ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

یہاں کیا رکھا ہے! – شہلا اسلام

اپنے کمرے میں آ کر میں نے وقت دیکھا ۔پاکستان میں اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہوں گے ،ماما جاگی ہوئی ہوں گی میرے فون کے انتظار میں۔۔۔ ایک ٹھنڈی سانس بے اختیار میرے منہ سے نکلی، موڈ کو خوشگوار کیا ،سارے دن کی بے کلی اور کوفت کو ایک طرف رکھ کر میں نے کال ملائی ۔
وہ انتظار ہی میں تھیں ۔سلام دعا کے بعد جو پہلی خبر انہوں نےمجھے سنائی وہ حمزہ کی تھی۔ اس کا بھی باہر جانے کا ہو گیا ہے، اماں نے سادے سے انداز میں اپنی طرف سے خوشی کی خبرمجھے سنائی ۔ میری کافی عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی ۔جب میں کال کرتا تھا وہ عموماً گھر پر نہیں ہوتا تھا۔ من موجی لڑکا تھا پڑھائی میں اچھا تھا اور اب ڈاکٹر بن چکا تھا، ہاؤس جاب مکمل ہونے والی تھی اس لیے گھر والوں کی طرف سے اس کی روٹین کے حوالے سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
میں نے ان کے حسب توقع خوشی کے چند جملے بولے اور فون بند کردیا۔
یہ کال مجھے آج سے چار سال پیچھے لے گئی۔ ایک انجنئیرنگ یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے گریجویٹ ہونے کے بعد میرے بھی یہی خیالات تھے ۔پاکستان شاید ایک سزا تھا ،کوئی مستقبل نہیں ۔باہر والے لوگ جس جنت میں رہتے تھے دور سے وہ اور بھی سہانی معلوم ہوتی تھی ۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعد مجھے ایک موبائل کمپنی میں جاب مل گئی، نہ بہت اچھی اور نا ہی بری۔۔۔ جاب مناسب تھی لیکن میں جس نازونعم میں پلا تھا اس کے لیے شائد ناکافی تھی۔ میرے بچپن کے چند خوابوں میں سےایک خواب جو میری ماں نے مجھے تھمایا تھا ان میں ایک اعلیٰ تعلیم کے بعد باہر سیٹ ہونا بھی تھا ۔ میں نے باہر کے لئیے کوششیں شروع کر دیں۔ بہترین تعلیمی ریکارڈ کیوجہ سے مجھے باہر کی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ویزا مل گیا ۔
مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے بہت وقت کے بعد میں نے اپنے گھر میں خوشی کا کوئی موقع دیکھا تھا۔ بابا کے انتقال کو دو سال ہوگئے تھے۔ ماما مرجھا کر رہ گئی تھیں۔ بیٹے کو باہر کا ویزا ملنے پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ ہائے میری معصوم ماں…! بیٹےکی جدائی پر اس کا سنہرا مستقبل غالب تھا ۔ پھر وہ دن بھی آیا جب میں نے لندن برج کے پاس اپنی کھینچی ہوئی تصویر کو”الحمداللہ” کے کیپشن کے ساتھ فیس بک پر پوسٹ کیا ۔مبارک سلامت کا وہ شور آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔
” تو صحیح رہا جانی ” کسی دوست نے حسرت بھرے انداز میں مبارک باد دی ہوئی تھی۔
” آجا یار تو بھی” میں نے ایسے آفر کی جیسے ویزا میں نے لگا کر دینا ہے۔
” ہاں یار کوشش تو ہے ورنہ یہاں کیا رکھا ہے”اس کا جواب تھا۔
دو سال کا پڑھائی کا پیریڈ گزارتے ہوئے میں نےایک پارٹ ٹائم جاب کر لی۔ کچھ خرچہ ماما پاکستان سے بھیجتی تھیں۔ اسی دوران ایک سانحہ ہوا اور جیسے اس نے میری سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔ میرے چاچو کا اچانک انتقال ہو گیا۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ میں ان کے بہت قریب تھاہمیشہ سے، جیسے ایک خاص تعلق تھا ان کے ساتھ۔۔۔ مگرمیں کوشش کر کےبھی وہاں سے پاکستان نہیں آ سکتا تھا۔جن کی گود میں میں نے اپنا بچپن گزارا آج ان کی میت کو کاندھا بھی نہیں دے سکا۔
غم کے اس وقت میں مجھے پہلی بار ان نعمتوں کا اندازہ ہوا جن سے میں اس وقت دور تھا۔۔۔ میں دکھ اور فرسٹریشن کے اس وقت میں
اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹنا چا ہتا تھا ،رونا چاہتا تھا ،اپنے بھائی کے گلے لگ کر لپٹ کر رونا چاہتا تھا ،اپنے چاچو کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہتا تھا، انہیں بتانا چاہتا تھا کہ تم اکیلے نہیں ہو۔۔۔ پر ستم ظریفی یہ تھی کہ میں خود اکیلا تھا ۔۔۔ مجھے آج احساس ہوا یہاں جاب ملنے کے بعد جب میری زندگی سیٹ ہو جائیگی تو بھی میں کیا کروں گا ،میرے پاس پیسہ ہو بھی تو کیا پیسہ ان دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے جو اپنوں کے سہارے کم کیے جا سکتے ہیں؟
میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ، مجھے آج اس کا اندازہ ہوا۔ حالات کو وہاں رہ کر بھی بدلا جا سکتا تھا لیکن ان لوگوں کو کہاں سےلاؤں گا جو ہماری زندگی ہوا کرتے تھے !
زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگی، پر اس گزرے وقت نے میرے دل میں ایک گرہ سی ڈال دی۔ جب اماں کومیرے ان خیالات کا علم ہوا تو انہوں نے میری جھاڑ پونچھ شروع کی ،پیسے کی اہمیت بتائی، زندگی میں پیسے والوں کی قدروقیمت بتائی ۔۔۔ میں متفق تھا یا نہیں بہرحال پاکستان واپسی کا خیال دل سے نکال دیا۔
پڑھائی ختم ہونے کے بعد میں نے جاب تلاش کرنا شروع کی ۔مجھے اندازہ ہوا کہ جاب کہیں بھی آپ کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملے گی۔ میرے اخراجات یہاں کافی محدود تھے ۔ظاہر ہے جو ایک چھوٹی موٹی جاب میں یہاں کرتا تھا مجھے اس جاب سے ایک لگی بندھی رقم اپنی ماں کو بھی بھیجنی ہوتی تھی ۔
آج موسم اچھا تھا اور میری چھٹی تھی۔ میں کچھ ضروری شاپنگ کے بعد ایک پارک میں سستانے کےلئے بیٹھ گیا اور اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کیا ہوگا، لاکھ کوشش کے باوجود مجھے کوئی بہتر جاب نہیں مل سکی تھی۔پاکستان میں ہوتا تو ان حالات میں یہ کہنا سب سے آسان تھا کہ “یہاں کیا رکھا ہے ۔۔۔۔ ٹیلنٹ کی کوئی قدر ہی نہیں۔۔۔ ‘‘۔
ان ہی سوچوں میں گم میں نے بے چینی سے پہلو بدلا اور میرا ہاتھ برابر بیٹھے شخص سے ٹکرایا۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا ۔وہ بھی مجھے دیکھنے لگے ۔کوئی ساٹھ سے اوپر کے ایک پاکستانی ہی تھے۔ میں نے شرمندگی سے معذرت کی۔
” مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ آپ میرے برابر میں بیٹھے ہوئے ہیں” میں نے معذرت خواہانہ انداز اپنایا۔
” کوئی بات نہیں چلتا ہے ۔۔۔ ” انہوں نے مسکرا کر مجھے دیکھتے ہوئے معذرت قبول کی ” کیا کرتے ہو ! ۔۔۔ اسٹوڈنٹ ہو؟”
انہوں نے بات آگے بڑھائی۔
” جی ۔۔۔ ” میں نے مختصراً کہا
جواباً جاندار مسکراہٹ سے انہوں نے مجھے دیکھا۔
” اچھے مستقبل کے لیے آئے ہوگے …. یہیں سیٹل ہونے کا ارادہ ہوگا ” انہوں نے ٹٹولتی نظروں سے مجھے دیکھا۔میں نے چونک کر انہیں دیکھا اور سر جھکا لیا۔
” میں تو نہیں چاہتا سیٹل ہونا لیکن میری والدہ کا خیال ہے کہ اچھے مستقبل کے لیے مجھے یہاں سیٹ ہو جانا چاہئے”میں نے
بات کے آخر میں سر اٹھا کر انہیں دوبارہ دیکھا ۔دیکھنے میں وہ ایک اچھے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان لگ رہے تھے۔ ان سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں لگ رہاتھا۔
” اچھا مستقبل۔۔۔” وہ بات کےبیچ میں ہنسے ” کیا ہے تمہارے خیال میں ایک اچھا مستقبل؟‘‘
میں گڑبڑا گیا “اچھے معاشی حالات ۔۔۔ روزگار کے بہتر مواقع۔۔۔ اچھا سسٹم ۔۔۔ فیملی کا محفوظ مستقبل ۔۔۔ صحت کی بہترین سہولتیں ۔۔۔ بہترین تعلیمی نظام۔۔۔” مجھے سمجھ نہیں آیا میں انہیں کیا بتاؤں ۔ ان میں سے ہر لفظ جیسے میرا منہ چڑا رہا تھا۔
” ہممم بہت اچھے۔۔۔ ” انہوں نے دو بارہ مجھے دیکھا۔
’’تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ تم کسی اچھی فیملی کے فرد ہو”۔
میں کھل کر مسکرایا “جی‘‘۔
’’بہتر ہی ہوں گے تمہارے معاشی حالات۔۔۔‘‘
“جی۔۔۔ اپر مڈل کلاس کہہ سکتے ہیں آپ ” میں نے جواب دیا۔
” اور یہاں… یہاں کیا حالات ہیں؟” انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
یہ سوال انتہائی غیر متوقع تھا ۔میں گڑبڑا گیا”جی۔۔۔؟”
’’میرا مطلب ہے کتنے بڑے گھر میں رہتے تھے وہاں پر ؟” انہوں نے سوال کی نوعیت بدلی۔
” اچھا بڑا تھا ۔۔۔ تین کمرے ۔۔۔ لاؤنج”… میں نے جواب دیا۔
” اور یہاں…. ” انہوں نے پوچھا۔
“یہاں کیا ہونا ہے سر ۔۔۔اسٹوڈنٹ ہوں کیسا گھر ہوگا۔ ایک کمرا ہے اس میں واش روم بھی ساتھ نہیں لیا میں نے ” میں نے بے دلی سے بتایا۔
انہوں نے سر ہلایا جیسے انہیں پتا تھا ۔
” ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔ یہاں درختوں پر پیسے نہیں لگے ہوتے۔ یہاں بھی ویسی ہی محنت کرنا پڑتی ہے۔۔۔ بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ جتنی ہم پاکستان میں کرتے ہیں۔۔۔ پر یہاں صبر شکر کرتے ہیں۔ جن صحت کی سہولیات کا تم ذکر کررہے ہو ان میں اکثریت پاکستانیوں کی پاکستان سے ہی دوائیاں لاتی ہے ۔۔۔ کتنوں کو میں نے دیکھا ہے کہ اپنی بیماری یا سرجری کے لیے پاکستان جاتے ہیں اور وہاں کرواتے ہیں‘‘۔
میں پھیکی سی ہنسی ہنسا۔ انہوں نے چٹکیوں میں میرا باہر رہنے کا فلسفہ اڑا دیا ۔
” پھر بھی سر ۔۔۔باہر قوانین ہیں، رہنے کی بہتر سہولیات ہیں بہتر مستقبل ہے ” میں نے کمزور دفاع کیا اور ساتھ ہی دل ہی دل میں سوچا خود بھی تو یہیں رہتے ہیں۔
وہ مسکرائے ” سب کچھ ایک ساتھ نہیں ملتا۔ پاکستان میں بہت کچھ ہے تو خرابیاں بھی ہیں لیکن اگر ان خرابیوں کا ادراک کرنے والے،پرابلم کو سمجھنے والے ہی ملک سے باہر چلے جائیں گے تو انہیں صحیح کون کرے گا؟ اس ملک کا ایک مقصد تھا،اس مقصد کے حصول کی جدوجہد ہم سب پر لازم ہے ورنہ کسی کے لیے بھی کچھ بھی نہیں بچے گا ” وہ سنجیدہ ہوئے۔
” سر آپ یہاں کب سے رہتے ہیں؟ ” پوچھنا تو میں یہ چاہتا تھا کہ آپ خود بھی یہیں رہتے ہیں اس لیے یہ باتیں آپ پر جچتی نہیں، پر لحاظ آڑے آگیا۔
وہ ایک پھیکی سے مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے” تیس پینتیس سال ہو گئے مجھے کینیڈا گئے ہوئے ۔۔۔وہاں لیکچر دیتا تھا میں ۔۔۔
اب پاکستان رہتا ہوں ۔۔۔بہتر مستقبل کے لیے میں بھی پاکستان سے یہاں آیا تھا۔ پھر فیملی بھی لے آیا اور اب مجھے لگتا ہے میں نے اپنی زندگی کا بدترین فیصلہ کیا تھا۔ میرے دونوں بچوں میں سے کوئی بھی ہائی اسکول سے آگے نہیں بڑھا کیوں کہ وہ آزاد
ہیں اس لیے ان پر روک ٹوک بھی نہیں کی جا سکتی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ پاکستان جا کر انہیں وہاں ایڈجسٹ کر سکوں ،ایسا بھی نہیں ہو سکا ،میرے بچے میرے ہی مخالف ہو گئے ۔میری بیوی بھی وہاں جاب کرتی ہے ۔ان کا اب میرے بغیر گزارا ہے پر
مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ میں کیسے ان کے بغیر گزارہ کروں ۔۔۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے اچھا تھا معاشی لحاظ سے بھی تعلیمی لحاظ سے بھی۔۔۔ وہ سارے وہاں پاکستان میں رہ گئے کیوں کہ انہیں موقع نہیں ملا اور شاید یہی ان کی قسمت سنوارنے کا موقع بن گیا۔ انہوں نے روکھی سوکھی کھائی پر ان کے بچے پڑھ گئے ۔کوئی ڈاکٹر بن رہا ہے کوئی انجنیئر کوئی لیکچرر۔۔۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہاں رکھا کیا ہے”۔
یہ کہتے ہوئے وہ ہنسے پر ان کی آنکھوں کی نمی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
” اب آپ یہاں رہتے ہیں؟ ” میں نے بات آگے بڑھائی۔
“نہیں یہاں تو کچھ میٹنگز ہیں۔ میں تو پاکستان ہی شفٹ ہو گیا ہوں۔ وہاں میری ماں ہے بہن بھائی ہیں۔ میں چاہتا ہوں میرے بچے بھی واپس آجائیں پر میں جانتا ہوں وہ ابھی نہیں آئیں گے ۔ابھی انہیں پلٹ کر آنے میں وقت لگے گا ۔لیکن میں انتظار کروں گا اور
اس وقت تک کفارہ ادا کروں گا ” انہوں نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرائے ۔
” کیسا کفارہ؟ ” میں متجسس ہوا۔
“وطن کے ساتھ بے وفائی کا۔۔۔ جب میں کچھ نہیں تھا تو مجھے اس نے بنایا۔۔۔ جب میں پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو گیا تو میں اس کو
اس کے حال پر چھوڑ کر اپنے مستقبل کو بنانے چلا گیا ،یہ جانے بغیر کہ ہم لازم و ملزوم ہیں، ہم دونوں کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے ۔۔۔ اب میں واپس آگیا ہوں ۔اس تیس سال کے عرصے میں میں نے اسے پیسے تو بھیجے لیکن اپنی خدمات
نہیں دیں ۔اب میں اس کی خدمت کروں گا جیسے اپنی ماں کی کرتا ہوں ۔۔۔ مجھے پتا ہے بہت مشکلات ہیں سسٹم خراب ہے لیکن نیت اچھی ہے۔ اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے اور اسی کی بنا پر لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے‘‘۔
مجھے لگا جیسے یہ میرے لیے بھی ایک اشارہ تھا ۔۔۔اللہ کی طرف سے جواب تھا اس بات کاکہ۔۔۔
یہاں کیا رکھا ہے!!!!……

#

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x