ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

علم روشنی ہے! – بتول اپریل ۲۰۲۲

علم کسی شے کی حقیقت کا ادراک ہے۔علم انسانوں کی زندگی پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات مرتب کرتا ہے، کیونکہ وہ کائنات کے اسرار کھولنے اور ان تک رسائی کا وسیلہ ہے۔ علم زندگی کے لیے روشنی اور اسے بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص صفت عقل عطا کی اور علم انسان کی عقل کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔اور یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اہم ذریعہ ہے۔
علم کے اسلام میں بہت وسیع معنی اور مفہوم ہیں۔ہر وہ علم جو نافع ہو وہ اس کے مفہوم میں شامل ہے، اگرچہ وہ مخصوص معنی میں دینی علم نہ ہو۔رسول اللہ ﷺکے قول سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’جب انسان مر جائے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے؛ صدقہء جاریہ، یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جا رہا ہو، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو‘‘۔ (رواہ الالبانی، ٹحیح الجامع، ۷۹۳)
پس ہر وہ علم جو دین سے متعلق ہو یا دنیا سے، مگر ہو نفع بخش علم تو اس کے حاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
قرآن کریم میں ’’علم‘‘ کا لفظ اپنے مشتق حروف کے ساتھ ۷۷۹ مرتبہ آیا ہے۔ اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ؐ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کا آغاز ’’اقرأ‘‘ سے ہوتا ہے، جس کے معنی ہیں، ’’ پڑھیے‘‘۔
علم کے لغوی و اصطلاحی معنی
علم ، جہل کا متضاد ہے۔لغوی طور پر اس سے مراد حقیقت کا یقینی ادراک ہے۔اصطلاح میں اس سے مراد ’’معرفت‘‘ ہے۔
قرآن کریم اور حدیث میں علم کا لفظ بغیر کسی قید اور محدودیت کے آیا ہے؛ اس میں دین اور دنیا کے تمام مفید علوم شامل ہیں، البتہ علمائے اسلام نے علم کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے:
شرعی علوم:
اس سے مراد وہ دینی علوم ہیں جن کے ذریعے بندہ رب کی پہچان کرتا ہے اور عبادت کے درست طریقے سیکھتا ہے، جیسے قرآن و سنت، عقیدہ و فقہ اور اصول و اخلاق وغیرہ۔ اور زبان و ادب اور تاریخ وغیرہ کے وہ علوم جو دین و شریعت کے ان بنیادی علوم تک پہنچانے میں مددگار ہوں۔
حیاتی علوم :
اس سے مراد وہ دنیاوی علوم ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بناتا ہے، وہ اس کی اصلاح کرتا ہے، زمین اور دنیا کو آباد کرتا ہے۔اور اپنے ارد گرد کے ماحول اور کائنات کی حقیقتوں کا کھوج لگاتا ہے؛ جیسے علوم ِ طب، انجینئرنگ، فلکیات، کیمیا، طبیعات و حیاتیات و جغرافیا، اور ارضی، نباتی اور حیوانی علوم، اور اس سے مشابہ وہ تمام علوم جو انسانی زندگی کے لیے فائدہ مند ہوں۔
اللہ تعالیٰ العلیم ہے
اللہ تعالیٰ العلیم ہے۔ وہ کائنات کی ساری حقیقتوں سے باخبر ہے۔ وہ اس کے نظام کو بھی جانتا ہے اور اس کی مصلحتوں کو بھی! دنیا کی دیگر تمام مخلوقات کا علم ناقص ہے خواہ وہ فرشتے ہوں یا جن یا انسان۔ انسان کا علم اتنا کمزور ہے کہ نظامِ کائنات تو درکنار وہ تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کا اہل نہیں۔ اللہ تعالیٰ علم کا اصل سرچشمہ ہے لہٰذا ہدایت اور رہنمائی بھی وہی درست ہے جو اس کی جانب سے عطا کی جائے۔
اگر انسان اللہ کی رہنمائی سے منہ موڑ کر زندگی بسر کرنا چاہے تووہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک جائے گا، کیونکہ اللہ العلیم کے سوا کوئی اور منبعء علم نہیں ہے۔ جب اس کے سوا کہیں اور روشنی ہی نہیں ہے تو اس کی ہدایت سے منہ موڑنے کا نتیجہ تاریکیاں ہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’میں جانتا ہوں ، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرۃ،۳۰)
اسلام میں علم کا حکم
اسلام میں علم اور تعلم کی بہت اہمیت ہے۔ اسلام مجسّم علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ابتداء ہی میں اسے زیورِ علم سے آراستہ کیا، ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے آدمؐ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے‘‘۔ (البقرۃ، ۳۱) یہ اشیاء کا علم ہی ہے جو انسان کو باقی مخلوق سے نمایاں کرتا ہے، اور اسے ان سے افضل قرار دیتا ہے۔
اہلِ علم کون ہیں؟
علم والا شخص وہی ہے جو معرفتِ حق سے بہرہ مند ہو۔ جس نے اللہ کے نور سے روشنی حاصل کی ہو وہی حقیقی معنی میں عالم ہے۔ جو شخص دنیا کی اصطلاحات کے مطابق علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لے وہ عالم نہیں کہلا سکتا، اگر اس کی زندگی معرفتِ حق اور اللہ کی پہچان کے حوالے سے جہالت میں بسر ہو رہی ہے۔ خواہ وہ دنیا کی اصطلاحوں میں علّامہِ دہر اور علوم و فنون کا استاذ الاساتذہ ہی کیوں نہ ہو۔ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اور آواز سے تیز رفتار طیارے اور چاند تک پہنچنے والی ہوائیاں بنا لینے کا نام علم نہیں، نہ ہی معاشیات اور مالیات اور قانون اور فلسفے میں مہارت کا نام علم ہے بلکہ علم وہی ہے جو معرفت حق کی بنیاد پر ہو۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۳، ص۴۱۱)
علم اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے عطا کرتاہے۔ اس نے اپنے علم کا خاص حصّہ انبیاء علیھم السلام کو عطا فرمایا۔
’’اور انہوں نے (فرشتوں نے) اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا‘‘۔ (الذاریات، ۲۸) یہ حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی بشارت تھی جو حضرت ابراہیمؑ کو دی گئی۔
’’اور ہم نے داؤد ؑ وسلیمانؑ کو علم عطا کیا‘‘۔ (النمل، ۱۵)
یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء ؑ کو علم ِ حقیقت عطا کیا کہ انہیں دنیا میں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ عطیّہِ خداوندی ہے، اور اسے انہیں راستوں میں استعمال کرنا ہے جو اللہ نے جائز قرار دیے ہیں۔
علم جہالت کی ضد ہے۔ فرعون کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملیں تو اس نے ان پر جہالت سے تصرّف کیا۔ بادشاہی، دولت، حشمت، طاقت اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں داؤدؑ و سلیمانؑ کو بھی ملی اور فرعون کو بھی لیکن علم اور جہالت کے فرق نے ان کے درمیان عظیم الشان فرق پیدا کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت سلیمان ؑ کو عطا کیے گئے خاص علوم کا ذکر کیا ہے، جس کے ذریعے اس نے انہیں کئی کمالات عطا کیے، اور ان کے لیے چیزوں کو(مثلاً ہوا کو) مسخر کر دیا، انہیں پرندوں کی بولیاں سکھائیں، اور حضرت داؤدؑ کو لوہے کو ڈھالنے کا فن سکھایا، حضرت یوسف ؑ کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا۔ المختصر مختلف انبیاء ؑکو جو علم اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا وہ علوم ِ الٰہیہ میں سے ایک قطرہ ِ دریا تھا۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلق علم ایک فضل الٰہی ہے۔ ہر قسم اور ہر نوع کا علم مطلوبِ مومن ہے۔ جسے اللہ کی جانب سے علم ملے اسے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ دعا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس علم کو اس کے لیے نافع بنا دے، ایسا نہ ہو کہ علم انسان کو اللہ سے دور کر دے، اور وہ اللہ کو بھلا دے، حالانکہ علم کی نعمت عطا کرنے والا اللہ ہے۔وہ علم جو قلبِ انسانی کو اللہ سے دور کرے وہ فاسد علم ہے۔ ایسا علم صاحبِ علم کے لیے فلاح و نجات اور سعادت مندی کا باعث نہیں ہوتا اور نہ ایسا علم انسانوں کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ ایسا علم انسانوں کے لیے مصیبت، بدبختی، خوف، قلق، بے چینی اور بالآخر ہلاکت کا سبب بنتا ہے، کیونکہ یہ علم اپنے مصدر اور منبع سے کٹ گیا ہے اور اس کی سمت غلط ہے اور اس نے اللہ تک پہنچنے کی راہ گم کر دی ہے۔
علم اگر ان لوگوں کے ہاتھ آجائے جن میں خدا کا خوف نہ ہو تو وہ انسانوں کی تباہی کا ذریعہ بن جاتا ہے، جیسے بیسویں صدی میں ایسے علماء نے ہیرو شیما کا کارنامہ سرانجام دیا، اور ناگاساکی کی تباہی مچائی۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر سورۃ النمل، آیۃ ۱۵)
اہلِ علم کی فضیلت
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’یقیناً علماء انبیاء علیھم السلام کے وارث ہیں۔اور انبیائؑ دینار کی وراثت نہیں چھوڑتے، وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں‘‘۔ (رواہ ابو داؤد، ۳۶۴۱)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے پیغمبرؐ کہہ دیجیے،اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔ (طہ، ۱۱۴)
علم تو وہی ہے جو اللہ کے علم میں ہے، وہ باقی ہے اور ہمیشہ نفع دے گا، وہ قائم رہے گا اور ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے گا اور کبھی ضائع نہ ہو گا۔
حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
دین کی سمجھ سے مراد قرآن و حدیث کا فہم اور دین کے احکام و مسائل اور حلال و حرام کی تمیز ہے۔
علم انسان اور انسان کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے، ارشاد الٰہی ہے:
’’ان سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ ‘‘۔ (الزمر،۹)
سچا علم در اصل معرفت ِ الٰہی کا نام ہے۔ یہ رب تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ ایسا علم انسانی بصیرت کو کھول دیتا ہے۔ اور یوں ایک عالم ان حقائق تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جو اس کے وجود میں ہوتی ہے۔علم ان معلومات کا نام نہیں جو ذہن میں جمع ہو جائیں اور جن سے کوئی سچا اصول اور سچی حقیقت ذہن نشین نہ ہو، اور نہ محسوسات کے علاوہ کوئی حقیقت ذہن میں بیٹھی ہو۔ علم ِ حقیقی وہ راستہ ہے جو دل و دماغ کو منور کرتا ہے، اور اس کے نور سے انسان اللہ کا مطیع فرمان بن جاتا ہے۔ اس کا دل حساس ہو جاتا ہے۔ وہ آخرت اور اللہ کے فضل و کرم کی امید پر اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے۔جو لوگ انفرادی تجربات کو علم کہتے ہیں اور صرف ان چیزوں کو معلومات کہتے ہیں جو نظر آتی ہیں، ایسے لوگ معلومات جمع کرنے والے تو ہیں علماء نہیں۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
ارشاد ِ الٰہی ہے: ’’تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا‘‘۔ (المجادلۃ،۱۱)
یعنی رفعِ درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے۔
اور فرمایا:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے اس کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے لوگ ہی ڈرتے ہیں‘‘۔ (فاطر،۲۸)
جو شخص اللہ کی صفات سے جتنا زیادہ ناواقف ہو گا وہ اس سے اتنا ہی بے خوف ہو گا اور اس کے برعکس جس شخص کو اللہ کی قدرت، اس کے علم، اس کی حکمت، اس کی قہاری و جبّاری، اور اس کی دوسری صفات کی جتنی معرفت حاصل ہو گی، اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے خوف کھائے گا۔ پس درحقیقت اس سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں، بلکہ صفاتِ الٰہی کا علم ہے، قطع نظر اس کے کہ آدمی خواندہ ہو یا ناخواندہ۔ جو شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہِ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ سے جاہلِ محض ہے۔(تفہیم القرآن، ج۴،ص۲۳۲)
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ’’عالم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے، جو کچھ اللہ کو پسند ہے اس کی طرف راغب ہو، اور جس چیز سے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے‘‘۔
سید قطبؒ فرماتے ہیں: ’’کتابِ کائنات کے جو اوراق قرآن مجید نے الٹے ہیں وہ اس کے بہت کم اوراق ہیں۔ اور علماء دراصل اس کائنات پر غور کرتے رہتے ہیں، اس لیے علماء ہی اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کی صفات کے آثار سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، اور اللہ کی تخلیق کے عجائبات کو دیکھ کر اس کی عظمت کا شعور رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ سے صحیح معنوں میں ڈرتے ہیں‘‘۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بھلائی کے لیے بہترین علم اتارا، فرمایا:
’’رحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے‘‘۔ (الرحمن،۱۔۲)
یعنی اس قرآن کی تعلیم طبع زاد نہیں بلکہ اس کا معلم خود خدائے رحمن ہے۔رحمن کے انعامات کے بیان میں یہ پہلا انعام ہے، اور اس کی پہلی نعمت ’’علم القرآن‘‘ ہے کہ اس نے قرآن کی تعلیم دی۔ اور قرآن کی تعلیم کی صورت میں بندوں پر عظیم رحمت فرمائی۔
قرآن انسانوں کے حواس اور ان کے شعور کو پوری کائنات کے لیے کھولتا ہے کہ دیکھو کیا ہی خوبصورت ہے یہ کائنات اور قرآن اس کو یوں مشاہدہ کرواتا ہے گویا انسانیت نے کائنات کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ اسے خود کائنات کا مشاہدہ کرواتا ہے، کہ ایک ایک دانہ جو زمین کی تہوں میں جاتا ہے، ایک ایک پتی اور کونپل جو زمین سے پھوٹتی ہے، بارش کا ایک ایک قطرہ جو آسمان سے گرتا ہے، اور بخارات جو سمندروں اور جھیلوں سے اٹھ کر آسمان کی طرف جاتے ہیں، اس کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ وہ زمین کی تہوں میں دانے کو پھاڑ کر اس میں سے کونپل نکالتا ہے اور اسے پرورش کر کے بڑھاتا ہے۔ وہ ایک اندازے کے مطابق بخارات کو جمع کرکے بادل بناتا ہے اور زمین کے مختلف حصّوں پر بانٹ کر ہر جگہ کے حساب سے بارش برساتا ہے۔ اسی پر ان ساری چیزوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو زمین میں جاتی اور اس سے نکلتی ہیں اور آسمان کی طرف چڑھتی اور اس سے نازل ہوتی ہیں۔ان سب پر اللہ کا علم حاوی ہے۔ وہ ہر چیز کا انتظام علیحدہ علیحدہ تدبیر اور انتہائی حکیمانہ انداز میں کرتا ہے۔
کسی دوسرے کے پاس وہ علم نہیں جس سے وہ نظامِ کائنات اور اس کی حکمتوں کو سمجھ سکے۔ (الاسماء الحسنٰی، سید ابوالاعلی مودودی، ص ۹۸)
علمِ ہدایت
قرآن انسان کا رہنما ہے۔ اس نے انسانوں کو ذہن نشین کروایا کہ تم اس کائنات میں اللہ کے خلیفہ ہو، اور تم اللہ کے نزدیک بڑے مکرم ہو۔ اس نے تمہیں یہ قرآن ایک عظیم امانت دی ہے۔ قرآن تمہیں جو اعلیٰ انسانیت عطا کرتا ہے اس کو سمجھو۔ یہ فہم و ادراک اور ہدایت قرآن ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ ایمان ہی تمہارے اندر یہ روح اور جذبہ پھونک سکتا ہے، اور قرآن کے ذریعے ہی تم اللہ کی عظیم نعمت حاصل کر سکتے ہو، کیونکہ علمِ قرآن کے ذریعے ہی انسان ، انسان بن سکتا ہے۔ (فی ظلال القرآن)
حصولِ علم کی فضیلت
حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے سفر کرے تو اللہ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دے گا، اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھتے اور اس پر بحث وگفتگو کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر سکینت نازل کرتا ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور اللہ ان کا ذکر اپنے فرشتوں کی مجلس میں فرماتے ہیں، اور جسے اس کے عمل نے پیچھے ڈال دیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا‘‘۔ (رواہ مسلم)
علم عقلوں کے لیے نور ہے، اور یہ تہذیبوں کے لیے روشنی ہے۔ اسلام نے نافع علوم کو ان کی جزئیات کے ساتھ حاصل کرنے کی رغبت دلائی ہے۔خواہ وہ زمین کی آبادی سے متعلق ہو یا ہدایت، نور اور دلائل کی بنا پردینِ حق کی اقامت ہو۔اللہ تعالیٰ نے طالبِ علم اور علماء دونوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں بڑی قدر و منزلت بٹھائی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’دنیا ملعون ہے اور جو کچھ سامان اس میںہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے متعلقات کے، اور عالم یامتعلم کے‘‘۔ (راوہ الترمذی)
حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا: ’’جو شخص تلاشِ علم کے راستے پر چلے تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور فرشتے طالب ِ علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر رکھ (بچھا) دیتے ہیں، اور عالم کے لیے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات، حتیٰ کہ مچھلیاں پانی میں اس کی مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چاند کو سارے ستاروں پر فضیلت حاصل ہے‘‘۔ (ابو داؤد، الترمذی)
رسول اللہ ؐ جب صبح ہوتی اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے: ’’اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں‘‘۔ (رواہ ابن ماجہ، ۷۶۲)
کتمانِ علم کی وعید
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس سے علم دین کی کوئی بات پوچھی جائے ، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی‘‘۔ (رواہ الترمذی)
آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص وہ علم جس کے ذریعے اللہ کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے، اس لیے حاصل کرے تاکہ اس کے ذریعے دنیا کا ساز و سامان حاصل کیا جائے تو وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔ (رواہ ابو داؤد)
علم کی وسعت
علم ایک وسیع کلمہ ہے اور اس سے مراد محض شرعی علوم نہیں ہیں، بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ ہر وہ علم حاصل کیا جائے جو امت کے لیے مفید اور نافع ہو۔اور علماء کی رائے ہے کہ ہر وہ علم جو امت کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہو اس کا حاصل کرنا ’’فرض کفایہ‘‘ ہے۔امام غزالیؒ نے بھی اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں ان علوم کے بارے میں جو فرضِ کفایہ ہیں ، لکھا ہے:
٭ فرضِ کفایہ سے مراد وہ پسندیدہ علوم ہیں ، جن سے دنیا کے کئی امور میں غافل رہنا ممکن نہیں ہے، مثلاً علمِ طب۔اور جسموں کی صحت اور ان کے بقاء کے لیے انسان کو اس علم کی سخت ضرورت ہے۔
٭ ریاضی اور حساب کا علم جو معاملات، وصیت اور وراثت کے پہلو سے انتہائی ضروری ہے۔اور اگر کسی علاقے میں ان کے ماہر حضرات نہ ہوں تو زندگی کے معاملات چلانے بڑے مشکل ہو جاتے ہیں۔
٭ مختلف زرعی اورصنعتی علوم کی ترویج اور ترقی ، جیسے فصلیں، اناج، کپڑا بننے کی صنعت وغیرہ۔
اگر امت ِ مسلمہ صرف شرعی علوم کے حصول میں اپنی توجہ لگا دے تو امت تہذیب اور ترقی میں دیگر اقوام سے پیچھے رہ جائے گی۔اور امت مسلمہ جسے قرآن میں ’’تم وہ بہترین گروہ ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے‘‘ کہا گیا ہے، اپنے وجودکے تقاضے پورے نہیں کر سکے گی۔اور وہ ان پر غالب اسی صورت میں آ سکے گی کہ وہ شرعی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا کے معروف علوم میں بھی معرفت حاصل کرے۔
٭ وہ اخلاق کا بلند معیار پیش کرے۔یعنی وہ دیگر اقوام کے ساتھ معاملات اور رویوں میں بہترین اخلاقی صفات کا مظاہرہ کرے۔
٭ وہ دیگر معاملات میں بھی غیر مسلم اقوام پر اپنی قوت ثابت کرے، جیسے معاشی، سیاسی، فکری، عسکری اور علمی میدانوں میں۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’قوی مومن بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کو کمزور مومن سے زیادہ پسند ہے‘‘۔
اس سے قوت کا محض ایک معنی مراد نہیں ہے بلکہ بدن، روح، ارادہ ، عقل اور علم کی قوت بھی مراد ہے۔اور سب سے اچھا اور مفید علم حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی اللہ کا تقوی ٰہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ سے ڈرو ، وہ تم کو صحیح طرزِ عمل کی تعلیم دیتاہے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۸۲)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’علم مال سے بہتر ہے، علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور مال کی حفاظت تم کرتے ہو۔علم حاکم ہے اور مال محکوم ہے۔ مال خرچ کرنے سے ختم ہوتا ہے جبکہ علم خرچ ہونے سے پاک ہوتا ہے‘‘۔
امام غزالیؒ اپنی کتاب احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:
’’جو خاصیت انسان کو درندوں سے ممتاز کرتی ہے وہ علم ہے۔انسان اسی لیے انسان کہلاتا ہے کہ وہ اشرف ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ وہ طاقت ور ہے۔ کیونکہ اونٹ اس سے زیادہ طاقت ور ہے۔ اور نہ جسامت کی بڑائی کی وجہ سے کیونکہ ہاتھی اس سے زیادہ جسیم جانور ہے۔ اور نہ شجاعت کی بنا پر کیونکہ درندے اس سے زیادہ شجاع ہوتے ہیں۔ نہ ان کے کھانے کی وجہ سے کہ بیل اس سے زیادہ خوراک کھاتا ہے۔ وہ تو بس علم کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔
اسی لیے امت ِ مسلمہ کو علم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ امت ِ مسلمہ صرف علم کے ذریعے ہی سربلند ہو سکتی ہے۔ وہ علم کے ذریعے سے بیماریوں پر بھی قابو پا سکتی ہے، فقر پر بھی اور پچھلی صفوں سے آگے آ سکتی ہے۔ بلکہ قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ علم کے ذریعے ہی تفرقہ بازی کو چھوڑ سکتی ہے۔ علم اس کی وحدت اور اتحاد کی بنیاد ہے۔ اور اس کی فلاح کی بنیاد بھی ہے۔پس جو علم حاصل ہوا اس پر عمل کیجیے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x