ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

زندگی کے چکر- بتول جولائی۲۰۲۲

زندگی کی دی ہوئی مشکلات پر اندر ہی اندر کڑھنا، دنیا کی بےحسی، بے قدری پر نالاں رہنا کہ اس میں احساس و مروت اورخدا خوفی ہی نہیں ہے ۔
پھر خود ہی اس کی وکالت بھی کرنا اس کے مثبت اور منفی پہلو دیکھ کرفیصلہ اس کے حق میں دے دینا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں وہ ہمیشہ سے یہی تو کرتی آئی تھی۔ بچپن میں بھی کسی سے معاملہ ہوجاتا یہی چکر چلتا ایسا ہی کرتی ۔
کسی کا معمولی سا مثبت ردعمل ساری گندگی دھو دیتا اور وہ خوش ہو جاتی سوچتی آئندہ کبھی کسی کے بارے میں برا نہ سوچے گی۔
مگر کیا کہ چکر بار بار چلتا ،جیسے جیسے بڑے ہوئے چکر بھی پیچیدہ ہوتے چلے گئے ۔
سوال اٹھتا ۔ یہ ہر معا ملے میں اونچ نیچ کا چکر بار بار کیوں چلتا ہے ۔زندگی میں تسلسل،ٹھہراؤ کیوں نہیں رہتا ، شکر گزاری ،صبر و قناعت مختلف حالتیں کیوں بدلتی رہتی ہیں ۔اچھائیاں مستقل طبیعت کا حصہ کیوں نہیں بنتیں؟
ایک استاد کا جواب تھا ۔
زندگی ایک مستقل چکر ہے۔ جو اونچ نیچ سے عبارت ہے کچھ بھی تسلسل سے ہو تا ہی چلا جاتاتو اس کی چاشنی ختم ہو جاتی ۔
انھوں نے ایک واقعہ سنایا ۔
ایک خاتون کے پاس اپنا پالتو کتا تھا وہ اس کا بے حد خیال رکھتیں ۔ ایک دن اسے ڈاکٹر کے پاس لے آئیں کہ کتااب اس کے التفات کے جواب میں خوش نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب نے اسے ایک دن کے لیے کتا چھوڑ جانے کو کہا کہ کل لے جانا۔
خاتون دوسرے دن آئیں تو کتا اس کے پاؤں میں لوٹیں لگانے لگا۔ خاتون حیران ہو ئیں ۔ایک دن میں ڈاکٹر نے آخر کیا جادو کیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا اس کا علاج بہت سادہ سا تھا۔
میں نے اس پر چھتر کا قانون اپلائی کیا ۔
یہ چھتر کاقانون کیا ہے ؟خاتون نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سوا ل کیا۔
ڈاکٹر کا جواب تھا ۔
دراصل اس کا مسئلہ ناشکرا پن تھا۔نعمتوں میں رہ رہ کر ان نعمتوں کا احساس کھو بیٹھا تھا ۔کل سے اس کا کھانا پینا بند رکھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد دو دوچھتر لگائے جاتے رہے یہ ٹھیک ہو گیا۔
ان کا سنایا دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ تھا۔
ایک لڑکا کشتی پر پہلی بار بیٹھا ڈر سے چلا چلا کر اس نے سب کو پریشان کر ڈالاتھا ۔تنگ آکر کشتی والے نے اسے سمندر میں پھینک دیا۔
چند غوطے کھائے تو اسے نکال کر دوبارہ کشتی میں بٹھادیا۔
اب وہ بالکل خاموش دل ہی دل میں کچھ پڑھ رہا تھا۔
لوگ حیران کہ یہ کیسے ہو&ٔا؟
کشتی بان بولا۔
یہ کشتی کی اہمیت سے ناواقف تھا۔ دو ڈبکیوں نے سکھا دیا کہ قدر کیا ہے۔
ایک واقعہ سوشل میڈیا پر پڑھا کہ ایک صاحب بہت پریشان تھے کسی پیر صاحب کے پاس پہنچے کہ میرا گھر چھوٹا ہے مسائل بے پناہ ہیں۔سمجھ نہیں آتا کیا کروں ۔ پیر صاحب نےذرا سوچ کر کہا ایک مرغا لے کر گھر میں پالنا شروع کرو۔ وہ شخص حیران ہؤا اب پیر صاحب کی بات ٹالی تو نہیں جاسکتی تھی چاروناچار مرغا پالنا شروع کر دیا۔
کچھ دن بعد دوبارہ پیر صاحب کا دامن پکڑے بیٹھا تھاکہ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں مرغے نے رہا سہا سکون بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
پیر صاحب کا اگلا حکم نامہ مزید پریشان کر دینے والا تھا۔ فرمانے لگے ایک بکری لے لو اور پالنا شروع کر دو اب ککڑوں کوں کے ساتھ میں میں کی آوازیں دوسرے ہی دن پھر چوکھٹ پکڑے بیٹھا تھا۔
پیر صاحب نے ہنکارا بھرا اچھا تو مسئلہ اب بھی حل نہیں ہؤا تو اب گھر میں گدھا لے آؤ ۔
اب تو حد ہی ہو گئی اگلی دفعہ آیا تو جیسے مرنے کو تھا ۔
پیر صاحب نے کہا اچھا مرغا بیچ دو اور دو دن بعد بتانا کیا حالت ہے۔
دو دن بعد وہ قدرے پر سکون تھا۔ پیر صاحب نے کہا اب بکری بیچ دو اگلی دفعہ وہ مٹھائی کے ساتھ آیا اس کا کہنا تھا۔ گھر تو جیسے جنت بن گیا ہو۔
اگلا حکم تھا گدھا بیچ دو۔
ایک ساتھی نے کہا یا حضرت یہ کیا معاملہ ہے پہلے لینے کو کہا اب سب بیچنے کو، پیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یہ سب اسے شکر کے راستے پر لگانے اس کا ٹریک بدلنے کے لیے کرنا پڑا۔ اب یہ شکر کے راستے پر ہے برکتیں اس کا انتظار کریں گی کہ ناشکری ایسی نحوست ہے جو سب کچھ لے جاتی ہے۔
ہم انسان اکثر سہولت اور آسانی میں نعمتوں کی قدر بھول جاتے ہیں ۔مزید نعمتوں کے حصول کے چکر میں لگ کر موجودہ نعمتوں کی نا شکری کرنے لگتے ہیں ۔
قدرت کسی بڑے مسئلے میں ڈبکی دیتی ہے اور ہم سیدھے ہو جاتے ہیں ۔موجود نعمتوں کی قدر دانی کرنے لگتے ہیں۔
کبھی آسانی کا مرحلہ لمبا اور کبھی مشکل وقت زیادہ ہوتا ہے ۔
فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ چکر ہمیں نعمت کی قدر دانی دے جاتا ہے ۔
اللہ ربی نے انسان کی فطرت بتائی۔بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔نعمتوں کے چھن جانے پر اسے احساس ہوتا ہے وہ کن عطاؤں میں تھا۔
غم اور خوشی کا چکر ،تنگی اور کشادگی کا چکر ، کامیابی اور ناکامی کا چکر ، فائدے اور خسارے کا چکر، خوبصورتی اور بد صورتی کا چکر راحت اور بے چینی کا چکر زندگی میں چلتا ہی رہتا ہے یہ معمول کی بات ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ چکر چلے اور آپ پھر بھی شکر گزار نہ ہوپائیں ،قدر دانی نہ کر پائیں، خوش نہ ہو پائیں،اپناٹریک تبدیل نہ کر پائیں اور گزشتہ رو ش پر ہی چلتے چلے جائیں ،روتے سسکتے رہیں۔
قدرت آپ کو خوش دیکھنا چاہتی ہے ۔یہ چکر دراصل موجود نعمتوں میں خوشی کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x