ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جاوید کی واپسی – بتول جون ۲۰۲۳

شادی کے بعد جب الگ گھر میں رہنا پڑا تو محسوس ہؤا کہ بڑے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گیٹ پر بیل ہو اور آپ کو سب کام چھوڑ چھاڑ گیٹ پر جانا پڑے یہ دیکھنے کے لیے کہ کس نے بیل کی ہے۔ ڈرائیور سے کہا کہ کوئی چھوٹا لڑکا لائو جو گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی کر لے اور گیٹ پر بیل بھی اٹینڈ کر لے۔ ہفتے کے بعد ڈرائیور ایک خستہ حال بارہ تیرہ سال کا لڑکا لایا۔ پرانے کپڑے، پھٹے ہوئے جوتے، نین نقش خوبصورت مگر فاقوں کی وجہ سے چہرہ سوکھا ہؤا، رنگ جلا ہؤا ’’باجی یہ ہمارے گائوں کا ہے، باپ فوت ہو چکا ہے۔ دو بہنیں بڑی ہیں اور دو چھوٹی ہیں، چھوٹے ہونے سے ہی یہ محنت مزدوری کر رہا ہے۔‘‘ ڈرائیور نے بتایا۔
’’کیا نام ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی جاوید‘‘ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’چلو پہلے میں تمھیں کپڑے اور جوتے دیتی ہوں نہا کر پہن لو۔‘‘ میں نے جاوید سے کہا۔
بیٹے کے کپڑے اور جوتے اسے دیے اور باہر کا غسل خانہ بتا دیا۔ نہا کر جب وہ آیا تو شکل کافی بہتر لگ رہی تھی۔’’ہم نے تو کسی کے گھر جانا ہے تم روٹی بنا سکتے ہو ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی میں نے اپنی امی کو پکاتے دیکھا ہے میں کوشش کر لیتا ہوں۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے تم آٹا گوندھ کر روٹی بنا لو میں تمھیں سالن نکال دیتی ہوں۔‘‘
میں نے سالن نکال کر فرائی پین میں ڈالا۔ ’’روٹی پکا کر سالن گرم کرکے کھا لینا۔ ہمارے آنے تک تم سٹول لے کر گیٹ کے پاس بیٹھ جانا۔‘‘
بچے اسکول سے آئے انھیں جلد تیار ہونے کے لیے کہا خود باورچی خانے میں گئی۔ پلیٹ میں روٹیوں کی ٹیشی تھی جس میں کم از کم نو دس موٹی موٹی کچی پکی روٹیاں تھیں اور پرات آدھی سے زیادہ گندھے ہوئے آٹے کی پڑی تھی اور جاوید سالن گرم کر رہا تھا۔
’’جاوید ہم نے تو جہاں جانا تھا وہیں کھانا بھی کھانا تھا تم نے ہمارے لیے کاہے کو پکا دیں۔‘‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔ بھلا اس طرح کی روٹی کون کھا سکتا ہے۔
’’جی میں نے تو اپنے لیے بنائی ہیں۔‘‘ اس نے آرام سے جواب دیا۔
خدایا یہ نو دس روٹیاں کھائے گا، کیا یہ اتنا فاقے کا مارا ہؤا ہے۔ ’’آٹا تو اتنا زیادہ نہیں گوندھنا تھا۔‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔
’’جی کبھی وہ پتلا ہو جاتا تو میں آٹا ڈال دیتا پھر وہ سخت ہو جاتا تو پانی ڈالنا پڑتا۔‘‘ یہ جواب ملا۔
میں نے پرات اسی طرح فرج میں رکھ دی اور بیڈ روم میں آگئی۔ ’’اللہ میاں اگر اس نے یہ نو دس روٹیاں کھا لیں تو کہیں اس کا پیٹ خراب نہ ہوجائے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ڈسٹ بن میں پھینک دے۔ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بہرحال خود بھی تیار ہوئی اور بچوں کو بھی تیار کروایا پھر دوبارہ باورچی خانے میں گئی جاوید ابھی تک باورچی خانے میں ہی تھا کوئی روٹی نظر نہ آ رہی تھی۔ وہ نلکا کھولے برتن دھو رہا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ڈسٹ بن دیکھی وہ خالی تھی۔ فرج کے پیچھے بھی نظر دوڑائی وہاں بھی کچھ نہ تھا۔
’’جاوید تم یہ سٹول لے کر باہر بیٹھ جائو میں گھر بند کرکے بچوں کے ساتھ جا رہی ہوں گھر کا دھیان رکھنا۔‘‘
میں دل میں دعائیں کرتی ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی کہ یہ کچی پکی جلی ہوئی روٹیاں اسے ہضم ہو جائیں۔ شام کو ہم لیٹ آئے۔ جاوید گیٹ پر ہی بیٹھا تھا۔’’جاوید تم کھانا کھا لو ہم تو نہیں کھائیں گے کھانا دیر سے ملا تھا۔‘‘
’’جی بس ایک مرتبہ کھا لیا اب کل کھائوں گا۔ ‘‘ اس نے سٹول

اٹھاتے ہوئے کہا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اسے کھانا بھی نہیں چاہیے۔ صبح ناشتہ میں نے خود بنایا۔ پہلے سوچا کہ اسے ڈبل روٹی دے دوں پھر خیال آیا نہ معلوم ڈبل روٹی سے اس کا پیٹ بھر ے گا یا نہیں۔ میں نے کل والی پرات نکال کے اسے دی۔ ’’چائے پیتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی نہیں‘‘ جواب ملا۔
میں نے سالن نکال کر اُسے دیا اور ٹرالی کھینچ کر کھانے والے کمرے میں لے گئی۔ جس بچے نے جو کھانا تھا کھلایا اور سکول روانہ کیا۔ دل میں مسلسل جستجو سی تھی کہ دیکھوں جاوید نے کتنی روٹیاں بنائی ہیں۔ بہانے سے باورچی خانے میں گئی۔ پرات خالی تھی اور پانچ چھ موٹی موٹی روٹیاں بنی ہوئی تھیں اور وہ سالن گرم کر رہا تھا۔
’’جاوید ٹرالی باورچی خانے میں لے آنا اور برتن دھو چھوڑنا۔‘‘
’’بہتر‘‘ جواب ملا۔
میں واپس آگئی چلو پانچ چھ تو ہضم ہو ہی جائیں گی ۔ میں کچھ کچھ مطمئن تھی۔ دوپہر کو میں نے تو بچوں کے لیے چاول بنالیے۔ جاوید کو روٹی کا کہہ دیا۔ اب یہ حال کہ کمرے میں دل ہی نہ لگے۔ یہی دل چاہے کہ دیکھوں آج کتنی پکائی ہیں۔ گیٹ پر بیل ہوئی میں جلدی سے باورچی خانے میں گئی۔ ’’جاوید دیکھو باہر کون ہے؟‘‘ جونہی وہ باہر نکلا میں نے روٹیوں کی ٹیشی گنی۔ سات روٹیاں تھیں۔ اتنی دیر میں جاوید آگیا۔
’’جی یہ خط آیا ہے۔‘‘
اس نے پکڑایا میں بیڈ روم میںآگئی۔ ایک ہفتہ یہی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ جونہی جاوید روٹیاں بناتا میں بہانے سے اُسے باہر بھیج کر گنتی مگر میں نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ روٹیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اور ان کی شکل بھی بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ اس دن تو میں حیران رہ گئی جب جاوید کی پلیٹ میں صرف تین روٹیاں تھیں اور اس نے مجھے کہا تھا ۔ ’’باجی آپ سالن بہت زیادہ دیتی ہیں مجھ سے اتنا کھایا نہیں جاتا۔‘‘ اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اس کی بھوک ختم ہو گئی ہے اور یہ نارمل ہو گیا ہے۔
چند ہی ہفتوں میں میں نے محسوس کیا کہ جاوید ہر کام بہت شوق سے سیکھتا بھی ہے اور اسی طرح کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ رنگ بھی نکھرتا جا رہا تھا اور صورت بھی خوب اچھی ہوتی جا رہی تھی۔
ایک دن دوپہر کا کھانا کھا کر نماز پڑھ کر لیٹی ہی تھی کہ بیٹا آیا اور کہا۔
’’امی باورچی خانے میں جاوید آپ کو بلا رہا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’معلوم نہیں۔‘‘
اور وہ باہر نکل گیا میں باورچی خانے میں گئی وہ سٹول پر بیٹھا تھا مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’آج شب بارات ہے۔‘‘ بولا۔
’’تو کیا؟‘‘ مجھے سمجھ نہ آئی۔
’’آج حلوہ بنا کر سارے گھروں کے کوارٹروں میں دیں گے۔‘‘
’’مجھے تو بنانا نہیں آتا سعیدہ باجی سے پوچھ کر تمھیں بتاتی ہوں تم بنا کر سب کو دے دینا۔‘‘
باجی سے پوچھا ۔ ’’بھئی جتنی سوجی ہو اتنی چینی۔ پہلے گھی میں پانچ چھ سبز الائچیاں کھول کر ڈالو پھر سوجی ڈال کر بھون لو۔ جب خوشبو آنی شروع ہو جائے ، سوجی ہلکی برائون ہوجائے تو چینی ڈال کر اندازے کا پانی ڈال کر پکا لو۔ اتارنے سے پہلے بادام، پستہ وغیرہ باریک کرکے ڈال لو۔‘‘
میں نے یہی کہانی جاوید کو سنائی اور پانچ سو روپے دیے کہ بازار سے چیزیں لا کر بنا لے اور خود جا کر سو گئی۔ سو کر اٹھی تو عصر کی نماز پڑھی ۔ ایک سپارہ پڑھا اتنے میں بچے بھی سو کر اٹھ چکے تھے وہ میرے کمرے میں آئے۔ ان کے لیے دودھ اور اپنے لیے چائے بنانے باورچی خانے میں گئی۔ اندر داخل ہوئی تو سکتہ سا ہو گیا۔ ایک بڑا پتیلا چولہے پر نیچے دھڑا دھڑ آگ، اندر پتلی سی سوجی جو ابل ابل کر فرش پر چھینٹے بکھیر رہی تھی اور جاوید سہما ہؤا کونے میں کھڑا تھا۔ سب سے پہلے تو جلدی سے آگ بند کی اور خود دروازے کے قریب کھڑی ہو گئی۔ آہستہ آہستہ چھینٹے ختم ہوئے تو پتیلا حلوے سے بھرا ہؤا تھا۔
’’جاوید سوجی کتنی تھی اور پانی کتنا ڈالا تھا ۔‘‘ میں سخت پریشان تھی۔

’’جی سوجی تو ایک کلو تھی، پانی آپ نے اندازے کا بتایا تھا وہ میں نے ڈالڈے کے بڑے دو ڈبے ڈال دیے تھے۔‘‘
خدایا چھوٹی سی لا پروائی کا یہ نتیجہ! اگر میں اندازہ بھی بتا دیتی تو یہ حشر نہیں ہونا تھا۔ دو پتیلے اور نکالے۔ پتلی سوجی کو ان پتیلوں میں ڈالا اور سب کے نیچے آگ لگا کر کوئی دو گھنٹوں میں پانی سکھایا۔ پھر جاوید ہی سے پچاس ساٹھ نان منگوائے اور اسے کہا کہ سارے گھروں کے کوارٹروں میں دے آئو۔
وقت گزرتا جا رہا تھا جاوید نے تقریباً تمام کام ہی سنبھال لیے تھے۔ باورچی خانے میں وہ اتنی خاموشی سے کام کرتا کہ بعض مرتبہ جا کر دیکھنا پڑتاکہ وہ اندر ہے بھی یا نہیں۔ نہ کوئی گلاس ٹوٹتا نہ پلیٹ، نہ چمچ گم ہوتے نہ چھریاں چھلکوں کے ساتھ ڈسٹ بن میں پھینکی جاتیں، سائیکل اسے لے دی تھی باہر کے سودے بھی وہی لاتا۔ کبھی انڈا نہ ٹوٹا نہ کبھی حساب میں غلطی ہوئی۔
اسی طرح تیرہ سال گزر گئے۔ بچے کالجوں میں پہنچ گئے۔ جاوید کی میں نے شادی بھی کر دی۔ شادی اس کی خالہ کی بیٹی سے ہوئی خیال تو تھا کہ بیوی ہمارے پاس ہی آجائے گی مگر جاوید نے بتایا کہ آزاد کشمیر کا رواج ہے کہ عورتیں اپنا گائوں نہیں چھوڑتیں۔ تقریباً ہر دوسرے تیسرے مہینے وہ ایک ہفتے کے لیے چلا جاتا اور میں بھی اسے جانے دیتی کہ چلو باقی ہفتے تو آرام سے گزرتے ہیں۔
اس دفعہ جب یہ کشمیر سے واپس آیا تو میں نے محسوس کیا کہ جاوید کچھ زیادہ ہی چپ چپ ہے۔ پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک چچا کویت میں ہے اس نے کہا ہے کہ جس کمپنی میں وہ کام کرتا ہے وہاں خانسامے کی ضرورت ہے۔ تنخواہ بھی معقول ہے وہ آجائے۔ ظاہر ہے میں تو اتنی تنخواہ نہیں دے سکتی تھی چنانچہ اسے اجازت دے دی۔ وہ مجھ سے تنخواہ کے علاوہ بیس ہزار ادھار لے کر گھر چلا گیا اور یہ کہہ گیا کہ جب تنخواہ ملے گی وہ کسی آتے جاتے کے ہاتھ پیسے بھجوا دے گا۔ بہت عرصہ مجھے جاوید بہت یاد آتا رہا۔ شروع میں تو جو کام بھی کرنا پڑتا وہ زیادہ ہی یاد آتا۔ اس دوران بہت سے نوکر آئے بھی اور گئے بھی۔ برتن بھی خوب ٹوٹنے شروع ہو گئے۔ چھریاں چمچ بھی غائب ہونے لگے۔ سودے میں سے پیسے بھی مارے جانے لگے۔ اور بہت سال گزر گئے اس دوران کوئی آدمی بھی ایسا نہ آیا جو جاوید کا قرضہ لاتا۔ بچوں کی شادیاں ہو گئیں۔ ان کے بچے بھی سکولوں میں پہنچ گئے۔ میں کبھی بیٹے کے گھر کبھی بیٹی کے پاس جس کو میری جب ضرورت ہوتی میں کپڑے اٹھاتی اور اسی کی ضرورت پوری کرنے پہنچ جاتی۔
جب میرا داماد سعودی عرب چلا گیا تو پھر مجھے مستقل بیٹی کے پاس رہنا پڑا۔ ایک دن بیل ہوئی۔ کام والی چھوٹی لڑکی میرے پاس آئی۔ ’’آپ کو کوئی باہر بلا رہا ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پتا نہیں کوئی سفید سا داڑھی والا آدمی ہے، ہاتھ میں موبائل ہے۔ سفید کپڑے ہیں، چمکدار جوتے ہیں۔‘‘ اس نے تفصیل سے حلیہ بتایا۔
’’پہلے نام پوچھو پھر یہ پوچھو کہ کام کیا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد آئی۔ ’’جی وہ کہتے ہیں کام تو کچھ نہیں صرف آپ سے ملنا تھا اور نام جاوید بتایا ہے۔‘‘
جو حلیہ اس نے بتایا تھا اس سے مجھے سوچنا پڑا کہ یہ کون سا جاوید ہو گا۔ بہرحال میں گیٹ کے قریب گئی۔
اس آدمی نے جھک کر سلام کیا۔ آواز سے میں فوراً پہچان گئی کہ یہ کون ہے۔جاوید کو دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ ’’تمھیں اس گھر کا پتا کس نے بتایا؟ تم پاکستان کب آئے؟ اتنے سال کہاں رہے؟ کتنے بچے ہیں؟‘‘
میں نے اس سے بہت سے سوال اکٹھے کر دیے اور اسے لے کر برآمدہ میں ہی چلی گئی۔ میں کرسی پر بیٹھ گئی وہ کچھ دیر کھڑا ہی رہا۔ ’’بیٹھ جائو۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ بیٹھ گیا پھر اس نے بتایا کہ گھر کا تو پتااس طرح لگا کہ پہلے وہ ہمارے آبائی گھر گیا وہاں پرانا نوکر ہی کام کرتا ہے جو جاوید کے گائوں کا ہی ہے اس نے صائمہ کے گھر کا بتایا اور پاکستان پکا وہ تب آیا جب زلزلہ

آیا اور اس کا گھر بالکل تباہ ہو گیا۔ اللہ نے بیوی بچوں کو تو بچا لیا وہ اس وقت کسی رشتہ دار کے گھر گئے ہوئے تھے مگر ماں اس حادثے میں فوت ہو گئی۔ پھر وہ اسی جگہ محنت مزدوری کرتا رہا۔ گھر کھڑا تو ہو گیا ہے مگر مکمل نہیں ہؤا۔ اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ لاہور نوکری کرے گا اور گھر خرچہ بھی بھیجے گا اور اس کی مرمت بھی کروائے گا۔
بچے چار ہیں جو سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ اس کی بات سنی تو سوچ میں پڑ گئی۔ بیٹی کے تو کام والے پورے تھے اسے وہاں تو رکھا نہیں جا سکتا تھا۔ البتہ بیٹے نے صائمہ کے ساتھ والا گھر خرید لیا تھا مگر ابھی وہ امریکہ سے واپس نہیں آیا تھا۔ اس کا پروگرام تو یہ تھا کہ بچے اور بیوی مستقل پاکستان میں رہیں خود وہ امریکہ ہی نوکری کرے اور آتا جاتا رہے۔
’’جاوید تمھیں گاڑی چلانی آتی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی آتی تو نہیں مگر میں سیکھ لوں گا … ‘‘ کچھ دیر ٹھہر کر آہستہ سے بولا۔
’’آپ مجھے جو مرضی تنخواہ دے دیں میں اب پھر آپ لوگوں کے پاس ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں سب کچھ کر لوں گا۔ کھانا بھی بنا لیا کروں گا۔ گاڑی بھی چلانی سیکھ لوں گا۔ آپ مجھے رکھ لیں۔‘‘ اس نے التجا کی۔
’’جاوید تمھیں تو پتا نہیں ہو گا کہ صائم اور اس کی بیوی بچے امریکہ میں ہیں یہ ساتھ والا گھر صائم نے خرید لیا ہے۔ دو ماہ تک گھر والے گھر چھوڑ دیں گے تو صائم بیوی بچوں کو لے کر آجائے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کے لیے کوئی قابل اعتبار ڈارئیور ہو تم اس دوران گاڑی چلانی سیکھ لو۔ اپنا سیل نمبر مجھے دے دو جونہی گھر خالی ہؤ ا صائم وغیرہ آجائیں گے میں تمھیں اطلاع دے دوں گی تم آجانا۔‘‘
اتنی دیر میں لڑکی جاوید کے لیے روح افزا بنا لائی۔ جتنی دیر میں وہ روح افزا پی رہا تھا میں اندر سے کچھ ہزار روپے لے آئی جو اسے دیے کہ وہ گھر کی کوئی چیز بنا لے۔ وہ موبائل نمبر دے کر خوشی خوشی چلا گیا۔ میں نے پہلا کام یہ کیا کہ صائم کو امریکہ فون کیا اور یہ خوشخبری سنائی کہ جاوید واپس آ رہا ہے۔ ’’امی آپ نے اسے ابھی رکھ لینا تھا۔‘‘ صائم بہت خوش تھا۔
’’پہلے ہی اتنے کام والے یہاں ہیں ایک اور کا اضافہ کاہے کو کر لوں۔ جب تم آئو گے تو میں اسے بلا لوں گی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
پورے دو ماہ کے بعد صائم کا گھر خالی ہو گیا ۔ سب سے پہلے میں نے دونوں گھروں کی دیوار نکلوائی۔ اب اندر سے دونوں گھر ایک ہو گئے۔ سفیدیاں کروائیں، کھڑکیوں کو پالش کروایا۔ ادھر صائم امریکہ سے روانہ ہؤا ادھر میں نے جاوید کو فون کرکے لاہور بلا لیا۔ چند دنوں میں گھر سیٹ ہو گیا۔ صفائی، کپڑے دھونے، استری کرنے یہ کام تو صائمہ کی ماسیوں نے ہی سنبھال لیے۔ باورچی خانہ جاوید نے سنبھال لیا۔ میں نے دیکھا کہ روزانہ جب جاوید باورچی خانے میں آتا تو کپڑے بدلے ہوئے استری شدہ، پالش کی ہوئی چپل، کنگھی پٹی کی ہوتی۔ باورچی خانے میں گھستے ہی ایپرن باندھتا پھر کام شروع کرتا۔ سارا دن ایپرن بندھا رہتا۔ سوائے اس وقت اترتا جب اس نے نماز پڑھنے مسجد جانا ہوتا۔
ایک دن میں نے ATMسے پیسے نکلوانے تھے۔’’جاوید تم اب گاڑی چلا لیتے ہو نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی‘‘ اس نے بہت اعتماد سے جواب دیا۔
’’تو چلو ذرا بنک تک چلتے ہیں۔ میں نے پیسے نکلوانے ہیں۔‘‘
میں تو برقعہ پہننے کمرے میں آئی جب میں واپس باورچی خانے میں گئی تو جاوید غائب۔ میں سمجھی شاید گاڑی نکالنے چلا گیا ہے میں پورچ میں گئی گاڑی کھڑی تھی میں دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی اور جاوید کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ کافی دیر ہو گئی تو میں نے زور سے ہارن بجایا۔ تھوڑی دیر کے بعد جاوید تیز تیز قدموں سے گاڑی کی طرف آ رہا تھا۔
واہ کیا شان!! سفید براق استری کیے ہوئے کپڑے، چمکتے بند جوتے، نئے سرے سے کنگھی کی ہوئی اور آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پہلے دو ہارن دیے۔ باہر جو چوکیدار بیٹھا تھا اس نے فوراً گیٹ کھول دیا۔یہ گاڑی نکال کر باہر آگیا مگر جس طرح اس نے گاڑی نکالی مجھے فوراً سمجھ آگئی کہ ابھی یہ اس قابل نہیں کہ بچوں کو اس کے ساتھ بھیجا جائے اور شاید مجھے بھی ابھی بیٹھنا نہیں چاہیے تھا مگر صرف اس لیے کہ اس کا اعتماد نہ

ختم ہو جائے میں بیٹھی رہی۔ وہ بسم اللہ بسم اللہ کہتا ہؤا گاڑی چلانے لگا، آگے پیچھے ، دائیں بائیں جو بھی سواری گزر رہی تھی مجھے یہی لگتا تھا کہ ابھی ٹکرائی کہ ٹکرائی۔ اب جاوید تو بسم اللہ بسم اللہ اونچی اونچی پڑھ رہا تھا اور میں سر جھکائے لا الہٰ الا اللہ پڑھ رہی تھی۔ بنک ہمارے گھر سے تقریباً تین یا ساڑھے تین منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ وہ سفر کتنا لمبا لگ رہا تھا اور میرے دل کا کیا حال تھا یہ صرف میں یا میرا اللہ ہی جانتے تھے۔ اچانک زور سے بریک لگی اور گاڑی جھٹکے سے رُکی اور جاوید نے زور سے ’’شکر الحمدللہ‘‘ کہا تو میں نے دھڑکتے دل سے سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ ’’مسلم کمرشل بنک ATM‘‘ کا بورڈ سامنے ہی تھا۔ میں خشک گلے اور خشک ہونٹوں کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتی ATM کے کمرے میں گئی اور کارڈ مشین میں ڈالا۔ خوف کے مارے یہ حال کہ pinہی بھول گیا۔ اب سوچنے لگی وہ نمبر کیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یاد آجائے تو یاد آیا کہ جب Debit card(ڈیبٹ کارڈ) بنوایا تھا تو بیٹے نے مشورہ دیا تھا کہ ’’امی آپ اپنی Date of birth (تاریخ پیدائش الٹا کرکے پن نمبر بنوا لیں وہ آپ کو بھولے گا نہیں چاہے آپ جتنے مرضی وقفے کے بعد پیسے نکلوائیں۔‘‘یہ بھی اللہ کا کرم تھا کہ یہ بات یاد آگئی ورنہ جو میرا حال تھا مجھے یہ بات بھی یاد نہیں آنی تھی۔ اب پیسے تو نکلوا لیے دل یہی چاہے کہ جاوید کو کہوں کہ وہ تو گاڑی لے کر گھر چلا جائے میں رکشہ لے کر آجائوں۔پھر خیال آیا اگر آج کی رات قبر میں آنی ہے تو وہ تو رکشے کی وجہ سے بھی آجائے گی، اور دعائیں مانگتی اور منتیں مانگتی بیٹھ گئی کہ اللہ میاں مجھے خیریت سے گھر پہنچا دے۔ اتنے نفل پڑھوں گی اور تیرے نام پر اتنے روپے دوں گی۔ اب سفر پھر شروع ہو گیا۔ جاوید تو بسم اللہ کا ورد کرتا گاڑی چلا رہا تھا اور میں رب یسر ولا تعسر وتمم بالخیرپڑھ رہی تھی۔اللہ تعالیٰ نے خیریت سے گھر پہنچا دیا۔
گھر پہنچ کر سیدھی فرج کے پاس گئی ۔ فرج کھول کر بوتل کو ہی منہ لگا لیا اور آدھی بوتل ٹھنڈے پانی کی پی گئی پھر بستر پر بے دم لیٹ گئی۔ گھر میں میں نے کسی کو بھی کچھ نہ بتایا۔ رات جب جاوید نے باورچی خانے کا کام ختم کر لیا اور وہ مجھے یہ کہنے آیا کہ وہ اپنے کوارٹر میں جا رہا ہے اندر سے دروازہ بند کر لیں تو میں نے اسے ایک ہزار روپیہ دیا۔
’’جاوید ابھی تمھاری پریکٹس اتنی نہیں ہے کہ بچوں کو بھیجا جائے یہ ہزار روپیہ لے لو گاڑی میں گیس بھروا لیا کرنا۔ پہلے دو ہفتے تم غلام رسول (صائمہ کا ڈرائیور) کے ساتھ صبح فجر کی نماز پڑھ کر نکل جایا کرو ، ناشتے تک مختلف جگہوں پر گاڑی چلائو۔ پھر دو ہفتوں کے بعد تم اکیلے گاڑی لے کر جانا اور دور دور تک چلانا۔ ایک مہینے کے بعد میں پھر تمھارا ٹیسٹ لوں گی پھر بچے جائیں گے۔ یہ ہزار ختم ہو گیا تو اور لے لینا۔‘‘
گھر والوں کو کہہ دیا کہ ابھی بچے اس کے ساتھ نہ جائیں جب تک میری تسلی نہیں ہو جاتی۔ رات کوارٹر میں جانے سے پہلے جاوید مجھے روزانہ کی رپورٹ دیتا کہ اس نے لاہور کے کس کس حصے میں گاڑی چلائی ہے۔ مہینے کے بعد ایک دن میں نے غلام رسول کو بلایا اور پوچھا کہ جاوید کیسی گاڑی چلاتا ہے۔اس نے جواب دیا ۔ ’’جی اب بالکل ٹھیک چلاتا ہے۔ کل تو صبح میں اس کے ساتھ پھرتا رہا۔ میں نے تو کہا ہے کہ اب مٹھائی کھلائو اور گھر کے بندوں کو تم ہی لائو اور لے جائو۔‘‘ جاوید پاس کھڑا مسکرا رہا تھا۔ میں نے اسے پیسے دیے کہ مٹھائی خود بھی کھائو، غلام رسول جو تمھارا استاد ہے اسے بھی کھلائو اور باہر کے چوکیداروں کا بھی منہ میٹھا کروائو۔
میںمصروفیت کی وجہ سے ابھی جاوید کے ساتھ گاڑی میں نہیں بیٹھی تھی۔
ایک دن صبح صبح صائمہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی ہمارے گھر آئی۔’’امی رات غلام رسول اپنے گائوں چلا گیا ہے اس کا کوئی قریبی رشتے دار فوت ہو گیا ہے۔ مومنہ کا سکول سات بج کر دس منٹ پر لگ جاتا ہے مومنہ اور نور (میری پوتی) جاوید کے ساتھ چلی جائیں۔‘‘
اور وہ واپس چلی گئی ، میں نے سوچا ابھی تک جاوید بچوں کو لے کر سکول نہیں گیا تھا۔ نور اور مومنہ دونوں کریسنٹ ماڈل سکول میں پڑھتی تھیں۔ چلو میں ساتھ ہی بیٹھ جائوں گی اور اُنھیں چھوڑ آئوں گی۔ باورچی خانے میں گئی۔ ’’جاوید تم جلدی سے ناشتہ کر لو مومنہ اور نور کو سکول تم نے چھوڑنا ہے میں ساتھ جائوں گی۔‘‘
میں بات ہی کر رہی تھی کہ مومنہ یونیفارم پہنے سکول کا بیگ اٹھائے

آگئی۔’’نانی اماں نور تیار ہو گئی ہے؟‘‘
’’ہاں ہو گئی ہے تم بیٹھ جائو جاوید ناشتہ کرلے۔‘‘
ہم دونوں لائونج میں بیٹھ گئیں۔ نور بھی تیار ہو کر آ کر بیٹھ گئی۔ ’’نانی اماں سات دس پر سکول گیٹ بند ہو جاتا ہے پھر جو بھی اندر آئے اس کو جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے اور ڈانٹ بھی کھانی پڑتی ہے۔‘‘
اس نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔ لائونج کی گھڑی پر سات بجنے میں پانچ منٹ تھے۔ سکول قریب ہی تھا پانچ چھ منٹ کی ڈرائیور تھی۔ ’’بس جاوید ناشتہ ختم کر رہا ہے۔ ‘‘
میں باورچی خانے میں گئی جاوید وہاں نہیں تھا۔ میں نے جلدی سے برقعہ پہنا اور پرس پکڑا۔’’دیکھو جاوید گاڑی میں تو نہیں بیٹھا ہؤا؟‘‘
میں نے مومنہ سے کہا۔ وہ بھاگ کر پورچ میں گئی پھر ہانپتی واپس آئی۔ ’’نہیں نانی اماں وہاں نہیں۔ ہائے اللہ آٹھ منٹ رہ گئے گیٹ بند ہونے میں۔‘‘ وہ پریشان ہو رہی تھی۔
’’کوئی بات نہیں پانچ منٹ میں ہم ان شاء اللہ سکول پہنچ جائیں گے۔‘‘ میں نے تسلی دی۔
وہ بے چین کبھی اٹھے کبھی بیٹھے کبھی گھڑی دیکھے۔ ’’نانی اماں یہ جاوید بھائی کہاں ہیں اب تو چھ منٹ رہ گئے ہیں۔‘‘
وہ رونے والی تھی۔ میں خود پریشان تھی۔ کوارٹروں میں بیل لگوائی ہوئی تھی جس کا پوائنٹ لائونج میں تھا میں نے دو مرتبہ زور زور سے بجائی، جاوید پھر بھی نہ آیا۔ ’’ہائے اللہ میں کیا کروں آج ہماری بیڈمنٹن کی ٹیم کی سلیکشن بھی تھی ہائے میں رہ جائوں گی۔‘‘
اس نے رونا شروع کر دیا۔ ’’یا اللہ یہ جاوید کہاں ہے کوارٹر میں بیل بھی کی ہے۔‘‘
میں خود بے حد پریشان تھی کیا اُسے میری بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اس نے بچوں کو لے کر جانا ہے۔ ’’نانی اماں اب میں سکول نہیں جائوں گی۔ گیٹ بند ہونے میں صرف دو منٹ ہیں۔ ہم کیسے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔
’’مومنہ یہ گھڑی پانچ منٹ پیچھے ہے یہ سات بج کر آٹھ منٹ نہیں ہیں، یہ سات بچ کر تیرہ منٹ ہو چکے ہیں اور ابھی ہم گھر ہی ہیں۔‘‘
نور نے پتے کی وہ بات مومنہ کو بتائی جس کا اسے پتا نہیں تھا۔ اس کی چیخیں اور بھی بلند ہو گئیں اور وہ روتی روتی گھر چلی گئی۔
’’دادی اماں اب میں بھی یونیفارم اتار دیتی ہوں۔‘‘ نور نے کہا اور اپنے بیڈ روم کی طرف چلی گئی۔
میں حیران پریشان لائونج میں کھڑی تھی۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور جاوید اندر آیا۔ استری شدہ کپڑے، چمکدار پالش کیے بوٹ، تیل لگا کر اچھی طرح سیٹ کیے ہوئے بال۔’’جاوید اب تم کپڑے بدل لو مومنہ تو روتی ہوئی گھر چلی گئی ہے اور نور نے بھی یو نیفارم اتار دیا ہے۔ دونوں کو سکول سے دیر ہو گئی تھی۔‘‘
میں دل میں جاوید سے بہت ناراض تھی۔ ’’جاوید تمھارے کپڑے اچھے بھلے تھے تم بدلنے کیوں چلے گئے اور انھیں دیر کروا دی؟‘‘
میں نے ناراضگی سے پوچھا۔
’’جی مجھے خیال آیا بچوں کی سہیلیاں یہ نہ کہیں کہ اُن کا ڈرائیور اچھے کپڑوں میں نہیں ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ بعض دفعہ کوئی جاننے والا بھی وہاں مل سکتا ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے اپنی رام کہانی سنا دی۔
جلد ہی مجھے یہ پتا چل گیا کہ بجلی یا گیس کا بل جمع کرانا ہو، بنک سے پیسے لینے ہوں، ATMسے پیسے نکلوانے ہوں، بچوں نے سکول جانا ہو، کسی درس یا رشتے دار کے گھر جانا ہو پندرہ منٹ پہلے جاوید کو بتانا پڑے گا تاکہ وہ اپنے حساب سے سج بن کر تیار ہو جائے اور تمام کام وقت پر ہو سکیں۔
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x