ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

روداد – ماہتاب ڈھونڈتا ہوں میں – رپورٹ:شہلا خضر- تحریر: صائمہ اسما

عالمی یوم حجاب کے سلسلے میں کراچی کے نظم نے گزشتہ دنوں ایک خوبصورت پروگرام بعنوان’’گھرا ہؤا ہے ابر، مہتاب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ فاران کلب بینکوئیٹ میں ترتیب دیا۔ تقریب میں دردانہ صدیقی صاحبہ، رخشندہ منیب صاحبہ،اسماءسفیرصاحبہ اورشہر کی چیدہ چیدہ شخصیات شامل تھیں جبکہ نوجوان لڑکیوں کی نمائندگی بھی خوب تھی۔مہمان خصوصی صدر انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کی اورسابق ممبر پارلیمنٹ و نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ تھیں۔
وقت مقررہ پر خواتین کی بڑی تعداد ہال میں پہنچ چکی تھی۔وسیع وعریض فاران بینکوئیٹ کی تزئین و آرائش ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورتی سے کی گئی تھی ۔پروگرام کی تھیم کی مناسبت سے گلابی اور سفیدپھولوں کے گلدستے جابجا لگا ئے گئے تھے۔ میزبانی کے فرائض ثمرین احمد اور ڈاکٹر فضّہ نے انجام دیے۔
تلاوت قرآن اور ہدیہ نعت کی بابرکت سماعت سے پروگرام کاباقاعدہ آغاز کیا گیا۔اسما سفیر صاحبہ نے خوش آمدید کہتے ہوئے بولیں کہ ہم سب باشعور خواتین ہیں اور یہی شعور ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے جب ہم اپنے اردگرد کے حالات کو دیکھتے ہیں، وطن عزیز کی ناگفتہ بہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں، پستی کا یہ سفر کب اور کہاں رکےگا۔ان کا کہنا تھا کہ حجاب تہذیب و فکر کا نام ہے،اس تصور کو محض عورتوں تک محدود کر دینا کم عقلی ہے .آج ہمیں رشتوں اور خاندان کو بچانا ہے ۔
ہم نے سیکھا ہے اذانِ سحری سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی ہم کو صدا دینا ہے
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا ہے۔ہمارا پلیٹ فارم آپ سب کے لیے حاضر ہے ۔
’’حجاب تہذیب و فکر کا نام ہے ‘‘اس تصور کو اجاگر کرنےکے لیے پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔پہلا حصہ’’روشنی کا سفر‘‘کے عنوان کے تحت ان خواتین کے تاثرات پر مشتمل تھاجو حجاب کی طرف ازخود مائل ہوئیں۔ان میں زرتاج خرم تھیں جوایک کامیاب اینٹر پرینیور، سمال بزنس کی مالک ہیں۔ڈاکٹر مریم بتول تھیں جنہوں نے بتایا کہ ساتویں جماعت سے ٹیلی ویژن پر تقریری مقابلوں میں شرکت شروع کی ، پھر میڈیا کے آزاد ماحول کو دیکھا اور یہی محسوس ہوتا تھا کہ حجاب اپنا کرترقی نہیں کی جاسکتی۔ اسی دوران اپنی والدہ کے ساتھ ایک حجاب کانفرنس میں شرکت کی تواسپیکرز کی گفتگو سے بے حد متاثر ہوئی اور یہ سمجھ آیا کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ بہت سی لایعنی مجبوریوں سے آزادی کا ذریعہ ہے۔
تیسری مہمان حفضہ قنوج نے بتایا کہ انہوں نے کلاس نائن سے حجاب لیا۔پھربڑی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ محسوس کیا کہ حجاب صرف بال چھپانا نہیں ہےبلکہ طور طریقوں میں limitations سیٹ کرنا ہے جس سے سامنے والابات کرتے ہوئے دس ہزار بار سوچے کہ آیا یہ لڑکی یا یہ خاتون اس طرح کی ہیں کہ ان سے کوئی نامناسب بات کر سکوں ۔ماؤں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف بیٹیوں کی بلکہ بیٹوں کی بھی اس نہج پہ تربیت کریں۔
پروگرام کی میزبان ڈاکٹرفضّہ نے کہا کہ نوجوان نسل کنفیوژن کا شکارہے، وہ بے سمت بھی ہے اور بےمقصدیت کا شکار بھی ،اورہر طرف نظریں دوڑائے دیکھ رہی ہے کہ امید کی کرن کہیں تو موجود ہوگی۔
پروگرام کے کلیدی حصے ’’ ماہتاب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ کی میزبانی کے فرائض ادیبہ مصنفہ اسریٰ غوری نے ادا کیے ۔اسریٰ نے اس خصوصی طور سے تیار کردہ ’’کیس اسٹڈی‘‘ سیگمنٹ کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں بے راہروی ، درندگی ووحشت اور مایوسی سے سب سے زیادہ متاثر ہماری نوجوان نسل ہے ۔ ان کے مسائل کو پانچ عنوانات کے تحت ترتیب دے کر ہم نوجوانوں کو مایوسی اور بد دلی سے نکالنے کے حل تلاش کریں گے۔
حاضرین کے چار گروپ بنائے گئے جنہوں نے اپنے حصے کی کیس سٹڈی کو باہم بحث و تبادلہ خیال کے بعد سوالات کی شکل دی ۔
پہلا کیس child abuse اور child rape کاتھا، جس کی گروپ لیڈر ڈاکٹر خولہ خالدتھیں۔دوسرا کیس اداروں میں بڑھتےہوئے ہراسانی کے واقعات پرتھا کہ کیا عورت کہیں بھی محفوظ نہیں۔ اس کی گروپ لیڈر ڈاکٹر اسما احمد تھیں۔
تیسرا کیس ٹرانس جینڈرازم کے نام پر خطرناک رجحانات کو نارمالائز کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں،اس سے متعلق تھا جسے فضّہ علیم نے لیڈ کیا۔چوتھا کیس موجودہ دور ریاست کے چوتھے اہم ستون میڈیا کے کردار پرمبنی تھا جس کی لیڈر آمنہ کیانی تھیں۔پانچواں اور آخری کیس نوجوانوں کی بدلتی فکریں اور ترجیحات کے عنوان سے تھا جس کورجا طاہر لیڈ کررہی تھیں۔
ان تمام کیسز کے حوالے سے کچھ وڈیو کلپس دکھائے گئے جن سے اس تمام صورتحال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔
ان تمام کیسزپر ڈسکشن کے بعد گروپ لیڈروں نے تیار کیے ہوئےسوالات سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ کے سامنے رکھے ۔انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سب سے درخواست کی کہ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوجائیں تاکہ ایک دوسرے کو اپنی مثبت توانائی منتقل کریں۔تمام شرکا ئےمحفل نے دائرے میں ہاتھوں کی زنجیر بنا کر خلوص اور محبت کی توانائی ایک دوسرےکو منتقل کی۔اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حجاب کے احکامات قرآن پاک میں سورۃ نور اور سورۃ احزاب میں موجود ہیں ۔ان دونوں سورتوں میں احکامات کا آغاز مردوں سے ہوتا ہے۔حجاب تہذیب کا نام ہے ، طرز فکر ،لائف سٹائل اور رویوں کا نام ہے ۔یہ ایک اعلان ہے کہ میں سب کے لیے available نہیں ہوں۔ہمیں چاہیے کہ اس ضمن میں لباس کے ساتھ بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کی تربیت پر توجہ دیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ معاشرے میں مجرموں کو قانون کا خوف کیوں نہیں، سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ معاشرے دو چیزوں سے چلتے ہیں، یا خوف خدا سےیا خوف قانون سے، ہمارے یہاں دونوں چیزوں میں کمی آرہی ہے ۔ہم قانون کی بالا دستی کے لیے بھی لوگوں کو منظم کریں گے اور اللہ کی طرف بھی بلائیں گے ،خوف خدا پیدا کریں گے۔یہی ہماری دعوت ہے ۔
والدین کی ذمہ داری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن پاک میں پینتالیس مقامات پر والدین کی اطاعت اور فرما نبردار ی کا حکم ہے۔والدین کا مقام و مرتبہ جتنا بلند ہے ان کی ذمہ داری بھی اتنی زیادہ ہے۔اولاد وہ کورے کاغذ ہیں جو ان کے ہاتھوں میں رب نے تھما دیے ہیں۔اب جو چاہے لکھ دیں،اپنے لیے نجات یا خدانخواستہ عذاب کا باعث بنا لیں ۔والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لیے محبت اور حفاظت کے حصار بنیں۔خصوصاً نوجوان نسل کو اس مہنگائی اور نفسا نفسی کے دور نے پیسے کے پیچھے دوڑنے والا بنا دیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی زندگی کی ترجیحات بدلنے کاکام کیا جائے۔اجتماعیت بہت بڑی نعمت ہے،یہ ہماری ٹائمنگ کو بھی سیٹ کر تی ہے ہماری حفاظت بھی کرتی ہے ہماری تربیت اور چیک اینڈ بیلینس بھی کرتی ہے۔ہمیں دنیا سے بھگا کر رب کے ساتھ جوڑتی ہے ۔
سمیحہ راحیل نے شرکا سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ خاص طور سے لاہور سے آپ سے ملنے آئی ہیں ،آئیے آپ سب بنفس نفیس ہمارے دست و بازو بن جائیں،ہمارے پاس آپ کے سارے سوالوں کاجواب مل جائے گا۔اللہ کا وعدہ ہےاس دین نے غالب ہونا ہے۔ اللہ کرے کہ جب یہ دین غالب آئے تو ہمارے کمزور ہاتھوں نے اس میں کچھ کام کیا ہو۔اللہ نے کہا ہے کہ جو ہمارے راستے میں جدو جہد کرتے ہیں انہیں راستے ہم خود بتاتے ہیں۔یہ اللہ کا وعدہ ہے اللہ سے زیادہ سچا وعدہ کس کا ہو سکتا ہے۔ہمارے ساتھ آئیں ہم سب مل کر معاشرے کی برائیوں کو چیلنج کریں ، اچھی لیڈر شپ لے کر آئیں ۔کراچی نے تو بہت ہی زیادہ زخم سہے ہیں ، آپ کے پاس بہترین لیڈر شپ موجود ہے، آپ ان کو اور مضبوط کریں تاکہ ہم مل کر حجاب کی تہذیب کو رائج کر سکیں۔
اس بہترین انٹر ایکٹو سیشن سے تمام شرکا میں خوشیوں سے بھرپور مستقبل کے لیے امید کی کرنیں جاگ اٹھیں۔دردانہ صدیقی صاحبہ نے کہاکہ نوجوان مایوس ہو کر ملک چھوڑ رہے ہیں،ہمارے سیاست دان اندرون ملک بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں مصروف ہیں۔اپنے وطن سے متعلق ہمارے بھی کچھ خواب ہیں۔ہم ایسا وطن چاہتے ہیں جہاں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو، علاج رہائش اور نو کریاں، رشوت سفارش عصبیت کے بجائے میرٹ پر ملیں۔جہاں قانون بنانے اور نافذ کرنے والے اس کی دھجیاں نہ بکھیریں، جہاں انصاف غریب اور امیر سب کے لیے یکساں ہواور حکمران عوام کے مسا ئل حل کرنے کے لیے فکر مند ہوں۔دردانہ صدیقی نے کہا کہ خواب وہ نہیں جوہم سوتے میں دیکھیں بلکہ خواب وہ ہیں جو ہمیں سونے نہ دیں ۔مایوسی گناہ ہے۔بدترین مشکلات میں بھی اللہ کے رسولﷺ کامیابی کی بشارتیں دیتے تھے ۔ الحمدللہ کراچی کا مقدمہ ’’حق دو کراچی کو‘‘ہم نے بے جگری سے لڑا ۔اقتدار کے ایوانوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان جن کی دیانت کی گواہی دشمن بھی دیتے ہیں۔ خدمت دیانت کے ساتھ ہماری پہچان ہے ۔سال کے 365 دن خدمت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔نوجوانوں کے لیے ’’بنو قابل ‘‘پروگرام کولیڈ کر رہے ہیں۔اللہ کا فرمان ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ۔ووٹ بھی ایک امانت ہے ۔آئیں ہم سب مل کر عہد کریں کہ اپنے پیارے وطن کو سنوارنے کے لیے بے داغ قیادت کے حق میں ووٹ دیں گےاور امانتیں امانت داروں کے سپرد کریں گے ۔اسی سے عورت کی حفاظت اور خاندان کی مضبوطی یقینی ہوگی،مستحکم معاشرہ تعمیر ہوگا ان شاءاللہ ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x