ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آذربائجان کی سیر – ماہ جبین

’’اس بار چھٹیوں میں جا رہی ہیں پاکستان؟‘‘سہیلی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے عادتاً پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘مزید استفسار ۔
’’آذربائجان جائیں گے‘‘۔
’’ہائیں‘‘حیرت کا شدید جھٹکا تھا جو انہیں لگا ’’لو بھلا یہ کون سی جگہ ہے…گھومنے کولوگ دبئی جاتے ہیں ترکی جاتے ہیں‘‘۔
ہم شرمندہ سے ہو گئے ۔دل میں پہلے ہی چور تھا لہٰذا شام کو میاں کے آتے ہی ان پر چڑھائی کر دی۔
’’بھلا آپ کو آذربائجان کی کیا سوجھی؟ آج تک کسی سے نہیں سنا کہ کوئی گھومنے گیا ہو۔ بندہ ایسی جگہ تو جائے کہ بتاتے ہوئے کچھ فخر محسوس ہو‘‘۔
میاں صاحب جو فیس بک کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے جھٹ باہر نکل آئے اور منہ اونچا کر کے ہمیں یوں گھورنے لگے گویا ہم نے دنیا کی کوئی احمق ترین بات کر دی ہو۔ دوسرے ہی لمحے ہمارے سامنے مختلف یوٹیوبرز کی ویڈیوز تھیں، گوگل پر آذربائجان ٹور گائڈز کی ویب سائٹ، لوگوں کے ریویوز ،تصویریں وغیرہ وغیرہ۔ بچے پہلے ہی ہر چیز سرچ کر کے رکھ چکے تھے ۔آذربائجان کا نقشہ، مشہور مقامات، اہم چیزیں ۔یوں بھی وسط ایشیا کے مسلم ممالک خصوصاً روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی سیر یقینا ًایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوگا۔ ہمیں بھی کچھ اطمینان محسوس ہؤا۔
ہمارے پاس دو آپشن تھے ۔یا تو ہم پاکستان سے آذربائجان لے جانے والے ٹور گائڈ کے گروپ کے ساتھ ہو لیں یا پھر خود ہی تمام سیاحت کی جائے۔ دوسرے آپشن کو میاں صاحب نے اختیار کیا اور تمام معلومات بذریعہ نیٹ حاصل کرتے رہے۔ ہوٹل کی بکنگ سے لے کر گاڑی رینٹ آؤٹ کرنے تک کے تمام معاملات آن لائن انجام پائے۔ سواری کے لیے فلائی دبئی کا انتخاب ہؤا جو اگرچہ ہمیشہ لیٹ ہونے کا ریکارڈ رکھتی ہے تاہم سب سے کم کرایہ وجہ انتخاب ٹھہری ۔ہفتے کے دن صبح سوا آٹھ بجے کی فلائٹ کے حساب سے گھر سے صبح ساڑھے پانچ بجے ہی نکل گئے۔ ایئرپورٹ قریب ہے لہٰذا پہنچنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔
حسب عادت اور روایت فلائٹ ایک گھنٹہ لیٹ تھی۔ دو سال قبل بحرین ایئرپورٹ کی نئی عمارت کا افتتاع ہؤا ہے جو کہ بڑی خوبصورت بنائی گئی ہے۔عربوں کا وسیع اور کشادہ عمارتوں کا شوق… مال ہو،مسجد ہو یا ایئرپورٹ۔۔ ہر جگہ نظر آتا ہے لیکن ایئرپورٹ کی کشادگی شاہی سواری پر بڑی گراں گزرتی ہے ۔بہرحال بورڈنگ کے مراحل تو رش نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی طے ہو گئے اور بورڈنگ لاؤنج پہنچنے تک کا فاصلہ بھی۔ سات بجے سے پہلے پہلے ہم لاؤنج میں تھے اور ابھی فلائٹ میں دواڑھائی گھنٹے باقی تھے۔ کچھ لیٹے کچھ بیٹھے کچھ ادھر ادھر فون گھماتے وقت گزارا۔ بالآخر چیک ان شروع ہوئی اور دبئی جانے کے لیے جہاز میں آ بیٹھے ۔
فلائی دبئی کے ٹکٹ اگرچہ نسبتاً سستے ہیں لیکن کھانا آپ کو خریدنا پڑتا ہے۔ البتہ باکو جانے کے لیے ٹکٹ کی قیمت میں کھانا بھی شامل تھا۔ صبح بغیر ناشتے کے گھر سے نکلے ہوئے بھوک سے بےحال۔ میاں صاحب تسلی دے رہے تھے کہ ابھی ناشتہ ملنے والا ہے۔ اللہ اللہ کر کے جہاز اڑا۔ اب ناشتے کا انتظار تھا۔ ناشتے کے نام پر ایک ایک سینڈوچ اور پانی کا چھوٹا سا کپ…صبر کا گھونٹ ہمارے پاس تھا قطرہ قطرہ بچوں میں منتقل کیا۔ دبئی ایئرپورٹ پر اترتے ہی سیدھا بورڈنگ لاؤنج میں واقع فوڈ کورٹ کی طرف دوڑ لگائی، فاسٹ فوڈ آرڈر کیا۔ یہاں ہمیشہ میلے کا سماں رہتا ہے چاہے دن کا کوئی حصہ ہو یا سال کا کوئی مہینہ۔چھ مہینے پہلے بھی اسی فلائٹ سے سفر کیا تھا اور پانچ گھنٹے ٹرمینل پر ٹھہرنے کا شرف حاصل کیا لہٰذا چپہ چپہ یاد تھا۔ باتھ روم، ،نماز کے کمرے، دکانیں وغیرہ وغیرہ لہذا فٹافٹ تمام ضروریات سے فارغ ہو گئے۔ باکو جانے والی فلائٹ بھی لیٹ تھی لہٰذا ظہر عصر جمع کیں اور چیک ان کے انتظار میں بیٹھ گئے ۔جلدہی گیٹ کھل گیا اور ہم سب لائن میں چلتے ایئر بس اور پھر جہاز میں سوار ہو گئے۔ یہ نسبتا ًطویل فلائٹ تھی تقریبا ڈھائی پونے تین گھنٹے کی، لہٰذا سب اپنی اپنی سیٹوں پر نیم دراز ہو گئے ۔کھانے کی ٹرالی پر نظر رکھنے کے لیے ہم کبھی کبھی آنکھ کھول کر دیکھ لیتے ۔بالآخر ہوائی میزبان مع ٹرولی نمودار ہوئی۔ اس بار پاستہ تھا مزیدار اور پلیٹ و پیٹ بھر۔
پہاڑوں حسین وادیوں اور بحر کیسپین کی خوبصورت ساحلی پٹی سے جڑا شہر باکو کے ہوائی اڈے کو جب ہمارے جہاز نے چھوا تو شام ہو چکی تھی ۔کرائے پر لی گئی گاڑی ایئرپورٹ پر موجود تھی باہر نکلتے ہی اندازہ ہؤا کہ ابھی تو سورج کی چمک اور تپش میں کافی جان ہے۔ جب کہ ہم مغرب کا اندازہ کرنے کے لیے بے چین تھے۔ ڈرائیور سے جاننے کی کوشش کی تو بمشکل انگریزی زبان سمجھنے والے بھائی کو بھی معلوم نہ تھا کہ مغرب کب ہوتی ہے۔سن سیٹ اور سن رائز کی اصطلاحات بھی کام نہ آئیں۔ بہرحال ایئرپورٹ سے کچھ دور ہی راستے سے سم وغیرہ کی خریداری کے مراحل طے کرتے ہوئے اور گاڑی مکمل طور پر ہمارے حوالے ہوتے ہوئے یعنی اب ڈرائیور میاں صاحب تھے جب ہم ہوٹل پہنچے اور چیک ان کے مراحل طے کر کے متعلقہ کمروں میں آئے تو تقریبا شام کے سات بج چکے تھے لیکن دن روشن تھا اور اندھیرے کا کہیں نام و نشان نہ تھا بڑی حیرت ہوئی کہ آخر مغرب کی نماز کب ہوگی بھلا۔جلدی جلدی گوگل بھائی سے مدد لی تو پتہ چلا کہ غروب آفتاب سوا آٹھ بجے کے قریب ہے جب کہ فجر کی نماز صبح ساڑھے تین بجے ہے یعنی 17 گھنٹے کا دن… ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔
پورے دن کے سفر نے سب کو تھکا دیا تھا لہٰذا جو کچھ دن بھر میں کھایا پیا تھا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ہم سب نے نیند کی وادی میں پناہ لی تاکہ صبح سویرے تازہ دم ہو کر شہر کی سیاحت کی جا سکے۔
اگلے دن کا ہمارا پروگرام باکو شہر کے مشہور مقامات کی سیاحت کا تھا جس میں اولڈ سٹی اور نظامی اسٹریٹ کو سر فہرست رکھا گیا لیکن اس سے بھی پہلے ناشتے کا انتظام تھا۔ لہٰذا فیصلہ ہؤا کہ نظامی اسٹریٹ پر ناشتہ کیا جائے چنانچہ موبائل پر نظامی سٹریٹ کی لوکیشن سیٹ کی گئی جو کہ ہوٹل سے زیادہ دور نہ تھی آذری زبان میں نظامی سے مراد مرکزی یا صدر ہے یعنی شہر کا مرکز۔ یہاں آپ کو گاڑی دور ہی کہیں پارک کر کے پیدل چلنا ہوتا ہے جو کہ خوشگوار چہل قدمی ہے۔ تقریباً تمام گلیاں اور راستے خوبصورت پھول پودوں اور درختوں سے سجے ہوئے ہیں ۔ایک بڑے سے دائرے میں نصب فوارہ اور سڑک کے دونوں طرف مخصوص انداز میں بنائی گئی دکانیں اور ریسٹورنٹ اور رہائشی عمارتیں۔ یہاں مقامی لوگ صرف اپنی دکانوں میں ہی نظر آتے تھے ،باقی سب چلت پھرت کرنے والے مختلف ممالک سے آنے والے سیاح تھے۔ ٹریفک کے ہنگاموں سے بے نیاز نظامی اسٹریٹ بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے سورج کی روشنی میں نہایت پرسکون اور پر لطف محسوس ہو رہی تھی۔ باکو شہر کی عمارتوں کا انداز یورپی طرز کا ہے دکانیں ہوں ،ہوٹل ہوں یا رہائشی عمارتیں گھر بھی لکڑی کے بنائے جاتے ہیں ۔
ان تجزیوں اور مشاہدوں کے ساتھ ساتھ ہی ہماری نظریں ایسے مقام کی تلاش میں تھیں جہاں پیٹ پوجا کا انتظام کیا جا سکے۔ خوش قسمتی سے چلتے چلتے ایک ایسی گلی میں مڑے کہ جہاں قطار سے ریسٹورنٹ بنے ہوئے تھے اور لوگ اپنی اپنی پسند کے ناشتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم بھی پرائس لسٹ بمشکل تمام چیک کرتے رہے کیونکہ آذری زبان کا اندازہ کرنا پڑتا تھا کہ فلاں لفظ کا مطلب فلاں ہو سکتا ہے کہیں کہیں انگریزی بھی لکھی ہوتی جس سے کام آسان ہو جاتا ۔
خیر دیکھتے دکھاتے ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اندر اور باہر دونوں جگہ کھانے کا انتظام تھا۔ طے ہؤا کہ قدرتی ماحول میں باہر بیٹھ کر ہی ناشتے اور موسم سے لطف اندوز ہؤا جائے۔ خوبصورت پھولوں سے لدے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر ناشتہ آرڈر کیا ۔مینیو دیکھتے ہوئے بچے نشاندہی کرتے جاتے کہ’’یہ انگلش میں لکھا ہے یہاں دیکھیں‘‘۔ بہرحال انڈوں کی دو تین اقسام کو منتخب کرتے ہوئے جب سینڈوچز پر آئے تو شبہ ہوا کہ معلوم کر لیں کہ حلال ہی ہوگا سب کچھ ۔۔۔میاں صاحب نے ریسٹورنٹ والے بھائی سے معلوم کیا تو فخر سے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولے کہ’’ ہم مسلمان اور سب کچھ حلال ہے آپ فکر نہ کریں‘‘ ہمیں ناشتے سے زیادہ چائے کی طلب تھی کیونکہ کل سے آج تک ہمیں چائے نہ ملی تھی لہٰذا میاں صاحب پر چائے کے لیے زور دیا۔ مینیو بک میں مختلف قسم کی چائے ڈھونڈی تو چائے کے نام پر قہوے ہی نظر آئے۔ مرتے کیا نہ کرتے خواب و خیال سے چائے میں سے دودھ کو کھرچ کھرچ کر باہر نکال دیا اور راضی باآذری ہو گئے۔
لیکن ابھی ایک دشواری اور تھی کہ ایک چائے ہی دس منات یعنی آذری روپے کے برابر تھی جو کہ بہت زیادہ قیمت ہے لیکن ہماری چائے کی شدید طلب نے آرڈر دینے پر مجبور کر دیا ۔جلدہی یہ غم خوشی میں تبدیل ہو گیا جب وہ ایک خوبصورت شیشے کی کیتلی بھر کر چائے رکھ کر گیا کہ یہ ایک چائے ہے، یعنی پوری کیتلی ایک چائے کہلاتی ہے اور یہ چیز ہمیں پورے ٹرپ میں سب سے زیادہ پسند آئی کہ آپ کہیں بھی چائے پینے بیٹھیں وہ پوری کیتلی آپ کے حوالے کر کے رخصت ہو جائیں گے ،اب جتنے کپ آپ کو پینے ہیں آرام سے پیتے رہیں۔بہرحال ناشتہ بہت مزیدار تھا ۔ایک اور اہم چیز یہاں کی جام ہے جو ناشتے میں خود بخود شامل ہے۔ یعنی اگر آپ نے قہوہ آرڈر کیا ہے تو تازہ رس بھری کی جام کے ساتھ آپ کو پیش کیا جائے گا جو کہ چھوٹی چھوٹی کانچ کی کٹوریوں میں رکھی ہوتی ہے۔ سب نے ناشتے سے بھرپور انصاف کیا اور ایک نئے عزم کے ساتھ پرانا شہر یعنی اولڈ سٹی دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے ۔
یہاں پہنچے تو گاڑی کو کچھ دور لے جا کر پار ک کر دینا پڑا کیونکہ تنگ گلیوں اور اونچے نیچے راستوں سے گزرنے کا جگرا تو صرف شاہی سواری یعنی دو ٹانگوں میں ہی ہوتا ہے۔ پتھر کی عمارتیں جن میں زمانہ قبل مسیح کی کچھ یادگاریں، قبریں، نقش و نگار… اولڈ سٹی کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ تمام علاقہ پہاڑ کے اوپر بنائی گئی عمارتوں پر مشتمل ہے کہیں آپ کو نیچے کی طرف سیڑھیاں اتر کر غار نما کمروں میں بھی جانا پڑتا ہے جنہیں دکانوں کی شکل میں سجایا گیا ہے اور کہیں اوپر کی طرف جاتی سیڑھیوں اور پتھر سے بنی سڑک کے دونوں اطراف غار نما دکانیں جن میں آذربائجان کی بنی مصنوعات موجود ہیں جن میں قالین سب سے نمایاں ہیں ہر قسم اور ہر سائز اور ہر طرح کے قالین، شالیں… ہم نے ایک شال جو عموماً عبایہ کے اوپر لی جاتی ہے پسند کی جو اونٹ کے روئیں سے بنی ہوئی تھی۔ زیادہ تر سووینئرز تھے جنہیں سیاح اپنے ساتھ بطور یادگار لے جانے کے لیے خریدتے ہیں۔ اولڈ سٹی کی ایک اور قابل ذکر عمارت چودھویں صدی عیسوی میں سلجوق سلطان محمد تغلق کی تعمیر کردہ کاروان سرائے ہے جو اس زمانے میں ملتان سے آنے والے تاجروں کے لیے بنوائی گئی تھی ۔اگرچہ اس عمارت کو عوام کے لیے کھولا نہیں گیا ہے تاہم اس کی حدود کا تعین کر کے وہاں بورڈز آویزاں کیے گئے ہیں جن پر تفصیلات درج ہیں۔
(باقی آئندہ)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x