ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تقویٰ کیا ہے؟ – بتول اپریل ۲۰۲۲

رات کے اندھیرے میں ایک صاحب جوتے ہاتھ میں لیے گلی میں سے خاموشی سے گزر رہے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب پاس سے گزرتے پہچان لیتے ہیں اور حیرانی سے پوچھتےہیں۔
’’اندھیراہے پاؤں میں کنکر لگ سکتا ہے۔ کیڑےمکوڑے کاٹ سکتے ہیں۔ یہ بے احتیاطی کیسی ؟‘‘
اشارے سے چپ کرواتے سرگوشی میں کہتے ہیں، یہی تو احتیاط ہے۔ صاحبِ سوال کے تجسس پر وضاحت کرتے ہیں ۔
’’رات کا وقت ہے لوگ سو رہے ہیں میرے جوتے کی آواز ان کی نیند خراب کرسکتی ہے‘‘۔
صاحبِ سوال کو تجسّس ہے رات کے اس پہر کہاں جا رہے ہیں۔خاموشی سے پیچھا کرتے ہیں۔ایک بڑھیا کی کٹیا میں انھیں کھانا کھلاتے خدمت کرتے پاتے ہیں۔
یہ صاحب کوئی عام شخص نہیں ،خلیفۃ المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔یہ ان کا تقویٰ ہے جو انھیں ذاتی خطرے سے بے نیاز کر کے لوگوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالنے دیتا اور دنیا سے چھپ کر ایک بڑھیا کی خدمت پر ابھارتا ہے۔
تقویٰ کی تعریف عموماً ڈر اور خوف ،پرہیز کرنا،نگرانی کرنا،بچاؤ کرنا ،حفاظت کرنا سے کی جاتی ہے۔لیکن تقویٰ کے لفظ کی گہرائی پر ان میں سے کوئی لفظ پورا نہیں اترتا۔
تقویٰ دراصل بہت ہی پیارا جذبہ ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
ایک انسان کسی شیر ،ہاتھی یا درندے کو دیکھتا ہے اور خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔اس کے شر سے بچنے کی ہر ممکن کوشش اوراحتیاطی تدابیر اختیار کر تا ہے ۔لیکن ایک دوسرا شخص اپنے محبوب کی محبت میں محبوب کا ہر پسندیدہ انداز دل وجان سے اپناتا ہے۔ اس کی ناراضگی سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرتا ہے ۔
تقویٰ اللہ کی محبت میں اللہ کا پسندیدہ طرز زندگی دل وجان سے اپنانے کا نام ہے۔
گزشتہ دنوں ایک لیکچر میں تقویٰ کا ایک اور منفرد پہلو سامنے آیا۔ جب لیکچر دینے والے نے تقویٰ کا متضاد لفظ مرعوبیت بتایا۔ایک شخص جو کسی دوسرے شخص یا قوم کے مرتبے،حیثیت، شاندار طرز زندگی ،بود و باش سے مرعوب ہو کر ویسا ہی طرز زندگی اختیار کرنے کی خواہش میں مبتلا ہو جاتاہےاس کا تقوی جیسے مقام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔
تقویٰ دراصل ذات باری تعالیٰ کی کبریائی کے حصار میں مستقل ڈوبے رہنا ہے۔ یہ کیفیت اس قدر خود پر غالب کرنا کہ میری شخصیت ذات باری تعالیٰ کے سوا کبھی کسی کے رعب میں نہ آئے ۔ تقویٰ کا لفظ وقایہ سے ہے ۔مطلب ہے حفاظت کرنا ،احتیاط کرنا۔ یعنی اللہ کی منشا کے خلاف جانے سے اپنی حفاظت کرنا۔
تقویٰ کا تصوردین کا بنیادی ترین تصور ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اٹھاسی دفعہ قرآن کریم میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کا باقاعدہ حکم موجود ہے۔جبکہ دو سو مقامات پر مختلف اعمال کے ضمن میں تذکرہ ہے۔
ایک شخص جو کسی کو ہاتھ ،زبان ، انداز کسی بھی لحاظ سے تکلیف نہیں پہنچاتا۔جہاں زیادتی کا خدشہ ہو اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔دوسروں کی نیند ،آرام ،سکون میں خلل ڈالنے سے بچتا ہے۔ نرم چال چلتا ہے۔ ا پنی شخصیت سے جڑے ہر رشتے کی قدر کرتا ہے ۔والدین کے جہاں پاؤں دباتاہے تو بیوی کی بے آرامی کے خیال سے بچے کو فیڈر پکڑا دیتا ہے۔بہن کے معصومانہ لاڈ اٹھاتا ہے تو بھائی کا کندھا بنتا ہے۔ اپنے کنبے کے ساتھ ارد گرد کئی کنبوں کی خبر گیری کرتاہے۔
مال کو عیب بتا ۓ ئےبغیر نہیں بیچتا۔ کچرا کچرے کی جگہ رزق کو رزق کے مقام پر رکھتا ہے ۔ظلم وزیادتی سے دور رہتا حتیٰ کہ کھانے میں سے صرف اپنے حصے کے بقدر نکالتا ہے۔
نا محرم نظر یں بچاتا،جھکا تا زوجہ کو خوشی فرض سمجھ کر دیتا ہے ۔حق بات کہنے سے جھجکتا نہیں ۔ کمزور کی عزت اعلیٰ منصب والے کی طرح کرتا ہے۔ دوسروں کو سہولت اور آسانی ہی نہیں دیتا،بسا اوقات باوجود طاقت کے اپنا حق چھوڑ دیتا ہے۔غلطی پر ڈٹ نہیں جاتا۔ دوسرے کی ضرورت کو خود پرمقدم رکھتا ہے ۔ کمی کوتاہی پر اللہ سے ڈرتا رہتا ہے۔درحقیقت وہ تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر ہے۔
سفید ٹوپی پہنے ،لمبی سی داڑھی براق کپڑوں میں ملبوس ،ہاتھ میں تسبیح لپیٹے شخص ،کسی دیوار پر تھوکتا ،بغیر ضرورت ہارن زور سے بجاتا ،گھر میں داخلے پر ڈر کی لہر دوڑاتا،ذرا دیر یا کوتاہی پر بنت حوا کی سانسیں خشک کر تا،معمولی بات پر بےعزتی کر تا ، نمازوں اور تسبیحات پر نازاں ، بیچتے وقت عیب نہ بتانے والا ،ناجائز منافع لیتا ،غصہ ناک پر رکھےخود پر کنٹرول کھو دینے والا ،وعدہ خلاف، سخت گیر شوہر ،اناپرست بیٹا اور گردن اکڑائےباپ ۔
معاشرے میں جھوٹے وعدوں پر سیاست چمکاتا،دو وقت کھلا کر دوسروں کو غلام سمجھنے والا، اپنی بات پر کسی کا جملہ بھی سننے کا روادار نہیں ، اللہ کے دیے حقوق ،دوسروں کی آزادی کو سلب کرتا شخص ،اس کا تقویٰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
یہ سب میری رائے نہیں۔ آئیے قرآن کریم میں چند آیاتِ تقویٰ پر نظر ڈالتے ہیں۔سورہ بقرہ کی ابتدا میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ یہ قرآن تقویٰ والوں کی رہنمائی کرتا ہے۔
اس کے بعد اہل تقویٰ کی صفات بتائیں جن میں ایک اہم صفت یہ بتائی کہ تقویٰ والے اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ رزق میں مال،اولاد،عزت، شہرت، مرتبہ، سماجی تعلقات ،آسانیاں، علم ،شعور، حوصلہ ،دلیری ،توفیق وغیرہ سب شامل ہیں۔مال،دولت، عزت ،آسانیاں، علم وشعور، مطلب یہ کہ جو شخص اللہ کی دی ہوئی جو بھی رزق کی شکل ہے وہ دوسروں پر خرچ کرے گا تو تقویٰ والا ہوگا۔
قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کی وجہ بھی تقویٰ کا حصول قرار دی گئی۔فرمایا لعلکم تتقون۔روزہ میں کیا ہے؟حلال کھانے پینے اور خواہشات سے بھی رک جانا ۔تو دراصل یہ اللہ کے لیے رک جانے کی پریکٹس ہے۔
حج جیسی بڑی عبادت میں تقویٰ کو زادِ راہ بنانے کو کہا گیا۔قربانی کے بارے میں فرمایا گیا کہ اللہ کو گوشت اور خون نہیں تقویٰ مطلوب ہے۔
مسجد بنانے میں بھی تقویٰ کو بنیاد بنایا گیا۔المسجد اسس علی التقویٰ۔
لباس ،زیب و زینت میں بھی تقویٰ کو رکھاگیا۔و لباس التقویٰ ذالک خیر۔
اللہ رب العزت نے سارا اخلاقی نظام تقویٰ کی بنیاد پر قائم فرمایا۔انصاف کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔تم درگزر کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔اگر صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کی صلح کروا دیا کرو۔
اللہ ربی نے آخرت کی ہر نعمت اور بھلائی کے لیے اہل تقویٰ کا انتخاب فرمایاکہ متقی امن والے مقام میں،نعمت والےباغوں میں،اپنے رب کے پاس ہوں گے۔متقین کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی سند دی ۔ فرمایاان للمتقین مفازا،کامیابی تو اہل تقویٰ ہی کےلیے ہے۔
اہل تقویٰ فور ی نتائج نہیں چاہتے وہ بڑے دن کے منتظر ہوتے ہیں۔ دنیاوی فوائد سے بے نیاز۔اللہ نے ان کے لیے وعدہ فرمایا کہ انھیں کوئی ڈر اور خوف نہ ہوگا۔ دنیا میں میں اہل تقویٰ سے بہت سے وعدے ہیں۔
اگر اسلام کا مطلوب نمونہ ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ متقی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
اللہ سے ڈرو (تقویٰ)جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔
کووڈ کے بعد اور نہ جانے کیا تجربے ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ ہر جگہ مخصوص فاصلہ رکھتے ہیں۔ دل لاکھ چاہے قریبی سے بھی معانقہ،گلے ملنے سے اجتناب ہے ۔ مساجد تک میں نمازوں میں خاص فاصلہ ہے۔یہ وہ حدود ہیں جو ایک بیماری کے خوف نے ہمارے لیےطے کیں۔ لوگ ایسا کرنے پر مجبور کیے گئے ۔ قید تنہائی کی سزا بھی ہے۔تو اللہ خالق کائنات نے جوحدود طے کی ہیں ان کے اندر رہنا تقویٰ ہے۔
رمضان المبارک اس مبارک جذبے کی افزائش کے لیے ہے۔اللہ کرے ہم تقویٰ والوں میں شامل ہونے کے قابل بن جائیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x