ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتو ل میگزین

مضبوط جڑیں
شازیہ نعمان
امی امی! وہ دیکھیں درخت کی جڑوں نے کیسے پہاڑ کے ایک حصے کو باندھ کر رکھا ہؤاہے اور جو حصہ پہاڑ کے ساتھ نہیں تھا وہ گر گیا ہے‘‘۔
عافیہ نے اپنی امی سے کہا جو اپنی فیملی کے ساتھ سوات کی سیر کررہی تھی۔ہاں بیٹا! جو جڑیں مضبوط ہوں اور ان کے ساتھ جڑ کر رہا جائے وہ جڑیں مضبوط حصار فراہم کرتی ہیں ۔
جیسے ہم بہن بھائی امی بابا، دادا دادی کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور دادا دادی ہمیں اچھی اچھی باتیں اور اپنے تجربے بتاتے ہیں۔
بالکل صحیح سمجھی میری بیٹی ۔
صائمہ کی یہ کوشش رہتی کہ کھیل وتفریح میں بھی اپنے بچوں کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔
یہی وجہ تھی کہ بچے بھی ہر موقع پر اچھے اچھے سوالات کرتے نصیحتیں سنتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا ۔دیکھتے ہی دیکھتے عافیہ شادی کی عمر کو پہنچ گئی ۔
عافیہ اپنے گھر کی ہوگئی ۔عافیہ کی ساس تیز مزاج اور اس کا شوہر غصہ کا تیز تھا ۔عافیہ نے کبھی گرم مزاجی کا سامنا نہیں کیا تھا ۔اس کے امی بابا ٹھنڈے مزاج کے حامل جبکہ ساس اور شوہر بالکل متضاد ۔
شروع میں تو اس نے اپنی امی سے ذکر نہ کیا لیکن جب رویوں نے زیادہ تکلیف دی تو اس نے مجبورا ًاپنی امی کو حالات سے آگاہ کیا کہ کس طرح اس کی ہر بات ہر کام میں اس کی ساس نکتہ چینی کرتی ہیں۔ اس کی امی کو بہت تکلیف ہوئی انہوں نے عافیہ کو سمجھایا کہ’’ بیٹا! اچھے لوگوں کے ساتھ تو سب اچھے رہتے ہیں لیکن برے مزاج کے لوگوں کے ساتھ گزارا کرنا بہترین کام ہے۔ تم نماز اور صبر سے مدد مانگو اپنا اخلاق اور عمل ان کے ساتھ اچھا رکھو بدلے میں وہ بھی اچھا برتائو کریں کبھی یہ خواہش نہ کرو اپنے اچھے عمل کا صلہ صرف اللہ سے چاہو‘‘۔
’’عافیہ کبھی نیم کے پتے کھائے ہیں؟ کسقدر کڑوے ہوتے ہیں لیکن اس کے فوائد بہت زیادہ ہوتے ہیں اس کی چھاؤں بہت ٹھنڈی ہوتی ہے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، بس برے رویوں کی کڑواہٹ کو برداشت کرو دل غمگین ہونے لگے تو نماز اور صبر سے مدد لو کبھی ساس کی برائی شوہر سے نہ کروشوہر کی جنت خراب نہیں کرو۔
عافیہ تمہیں یاد ہے کہ سوات کے سفر میں درخت کی جڑوں نے کیسے پہاڑ کو باندھ کر رکھا تھا بس جڑوں سے جڑی رہو یہ مضبوط حصار ہیں‘‘۔
عافیہ نے اپنی امی کی نصیحتیں گرہ میں باندھ لیں کہ اب عمل بھی تو اس کے مطابق کرنا ہوگا ۔
٭٭٭
کاپی پیسٹ
بنت سحر
جس طرح فون میں کاپی پیسٹ کی سہولت ہوتی ہے اسی طرح کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ زندگی میں بھی کاپی پیسٹ کا آپشن ہوتا۔ کیونکہ یہ بار بار اور بہت ساری جگہوں پر استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی ایسا سسٹم لانچ کیا جانا چاہیے کہ بہت سارے سوالات کے جوابات سوچنے کی زحمت کیے بغیر محض کاپی پیسٹ کر کے دیے جا سکیں۔
جیسا کہ:
’میرٹ کیوں نہیں بنا؟‘
’جاب کیوں نہیں کی؟‘
’آپ کی اس بیٹی کا رنگ کیوں دبتا ہؤا ہے‘
’باقی بہن بھائیوں سے تمہارا قد کیوں چھوٹا ہے‘
’چہرے پر دانے کیوں نکلے‘
’وزن کیوں بڑھا/ کم ہوا ‘
’شادی کیوں نہیں ہوئی‘
’شادی کب ہو گی‘
’بچے کیوں نہیں ہیں؟‘
’آپ کے چہرے پہ چھائیاں کیوں ہیں‘
’آپ کی بیٹی/ بیٹے کی شادی شدہ زندگی ایسی اور ویسی کیوں ہے‘۔
ان سب سوالات کے مخاطب لوگوں سے مجھے ہمدردی ہے۔ وہ تمام ماں باپ جن سے ان کے بچوں کے بارے میں اس قسم کے مشکل میں ڈالنے والے سوالات کیے جاتے ہیں۔ وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن پر ہر ملاقات میں میرٹ ، جاب اور شادی کے بارے میں سوالات کی بمباری کی جاتی ہے۔ پورا پورا گھرانہ سنبھالنے والی وہ مشقت پسند ادھیڑ عمر خواتین جن سے ان کے چہروں کی چھائیوں اور جسم و جان کی تھکن پر سوالات کیے جاتے ہیں۔
لہٰذا ان سوالوں کے جوابات کاپی پیسٹ کر کے رکھ لینے چاہئیں۔ کچھ جوابات یوں بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ یہ آیت ۔
’’ولا تجسّسوا‘‘
”تجسس نہ کرو“ ۔ (الحجرات)
اور کچھ اقوال
”کم بولنا حکمت ہے“۔
”اس بات کی کھوج میں نہ پڑو جس میں تمہارا کوئی دینی و دنیاوی فائدہ نہیں“۔
اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ جواب دینے والے کے لیے آسانی ہو جائے گی۔ ہر بار ہمت باندھنے، گہری سانس لینے اور جواب تیار کرنے کی بجائے کاپی پیسٹ شدہ جوابات سامنے والے کو عنایت کر دیے جائیں گے۔
مُنکر نکیر تو بعد از موت آئیں گے۔ دنیا والوں نے ایک حساب کتاب کا دفتر یہاں کھول رکھا ہے۔ اور عجیب یہ ہے کہ یہاں اکثر اوقات ان باتوں کا حساب لیا جاتا ہے جو انسان کے دائرہ اختیار سے ہی باہر ہیں۔ رنگ، قد، نقوش، شادی، بچے اور بہت کچھ۔
خدا ہماری بے مقصد زندگیوں کو بڑے مقاصد عطا فرمائے تاکہ ہمیں ان چھوٹی باتوں میں اُلجھنے کی فرصت نہ ملے۔ آمین
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x