ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رخشندہ کوکب ؒ کی تحریروں کے رخشندہ اوصاف – بتول اپریل ۲۰۲۳

محترمہ رخشندہ کوکب اولین مدیرہ’’بتول‘‘26مارچ1959 بمطابق16رمضان المبارک کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ آج ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ان کی تحریروں کے ایک جائزے پر مبنی مریم خنساء مرحومہ کا تحریر کردہ یہ مضمون شائع کر رہے ہیں ۔ دونوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی اصلاحی ادب کی داعی تھیں اور دونوں نے جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کوجنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں لکھے جانے والے اردو ادب پر کئی بیرونی افکار و نظریات کا غلبہ تھا۔ ایک طرف ملحدانہ فکر اور سوشلزم کے رحجانات غالب تھے تو دوسری طرف سفلی اور غیر اخلاقی سوچ نمایاں تھی۔ اس وقت چند با شعور خواتین نے ادب برائے زندگی ، زندگی برائے بندگی کے ادبی نظریے کو پروان چڑھایا۔ اس ہراول دستے میں ایک اہم نام ’’رخشندہ کوکب‘‘ بھی ہےجو پہلے منور سلطانہ اور بعد میں رخشندہ کوکب کے قلمی نام سے لکھتی رہیں۔ انہوں نے متفرق رسائل میں کئی مضامین‘ مراسلے اور افسانے لکھے۔ بعد ازاں اپنا رسالہ عفت ( جو بعد میں ’’بتول‘‘ کے نام سے شائع ہو رہا ہے) جاری کیا جس نے اصلاحی ادبی محاذ کی خواتین کو لکھنے کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کردیا۔
افسوس کہ اس وقت ان کی تمام تحریریں محفوظ نہیں۔ اس دور کے ادبی رسائل کو کھنگالنے سے ممکن ہے کہ وہ یکجا ہو سکیں۔ مگر اس وقت ان کی دستیاب تحریریں صرف وہی ہیں جو ادارہ بتول کی مطبوعہ کتاب ’’ فردوس کی راہ‘‘ حصہ دوم میں شامل ہیں۔
ان تحریروں سے موصوفہ کے ادبی رجحانات اور انداز تحریر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان کی تحریروں کے چند رخشندہ اوصاف یہ ہیں:
-1 فکر اسلامی کی نمو
ان کی تحریروں کا سب سے تابندہ پہلو’’ فکر اسلامی‘‘ کی آبیاری ہے۔ ان کا کوئی بھی افسانہ اٹھا کر دیکھ لیجیے اس مقصد سے خالی نظر نہیں آئے گا۔ افسوس کہ آج ہمارے ادب میں اسلامی فکر کی علم بردارخواتین بھی بعض اوقات بے مقصد تحریریں لکھنے کی طرف مائل نظر آتی ہیں۔ مگر اس محاذ کے ہراول دستے میں شامل تمام خواتین کا طرۂ امتیاز ہے کہ ان کی کوئی تحریر مقصد سے عاری نظر نہیں آتی۔ غالباً محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ سمیت تمام خواتین اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ’’ من حسن الاسلام المرء ترکہ ما لا یعینہ‘‘ ایک انسان کے اچھے اسلام کی پہچان اس کا بے مقصد چیزوں کو چھوڑ دینا ہے۔ ( ترمذی)
-2 مستقل اہمیت کے موضوعات
محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کی تحریروں کا مرکزی نقطہ ’’ پیغمبرانہ مشن یعنی دین کا ابلاغ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے منتخب کردہ موضوع ہمیشہ یکساں اہمیت کے حامل رہنے والے ہیں اور نسل انسانی کو ان کی تاابد ضرورت رہے گی۔
مثلاً ’’پیازی قمیص‘‘ کا مرکزی خیال’’ حرص ‘ کی مذمت اور آخرت کے گھر کی تیاری ہے۔ اسی طرح ’’ انتخاب‘‘ میں رشتوں کے انتخاب میں دولت اور حسن کی بجائے دین کو ترجیح دینے کے فائدے اجاگر کیے گئے ہیں۔ آزادیٔ نسواں کے نام پر عورت کو چادر اور چار دیواری سے باہر نکالنے کی شیطانی تحریک بھی ہمیشہ سے رہی ہے اور موجودہ دور میں تو خوب عروج پر ہے۔ ’’ آزادیٔ نسواں کے بعد‘‘ میں ایسی ہی تحریکوں کی حقیقت کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ ’’ عید کے روز‘‘ میں غریبوں کی تحقیر اور مال و دولت کے بل پر تکبر کا انجام بتایا ہے۔ غرض یہ کہ ان کے تمام موضوعات مستقل اہمیت کے حامل ہیں۔

اختصار نگاری
مختصر اور مؤثر تحریر مفصل اور طویل تحریر کی نسبت کہیں زیادہ دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔ محترمہ رخشند ہ کوکب صاحبہ نے اختصار نگاری ہی کو اپنایا ہے۔ ان کی اکثر تحریریں پانچ سے سات منٹ کے دوران پڑھی جاسکتی ہیں۔ یقیناً اس کے پس منظر میں بھی ان کی یہ مصلحت کارفرما تھی کہ اول طویل تحریر سے گھبرا کر لوگ پڑ ھنے کا خیال ہی نہ تر ک کر دیں دوم طویل تحریر قاری کو اکتاکر اپنا اثر نہ زائل کر دے۔ کہا جاتا ہے کہ اختصار میں حسن ہے اور یہ حسن ان کی تحریروں میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔
تمام طبقات کی نمائندگی: ادیب وہی کامیاب ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے متعلق سوچے۔ جدید افسانوی ادب پررفتہ رفتہ کوٹھی‘ کار‘ مغربی تہذیب اور جدید آسائشوں کے لوازمات تیزی سے قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ حالانکہ اس وقت ہمارے معاشرے کی اکثریت ان سے محروم ہے۔ پرتعیش زندگی کی منظر نگاری قائین کے دلوں میں محرومی کے احساس میں اضافہ کر دیتی ہے۔
دوسری طرف متوسط طبقوں کی نمائندگی کرنے والے ادیبوں کی اکثریت سوشلزم کی علم بردار نظر آتی ہے۔ وہ غربت کی محرومیوں کو اجاگرتو کرتے ہیں مگر ان کاکوئی ٹھوس حل ان کے پاس نظر نہیں آتا۔
محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کا یہ امتیاز ہے کہ ان کے اکثر کردار متوسط طبقے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا اس لحاظ سے انہوں نے اکثریت کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی ہے۔ ان کا ہر افسانہ مسائل کو اسلامی نقطۂ نظر سے سلجھاتا ہؤا نظر آتا ہے۔ ان کے ما ل دار کردار بھی غریبوں کے دکھ درد کاپورا دینی شعور رکھتے ہیں۔ مثلاً ’’جرأ ت ‘‘ کی حمیرا کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے مگر اس کا دل محتاجوں کی ہمدردی سے لبریز ہے۔ اور وہ ان کی مدد کے لیے سراپا ایثار نظر آتی ہے۔
اسی طرح ’’ کوٹھی‘‘ کی خالہ جی کی کوٹھی ماڈل ٹاؤن کی طرف واقع تھی۔ ان کی کوٹھی کی پچھلی طرف غریب مہاجرین کے جھونپڑے تھے۔ وہ اکثر ان کے پاس جایا کرتیں۔ ان کے حالات سن کر ان کی دل جوئی کرتیں۔ حتی الامکان ان کی امداد کرنے میں مصروف رہتیں۔
طالبات کی رہنمائی
سکول اور کالج کی طالبات عمر کے نہایت نازک موڑ پر ہوتی ہیں۔ اس مرحلے پر اگر شاہراہ مستقیم کے نشان مل جائیں تو زندگی سنور جاتی ہے۔ بصورت دیگر تمام عمر بھول بھلیوں میں بھٹکتے گزر جاتی ہے۔ محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کی تحریروں میں زیادہ تر اسی عمر کی لڑکیاں پیش نظر رکھی گئی ہیں۔ ان کے افسانوں کے کئی مرکزی کردار نوجوان لڑکیوں ہی پر مشتمل ہیں۔ جن کے مسائل کو انہوں نے بڑی خوب صورتی سے اسلامی رخ دے دیا ہے۔ اس عمر کی لڑکیوں کی نفسیات کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس عمر میں بظاہر چھوٹی چھوٹی پریشانیاں انتہائی بڑی اور اہمیت کی حامل محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً کسی پسندیدہ لباس کا حصول یا امتحان میں ناکامی کا خوف وغیرہ۔ محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ نے ایسی ہی فکروں کو فکر ِ آخرت کا لبا س پہنادیا ہے۔
مثلاً ’’ پیازی قمیص‘‘ میں ایک لڑکی ایک خوب صورت پیازی قمیض کے حصول کی متمنی ہے جو اس نے اپنی چچی کی بیٹی کے پاس دیکھی ہے مگر اسے خیال آتاہے کہ میرے پاس بہت سی قمیضیں ہیں۔ بڑھیا نہ ہوئیں تو نہ سہی مگر پھر بھی میری حرص پوری ہونے میں نہیں آئی۔ آخر مجھے ایک دن مرنا ہے اور اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور اپنے سارے اخراجات کی تفصیل بتانی ہے۔ ’’پھر … پھر… میں خوف سے لرز اٹھی‘‘۔ ( بتول: جون ۵۹‘ ص ۲۴)
اسی طرح ’’وہ کتاب‘‘ میں مسرت کو امتحان میں ناکامی کا خطر ہ ہے حو بالآخر حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ وہ کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی جواب ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ :
’’جب تک کالج میں تعلیم حاصل نہ کروں گی اس وقت تک میں دنیا میں نمایاں حیثیت سے زندگی بسر نہیں کر سکتی۔ میری دلی خواہش ہے کہ میری زندگی عیش و عشرت کی زندگی ہو۔ رہنے کے لیے شاندار کوٹھی ہو‘ خدمت کے لیے نو کر ہوں۔ سواری کے لیے موٹریں ہوں۔ بیش قیمت لباس میرے جسم کی زینت ہوں۔ میں جس طرف نکل جاؤں لوگ حیرت سے میری جاہ و حشمت کو دیکھیں اور اس کے ساتھ ہی میرا علمی رعب بھی

سب پر چھایا رہے۔ اگر میری قسمت میں لیڈر ی ہو جائے تو پھر میری خوش نصیبی کے کیا کہنے‘‘۔( فردوس کی راہ‘ حصہ دوم۔ ص ۲۳۱)
مسرت کا کردار درحقیقت آج کل کی نوجوان لڑکیوں کی اکثریت کے خیالات کا عکاس ہے۔ پریشانی کے عالم میں خواب میں اس کی ملاقات ایک بابا جی سے ہوتی ہے۔ جو اس کومثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ ’’دیکھویہ پانی سے لبریز پیالہ ‘ اب تم مجھے بتاؤ کہ تم اس سمندر جتنی انواع و اقسام کی نعمتیں چاہتی ہو جس کی انتہا ہی نہیں یا اس پانی کے پیالے جتنی؟‘‘
سنو اور غور سے سنو ‘ یہ دنیاوی نعمتیں اس پیالے کے پانی کے برابرہیں اور آخرت کی نعمتیں لا انتہا۔ یہ سمندر کی مثال تو میں نے تمہیں سمجھانے کے لیے دی ہے ورنہ وہ تو سمندر سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بتاؤ کیا اب بھی تم وسیع سمندر کو چھوڑ کر اس دو گھونٹ پانی پراکتفا کروگی‘‘ ( بحوالہ سابق: ص۲۳۳)
وہ جواب دیتی ہے کہ’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں غیر فانی لاانتہا نعمتوں کو چھوڑ کر فنا ہوجانے والی معمولی نعمتوں پر اکتفا کروں۔ اللہ کے لیے مجھے غیر فانی نعمتیں حاصل کرنے کا طریقہ بتائیے خواہ کچھ ہو۔ میں اس طریقہ کے مطابق عمل کرکے یہ نعمتیں حاصل کرکے ہی چھوڑوںگی۔
بزرگ کے چہرے پر ایک پاکیزہ مسکراہٹ کھیل گئی۔ وہ بولے:
’’ اے نیک بچی ! ان نعمتوں کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم ایسا علم حاصل کر و‘ جس کے ذریعے تم اللہ تک پہنچ جاؤ۔ اگر واقعی تم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ تم نے اس علم کے مطابق عمل کرکے اللہ کی خوش نودی حاصل کر لی تو تم بلاشک و شبہ ان سب نعمتوں کی حقدار ہو جاؤگی۔ ہاں یہ بھی جان لو جو لوگ یہ علم حاصل نہیں کر تے یا کرتے بھی ہیں تو اس کے مطابق عمل نہیں کرتے تو وہ ہمیشہ رہنے والی دنیا میں نہایت ذلت کی زندگی بسر کریں گے۔
پھر باباجی اسے ایک کتاب دے کر بتاتے ہیں کہ اس علم کو حاصل کرنا اس کے ذریعے ممکن ہے اور وہ کتاب ہے قرآن پاک۔
بیدا رہونے کے بعد مسرت حیران ہے کہ قرآن مجید تو میں نے پڑ ھا ہؤاہے اور اس کی کبھی کبھی تلاوت بھی کرتی ہوں اب اور کیا کروں۔
اس کی بڑی بہن اسے سمجھاتی ہے کہ ’’ مسرت! تم تلاوت تو کرتی ہو لیکن اس کے مطلب سے بالکل ناآشنا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تم اسے پڑھتی بھی ہو اور اس کے خلاف بھی چلتی ہو۔ تمہیں اس کا علم ہی نہیں کہ اس میں اللہ کے احکام موجود ہیں جن کو جاننا اور ان کے مطابق عمل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت کا فرض ہے۔ اس کے مطلب کو سمجھو اوراپنی پوری زندگی اس کے مطلب کے مطابق بسر کرو‘‘۔ (ص ۲۳۶)
افسانہ ’’جرأت‘‘ کا مرکزی کرداربھی ایک نوجوان لڑکی حمیرا ہے۔ جو اپنی دادی کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ایک مہاجر بے سہارا عورت اور اس کی بیٹی کی مدد کرتی ہے۔ بارش اورطوفان میں باہر سڑک پر سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی ماں بیٹی کو اپنے کمرے میں جگہ دیتی ہے۔ تیمارداری کرتی ہے۔ حمیرا کے والد اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مگر دادی خوب برا بھلا کہتی ہے۔ لکھتی ہیں کہ:
اگرو ہ حمیرا کو سزاد ے دیتیں اور پیٹ بھی ڈالتیں تو بھی کیا تھا۔ اپنے اعمال نامے میں ایک روشن عمل کا اضافہ کرنے کے لیے اگرکچھ سخت سست بھی سہناپڑتا تو بھی سودا سستا ہی رہتا۔ حمیرانے عرصے سے ایک مقولہ سن کررکھا تھا جسے وہ اپنی گرہ میں باندھے ہوئے تھی۔
’’ اگرکسی نیکی کے کام میں تمہیں سختیوں سے گزرناپڑے تو بے تکلف گزر جاؤ۔ کیونکہ سختیاں ختم ہو جائیں گی مگر نیکی کا اجر ہمیشہ باقی رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی لذت حاصل کرنے کے لیے کسی گناہ کا ارتکاب کرناپڑے تو اس لذت کا خیال ترک کردو کیونکہ وہ لذت تو ختم ہو جائے گی مگر گناہ کا داغ باقی رہ جائے گا‘‘۔ (فردوس کی راہ: ص ۱۳۸)
روزمرہ مسائل کو فکر انگیز رخ دینا
محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کی تحریر کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ روز مرہ کے مسائل اور حالات و اقعات کو کوئی نہ کوئی فکر انگیز رخ دے دیتی ہیں۔ ہلکی پھلکی تحریروں میں فکری پہلو کا ہلکے پھلکے انداز ہی میں ابلاغ انتہائی فنی مہارت چاہتا ہے۔ قلمکار مشاق نہ ہوتو بسا اوقات بات کا رخ موڑتے ہوئے تحریرمیں بے ربطی ‘ تصنع اور تکلف پیدا ہو جاتا ہے۔

مگر محترمہ اس مرحلے سے کامیابی سے گزر جاتی ہیں۔ ان کی تحریر میں کی گئی تبلیغ بے محل محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی بے جوڑ پیوند کاری۔
اس سے جہاں ان کی فنی مہارت اور قلمی چابک دستی کاعلم ہوتا ہے وہاں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ محترمہ خوداپنی عملی زندگی میں کس قدر گہرے تدبر سے کام لیتی اور ہر بات کو دینی نقطۂ نظر سے پرکھتی تھیں۔
تحریروں میں بات کا رخ بدلنے کی مثال ملاحظہ ہو۔
’’کوٹھی‘‘ کی رخشندہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے ماموں کے گھر مقیم تھی۔ ماموں نے نئی کوٹھی میں منتقل ہونے کے لیے آرائشی سازو سامان خریدا تو اس نے بھی اپنے کمرے کے لیے جوش و خروش سے خریداری کی۔ مگر کمرہ سجاتے ہوئے خیال آیا کہ مجھے تو تکمیل تعلیم کے بعد اپنے والدین کے ہاں چلے جانا ہے۔ وہاں بھی تو اس سامان کی ضرورت ہوگی۔ وہاں کے لیے کیوں نہ سنبھال دوں۔ اسی ادھیڑ بن میں پمفلٹ ’’حقیقت اسلام‘‘ پر نظر پڑی۔ بے دھیانی میں ورق گردانی کرنے لگی۔ مگر لکھتی ہیں کہ:
نامعلوم اس کتاب میںکیا تھا کہ مجھے یوں محسوس ہؤا جیسے میرے دل کی آنکھیں کھل گئی ہوں…مجھے اپنی روح بیدا ر ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ آہ! یہ دنیا تو مٹ جانے والی ہے۔ اصلی دنیا تو وہ ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی۔ میں فکر و خیال کی کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔ آج میرا دل کسی کام میں نہ لگا۔ ساردن اسی فکر میں مبتلا رہی اور ایک خیال باربار ستانے لگا:۔
’’ کہ ہمیشہ رہنے والی کوٹھی…یعنی آخرت کے گھر… کے لیے میں نے کس قدر سامان آرائش جمع کیا ہے۔ سامان آرائش تو درکنار افسوس اتنا بھی نہیں جس سے اپنی ناگزیر ضروریات ہی پوری کرسکوں‘‘۔
رخشندہ کو اپنی خالہ جان سے شکایت تھی کہ وہ ’’ فضول خرچ‘‘ اور دقیانوسی ہیں۔ لاہور میں رہنے کے باوجود نہیں بدلیں۔ اپنا معیار زندگی بلندکرنے کی بجائے غریبوں پر بے دریغ خرچ کرتی ہیں۔ مگر اب سوچ بدل گئی تھی۔ اب اس کا ذہن پھر خالہ جان اورماموں جان کا مقابلہ کرنے لگا۔
’’ آج خالہ جان کس قدر عقل مند معلوم ہورہی تھیں کہ وہ اپنی ہمیشہ رہنے والی کوٹھی کی سجاوٹ میں مصروف رہتیں۔ اس کے برعکس ہم اور ماموں جان…
’’ آہ! جب ہم لاہور میں مال روڈ پر اپنی فانی کوٹھی کی آرائش کے لیے سامان خریدرہی تھیں ٹھیک اسی وقت خالہ جان ( غریبوں میں کپڑوں کے تھان تقسیم کرتے ہوئے) اپنی پائیدار کوٹھی کے لیے سامان خرید رہی تھیں۔ میری آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ڈھلک پڑے جو میری عقل کا ماتم کر رہے تھے‘‘۔
پختہ دینی شعور کے حامل کردار
محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کے افسانوں کے مرکزی کردار دینی شعور کی پختگی کے حامل ہیں اور اپنے موقف پر جرأ ت سے کام لیتے ہوئے نامساعد حالات میں بھی ڈٹ جاتے ہیں۔ ’’ فلمی چاند‘‘ کی شاہین اپنے بیٹے کو اسلامی دنیا کا چاندبنانا چاہتی ہے مگر اس کے خاوند کا ارادہ اسے فلمی چاند بنانے کا ہے۔ شاہین کے سمجھانے کے باوجود اس پر ذرا اثرنہیں ہوتا۔ مگر شاہین اپنی جگہ ثابت قدم ہے اس کا کہنا ہے کہ:
انہیں یہ ضد کہ مسلط رہے چمن پہ خزاں
مجھے یہ ضد کہ بہاروں کو لاکے چھوڑوں گی
انہیں یہ ضد ہے کہ قائم رہے تسلط بوم
میرا یہ عزم بہاروں کو لاکے چھوڑوں گی
محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کے ضمنی کردار بھی بعض جگہ اتنے مضبوط ہیں کہ قاری پر اپنا خوب اثر چھوڑتے ہیں۔ مثلاً’’ آزادیٔ نسواں کے بعد‘‘میں آزادیٔ نسواں کی علمبردار رخشندہ ایک شادی کی تقریب میں جاتی ہے۔ دلہن ایک مضبوط ایمان کی خاتون ہے۔ جو اپنی شادی کے موقع پر بھی تبلیغ کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ رخشندہ کو تھوڑ ی سی بحث ہی سے اس امر کا احسا س ہوگیا کہ دلہن کافی ذہین ہے۔ اس سے کسی موضوع پر بحث کرنا آسان نہیں۔ وہ اس کے پروقار اسلامی انداز اور سنجیدگی سے مرعوب ہوگئیں۔ نہ معلوم اس کے سامنے کمتری کا احساس کیوں ہو رہا تھا۔

کچھ ہی عرصہ بعد رخشندہ کو اپنی اس تحریک کے نتائج سے دو چار ہونا پڑا۔ شروع میں اس کا خاوند اس معاملے میں ہم خیال نہیں تھا۔ محفلیں اسے ناپسند تھیں اور اس کی توجہ کا مرکز صرف رخشند ہ تھی۔ مگر رخشندہ ہی کے پرزور اصرار پر اس نے اپنے خیالات ترک کر دیے۔ رخشندہ کو چیچک نکلی تو اس کے خاوندکو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ وہ رخشندہ ہی کی ایک سہیلی سے نکاح کرکے رخشند ہ کو طلاق دے گیا۔ ا ب رخشندہ کو رہ رہ کراس دلہن کے الفاظ یاد آنے لگے:
ہمارا معاشرہ آلودہ ہو کر رہ گیا ہے۔ گھروں سے اطمینان و سکون ‘ محبت و اخلاص ختم ہوچکا ہے۔ وہ سوچنے لگی کس قدر سچ کہا تھا اس نے واقعی اسلام میں کس قدر سکھ چین ہے۔ کاش میں نے اسلامی اصولوں کو اپنایا ہوتا اس کے لیے کوشش کی ہوتی‘‘۔ (فردوس کی راہ : حصہ دوم ص ۷۱)
غرض یہ کہ محترمہ رخشندہ کوکب صاحبہ کی تحریروں کا اول و آخر محور دین اور دین کا ابلاغ ہے۔ کاش ان کی سب تحریریں محفوظ ہوتیں اور ان سے استفادہ ہو سکتا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x