انوکھا البم – شاہدہ اکرام
کہانی کے کردار ہماری آنکھوں دیکھے ہیں ۔ کچھ موجود ہیں کچھ ملک عدم کو سدھار گئے ۔ ان میں دیہاتی اور شہری تڑکے کا
کہانی کے کردار ہماری آنکھوں دیکھے ہیں ۔ کچھ موجود ہیں کچھ ملک عدم کو سدھار گئے ۔ ان میں دیہاتی اور شہری تڑکے کا
للہ بھلا کرے مدیرہ بتول کا جنہوں نے برسوں سے اُبلتے دماغی لاوہ کو قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے لیے ایسا اچھوتا عنوان
گڈو کی آنکھ نور کے تڑکے ہی کھل جاتی ،سماں ہی کچھ ایسا ہوتا۔ کانوں میں مدھر، دلکش اور مسحور کن ساز اور آوازکی سنگت
جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی ،تینوں بڑے بچوں نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی ، شازیہ نے کچن سے آواز لگائی ’’ کون ہے
حویلی کا آہنی گیٹ دھڑا دھڑ بج رہا تھا ، ڈھول کی تھاپ، گھنگھرئوں کی جھنکار اور تالیوں کی زور دار آوازیں سماعت سے ٹکرا
پورے گائوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ گھر گھر مٹھائیاںتقسیم ہونے لگیں ۔ چوہدری احتشام نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ حویلی کے
گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی ہے ۔ یہ ان کی دس بارہ سالہ زندگی کا پہلا سفر ہے۔ شب ہجر نے چاروں طرف سیاہ چادر
آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان (ڈاکٹر ممتاز عمر ، کراچی) وائے قسمت دید کو ترسیں گی آنکھیں عمر بھر بن کے ابرِ خوں فشاں برسیں
’’اّماں، امّاں، جلدی آؤ، دیکھو تو بوا رحیم بی بی نے کیسے اپنے سر پر خاک ڈالی ہوئی ہے……مٹی میں بیٹھی ہیں اور انگلیوں سے
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk