ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انسان کا نشہ – سنیہ عمران

ایسا نشہ جس میں آ پ کا ریموٹ کنٹرول ایک فرد کے پاس ہوتا ہے!

دنیا میں بہت سے نشے ہیں ،منشیات کا،موبائل کا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن انسان کا نشہ سب سے برا نشہ ہے ۔یہ آپ کا وقت، صلاحیتیں سب کچھ کھا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اب تعلق رہ ہی ضرورت کا گیا ہے ۔بغیر غرض کا تعلق بچا ہی نہیں چاہے رشتہ کوئی بھی ہو۔ ہماری ایک روایت بن گئی ہے کہ جب تعلق جوڑنا پڑتا ہے تب تک ہم فرد کو بہت وقت دیتے ہیں اور یہ ضرورت ہی طے کرتی ہے کہ لہجہ کتنی دیر اور کب تک میٹھا رکھنا ہے۔ اور تعلق کب تک رکھنا ہے اور کتنا مضبوط یہ بھی ضرورت ہی طے کرتی ہے ۔
میرے نزدیک انسان کا نشہ سب سے برا نشہ اس لیے ہے کہ اس میں آ پ کا سارا ریموٹ کنٹرول اسی فرد کے پاس ہوتا ہے۔ کب ہنسنا ہے، کب رونا ہے، کب خوش ہونا ہے، اور اگر وہ آ پ کو بہت زیادہ وقت دیتا ہے اور آ پ کو لگتا ہے کہ آ پ اس کے لیے بہت اہم ہیں، بہت خوب صورت لہجہ اور بہت خوب صورت باتیں،تو آ پ خود کو آ سمان پہ محسوس کرتے ہیں۔اور اس طرح کے رویے سے غلط فہمی کا شکار ہونا عین فطری بات ہے ۔
ہم کہتے ہیں فلاں یہ نشہ سپلائے کرتا ہے فلاں یہ ،اور گناہ گار ہے قابل معافی نہیں، مگر انسان کے نشے میں گرفتار ہونے والاخود قابلِ گرفت سمجھا جائے گا کیونکہ وہی ہے جو خود کو اس نشے سے باز رکھ سکتا ہے۔انسانوں سے تعلق رکھے بغیر تو گزارا نہیں اور مطلوب بھی نہیں۔مگر آپ تعلق ہی اتنا رکھو جتنا نبھا سکتے ہو۔ ہمیشہ ہر وقت اعتدال اعتدال کا درس دیتے ہو اس معاملے میں اعتدال کہاں گیا ؟
دیگر نشوں کی طرح انسان کو یہ نشہ بھی بری طرح نفسیاتی طور پر توڑ دیتا ہے۔ یہ بھی انسان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ خطرناک ذہنی اذیت ہے۔کچھ افراد جو کمزور ہوتے ہیں وہ اس صورتحال سے نکل نہیں پاتے اور شدید ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ۔
بعض دفعہ متاثر شخص اینٹی ڈپریسنٹ لیتے لیتے اس کا عادی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے ذہن میں ہزاروں سوال ہوتے ہیں پر جواب دینے والا کوئی نہیں۔ جانے والا پاس سے گزر گیا اجنبی کی طرح اور آ پ اپنا قصور ڈھونڈتے رہ گئے ۔بڑا مشہور مقولہ ہے’’جس تن لاگے سو تن جانے‘‘ سو اس میں مزید کیا بحث ۔ایسی صورت میں فردکوہر قیمت پہ اللّٰہ سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہے، بار بار شیطان بہکائے گا مگر منزل پہ آ پ نے پہنچنا ہے،آ ہستہ آ ہستہ سکون آ جائے گا، بس لگن سچی ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ بہت انصاف پسند ہے وہ آ پ کو ہر گزضائع نہیں کرے گا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اطاعت صرف نیکی میں کی جائے گی،تو ہم دوسرے کی بات صرف اس حد تک مانیں گے جتنی اللّٰہ اور اس کے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے۔ اگر کسی کاکوئی ایسا مطالبہ ہے جو خلافِ اسلام ہے تو وہ چاہے ہمیں کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو اس سے کتنی ہی محبت کیوں نہ ہو آ پ وہ نہیں مانیں گے،اپنی ذات میں پراعتماد رہیں البتہ ایسے شخص کے ساتھ حکمت سے معاملہ کریں ،بلاوجہ تعلق کو بگاڑنے والا معاملہ نہ کریں۔
کوئی بھی رشتہ ہے کوئی بھی تعلق ہے شروع میں لگتا ہے ہم مر جائیں گے اگلا سانس نہیں آ نا، لیکن ہم نہ مرتے ہیں بلکہ سانس بھی آ تا ہے۔ مثبت کتابیں پڑھیں واک کریں دینی محفلوں میں جائیں، ان سے ملیں جو مل کے واقعی رب کی یاد دلا دیں۔ کچھ لوگ راہِ حیات میں مثل بہار ہوتے ہیں ۔
خود کو سمجھانا دنیا میں سب سے مشکل کام ہے اور یوں لگتا ہے کانٹوں کا یہ سفر ہم کبھی طے نہ کر پائیں گے، نا ممکن ہے یہ! لیکن ہر قیمت پر آ پ کو بہت مضبوط بن کر یہ سفر اپنی فیملی کے لیے اپنے مخلص افراد کے لیے طے کرنا ہے کیونکہ آ پ ان کے لیے بہت قیمتی ہیں، بہت اہم ہیں اور ان کا حق ہے آ پ پر ،آ پ جواب دہ ہیں اس کے لیے ،کسی ایسے انسان کے لیے اپنی آ خرت تباہ نہ کریں جس کے لیے آ پ ٹشو پیپر تھے، استعمال کیا اور پھینک دیا۔ ایسی سوچ آ ئے،ایسا وقت یاد آئے تو دورد شریف پڑھیں، ایسی سوچیں بھی اذیت دیں گی۔ مو و آ ن کر جائیں کیونکہ اس میں آ پ کا فائدہ ہے، اسی ماضی میں رہ جانے میں صرف آ پ کا نقصان ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن ایک ہی سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جاتا۔ زندگی میں دوبارہ خود کو استعمال ہر گز نہیں ہونے دیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے جو مقصد حیات آ پ کے لیے متعین کیا ہے اسے یاد رکھیں، اس کے لیے جدوجہد اور کوشش کر یں ،اتنی محنت کریں کہ آپ کی کامیابی شور مچا دے۔ خود کو بہت مضبوط بنائیں کہ دوسرا شخص خود آ پ سے ملنے کی تمنا کرے اور چھوڑ جانے والوں کے پاس صرف افسوس ہو اس پل،اور اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دیں وہ بہترین حساب لیتا ہے اور وہ دنیا و آخرت دونوں میں لے گا، یقین رکھیں اس پر ،وہ آ پ کو ضائع نہیں کرے گا ۔
خود بھی خیال رکھیں کہ اس طرح کوئی اور ہمارا عادی نہ ہوگیا ہو۔ اگر ہم کسی کو سمجھا سکیں تو اسے کہہ دیں، حجت تمام کر دیں،آ گے دوسرے کی مرضی مانےیا نہیں۔
یہ بھی خود سمجھیں کہ تعلقات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ اتار چڑھاؤ آ تا رہے گا، کبھی نزدیک والے دور اور دور والے نزدیک ۔ذمہ داریاں بدلنے سے تعلقات بدلنا فطری امر ہے، اس کا ویسا رہنا ممکن نہیں، لیکن خوشی غمی تک کوششیں کریں نبھانے کی ۔غم میں تو لازمی شریک ہوں، خوشی سے رہ بھی گئے تو خیر ہے اور یہ تو مسلمان کا حق ہے کہ اس سے تعزیت کی جائے ۔لوگ تو ایسے موقع پر دشمنوں کے گھر بھی چلے جاتے ہیں۔ بس اللّٰہ کا حکم سمجھ کر چند منٹ شریک ہو جائیں۔ ہو سکتا ہے آ پ کے چند منٹ کسی کو اللہ سے مزید قریب کر دیں۔
اب ہم اپنا اپنا جائزہ لے لیں کہ کہیں ہم تو اس نشے کے عادی نہیں بن رہے یا ہماری وجہ سے کوئی بن رہا ہے تو وہیں پہ خود کو درست کرکے اس کے ساتھ خیر خواہی کریں، سمجھا دیں، اس کی حد واضح کر دیں کیونکہ آ خرت کے ساتھ دنیا بھی خوشگوار ہو سکتی ہے اگر انسان کے نشے کو حد میں رکھا جائے ۔ہو سکتا ہے یہی عمل ذریعہ نجات بن جائے اور ہو سکتا ہے یہی عمل ہماری تباہی کا باعث ہو۔ فیصلہ آ پ کے ہاتھ میں ہے اپنے مقدر میں جو چاہیں لکھوا لیں ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x