ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام ’’آہنگِ باز گشت‘‘ کا ایک باب – بتول اگست ۲۰۲۲

وہ کیا عوامل تھے جو مسلمانوں کو یہاں تک لے آئے تھے ۔ روز مرہ کی زندگی میں تو چند اہم وغیر اہم حقوق و مراعات کے لیے جدوجہد تھی لیکن ذہنوں کی گہرائیوں میں حفاظت ملی کا جذبہ اور عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی تمنا کار فرما تھی۔ ہر تحریک نے حکمرانوں کے دبدبہ کو کم کیا اور مسلمانوں میں احساس خوداری پیدا کیا ۔ خلافت کی تحریک نے مسلمانوں کی نگاہ کو ہندوستان کی سرحدوں سے باہر تک وسیع کر دیا ۔ سرخ پوشوں نے انگریز کے دبدبے کو وہاں دھچکا لگایا جہاں اُس نے اپنی پوری عسکری قوت مجتمع کر رکھی تھی ۔ احرار نے تحریکِ آزادی کو گھر گھر پہنچا دیا ۔ خاکساروں نے خلافتِ ارضی کے نام پر مسلمانوں کے عزائم کو بے باکی اور خدمت خلق کے نام پر اُن کی نگاہ کو عفت عطا کی ۔ آج اُن تحریکوں کے نفع و نقصان کے گوشوارے زیر مطالعہ آتے ہیں تو لوگ انہیں وقت اور خون کا زیاں سمجھتے ہیں ۔ہر انفرادی تحریک کے ابھار اور انحطاط پر غور کرنے پر شاید یہی تصور ابھرتا ہو لیکن بہتی ہوئی ندی کو ایک مقام پر رُک کر دیکھیے تو لہریں اُبھرتی ، کناروں سے ٹکراتی اورمٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن یہی لہریں ندی کے بہائو کی دلیل ہیں ۔ ان ابھرتی ہوئی اورمٹتی ہوئی لہروں کا قریب سے تماشا کرنے کے بعد آج جب نصف صدی گزرنے پر ، پھر میری نگاہ ایک وسیع تر منظر پر پڑتی ہے تو مجھے یہ دریا ایک ہی سمت رواں دواں نظر آتا ہے۔
نقشِ نوی
مسلم لیگ کا قافلہ بھی 23مارچ 1940ء کو اسی دریا کے کنارے خیمہ زن ہؤا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے تاریخ ایک طویل اور دلچسپ سفر طے کر چکی تھی۔ جب تک اس نیم براعظم پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی اُن کی جدا گانہ ہستی بن کہے مسلم رہی۔ اُنہیں کسی دوسری قوم کے خلاف کسی آئینی تحفظ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ سلطنت کی بقا ہی اُن کا تحفظ تھی ۔ چنانچہ جو دو چار تحریکیں انہیں دوسری اقوام میں مدغم کرنے کو ابھریں وہ تھوڑی تھوڑی دور چل کر ختم ہو گئیں۔
یہ کوشش فی الواقعہ تین سطحوں پر ہوئیں ۔ بادشاہوں ، درویشوں اور عامتہ الناس کی سطحوں پر ۔ بادشاہوں کے حلقے میں ملتوں کے ادغام کا اولین داعی اکبر تھا جس نے ایک نئے دین کی بنیاد رکھی ۔ اس نے سمجھا کہ مذہب کچھ فارمولوں کا نام ہے ۔ کہیں سے تھوڑی سی پوجا پاٹ اور کہیں سے پُن دان لے کر ایک مرکب تیار کیا جا سکتا ہے جو ہر جی کے لیے یکساں قابلِ قبول ہو۔ اکبر کی یہ کوشش بالآخر ناکام ثابت ہوئی اور اس کا وضع کردہ دین خود اس کے دربار کی حدود میں بھی فروغ نہ پا سکا اگرچہ دبدبہ شہی کے ساتھ ساتھ اُسے بعض علما کا علم بھی میسر آگیا تھا ۔ بہر کیف جس فرقے کو خوش کرنے کا اہتمام تھا وہ خود اس سے متاثر ہؤا۔ آگے چل کر اکبر ہی کی پشت سے داراشکوہ پیدا ہوئے لیکن ان کی ہمہ دوستی جب عرصۂ کارزار میں آزمائی گئی تو اتنی دیر بھی نہ ٹھہر سکی جتنی دیر میں کوئی ہاتھی سے اُتر کر گھوڑے پر سوار ہو۔
درویشوں کی کوششوں میں نانک اور بھگت کبیر کی کوششیں بالخصو ص ذکر کے قابل ہیں ۔ خود داراشکوہ اس تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ گورونانک جی کا فرقہ سو برس کے اندر اندر علیحدہ علیحدہ سپاہیانہ روپ اختیار کرگیا ۔ ایک مغربی مفکر جس کا مشرقی ادیان پر مطالعہ بڑا وسیع تھا ، کہتاہے کہ گورونانک کی کوشش تھی کہ اسلام اور ہندومت میں مطابقت پیدا کردی جائے لیکن اسلام کا فولادہندو مت کی مٹی کے ساتھ یک جان نہ ہو سکا ۔ کبیر کے بول گومدتوں کا نوں میں رس گھولتے رہے لیکن دلوں کو باہم پیوست نہ کر سکے۔
عامۃ الناس کی سطح پر یہی کوشش اس صدی کا اہم ترین سیاسی واقعہ تھا ۔ یہ کوشش 1919 میں اپنے شباب کو پہنچی ۔ ہندوستان کے گلی کوچوں میںہندومسلم ، سکھ ، سب کی زبانوں پر یکساں نعرے بلند ہوئے۔ محبت بھرے معانقے ہوئے ۔ انگریز کے خلاف محبت ویگانگت کی یہ فضا یکسر ختم ہوگئی اور پھر بعد ہر آن بڑھتا چلا گیا۔
یہ طویل منظر کچھ برسوں کے بعد اقبال کے مشہور خطبہ الٰہ آباد میں یوں جھلکا:’’تجربہ بتلاتا ہے کہ ہندوستان میں مختلف فرقوں اور مذہبوں کی وحدتوں نے اپنے جداگانہ تشخص کو ختم کرنے کے لیے کسی رحجان کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ہر گروہ اپنی اجتماعی ہستی کا بڑا شدید احساس رکھتا ہے اور اُس کی نگہداشت میں بڑا غیور اور حریص ہے ۔ اس کثرت میں قوم کی وحدت تلاش کرنے میں اُن کی جدا گانہ ہستیوں سے انکار کرنا اتنا سود مند نہیں جتنا اس کثرت میں باہمی تعاون کا تلاش کرنا ہے۔ صحیح سیاست دانی حقیقتوں کو خواہ وہ کتنی ہی تلخ ہوں پیش نظر رکھنے کا نام ہے ‘‘۔
اقبال کا یہ کہنا درست تھا اس لیے کہ خود ہندوئوں نے اپنی جدا گانہ ہستی کو فنا نہیں ہونے دیا۔ فی الحقیقت آریائی اقوام دوسری سے نپٹنے کے صرف دو ہی طریقے جانتی ہیں ۔ مکمل ادغام یا ابدی فراق ۔ بیرونی عناصر کو یا تو مکمل طور پر ہضم کر لینا یا پھر اُن کو اُگل دینا۔
اُمتِ محمدیہؐ جب ہندوستان میں وارد ہوئی تو اس کا قافلہ قریب قریب مشرقی اور مغربی کناروں پر ایک ہی وقت میں ساحل سمندر پر اُترا۔ مغرب میں فاتحوں کی صورت میں ۔مشرق میں تاجروں اور مبلغوں کی صورت میں ۔
جب متھر ا اور پریاگ کے نیم روشن مندروں میں گھنٹیوں کی مدھم آوازیں آ سیبی فضائیں پیدا کر رہی تھیں ، کراچی اورچٹاگانگ کے ساحلوں پر اذانوں کی صدا گونج رہی تھی ۔ دیبل ، بحیرۂ عرب کا پاسبان تھا اور چٹاگانگ خلیج بنگال کا ۔ چٹاگانگ ، جسے بعض علمائے لسانیات نے عرفوں کا ’’ شط الکنگ‘‘ کہا ہے ، قریب قریب سندھ کے منصورہ کا ہم عصر تھا ۔ منصورہ کی نیو محمد بن قاسم نے ڈالی تھی ۔ یوں اس نیم براعظم کے مغربی اور مشرقی کنارے نور اسلام سے اس وقت نقرئی ہو چکی تھی جب اس کا اندرون ساون کے بادلوں کی طرح سیاہ اور گھنا تھا ۔
یہاں پہنچ کر اسلام ایک ایسے معاشرے سے دو چار ہؤا جس کی فطرت میں پیجیدگی تھی۔پنجاب کے میدانوں میں کچھ عرصہ رہ کر اور رگ وید تصنیف کر کے جب یہ معاشرہ بھارت درشن کے قلب میں اترا تھا تو پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا تھا ۔ انسان تھا تو تہہ در تہہ تقسیم میں مبتلا، روح تھی تو وہ آوا گون کے چکر میں گرفتار تھی ، فلسفہ تھا تو چھ شاخوں میں بٹا ہؤا، عبادتیں تھیں تو وہ دیو مالا میں جکڑی ہوئی تھیں ۔ غرضیکہ سادگی کہیں نہیں تھی ۔ ہر شخص اپنے ہی حلقے کا زندانی ، صناع ، طبیب ، قانون دان ، سپاہی ، کسان ، خدمت گزار ۔ ان میں سے ہر شخص کا ذہن اپنے ہی محدود خلوق خانے میں محبوس تھا ۔ یہ چھوٹے چھوٹے معاشرے بالآخر ایک ایسے معاشرے میں ڈھل گئے جو متفرق انسانوں کا ایک ہیبت ناک مجموعہ تھا۔
لیکن اس معاشرے میں ایک اجتماعی خصوصیت یہ تھی کہ ہر آنے والے کو ایک عفریت کی طرح ہضم کرتا چلا جا رہا تھا اور جو ایک عظیم الہیت تحریک اس کے جبر و استبداد کے خلاف اٹھی اور جس کی قیادت مہاتما بدھ نے کی ، اُسے اپنی انتڑیوں میں مسل چکا تھا ۔ اس کی اسی قوت ہضم کی تعریف پنڈت نہرو نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’ آریائی مذہب حتمی طور پر ایک نسلی قومی مذہب تھا جو اسی سرزمین تک محدود رہا۔ وہ لوگ نہ اپنے مذہب کو پھیلاتے تھے اور نہ اپنی حدود سے باہر جھانک کر دیکھتے تھے اور یہیں ہر نئے آنے والوں اور پرانے بسنے والوں کو ہضم کرتے جاتے تھے ۔ اکثر نئی ذاتیں اُن ہی تازہ واردوں کی جنس خام سے ترکیب پاتی رہیں ۔ ہندوستانی زندگی کا محیط بیکراں خود کفایتی تھا۔ اتنا عظیم اور اتنا مختلف النوع کہ اس میں کتنی ہی لہریں پے بہ پے ابھریں جو ہر شے کو اپنی آغوش میں لیتی رہیں اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس کے ساحلوں کے ورا کیا ہو رہا ہے ۔بالآخر اسی سمندر کے عین قلب سے ایک نیا چشمہ ابلا جس میں سے تازہ اور شفاف پانی کے فوارے چھوٹے ۔ جس نے اس کی سطحوں کو برہم کردیا اور اس کے کناروں پر سے بہہ نکلا۔ یہ چشمہ بدھ کی تعلیمات تھیں ۔ اس نے نہ سرحدوں کی پرواہ کی اور نہ ذات پات کی ۔ نہ وطن کی تمیز روا رکھی ، نہ قوم و ملت کی ۔ یہ اندازِ فکر اپنے وقت کے ہندوستان
کے لیے قطعی اجنبی اور نادر تھا‘‘۔
مہاتما بدھ کا چشمہ صافی زیادہ عرصے تک اس محیط بیکراں کے قلب میں نہ اچھل سکا چنانچہ تبت ، چین ، کوریا اور جاپان تک کی سر زمینوں کو سیراب کر کے یہ چشمہ اپنی ہی سر زمین میں خشک ہو گیا۔
اسلام آیا تو اس کا واسطہ اسی نسلی مذہب سے پڑا ۔ اگرچہ وہ اس محیط بیکراںمیں اُتر رہا تھا تاہم اس میں بلا کی خود اعتمادی تھی ۔ یہ امت جب وجود میں آئی تھی تو مشرکین مکہ سے ٹکرائی تھی ۔ پھر منافقینِ مدینہ سے اور پھر یہود خیبر سے ، قصر و کسریٰ کے عساکر سے ۔ قرآن سب سے پہلے عرب شعرا اور خطبا کی سحر بیانی سے ٹکرایا تھا ۔ پھر باز نظینی اور یونانی فکر سے۔قرآن کی زبان ، لاطینی سے متصادم ہوئی ۔ مسلمان صوفیا، عیسائی راہبوں کے کشف و کرامات کے پول کھول چکے تھے ۔ غرضیکہ یہ قوم عالمگیر معر کے مارتی ہوئی گنگ و جمن و سندھ وراوی کی وادیوں میں قدم رکھ رہی تھی ۔
ہندوسماج کے محیطِ بیکراں کی لہروں میں پھر وہی جنبش پیدا ہوئی ۔ کچھ اُسے ہضم کرنے کی کوشش اور ہضم نہ ہوسکنے کی صورت میں اُگل دینے کی کوشش ۔ ایک خاص قسم کے ہمہ اوست میں غرق کرنے کی سعی ہوئی لیکن مسئلہ اتنا آسان نہیں تھا ۔ اسلام کے تشخص میں توحید نے جونکھار پیدا کر ر کھا تھا اس پر کوئی اور کلونس نہیں جم سکتی تھی اور اس کے فلسفہ شہادت نے اس کے حلقہ بگوشوں کو جس طرح موت سے بیگانہ کر دیا تھا اُس نے انہیں نا قابل تسخیر بنا دیا تھا ۔ اب کی مرتبہ ہندو سماج خود دفاع پر مجبور تھا ۔ چنانچہ اُس نے بحیثیت مفتوح سماج کے اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کی غرض سے اقتصادی اور سماجی چھوت چھات کا وہی حربہ آزمایا جس نے تین ہزار سال قبل اُسے بحیثیت فاتح کے یہاں کی مقامی آبادیوں سے جدا کیے رکھا۔ ہندو فاتح ہو یا مفتوح وہ ہر اس قوم کو ملیچھ( ناپاک) قرار دیتا ہے جو اس کے معاشرے میں ہضم نہ ہو۔ یہ احساس اتنا شدید تھا کہ مسلمانوں کے درباروں میں وزارتیں اور سپہ سالاریاں پانے کے باوجود اُنہوں نے اپنی ہستی کو ’’ بدیشی‘‘ نظریہ حیات کے سپرد نہیں کیا۔ مسلمانوں نے اُن کے اس طرزِ عمل سے کبھی تعرض نہیں کیا۔ جب تک کہ ہندو آبادیوں کی وفاداریاں انہیں حاصل رہیں انہوں نے بالعموم کسی جبر کو خواہ سیاسی ہو یا مذہبی یا ثقافتی ، روا نہیں رکھا بلکہ اس عرصے میں بہت سی ہندو رسوم کو اپنے ہاں رواح دیا ۔ کئی جلیل القدر خاندانوں نے ہندوئوں سے رشتے ناتے میں بھی کوئی قباحت نہ سمجھی۔
وقت گزرتا گیا اور مسلمان خود تساہل ، تعیش اور باہمی خلفشار کا شکار ہوتے گئے ۔ مشہور برطانوی مورخ ایڈورڈگبن نے مشرق کے شاہی خانوادوں کی داستانِ حیات کو پانچ لفظوں میں بیان کیا ہے ۔ جانبازی ، عظمت ، نا چاقی ، ابتدال اور فنا… یہ قول ان پر صادق آ کے رہا تاآنکہ اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک نو وارد قوم کے غلام بن گئے ۔انگریز یہاں آئے بھی اجنبی بن کر اور یہاں رہے بھی اجنبی بن کر۔ انہوں نے نہ یہاں کا مذہب اختیار کیا اور نہ بودو باش۔ نہ اس خطے کو اپنا وطن بنایا چنانچہ ایسی پا بہ رکاب قوم کا جانا (زود یا بدیر) مقدر تھا ۔ یورپ کی پے بہ پے جنگوں نے نو آبادیوں پر اُن کی گرفت نرم کردی تھی اور جس مہیب جنگ کے شعلوں نے اقصائے عالم کو اب کی مرتبہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اس کے بعد دنیا کے نقشے کا تہ وبالا ہونا نوشتہ دیوار کی طرح تھا۔کچھ یہاں بھی تحریکیں یکے بعد دیگرے اس تواتر سے اُبھریں کہ انگریز کا سنبھلنا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔
ہندو نے سمجھ لیا کہ چونکہ بدلے ہوئے نقشے میں بنائے حکومت اس کی تعداد ہو گی اور وہ تعداد میں زیادہ ہے اس لیے اس کی حکمرانی اٹل ہے ۔ ہندو نے ان حالات کے پیش نظر اپنے دو قومی نظریے کو کہ جس پر وہ ایک ہزار برس سے عمل پیرا تھا، یک قلم ترک کردیا ۔ اُدھر مسلمانوں کے لیے اُس خوابیدہ حقیقت کا احساس ضروری ہو گیا ۔ اس لیے کہ ہندو کو غلبہ اس نظریے کے ترک کرنے سے حاصل ہوتا تھا اور مسلمانوں کو تحفظ اس کے اپنانے سے ملتا تھا۔
چنانچہ دونوں نظریوں میں ایک صورت آویزش کی پیدا ہو گئی ۔ یہ آویزش اتنی گہری اور ہمہ گیر تھی کہ اس کا ظہور منڈیوں ، درس گاہوں دفاتر اور عدالتوں میں ہو رہا تھا ۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ذہن اوردل بٹ چکے ہیں چنانچہ ہر شہر میں خون خرابہ ہونے لگا ۔ مسلمان مفکروں کے سامنے چار رستوں میں سے ایک رستے کا انتخاب تھا:
۱۔انگریز کی غلامی میں رہیں … یہ صورت حال غیرت اسلامی اورشرف انسانیت کے خلاف تھی۔
۲۔ ہندو کی غلامی میں چلے جائیں … اس کے خلاف بھی وہی جذبہ کار فرما تھا ۔
۳۔ گلی گلی اور محلے محلے اکثریت سے دست و گریبان رہیں … یہ انگریز کے قیام کو دوام بخشنے پر منتج ہوتا ۔ اس لیے کہ مسلمان جب بھی مسلح ہؤا اس نے ہندو اور انگریز کی متحدہ قوت کو اپنے مقابل پایا۔
۴۔ اب چوتھا راستہ تقسیم وطن کا تھا کہ جس کی بدولت دونوں قومیں اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے پڑوس میں بس سکیں اور کثرت میں وحدت کی بجائے کثرت میں تعاون کی صورت پیدا ہو سکے ۔
یہ حل کسی کے خلاف سازش نہیں تھی۔ اپنے لیے گوشۂ عافیت کی تلاش تھی ۔ پاکستان فی الواقعہ ایک امن کا فارمولا تھا جو ہندوستان کے مخصوص حالات میں اختیار کیا گیا تھا۔اسی لیے خالص اسلامی ممالک مصر، ایران ، عراق وغیرہ جہاں ایسی صورت حال نہیں تھی ، اُسے سمجھنے میں وقت پیش آ رہی تھی اور غیر اسلامی ممالک کا ذہن یکسر اُسے قبول نہیں کر رہا تھا جیسے یورپ کے اکثر ممالک۔ بہر کیف ہمارے لیے غلامی کے بدلے خانہ جنگی میں مبتلا ہونا یا خانہ جنگی سے ڈر کر غلامی پر قانع ہونا خسارے کا سودا ہوتا۔
اس موڑ پر پہنچ کر مسلمانوں کو بڑا اہم فیصلہ کرنا تھا ۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کا دن مسلمانوں کی سیاسی سوچ اور تجربے اور امن خواہی کا نقطہ عروج تھا ۔ تقسیم ملک کا مطالبہ باقاعدہ طور پر پیش کیا گیا اور اس قرارداد کو قراردادِ لاہور کے نام سے موسوم کیا گیا۔
مشکلاتِ لا الٰہ
قرار داد کاپاس ہونا تھا کہ بحث و تکرار ، دشنام و ستائش کے دروازے کھل گئے ۔ بہ مشکل تین ماہ گزرے تھے کہ مہاتما جی نے کہہ دیا ملک میں صرف دو پارٹیاں ہیں ۔ ایک جانب کانگریس اور دوسری جانب اس کے مخالفین اور ان کے حلیف۔ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کوئی صورت نہیں بجز اس کے کہ ان میں سے ایک اپنے آدرشوں کو خیر باد کہہ دے اور دوسرے کا خیمہ بردار بن جائے۔
چنانچہ یہ کہنا کہ قرارداد منفی اندازِ فکر کا نتیجہ تھی تاریخی عوامل کو جھٹلانا ہے ۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کے مستقبل پر پون صدی سے بحث ہو رہی تھی اور اس بحث میں دو بڑے گروہ معرضِ وجود میں آچکے تھے ۔ ایک کہ جس کی قیادت علی گڑھ کر رہا تھا اور دوسرا کہ جس کی قیادت دیو بند کر رہا تھا۔
مختصراً یہ کہ ہندوستان میں مسلم قومیت جن حالات میںمنتقل ہو رہی تھی وہ اور مقامات کے حالات سے زیادہ پیچیدہ تھے ۔ یہاں مسلمانوں کے سامنے دوہرا کام تھا ۔ انگریز کی غلامی سے نجات اور ہندو کی سیاست سے بچائو ۔ ایک مدت سے حالات کچھ اسی طرح صورت پذیر ہو رہے تھے۔ بالا دستی کی جنگ میں انگریز اور وہندو دونوں مسلمانوں کو اپنا اپنا آلۂ کار بنانا چاہتے تھے ۔ مسلمان بہادر بھی تھا اور فراخ دل بھی چنانچہ اس کی مانگ دونوں کیمپوں میں بڑی شدید تھی ۔ اسی کشمکش میں اُن کی اپنی جداگانہ ہستی مٹ جانے کا اندیشہ تھا ۔ چنانچہ مذہب، تاریخ، ثقافت ، سب کی سب خوابیدہ قوتیں ایک ایک کر کے بیدار ہونے لگیں تاکہ ایک علیحدہ تشخص کی تعمیر ہو سکے ۔ لیکن یہ عمل دو متضاد قوتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن گیا ۔ ایک قوت وطن پرستی کی تھی جس کا دامن ایک خاص خطہ ارضی سے بندھا ہؤا تھا ۔ دوسری اسلام کی عالمی اخوت کا تصور تھا ۔ وطن دوستی سے منکر ہونے کا نتیجہ تھا غدار کا لقب پانا اور ہندو اس ضمن میں مسلمانوں کو غدار کہنے سے کبھی نہیں چوکا اور وطن دوست ہونے کا مطلب لیا جاتا تھا ایک محدود خطہ زمین سے ہی وابستہ ہو کے رہ جانا ۔
یہ دونوں تصورات کچھ اس طرح چھا رہے تھے کہ ایک عرصے تک ان پر بحث ہوتی رہی ۔ زیادہ جزئیات میں گئے بغیر یوںسمجھیے کہ علی گڑھ کا نقطہ نگاہ نیشنلزم سے انکار اور مغربی تعلیم کی افادیت کا اثبات تھا ۔ دیو بند کا نقطہ نظر نیشنلزم کا اثبات اور مغربی تعلیم سے انکار تھا ۔ اگرچہ ان دونوں انتہائوں کے درمیان ایک وسیع رقبہ شفق کی مانند تھا تاہم دونوں کناروں کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔
لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ فریب نظر تھا ۔ اس افتراق کے نیچے ایک مشترکہ جذبہ کار فرما تھا ۔ وہ اُمت مسلمہ کے تشخص کا تحفظ تھا۔ سوال ترجیحات کا تھا کہ کون سا محاذ پہلے آراستہ کیا جائے ۔ جس صورتِ حال سے سابقہ پڑا اس میں مسلمان پہلے انگریزوں سے تعاون کرنے پر باہم بٹے۔ پھر ہندوئوں سے تعاون کرنے پر یہ بٹوارہ محض علماء اور عامیوں کے درمیان ہی نہیں تھا ۔ خودعلما دونوں کیمپوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ سر سید کے رفقاء کار بھی کسی دیو بند یا ندوے کے ارباب علم سے کم نہیں تھے۔ جس غیر علما گروہ کے سر خیل امیر علی ، اقبال ،محمد علی اور مشرقی تھے وہ باوجود انگریز کی بہترین درس گاہوں میں تعلیم پانے کے اور انگریزی زبان پر غیر معمولی قدرت رکھنے کے ، دین سے محبت میں کسی مکتبی ملا سے فروتر نہیں تھا۔ تاہم اس کا اپنا اندازِ فکر و عمل تھا ۔ علما میں شبلی ، ابو الکلام آزاد، محمد قاسم نانوتوی، دورِ حاضر کے تقاضوں سے غافل نہیں تھے ۔ سر فرازی اسلام انہیں بھی عزیز تھی ۔ ان سب کی سوچ اور حاصل فکر ملت کی تاریخ کا سرمایا ہے لیکن اگر کسی موڑ پر پہنچ کر ضمیر مسلم نے ایک مکتبہ فکر سے اعراض کر کے دوسرے کو قبول کرلیا تو یہ مسلمان کا بنیادی حق تھا ۔ اس افتراق کو بہانہ بنا کے یہ کہنا کہ سوچنے کا عمل اسلام سے لا تعلق ہو کر ہی ہو سکتا ہے اور اس کے اندر محض جس اور زبان بندی ہے ، غلط ہے ۔ علما کا کام اپنی عقل و بینش کے نتائج کو عوام کے سامنے لانا تھا ، وہ لے آئے انہوں نے کمال ہمدردی اور اسی قدر ضد سے اپنے نقطہ نظر کو قبول کروانے کی کوشش کی لیکن اگر ملت اسلامیہ نے اُن کی سوچ کو مشعلِ راہ نہیں بنایا تو اس میں نہ عوام پر انہیں بگڑنے کی ضرورت ہے اور نہ عوام کو ان کی کردار کشی کا حق پہنچتا ہے ۔ یہ سب بحث جو ایک طرف اقبال اور جناح اور دوسری جانب ابو الکلام آزاد اور حسین احمد کے درمیان ہوئی ، ملت کے سرمایۂ فکر کا ایک قیمتی اور نا قابلِ فراموش باب ہے ۔
٭…٭…٭
مسلمانوں کے اندر ذہنوں کی یہ تقسیم بنیادی تقسیم نہیں تھی چنانچہ جونہی اقبال نے فکر کی دنیا میں اورجناح نے سیاست کے دنیا میں اس مسئلے کا حل پیش کیا پوری قوم ان کے پرچم تلے جمع ہوگئی ۔ اقبال نے علی گڑھ والوں سے کہا کہ جذبِ حرم ہی میں ملت کی زندگی کی ضمانت ہے ؎
جذبِ حرم سے ہے فروغِ انجمن حجاز کا
اہل ِ دیو بند سے کہ جن کے سمبل مولانا مدنی بن چکے تھے کہا؎
سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربیست
یوںعلی گڑھ کو اس کی مغرب پرستی کے خلاف متنبہ کیا اور دیو بند کواس نیشنلزم پر جھنجھوڑا۔ ۱؎
اُدھر سیاست کے میدان میں قائد نے بیک وقت انگریزوں سے کہا کہ ہندوستان خالی کردو اور ہندو سے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم کردو اور یوں ایک طویل اور زہرہ گداز بحث کے بعد مسلمان ایک ایسا فارمولا تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا ماحصل نظری طور پر اسلام کی جانب پلٹنا تھا اور سیاسی طور پر انگریز اور ہندو سے آزادی حاصل کرنا تھا۔
٭…٭…٭
جذباتی طور پر ہندوستان سے قطع تعلق کچھ کم تکلیف دہ امر نہیں تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا نعرہ بلند ہوتے ہی لوگوں کو سر پیر کاہوش نہ رہا وہ جذبات کی ایک پوری دنیا کو اپنی سادہ خیالی سے فراموش کر دیتے ہیں ۔ایک وطن کو توڑنا ، صدیوں کی رفاقت کو ( اور رفاقت بھی ایسی کہ جہاں اسلاف تک مشترک ہوں ) ختم کردینا ، سماجی میل ملاپ اور دکھ درد میں سانجھ کو یک قلم متروک کر دینا بڑے قلبی ہیجان کا موجب ہوتا ہے۔ مسلمانوںکی وہ نسل جس کے ہاتھوں میں پاکستان نے جنم لیا وہ اس ہیجان میں سے گزر رہی تھی ۔ موجودہ نسل کے عامۃ الناس کو چھوڑیے ، اس نسل کے دانشوربھی اس کیف کا صحیح ادراک نہیں کرسکتے ۔ اس لیے کہ یہ ایک واردات تھی جو اسی نسل تک محدود رہی اور جو بعد میں آنے والوں پرنہیں گزری۔
میںجب موجودہ نسل کے اندر اپنے وطن سے بے نیازی دیکھتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ انہیں کہوں ’’ اے کاش تمہیں پہلے ہندوستان سے محبت ہوتی اور پھر تمہارے لیے اس کی تقسیم ناگزیر بھی ہوتی ۔ آپ اقبال کے ساتھ یہ بھی کہتے ؎
اے آبِ رودِ گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا!
اور پھر یہ کہتے ، ’’ (تاریخ کے اس دور میں ) بڑے اہم مفادات دائو پر لگے ہوئے ہیں ۔ تعداد میں ہم سات کروڑ ہیں اور ہندوستان کی ہر دوسری قوم سے زیادہ یک جان و ہم آہنگ ہیں ۔ فی الواقع ہند کے مسلمان ہی اس قابل ہیں کہ جن پر دورِ حاضر کی اصطلاحات میں سے لفظ قوم کا صحیح اطلاق ہو سکتا ہے ۔ ہندو ہر میدان میں ہم سے آگے ہونے کے باوجود ابھی ایسی ہم آہنگی حاصل نہیں کر سکے جو کسی ( انبوہ) کو قوم بناتی ہے اور جو ہمیں اسلام سے مفت ، تحفتاً ملی ہے‘‘۔
آپ نے محمد علی جوہر کو یہ کہتے سنا ہوتا کہ ’’ جہاں ہندوستان اور اسلام کی بات ہو رہی ہوتی ہے میں وہاں دیوانہ ہو جاتا ہوں ‘‘ اور اس کے ساتھ آپ نے روئیدادِ چمن بھی پڑھی ہوتی جس میں اُنہوں نے گاندھی جی کے دام میں الجھنے کے دنوں کی داستان رقم کی ہے۔
آپ قائد اعظم کی اُن مساعی سے واقف ہوتے جو انہوں نے ہندو مسلم سفیر کی حیثیت سے انجام دیں اور پھر اُن سے یہ بھی سنا ہوتا کہ ہماری طرزِ حیات اور ہمارا اندازِ فکر ہمیں علیحدہ قوم بناتے ہیں اور ہم کسی صورت میں بھی کسی غیر کے جو روستم کے تحت زندگیاں گزارنے پر رضا مند نہیں ہوں گے۔
پھر آپ اُن ان گنت اور ان جانے کارکنوں کو بھی جانتے ہوتے جو جوانیاں لے کے انگریز کی جیل میں گئے اور بڑھاپے لے کے لوٹے۔
ایسی صورت میں تقسیم کو کسی نعرے نے حقیقت نہیں بنایا بلکہ جی کے اندر سے اُبھرنے والے طوفان نے جسے مسلم تشخص کہا جا سکتا ہے ہمارے لیے اس تلخا بے کو شیریں بنایا ۲؎ حقیقت یہ ہے کہ قائد نے تقسیم پیدا نہیں کی تھی ، جو موجود تھی اُسے تسلیم کر لیا تھا ۔ اگر یہ افتراق گہرا نہ ہوتا یا حقیقت پر مبنی نہ ہوتا تو کوئی خطابت اُسے ابھار نہ سکتی ۔خطابت تو بلکہ اُن لوگوں کی بے پناہ تھی جو اس جذبے کو اس تازہ اندازہ میں اُبھر تا ہؤا نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔ ابو الکلام آزاد، عطا اللہ شاہ بخاری، حسین احمد مدنی ، مظہر علی اظہر سے بڑے خطیب اور کون تھے ؟
ہندو کی غلامی میں نہ جانے کا یہ جذبہ اتنا صادق تھا کہ خود انگریز سے رستگاری کا انگریز سے دو صدیوں کا تعلق یا اس کے عظیم ادب سے محبت ہمیں اس کی غلامی پر رضا مند نہ کر سکے ۔ نہ شیکسپیئر اور ملٹن کی معجزبیانیاں ، نہ برک اور چرچل کی خطابت ہمارے لیے انگریز کے حلقہ دام کو خوشگوار بنا سکی اور نہ ہڈ سن اور ڈائر کی خون آشامی شعلۂ آزادی کو بجھا سکی ۔ چنانچہ ہندو سے معاملہ کرتے وقت بھی نہ دیر ینہ تعلقات کی کشش اور نہ گیتا ورامائن کی عظمت مسلمانوں کے دلوں سے تقسیم ہندکا جذبہ فرو کر سکی ۔ یہ افتراق اس لیے وقوع میں آیا کہ ایک بڑے جذبے نے ہر چھوٹے جذبے کو اپنے اندر سمولیاتھا۔ ہم پر کہ جو اُن دنوں جو ان تھے شاعری کے ایسے لمحے بھی گزرتے کہ جب دل کہتا ’’ ہائے یہ ملک بٹ جائے گا !‘‘ لیکن جب حقائق کی دنیا میں آتے ہیں تو جی ہی کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی ایک آواز پوچھتی :
کیا بیاباں کی آزادی چمنستان کی قید سے بہتر نہیں ؟
اسی سوال کا جواب اہلِ نظر کے نزدیک اُن بستیوں کو چھوڑ کر کہ جن کی گرد صدیوں سے ان کے بدن کا جزو، بن چکی تھی تازہ بستیاں آباد کرنا تھا ۔ ملت اسلامیہ کا وہ سوادِ اعظم جو ہندوستان میں بس رہا تھا اور جوہر دوسرے مسلمان خطے کی غلامی پر تڑپ اٹھتا تھا اور اس کی آزادی کے لیے بے قرار رہتا ، کس طرح گوارا کرسکتا تھا کہ خود اغیار کی غلامی میں چلا جائے ۔ جب ترکی ، عرب ، ایران اورافغانستان یکے بعد دیگرے استعمار سے خلاصی پارہے تھے پاکستان آنکھوں سے اوجھل ممکنات کی دنیامیں منتظر نمو تھا۔
…٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x