ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

وہ آئیں گھر میں ہمارے – افشاں نوید

وہ آئیں تو بھانجی کی شادی میںشرکت کے لیے تھیں مگر قانتہ رابعہ کراچی آئیں اور لکھاریوں کی محفل نہ سجے ایسا ممکن ہی نہیں !
ابھی ان کے آنے کی اطلاع ہی ملی تھی کہ ادبی حلقے میں ہلچل مچ گئی اور بے چینی سے ان کی آمد کا انتظار ہونے لگا ۔ اتنی محفلیںسجیں کہ بھانجی کے ساتھ وقت گزارنے کاموقع تومشکل ہی سے مل سکا ہوگا ۔
اصل میں اتنے معروف لوگوں کامسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ ہر ایک انہیں اپنا ’’اثاثہ‘‘ سمجھنے لگتا ہے یعنی ہمارا بھی حق ہے تم پر ۔ قانتہ نے اس حق کو خوب نبھایا اورکسی محفل میں شرکت پر اپنی ذاتی مصروفیت کا کوئی عذر نہ رکھا ۔
صدر حریم ادب عالیہ شمیم کے گھر سجی لکھاریوں کی اس محفل میں ہم بھی شریک ِ محفل تھے ۔ گھر کے برآمدے میں ایک کشادہ اونچا چبوترا سا ہے ۔ اس پر صوفے قرینے سے رکھے تھے اور نیچے کمرۂ جماعت کے انداز میں ایک کے پیچھے ایک کرسیاںدھری تھیں اہل مجلس کے لیے ۔ دائیں طرف دو میزیں سفید میز پوش سے ڈھکی نفاست کا پتہ دیتی تھیں۔ بیلے کے پھولوں کے ساتھ ائیر فریشزکی مہک بھی عجب تازگی دے رہی تھی۔ تازگی کی بڑی وجہ تو شرکا کے بیچ قانتہ رابعہ کی موجودگی تھی ۔
ہاں وہ اسٹیج جسے ہم نے چبوترے کا’’ دیسی‘‘ سا نام دے دیا ہے جس کا تذکرہ یوںآیا کہ کسی نے کمرہ جماعت والی نشستوںپر بیٹھنا پسند نہ کیا کیوںکہ اس طرح ان کا اپنی پسندیدہ مصنفہ سے ایک غیر محسوس سا فاصلہ ہو جاتا لہٰذا سب اپنی کرسیاں اٹھا کراسی اسٹیج پر قریب قریب بیٹھ گئے ۔ یعنی چاروں طرف سے اپنی مصنفہ کو گھیر لیا۔
مختصر سے نوٹس پر معروف لکھاری خواتین اپنی مصروفیات چھوڑ کر قانتہ رابعہ بہن سے ملنے آئیں۔
ایک بے تکلف غیر رسمی نشست تھی ۔
’’ جاننے ‘‘ کا ذریعہ سوال ہیں ۔سو لکھاری ساتھیوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی جس سے اندازہ ہؤا کہ وہ کس شدت سے اس مصنفہ کو جانناچاہتے ہیںجس کی تحریری کاوشیںچار دہائیوں پر مشتمل ہیں۔جو لگ بھگ پچاس کتابوں کی مصنفہ ہیں ۔ وہ دل جوان پچاس کتابوں کے ہر صفحے پر بلکہ ہر سطر میںدھڑک رہا ہے ۔
پچھلے ماہ مکتبہ معارف اسلامی میںان کی نئی کتب دیکھیں،جب کہ شیلف میںان کی پرانی کتب بھی نظر آئیں ۔ یوںلگا کہ اب تو لائبر یریوںاور مکتبوں میں ان کے نام کے الگ گوشے مختص ہونا چاہئیں۔
اپنے اندر کے لکھاری کو کب جانا ؟کب سے لکھ رہی ہیں ؟ کتنا لکھ چکیں؟لکھنے کے لیے فرصت کیسے ملتی ہے ؟ اب تک جو لکھا اس سے کیا پایا؟ آپ کے قاری کا فیڈ بیک کیا ہوتا ہے ؟قارئین کااتنا وسیع حلقہ کیا لکھاری کوخود پسند نہیںبنا دیتا ؟ اگر لکھاری نہ ہوتیں تو کیا ہوتیں؟ خود سے ملنے کا وقت کب نکال پاتی ہیں؟ خانگی زندگی کا احوال وغیرہ جیسے سوالات کے رسمی جوابات دینے کے بجائے جو جوابات قانتہ رابعہ نے دیے اس سے ان کے علمی افق سے آگہی ہوئی۔
انہوں نے کہا ’’ ان کے قریبی حلقوں میں ان کاتعارف ایک مدرّسہ کا تعارف ہے ‘‘ بلا شبہ یہی تعارف بین السطور ان کی ہر تحریر میں ہوتا ہے کہ وہ دکھنے کےلیے نہیںلکھتیں ، نہ ہی چھپنے کے شوق میںلکھتی ہیںبلکہ ان کے اندر کا اضطراب انہیں چین سے نہیں رہنے دیتا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی دلہن بنی بیٹھی تھی ۔بارات کا انتظار تھا کہ انہوں نے ذہن میںآنے والے خیالات کو تیز تیز رقم کرنا شروع کر دیا اوربارات آنے تک وہ مضمون لکھ چکی تھیں ۔انہوں نے کیا اور غضب کی بات کی کہ ’’ لکھاری کے لیے خیال ایک تحفہ اور رزق ہوتے ہیں ۔ جب آپ انہیں خوش آمدید نہیںکہتے ، فوری رد عمل نہیں کرتے ، قلم نہیں اٹھاتے تو وہ کسی اور کے پاس چلے جاتے ہیں ۔اسی لیے اکثر کوئی تحریر پڑھ کر آپ سوچتی ہیںکہ بالکل یہی میںسوچ رہی تھی یا میرے خیالوںکو کسی دوسرے نے زبان دے دی ۔ اس لیے جونیا خیال یا سوچ آپ کے دل و دماغ پر دستک دے اس کی قدر کریں۔اس کو کہیںنہ کہیں مختصر سہی مگر لفظوں کی شکل دے دیں۔ انھوںنے بتایا کہ رات کو کسی وقت ان کی آنکھ کھلتی ہے اور ذہن میںکوئی نیا خیال یا آئیڈیا آتا ہے تو وہ اسے قلم بند کر لیتی ہیں( قلم ان کے دائیںبائیں ہی رہتا ہے )۔
شہرت پا کر انسان کاطرز عمل کیسا ہو؟ اس پر نہایت عاجز ی سے انہوں نے کہا کہ ’’ بندۂ خاکی خود اپنی حقیقت جانتا ہے ۔ جب انسان کی نظر اس بات پر ہو کہ میرے پاس اپنا کیا ہے ؟ دینے والا جس وقت چاہے لے لے تو وہ صلاحیت کی قدر سمجھتا ہے اسے امانت گرد انتا ہے ۔ دو گز قبر تصور میں ہو تو بندے کی گردن میںسریا کیسے آسکتا ہے ؟‘‘
انہیں اہلیانِ کراچی کی علم دوستی بہت پسند آئی کہ جگہ جگہ لوگ ان کی تحریروں کے حوالے دیتے ہیں ۔ کسی تحریر کے خاص جملے کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ’’ فلاںجملے سے ہم نے یہ سیکھا ‘‘ ۔
مجھے اپنی چھوٹی بہن یاد آئی جو ایک موقع پر بولی کہ میںنے فلاںکام اس لیے شرح صدر کے ساتھ کرلیا کہ قانتہ رابعہ کے ایک افسانے میںپڑھا تھا کہ نیکی کر کے بھول جائووہ رائیگاں نہیں جاتی، وہ محفوظ ہو جاتی ہے اور نیکی کبھی دنیا میں صلہ پانے کے لیے نہ کرو‘‘ان کی تحریریں لاکھوںاذہان کے بند دریچے کھول رہی ہیں ۔ مشک کی خوشبو کی مثل انہیںمعطر کر رہی ہیں۔
قانتہ کے موضوعات میںتنوع ہے او وہ قاری کی توجہ کشید کرنا جانتی ہیں ۔اس نشست کے قارئین نے محسوس کیا کہ ان کا قرآن سے زندہ تعلق ہے ۔ اسی لیے وہ اپنی تحریروںمیں بین السطور قرآن کو ایک ’’ زندہ کتاب‘‘ کے طور پر پیش کرتی ہیںوہ گفتگو میں بار بار قرآن کی آیتوں کے حوالے پیش کرتیں ۔کبھی ابن قیم اور حکایات رومی کے حوالے دیتیں۔
وہ دن بھر سونے اور رات بھر لکھنے والی مصنفہ نہیں اگرچہ پچاس کتابوں کی مصنفہ سے سوال تو بنتا ہے کہ اتنا وقت لاتی کہاںسے ہیں؟ وہ ماشا اللہ بھرپور داعیانہ کردار بھی رکھتی ہیں ۔ درس و تدریس کی سر گرمیوںمیں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں ۔ ان کے قارئین کی طرح ان کے سامعین کا بھی ایک بڑا حلقہ ہے ۔ شام ڈھلے ان کی سنگت میںہم کراچی کے باسی یہی سوچ رہے تھے کہ جتنا ان کو پڑھنا اچھا ہے اتنا ہی ان کو سن کر اچھا لگتا ہے ۔ ایک عاجزانہ طرزِ تکلم جو سامع کو تادیر اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔
اسکرین اور کی بورڈ کی اس دنیا نے ان کا ناطہ قلم سے نہیںتوڑا بلکہ کمزوربھی نہیں ہونے دیا۔وہ سب کچھ قلم سے لکھتی ہیں ۔ نہ صرف لکھتی ہیں بلکہ اہتمام سے اپنی ہر تحریر فائل میں محفوظ بھی رکھتی ہیں ۔ ان کی چار پانچ کتابیں اس وقت بھی زیر طبع ہیں۔ صاحبانِ کتاب جانتے ہیں کہ لکھنے سے زیادہ مشکل کتاب چھپوانا ہے اور اس سے مشکل اسے فروخت کرنا ۔ مگر ان کے یہ سب کام غیبی نصرت سے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔کتاب چھپنےکا عمل ان کی کسی تخلیقی صلاحیت پر اثر انداز نہیںہوتا ۔ نہ کتاب بیچنا ان کے لیے دردِ سری ، نہ ان کو یہ شکوہ کہ قاری کہاں سے لائیں ؟ ان کے قارئین نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ وہ اپنے قاری کو اپنا اثاثہ قرار دیتی ہیں ۔ بہت خوشی سے قارئین کے فیڈ بیک کاحوالہ دیتی رہیں ۔یقیناً قاری کا فیڈ بیک لکھنے والے کے جذبوں کو مہمیز کرنے کا کام کرتا ہے ۔
انہوں نے شرکائے محفل کو اپنی کتاب بھی تحفتاً دی ۔ یقیناً اس محفل کا نایاب تحفہ ان کی کتاب ہی ہو سکتی تھی۔
خوب صورت لکھاریوںسے سجی اس بزم میںوقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا ۔تقریب کے آغاز پر صدر حریم ادب عالیہ شمیم کا پر تکلف ظہرانہ تھا اور اختتام پر ڈاکٹر عزیزہ انجم صاحبہ کا لحن میں نعتیہ کلام تھا جس نے محفل کو گرما دیا ۔ جس کے دوشعرحاضرِ خدمت ہیں۔
حریمِ ذات میں دیا جلا دیا ہے آپؐ نے
خدا کے نور سے اسے سجا دیا ہے آپ ؐ نے
حیاتِ بے ثبات ہو، نجم ہو ، ماہتاب ہو
رموزِ کائنات کا پتا دیا ہے آپ ؐ نے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x