ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

درد وِچھوڑے دا – رضیہ سلطانہ

’’دیکھو نی میں سیراں (سائرہ ) بن گئی‘‘ گڈو خسرے نے جھوم جھوم کر تالیاں بجائیں اور ہنستی اور سب کو ہنساتی ہوئی چلی گئی۔
ہر سال ہمارے گاؤں میں جب گندم کی کٹائی ہوتی گاؤں کے غریب لوگ جنہیں کمی کہا جاتا اور بہت سے خواجہ سرا آتے ، جس جس گھر میں لڑکا پیدا ہوتا وہ وہاں خوب گانے بجانے کرتے، ودھائیاں (مبارکبادیں ) دیتے ،انہیں بدلے میں مٹھائیاں، کپڑے ، ڈھیر ساری گندم اور پیسے دے کر رخصت کیا جاتا ، اور وہ دعائیں دیتے چلے جاتے ۔
باقی لوگ تو ایک ہی دن میں چلے جاتے لیکن خواجہ سراہفتہ بھر ہمارے گاؤں میں ہماری مویشیوں والی حویلی کی ایک طرف بنے ہوئے خالی کمروں میں رہتے ، انہی میں ایک خواجہ سرا گڈو بھی تھا، گڈو ہر روز شام کو ہمارے گھروں میں آجاتا اس لیے اس کی میری پھپھو اور کچھ اور رشتہ دار خواتین سے دوستی ہو گئی . ہمارا گھر بہت بڑا تھا جس میں ہمارے دادا دادی ، پھپھو ، تایا کی فیملی اور ہماری فیملی سب اکٹھے رہتے تھے ، باورچی خانے سب کے الگ الگ تھے لیکن ایک ہی بہت بڑا صحن ہوتا تھا وہاں بہت رونق ہوتی تھی ۔
تقریباً ہر شام گڈو آتی اور ہمارے ساتھ کافی وقت گزارتی ، ایک دن اس نے میری پھوپھو سے کہا ’’ آپا سیراں (سائرہ ) ذرا مجھے اپنے کپڑے تو دے دو تاکہ میں انہیں پہن کر اپنے کپڑے دھو لوں پھر واپس کر دوں گی‘‘۔
میری پھپھو کا قد لمبا تھا اس لیے گڈو کو ان کے کپڑے پورے آگئے ، کپڑے پہن کر گڈو بہت خوش ہوئی اور جھوم جھوم کر بولی ’’دیکھو نی میں سیراں ( میری پھپھو کا نام سائرہ تھا) بن گئی ‘‘۔
اس کے یوں کپڑے مانگنے پر سب حیران تھے کہ اس کے پاس ایک بھی جوڑا اور نہیں کہ وہ تبدیل کر لیتی تو اس نے بتایا کہ’’ باجی گُرو ہم سے سب پیسے لے لیتا ہے اور کپڑے بھی نہیں بنا کر دیتا، ہم مانگے تانگے کے کپڑے پہنتے ہیں ‘‘میں اس وقت چھوٹی سی بچی تھی لیکن اس کی بات سن کر بہت دکھ محسوس ہؤا۔
ایک دن میں اور پھپھو گھر میں اکیلی تھیں کہ گڈو آ گئی۔ اس دن پھپھو نے اس سے پوچھا کہ’’گڈو تمہارے والدین، بہن بھائی کہاں ہیں ؟ ہمیں اپنے یہاں تک پہنچنے کی کہانی تو سناؤ ؟ ‘‘
گڈو بولی ’’آپا جب میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دنیا میں نہیں تھے، ہم دو بھائی تھے، میرا بڑا بھائی شادی شدہ اور بچوں والا تھا وہ میرا بہت خیال رکھتا، ہم دونوں میں بہت محبت تھی کہ ایک دن خواجہ سراؤں کے گُرو کو کسی نے مخبری کر دی کہ ان کے گھر ایک خواجہ سرا ہے‘‘ یہ کہہ کر گُڈو نے زاروقطار رونا شروع کر دیا ۔
پھر بولی ’’ ایک دن ہم دونوں بھائی کھیتوں کو پانی لگا رہے تھے کہ کچھ لوگ آئے اور میرے بھائی کو ایک طرف لے جا کر کچھ باتیں کرتے رہے اور پھر چلے گئے، جب بھائی آیا تو میں نے پوچھا کہ بھائی یہ کون لوگ تھے ؟ تو بھائی بولا یہ تمہیں لینے آئے تھے اور اب دوبارہ آئیں گے اور لے جائیں گے‘‘۔
گڈو بولی ’’میں سمجھ گئی تھی، پھر ہم دونوں بھائی گلے مل کر بہت روئے ‘‘۔
پھپھو نے پوچھا ’’ گڈو تمہارے بھائی نے تمہیں ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار نہیں کیا ؟‘‘
تو وہ بولی ’’ آپا بالکل کیا تھا لیکن انہوں نے دھمکی دی کہ اگر تم نے اسے ہمیں نہ دیا تو ہم اسے گولی مار دیں گے تو میری زندگی کی خاطر میرا بھائی مجھ سے بچھڑنے کے لیے مان گیا ‘‘۔
اتنا بتا کر گڈو پھر دکھ کے مارے رونے لگی ۔آنسو صاف کر کے اس نے کہا ’’ آپا میرے بھائی نے ان سے تھوڑا وقت لیا اور میرے لیے نئے کپڑے اور سونے کی بالیاں بنوائیں اور بہت سی اور چیزیں دے کر مجھے بھیج دیا‘‘۔
پھپھو نے پوچھا ’’ گڈو تم اپنے بھائی بھتیجوں سے ملنے نہیں جاتی؟‘ ‘ تو وہ بولی’’جاتی ہوں ، دو تین دن رہ کر آتی ہوں جب آنے کا وقت ہوتا ہے تو میرا بھائی بہت روتا ہے اور کہتا ہے کسی طرح وہاں سے نکل کر آ جا، تو میں کہتی ہوں گُرو نہیں آنے دیتا وہ مجھے مار دے گا، پھر ہم دونوں بھائی روتے ہوئے بچھڑ جاتے ہیں ‘‘۔
میں کیونکہ چھوٹی تھی اور پھپھو کے پاس بیٹھی ان کی اور گڈو کی باتیں سنتی رہتی ،جب وہ ہمارے ساتھ باتیں کرتی تو زنانہ آواز ہوتی اور جب اپنے بھائی کی بات بتاتی تو آواز مردانہ ہو جاتی۔ اب مجھے اس دکھی خواجہ سرا کی کہانی دوبارہ سے اس لیے یاد آئی کہ حکومت نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ٹرانس جینڈر ایکٹ بل پاس کیا لیکن شرعی عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا کیونکہ یہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں اصل میں ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کے تحفظ کی شقوں پر مشتمل تھا ، کاش ہماری حکومتیں حقیقی خواجہ سر اؤں کے حقوق کے لیے قوانین بنائیں اور یہ قانون بھی پاس ہونا چاہیے کہ جس خواجہ سراکو اس کے والدین اور بہن بھائی اپنے ساتھ رکھنا چاہیں اس کو کوئی گُرو یا اس کے چیلے زبردستی نہ لے جا سکیں تا کہ پھر کسی گڈو کو اپنے گھر والوں کی یاد میں تڑپ تڑپ کر نہ رونا پڑے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x