اس کے بغیر ادھوری ہے ۔ ایک مرتبہ روٹھ کر چلا گیا تھا میں تو رُل گئی تھی ۔ خالد خاص طور پر لاہور سے منانے آیا ۔ کیونکہ بقول اس کے خالد میں تو اس کی جان ہے ‘‘۔
جو بھی کام ایک مرتبہ امین شاہ کے سپرد کر دیا جاتا پھر کیا مجال کہ یاد دہانی کروانا پڑے ۔ چھٹیوں میں جب ہم سب ساہیوال جمع ہوتے امین شاہ کی خوشی قابلِ دید ہوتی ،دوڑ دوڑ کر کام کرتا ، سہ پہر کے بعد پچھلے صحن میں پانی کا چھڑکائو کرتا ، پھر چار پائیاں بچھا کر اس پر کھیس بچھاتا ۔ ساتھ کرسیاں رکھتا ۔ پنکھا لگاتا ۔ سب لوگ بیٹھ جاتے تو ٹوکری پکڑ کر بازار روانہ ہو جاتا ۔ تھوڑی دیر بعد ٹوکری میں ٹھنڈی کو کا کولا کی بوتلیں لیے چلا آ رہا ہوتا ۔ پھر بوتلیں ٹرے میں سجا کر ہر ایک کو پیش کی جاتیں ۔ پیسے اس کے پاس رہتے وہ آرام سے خرچ کرتا رہتا ۔ ختم ہو جاتے تو امی اور دے دیتیں ۔ میں نے اسے کبھی یہ کہتے نہیں سنا گوشت لانا ہے پیسے دیں ۔سبزی لانا ہے پیسے دیں ۔ بلکہ مہمان آتے تو وہ چائے کے ساتھ لوازمات ، مثلاً کیک، گلاب جامن ، سموسے وغیرہ خود ہی لے آتا ۔ نہ کبھی امی نے اس سے حساب پوچھا اور نہ کبھی اس نے دیا ۔
ہماری ساری ضرورتوں کا اسے خیال رہتا جیسے رات کو بچوں کا دودھ بنانے کے لیے ایک تھرموس میں گرم پانی اور ایک میں ٹھنڈا پانی رکھنا۔ پاپا جی ( میرے سسر ) کے لیے نیم گرم پانی رکھنا ، امی کو دودھ کے گلاس میں شہد ملا کر دینا ۔ غرض بیسیوں کام تھے جن میں کوتاہی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
خرم کے ساتھ اس کی بے تکلفی زیادہ تھی ۔ وہ بھی اکثر اس سے فلمی ڈائیلاگ میں بات کرتا ۔ جیسے امین شاہ اپنی دھن میں باہر سے آ رہا ہے تو وہ ایک دم کہتا :
’’ رُک جا اوئے نئیں تے تیری ماں تینوں روئے گی ‘‘۔
امین شاہ ٹھٹھک جاتا پھر شرما کر کہتا :
’’ میری تے جان کڈ دتی اے ‘‘۔
کبھی وہ ٹوکری پکڑے سودا لانے جا رہا ہوتا تو خرم ایک دم بولتا :
’’ اے لکیر نہ ٹپیں اوئے خون دیاں ندیاں وگ جان گیاں ‘‘۔ وہ ٹھٹھک جاتا ۔ چہرے پر خوشی قابل دید ہوتی۔
اسے سب معلوم تھا کہ کس ، کس کو کیا پسند ہے ۔ سہیل کے لیے بھنا ہؤا گوشت ، خرم کے لیے مغز، کوثر کے لیے شامی کباب ، پلائو اور آلو گوشت ۔ اگر امی کہہ دیتیں کہ آج کوئی سبزی گوشت میں ڈال لو تو منہ بنا کر کہتا :
’’ ٹینڈے کوثر خاں کو پسند نہیں ، بھنڈی خرم خاں نہیں کھاتے ‘‘۔
’’ جو مرضی کرو‘‘۔
امی تو یہ کہہ کر خاموش ہو جاتیں ۔ میرے لیے وہ دال اور اُبلے ہوئے چاول ایک دو دن بعد بنا لیتا ۔ اسی طرح بچوں کے لیے چپس بنتے تو سبھی کھاتے ۔ بعض اوقات تو دو کلو آلو خرچ ہو جاتے لیکن کیا مجال کہ امین شاہ کے ماتھے پر شکن آئی ہو ۔
خود وہ بہت خوش خوراک تھا ۔ کھانا میں نے اسے دیگچی میں ہی کھاتے دیکھا ہے ۔ ویسے بھی دوپہر کا بچا ہؤا سالن رات کو کھانے کا رواج ہی نہ تھا ۔ ہم لوگ تو دوپہر کا بچا کھانا رات کے لیے رکھ لیتے ہیں لیکن میرے سسر اس کے بہت خلاف تھے شاید اسی لیے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امی امین شاہ کو سالن ڈال کر دے رہی ہیں ۔ سو امین شاہ کے مزے تھے۔ کوثر کبھی اسے چھیڑتا :’’ موٹے اتنا نہ کھایا کر وخون میں چربی بڑھ جائے گی‘‘۔
’’ کچھ کھا کر ہی مریں گے ‘‘۔ وہ جواب دیتا ۔
اپنی ماں سے اُسے بہت محبت تھی ۔ ساہیوال کے قریب ایک جگہ ہے ملکہ ہانس وہ وہاں کا رہنے والا تھا ۔ ماں مہینے میں ایک آدھ مرتبہ اسے ملنے آجاتی ۔ ہم لوگ جب گرمیوں کی چھٹیوں میں ساہیوال جاتے تب وہ دو دن کے لیے گائوں ضرور جاتا کہ بھابھی جی باورچی خانہ سنبھال لیں گی۔ امی گھبرا کر کہتیں وہ چند دنوں کے لیے آئی ہے اور تم باورچی خانے کی ذمہ داری اس پر ڈال رہے ہو لیکن میں اسے بڑھاوا دیتی کہ تم چلے جائو ۔ سالن میں پکا لیتی ، تنور سے روٹیاں آجاتیں ۔ دودھ والی برتن دھو جاتی اس طرح دو تین دن گزر جاتے لیکن امین شاہ کو سب مِس کرتے۔
بچے اس کے بہت گرویدہ تھے ۔ شام کو وہ سامنے والے پر تاب باغ میں ان کو ٹہلانے لے جاتا ۔ میرے بچے بڑے ہوئے تو ان کی جگہ خرم کے بچوں نے لے لی ۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا۔
لاہور وہ کم ہی آتا اور اگر آتا بھی تو یوں کہ امی کے ساتھ آتا ان کو چھوڑ کر اسی وقت واپس روانہ ہو جاتا کہ خان صاحب کو جا کر کھانا دینا ہے۔ اگر کبھی امی پاپا ، دونوں آتے تو پھر ساتھ رک جاتا ۔ فلمیں دیکھنے کا شوق تو برقرار رہا ، لیکن جب ٹی وی بھی گھر گھر دیکھا جانے لگا تو امین شاہ کے مزے ہوگئے ۔ جس روز کسی قسط وار ڈرامے نے آنا ہوتا اس کی کوشش ہوتی کہ آٹھ بجے تک سب کھانا کھا لیں ۔ امی پاپا جی کو تو سات بجے ہی فارغ کر دیتا لیکن جب ہم لوگ گئے ہوتے تو صاف نوٹس مل جاتا کہ نو بجے کے بعد کھانا ملے گا ۔ ڈراموںکی قسطیں کسی اچانک موڑ پر ختم ہوتیں۔ امین شاہ کو بہت غصہ آتا کہ اب سارا ہفتہ یہ سوچنے میں گزر جائے گا کہ آگے کیا ہوگا ۔
موسیقی کا تو وہ شوقین تھا ہی ۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو نصیبو لعل اس کی پسندیدہ گانے والی ہوتی۔ اس زمانے میں نور جہاں اور نسیم بیگم ہٹ لسٹ پر تھیں ۔ پاپا جی دوپہر کو ملتان ریڈیو سے کلاسیکی موسیقی سنتے تھے ۔ یہ فارغ ہو کر ان کے قریب بیٹھ جاتا ۔ وہ کہتے کیا سُر پکڑا ہے ۔ یہ سر ہلاتا رہتا ۔ میرا خیال ہے اسے کلاسیکی موسیقی کے بھائو بھید کا کچھ علم نہ تھا ۔ بس گانے والے کی آواز بھلی لگتی ہوگی۔
کچھ دنوں سے وہ شکایت کر رہا تھا کہ سانس بہت چڑھنے لگا ہے۔ امی اپنی بیماری کے سلسلے میں لاہور آئیں تو کوثر نے اسے بھی ہارٹ سپیشلسٹ کو دکھایا ۔ معلوم ہؤا کہ ہارٹ انلارج ہو گیا ہے ۔ ہم تو فکر مند ہو گئے ۔ لیکن اُس کا کہنا تھا جتنی لکھی ہے نہ کوئی کم کر سکتا ہے نہ بڑھا سکتا ہے ۔ دوائیاں وغیرہ خرید کر دی گئیں ۔ امی خود اس بات کاخیال رکھتیں کہ وقت پر دوائی لے لے ۔ اب بھاری کام اس سے نہ ہوتے ایک اورلڑکا اس کی مدد کے لیے رکھ لیا گیا ۔ کھانے کا شوق بھی اب ختم ہوتا جا رہا تھا ۔ اگر کبھی لالچ کر لیتا تو تکلیف بڑھ جاتی اس لیے پر ہیزکرنے لگا تھا۔
آخری مرتبہ جب وہ لاہور آیا تو بہت سست سا لگا ۔امی بھی ڈاکٹر کو دکھانے آتی تھیں ۔ یہ چپ چاپ دیوار کے ساتھ لگا بیٹھا رہا ۔ میں نے بات کرنے کی خاطر کہا : ’’ امین شاہ تازہ ترین فلم کون سی دیکھی ؟ ‘‘ تو مایوسی سے بولا :’’ اب نہیں دیکھی جاتی ہال میں بیٹھ کر گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘۔
رات کو یہ لوگ کوثر کے ساتھ اُس کے گھر شادمان چلے گئے ۔ صبح تقریباً چار بجے کوثر کا فون آیا کہ امین شاہ ختم ہو گیا ۔ آدھی رات کے وقت اُسے دل کا دورہ پڑا ۔ سروسز ہسپتال لے کر گئے ۔ ڈاکٹر ز نے بہت کوشش کی لیکن بقول اُس کے اس کا وقت پورا ہو چکا تھا ۔ اس کی موت کا صدمہ سب نے ایسے ہی کیا جیسے کسی قریبی عزیز کا کیا جاتا ہے ۔ امی ، پاپا جی کی اس نے تقریباً تیس سال بے لوث خدمت کی ۔ آج بھی جب ہم مل کر بیٹھتے ہیں تو کسی نہ کسی حوالے سے امین شاہ یاد آجاتا ہے ۔ خدا اسے جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین !
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x