ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نہاں خانہِ دل – میرا حج – قانتہ رابعہ

2011ءمیں ادا کیے ہوئے اس حج کی روداد بتول میں شائع ہوئی ۔اس کا ایک احساس جس کی تکمیل اب ہوئی، نذرِ قارئین کررہی ہوں (ق۔ر)

اللہ نے حج کے لیے جس کا جووقت لکھا ہے بندہ اس سے پہلے کر سکتا ہے نہ بعد میں۔ بنے بنائے پروگرام اچانک ایسے ختم ہوتے ہیں کہ مدت تک ذہن قبول نہیں کرتا اور بسا اوقات بیٹھے بٹھائے ایسے بلاوا آجاتا ہے کہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں آتا۔ اس سال بہت سے قریبی عزیزوں کے علاوہ بھی لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ جو بھی جاتا ہے دعاؤں کی درخواست کی جاتی ہے اور ساتھ ہی چھم سے آنکھوں میں اپنے حج کا سفر آجاتا ہے۔ ایک ایک چیز سامنے آتی ہے اور تڑپ شدید سے شدید تر ہوتی ہے کہ دوبارہ بلاوا کب آئے گا،آنکھوں کی پیاس کب بجھے گی،کب روح کوتسکین ملے گی۔ بھلا پہلا حج بھی کوئی حج ہوتا ہے! وہ تو سراسر سیکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔کچھ کاموں کا پہلے سے علم ہوتا ہے اور کچھ کا تو علم بھی نہیں ہوتا۔
واپس آنے کے بعد مجھے بہت مدت لگی تھی اپنے شہر کے راستوں اور گلی کوچوں سے مانوس ہونے میں…. جہاں سے گزرتی وہی سڑکیں وہی مسافتیں….وہی سفید احرام وہی خانہ کعبہ….وہی بن داؤد اور شرکہ مکہ، کلاک ٹاور کا جناتی کلاک…. چلتے چلتے رک جاتی راستے بھول جاتی، دل میں ایک لہر سی اٹھتی…. یاالٰہی ابھی تو وہاں کی زبان،لب و لہجے سے انسیت ہوئی تھی ،ابھی تو وہاں کے اسرار و رموز کھلنا شروع ہوئے تھے کہ واپسی کا اذن بھی مل گیا؟
جانے سے پہلے مجھے ٹائیفائڈ ہؤا تھا جو اینٹی بائیوٹک ادویات کی دوگنی خوراک کے استعمال کے باوجود ٹھیک نہیں ہوا تھا ۔جوں جوں گیارہ اکتوبر قریب آرہا تھا میرا دل بیٹھنے لگتا۔ ڈاکٹر نے مجھے ایک قدم بھی چلنے سے منع کیا ہے وہاں کیا ہوگا ؟ اوپر سے مرے کو مارے شاہ مدار ! ہم نے حج کے شروع دنوں میں اے کیٹگری کی رقم جمع کروائی اور اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے ۔وہ تو حج کی روانگی کی تاریخ ائی تو چچا زاد بھائی عمران کا فون ایا ،باجی میں بھی حج پر جارہا ہوںآپ کا مکتبہ نمبر کیا ہے۔ میں نے بتایا تو اس نے فون بند کر کے دو ایک منٹ میں دوبارہ کال کی۔
باجی میں نے نیٹ پر دیکھا ہے آپ کی بلڈنگ تو بہت دور ہے حرم سے کم از کم تین کلومیٹر۔
اس نے کال بند کی میرا دل بالکل ہی ڈوب گیا ۔اپنے گناہوں سے پہلے ہی دل سہما ہؤا تھااب گناہگار ہونے کا احساس اتنا شدید ہؤا کہ سفر حج اسی کیفیت میں شروع ہؤا کہ اگر گناہگار نہ ہوتی تو بلڈنگ اتنی دور نہ ملتی ۔سب لوگ جنہوں نے بعد میں کاغذات جمع کروائے وہ ہم سے قریب رہائش گاہ کے حقدار اور ہمیں حاجی کیمپ میں رقم واپس کر کے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ دی کہ چونکہ کچھ وجوہات کی بنا پر آپ کی رہائش دور ہے تو یہ رقم بصد احترام واپس کی جاتی ہے !
ہونہہ! آئے وڈے….!
خیر شکوے بھرے دل کے ساتھ سارے مراحل طے ہوئے۔ عمرہ کے لیے جاتے ہوئے جس دروازے سے داخل ہوئے وہ نسبتا ًغیر معروف تھا کہ رش زیادہ نہ تھا اور تعمیراتی کام کی وجہ سے کافی رکاوٹیں تھیں۔ ہمیں جس نے بھی گائیڈ کیا یہی بتایا کہ باب فہد آپ کی بلڈنگ سے نسبتاً قریب ہے اور راستہ بھی آسان ہے لیکن مقامی لوگوں کے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں نے اتنی گھمن گھیریاں کھلائیں کہ حرم میں داخل ہونے کے لیے جو دروازہ ملا وہ اینٹوں ،بجری اور تعمیراتی سامان سے اٹا پڑا ۔
اونچے نیچے کچے پکے راستوں پر چلتے دروازہ سے داخل ہوئے تو اوپر بابِ فتح لکھا تھا۔ایک اور حسرت باب فہد سے داخل نہ ہونے کی ساتھ لیےاندر داخل ہوئے ۔عمرہ بھی ادا کیااور شکوے کا گراف مزید اوپر چلا گیا۔مطلب گناہگار ہوں تو یہ سزا ضروری ہے، ورنہ درگزرمعافی تلافی سے کام چل جاتا۔میرے ابا جی مرحوم نے اپنی کتاب میں اللہ کے لیے ’’بڑی سرکار‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے تو مجھے بھی یہ درست لگا ۔ظاہر ہے وڈی سرکار دیاں اچیاں شاناں!
اس کے بعد جب بھی تین کلومیٹر پیدل چل کے حرم میں پہنچتی تو طواف کی ہمت ختم ہو چکی ہوتی، بس شوق کے بل بوتے پر ایک طواف ہی ہوپاتا اور میری جو سہیلیاں بتایا کرتی تھیں ہم نےاج تین طواف کیےپانچ کیے چھے کیے، ان کے لیے جذبات رشک سے زیادہ رقابت کے ہو گئے تھے۔ دل میں پھانس سی چبھ گئی ۔رقم شروع میں جمع کروائی، پیسے اے کیٹگری کے دیے اور بڑی سرکار نے رہائش دی جہانوں ملکوں باہر!وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی پوچھا جاتا جَروَل جانا ہے ( جر کے بعد وَل جیسے کس بل )،تو کانوں کو ہاتھ لگاتے اور عربی میں تلاوت شروع کر دیتے جس کا صاف مطلب ہوتا کہ :
او بی بی اتنی دور اللہ میاں کے پچھواڑے!
مزے کی بات یہ تھی کہ ٹیکسی پر جاتے کارڈ اسے دیتے تو دس جگہ پر رک کر معلوم کرتا کہ یہ ہوٹل ہے کہاں ہم تو نہیں جانتے۔
ہوٹل تو نہیں تھا کبوتروں کے کابک جتنے کمرے استقبالیہ کی جگہ پر ایک چھوٹی سی میز اور دو بندوں کی جگہ تھی باقی گھومنے پھرنے کے لیے پورا مکہ پڑا تھا!
خیر دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ سے کہا کہ بی بی قانتہ! جس نے اتنی دور پھینکا ہے اس سے ڈیل کر لو، طواف سے دوگنا جانے کا فاصلہ اور اتنا ہی انے کا تو بس ہر قدم طواف سمجھ کر اٹھائو ۔اسے گنتی سے کیا لینا دینا ، اپنی کتاب میں بار بار وہ احسن عمل کی طلب کرتا ہے تعداد کی نہیں ۔ اس کے بعد دل کی کیفیت راضی برضا والی ہوگئی، کچھ سکینت سی بھی محسوس ہوئی۔ اس کے اثرات حد درجہ دل خوش کن تھے، مطلب معجزے سے ہونے لگے، جو منہ سے نکالتی پورا ہوجاتا جن کا تذکرہ اپنے سفر نامہ حج ’’زہے مقدر‘‘ میں موجود ہے۔
پہلی تسلی تب ہوئی جب ایک عالمہ نے وہاں پوچھا’’آپ پہلے عمرہ کے لیے حرم میں داخل ہوئیں تو کس دروازے سے داخل ہوئی تھیں ؟‘‘
’’باب فتح سے ‘‘ میں نے بتایا تو انہوں نے بے اختیار مجھے گلے لگایا۔
’’یا سلام !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حج کے لیے اسی دروازے سے داخل ہوئے تھے‘‘۔
میرے جسم کاایک ایک رونگٹا کھڑا ہوگیا۔
اچھا تو جسے سزا سمجھ رہی تھی یہ اوپر والی سرکار کا کرم تھا! میں دیر تک روتی رہی، اس کے بعد شکوے سارے دھل گئے۔ بس کبھی سال میں ایک ادھ مرتبہ دل میں سوال کسک پیدا کرتا تھااور کانٹے کی طرح چبھتا تھا ،رہائش اتنی دور کیوں تھی؟ طواف بھی بس دن میں دو سے زیادہ نہیں کر سکی! اس میں کیا حکمت تھی ؟ہر قدم پر گناہ بخشوانے کے نبوی قول کو ماننے کے باوجود مجھ بیمار کو لاچار بھی کرتا رہا۔
آج مورخہ انیس جون 2023ء مجھے جناب خلیل الرحمٰن چشتی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفر حج کی پی ڈی ایف ’’آنکھوں دیکھا حال‘‘ کے عنوان سے بھیجی تو میں نے یہ پڑھا کہ تین ذوالحج بروز ہفتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی طویٰ جو محلہ جَروَل کے نام سے مشہور ہے میں پہنچے، تب سےمیرا دل پگھل کر پانی کا سمندر بن چکا ہے اورآنکھیں اشکوں سے لبریز سجدہ کی حالت میں جھکی ہوئی ہیں۔
مجھ گناہگارپر اتنا کرم !جہاں مقامی بھی نہیں گئے میرا رب مجھے وہاں بھی لے کے گیا ۔کیا پتہ میرے قدموں….میرے حقیر قدموں نے اس جگہ کو چوماہو جہاں سے آقائے نامدار گزرے تھے۔ آخر پچیس دن وہاں گھومی ہوں ،آخری دن تو میں نے وہاں کے سارے گلی محلے اکیلی نے چھان مارے تھے کہ ورکشاپ میں کام کرنے والے نے باہر آکر مجھے اکیلی کو ایسے گھومتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
’’مخ مافی ….مخ مافی ‘‘۔
دل میں تو میں نے کہا تھا تم ہوگے، لیکن اب مجھے رشک ہے کہ میرے قدموں نے شاید اس جگہ کو چوم لیا ہو جہاں محبوب خدا اتوار کے دن تک قیام پذیر رہے۔
میرا رب عظیم تر ہے!صلو علیہ و آلہ ،سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔٭
٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x