ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نمی ناپید ہو گئی – بتول جولائی۲۰۲۲

گھروں میں سفید چادریں بچھ رہی تھیں،گھر والے غم سے نڈھال تھے،یہ وہ دِن اور وہ منظر تھا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا،چلتی پھرتی ہنستی کھیلتی چھوٹی نانی(میری نانی کی چھوٹی بہن) یوں اچانک ہمیں چھوڑ کے چلی جائیں گی،سب کو مشورہ دینے والی،گھر اور خاندان کی بڑی ہونے کے ناطے سب کے لیے قربانیاں دینے والی،ہماری نانی کے انتقال کے بعد ہماری امّی اور خالہ ماموؤں کو ڈھارس دینے والی چھوٹی نانی ہر آنکھ اشکبار کر گئیں۔
کچھ دن پہلے میرے ہونے والے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے میں وہیل چئیرپر ایک جگہ بیٹھی سب کے رویّے اور مناظر جانچ رہی تھی،چھوٹی نانی بہوئوں بیٹوں والی تھیں،سب ہی گھر والے میّت کے انتظار میں تھے جس کو غسل کے لیے لے جایا گیا تھا،چھوٹی نانی کا گھر آنے والوں سے بھر گیا تھا،ایک تبدیلی جو مجھے محسوس ہوئی کہ مجھے کم عمری پر وہیل چیئر پر آجانے کی وجہ سے جو ترس بھری نگاہوں کا سامنہ کرنا پڑتا تھا،وہ آج کہیں نہیں تھیں کیونکہ سب چھوٹی نانی کے دیے داغِ مفارقت کو رو رہے تھے۔
بہویں بیٹیاں آنسوؤں کو کبھی تھامتے اور کبھی گرادیتے،اپنے تو اپنے،غیر بھی غمزدہ تھے،ایک مجمع آبدیدہ تھا،ہاں مگر ایک چہرہ جس پر غم اور افسردگی کا کوئی نشان نہ تھا،بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی تو یقین جانیے میں کچھ غلط نہیں کہہ رہی،وہ چہرہ چھوٹی نانی کی منجھلی بہو کا تھا،جن کے عادات کے بارے میں کچھ سن گن تھی کہ یہ تھوڑی چالاک ہیں،یہ چھوٹی نانی کے بنائے گئے اصولوں کو پابندیوں میں جکڑنے کا نام دیتی ہیں،یہ بھی سنا تھا کہ میرے وہیل چیئر پہ آجانے کے بعد انہوں نے کافی دل چیر دینے والے تبصرے کیے تھے۔
خیر اب میّت آگئی تھی،چھوٹی نانی کی بیٹیاں،باقی بہویں،خود میری امّی اور خالائیں بِنا آواز کے رو رہی تھیں اور چھوٹی نانی کے لیے دعائے مغفرت اور منکر نکیر کے سوال اور جواب کے دوران ثابت قدمی کے لیے دعائیں کر رہی تھیں،اور (اللہ میرے گناہوں کو معاف کرے) ممانی گلستان(منجھلی بہو) کی آنکھوں میں دور دور تک بھی کوئی نمی نہ تھی،وہ گھر والوں اور اپنی نندوں کو دیکھ کر نجانے کیوں ایک طنزیہ مسکراہٹ سجائے ہوئےتھیں،مگر ہر آنے والے سے تعزیت وصول کرنا اور انتقال کیسے ہؤا کے بے مقصد اور لواحقین کے دِل کو چیر دینے والے سوال کا بھی تفصیلی جواب دینا بھی اپنا فرض سمجھ رہی تھیں۔کسی ایک اپنوں یا پرایوں میں سے شاید کسی نے ان کو ان کی جھلکتی خوشی پر ٹوکا تو کچھ وقت کے لیےسنبھل گئیں،مگر غم ہو یا خوشی،یا کسی کے غم پر منائے جانے والی خوشی،سب وقتی ہوتی ہے۔
وقت گزر گیا،پہلا دوسرا اور تیسرا دِن بھی پر لگا کر اڑ گیا،جس کا غم تھا انہیں ہی اس کو جھیلنا تھا،اللہ ہی کو صبر کا پھایہ اپنے بندوں کے دِلوں پہ رکھنا ہوتا ہے نہیں تو دِل غم سے پھٹ جائیں اور آنکھیں رو رو کر اپنی بینائی کھو دیں۔کسی نے میری وہیل چیئر تھامی اور میں بھی امّی کے ساتھ گھر آگئی،وقت تو گزر ہی جاتا ہے،مگر رویّے دائمی ہوتے ہیں اور صدیوں تک یاد رہتے ہیں۔
۲۵ سال بعد….
آج چھوٹی نانی کی پچّیسویں برسی تھی،سالگرائیں اور برسیوں کی تاریخیں نجانے مجھے کیوں یاد رہتی ہیں،بہت موسم آکر چلے گئے ان پچّیس سالوں میں،مگر میں تب بھی وہیل چیئر پہ تھی اور آج بھی ہوں،میری امّی آج بھی چھوٹی نانی کو دعائوں میں یاد رکھتی ہیں،سالوں گزرنے کے بعد بھی چھوٹی نانی کے اخلاق،ان کی خدا خوفی،ان کی نرم مزاجی اور معاملہ فہمی اکثریت کو یاد تھی،ان کے انتقال پر رونے والے چھوٹے چھوٹے بچّے،آج بڑے بڑے بچّوں کے والدین بن چکے تھے،چھوٹی نانی کے گزرجانے کے چند سال بعد ان کی بڑی پوتی کی شادی ہوئی،اِن کے خاندان کی پہلی خوشی تھی،سب کو چھوٹی نانی کی باتیں یاد آرہیں تھیں،ابھی تو بہت سارے مشورے کرنے تھے اُن سے،قدم قدم پہ ضرورت تھی ان کی،مگر خدا کے فیصلوں پہ راضی رہنا،یہی تقدیر پر ایمان ہے۔
اور میں نانی کی وفات کا دن یاد کرتی رہی۔ وہ گھر میں بچھی سفید چادریں،وہ لوگوں کا ہجوم،وہ چھوٹی نانی کا پرسکون چہرہ،وہ میری وہیل چیئر،وہ میری امّی کا رونا،وہ چھوٹی نانی کی بیٹیوں کا رونا،وہ ممانی گلستان کی…..ارے ممانی گلستان!!
’’امّی،ممانی گلستان کی کیسی طبیعت ہے؟‘‘
میں جو ایک دم سے ٹھیک پچّیس سال پہلے کی دنیا سے واپس آئی تو ایک دم امّی کو جھنجوڑا۔
’’پتہ نہیں بیٹا،سنا ہے کافی خراب ہے،دعا کرو‘‘
اور ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ممانی گلستان کی دارِفانی سے کوچ کرجانے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھی۔
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
حسنِ اتفاق گھر بھی وہی تھا،پچّیس سال پہلے بھی چادروں کا رنگ سفید تھا،مگر جو رنگ آسمان نے بدلا تھا،وہ اس ہجوم کے چہروں پہ تھا جو ممانی گلستان کی میّت پہ آئے تھے،چھوٹی نانی کے انتقال پر اپنے پرائے سب آبدیدہ تھے،مگر ممانی گلستان کے انتقال پر،نہ بیٹی آبدیدہ تھی نہ بہو افسردہ۔نجانے دِلوں کی سختی نے آنکھوں کی نمی بھی کیوں ناپید کردی تھی۔سنا تھا چھوٹی نانی کو ممانی گلستان نے بہت دکھ دیے۔خیر میں کوئی فرشتہ ہوں جو کسی کے اعمال کا حِساب رکھوں،یونہی وہیل چیئر پہ بیٹھی سوچتی رہتی ہوں،اللہ میرے دنیا سے جانے کے بعد مخلوق کو میرے حق میں گواہی دینے والا بنانا، آمین
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x