ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اہمیت اوراحکامات – بتول جولائی۲۰۲۲

خاندان کی تشکیل اور وجود کے لیے نکاح کی مشروعیت، نکاح جیسے جائز اور مسنون عمل کی طرف ترغیب، اس کے بے شمار سماجی فوائد، اس پر اجر و ثواب کا وعدہ، ناجائز رشتوں کی قباحت و حرمت، اس کی مذمت، اس پر دنیوی سزا اور اخروی عذاب کو بیان کیا۔ اوراس طرح نکاح و شادی کے بعد ازدواجی تعلق کو نہایت مہذب شائستہ اور مطلوب طریقہ قرار دے کر اس کو نہایت آسان بنادیا۔
نکاح مرد اور عورت کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہی نہیں، بلکہ یہ نسل انسانی کے وجود، قیامت تک اس کی بقا و دوام اور بے شمار انسانی وسماجی ضرورتوں اور تقاضوں کی فراہمی اور تکمیل کے لیے اللہ اور رسول کی طرف سے متعین کردہ نہایت مہذب اور شائستہ طریقہ ہے اس لیے آئیے جائزہ لیں کہ نکاح سے کن انسانی و سماجی ضرورتوں کی فراہمی اور تکمیل ہوتی ہے۔ اور اس کے کیا فوائد اور اس کے نہ ہونے کے کیا نقصانات ہیں۔تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ نکاح اور شادی انسانوں کے لیے کیوں ضروری ہے۔
اسلام میں نکاح کوکسی نا محرم سے پیار و محبت اور جائز تعلق کی بنیاد قرار دیا گیا اور اسے زندگی کی بہت سی اہم ترین ضروریات کی تکمیل، سکون و اطمینان اور باہمی الفت و مودت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ ” اللہ نے تمہاری ہی نسلوں سے تمہارے لیے جوڑا بنا کر ایک دوسرے کے سکون اور آپسی پیار و محبت کا انتظام فرمایا اور اس کو اللہ کی نشانیوں میں اہم نشانی قرار دیا۔‘‘( الروم21)
نکاح صرف انسانوں کی نجی ضرورت اور ان کا اختیاری مسئلہ و فیصلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اللہ نےبے شمار سماجی ضرورتوںاور عفت و پاکدامنی کی خاطر مطلوب و مسنون قرار دیا اور فرمایا ” پسند آنے والی خواتین سے نکاح کرو۔‘‘(النساء 3)
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :
’’اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔‘‘(النساء)
متعدد احادیث میں نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیےکیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘ (مسلم)
حدیث مبارکہ ہے:’’جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے ۔‘‘
اس طرح مختلف احادیث میں شادی نہ کرنے پر وعید آئی ہے ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو شخص باوجود تقاضائے نفس وقدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے کہ وہ نکاح کو وصول الی اللہ سے مانع سمجھ کر اس کے ترک کو عبادت سمجھتے ہیں۔
ایجاب وقبول کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہےجو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا۔اسے برائی سے حفاظت کا ذریعہ اور محصن قرار دیا ہے۔سورہ النساء کی آیت 25 میں فرمان ربی ہے۔
’’اور جو کوئی تم میں سے اس بات کی طاقت نہ رکھے کہ خاندانی مسلمان عورتیں نکاح میں لائے تو تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی سے نکاح کر لے جو تمہارے قبضے میں ہوں اور ایماندار بھی ہوں ۔اور اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے۔تم آپس میں ایک ہو اس لیے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور دستور کے موافق ان کے مہر دے دو لیکن یہ کہ وہ نکاح میں آنے والیاں ہوں آزاد شہوت رانیاں کرنے والیاں نہ ہوں اور نہ چھپی دوستی کرنے والیاں۔ پس جب وہ قید نکاح میں آجائیں تو پھر اگر بے حیائی کا کام کریں تو ان پر آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں پر مقرر کی گئی ہے۔یہ سہولت اس کے لیے ہے جو کوئی تم میں سے تکلیف میں پڑنے سے ڈرے۔ اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
تمام مذاہب میں نکاح کو حلال قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی جابجا نکاح کے لیے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے۔ کیونکہ یہ نسل انسانی کی بقا اور افزائش کا ذریعہ بھی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اکثر خبروں میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کر دیا گیا کی خبر سنائی دیتی ہے۔اسلام کسی بھی صورت میں قتل کی اجازت نہیں دیتا۔اس لیے غیرت کے نام پر قتل کسی بھی طرح سے جائزنہیں ہے۔لیکن پسند کی شادی کے بارے میں جو خیالات ہمارے معاشرے میں رائج ہیں وہ بھی غیر شرعی ہیں۔اگر کوئی لڑکا لڑکی بات چیت میل ملاقات کے بعد ایک دوسرے کو پسند کر کے شادی کرنا چاہیں اور والدین اجازت نہ دیں تو وہ گھر سے بھاگ کورٹ میرج کر لیتے ہیں ۔جب ہم احادیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ نبی صلعم نے لڑکا لڑکی کی رضامندی کےبعد نکاح کی اجازت دی ہے اور اگر کسی ایک فریق کی رضامندی شامل نہ ہو تو اسے نکاح فسخ کرنے کی اجازت ہے۔(ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب من زوج ابنتہ وھی کارھۃ،1: 603، رقم: 1875)
’’ایک کنواری لڑکی نبی صلعم کی خدمت اقدس میں آئی اور عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کسی شخص کے ساتھ زبردستی کر دیا ہے۔ آپ صلعمؐ نے اسے اختیار دے دیا چاہے تو نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اسے فسخ کر دے۔‘‘
امام دارقطنی اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کر دیئے تھے، لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَد کر دیا۔(دارقطنی، السنن، کتاب النکاح، 3: 233، رقم: 53۔ بیہقی، السنن الکبری، 7: 114)
حضرت عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بالغہ عورت اور اس کے خاوند کے مابین تفریق کروا دی کیونکہ اس کے باپ نے اپنی مرضی سےاس کا نکاح کیا تھا اور وہ اس خاوند کو ناپسند کرتی تھی۔(دارقطنی، السنن، کتاب النکاح، 3: 234، رقم: 52)
مگر نوجوان نسل اس کا مطلب نہایت غلط اخذ کر لیتی ہے۔ ان کے خیال میں اگر وہ کسی لڑکے لڑکی کو دیکھتے ہیں وہ انہیں اچھا لگے اور ان کی بات چیت میل ملاقات شروع ہو جائے اور کئی کئی سال اس سلسلے کو جاری رکھیں اور پھر نکاح کی خواہش کریں تو یہ ہے پسند کی شادی۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔قرآن و احادیث کی رو سے عورت کو نامحرم سے ایسا پردہ کرنا چاہیے کہ اس کی زیب و زینت بھی نامحرم کے سامنے ظاہر نہ ہو اور وہ اس سے میل ملاقات اور خفیہ دوستی توکجا غیر ضروری بات چیت بھی نہ کرے۔
سورہ نور کی آیت 31 میں ہے۔
’’ اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔‘‘
اور مرد کو غض بصر اور نامحرم سے کسی بھی قسم کے تعلق سے منع فرمایا گیا ہے۔حدیث کی رو سے ایک نظر غلطی سے پڑ بھی جائے تو فورا ًپھیر لی جائے۔
صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اچانک نگاہ پڑجانے کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا ’’اپنی نگاہ فورا ًہٹا لو۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ مومنات چھپے دوست نہیں بناتیں ۔ایک آیت مبارکہ میں ارشاد ربانی ہے۔
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔
اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیاہے ۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد4690)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’تین شخصوں سے اللّٰہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ بوڑھازانی ،جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔‘‘( مسلم کتاب الایمان 107)
بدکاری کا مطلب صرف اور صرف یہی نہیں کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرکے بُرائی کریں بلکہ اس کے علاوہ انسان آنکھ ، کان ،زبان،ہاتھ اور پاؤں کے ذریعے جو مختلف قسم کے گُناہ کرتا ہے حدیثِ پاک میں اُنہیں بھی بدکاری ہی قرار دیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لا محالہ پالے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا بولنا ہے۔ کانوں کا زنا سننا ہے۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے۔ پیروں کا زنا چلنا ہے۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کردیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے۔‘‘( البخاری)
ان سب سے مراد یہ ہےکہ کسی نا محرم سے بات چیت ملاقات بھی زنا ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات و احادیث کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کیجیے کہ کیا آجکل کے لڑکے لڑکیوں کے افیئر جائز ہیں؟
ان سب کی بعد جب والدین اپنے تجربے کی بناء پر کسی لڑکے لڑکی کو اپنے بچے کے لیے مسترد کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بطور شریک حیات ان کے بچے کے لیے مناسب نہیں تو بچے ان کا نقطہ نظر سمجھنے کی بجائے ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔علماء کی رائےکے مطابق قرآن ولی کی موجودگی اور اجازت کے بغیر ہونے والے نکاح کو نکاح قرار نہیں دیتا۔اور وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ولدالزنا قرار دیتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔
’’ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔‘‘( ابو داؤد 2085۔ترمذی 1101ابن ماجہ 1881)
البہیقی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں۔
’’ بغیر ولی اور دو باکردار گواہوں کے نکاح نہیں ہوتا۔‘‘(البانی الصحیح جامی 7557)
والد یا کوئی بھی محرم مرد ہی ولی ہوسکتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ۔
’’ کوئی عورت جو اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے اس کا نکاح فسخ ہے۔‘‘ آپؐ نے اسے تین بار دہرایا۔ (ابو داود۔ابن ماجہ)
اس صورت میں کورٹ میرج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
کسی مغربی ملک میں جہاں اسلامی نکاح ممکن نہ ہو اور شادی کی رجسٹریشن کورٹ میں ہی کروانی لازمی ہو وہاں بھی ولی کی موجودگی اور اس کی اجازت ضروری ہے۔
اسلام کی رو سے نکاح میں فریقین کی پسندیدگی سے مراد یہ ہے کہ جب والدین کسی لڑکے یا لڑکی کو اپنے بچےکے لیےشریک حیات کے طور پہ منتخب کریں تو ان دونوں کی والدین کی موجودگی میں ایک ملاقات کروادی جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے دیکھ پرکھ لیں۔ایک دوسرے سے کچھ پوچھنا چاہیں تو پوچھ لیں۔کوئی شرائط مقرر کرنا چاہیں تو کر لیں۔اس کے علاوہ کسی ملاقات یا بات چیت کی اجازت نہیں ہے۔(باب الرجل ینظر الی المرأۃ وھو یرید تزویجھا، 2: 192، رقم: 2082!)
’’جب کوئی عورت تمہیں پیغامِ نکاح دے تو اگر اسے دیکھنا ممکن ہو تو دیکھ لو۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا:
’’جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔(ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب النظر إلی المرأۃ اذا أراد ان یتزوجھا، 2: 426، رقم: 1865)
کیا آج کے دور کی لو میرج اس تعریف پہ پوری اترتی ہے؟ مندرجہ بالا احادیث اور آیات قرآنی کو بھی ذہن میں رکھیے صرف اپنی مرضی اور پسند کا اسلام اختیار کرنے کی بجائے مکمل اسلام جانیے اور اس پہ عمل کی کوشش کیجئے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x