ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نماز مومن کی معراج ہے – بتول جولائی۲۰۲۲

نماز اللہ تعالی کے قرب اور روحانی ترقی کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ایمان کے بعد عملی اطاعت کی اولین اور دائمی علامت نماز ہے۔نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔ نماز کو ترک کردینا اور ایمان کا دعوی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ دین کا ستون ہے۔ جس نے اسے گرا دیا اس نے دین کی عمارت ڈھا دی اور جس نے اس کی حفاظت کی اس نے دین کی حفاظت محفوظ رکھی۔
نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز ومحور سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ اگر یہ بندھن ٹوٹ جائے تو بندہ خدا سے دور اور دور تر ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا، اور یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۳،ص۷۵)
صلاۃ کے معنی: صلاۃ کے لغوی معنی دعا کے ہیں۔یہ معروف شرعی معنی میںفریضہء نماز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اسے صلاۃ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اصلاً دعا ہی ہے۔
اصطلاح میں نماز اللہ تعالی کے لیے ادا کیا جانے والا اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ نماز وہ شرعی عبادت ہے جس کے مخصوص اور متعین الفاظ اور افعال ہیں، جو تکبیر سے شروع ہوتی اور تسلیم پر مکمل ہوتی ہے۔
نماز اللہ تعالی کے پسندیدہ اور افضل اعمال میں سے ہے۔اور قیامت کے دن اس کا حساب بھی سب سے پہلے لیا جائے گا۔
نماز اس سے پہلے کی امتوں میں بھی رائج تھی۔ حضرت ابراہیمؑ جب کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو اسوقت بھی انہوں نے اس کے مقاصد میں نماز کا ذکر کیا:
’’اے رب (یہ میں نے اس لیے تعمیر کیا تاکہ) یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں‘‘۔ (ابراہیم،۳۷)
حضرت موسی ؑ کو اللہ کی جانب سے نماز قائم کرنے کا حکم ملا، ارشاد ہے:
’’اور ہم نے موسیؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو ، اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لو اور نماز قائم کرو‘‘۔ (یونس،۸۷)
حضرت عیسیؑ نے گہوارے میں فرمایا: ’’اور جہاں بھی میں رہوں اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کی پابندی کا حکم دیا‘‘۔ (مریم،۳۱)
قرآن کریم میں اسے انبیاء علیھم السلام کے اجتماعی وصف کی صورت میں بیان کیا گیا ہے، جسے ان کے جانشینوں نے ضائع کر دیا۔
’’پھر ان (انبیاء ؑ ) کے بعد نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا‘‘۔ (مریم۵۹)
قرآن نے بتایا کہ یہ ہر امت کے زوال اور انحطاط کا پہلا قدم ہے کہ وہ نماز کو ضائع کرنے لگتے ہیں اور خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں نماز یعنی ’’صلاۃ‘‘ کا ذکر سو (۱۰۰) سے زائد مرتبہ آیا ہے۔صلاۃ کے کئی معنی ہیں، جن میں رحمت، دعا، استغفار اور مغفرت وغیرہ بھی ہیں۔قرآن کریم میں سب سے پہلے سورۃ البقرۃ میں ’’اور وہ نماز قائم کرتے ہیں‘‘۔ (۳) میں ذکر کیا گیا، ا ور سب سے آخر میں سورۃ الکوثر میں ’’پس اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو‘‘۔ (۲)ذکر آیا۔
ابن ِ جوزی کہتے ہیں: ’’اکثر اوقات نماز کا ذکر فریضہ زکوۃ کے ساتھ آیا ہے‘‘۔
نماز کیا ہے؟
نماز کے لئے عربی زبان میں’’ صلاۃ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔نماز الفاظ، اور افعال و اعمال کا مجموعہ ہے۔ نماز میں اللہ تعالی کی تکبیر، اس کی تحمید اور تسبیح بیان کی جاتی ہے۔اور بندہ اللہ کی جانب دعا اور استغفار سے متوجہ ہوتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ نمازکی ہر رکعت کا لازمی جزو ہے، جو اللہ کی حمد وثنا، اعترافِ عبودیت، ہدایت اور اعانت کی طلب اور گمراہی اور اس کے غضب سے نجات پر مشتمل ہے۔یہ ہر جانب سے اعراض کر کے اللہ کی فرمانبرداری کی جانب متوجہ ہو جانے اور اور اس کی نافرمانی سے دور ہو جانے کا عندیہ ہے۔گویا نماز کی ابتدا ہی میں بندہ فواحش اور منکر سے بچنے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔
اگر نماز کے افعال و اعمال کو دیکھیں تو یہ اللہ کے سامنے جھک جانے اور تذلل (اپنے آپ کو حقیر ثابت کرنے) اختیار کرنے کا انداز ہے۔وہ ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے عاجزی سے کھڑا ہوتا ہے، نگاہیں پست ہیں اور اور عجرو نیاز میں مصروف ہے، پھر وہ اس کے سامنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جاتا ہے، کمر خمیدہ ہے اور زبان پر اس کی پاکی کے کلمات! پھر وہ اپنی پیشانی، ناک، ہتھیلیاں اور گھٹنے اور پاؤں زمین پر رکھ کر پانچ اعضاء پر سجدہ کرتا ہے، اور پستی اور عاجزی کا انتہائی اظہار اپنے بدن سے بھی کرتا ہے اور اور اس رب ِ اعلی کی تسبیح بیان کرتا ہے، اور اس کا مقصد رب کی رضا کو پانا اور اس کے غضب اور غصّے سے بچنا ہے۔یہ شیطان کے راستے سے برأت اور فواحش کی جانب متوجہ نہ ہونے کا عملی اظہار ہے۔
ان ظاہری اقول اور افعال کے ساتھ کچھ قلبی اعمال بھی ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے بندے کی دل کی کیفیت کیا ہے؟ اس کی نیت اور رب کے سامنے کھڑے ہونے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ کیفیات ہی اسے یاد کرواتی ہیں کہ یہی رب اس مرتبے اور حیثیت کا ہے کہ اسے راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔اس کے حکم کو آگے بڑھ کر سرانجام دیا جائے، خواہ اسے انجام دینے میں کتنی ہی مشقت پیش آئے اور جس عمل اور کام سے وہ روکے اس سے رک جائے، خواہ وہ نفس کو کتنا ہی مرغوب کیوں نہ ہو۔
اس کیفیت کو علامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا ہے:
؎ شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب وجستجو، عشق حضور واضطراب
قرآن کریم میں بار بار اقامتِ صلاۃ کا حکم دیا گیا ہے، ارشاد الہی ہے:
’’میری یاد کے لئے نماز قائم کرو‘‘ (طہ، ۴)
اور مومنین کی صفت بیان کی:
’’اور وہ نماز قائم کرتے ہیں‘‘ (البقرۃ،۳)
یعنی ایمان لانے کے بعد آدمی فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اور عملی اطاعت کی اولین اور دائمی علامت نماز ہے۔دن میں پانچ مرتبہ مؤذن کی آواز کے ساتھ ہی اس بات کا فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعوی کرنے والا اطاعت کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ اور اگر انسان اس پکار پر لبیک نہیں کہتا تو صاف ظاہر ہے کہ ترک ِ نماز کرنے والا دراصل ترکِ اطاعت پر آمادہ ہے۔
پنج وقتہ نماز
نماز کن اوقات میں ادا کی جائے، اس بارے میں نبی کریم ﷺ کو حضرت جبریل نے تفصیلاً بیان کیا، حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جبریلؑ نے مجھے بیت اللہ کے قریب دو مرتبہ نماز پڑھائی،اور ان اوقات کا ذکر کیا جن میں پہلے دن اور دوسرے دن نماز پڑھائی اور مجھ سے فرمایا، اے محمد ﷺ، پہلے انبیائؑ کی نماز انہیں دو اوقات کے درمیان تھی‘‘۔ (رواہ ابو داؤد،۳۹۳)
اقامتِ صلاۃ کا مفہوم
اقامت کے معنی کسی چیز کو کھڑا کرنے اور اس طرح سیدھا کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی ٹیڑھ باقی نہ رہے۔اقامتِ صلاۃ میں کئی حقیقتوں کی جانب متوجہ کیا:
۔ پہلی چیز نماز میں اخلاص ہے، یعنی نماز صرف اللہ کے لئے پڑھی جائے اور اس میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ارشاد ہے:
’’اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر‘‘۔ (الاعراف، ۲۹)
۔ دوسری چیز نماز کے اصل مقصود پر دل کو جمانا ہے۔ نماز کا مقصود ذکر الہی میں خشوع و خضوع ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المؤمنون، ۱۔۲)
خشوع کی کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔
نیسری چیز یہ ہے کہ بغیر کسی کمی اور اضافے کہ اسی طرح نماز ادا کی جائے جس طریقہ پر اللہ تعالی نے اس کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔نماز کی صفوں کا ٹھیک کرنا اور اس کے ارکان درست طریقے سے انجام دینا اس میں شامل ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے: ’’صفوں کو برابر کرنا بھی اقامتِ صلاۃ کا ایک جزء ہے‘‘۔
چوتھی چیز نماز کے اوقات کی پوری پوری پابندی ہے۔’’نماز اہل ِ ایمان پر پابندیء وقت کے ساتھ لازم کی گئی ہے‘‘۔ (النساء،۱۰۳)
فرمایا: ’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک، اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۷۸)
اسی چیز کو دوسرے مقامات پر نمازوں کی نگرانی سے تعبیر کیا گیا ہے: ’’اپنی نمازوں کی نگہداشت کرو‘‘ ۔ (البقرۃ،۲۳۸)
۔ پانچویں چیز ہے نماز پر قائم رہنا، جیسا کہ فرمایا: ’’جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ (المعارج،۳۴)
نماز کے ساتھ تسلسل اور دورم ایک لازمی صفت ہے۔ نماز کے بارے میں سست روی اور غفلت معیوب ہے۔ نماز چونکہ بندے اور رب کے درمیان رابطہ ہے اس لیے اس میں دوام لازمی ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب کوئی عبادت کرتے تو اس پر دوام اختیار فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک اعمال میں محبوب ترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ قلیل ہو‘‘۔
چھٹی چیز جمعہ اور جماعت کا قیام ہے۔ خصیوٹیت کے ساتھ جب امت اور امام کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا:
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘‘۔ (الحج،۴۱)
حضرت ابراہیمؑ کی دعا جس میں انہوں نے اپنی امت کا مشن بتا یا ہے وہ فرماتے ہیں:
’’پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو لا بسایا ہے، پروردگار یہ میں نے اس لیے ایسا کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں‘‘۔ (ابراہیم،۳۷)
نماز ضائع کرنے کی سزا
قرآن کریم میں نماز کی اقامت کا باربار حکم دیا گیا اور اس کے ضائع کرنے پر زجرو توبیخ بھی کی گئی، فرمایا:
’’جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے‘‘۔ (مریم،۵۹)
یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے، اور یہ امت کی زوال کی نشانی ہے۔ایسے لوگوں کو قرآن تہدید آمیز تنبیہ کرتا ہے کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں، اور انہوں نے اپنے صالح آباء کی سیرتوں کو چھوڑ دیا ہے، اور اس کا انجام تباہی ہے۔
اللہ تعالی نے تماز سے غفلت برتنے والوں کو فرمایا:
’’پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔ (الماعون، ۴۔۵)
یہ لوگ نماز پڑھتے تو ہیں مگر نماز کو قائم نہیں کرتے۔ ان کی روح نماز کی حقیقت سے بے گانہ ہوتی ہے، ان کی سوچ ان معانی سے دور ہوتی ہے جو وہ پڑھتے ہیں۔ جو قرأت ، جو دعائیں، جو تسبیح و تہلیل وہ کرتے ہیں اس سے ان کی روح دور ہوتی ہے۔ گویا وہ اپنی نماز جسے وہ پڑھ رہے ہوں سے غافل ہوتے ہیں، اسے صحیح طرح ادا نہیں کرتے۔
اللہ کے ہاں مطلوب یہ ہے کہ نماز کو صحیح طرح قائم کیا جائے، فقط ادائیگی مطلوب نہیں۔نماز تب قائم ہوتی ہے جب اسے دینی روح اور اس کے معانی کے ساتھ پڑھا جائے اور جس میں اللہ کی ذات مستحضر ہو۔ یہ آیت نمازیوں کو کھلی دھمکی دے رہی ہے کہ وہ ہلاکت سے دوچار ہوں گے کیونکہ وہ نماز کو صحیح طرح قائم نہیں کر رہے۔ اس نماز کے ساتھ وہ اللہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوتے بلکہ محض لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔اس لیے نماز کے حقیقی اثرات ان کی زندگی میں نظر نہیں آتے، لہذا یہ نماز ذرہ بے قیمت ہے، ایک غبار ہے بلکہ نمازی کے لیے ایک وبال اور ہلاکت ہے۔ (فی ظلال القرآن، نفس الآیۃ)
جہنم کے داروغہ اہل جہنم سے سوال کریں گے:
’’تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر،۴۲۔۴۳)
اشارہ یہ ہے کہ ہم ایمان لا کر اس گروہ میں شامل نہ ہوئے جو نمازیوں کا تھا۔ اس سے اسلام میں نماز کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔یہ گویا ایمان اور فلاح کی دلیل ہے اور نماز کا انکار دراصل کفر ہے اور جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ صفتِ ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو۔
نمازیوں کی قرآن میں مدح
اللہ تعالی نے متقین کی لازمی صفت کے طور پر بیان فرمایا:
’’ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لیے (۔۔) جو نماز قائم کرتے ہیں‘‘۔ (البقرۃ،۳)
یعنی یہ متقین عملی اطاعت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
’’جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں‘‘۔ (الشوری،۳۸)
یہ امت مسلمہ کی صفات میں ہے کہ وہ اقامتِ نماز کرتے ہیں۔اسلام میں نماز کو ایک بہت بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ کلمہ طیبہ کے اقرار کے بعد پہلا حکم نماز کا ہے۔ گویا نماز اللہ تعالی کے احکام کی پیروی کا آغاز ہے۔ اور اس کی عملی صورت محمود و ایاز کا ایک ہی صف میں کھڑے ہونا ہے۔
اللہ تعالی نے فلاح یاب مومنین کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا:
’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المؤمنون،۱۔۲)
یہ ایک پختہ وعدہ ہے، بلکہ یہ ایک دو ٹوک قرارداد ہے کہ مومنین فلاح پائیں گے۔ اور ان کی صفات میں سے پہلی صفت نمازوں میں خشوع ہے۔اور آگے ان کی کیفیت بھی بیان کی کہ: ’’جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔(المومنون،۹) یعنی نہ نماز قضا کرتے ہیں نہ انہیں ضائع کرتے ہیں، بلکہ نمازوں کے فرائض، سنن اور مستحبات کو پوری طرح ادا کرتے ہیں۔ان کی نمازیں زندہ نمازیں ہوتی ہیں۔ اور پوری توجہ سے وہ ان میں غرق ہوتے ہیں۔ ان کی روح اور ان کا وجدان ان نمازوں سے اچھا اثر لیتا ہے۔یعنی مومنین کی صفات کی ابتدا بھی نماز سے کی اور انتہا بھی۔ کیونکہ اسلام میں اول بھی نماز ہے اور آخر بھی نماز۔یہ ان اہلِ ایمان کی صفات ہیں جن کے لیے اللہ نے فلاح لکھ دی ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیات)
قرآ کریم میں مومنین کی مدح کرتے ہوئے عملی صفات میں سب سے پہلے نماز ہی کا ذکر ہے، فرمایا:
’’جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں (۔۔) یقیناً وہ ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہو گا‘‘۔ (فاطر،۲۹)
یعنی یہ اللہ سے کیا گیا بیو پار ہے، اور ایسی اخروی تجارت ہے جس میں منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔
نماز کی عظمت
قرآنِ کریم میں نماز کو تمام عبادات پر ایک خاص بڑائی عطا کی ہے، اور ہر حال میں اسے لازم کیا ہے۔یعنی یہ ایسا فریضہ ہے جو بلا استثنا آزاد اور غلام، مرد اور عورت، امیر اور غریب، صحت مند اور بیمار، مقیم اور مسافر اور حالتِ امن اور جنگ میں فرض کیا گیا ہے۔اس کے برعکس زکاۃ کو خوش حالی، روزے کو طاقت، حج کو استطاعت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
نماز کو قرآن کسی حالت میں ساقط نہیں کرتے، اگر مسافر کے لیے اسے مختصر کر دیا جاتا ہے اور حالتِ جنگ اور خوف میں اس کے انداز میں تبدیلی آجاتی ہے۔
نماز کے فوائد
نماز محض چند ارکان کو ادا کر لینے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایسی عبادت ہے جو بندے میں کئی اوصاف کو پیدا کرتی اور انہیں بدرجہ اتم بڑھاتی ہے۔
۱ بندگی پر دوام
نماز ایسی عبادت ہے جو بندے میں ہر وقت اس بات کا احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ اس اللہ کی یاد اسے ہر کچھ گھنٹے بعد نماز کی ادائیگی کی جانب متوجہ کرتی ہے، کیونکہ نمازاوقات کی پابندی کے ساتھ لازم کی گئی ہے:
’’نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیء وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے‘‘۔ (النساء،۱۰۳)
استقامت اور دوام ایمان کا کمال اور اسلام کی خوبی ہے۔مشکلات کے ھجوم میں اور حوشلہ شکن حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تلاوتِ قرآن اور نماز قائم کرنے کی عملی تدبیر بتائی گئی:
’’اے نبیؐ، تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ (العنکبوت،۴۵)
جب نماز قائم کی جاتی ہے تو یہ فحش اور منکرات سے روکتی ہے۔ نماز اللہ سے ایسا رابطہ ہے کہ جب کوئی یہ رابطہ قائم کرتا ہے تو وہ فحش اور منکرات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ظاہری اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے، لہذا اس کے ساتھ کوئی گندگی، ناپاکی اور میل کچیل لگا ہی نہیں کھاتی۔
نماز کی اس خوبی کے دو پہلو ہیں: ایک اس کا وصف ِ لازم ہے اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب ہے۔انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ، ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہو سکتی ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایسی نماز پڑھے جو اسے فحاشی اور منکرات سے نہ روکے تو وہ ایسی نماز سے اس کے سوا کوئی فائدہ نہ پائے گا کہ وہ اللہ سے دور ہو جائے‘‘۔ (ابن ابی حاتم)
آپؐ نے فرمایا: ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے نماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رک جائے‘‘۔ (ابنِ جریر)
ایسی نماز ادا تو شمار ہو جائے گی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز قائم کی گئی ہے۔
۲ گناہوں سے پاکی
نماز گناہوں کا میل کچیل دھو ڈالتی ہے، ارشاد ہے:
’’اور دیکھو، نماز قائم کرو، دن کے دو نوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘۔ (ھود،۱۱۴)
اس میں پانچ نمازوں کے اوقات کاذکر ہے، پھر فرمایا کہ نیکیاں برئیوں کو دور کر دیتی ہیں۔اور یہ زادِ راہ معراج المومنین ہے۔اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جنہیں مٹا دیا جاتا ہے۔
احادیث ِ صحیحہ میں پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ اور رمضان سے رمضان کے درمیان ہونے والی خطاؤں کے دور کر دیے جانے کا ذکر ہے جب تک وہ کبائر کا مرتکب نہ ہو۔
۳ اطاعت کی تربیت
نماز مسلسل اطاعت کی تربیت کرتی ہے۔سچے اہلِ ایمان بڑے ذوق و شوق سے نماز کے لیے حاضر ہوتے ہیں، بلکہ وقت سے پہلے وضو کر کے تیار ہوتے اور مساجد میں پہنچتے ہیں۔یہی چیز انہیں منافق سے ممیز کرتی ہے، کیونکہ منافقین کا حال یہ ہے کہ:
’’جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔ (النساء،۱۴۲)
جو شخص دن میں پانچ مرتبہ نماز کے لیے مستعدی نہ دکھا سکے ایسا شخص اسلام کے لیے ناکارہ ہے۔ اسلام محض اعتقاد کا نام نہیں بلکہ عمل دکھانے کا نام ہے۔قرآن نے یہ بھی بتا دیا کہ نماز پڑھنا کن پر گراں ہے:
’’نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر ڈرنے والوں کے لیے نہیں‘‘۔ (البقرۃ، ۴۵)
جو خدا اور آخرت کا عقیدہ نہیں رکھتا اس کے لیے نماز ایک مصیبت ہے، مگر اطاعت گزار اور فرماں بردار بندے کے لیے اسے چھوڑنا مشکل ہے۔اس کے لیے نماز ایک خاص ملاقات ہے۔ اس سے دل غذا لیتا ہے اور روح ایک خاص تعلق محسوس کرتی ہے۔نماز میں انسان کے لیے وہ سروسامان ہے جو دنیا بھر کی متاع سے زیادہ قیمتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حالت یہ تھی کہ جب کوئی معاملہ آپؐ کو پریشان کرتا تو آپؐ نماز کی طرف لپکتے تھے، حالاں کہ آپؐ تو ہر وقت رب سے جڑے ہوئے تھے، آپؐ کی روح ہر وقت الہام اور وحی سے مربوط تھی۔
۴نفس کی سکینت
جب دل ہدایت پا جائے تو آثار و جوارح بھی سکینت محسوس کرتے ہیں۔نماز اللہ کی یاد کا ذریعہ ہے اور دل اللہ کی یاد ہی سے اطمینان پاتے ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔ (طہ،۱۴)
نماز عبادت کی مکمل صورت ہے اور ذکر الہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس میں انسان یادِ الہی کے سوا دوسری تمام باتوں سے کٹ جاتا ہے۔اور یہی نماز کی اصلی غرض ہے کہ بندہ اللہ سے غافل نہ ہو جائے اور دنیا کے دھوکہ دینے والے مظاہر اسے اس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں ۔ آزاد و خود مختار نہیں۔ضمناً اس سے یہ بھی مسئلہ نکلتا ہے کہ ’’جو شخص کسی وقت کی نماز پڑھنا بھول جائے تو اسے جونہی یاد آئے فوراً نماز پڑھ لے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی) یہی معاملہ نیند کا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’نیند میں کچھ قصور نہیں، قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائیتو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے، نماز پڑھ لے‘‘۔ (ترمذی، نسائی، ابوداؤد)
۵ دنیا و آخرت کی فلاح
نماز دنیوی و اخروی فلاح کی ضامن ہے۔ ارشاد ہے:
’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔ (الاعلی،۱۴۔۱۵)
اس آیت میں اللہ تعالی فیصلہ فرماتا ہے کہ جو پاکیزگی اختیار کرے اور اپنے دل میں رب کا جلال بسائے اور پھر نماز پڑھے تو فیصلہ یہ ہے کہ وہ فلاح پائے گا۔دنیا کی فلاح یہ ہے کہ اس کا دل اللہ سے جڑا ہو گا، زندہ ہو گا، اللہ کے ذکر میں وہ مٹھاس محسوس کرے گا اور اس کو باری تعالی سے انس ہو گا۔اور آخرت میں بھی وہ فلاح پائے گا، وہاں بڑی آگ سے بچے گا اور جنت ِ نعیم میں مقیم ہو گا۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x