ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میری مارگریٹ – بتول جون ۲۰۲۳

خاندان کی چند مشہور و معروف ’’فلمی سٹائل‘‘ شادیوں میں ہماری شادی خانہ آبادی سر فہرست ہے ۔ ہماری ساس امی کا بچپن ممبئ اور کلکتہ شہر میں گزرا۔تمام عمر ان شہروں کے رسم و رواج کا سحران کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ شادی کے موقع پر ان کی ہدایات کے عین مطابق باجے گاجے اور ڈھول تاشے کے ساتھ شادی منعقد ہوئی ۔ ایک وجہ اور تھی اس قدر ہنگامہ آرائی کی وہ یہ کہ ہماری ساس امی کی اولادوں میں آخری اور ہماری اماں جان کی آدھی درجن کی ٹیم میں پہلی بار کسی کے ہاتھ پیلے ہونے جا رہے تھے۔دادی ، نانی، پھپو، خالہ، مامی،چاچی سب نے اپنے ارمان ہماری شادی میں بھرپور طور پر نکالے۔
کئ روز جاری رہنے والی تقریبات میں مہندی کا فنکشن بھی بےحد منفرد انداز میں منعقد کیا گیا۔لڈی، ڈانڈیاں، ڈسکو ، سب نے اپنے اپنے انداز سے محفل میں رنگ بھرے ۔
اس محفل میں ہمارے سسرال کی جانب سے ایک چھوٹی سی لڑکی نے سب کو ششدر کر کے رکھ دیا ۔سنہرے اور لال رنگ کے گھاگھرا چولی پر گھٹنوں تک لمبے لہراتے بال ،گہری سانولی سلونی رنگت پر گہرا میک اپ کیے وہ سب سے الگ ہی دکھ رہی تھی۔سب لڑکیاں تھک ہار کر ادھر ادھر سستانے بیٹھتی جا رہی تھیں پر اس کے بدن میں تو جیسے بجلی بھری تھی ۔ اس دبلی پتلی سی لڑکی نے دونوں جانب کی لڑکیوں کو مات دے دی ۔رخصت ہو کر سسرال پہنچے تو علم ہؤا کہ وہ ہماری ساس امی کی خاندانی ملازمہ پروین کی بیٹی’’مارگریٹ ‘‘ ہے ۔
یہ تھا مارگریٹ سے ہماری پہچان کا پہلا روز…کچھ ہی عرصے میں اندازہ ہو&ٔا کہ وہ لڑکی ہماری بری میں شامل سوغاتوں کے ساتھ نتھی ہو کر ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے ۔
تیرہ چودہ سالہ دھان پان سی مارگریٹ کا تعلق مسیحی برادری سے تھا ۔ وہ صبح سے شام تک ہمارے گھر میں رہتی .جھاڑ پونجھ سے لے کر کپڑے دھونے تک کا سارا کام اسی کے ذمہ تھا ۔ اس کی ماں عرصہ دراز سے میرے سسرال میں ملازم تھی۔مارگریٹ ذرا سیانی ہوئی تو تمام کام اس کے سپرد کرکے پروین نے کسی دوسرے گھر کی راہ لی ۔ مارگریٹ کا ابا نشے کا عادی اور پرلے درجے کا نکھٹو انسان تھا ۔آئے روز نشے کی حالت میں بیوی بچوں کو بری طرح پیٹ ڈالتا . وہ روتی پیٹتی میری ساس امی کے پاس پہنچ جاتی ۔میری ساس انتہائی نرم دل خاتون تھیں ،غربت و افلاس کے مارے اس خاندان کی ہر ممکن مدد کرتیں ۔
مارگریٹ اپنے چار عدد بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی ۔ ہوش سنبھالتے ہی ماں کی انگلی پکڑ کر گھرں کے کام کرنے نکل پڑی تھی۔
یوں تو وہ گھر کے سبھی کام دوڑ دوڑ کر کرتی تھی پر میرے کمرے کی صفائی اس کا سب سے پسندیدہ کام تھا ۔میرے سنگھار میز کی ڈسٹنگ پر تو کچھ خاص نظر کرم تھا۔ ہر دوسرے دن میک اپ کے سامان کی ترتیب بدل کر رکھ دیتی ۔ گھر کے کام ادھورے پڑے رہ جاتے اور وہ سنگھار میز کی رنگ برنگی غازہ پاؤڈر کی ڈبیوں کو چمکانے میں کھو جاتی ۔
اس زمانے میں کراچی میں پانی کی شدید قلت تھی ۔وقت پر پانی آتا اور ٹینکی بھرتے ہی پانی کا والو فوراً بند کر نا پڑتا تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ایک روز امی جان کو عمرے سے آئی اپنی سہیلی کو مبارکباد دینے جانا تھا۔میری طبیعت ٹھیک نہ تھی اس لیے دوائی کھا کر سوئی ہوئی تھی ۔ امی جان مارگریٹ کو پانی کی ٹینکی کا والو وقت پر بند کرنے کی تاکید کر کے اپنی سہیلی کی طرف چلی گئیں۔مارگریٹ روزانہ کی طرح میرے سنگھار میز کی ڈسٹنگ میں منہمک ہو گئی ۔پانی آیا اور ٹینکی سے بھر بھر کر نیچے گرا اور کمرے کی قالین پوری طرح بھیگ گئی۔
امی جان جب گھر لوٹیں اور کمرے میں پھیلا پانی دیکھا تو غصے

سے اتنی زور سے چلائیں کہ مارگریٹ کے ہاتھوں سے میری افشاں والی ڈبیا نیچے جا گری ۔سنگھار میز سے اچھلتی تمام افشاں میری قالین پرجا کر چپک گئی ۔بس اس روز مارگریٹ کی بہت بری شامت آئی ۔ صبح سے رات تک اس نے رگڑ رگڑ کر تمام افشاں صاف کی ۔ساتھ میں امی جان کی گھرکیاں بھی کھائیں۔
قالین کو نکلوا کر ڈرائی کلین کےلیے بجھوایا گیا ۔میرے سنگھار میز کی صفائی کا اس کا یہ آخری روز تھا. اس کے بعد امی جان نے مارگریٹ پر سنگھار میز کے قریب جانے پر بھی مکمل پابندی لگا دی۔
شادی کے وقت میں نے انٹر میڈیٹ کے پرچے دیے تھے اور رزلٹ کا انتظار تھا ۔ سسرال والوں کو رخصتی کی جلدی تھی ۔میری خواہش مزید پڑھنے کی تھی ۔ساس نے شادی کے بعد پرائیویٹ طور پر پڑھانے کے وعدے پر رخصتی لے لی۔میں نے شادی کے بعد بی اے کیا ۔
مارگر یٹ بچپن سے ہی تعلیم سے محروم تھی پر اسے پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا ۔جب وہ مجھے پڑھتا ہوا دیکھتی تو بہت حسرت سے کتابوں کو دیکھتی ۔اس کا شوق دیکھ کر میں اس کےلیے نرسری کی کتابیں لے آئی ۔ اب ہمارا معمول بن گیا کہ دوپہر کے فارغ اوقات میں ہم دونوں کتابیں کاپیاں نکال کر پڑھنے بیٹھ جاتیں۔
میں نے ایک سال کے اندر مارگریٹ کو پہلی جماعت تک کا تمام سلیبس مکمل کروایا ۔بعد میں اس نے تیسری جماعت تک کا سلیبس بھی مکمل کر لیا ۔اس نے بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی ۔اسے لکھنا پڑھنا آگیا تو اس کے پیر خوشی سے زمین پر نہ ٹک رہے تھے ۔ہم نے گھر میں چھوٹی سی پارٹی رکھی ۔ مارگریٹ کی ماں اور اس کے بہن بھائیوں کو بھی بلایا ۔ امی جان اور میں نے مارگریٹ کو تحائف دیے ۔اس روز مارگریٹ کی خوشی دیدنی تھی ۔میرا دل بھی مسرور تھا ایک فرد کو خواندہ کرنے کا شرف حاصل ہؤا ۔
دن اسی طرح گزرتے گئے ۔مارگریٹ کو اب مستقل میرے گھر کے کام کرتے کئی سال بیت گئے ۔
جوں جوں وہ بڑی ہوتی جارہی تھی اپنی گہری سانولی رنگت سے بہت خائف ہوتی جارہی تھی۔ دراصل اس کی چھوٹی بہنوں کےلیے خاندان سے رشتے آنا شروع ہو گئے تھے اسے یہ لگتا تھا کہ اس کی وجہ ان کی صاف رنگت ہے۔ لاکھ بار اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور ہر انسان اپنے طور پر اللہ کی خوبصورت تخلیق ہے۔ پر اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی ۔
ایک دن اس کی ماں صبح سویرے روتی ہوئی آئی کہ باجی مارگریٹ کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے اس کا چہرہ سوج کر کپا ہو گیا ہے اور وہ تکلیف کے مارے چلا رہی ہے ۔میں اور امی جان دونوں بے حد پریشان ہوئے ۔مارگریٹ ہمیں گھر کے فرد کی طرح عزیز تھی ۔ہم نے جلدی سے گھر کو تالا لگایا اور رکشہ کروا کر اس کے گھر پہنچے ۔
مارگریٹ بری طرح کراہ رہی تھی ۔اس کا چہرہ کسی چیز سے جھلس چکا تھا ۔ہم اسے ایمرجنسی میں قریبی اسپتال لے کر پہنچے ۔ڈاکٹروں نے فوری طور پر اسے درد اور ایلرجی کےانجکشن لگائےاوراسے سکون کی گولی دے کر سلا دیا گیا۔
کئ گھنٹوں بعد اس کی وہ اٹھی تو تکلیف اور سوجن کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی ۔ڈاکٹروں کی پڑتال پر اس نے بتایا کہ اس کی کسی سہیلی نے اسے رنگ گورا کرنے کےلیے چار کریموں کا مرکب بنا کر دیا تھا ۔ بس وہی لیپ لگا کر وہ سو ئی تھی ۔اور صبح اس کی یہ حالت ہوئی۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس طرح کےکئی کیس ان کے پاس آچکے ہیں اوریہ کریمیں بہت سخت اسٹیرائڈز کا مرکب ہیں اور جِلدی کینسر تک کا سبب ہیں۔
یہ سب سن کر مارگریٹ نے آئندہ ایسی کوشش کرنے سے توبہ کی۔ اور کہنے لگی ’’اللہ نے جو رنگ روپ دیا وہی سب سے قیمتی ہے ‘‘۔
آخر کار مارگریٹ کی زندگی میں بھی وہ خوشیوں بھرا دن آگیا ۔ جس کا اسے بے حد بے صبری سے انتظار تھا ۔اس کی پھو پھی نےاپنے بیٹے مائیکل کےلیے اس کا رشتہ مانگ لیا۔مارگریٹ بے حد خوش تھی مائیکل اس کی آرزو کے عین مطابق میٹرک پاس لڑکا تھا ۔اور کسی اسکول میں آفس بوائے کے طور پر ملازم بھی تھا ۔
شادی کی تاریخ طے ہوئی ۔تیاریاں شروع ہو ئیں۔مارگریٹ

نے اپنی شادی کےلیے دو تین کمیٹیاں ڈال رکھی تھیں۔اسے کیتھولک دلہنوں کی طرح وائٹ گاؤن پہننے کا بے حد شوق تھا پر گاؤن کی قیمت ان کی پہنچ سے کوسوں دورتھی۔ عین شادی سے چند روز قبل مارگریٹ کے نشئ باپ نے اس کے کمیٹی کے پیسے چرا لیے اور کہیں رفو چکر ہو گیا ۔ان کے گھر کہرام مچ گیا ۔برسوں سے خون پسینے کی کمائی سے پائی پائی جوڑ کر کمیٹیاں بھری تھیں۔آن کی آن میں گھر کا بھیدی تمام رقم لے اڑا ۔
ہم سب حیران تھے کہ نشہ کی لت انسان کو کس قدر خود غرض بنا دیتی ہے ۔بیٹی کے شادی کے جوڑے کے پیسے بھی نشے کی بھینٹ چڑھا دیے ۔
مارگریٹ کے باپ کو بہت ڈھونڈا گیا پر اس کا کوئی سراغ نہ لگا۔ہمیں یقین تھا کہ رقم ختم ہونے سے پہلے وہ اپنی شکل نہ دکھائے گا آخر کار دیگر اخراجات کے ساتھ مارگریٹ کی شادی کا جوڑا بھی میری ساس نے اپنی جانب سے تحفتاًلے کر دے دیا۔شادی کا سفید چمچماتا آرگینزا کا گاؤن دیکھ کر مارگریٹ آبدیدہ ہو گئی ۔وہ امی جان کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ امی نے اسے چپ کروایا اور پیار سے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ’’ہمیشہ اس گھر کو اپنی ماں کا گھر سمجھ کر آنا ‘‘۔
احسان مندی سے اس کی نظریں جھک گئیں۔
اللہ کے فضل سے اس کی شادی بہ حسن و خوبی بہترین طریقے سے انجام پائی ۔مارگریٹ کو اس کی زندگی کی سچی خوشیاں مل گئیں۔
مارگریٹ نے شادی کے بعد کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے شوہر کی آمدنی کافی معقول تھی گزر اوقات اچھے سے ہوجاتا ۔برسوں بیت گئے وہ اکثر و بیشتر بے حد محبت و عقیدت سے ملنے آتی رہتی ہے ۔امی جان تو اب اس دنیامیں نہیں رہیں ۔پر میں مارگریٹ کو امی کی خواہش کے عین مطابق اپنی چھوٹی بہن کی طرح رخصت کرتی ہوں۔ اس نے اپنی ادھوری تعلیم کا شوق بچوں کی زندگی میں علم کی شمع جلا کر پورا کیا۔اسکول کی فیس اس نے ایک ایک پیسہ جوڑ کر خود ادا کی پر ان کا سلیبس دلوانے کا ذمہ میں نے اول روز سے ضد کر کے اٹھایا جو آج بھی میں فرض سمجھ کر پورا کر رہی ہوں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x