ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتول میگزین

کوئی قاتل ملا نہیں
حنا سہیل۔جدہ
منیبہ ایک سائکاٹرسٹ تھی۔ اس کے پاس بہت سے کیسز آتے رہتے تھے اور کچھ تو بہت زیادہ خراب کنڈیشن میں ہوتے تھے ۔اپنے آپ سے بیگانہ گندے حلیہ میں ، ان میں پڑھے لکھے مریض بھی تھے جنہیں زمانے کی چوٹوں نے اس حالت پر پہنچایا تھا اور کچھ ان پڑھ بھی تھے۔ مگر ان مریضوں میں ایک خاتون ایسی بھی تھی جو بولتی نہیں تھیں ،یعنی خاموش جیسے گونگی ہوں،انھیں بولنا نہیں آتا ہو۔ گھر کے سارے کام کرتی تھیں مگرروتی رہتی تھیں۔خاتون جن کا نام عطیہ تھا، انھیں گھر والے ڈاکٹر منیبہ کے پاس ہرہفتہ تھیرپی سیشن کے لیے لے کر آتے مگر ان کی حالت میں پانچ سال میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا _
عطیہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔شوہر بھی ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز افسر تھے۔ اللہ کا کرنا کہ چھ سال تک یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم رہا ، شادی شدہ عورت میں اولاد کی خواہش اللہ نے فطری طور پر رکھی ہے اور جب دنیا والے طعنہ دینے لگتے ہیں تو یہ خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے ، عطیہ تہجد میں اٹھ اٹھ کر اپنے اللہ سے گڑگڑا کر صالح اولاد کی نعمت مانگتی تھیں ، اور اللہ نے ان کی یہ دعا ایسی سنی کہ اُنھیں دو جڑواں بیٹوں سے نوازا ۔دونوں میاں بیوی کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ رب العالمین کا شکر ادا کیا اس نعمت پر اور عطیہ نے دن رات بچوں کی تربیت میں لگادیے، بچوں کا رونا تنگ کرنا انھیں بالکل پریشان نہ کرتا کیونکہ اسی چیز کی تمنا تھی انھیں ، ان کے گلشن میں اللہ نے جو پھول دیے تھے ان کی آبیاری وہ خوشی خوشی کرنے لگیں ۔ان کی خواہش تھی کہ بچے پہلے حفظ قرآن کریں پھر دنیا کی تعلیم حاصل کریں ، دونوں بچے جب چار سال کے ہوگئے تو انھیں مدرسے میں داخل کروادیا ۔
بچے بھی بلا کے ذہین تھے، ڈھائی سال میں قرآن حفظ کرکے مثال قائم کردی ، ان بچوں کے تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے عطیہ کو ایک بیٹا اور پھر ایک سال بعدایک بیٹی سے نوازا، لیکن عطیہ کو جو محبت اپنے جڑواں بیٹوں محمداور عبداللہ سے تھی وہ کم نہ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی سارے والدین کی طرح اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے اور اس کے لیے جدوجہد بھی کرتے، اسی لیے انھوں نے شہر کے بہترین اسکول آرمی پبلک اسکول میں داخل کروایا ، محمد اور عبداللہ شریر ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کے ذہین بھی تھے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہر بار کوئی نہ کوئی ٹرافی، میڈل یا شیلڈ لاتے رہتے اور شوکیس ان کے کارناموں کی داستان سناتا ، ماں صدقے واری جاتی باپ دعائیں دیتے نہ تھکتے ۔
محمد کا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا جب کہ عبداللہ آرمی میں پائلٹ بننا چاہتا تھا ، چھوٹے بہن بھائی بھی بڑے بھائیوں کی تقلید میں آگے بڑھنے اور اچھے نمبر لانے کی کوشش کرتے ، ہر وقت والدین دونوں کو کہتے دیکھو بڑے بھائیوں جیسے بننا ہے ، اسی لیے جب امتحانات کا موسم ہوتا گھر میں مقابلہ کی فضا بن جاتی ۔
دسمبر میں ششماہی امتحانات کی تیاری زور شور سے جاری تھی۔ دونوں بڑے نویں جماعت میں اور چھوٹا عمر چھٹی جماعت میں جبکہ عائشہ چوتھی جماعت میں تھے ، بڑے بھائی چھوٹے بہن بھائی کو پڑھانے میں مدد بھی کررہے تھے ، عبداللہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کچھ گھول کر عمر کے دماغ میں ڈال دے اور محمد تو آتے جاتے ماں کو پیار کرکے دعائیں لینا نہیں بھولتا تھا کہ ماں دعا کریں اچھے نمبروں سے پاس ہوجاؤں۔
سخت سردی کا دن تھا آج عطیہ نے خاص طور پر موٹے موزے اور دستانے نکالے تھے محمد اور عائشہ کو تاکید کی تھی کہ یہ پہن کر جائیں کل سے نزلہ اور گلا خراب چل رہا تھا ، لیکن دونوں جلدی جلدی میں بھول گئے۔ اب عطیہ کو غصہ آرہا تھا کہ اتنی سردی میں بھی یہ بچے اتنی لاپروائی کرتے ہیں، میں ہی بیگ میں ڈال دیتی ،یہ کہہ کرمیاں کا ناشتہ بنایا اور گھر کے کاموں میں لگ گئیں۔ کام والی بھی صفائی کے لیے آگئی تھی ۔عطیہ نے سوچا آج سب کی پسند کا پالک گوشت بنائے گی اور پالک کاٹنے میز پر آکر بیٹھی اور ٹی وی کھول دیا کہ خبریں سن لوں۔ مگر جو خبر چل رہی تھی پہلے تو سمجھیں کانوں نے شاید غلط سنا مگر جب حقیقت معلوم ہوئی تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کریں ۔کام والی بھی پریشان، انھوں نے ادھر ادھر فون لگایا مگر کوئی سننے والا نہ تھا۔
گھر سے نکل کر اسکول کا رخ کیا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہؤا۔پیروں تلے زمین نکل گئی آسمان پھٹ گیا قیامت آگئی سب الفاظ چھوٹے ہیں اس ماں باپ کے لیے جنکا چمن اجڑ گیا ۔ظالموں نے کسی کو نہ چھوڑا ،ہر کوئی ایک ہی درد کی تصویر سجائے بیٹھا تھا ۔باپ ادھر بھاگ رہا تھا کبھی ادھر کہ کسی طرح سکول میں داخل ہوجائے بچوں کو بچالے۔ کئی لوگ اسےپکڑے کھڑے تھے کہ آگے خطرہ ہے اور اس کی حالت کہ او ظالمومیرے بچے ہیں میری دنیا اندر ہے ، کیا نہ دہائی دی اس باپ نے…. لوگ کہتے ہیں صبر کروں، کس کو صبر کروں کہاں سے لاؤں وہ دل! اسے تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سارے جہان کو آگ لگادے جس میں اس کے اپنے بچے محفوظ نہیں وہ کیوں وہاں کھڑا ہے _
اس دن سے عطیہ کو خاموشی لگی ہے، سکتہ کی کیفیت میں ہے۔ جس ماں کا گلشن اجڑ گیا اسے کوئی تسلی کوئی تشفی کام نہیں کرتی۔
ٹوٹے ہیں کتنے خواب ہمارے یہاں مگر
ہم کو ابھی تلک کوئی قاتل ملا نہیں
٭ ٭ ٭
اسیرِقفس
عنیزہ عزیر
’’واہ! نومی بھائی کی شادی ہو رہی ہے‘‘۔ بشریٰ نے سنہری ڈور کھولی اور کارڈ باہر نکال کر پڑھتے ہوئے کہا۔
’’یہ اندر الماری میں رکھ دو۔ تمھارے بابا نے دیکھ لیا تو خوامخواہ غصہ کریں گے‘‘۔ عذرا بیگم نے سنہری ڈوری سے کارڈ باندھ کر اس کو پکڑایا۔
’’امی! ہم نومی بھائی کی شادی میں بھی نہیں جائیں گے؟ ‘‘ بشریٰ روہانسی ہوئی۔
’’ میں کیا کر سکتی ہوں بیٹا! جہاں سب اپنی اپنی اناؤں کے پنجرے میں قید ہوں وہاں دوریاں ایسے ہی جنم لیتی ہیں۔ اور جب اس سے آزاد ہونے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہو تو اس کے اثرات اگلی نسلوں تک منتقل ہو جاتے ہیں‘‘۔
’’ لیکن کسی کو تو کوشش کرنی ہو گی تاکہ اس انا کی ضد سے باہر نکلا جا سکے‘‘۔
بشریٰ کے جھنجھلانے پر عذرا دھیمے لہجے میں بولیں۔
’’ یہ انا بڑی ظالم چیز ہے۔ اس کو بلند رکھنے کی خاطر لوگ اپنے بہت سے اہم تعلقات کھو دیتے ہیں۔ میں نے بہت دفعہ تمھارے بابا کو سمجھانا چاہا لیکن وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے تھے‘‘۔
٭
ناصر اور نصیر، حمید اللّٰہ خان اور حشمت بیگم کے بیٹے تھے۔ دونوں بھائی، بیوی بچوں سمیت والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ حاذق، ساجدہ اور بشریٰ، ناصر حمید کی جبکہ احتشام، امینہ اور نعمان، نصیر حمید کی اولاد تھے۔ بھائیوں کے ساتھ ساتھ دونوں دیورانی، جیٹھانی اور بچوں کے آپس میں مثالی تعلقات تھے۔ چونکہ ساس بھی بھلی مانس خاتون تھیں اس لیے زندگی بہت اچھے انداز میں گزر رہی تھی۔
حمید اللّٰہ صاحب کی وفات کے بعد حشمت بیگم بیمار رہنے لگیں تو انہوں نے حاذق کا رشتہ امینہ سے اور احتشام کا رشتہ ساجدہ سے طے کردیا۔ جبکہ نعمان اور بشریٰ کی عمر کم ہونے کے باعث ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ حاذق اس رشتے کا سنتے ہی انکاری ہو گیا کیونکہ وہ اپنی کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ حاذق کا انکار سن کر نصیر صاحب نے یہ کہہ کر احتشام کے رشتے سے انکار کر دیا کہ’’جو لوگ ان کی بیٹی کو نہیں اپنا سکتے وہاں سے وہ بہو بھی نہیں لائیں گے‘‘۔
ناصر صاحب کو اس بات پر اعتراض تھا کہ احتشام اس رشتے سے مطمئن ہے تو نصیر، صرف حاذق کی ضد میں احتشام اور ساجدہ کا رشتہ ختم نہ کریں۔ لیکن نصیر نے کسی کی بھی نہ سنی اور رشتہ ختم کر دیا۔ جو معاملہ مِل بیٹھ کر حل ہو سکتا تھا دونوں بھائیوں کی انا نے اس کو اتنا بگاڑا کہ آپس کی بات چیت بالکل ختم ہو کر رہ گئی۔ والدہ کے حیات رہنے تک نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں بھائی ساتھ رہے لیکن ان کی وفات کے بعد دونوں نے اپنے حصے الگ کر لیے اور علیحدہ گھر بناکررہنے لگے۔ دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی جھکنے کو تیار نہ تھا۔ دونوں کی بیگمات چاہتے ہوئے بھی معاملات کو سدھار نہ سکیں۔
حاذق، ساجدہ، امینہ اور احتشام کی اچھی جگہوں پر شادیاں ہو چکی تھیں۔ وہ چاروں اپنے اپنے گھروں میں خوش اور مطمئن تھے اس کے باوجود بھی آپس کی خلیج ختم نہ ہو سکی تھی۔دونوں بھائیوں میں ملنا جلنا بالکل ختم تھا جبکہ بچے ان کے علم میں لائے بغیر اکثر ملتے رہتے تھے اور اس معاملے پر سوچ بچار کرتے رہتے تھے کہ کیسے حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔ نعمان کی شادی کا کارڈ آنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ دونوں بھائیوں کو کسی طرح راضی کیا جا سکے۔ لیکن عذرا نہیں چاہتی تھیں کہ ناصر صاحب، نعمان کی شادی کا کارڈ دیکھیں۔ وہ دل سے دونوں گھرانوں کے تعلقات کی بہتری کی خواہاں تھیں لیکن اپنے گھر میں کشیدگی بھی نہیں چاہتی تھیں۔
٭
’’امی! میں یہ کارڈ ابا کو دکھا کر ان کو راضی کرنے جا رہی ہوں‘‘۔ بشریٰ نے سوچ میں ڈوبی ماں کا کندھا ہلایا۔
’’نہیں بیٹا! یہ نہ ہو کہ تمھارے بابا اس طرح کا کوئی قدم اٹھائیں کہ نصیر بھائی کے گھر کی آخری خوشی خراب ہو‘‘۔
’’ بس امی! یہ قدم آپ کو اور چچی کو بہت پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا۔ آپ بھی کہتی ہیں کہ جو اپنی ذات کو انا کے قفس میں اسیر کر لے وہ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے۔ اور میں نہیں چاہتی کہ اب مزید خسارے ہم سب کےحصے میں آئیں‘‘۔
بشریٰ کارڈ اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھ گئی پھر واپس مڑی۔
’’اور ہاں! اب ہم لوگ ابو کو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانے دیں گے جو دونوں گھرانوں کے لیے خرابی کا باعث ہو۔ اب سب بہتر ہوگا انشاء اللہ‘‘۔
’’ ان شاء اللہ ‘‘ زیرِ لب کہتی عذرا بیگم سوچ رہی تھیں،آج کی نسل زیادہ ہمت والی اور بہادر ہے۔ اگر یہی ہمت انہوں نے برسوں پہلے کر لی ہوتی تو دونوں گھرانے ایک دوسرے کی خوشیوں میں بھر پور طریقے سے شریک ہوتے۔وہ دعا کر رہی تھیں کہ ناصر صاحب مان جائیں تا کہ آنے والی تمام خوشیاں دونوں گھرانے مل کر منا سکیں۔
٭٭٭
طاہرہ صابر کی یاد میں
روبینہ اعجاز
زندگی ایک سفر ہے۔یہاں ہر مسافر اپنا سفر مکمل کر کے اس جہان فانی سے جہان ابدی کی طرف کوچ کر جاتا ہے ،یہ پیغام دیتا ہؤا کہ تم سب کو بھی اسی طرح اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے۔
میری دینی بہن اور بہت اچھی ساتھی طاہرہ صابر انتیس اگست کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ساتھ بہت سی خوبصورت یادیں چھوڑ گئیں۔وہ ان لوگوں میں سے تھیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آ تا ہے۔ ہر دلعزیز،نہایت سادہ ،کم گو،شریف النفس۔ عبادت گزار اس حد تک کہ نفلی نمازوں اور روزوں کی پابند۔نہ کسی سے شکوہ نہ کسی سے شکایت ،نہ ہی کاموں میں برابری ۔ انتہائی معصوم، صرف اور صرف اللہ کی محبت میں سرشار ،دین کے کاموں میں مگن ،خلق خدا سے محبت کرنے والی خاتون تھیں۔لکھنے میں قلم ساتھ نہیں دے رہا کہ ان کے یہ جملے کانوں میں گونج رہے ہیں ،روبینہ تم لکھتی رہنا!شروع،شروع میں ادبی نشستوں میں جانا ہوتا تو وہ میرے ساتھ ضرور جاتیں۔ خود بھی نشر و اشاعت سے منسلک تھیں،ہر خاص موقع پہ مراسلے ضرور لکھتیں۔جب میں جماعت اسلامی میں شامل نہیں تھی اس وقت سے ماہنامہ بتول اور ترجمان القرآن میرے گھر لے کر آتیں اور کہتیں انہیں ضرور پڑھنا، دماغ کھلتا ہے۔
ان کے گھر میں ہر سال باقاعدگی سے دورہ قرآن ہوتا۔ میں اس میں شریک ہوتی اور محلے کی کافی خواتین بھی شریک ہوتیں۔ان کے گھر کے دروازے دورہ قرآن ہو یاسیرت کا کوئی پروگرام ہو یا عید ملن ،بچوں یا بڑوں کا کوئی بھی پروگرام ہو اس کے لیے کھلے رہتے۔ وہ اور ان کی بیٹیاں خوش دلی سے سارے کام انجام دیتیں۔ مہمانوں کی تواضع میں آگے آگے رہتیں۔
مجھے کارکن بنانے بھی وہ میرے گھر آئیں۔ پہلے دو رکعت نماز حاجت پڑھی اور پھر اپنا پیغام دیا۔ ویسے کارکن بننے کے بعدجب کبھی میں ان کے گھر جاتی اور کسی کام کے لیے ان کے ساتھ نکلنا ہوتا تو وہ نماز حاجت پڑھ رہی ہوتیں اور مجھے بھی کہتیں جب بھی کسی کام کے لیے نکلو تو ضرور نماز حاجت پڑھ لو ۔ جہاں وہ اللہ کی محبت میں ہر کام کے لیے تیار رہتیں وہاں انفاق میں بھی آگے رہتیں۔ اگر کسی سلسلے میں فنڈ جمع ہو رہا ہوتا تو وہ اپنے زیور تک بیچ کے پیسے لگا دیتیں ۔وہ اپنے گھریلو کام کاج کے علاوہ بچوں اور خواتین کو قرآن پڑھاتیں۔وہ اللہ کی محبت میں سرشار ہر کام کے لیے دل و جان سے تیار رہتیں۔ محلے میں کہیں دعوتیں دینی ہوں، فنڈ جمع کرنے ہوں،ان کے قدم خوشی خوشی اٹھتے ۔ وہ ہر ایک کے ساتھ بہت خوشی سےجاتیں۔میں جب کبھی ان کے گھر جاتی اور ان کے ساتھ کہیں کام کے لیے نکلنا ہوتا، اگر گرمیاں ہوتیں تو ان کی بچیاں ٹھنڈا شربت سامنے لا کر رکھتیں کہ گرمی ہے یہ پی لیں، اگر سردیاں ہوتیں تو گرم حلوہ جات سے تواضع کرتیں۔
وہ ہر کسی کے کام آتی تھیں۔ ایک دفعہ میں ان کے گھر گئی دروازے کے پاس ایک ماسی نظر آئی۔میں اس سے بات کرنے لگی۔ انھیں بتایا کہ میرے گھر آج کل ماسی نہیں ہے اور میری طبیعت خراب ہے۔ دوسرے دن صبح صبح میرے گھر کی بیل بجلی دیکھا تو وہ ایک ماسی کے ساتھ میرے دروازے پر موجود تھیں۔مجھے سخت حیرت ہوئی،میں نے کہا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ مجھے بلا لیتیں۔ مسکرا کر کہنے لگیں کوئی بات نہیں تمہیں ماسی کی ضرورت ہے نا ۔
وہ کسی سے ملاقات کے لیے جاتیں تواس موقع پر، یا پھر دورہ قرآن کے اختتام کا دن ہوتا توبھی سب شرکاکو تفاسیرقرآن یا سیرت کی کتابیں دیتیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہر نیک عمل کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے،آمین۔
ان کے انتقال کے دن ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر زبان پر ان کے نیک کاموں کی گواہیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام پر رکھے۔ جدائی میں دل غمگین ہے اور یہ شعر یاد آ رہا ہے کہ:
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x