ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل! – بتول جولائی۲۰۲۲

یہ مئی 2014 کی بات ہےجب بڑی بیٹی نے سعودیہ سے کال کی تو اس نے بتایا کہ امی اس سال میرا حج کا ارادہ ہےتو میں نے آپ کی اور دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی ویزہ درخواست بھیج دی ہےتا کہ جب میں حج پہ جائوں تو میرے دونوں بچوں کے پاس آپ ہوں اور آپ اکیلے نہیں سنبھال پائیں گی تو جس بہن کا ویزہ نکل آئے اسے بھی ساتھ لانا ہوگا۔آپ دعا کیجیے گا اللہ سارے کام آسان بنا دیں۔
جب میں 2012 میں سعودیہ سے واپس آئی تھی تو آنے سے پہلے خانہ کعبہ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے بہت روئی تھی۔ مجھےدوبارہ ادھر جانے کی امید اس طرح نہیں تھی کہ نہ تو مالی وسائل ایسے تھےاور نہ ہی گھریلو مسائل ایسے تھےکہ بظاہر جانے کا امکان نظر آتا۔مریم کی کال سن کے میری آنکھوں سے آنسو رواںہو گئے۔ امید نظر آرہی تھی کہ شاید میرا پھر بلاواہےاللہ کے گھر سے اور حاضری کا اذن ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں۔
ایک ہفتہ گزرا تو بیٹی نے بتایا کہ امی آپ کا اور دونوں چھوٹی بہنوں کا ویزہ آگیا ہےجو کہ تین ماہ تک کار آمد ہے۔ ابھی مئی کا مہینہ ہےیعنی آپ لوگوں نےاگست تک لازمی سفر کر لینا ہے، تو اب بس آجائیں بے شک دونوں بہنوں کو ہی لے آئیں۔
دونوں بہنوں والی بات تو خیر بہت مشکل تھی۔مگر مشکل یہ کہ اب بڑی چاہتی تھی کہ وہ جائے چھوٹی کی خواہش تھی وہ جائے۔آخر کار میں نے ان سے کہا کہ اس طرح فیصلہ کرنا بہت مشکل ہےتو تم لوگ قرعہ اندازی کرکے فیصلہ کر لو جس کے نام کی پرچی نکل آے۔ان کے والد صاحب بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ دونوں بچیوں نے بھی حامی بھرلی کہ ہمیں منظورہوگا جس کا بھی نام نکلا۔
بچیوں نے نام لکھے،ان کے ابو نے بسم اللہ پڑھ کے پرچی اٹھائی اور منتہیٰ کا نام نکل آیا۔منتہیٰ بہنوں میں درمیانے نمبر والی بیٹی ہےاور وہ میری بہت ہی’’ بی بی‘‘ سی بیٹی ہے۔وہ ابھی ابھی تعلیم مکمل کرنے کے بعداو لیول کو کیمسٹری پڑھانا شروع ہوئی تھی۔اب جس کی پرچی نکلی وہ اور جس کی نہ نکلی وہ، دونوں بے اختیار رونا شروع ہو گئیں۔ایک کے آنسو خوشی کے تھے اور دوسری کے غم کے۔بہر حال میں نے چھوٹی والی کو پیار کیا اسے حوصلہ دیا ۔وہ ویسے بھی بہت صبر والی بیٹی ہے۔ اس کی پڑھائی بھی ابھی چل رہی تھی شاید ابھی اس کا نہ جاناہی بہتر تھا۔
منتہٰی بہت خوش خوش ابو کے ساتھ پاسپورٹ آفس گئی اور اس کے ابو انتظامات میں لگ گئے۔ابھی تو جانے میں کافی دن تھےایک شام میں منتہیٰ کے کمرے میں کچھ لینے آئی تو وہ اندھیرے کمرے میں سسکیوں سے رو رہی تھی۔ میں بہت پریشان ہوئی اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو۔ وہ تو اور بھی زیادہ رونے لگی۔ بہت پوچھنے کے بعد اس نے بتایا کہ میں کہاں اس قابل کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار پہ جاسکوں اور خانہ کعبہ جاسکوں۔ اسے حوصلہ دیتے ہوئے میرے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔
طے یہ ہؤا کہ جون کے آخر میں رمضان المبارک سے پہلے سیٹ کروالی جائے۔یوں اسلام آباد سے ریاض کی سیٹیں بک ہو گئیں۔ ریاض سے ہم لوگوں نے بریدہ، اپنی بیٹی کے گھر جانا تھا۔کچھ دن رک کے پھر عمرہ کا پروگرام تھا۔میں نے بچوں کے لیے تحائف وغیرہ خریدے یہاں تک کہ جانے میں دو دن رہ گئے۔مجھےابھی صحیح تاریخ تو نہیں یاد لیکن یہ یاد ہےکہ جس دن فلائٹ تھی اسی دن کینیڈا سے ایک علامہ صاحب کی پاکستان آمد تھی اور اڑتی ہوئی خبر یہ تھی کہ ایرپورٹ بند کر دیا جاے گا۔ میں اندر اندر پریشان تھی لیکن کسی سے کوئی بات نہیں کی۔
ادھر بیٹی بھی اس معاملے میں فکر مند تھی۔ شام میں اس نے کال کی کہ امی نیٹ پہ اس وقت دو سیٹیں نظر آرہی ہیں جو کہ لاہور سے مدینہ پاک کی ہیں اگر آپ کہیں تو آپ کی سیٹیں تبدیل کروا کے یہ لے لیں۔ میں نے فوراً کہا کہ لے لو۔یوں جانے سے صرف ایک دن پہلے اچانک ہمارا پروگرام اللہ کے حکم سے تبدیل ہوگیا۔ منتہیٰ ابھی بھی چھپ چھپ کے رویا کرتی تھی کہ میں اس قابل کہاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار پہ حاضری دوں اور اللہ کی مہمان بنوں۔جب جہاز ہمیں لے کے مدینہ منورہ کے لیے اڑان بھر چکا تو میں نے بیٹی کو اپنے ساتھ لگا کے اسے پیار کیا اور پھر اسے کہا کہ تمہارے لیے مدینہ پاک سے بلاوا آیا ہےورنہ ہم تو پہلے ریاض اترتے، پھر بریدہ جاتے، وہاں کوئی اندازہ نہیں تھاہفتہ یا دوہفتہ رکنے کے بعد عمرہ کے لیے جاتے۔لیکن اب شاید تمھارے آنسوؤں کی وجہ سے تمھارے ساتھ میں بھی سیدھا مدینہ پاک جا کے اتروں گی۔
یہ لگ بھگ چار گھنٹوں کی فلائٹ تھی۔ فجر کی اذان کا وقت تھا جب ہمارا جہاز مدینہ شہر میں اترنےکے لیے پر تول رہا تھا۔پورا مدینہ ہلکی پیلی روشنی میں ڈوبا ہؤا تھا اور میرے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سفید روشنی میں ایک عجیب روح پرور منظر پیش کر رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مسجد نبوی کے میناروں سے نور نکل کے آسمان تک جارہا ہو۔فضا سے مسجد نبوی کا وہ منظر مجھےلگتا ہےکہ کم ہی لوگون نے دیکھا ہوگا جو اس دن ہم نے دیکھا۔
مدینہ ایر پورٹ بہت پر سکون نظر آرہا تھا۔کاغذی کارروائیاں پوری کرنے کے بعد جب ہم باہر نکلے تو سامنے بیٹی داماد اور دونوں بچے نظر آگئے۔ فاطمہ تو خوشی سے چیخنے لگی۔ لالہ۔ لالہ۔ البتہ آٹھ ماہ کا نواسہ ہمیں دیکھ کے اپنی ماں کو اور زیادہ زور سے چمٹ گیا۔ بچوں نےہمیں لینے کے لیے آنے سے پہلے پاکستان ہائوس میں بکنگ کروالی تھی ۔جب پاکستان ہائوس پہنچے تو لگا سچ میں پاکستان پہنچ گئے ہوں۔ استقبالیہ میں پاکستانی چینل چل رہا تھا۔ دیوار پہ تین گھڑیاں ٹائم بتا رہی تھیں۔ایک پہ پاکستان کا وقت دوسری پہ سعودیہ کا وقت نظر آرہا تھا\۔تیسری کا پتہ نہ چل سکا شاید انڈیا کا ہو گا۔
کمرے میں پہنچے سامان رکھا اور جب غسل خانے کی ٹونٹی نے کھلنے کے بعد بند ہونےسے انکار کر دیاتو پاکستان ہاؤس پہ بہت پیار آیا ، صحیح پاکستان والی ہی feelings آرہی تھیں ۔خیر فون کر کے انتظامیہ کو بتایا اور دس منٹ میں ٹونٹی درست ہوگئی ۔بیٹی نے کہا کہ امی ناشتہ کر کے تھوڑا آرام کر لیں پھر مسجد نبوی چلتے ہیں۔ فاطمہ تو لالہ (خالہ) کی جان بنی ہیں تھی اور چھوٹا مجھےدیکھ کے شرما شرما کے دونوں بازئووں کو اوپر اٹھا کے منہ پہ رکھ رہا تھا۔ فجر کی نماز میں نے پہلے ہی پڑھ لی تھی۔ کچھ آرام کرکے ناشتہ سے فارغ ہو کے مسجد نبوی کے لیے نکل پڑے۔
جب وہاں پہنچے تو اسی بچے کی آواز میں تلاوت لگی ہوئی تھی جو پچھلی دفعہ سنی تو لگتا تھا کہ یہ آواز جا کے دل میں اتر گئی ہو اور جب واپس جارہی تھی تو میں سوچتی تھی کہ یہ گلیاں یہ بازار، یہ مدینہ کے کھجوروں کے باغات اور یہ اس بچے کی دل کو کھینچ لینے والی آواز کیا میں پھر کبھی نہ سن پاؤں گی! لیکن اللہ نے پھر بلا لیا اور مجھےلگا کہ میں تو ادھرسے کبھی گئی ہی نہیں تھی۔ وقت پھر وہیں سے شروع ہو گیا جہاں میں اسے چھوڑ کے گئی تھی۔ اللہ کی اتنی رحمتیں اتنی مہربانیاں اتنے کرم!
مسجد نبوی کی حدود میں داخل ہوئے تو بڑی بیٹی نے یاد کروایا کہ دعا پڑھیں، اللھم افتح لی ابواب رحمتک، پھر دو نفل تحیۃ المسجد کے بھی پڑھ لیں۔
مسجد نبوی کی چھتریاں کھلی ہوئی تھیں۔ پنکھےپانی والی پھواروں کے ساتھ ہوا پھینک رہےتھے۔ایک خوبصورت سکون کا احساس تھا ۔ ابھی ظہر کی نماز میں وقت تھا۔ شلوار قمیض میں لوگ بہت زیادہ نظر آرہےتھے۔ مرد، مردوں والی طرف اور دونوں بہنیں بچوں کے ساتھ عورتوں کے حصے میں آگئے۔ منتہیٰ بڑی بہن اور بچوں کے ساتھ صحن میں رک گئی اور میں مسجد کے صحن کو عبور کر کے باب علی سے اندر داخل ہونے کے لیے آگئی۔
وہاں ڈیوٹی پہ موجود خادمائیں تمام خواتین کی تلاشی لے رہی تھیں اور جن کے پاس تصویر بنانے والا موبائل فون تھا وہ اپنے پاس رکھ رہی تھیں۔ مجھےنہیں پتہ کہ اس کی واپسی کا کیا طریقہ تھا ۔ میرے پاس موبائل انہیں نہ ملا۔ یہاں کچھ باتیں ایسی بھی بتانا چاہتی ہوں جو شاید کسی اور کا بھلا کر سکیں۔
باب علی اور تمام ابواب کے ایک سے زیادہ دروازے ہیں.. یعنی اگر میں باب علی سے داخلہ ہوتی ہوں تو مجھےپتہ ہونا چاہیے کہ باب علی 1 سے جارہی ہوں یا 2 سے یا باب علی 3 سے، تاکہ اگر کسی ضرورت کے تحت باہر آئیں تو دوبارہ صحیح دروازے سے داخل ہوں۔ دوسری بات یہ کہ مسجد کے اندر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ریک پڑےہوتے ہیں ،اگر وہاں اپنا کوئی سامان رکھیں تو ان کے اوپر بھی نمبر لگےہوتےہیں وہ یاد رکھیں کیونکہ ہر نماز کے بعد جونہی صفائی شروع ہوتی ہےوہ ریک کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔
میں مسجد نبوی کی عمارت کے اندر آگئی یوں لگا جیسے کسی بہت شفیق ہستی نے سر پہ ہاتھ رکھ دیاہو۔ جیسے بچہ ماں کی گود میں آجائے۔ جیسے تھکے ہوئے مسافر کو بڑی مشقت بھرے سفر کے بعد بہت آرام دہ جگہ پہ سستانے کا موقعہ مل جائے۔ مسجد کے ستونوں سے وہی ٹھنڈی ہوا نکل کے مجھ تک آرہی تھی جو پچھلی دفعہ محسوس کر کے سکون آ جاتا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ میں تو کبھی واپس گئی ہی نہیں تھی۔
ابھی نماز میں وقت تھا تو میں نے نفل حاجت پڑھنے شروع کیے بڑے بچے سے شروع ہوئی اور سب سے چھوٹی بیٹی تک۔ہر دو نفل کے بعد اللہ سے بڑی عاجزی سے بچوں کی دین دنیا کی کامیابیوں کی دعائیں کیں۔ اتنے میں اذان شروع ہوگئی۔چھوٹے بچوں والی خواتین کی صفیں داخل ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہیں،پھر جیسے جیسے روضۂ مبارک کے قریب پہنچتے جاتےہی زیادہ خاموشی اور باادب ماحول بنتا جاتا ہےاور روضۂ مبارک کے قریب ترین ایسی خواتین ہوتی ہیں جن کے ساتھ بچے نہیں ہوتے تو شور بھی نہ ہونے کے برابرہوتا ہے۔ میں بھی وہاں تک چلی گئی۔
امام صاحب نے اقامت کے بعد اللہ اکبر کہہ کے نماز شروع کی۔شروع میں تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ باجماعت نماز کیسے پڑھتے ہیں لیکن اب دوسری دفعہ تھی تو اب کافی بہتر نمازہو گئی تھی بلکہ اب تو اگر کسی میں کوئی کمی بیشی نظر آتی تو ان کی بھی اصلاح کرنے کی کوشش کرتی۔
نماز ختم ہوئی تو ساتھ ہی جنازے کا اعلان ہو گیا۔ مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں، ہر دو جگہ اکثر نماز کے ساتھ جنازے بھی ہوتے ہی۔ نماز کے بعدمنتہیٰ بڑی بہن کے ساتھ اندر آگئی۔ بچوں کو ان کے بابا کے پاس چھوڑ دیا تھاکیونکہ ظہر کے بعد روضہ مبارک کھلتا تو ہم نےسلام پیش کرنا تھا۔ میں نے ایک کرسی پکڑ لی تھی تاکہ جب ریاض الجنہ میں نفل پڑھنے کا موقعہ ملے تو کرسی پہ بیٹھ کے نفل پڑھ سکوں۔ جیسے ہی روضہ مبارک کھلا خواتین کی بھگدڑ اور شور، شروع ہو گیا۔ ڈیوٹی والی خادمائیں، عورتوں کو گائیڈ کر رہی تھیں میں بھی اپنی فولڈنگ کرسی اٹھائےہجوم کے سیلاب میں بہتی ہوئی ریاض الجنہ پہنچ گئی تو بیٹی نے کال کی کہ امی ہم آپ کے پیچھےہی ہیں مڑ کے دیکھا تو دونوں بیٹیاں پیچھےساتھ ہی تھیں اور بڑی والی نے میرے لیے کرسی بھی پکڑی ہوئی تھی۔اللہ نے مجھ سے وہ کرسی اس لیے اٹھوائی تھی کہ وہاں ایک بوڑھی اور اکیلی عورت کو ا س کی ضرورت تھی۔ جب بیٹی نے بتایا کہ ہم آپ کے لیے کرسی ساتھ لے کے آئے ہیں تو وہ کرسی میں نے اس اکیلی، بوڑھی خاتون کو دے دی جس کی کرسی لے کے آنے کا وسیلہ اللہ نے مجھےبنایا تھااور اس نے ہمیں ڈھیروں دعائیں دیں۔
یہاں ڈیوٹی پر مامور خواتین خاموش رہنے کی تلقین کر رہی تھیں۔ پھر بھی عورتیں درود پاک کا ورد بلکہ نعت خوانی بھی کر رہی تھیں۔ریاض الجنہ کے بارے میں کہتےہیں کہ یہ جنت کا ٹکڑا ہے، اسے زمیں پہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتارا گیا ہےاور جتنی جگہ پہ سبز قالین ہیں وہاں تک ریاض الجنہ ہے،یہاں نفل پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔ جونہی مجھےتھوڑی سی جگہ نظر آئی بیٹی نے وہاں کرسی بچھادی اور یقین کریں کہ ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ نادیدہ لوگوں نے کرسی کو گھیرا ڈال لیا ہے۔اتنے رش میں، میں نے ایسے سکون سے نفل پڑہےجیسے میں اپنے گھر میں پڑھتی ہوں۔
یہاں مجھےایک واقعہ یاد آ رہا ہےجو اس سفر کا تو نہیں لیکن آپ کے لیے اسے بھی قلمبند کر رہی ہوں۔جب میں پہلی دفعہ مسجد نبوی آئی اور سلام پیش کرنے کھڑی ہوئی تو بڑی بیٹی نے ہر قدم پہ مجھےبتایا کہ کس طریقے سے سلام پیش کرنا ہے۔السلام علیک ایھاالنبی کے الفاظ سے سلام پیش کررہی تھی تو ایسے ہی ذہن میں خیال آیا کہ شاید میں حجرہ مبارک کے عین سامنے ہوں بھی یا نہیں،شاید میں صحیح مقام پہ کھڑی بھی ہوں یا نہیں ۔جب میں ایسا سوچ رہی تھی تو اچانک اوپر سے چھت ہٹنا شروع ہو گئی اور چند منٹ کے اندر چھت مکمل ہٹ گئی اور سامنے گنبد خضرا نظر آنا شروع ہو گیا۔سبحان اللہ!اللہ پاک کیسے کیسے اپنے بندوں کو دکھاتا ہےکہ اے میری بندی.. تو میرے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پہ عین اس جگہ کھڑی ہےجہاں میرے حبیب کا ڈیرہ ہے، تو بے فکر ہو جا اور سکون سے سلام پیش کر۔ اس سے پہلے مجھےعلم نہیں تھا کہ مسجد نبوی کے صحن کی چھت اس طرح سے بنی ہوئی ہےکہ جب وہ چاہیں اسے اس طرح کھول دیتے ہیں کہ جیسے آپ کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہوں۔
تومیں بتارہی تھی کہ ریاض الجنہ میں نفل پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔جب میں دونفل پڑھ چکی تو میں نے مزید نفل شروع کرنے لگی تو بڑی بیٹی نے کہا، امی یہاں سب کا حق ہےنفل پڑھنے کا اب دوسرے لوگوں کو پڑھنے کا موقع دیں۔مجھےاس کی بات بہت اچھی لگی کہ ہر جگہ پہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
سلام پیش کر کے اور نفل پڑھ کے باہر آئے تو سامنے بچے بابا سمیت ہمارا انتظار کر رہےتھے۔میں نے بچوں سے کہا کہ مسجد میں کرسیاں خرید کے رکھنا چاہتی ہوں تاکہ ایسے لوگ آسانی سے نماز پڑھ سکیں جنہیں میری طرح گھٹنوں کا عارضہ ہے۔اللہ میرے داماد کو اور تمام مومن مسلمانوں کے بچوں کو برکتیں، خوشیاں صحت، ایمان کے ساتھ لمبی عمریں عطا فرمائے اس نے کرسیاں خریدیں اور مسجد میں رکھوا دیں۔
اس کے بعد مسجد قبا کے لیے نکلے۔مدینہ پاک میں مسجد نبوی کے بعد جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ پیاری ہےوہ مسجد قبا ہے۔سیاہ فام خواتین مسجد سے باہر کافی جگہ تک پھیلی ہوئی دنداسہ، مہندی، تسبیح، مصالحہ جات سرمہ، خوشبویات اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں رات دیر تک بیچ رہی ہوتی ہیں۔دن کےوقت شدید گرمی میں بھی دھوپ کی پروا کیے بغیر۔
مسجد قبا کے اندر اونچی چھتوں والی بلڈنگ میں سرخ قالین بچھےہوئےہیں۔ بہت پرسکون ماحول میں عورتیں نماز پڑھ رہی ہوتی ہیں ۔ بچے ماؤں کو چھوڑ کے اِدھراُدھرہوتےہیں تو مائیں نماز پڑھتے پڑھتے ہی انہیں گھسیٹ کے اپنے سامنے لے آتی ہیں اور نماز جاری رکھتی ہیں۔
اگلے دن وادیِ جن کا پروگرام تھا ۔میں فاطمہ اور منتہیٰ پیچھے، مریم اپنے شوہر اور چھوٹے بچے کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئے۔ہم لوگوں نے کچھ سامان بھی خرید لیا کھانے پینے کا۔ باتوں میں سفر کا پتہ نہیں چلا، جلد ہی وادی جن کی پہاڑیاں شروع ہو گئیں۔ ہر پہاڑی کا اوپر والا سرا کسی انسانی سر کی طرح نظر آرہاتھا۔ وہاں بیٹھنے کا کچھ خاص انتظام نہیں تھا۔سیاہ پہاڑیوں کو دیکھ کے دل کو خوف آرہاتھا اور بھی لوگ گھوم پھر رہےتھے،ہم نے بھی گھوم پھر کے ادھر دیکھا کسی جن سے ملاقات تو نہ ہوئی لیکن کچھ نہ کچھ ان کالے پہاڑوں کی ہیبت ضرور تھی۔کچھ تصویریں بنائیں اور پھر جلدہی واپسی کے لیے نکل آئے۔ واپسی پہ پانی والا تجربہ بھی ہمارے سامنے کیا گیا۔ ڈھلوان جگہ پہ پانی گرایا تو پانی بہہ کر نیچے جانے کی بجائےاوپر آ رہا تھا۔ اس کی سائنسی وجہ ہے، گاڑی بھی خودہی چلتی چلی جاتی ہے۔
کچھ اور جگہیں بھی دیکھنے کے بعد واپس پاکستان ہائوس پہنچے۔ رات کو جلدی سونا تھا کیونکہ صبح جلدی مکہ کے لیے نکلنا تھا۔اگلے دن ناشتہ سے فارغ ہو کے سامان سمیٹا اور مدینہ پاک سے نکلے۔ دل کو حوصلہ تھا کہ ابھی اگلے ہفتہ ڈیڑھ میں پھر آنا ہےکیونکہ کچھ روزے یہاں بھی رکھنےاور عید مسجد نبوی میں کرنے کا ارادہ تھا۔
مدینہ پاک سے مکہ جاتے ہوئے میقات پہ رکے۔ہر میقات پہ ایک خوبصورت رونق ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے گھر سے کچھ بھی ساتھ نہیں لائےتو بھی ہر میقات پہ آپ کو عمرہ کی ضرورت کی تمام چیزیں دستیاب ہیں۔ لوگ وہاں ٹوپی، تسبیح، چپل، سر پہ باندھنے والے کپڑے، احرام کے ساتھ لگانے والی مردوں کی بیلٹ غرض یہ کہ ہر چیز خرید رہےہوتےہیں۔ قطاروںں میں نہانے کے لیے غسل خانے بنے ہوتے ہیں۔ اگر گھر سے بھی نہا کے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن لوگ وہاں پہ جا کےہی نہانے کو ترجیح دیتےہیں۔ یہ میقات بھی مسجد عائشہ کی طرح بہت کھلا اورہر ضروت سے آراستہ ہے۔ایک بات جس نے مجھےمتاثر کیا وہ صفائی ہے۔ مدینہ پاک میں بھی مسجد نبوی کے غسل خانوں کی کمال صفائی ہےاور ہر میقات پہ بھی ہزاروں لوگوں کا زبردست انتظام ہے۔
عمرہ کی نیت کے لیےنہا دھو کے صاف لباس پہن کے دو نفل پڑھنے ہوتے ہیں ۔ ایک پاکستانی عورت غسل خانے کے اندرہی کھڑی ہو کے نفل پڑھنے کے لیے ہم سے پوچھ رہی تھی کہ کدھر منہ کر کے نیت کرنی ہے۔ اس کو پکڑ کے بچیاں مسجد کے اندر لے گئیں کہ یہاں نفل پڑھیں۔ اس بات کا دکھ ہوتا ہےکہ ہمارے لوگوں کو اچھی طرح بتایا نہیں جاتا عمرہ کے تمام ارکان کے بارے میں۔اب بڑی بیٹی قدم قدم پہ چھوٹی کو بتا رہی تھی کہ اب دو نفل پڑھنے ہیں، اس کے بعد تم احرام میں آجائو گی ۔خواتین کا احرام ان کا اپنا لباس اور اوپر حجاب لینا ہوتا ہےالبتہ حجاب کے اندر بالوں کے اوپر ایک چھوٹا رومال ایسے باندھنا ہےکہ بال بالکل چھپ جائیں۔ احرام میں آنے کے بعد بال نہیں ٹوٹنے چاہئیں یعنی آپ کنگھی مت کریں، کسی چیز کو مارنا نہیں یعنی چیونٹی یا سر والی جوں تک کو نہیں مارنا، کسی قسم کی خوشبو نہیں لگانی، صابن بھی بغیر خوشبو والا استعمال کرنا ہےاور جتنے کپڑے احرام میں پہننے ہیںان ہی کپڑوں میں عمرہ پورا کرناہے۔ یعنی اگر جرابیںہیں تو انہیں آخر تک پہنے ہی رکھنا ہےاور اسی طرح باقی بھی جو کچھ آپ نے پہنا ہےاس میں سے کچھ کم یا زیادہ نہیں کرنا۔
ہم نے دو، دو نفل عمرہ کی نیت سے ادا کیے، اللہ سے مدد کی دعا کی۔ ایک دفعہ لبیک اللھم لبیک۔ لبیک لا شریک لک لبیک۔ ان الحمد والنعمتہ لک والملک۔ لا شریک لک پڑھا اور باہر آگئے۔ اب راستہ بھر ہم نے اسے ہی پڑھنا تھا یہاں تک کہ مسجد الحرام پہنچ گئے۔
مریم اور بچے آرام کرنا چاہ رہے تھےجبکہ میں اور منتہیٰ سیدھا خانہ کعبہ جانا چاہتے تھے۔ آخر کار ہمیں خانہ کعبہ چھوڑ کے مریم لوگ ہوٹل چلے گئے۔ جب ہم پہنچے تو تہجد کی اذان ہو رہی تھی۔ تہجد کے وقت ہر روز چھوٹے چھوٹے پرندے آتے ہیںاور خانہ کعبہ کا طوف کرتےہیں۔ ہم پہنچے تو وہ منظر اپنی آنکھوں سےدیکھا۔ وہ شاید ابابیلیں تھیں جو اپنے مقررہ وقت پہ آئیں ،اپنے طواف کے چکر لگائے اور پھر اگلے دن تہجد تک کے لیےغائب ہو گئیں۔
منتہیٰ کا یہ پہلا عمرہ تھا اور مجھےاپنے پہلا عمرہ بہت یا آرہا تھا۔
جب میں پہلے عمرے کے لیے مسجدالحرام پہنچی تو میرے داماد اور بیٹی نے مجھےدائیں بائیں سے پکڑ لیا اور مجھےآنکھیں بند کر کے چلنے کا کہا اور ساتھ ساتھ مجھےیہ بھی یاد دہانی کروا رہےتھےکہ جیسے ہی ہم آپ کو بتائیں گے کہ اب آپ خانہ کعبہ کے سامنے ہیںتو آپ نے خانہ کعبہ کو پہلی نظر دیکھ کے جو دعائیں سوچی ہیں وہ مانگنی ہیں۔میں قدم قدم سیڑھیاں اتر کے چلتی ہوئی جارہی تھی جب مریم نے میرا ہاتھ دبایا اور مجھےبتایا۔
’’ امی آپ خانہ کعبہ کے بالکل سامنے ہیں، آنکھیں کھولیں اور اپنی دعائیں مانگ لیں‘‘۔
جونہی میں نے آنکھیں کھولیں اور میری نگاہ خانہ کعبہ پہ پڑی،اب کون سی دعائیں اور کہاں کےہوش…..دل کی دنیا تہہ و بالاہو گئی تھی….. دل کے ساتھ واردات ہو گئی تھی…..نہ میرے ہوش سلامت رہےنہ ہی کچھ مانگنا یاد رہا….. نہ جانے میں کہاں تھی،میرا دماغ کہاں تھا، میرا دل کہاں!
(میں بہت عرصے تک بعد میں لوگوں سے بھی پوچھتی تھی کہ کیا آپ کو اس لمحےدعا مانگنی یاد رہی)
مجھےبچوں نے ہلایا جلایا ۔امی دعا؟تب میرے منہ سے جو پہلا لفظ نکلا وہ سبحان اللہ تھا۔ اور دوسری بات جو نکلی’’ اللہ میں تو اس قابل نہیں تھی اللہ آپ بہت مہربان ہیں‘‘۔
آج منتہیٰ تھی اللہ کے گھر کے سامنے…..پتہ نہیں اس کے کیا محسوسات تھے۔ لیکن جو بات اس نے مجھےکہی وہ یہ تھی کہ امی مجھےتو کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کیا میں ہی ہوں اللہ کے گھر میں…..اللہ کا اپنےہر بندے کے ساتھ اپنا ہی معاملہ ہے۔
کچھ لوگ بے اختیار روتےہیں
کچھ پہ ہیبت طاری ہو جاتی ہے
کچھ کو سب کچھ بھول جاتا ہے
کچھ کو سب کچھ مانگنا یاد رہتا ہے
لیکن اللہ تو سب کا اللہ ہے….. وہ تو رب العالمین ہے….. وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے!
جیسے ماں کو پتہ ہوتا ہےکہ میرا یہ بچہ کمزور ہےاس بےچارے نے تو ضد بھی نہیں کر سکنی تو اس کا خیال میں نے خود سے ہی رکھنا ہے۔ ویسے اللہ اپنےہر بندے کے اندر چھپےہوئے آنسوئوں اور آرزئووں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ اپنے سارے بندوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکتا۔ ایک بندہ پیسہ پیسہ جوڑ کے وہاں پہنچتا ہے۔ایک بندہ بیماری میں بمشکل سے اٹھ کے اسے پکارتا ہے، ایک ماں چھوٹے چھوٹے بچوں کے سونے کا انتظار کرتی ہےجب وہ سوتے ہیں تو اٹھ کے اسے پکارتی ہے۔تو اللہ ہماری نیت، اخلاص اور عاجزی سے پیار کرنے والا رب ہے۔ شاید اسی طرح۔
وہ مہربان تو سب پہ ہے۔ وہ رحیم و رحمان تو سب کے لیے ہے،لیکن اس کا معاملہ سب کے ساتھ الگ الگ ہے!
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x