ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بھدے سے چولہے کے ارد گرد الجھی ہوئی سفید داڑھیوںوالے بوڑھے اکڑی ہوئی مونچھوںوالے بانکے گبرو اور گرد آلود بالوں والے ننھے بچے بیٹھے تھے اور گائوں کا ذیلدار دو تین کسانوںکی چادروں کاتکیہ بنائے لیٹا تھا ۔ فتو میراثی اور نور ا دھوبی اس کے پائوں داب رہے تھے ۔ دیواروں پر پھیلے ہوئے ان کے دھندلے سائے شعلوں کے اشاروں پردھیرے دھیرے ناچ رہے تھے ۔ تڑک تڑک کی آواز سے لکڑیاں جل رہی تھیں اور چنگاریاںدھوئیں میں لپٹی ہوئی سیاہ چھت کی طرف اڑی جاتی تھیں ۔ ایک طرف بوڑھے میراثی شیرو نے حقے کادور شروع کیا ۔ گڑر گڑر کی آواز میںذیلدار نے کروٹ بدلی اوربولا ’’ کیا کہا تھا میں نے؟‘‘ ایک نوجوان آگے جھک کر بولا’’ آپ ہوٹل والے سے الجھ پڑے اور اس کے جبڑوں میں ایک جلی ہوئی لکڑی گھسیڑ دی ‘‘۔ ذیلدار نے ہاتھی دانت کی ننھی سی کنگھی کو کنپٹی کے بھوسلے بالوںمیںاٹکاتے ہوئے کہا ’’ ہاں ہاں ۔ بس تو لوگ اکٹھے ہو گئے ۔ بیچ بچائو ہو گیا اورمعاملہ ختم ہؤا۔ میں وہاں سے وکیل کے مکان پر گیا ۔ دیکھتاکیا ہوںکہ میز پر ایک صندوقچہ رکھا ہے اور وکیل کے سب بال بچے نوکر چاکر اس میں سے گانا سن رہے ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا ’’وکیل جی ! ریکارڈ کہاں چھپا رکھا ہے اور سوئی کہاں لگاتے ہیں آپ؟‘‘ بولے’’ یہ ریڈیو ہے ریڈیو‘‘۔ میں نے کہا ’’ یہ کیا بلا ہے ؟‘‘ کہنے لگے ’’ہم اب یہاں سر گودھا میں بیٹھے بمبئی کا گانا سن رہے ہیں !‘‘ ’’ میرا دل دھک سے رہ گیا ۔ میں نے بھی ساری عمر سفر میں گزاری ہے ۔ ایک تو مقدموں کا سلسلہ ہی ختم نہ ہؤا۔ دوسرا ذیلداری کا معاملہ ہے ۔ کبھی گواہی پر جا رہا ہوںتوکبھی صاحب بہادر کو سلام کرنے ۔ کبھی کوئی اور پیشی بھگتنے ۔سو کام ہوتے ہیںہم لوگوںکو ۔لاہور میں بھی ایک بار گیا تھا لیکن میں نے ایسی مشین کہیں نہیںدیکھی کہ سرگودھا میں بیٹھے کلکتے اور بمبئی کا گانا سنتے رہو۔اصل میں ان وکیلوں کو جھوٹ بولنے کے سوا چین ہی نہیں آتا۔ میں نے ہنس کر کہا ۔ کیوںجی ! آپ مجھے بے وقوف بنا رہے ہیں کیا ؟‘‘ ’’ تمام لڑکے بالے ہنس دیے اور وکیل بھی ہنستے ہنستے کرسی پر جھک گیا ۔ میں سمجھا مذاق کر رہے ہیں ۔ ان شہریوں کے مذاق بھی عجیب قسم کے ہوتے ہیں ۔ذرا ذرا سی باتوں پر اتنے اونچے اونچے قہقہے لگاتے ہیںجیسے کوئی مسخرہ غضب ڈھاگیا۔ ایک دن میں غلطی سے سرگودھا کے اڈے پر ایک شخص سے پوچھ بیٹھا ’’ کیوں بھئی ، یہاں سے سرگودھا کا کرایہ کیا ہے ؟‘‘ وہ پہلے تو ہکا بکا مجھے گھورتا رہا مگر اچانک اس زور سے ہنسا کہ میرے ہاتھوں سے پھلوںکی ٹوکری گرتے گرتے بچی۔ تمام ڈرائیوراکٹھے ہوگئے ۔ کہنے لگے ’’ اجی ملک صاحب آپ سرگودھا میں کھڑے سرگودھا کا کرایہ پوچھتے ہیں ؟‘‘ ’’ آخر اس میںہنسی کی کون سی بات تھی ۔ چام کی زبان ہے ۔ بہک جائے تو کسی کا کیا بس ۔ کیوںچچا اللہ یار ؟‘‘ سب بوڑھوںنے ذیلدار کے بیان کی تصدیق کی ۔ ذیلدار کہنی کے بل ہو کر بولا ’’ ہاں تووکیل صاحب بولے۔’’ یہ نیا آلہ ہے اور اس کے تار وار کچھ نہیں ۔ بس بمبئی میں ایک شخص گا رہا ہے اور ہم اس کا گانا سن رہے ہیں ‘‘۔ ’’ میں تو قرآن مجید کی قسم ، یہ جھوٹ سن کر بہت پریشان ہؤا۔ ہزاروںمیل دور ایک شخص گا رہا ہے ۔ تاروار ہے نہیں اور وکیل میاںمزے سے اس کا گانا سن رہے ہیں ۔ تو گویا خدا ان کے قابو میں آگیا۔ گویا اب لوگوں نے جنوںبھوتوںپربھی قبضہ جما لیا ۔ اب یہ جن بھوت کا کام نہیں تواور کیا کہ اچانک وکیل نے لندن پر سوئی گھمائی اورکوئی عورت لمبے لمبے بین کر کے رونے لگی ۔ وکیل کہتا تھا ’’ یہ انگریزی گانا ہے‘‘۔مگر اللہ نے مجھے بھی کان دے رکھے ہیں۔ گانے اور رونے کافرق خوب سمجھتا ہوں۔ اس نئی بات پر حیران تھا کہ وکیل نے مصر پر سوئی گھما دی۔عربی گانے ہونے لگے ۔لاہور پر گھمادی ۔ آواز آئی یہ لاہور ہے ! میں تو ہڑ بڑاکر کرسی پر جا گرااور وکیل کے بچوں اورنوکروں چا کر وں کودیکھا تو وہ فرش پر مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔ میں غصے میں وہاں سے اٹھ کرسرائے میں آگیا اور دوسرے دن گواہی دے کر گھر چلاآیا ۔ میرے دماغ میں یہ بات نہیں سماتی اور اگر یہ بات سچ ہے تو کوئی دن میں قیامت آئی جانو!‘‘ بوڑھا اللہ یار ہاتھ سینک کر چہرے پر ملتے ہوئے بولا ’’ ملک جی ! غضب ڈھارہے ہیںیہ لوگ ۔اڑتی چڑیا کے پر جیسے انہوں نے گنے ہیں ، شاید ہی کوئی اور گنے۔زمانے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے انہوں نے ۔ اب اگر ہمارے باپ اور دادا خدا کی قدرت سے زندہ ہو کر یہاں آئیں تو دہل کر پھر مر جائیں۔ ریل دیکھو ! کالی کلوٹی لوہے کی مشین پشور سے لہور اورلہور سے دلی تک بھاگتی جاتی ہے اور نہیں تھکتی ۔ یہ گرامو فون باجا دیکھا آپ نے ؟ کون بولتا ہے ان کالے تو وں میں ؟ بس چابی گھما دو ۔ سوئی اوپر رکھ دو اور ’’ذ یلدار کمنداں والے دا ‘‘۔ ’’ ڈاچی والیاموڑیںمہار وے ‘‘۔ ’’ بالو‘‘،’’چھئی‘‘ جو گانا چاہو سن لو ۔ یقین نہیں آتا تھا پر آنکھوں سے دیکھا، کانوںسے سنا ، ہاتھوں سے چھوا بھی ۔ جادو وادو تو ہے نہیں ، بس کسی پیچ کی تقصیر ہے کہ آواز کو قید کررکھا ہے ۔ مجید خاں تھانے دار کے بیٹے وحید سے کل میں نے سنا کہ بڑے شہروں میں رات کو تماشے ہوتے ہیں ، سفید چادروںپر تصویریں چلتی پھرتی ہیں، گھوڑے دوڑتے ہیں، گاڑیاںبھاگتی ہیں، ایک سفید چادر پر ساری دنیا لا کررکھ دی ۔ مگر مجھے تو اس کا یقین نہیں آتا ملک جی ! انگریزی پڑھے ہوئے یہ گِٹ مٹ کر نے والے لڑکے جھوٹ بہت بولتے ہیں ‘‘۔ ملک صاحب انگڑائی لے کر اٹھے اور حقے کو قریب لانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے ’’ چچا اللہ یار ! قسم قرآن مجید کی ۔ میں نے ان آنکھوں سے یہ تماشا دیکھا ۔ چلنا پھرنا تو ایک طرف رہا ، یہ تصویریںتو بولتی بھی ہیں۔ ان کے ہنسنے ، رونے ، بھاگنے دوڑنے کی آوازیں آتی ہیں ۔ پانی گرنے کی ، کاغذ پھاڑنے کی ، دروازہ کھلنے کی !… خدا کی قسم سب آوازیں !‘‘ ایک اور بوڑھا بولا ’’ اب آپ کی زبان سے یہ سن رہے ہیں ۔ کوئی اور کہتا تو ہم اسے پاگل سمجھتے ‘‘۔ ذیلدار ذرا جھینپ گیا ۔ بولا ’’ ارے بابا! میں نے دو چار بار یہ تماشا دیکھا ۔ اب وحید یہاں ہوتا توگواہی دیتا ۔ اس کے ساتھ میںنے ایک تماشااوردیکھا ۔ ایک نوجوان کو سات آدمی تلواروںسے مار رہے تھے۔میںبھول گیا کہ یہ تو صرف تماشا ہے ۔بس چیخ اٹھا’’ ارے غضب خدا کا ،کوئی بھی اس غریب پر ترس نہیںکھاتا ۔ ارے خدا کے بندو ایک بے کس ، بے گناہ پیٹا جا رہا ہے اور تم بیٹھے دانت نکا ل رہے ہو !‘‘ ’’ بھلا ہو وحید کا جس نے بازو سے پکڑ کر مجھے بٹھایا اور بتایا کہ یہ تو صرف تصویریں لڑ رہی ہیں ۔ تب جا کر مجھے اپنی غلطی کی خبر ہوئی ۔ اتنا دھوکا کھا جاتا ہے انسان!‘‘ ’’ سبحان اللہ ! سبحان اللہ غضب کر دیا ۔ کمال کر دکھایا!‘‘ کی آوازوں سے چوپال کے دھواںدھار کمرے میں ایک دبی دبی سر سراہٹ کی آواز آنے لگی ۔ ذیلدار نے چادروں کو گول کر کے کہنی کے نیچے دھرتے ہوئے کہا ’’ مگر اس ریڈیو والی بات کو میں مربھی جائوںتو بھی نہ مانوں ۔ جھوٹ کو سچ کیسے کہوں ؟‘‘ کمر ے کے کواڑ اچانک چیختے ہوئے کھلے ۔ ایک نوجوان سنہری عینک لگائے انگریزی بالوںپر ہاتھ پھیرتا ہوا اندر آیا اور ایک طرف بوٹ اتارتے ہوئے بولا ’’ السلام علیکم!‘‘ سب نے جواب دیا ’’ وعلیکم السلام!‘‘ ملک جی بولے ’’ آئو وحید خان ! اچھے ہو ؟ تمہاری ہی باتیں ہو رہی ہیں ۔ اللہ یار تم سے بد گمان ہے ۔کہتا ہے تصویروں والے تماشے کی بات جھوٹ ہے ۔وحید جھوٹ بولتا ہے ‘‘۔ وحید مسکرایا اوراللہ یار کی طرف دیکھ کر بولا’’ اچھا بابا ! جھوٹ ہی سہی ، تم نہ مانو ۔ بزرگوں کو مجبور کون کرے لیکن میں ان کم بخت آنکھوں کو کیا کروں جنہوںنے خود چلتی پھرتی اور بولتی چالتی تصویریں دیکھی ہیں۔ تمہیںدلیلیںدے کر سمجھائوں توکبھی تم اسی طرح کورے کے کورے رہتے ہو۔ کل ہی یہاںالائو پر زمین کے متعلق بات چھڑ گئی تھی ۔ میں نے کہا زمین گول ہے تو چچا اللہ یار برس پڑا‘‘۔ چچا اللہ یارنے ایک لکڑی سے انگاروں کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا ’’وحید خان ! بات سن میری ، قسم قرآن مجید کی کل تو میں تیری اس بات کو مذاق سمجھا تھا ، آج پھر اسے چھیڑ دیا تو بتا زمین کس طرح گول ہے ؟‘‘ وحید سنجیدگی سے بولا ’’ اگر یہاں سے کوئی مشرق کو منہ کر کے چلے اور چلتا ہی جائے تو ایک نہ ایک دن پھر یہیں پہنچ جائے گا ‘‘۔ چوپال میں ایک قہقہہ بلند ہؤا ذیلدار نے منہ میں کپڑا ٹھونس کر ہنسی روکنی چاہی ۔بچے ایک دوسرے کو ٹہوکے دے کر فرش پر لوٹنے لگے ۔ ہنستے ہنستے چچا اللہ یار کی پگڑی کھل گئی ۔ آخر کار اس نے ضعیف آنکھوں سے پانی پونچھا اور وحید خان کے کندھے پرہاتھ رکھ کربولا ’’ قیامت تک جئے تیرا پڑھانے والا ۔کیا دلیل دی ، اے میں قربان جائوں ! ارے بھئی ! میں یہاں سے اٹھ کر تمام گائوں کا چکر لگا کر چوپال پر آسکتا ہوںلیکن گائوںتوچپٹا ہے پھر یہ کیسے ہؤا؟‘‘ وحید خان ان قہقہوں سے مانوس تھا ۔ مسکراتے ہوئے بولا ’’مگر میرا مطلب ایک ہی طرف کو جانے کا ہے ‘‘۔ اللہ یار بولا ’’ میں بھی ایک ہی طرف کو جائوں گا ۔ لہور ، امرت سر تو نہیں جانے کا ‘‘۔ وحید نے کچھ جواب دیا مگر اس کی آواز کرخت قہقہوں اور بے ربط تالیوںکی گونج میں کھو کر رہ گئی ۔ چچا اللہ یار نے یک لخت اپنا چہرہ سنجیدہ بنا لیا اورکہنے لگا ’’ اچھا تو وحید خاں! کوئی اور دلیل ؟ لیکن دلیلوں کی ضرورت ہی کیا ہے ! اللہ نے ہمیں آنکھیںدے رکھی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ زمین چپٹی ہے ‘‘۔ وحید بولا’’ بابا زمین کے مقابلے میں ہمارا وجود بہت ہی چھوٹا ہے۔ اب اگر چیونٹی بہت بڑی گیند پر بیٹھ جائے تو اسے گیند چپٹی ہی نظر آئے گی ‘‘۔ چچا یار کا چہرہ ہنسی روکنے کی کوشش میں لال ہو گیا ۔’’ کیا تم چیونٹی بن کر کبھی گیند پر بیٹھے ہو ؟‘‘ قہقہوں اور تالیوں کا ایک اور طوفان اٹھا اور دیواروں پر ناچتے ہوئے سائے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے ۔ ذیلدار پکار اٹھا ’’ ارے بابا اللہ یار ! قسم قرآن مجید کی ، تو نے تو مجھے ہنسا ہنسا کر بے حال کردیا ۔ پسلیوں میں درد ہو رہا ہے ۔ تیرے آگے وحید کی کچھ نہیں چلتی ۔ سچ کہا تو نے ۔ آخر چیونٹی کیا جانے انسان کی باتیں!‘‘ وحید خاں ذرا چیں بچیں ہوکر بولا ’’ ملک جی ! آپ تو سمجھدار ہیں ، میں آپ سے ہی بات کروں گا ۔سنیے ، آپ گیلی مٹی کی ایک مٹھی لے لیں اور اسے زور سے گھمائیں ، جب مٹی تیزی سے گھومے گی تو وہ ہولے ہولے گول شکل اختیار کرنے لگے گی ہر گھومنے والی چیز گول ہوتی ہے ‘‘۔ ذیلدار نے کہا ’’ لیکن ہم تو زمین کا ذکر کر رہے ہیں ‘‘۔ وحید بولا ’’ زمین بھی گھومتی ہے ‘‘ ذیلدار نے ہنستے ہوئے کہا ’’ یہ نئی بجلی گری!‘‘ چچا اللہ یار پکاراٹھا’’ یہی کچھ پڑھا ہے تو نے مدرسے میں ! زمین گھومتی ہے ! سبحان اللہ ! معاف کیجو وحید خاں! مجھے تمہارے دماغ میں کچھ خلل معلوم ہونے لگا ہے ۔ زمین پر مکان ہیں، پہاڑ ہیں، سمندر ہیں، اگر گھومتے سمندر نیچے آجائیں تو پھر پانی زمین پر کیسے ٹھہر سکے گا ؟پہاڑ کیسے جمے رہ سکیں گے ؟ ہم خود کیوںنہیںلڑھک جاتے ! اور پھر اتنی عمر بیتی، میں نے اپنے آپ کو کبھی الٹا چلتے نہیںدیکھا ، سر نیچے ہو اور پائوںاوپر!‘‘ وحید آہستہ سے بولا ’’ زمین کے اندر کشش موجود ہے جو ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے ‘‘۔ اللہ یار تڑپ اٹھا’’ زمین نہ ہوئی مقناطیس کا پہاڑ ہو گیا ۔ خاک کے ڈھیر میںکیا کشش ہو گی آخر !زمین میں کشش ہے ۔ زمین گھومتی ہے ، زمین گول ہے ،یہ تو قیامت کی نشانیاں ہیں ‘‘۔ وحید خاں، ایک تو اپنی ہٹ کا پکا تھا دوسرے اس قدر تجربہ کار بھی تونہ تھا کہ چپ ہو رہتا ۔ بولا ’’ اگرزمین نہیںگھومتی تو پھر دن اوررات کیسے پیدا ہوتے ہیں ؟‘‘ تمام چوپال نے یک زبان ہو کر کہا ’’ سورج گھومتا ہے ‘‘۔ وحید بولا’’ نہیں زمین گھومتی ہے ‘‘۔ ایک کونے سے ایک سفید ریش بزرگ کھانستا ہؤا اٹھااوروحید کے قریب بڑی مشکل سے بیٹھتے ہوئے کہنے لگا ’’ خاموش!ایک ذرا سی بات میرے بچے ! تو کہتا ہے زمین گھومتی ہے ۔ میری عمر نوے سال کے قریب ہے ۔ میں نے تیرے پردادا کو بھی دیکھا تھا ۔ چوپال کا دروازہ ان دنوں بھی دکھن کی طرف تھا ۔ آج بھی دکھن کی طرف ہے اور ہمیشہ دکھن کی طرف رہے گا ۔ زمین گھومتی ہے تو اس کا رخ ضرور پورب ، پچھم ، اُتر کی طرف پھر جاتا ۔ سادہ سی بات کہی ہے میں نے ۔اب اس کا جواب دے!‘‘ خاموشی چھا گئی ۔ ایک کونے سے ذیلدار کی گائے کی سانسوںکی آواز صاف سنائی دینے لگی ۔ وحید بولا ’’ مگر بابا چوپال تواپنی جگہ پر کھڑی ہے ۔ صرف زمین گھومتی ہے ، چوپال تونہیں گھومتی !‘‘ بوڑھے نے کہا ’’ مگر چوپال زمین پر ہے نا ، زمین گھومی تو ساتھ ہی یہ بھی گھومی۔ میرے پائوں گھومے تو ساتھ ہی سر بھی گھوما ، کیوں؟‘‘ ’’ مگر …‘‘ مگروحید کی آواز کسی نے نہ سنی اور تمام مجمع سفید ریش بزرگ کی طرف دیکھنے لگا جو وہاں سے اٹھ کر پھر اپنے کونے میں بازو کا تکیہ بنا کر اطمینان سے لیٹ گیا تھا جیسے وہ تمام دنیا کو فتح کر آیا ہو۔ ذیلدار نے پگڑی باندھتے ہوئے کہا ’’ بزرگوں کا دم غنیمت ہے ورنہ وحید نے تو ہمیں لا جواب کر دیا تھا ‘‘۔ وحید عینک صاف کرتے ہوئے بولا ’’ ملک جی ! واللہ اسی لیے چوپال پر آنے کوجی نہیں چاہتا ۔میری بات کوئی سمجھتا تو ہے نہیں اور پھر گلیوں میں ہرکوئی کہتا ہے چوپال پر آیا کرو، چوپال پر آیا کرو، آخر کس بات پر آئوںیہاں ؟ سادہ سادہ باتیں آپ نہیں سمجھ سکتے ۔ آپ کو ریڈیو ، سینما پر یقین نہیں آتا !‘‘ چچا اللہ یار داڑھی میں انگلیاںپھیر کربولا ’’ کیسے آئے جب یہ بات دماغ ہی میں نہیں سماتی !‘‘ چوپال کادروازہ اچانک کھلا ، آبنوسی رنگ کاایک نوجوان تیزی سے اندر گھسااورپکار اٹھا ’’ ملک جی ! سات سات مبارک ، لاکھ لاکھ مبارک!‘‘ ذیلدارنے چونک کر پوچھا ’’ کیوںکیا بات ہے ؟‘‘ کالے آدمی نے دانت نکالتے ہوئے کہا ’’ اللہ نے آپ کو بیٹا بخشا ہے !‘‘ ہر طرف سے صدائیں بلند ہوئیں ’’ مبارک ،مبارک، مبارک!‘‘ چچا اللہ یار مسکراتے ہوئے بولا ’’ سبحان اللہ ! چھ لڑکیوں کے بعد لڑکا ، کتنی خوشی کی بات ہے !‘‘ ذیلدار نے اٹھ کر کہا ’’ہاںچچا ! بس ایک بزرگ کی مہر بانی ہے ، بڑی منتوں کے بعد ان سے تعویذ لایا تھا ،انہی کی کرامت ہے !‘‘ تمام مجمع کھڑا ہو گیا اور ذیلدار کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ وحید ، اللہ یار کو ایک طرف لے جا کر بولا ’’ کیا کوئی بزرگ لڑکی لڑکا اورلڑکے کولڑکی بنا سکتا ہے ؟ تجھے یقین ہے چچا !‘‘ اللہ یار بولا ’’ ہاں ہاںکیوںنہیں ، میں بھی توایک جوگی کی دعا سے پیدا ہؤا تھا ‘‘۔ وحید مفلر سے منہ لپیٹ کر ایک گلی میںمڑ گیا ۔ (سیلاب و گرداب 1942) ٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x