ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

یت کا پھل – بتول جولائی۲۰۲۲

’’ السلام علیکم ‘‘۔
میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہاں موجود تمام افراد کو اجتماعی سلام کیا اور خالی نشست کے لیے نگاہ دوڑائی۔میری حال ہی میں شہر کے معروف کالج میں تقرری ہوئی تھی۔
کمرے میں ہر عمر کی خواتین اور چند مرد استاد براجمان تھے۔ کونے میں موجود ایک خالی نشست سنبھال کر میں اطراف کا جائزہ لینے لگی۔
’’جی تو مس مقدس ، آپ کو ہمارا کالج کیسا لگا؟ ‘‘
اچانک پرنسپل صاحبہ مسز خان کے سوال پر کمرے میں موجود تمام افراد کی نظریں مجھ پر آن رکیں۔
میں ابھی الفاظ کا چناؤ کر ہی رہی تھی کہ مسز خان پھر گویا ہوئیں۔
’’ان سے ملیے ۔ یہ ہمارے کالج کی کمپیوٹر ٹیچر ہیں‘‘۔
پھر ایک ٹیچر کی طرف رخ کرتے ہوئے بولیں ’’ ویسے مس آسیہ ! آپ سے تو ان کی خوب دوستی ہو جائے گی۔ حلیے سے تو یہ آپ کی شاگرد لگ رہی ہیں ‘‘۔
مسز خان کی اس بات پر سٹاف روم میں قہقہہ گونجا اور میں حیران پریشان کہ یہ کیسا تعارف ہے۔
میری فق ہوتی رنگت دیکھ کر اچانک کسی نے میرا ہاتھ دبایا اور تسلی دینے والے انداز میں کہا۔ ’’ اگنور کرو ۔ ان کو تو عادت ہے ، ہر پردے والی خاتون کو دیکھ کر شروع ہو جاتی ہیں‘‘۔
یوں میرا مس آسیہ سے تعارف ہوا جو بہت جلد دوستی میں بدل گیا۔
مس آسیہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ انتہائی خوش اخلاق ،سوبر ، خوبصورت اور رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔ وہ اسلامیات کی استاد تھیں۔ میرا اور ان کا شیڈول ملتا جلتا تھا تو اکثر فری پیریڈ میں ہم چائے پیتے ہوئے گپ شپ کرتی رہتیں۔
ایک دن سٹاف روم میں اسلام اور شادی پر بحث چل نکلی ۔
’’ مس آسیہ، آپ تو اسلامیات کی استاد ہیں۔ پھر آپ خود شادی توڑنے کے درپے ہیں۔ سچ ہے بھئی ، نوکری لگتے ہی عورتیں اپنے گھر بار چھوڑ دیتی ہیں۔ اب بتائیں ، بچے کے لیے باپ بن سکیں گی؟ بچارے بچے سے باپ کی شفقت بھی چھین لی اور خود بھی اسے ٹائم نہیں دیتیں۔ کیا شخصیت ہوگی اس کی؟ ‘‘
مسز خان نے مس آسیہ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔
مس آسیہ نے آنسو چھپانے کے لیے چہرا مزید جھکا لیا۔
میں حیران پریشان صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’ میڈم ، جن کے گھر بسے ہوتے ہیں، بچے تو ان کے بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اب اپنے سجاد کو ہی دیکھ لیں۔ طارق بھائی کی توجہ، سختی اور آپ کے ڈسپلن نے بھی اسے انسان نہیں بنایا۔ جب دیکھو گلی کے چوراہے پر بیٹھا ہوتا ہے‘‘۔
یہ مس شازیہ خان تھیں جو رشتے میں مسز خان کی نند ہوتی تھیں اور مسز خان کے بگڑے سپوت کے کرتوت خوب جانتی تھیں۔
اگلے دن موقع ملتے ہی میں نے مس آسیہ کو گھیر لیا۔ مجھے تو مس آسیہ کے شادی شدہ ہونے کا بھی نہیں پتا تھا۔
’’ مس….. آپ کا ایک بیٹا بھی ہے اور آپ نے کبھی ذکر ہی نہیں کیا ‘‘۔
’’ بس مقدس ! کیا بتاتی؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں واقعی مجرم ہوں۔ اپنے شوہر کی….. اپنے بیٹے کی۔ بوڑھے والدین کی‘‘۔
’’ شوہر اچھا نہیں ہے یا سسرال رہنے لائق نہیں ہے‘‘ میں نے سوال کیا۔ کیونکہ عورت اپنا گھر چھوٹی موٹی بات پر تو توڑتی نہیں ہے۔
’’ شوہر کو مار پیٹ کی عادت ہے۔ شادی کے دوسرے دن اس نے معمولی سی بات پر اتنے برے طریقے سے مارا کہ جسم نیل و نیل ہو گیا تھا۔ امی ملنے آئیں اور میری حالت دیکھی تو پریشان ہو گئیں۔ ساس سے شکوہ کیا کہ ہم نے آپ کو اپنی بیٹی مار پیٹ کے لیے تو نہیں سونپی‘‘۔
ساس صاحبہ کی الگ ہی منطق تھی۔’’ لو ایسا کیا ہو گیا…..کچھ کھلاتی پلاتی نہیں تھی لڑکی کو؟ ہم تو روز مار کھاتے تھے ۔ کبھی کمرے سے باہر تک آواز نہیں پہنچی تھی اور آج کل کی لڑکیاں….. توبہ توبہ….. ایک دن ہوا نہیں شادی کو اور پہنچ گئی ماں کی گود میں۔ ارے میرا امجد تو تھوڑا جذباتی ہے مگر اس کا غصہ تھوڑی دیر میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ مگر میرا بڑا بیٹا اکبر….. توبہ توبہ….. غصے کا ایسا تیز ہے کہ ایک دفعہ تو اصغر کی دلہن کو ایسا تھپڑ رسید کیا کہ وہ دو دن بستر سے نہ اٹھ سکی‘‘۔
امی بیچاری ہکا بکا کہ کس خاندان میں بیٹی بیاہ بیٹھے۔ پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔ امجد کو جب غصہ آتا ، بری طرح پیٹ دیتا۔ اور غصہ اترنے پر معافی تلافی شروع۔
شادی کے تین چار مہینے بہت مشکل سے گزارے ۔ ایک دن کام کرتے ہوئے چکرا کر گر گئی اور بیہوش ہو گئی۔ ہسپتال لے کر گئے تو پتاچلا کہ میں امید سے ہوں۔ امی نے امجد سے کہا کچھ دن کے لیے میرے ساتھ جانے دویہ بہت کمزور ہے ۔ ڈاکٹر نے بھی سمجھایا، تو میں اپنے میکے آ گئی۔ ابو نے لاڈلی بیٹی کی حالت دیکھی تو واپس سسرال بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگے۔
’’ابھی تو میں زندہ ہوں ۔ اور بچہ بھی ایک ہی ہے۔ اگر میں نے تمہیں واپس بھیج دیا اور امجد نے تم پر ظلم کیا تو میں تمہارا اور تمہاری نسل کا مجرم ہوں گا کیونکہ وہ شخص کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا ‘‘۔
میں مس آسیہ کی کہانی میں اتنی محو تھی کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا ۔
’’اچھا تو آپ نے خلع لی یا اس نے طلاق دے دی؟‘‘ میں نے سوال کیا
’’ وہ طلاق نہیں دیتا کہ اس کے خاندان میں کبھی طلاق ہوئی نہیں…..اور خلع میرے بھائی نہیں لینے دیتے کہ ان کی عزت کا سوال ہے۔ ‘‘
میں حیران تھی کہ ظلم سہتے سہتے مر تو سکتی ہیں مگر طلاق خلع پر توبہ توبہ، یہ کیسی ذہنیت ہے!
’’یعنی علیحدگی ہے….. اور پَیچ اَپ ہوسکتا ہے؟جیسے وہ ناول تھا نا….. کیا نام تھا بھلا؟ ‘‘ میرے دماغ میں بہت سے ناول اور ڈراموں کی کہانیاں ابھرنے لگیں۔
’’مس مقدس ، یہ زندگی ہے کوئی فلم ، ڈرامہ نہیں‘‘۔
’’ لیکن مس ، آپ کو ایک چانس تو دینا چاہیے ۔ آخر وہ آپ کے شوہر اور بیٹے کے باپ ہیں‘‘۔
’’مس مقدس ….. ایک بات جو میں نے قرآن مجید سے سیکھی وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس گھر میں موجود امجد کے دونوں بھائیوں کے بچے ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ بھابیاں اکیلی کب تک سمجھا سکتی ہیں۔ بچے اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں۔ اکبر بھائی کا بیٹا تو آوارہ پھرتا ہے۔ کہتا ہے مجھے گھر سے نفرت ہے۔اصغر بھائی کی بیٹی نے ایک دن مجھے فون کیا۔ کہتی چاچی ،آپ نے میری ماں کو کیوں نہیں سمجھایا ؟ ہمیں بھی اس جہنم سے نکال لیتی‘‘۔
میں نے کہا ’’ لیکن اگر سب عورتیں گھر توڑ دیں تو معاشرہ تباہ وبرباد نہ ہو جائے ؟ ‘‘
مس آسیہ نے میری طرف دیکھا اور کہا’’ مس….. کیا آپ کو پتا ہے کہ طلاق حلال ہے؟ ‘‘
’’ جی یہ تو پتہ ہے، مگر نا پسندیدہ ترین عمل ہے‘‘ میں نے کہا ۔
’’مس !طلاق ناپسندیدہ عمل ضرور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا ہے۔ اگر میں ظلم سہتی رہوں اور میرا بچہ گھر کے حالات دیکھ کر ذہنی مریض بن جائے اور وہ اپنی بیوی اور بچوں پر ظلم کرے کہ اس نے یہ ہوتے دیکھا اور یہی برداشت کیا تو اللہ تعالیٰ مجھ سے نہیں پوچھے گا کہ میں نے تمہیں طلاق کی آپشن دی تھی تم نے استعمال کیوں نہ کی؟ میں نے ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا تو تم نے اپنی نسل کی بہتر تربیت کے لیے ہجرت کیوں نہ کر لی ؟ میں نے ظلم کاساتھ دینے سے منع کیا تھا اور ظلم برداشت کرنا بھی تو ظالم کاساتھ دینا ہی ہے نا….. تو میں کیا جواب دوں گی مس مقدس؟ مجھے اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہونے سے ڈر لگتا ہے۔ اور میں خرم کو اس کے باپ سے دور رکھ کر امجد سے بھلائی کر رہی ہوں کہ خرم کبھی اپنے باپ سے نفرت نہیں کرے گا۔ میں امجد کی اچھی تصویر اس کے بیٹے کے ذہن میں بناؤں گی۔ میری نیت صاف ہے‘‘۔
میں لاجواب ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے کبھی اس موضوع پر مس آسیہ سے بات نہیں کی۔
خرم اس وقت دو سال کا تھا۔ مس آسیہ کبھی اسے کالج ساتھ لے آتیں اور کبھی اپنی امی کے پاس چھوڑ آتیں۔ انہی دنوں مس آسیہ نے اپنے شوہر سے خلع لے لی ۔
پھر میری ٹرانسفر ہو گئی اور مس آسیہ سے رابطہ کافی کم ہو گیا۔ مجھے جب بھی وہ یاد آتیں تو مجھے ان کی نیت اور اللہ تعالیٰ پر ان کا توکل حیران کر دیتا۔
کچھ دن پہلے تقریباً چھ سال بعد مس آسیہ سے ملاقات ہوئی۔ بہت گرم جوشی سے ملیں۔ ماشاءاللہ پہلے سے بھی زیادہ پیاری اور نکھری نکھری لگ رہی تھیں۔ ان کے ساتھ دو، تین سال کا ایک بچہ تھا۔ میں نے خرم کاحال پوچھا تو کہنے لگیں
’’ وہ ٹھیک ہے الحمدللہ۔ اس سے ملیں….. یہ ارقم ہے۔ پانچ سال پہلے میں نے عقد ثانی کر لیا تھا۔ اب خرم کی ایک بہن اور ایک یہ پیارا سا بھائی بھی ہے‘‘۔
مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔
’’ ارے واہ! یہ تو بہت اچھا کیا آپ نے ۔ کیا نام ہے دولھا بھائی کا؟ کیا کرتے ہیں؟ ‘‘
’’وہ مسز خان کے بھائی تھے نا …..شعیب خان ‘‘
’’ وہ جو کیمسٹری کے پروفیسر تھے اور مسز خان کہتی تھی کہ کوئی حور پری بھی میرے بھائی کا دل نہیں جیت سکتی….. وہ؟‘‘
’’ جی….. بس !اس اللہ کی بندی میں پتا نہیں کیا نظر آ گیا کہ مسز خان کو منا کے ہی دم لیا ‘‘۔
’’یعنی اب مسز خان آپ کی نند ہوئیں۔ کیسے جھیلتی ہیں آپ انہیں ؟‘‘
’’ انہوں نے کیا کہنا ہے….. شوہر کے انتقال کے بعد بیٹے نے گھر سے نکال دیا تھا۔ اب ہمارے ساتھ ہوتی ہیں‘‘۔
اور مجھے لگا، اچھی نیت کا پھل مجسم میرے سامنے کھڑا ہے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x