ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نیا ذائقہ – بتول جولائی۲۰۲۲

آج سے سترہ سال قبل میاں کی ناگہانی موت کے بعد عقیلہ بیگم کا، جس زندگی پر سب سے زیادہ اعتماد تھا وہ چکنا چور ہوا اور زندگی کی پلاننگ میں سر فہرست فرائض کی ادائیگی کو رکھا ،فضول قسم کی مصروفیات پر یک جنبش قلم ترک کرنے کا لفظ لکھا ۔
خاوند کی وفات کے وقت صرف ایک بیٹے کی شادی ہوئی تھی ۔ عدت کے دوران جو بھی افسوس کے لیے آتے وہ بیٹے کے لیےتلاش رشتہ کا اشتہار بن جاتیں ۔ پھرعدت ختم ہوتے ہی انہوں نے یکے بعد دیگرے ساری اولادوں کو بیاہ دیا تو خدا کے گھر جانے کا جنون ،وہاں حاضری نصیب ہو گئی تو اعتکاف میں بیٹھنے کی آرزو ،اس سے بھی فیضیاب ہو چکیں تو باعزت ریٹائرمنٹ اور سارے بچوں کو اکٹھے کرنا اور زندگی کا نچوڑ بیان کرنا، ورثہ کی تقسیم اور دو چار پندو نصائح ۔
سوعقیلہ خانم نے اس مرتبہ سب بچوں کو حکم دے دیا تھا کہ سب بقرعید ان کے ہاں کریں گے ۔
کوئی امریکہ کوئی افریقہ میں ،بیٹی کراچی میں ہے اور داماد کی ملازمت کوئٹہ میں ….سب کو معلوم تھا کہ اپنے کہے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہوتیں اور حکم مانے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں سو سب نے حامی بھر لی ۔
جب تک افریقہ والی بیٹی اور نیو جرسی والے بیٹے نے اپنی ٹکٹیں کنفرم ہونے کی اطلاع نہیں دی ان کی طرف سے تاکید مزید کے پیغام موصول ہوتے رہے۔کراچی والی بیٹی شاہینہ اور بہاولپور والی روحینہ نے بھی گرین سگنل دے دیا یوں تقریباً گیارہ سال بعد ان کی ساری آل اولاد اکٹھے عید منانے کے لیے سیالکوٹ میں جمع ہونے والی تھی۔
عقیلہ خانم بڑی دبنگ اور دانا خاتون تھیں ۔ساری زندگی ملازمت میں گزری باعزت طریقے سے ریٹائر منٹ لینے کے بعد یہ ان کی پہلی عید تھی۔ انہوں نے شاید کوئی خواب دیکھا تھا یا اعتکاف میں اشارہ ہؤا تھا کہ ان کے اب چل چلاؤ کا وقت ہے، بس پھر ہدف ایک ہی رہ گیا کہ سارے بچوں کو جی بھر کے دیکھ لیں ۔عیدپر سب کو اکٹھے کرنا ہے تو یہی کافی ہے۔
سب نے نفع نقصان کو پیچھے دھکیلا۔ سب سے ماٹھے حالات بہاولپور والی روحینہ کے تھے جو شادی کے نو سال گزرنے پر ایک عید بھی میکہ میں نہ کر سکی تھی۔ وجوہات بہت سی تھیں جن میں سر فہرست سسر کی بیماری ،ساس کا نہ ہونا اور میاں کی اسلام آباد میں ملازمت تھی ۔
بچوں کے پروگرام کنفرم ہونے سے پہلے ہی عقیلہ بیگم نے عید کی تیاریاں شروع کردی تھیں ۔
گھر کو پینٹ کروایا نیا فرنیچر ڈلوایا ،کھانے کی میز کی تین چار کرسیوں کا اضافہ کیا ،آٹا دال چاول مصالحہ جات سے لے کر بیکری کے آئٹمز تک ہر چیز کے بندوبست اور کمروں میں سب کے قیام کے لیے ضروریات کا جائزہ لیا۔ بقر عید پر عیدی کی بجائے گوشت کھایا کھلایا جاتا ہے پھر بھی بنک سے عیدی دینے کے لیے نئے نوٹوں کی خاصی تگڑی رقم نکلوائی،دو کل وقتی اور ایک جز وقتی کام والی کا بندوبست کیا۔ان کو اپنی اولاد کے اکٹھے ہونے کی خوشی تو تھی ہی، بچے بھی بہت پر جوش تھے کہ سالوں بعد سب ایک ساتھ ہوں گے۔ سب بہو بیٹیوں کے لیے اچھے برینڈ کےلباس پہلے ہی خرید چکی تھیں۔
بہاولپور والی روحینہ اور بچوں کی آمد کے ساتھ ہی عید والا گھر لگنے لگا۔ پھر باقی لوگوں کی آمد کا بھی سلسلہ آگے بڑھا اور عید سے سات آٹھ دن قبل وہ اپنے ساتھ سب اہلِ خانہ کو مغرب کے وقت جمع دیکھ رہی تھیں۔
بیٹے بہوئیں داماد سب خوش تھے ۔عقیلہ خانم بظاہرچاق وچوبند نظر آرہی تھیں۔ بار بار سب پر نظر ڈالتیں اور بھیگی پلکوں کو صاف کرتیں۔پورا لاؤنج بچوں ، بڑوں کی چہکار سے گونج رہا تھا، سب ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے بھاگتے دوڑتے ایام کی داستان سنا رہے تھے ۔ ایک دوسرے کو تحائف دیے جارہے تھے۔پاکستان کے حالیہ قیام کے دوران خریداری کہاں کہاں سے کی جائے،سیرو تفریح کب اور کہاں ہونی چاہیے ،عزیز و اقارب سے کب ملنے جانا ہوگا یہ سب پروگرام بن رہے تھے ،سیاست پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی کہ عقیلہ بیگم نے مداخلت کی۔
’’میری زندگی اب ’چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں ‘کے مصداق ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے تم لوگ جتنے دن رہو میری آنکھوں کے سامنے رہو ، تمہارے وقت کی سب سے زیادہ حقدار میں ہوں یا تم لوگوں کے عزیز رشتے دار جن سے جڑے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خدا جانے میری زندگی میں اس کے بعد یوں مل بیٹھنا ممکن ہو گا بھی یا نہیں یہی سوچ کر میں نے عید کی شام سارے رشتے داروں کو گھر میں ہی کھانے پر بلا لیا ہے تاکہ تمہاری سب سے ملاقات ہوجائے ۔ اور اس سے پہلے یعنی عید سے ایک رات قبل ہم گھرمیں اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ بار بی کیو کے لیے ویسے تو عید کی رات بہتر ہوتی ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ چاروں طرف گوشت ہی گوشت دیکھ کر دل اوبھ جاتا ہے اس لیے عید سے قبل بار بی کیو بہتر رہے گا۔ اوپر چھت پر چولھے انگیٹھیاں اور متعلقہ سامان منگوا لیا ہے چکن بیس کلو ان شاءاللہ پہنچ جائے گا ،کام والیوں میں سے ایک ادھر ہی رہے گی دوسری دن میں چند گھنٹوں کے لیے گھر جائے گی پھر آجائے گی ۔اس کے بعد بھی میں یہ چاہتی ہوں کہ تم جو بھی مصروفیت رکھو بس میرے پاس ہی رہو، یہ دو دن زیادہ مصروفیت کے ہیں اس کے بعد روٹین فرق ہو جائے گی ‘‘انہوں نے کھانے کی میز پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’واہ امی آپ تو ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ سخت اور زیادہ وقت کی پابند نہیں ہو گئی ہیں ؟‘‘ شاہینہ نے سوال کیا۔
عقیلہ خانم مسکرائیں ’’ٹھیک کہتی ہو جتنا وقت کم ہوگا اتنا ہی زیادہ محتاط اور ذمہ دار ہونا پڑے گا‘‘۔
جاتے جاتے وہ مڑیں’’ اور ہاں! مجھے ساری رات جاگ کر عید کے روز سارا دن سوئے رہنا قطعی پسند نہیں ‘‘۔ کمرے سے جاتے ہوئے بھی وہ اعلامیہ جاری کرنا نہ بھولیں۔
ان کے جانے کے بعد باقی سب بھی اٹھ گئے۔ اگلا دن سوتے جاگتے ، سفر کی تھکن اتارتے گزرا۔شام کی چائے میں خوب اہتمام کیا گیا تھا ۔پردیسی بچے حیران ہو ہو کر پکوڑوں کے متعلق پوچھ رہے تھے یہ کیا ہے اور کیسے کھایا جاتا ہے ،سموسے جلیبیاں دیکھ کر تو آنکھیں کھول کھول کر حیرت کا اظہار کر رہے تھے
چائے کے بعد لمبی گپ شپ کا وقت شروع ہؤا چاہتا تھا۔ پھر وہی ابا مرحوم کی باتیں….بچپن کی گلی میں گھس کر تو بندہ ویسے ہی ناسٹلجیا کا مریض بن جاتا ہے ۔وہی درختوں پر چڑھنا،ماسک لگا کر ڈرانا، کنچے کھیلنا، پتنگ بازی ….وہی قصے کہانیاں …. ابا ،تایا، نانی نانا کی یادوں کے سلسلےاور بہتے آنسو! عقیلہ خانم بس رات دس گیارہ بجے تک ساتھ دیتیں پھر سونے کے لیے کمرے میں چلی جاتیں۔
عید کی رات بکرے گلی میں موجود تھے ۔گائے کا بھی بندوبست کیا گیا تھا لیکن وہ گلی میں نہیں لائی گئی تھی۔مغرب کے وقت سب حسبِ ہدایت جمع تھے مگر ماں اپنےکمرے میں نہیں تھیں ۔باہر گلی محلے کے قربانی کے جانوروں کی باں باں سے سارا محلہ گونج رہاتھا۔گھر میں آئے پردیسیو ں کے لیے یہ آوازیں بہت بڑا خزانہ تھیں جنہیں قربانی ہونے کا ٹوکن اسلامک سینٹر سے ملتا اور بس۔
خیر، ماں کو کمرے میں نہ پا کر سوچا واش روم میں نہ ہوں،اس خیال سے سب واش روم کا دروازہ کھلنے کے منتظر رہے ۔ دس پندرہ منٹ کے بعد تشویش سے دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔
اندر کوئی نہیں تھا ۔
’’امی کہاں ہیں ؟‘‘ ہر ایک، دوسرے سے پوچھ رہا تھا۔
امی کو کمروں میں ڈھونڈا گیامگر امی موجود ہوتیں تو ملتیں۔ فون پر رابطے کی کوشش بھی بیکار گئی کہ موبائل فون کمرے میں بج رہا تھا۔ گھنٹہ ایک تو اسی میں گزر گیا کہ شاید اڑوس پڑوس میں ہوں ۔باہر عید کی گہما گہمی ،گائے بکرے یہاں تک کے دوسری گلی میں قربانی کے اونٹ کی آوازیں اور من چلوں کی موٹر سائیکلوں کی ون ویلنگ….مگر یہاں ماں پیاری ماں کی گمشدگی سے گھر والوں کے دل میں سناٹے اترے ہوئے تھے ۔دس سے گیارہ اور گیارہ سے بارہ بج گئے۔
’’بھیا کیا کیا جائے؟‘‘ بڑے بیٹے نے اپنے بہنوئی سے پوچھا ۔
’’ایف آئی آر درج کروائیں یا ….‘‘سب نے ایک دوسرے سے نظریں چرائیں۔
رات مکمل طور پر بھیگ چکی تھی،کون سی عید کہاں کا بار بی کیو، بیٹیاں رو رو کر سراپا دعا بنی تھیں کہ کسی انجان نمبر سے کال آئی ۔
’’جی فرمائیے ‘‘شاہینہ نے بے تابی سے کال پر یس کیا۔آگے عقیلہ بیگم کی آواز تھی۔
’’بیٹے میں اس وقت سرکلر روڈ پر موجود ہوں گاڑی کو مسئلہ درپیش ہے اور کوئی ورکشاپ کھلی نہیں ہے ۔مشہود سے کہو اس نے جو گاڑی دو ہفتوں کے لیے رینٹ پر لی ہے وہی لے کر آجائے‘‘۔
دونوں بیٹے گاڑی لے کر پہنچے ،گاڑی کا نقص ان کی سمجھ میں آگیا تھا۔ دس منٹ میں وہ ماں کے ساتھ واپس بھی آچکے تھے۔وہ بہت مطمئن نظر آ رہی تھیں۔ گھر والوں نے اپنی پریشانی کے متعلق بتایا تو بچوں کے سے بھولپن سے بولیں۔
’’اچھا….مجھے تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا،اصل میں عین وقت پر قصائی کی طرف سے معذرت آگئی کہ وہ بار بی کیو کے لیے گوشت گھر میں نہیں پہنچا سکتا اس کے ہاں فوتگی ہو گئی ہےتو میں گوشت خود لینے کے لیے گئی تھی۔ اسی وقت کام والی نے جانے کے لیے اجازت طلب کی میں نے سرسری سا پوچھا ،تم لوگوں نے عید کے کپڑے بنوا لیے ہیں ؟ وہ بولی بیگم جی ،ہم لوگوں کے گرمیوں سردیوں کے کپڑے الگ الگ نہیں ہوتے ،سردیوں میں انہی کپڑوں پر سویٹر جرسی پہن لیتے ہیں ،اسی لیے ہمارے ٹرنک پیٹیاں یا الماریاں نہیں ہوتیں، تن کے کپڑے سارا سال ساتھ نبھاتے ہیں جی ،میرے دل کو یہ سن کر دھچکا سا لگا میں نے اسے ساتھ لیا اور جس سائز کے کپڑوں کی ضرورت تھی اس کو خرید کر دیے۔ بچوں کے کپڑے دیکھ کر اس کے چہرے کی چمک کودیکھو تو تم لوگ چاند ستاروں کی چمک کو بھی بھول جاؤ ،کپڑوں کی خریداری میں رش کی وجہ سے خاصا وقت لگا۔ اسے اس کے گھر چھوڑنے گئی تو بچے کی آواز آئی ،اماں گنڈے وی مک گئے نیں تے دال وی ختم ہے،سوچو عید کی رات ہم بار بی کیو میں لگے رہیں اور ہمارے ملازمین دال سے بھی محروم،میں نے سوچا بار بی کیو سے زیادہ لذت تو ان کو کھلانے سے ہوگی ۔چکن کا بیس کلو کا تھیلا بیس حصوں میں کیا اور ان بیس جھگیوں میں تقسیم کیا ۔اس کے بعد میں فوری قصائی کے ہاں گئی۔ وہ میرا دیرینہ واقف ہے، اسے کہا کل عید کے دن کلو کلو کے پیکٹ بنا کر سارا گوشت اس بستی کے گھروں میں دے دینا ۔پھراپنی نگرانی میں گوشت پکانے کے لیے درکار لوازمات گھی لہسن پیاز تقسیم کرتے ہوئے خیال آیا بچوں کو سو سو روپے عیدی بھی دے دوں ، پرس پاس ہی تھا ،وہ دیے اور جب واپس آئی تو گاڑی کو مسئلہ ہوگیا ۔
’’یہ دس منٹ جو خراب گاڑی میں بیٹھی تو میری ہچکیاں بند نہیں ہو رہی تھیں۔ کبھی میں بچوں کی گلنار شکلیں سوچتی جو سو روپے لے کرخوشی سے جھوم رہے تھے ا ور کبھی ان ماؤں کی جنہوں نے عیدی میں نئے سوٹ ،گوشت پکانے کے مصالحہ جات اور مرغی کا گوشت لے کر جھولی پھیلا پھیلا کر میرے لیے دعا کرنا ‘‘۔
لمحے بھر کے لیے چپ رہنے کے بعد بولیں ۔
’’ایک جھگی سے عورت جب گوشت لینے آئی تو بچہ ہاتھ لگا لگا کر بوٹی کو چیک کر رہا تھا ،اماں اصلی ہے ناں گوشت ؟ اماں اج خود گوشت پکاسیں ناں(آج گوشت خود ہی پکائو گی )‘‘
اس کے چہرے کی بے یقینی سوچ کر اب بھی عقیلہ خانم انسو پونچھ رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں۔
’’عید میں ہمارے لیے نئے کپڑے جوتے بے معنی ہیں….یہ ہمارے دل کی خوشی نہیں….جن کے دل کی خوشی ان چیزوں سے ہے انہیں خوش کرنا ہی عید ہے ۔بار بی کیو کیا ہے ؟ مل کر ہاؤ ہو کرنا،وہ بھی کر لیتے ہیں…. میں نے قصاب سے کہا ہے وہ لے آتا ہے گوشت‘‘انہوں نے اولاد کے چہروں پر پریشانی دیکھ کر کہا ۔
ان کے خیال میں شاید اولا کی پریشانی کی وجہ باربی کیو منسوخ ہونا تھا
’’رہنے دیں اماں ….چھوڑیں پرے، دل نہیں چاہتا‘‘بچوں نے کہا ۔
’’ساری زندگی ہر ویک اینڈ پر وہاں بار بی کیو ہی کرتے آئے ہیں‘‘بیٹے نے کہا ۔
’’میری چندا میرے دل کی خوشی تم سب کو اکٹھا دیکھنے میں ہے اور اب مجھے پتہ چلا کہ اللہ کو واقعی خون اور گوشت نہیں پہنچتا، وہ تو حقداروں کو جب پہنچتا ہے تو اجر دیتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک دنیاوی لذت چند لمحوں کی اور روحانی لذت ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے‘‘۔
دائمی لذتوں کا نیا نیا ذائقہ چکھ کر عقیلہ بیگم نے جواب دیا تو سب ان کی طرف دیکھ کر دنگ ہو کر دیکھ رہے تھے۔ بچوں کی سی معصومیت لیےممتا کا شاید ہی اس سے زیادہ روپ کسی پر آیا!
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x