ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک ستارہ تھی میں -قسط۷ – بتول اپریل ۲۰۲۳

زرک شدید اُلجھن کا شکار ہے۔اس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکی ایک وطن فروش دہشت گرد کا الزام لے کر اس کے سامنے ہے۔اس معاملے کی تفتیش اس کے ذمے لگائی گئی ہے۔ وہ اس پر رپورٹ بنا کر فوراً اس لڑکی سے الگ ہو جانا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کا تشدد کرنے کو تیار ہے۔پون جئے یا مرے اسے کوئی پروا نہیں۔پون سیل میں شدید خوف اور کمزوری کا شکار ہے۔اسے زرک سے سخت ڈر لگ رہا ہے۔وہ مسلسل اس کی موت کی دعائیں مانگتی ہے۔اسے اپنا سکول،بچے،پودے اور سب سے بڑھ کر بی بی بہت یاد آتی ہیں۔

ابھی کل کے زخم اس کے ہاتھ کی پشت پر اور پون کے دل پرتازہ تھے کہ وہ آج پھراس کے سیل میں موجود تھا اور سوال پر سوال کیے جا رہا تھا۔تکلیف دہ سوال…
چبھتے ہوئے سوال…
طنز سے بھرپور سوال…
’’تمہاری حساس جگہوں کے اردگرد بہت سارے گائوں ہیں اوراُن میں بے شمار لوگ بستے ہیں کیا سب کو پکڑ پکڑ کر اسی طرح سوال کیا کرتے ہو یایہ عنایت صرف مجھی پر ہے ؟‘‘پون زچ ہو گئی تھی اس کے سوالوں سے ۔
’’ نہیں یہ عنایت صرف تمھی پر ہے ‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولا تھا ’’ اور اسکی وجہ بھی تم اچھی طرح سے جانتی ہو ‘‘۔
’’ ایسی کون سی وجہ ہے جس کی وجہ سے میں معتوب ہوںاور باقی سب مامون؟ آخر تم بتاتے کیوں نہیں ؟مجھے سمجھ نہیں آ رہا میرے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟‘‘ وہ نا سمجھی کے عالم میںبولی تھی ۔
’’تم تومیرے سامنے ایسے معصوم بن رہی ہو جیسے میں تمہیں جانتا نہیں ‘‘ وہ بڑے طنز یہ اندازمیں بولا تھا ۔
’’ہاںتم مجھے نہیں جانتے ‘‘ وہ بڑی بے خوفی سے اس کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی تھی ۔
’’ میں تمہاری حقیقت اچھی طرح سے جانتا ہوں ‘‘ وہ بھی ٹھیک اسی کے انداز میںبولا تھا ۔’’ تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتیں ’ مجھے بے وقوف نہیں بناسکتیں‘‘۔
’’جو تم جانتے ہو وہ ایک ادھوری حقیقت ہے ‘‘ وہ بڑے ٹھوس لہجے میں بولی تھی ۔
’’تو پھر کیا ہے پوری حقیقت … تم خود ہی بتا کیوںنہیںدیتیں اس بات کا تم سے کوئی تعلق نہیں ؟‘‘
اب وہ اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ رہی تھی ۔’’تمہیں بتانا میںضروری نہیں سمجھتی ‘‘۔
واقعی اُسے بتانے کا کوئی فائدہ نہیںتھا،اگر وہ اسے بتا بھی دیتی تو وہ اسے بھی محض ایک ڈرامہ ہی سمجھتا ۔
’’ پون تم میرا صبر آزما رہی ہو ‘‘ وہ دانتوں پر دانت چبا کر بولا ’’ اور میں بہت دیر سے تمہاری لفاظی برداشت کر رہا ہوں … حالانکہ میںمجرموں کے ساتھ نہ اتنی دیر لگاتا ہوں نہ اتنا صبر کرتا ہوں ۔ تم جو کچھ بھی جانتی ہو مجھے بتا دوہو سکتا ہے میں تمھاری مدد کر سکوں، ہو سکتا ہے تمہارے ساتھ کچھ نرمی برتی جائے ‘‘۔
’’اور میںبھی ہزار بار بتا چکی ہوں میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں۔میںایک نہایت سیدھی سادھی زندگی گزار رہی تھی ۔ میرا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا کہ ایک دن پولیس مجھ پر جاسوسی کا بے ہودہ الزام لگا کر گرفتار کر لائی۔ نہ مجھ پر کوئی مقدمہ چلایا گیا نہ مجھے صفائی کا موقع دیا گیا اور یہاں اس جہنم میں لا کر بند کردیا جیسے میں اس ملک کی شہری نہیں… جیسے میرے کوئی حقوق نہیں …جیسے میں انسان بھی نہیں ۔ ایسی

زیادتی تو اس ملک میں کسی جانور کے ساتھ بھی نہیں ہوتی جیسے میرے ساتھ ہو رہی ہے ‘‘۔
آج تو وہ پھٹ پڑی تھی اور جو منہ میں آ رہا تھا بولے چلی جا رہی تھی۔
’’ آخر میںنے ایسا کون سا جرم کردیا ہے کہ مجھ سے انصاف او ر وضاحت کا ہر حق چھین لیا گیا ہے ۔ کوئی ثبوت تو لائو کوئی گواہ تو پیش کرو میرا جرم پہلے ثابت تو کرو پھر مجھ پر یہ سارے عذاب نازل کرنا ‘‘۔
اس کی اونچی آواز آہستہ آہستہ سسکیوںمیں بدل گئی تھی ۔ وہ اس بے رحم کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی مگر پھر بھی رو رہی تھی ۔ اسے اپنا کوئی دُکھ کوئی درد بتانا نہیں چاہتی تھی مگر بتا رہی تھی ۔ اپنے زخموں پرکسی مرہم کی اُمید نہیں تھی پھر بھی اسے دکھارہی تھی آہ کیسی مجبوری تھی ! یہ واحد انسان تھا جو اس کے سیل میں آتا تھا، جسے وہ کچھ کہہ سکتی تھی ۔ اگرچہ اس وقت اس سے زیادہ ظالم اور سنگ دل کوئی نہیں تھا ۔
’’ تمہیں لگتا ہے جذباتی ڈائیلاگ بول کر اور یہ بے کار آنسو بہا کر تم میرے ہاتھوں سے بچ جائو گی تو یہ تمہاری بھول ہے ‘‘ اس پر جیسے کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہؤا تھا ۔ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا ۔
’’ میں تمہارے کسی جذباتی ڈرامے سے متاثر ہونے والا نہیں ‘‘۔
’’ تم کیوں متاثر ہو گے تم کوئی انسان تھوڑی ہو !‘‘ اس کی بات سن کر وہ اتنا ہی بولی تھی ۔
’’ تم مجھے طعنے دے رہی ہو ‘‘ وہ اُس کی بات پر چڑ گیا تھا ’’ اور اس ملک سے اپنے حقوق مانگ رہی ہو جیسے تم نے چند ٹکوں کے عوض بیچ دیا؟ پھر بھی نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنی مظلومیت کا رونا رو رہی ہو۔ تخریب کاری کے ساتھ ساتھ شاید یہ ڈھٹائی اور بے شرمی بھی تمہیں خاص طور پر سکھائی گئی ہے … ہے ناں؟‘‘وہ استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’ مگر یہ بات تم ذہن سے نکال دو کہ میں تمہیں اس وجہ سے کوئی رعایت دوں گا یا کوئی نرمی کروں گا کہ تم لڑکی ہو ۔ یہاں تم محض ایک مجرم ہو … ایک ڈھیٹ مجرم… تمہارے ساتھ یہاں سب کچھ وہی ہوگا جو ہر مجرم جو تعاون نہیں کرتا اس کے ساتھ ہوتا ہے ‘‘۔
وہ کڑے تیوروں کے ساتھ بول رہا تھااوروہ اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی اس نے آج تک بھولے سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کلاس فیلو تھے ، انہوں نے دو سال ساتھ پڑھا تھا ، یا ایک دوسرے کو جانتے تھے ۔ یعنی وہ واقعی ثابت کر رہا تھا کہ وہ کسی تعلق اور جان پہچان کو ذرا سی بھی اہمیت نہیں دے گا اگر اُسے کوئی خوش فہمی ہے بھی تو اسے یہ ذہن سے نکال دینا چاہیے ۔
’’ اگر تم سمجھتی ہو کہ اپنے جرائم کا اعتراف کیے بغیر یہاں سے زندہ نکل جائو گی تو میرے ہوتے تو یہ ہوگا نہیں ۔ یہاں مجھے تم پر مکمل اختیار حاصل ہے ۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ تم یہاں سے میری مرضی کے بغیر ایک قدم باہر نہیں نکال سکتیں جب تک کہ اپنے گناہوں کی سزا نہ بھگت لو ‘‘۔
اس کا لہجہ اتنا خوفناک تھا کہ پون کی روح تک لرز اٹھی تھی اسے یقین ہو گیا تھا وہ اس دنیا کو اب اپنی آنکھوں سے کبھی نہیں دیکھ سکے گی۔
’’تمہیں معلوم ہے دنیا میں جاسوسی کے لیے تم جیسی لڑکیوں کو کیوں استعمال کیا جاتاہے؟‘‘
وہ سیل کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بازو سینے پر باندھے بڑے پر سکون انداز میں کھڑا پوجھ رہا تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی پرانی جان پہچان والے آدمی کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو کررہا ہو ۔ آج اس کے لہجے میں کوئی تیزی غصہ نہیں تھا ۔ مگر پون کو اس کا یہ عام اور پر سکون انداز بھی سخت اذیت دے رہا تھا ۔اس سے کسی بھلائی کی امید تو تھی نہیں کہ وہ سمجھتی کہ وہ اس پر ترس یا رحم کھا رہا ہے ۔
’’ تم نے جواب نہیں دیا ؟‘‘ وہ دو بارہ بولا تھا ’’ تمہاری جیسی معصوم نظر آنے والی شکلیں گندے مقاصد حاصل کرنے کے لیے نہایت موزوں سمجھی جاتی ہیں ‘‘ وہ جیسے اس کی معلومات میں اضافہ کر رہا تھا ۔ ’’تمہیں دیکھ کر جو پہلا خیال آتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک سیدھی سادھی بھولی بھالی نیک سیرت لڑکی ہے ، اس کا کسی برائی سے کیا واسطہ!مگر تمہاری صورت اور تمہاری یہ سادگی یہی سب سے بڑا دھوکہ ہے ۔ تم اپنی شکل و

صورت اور بھولپن کا بڑی کامیابی سے استعمال کر رہی ہو ۔ کئی سال پہلے جب تمہیں دیکھا تھا …‘‘
تو اسے یاد ہے کہ وہ پہلے بھی کبھی ملے ہیں ! پون نے گہری سانس لے کر سوچا تھا ۔
’’ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تم دوبارہ ایک غدار کی حیثیت سے ملو گی جو تھوڑی سی قیمت پر اپنے وطن کا سودا کر چکی ہو گی‘‘ اس نے بات کر تے کرتے بڑی ہی نفرت سے اسے دیکھا تھا۔
پون خاموش تھی ۔ وہ اس کے خیالات اور نظریات سے لڑنے کی ہمت کھو چکی تھی ، وہ اس کے سامنے ہر لحاظ سے بے بس تھی ۔وہ اعتراف جرم سے پہلے ہی اسے مجرم مان چکا تھا ۔ اسے تختہ دار پر کھینچنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی اسے ۔ یہ پوچھ گچھ محض ایک رسمی کارروائی تھی ۔ وہ صرف حجت تمام کر رہا تھا تاکہ کل جب وہ اسے اُس کے نا کردہ جرم کی سزا دے تو کہیں سے کوئی سوال نہ اٹھے کہ اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ اُس کا اپنا ضمیر بھی مطمئن رہے کہ اس نے کسی بے گناہ کو تختہ دار پر نہیں چڑھایا ۔
’’ میں تمہیں ایک آخری موقع دے رہا ہوں ، خود پر رحم کھائو اپنے خاندان پر رحم کرو اور میرا وقت برباد نہ کرو ۔ اعتراف کر لو … آج تک جو کچھ بھی کیا جیسے بھی کیا جس جس کے ساتھ کیا … شاید تمہارا اعتراف تمہیں بچا لے … یا کم از کم تمہاری سزا میں ہی کمی کروا دے ۔ اگر تم ہمارے ساتھ تعاون کرو گی اپنے ساتھیوں کے نام بتا دو گی تو میں وعدہ کرتا ہوں تمہاری سزا میں کچھ نہ کچھ کمی ہو جائے گی ۔ ابھی تو یہ معاملہ میرے ہاتھ میں ہے ۔ ابھی میں بہت کچھ کر سکتا ہوں لیکن اگر تم نے اعتراف جرم میں دیر لگائی تو ہو سکتا ہے یہاں موجود زیادہ با اختیار لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے ۔ پھر تمہیں ایک بد ترین انجام سے کوئی نہیں بچا سکے گا ‘‘۔
وہ بڑی بے رحمی سے کہہ رہا تھا اور پون کو سو فیصد یقین تھا ایسا ہی ہونے کا ۔ نجانے وہ اتنا بے رحم کب بنا تھا ، وہ حیران تھی ۔ یا شاید وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اسی کو اس کی پہچان نہ تھی ۔ وہ اسے خوفزدہ کرنا چاہتا تھا اور وہ جی بھر کر خوفزدہ تھی بھی۔ یہاں کوئی اس کا ہمدرد نہیں تھا ، کوئی اس کی بات سننے اور اس پر یقین کرنے والا نہیں تھا۔
’’ اچھا یہ بتائو تم اپنے آقائوں سے رابطہ کس طرح کرتی ہو ، کیونکہ تمہارے نام نہ تو کوئی سم موجود ہے نہ کوئی فون برآمد ہؤا ‘‘ اس کی سوئی ہنوز وہیں اٹکی ہوئی تھی ۔’’ تم یقینا کوئی دوہری زندگی گزار رہی ہو جس میں تمہارا کوئی دوسرا نام اور پہچان ہے اور اسی کو تم اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہو ‘‘۔
’’چپ ہو جائو بند کر لو اپنا منہ…‘‘ وہ ایک دم سے پھٹ پڑی تھی ’’ میں تنگ آچکی ہوں تمہارے اس ٹارچر سے … چھوڑ دو میرا پیچھا … میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ۔ یہ ملک جتنا تمہارا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے ۔ اپنا یہ کھیل کہیں اور جا کر کھیلو ‘‘۔
ایک ہی طرح کے سوال سن سن کر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور اس کی باتیں سن کر زرک کاغصہ گویا آسمان کو چھونے لگا تھا ۔ وہ ایک زخمی چیتے کی طرح سیل میں ادھر سے اُدھر پھر رہا تھا ۔
’’ تم اس طرح کی باتیں کر کے خود کو مظلوم ثابت نہیں کر سکتیں ‘‘ اب وہ اس کے سر پر کھڑا چیخ رہا تھا تم معلومات کہاں سے کس طرح چراتی ہو تمہیں بتانا ہوگا ۔ کن لوگوں سے دوستیاں کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہو ، کس کس کو پھنسا رکھا ہے اپنی ادائوں کے جال میں …‘‘
’’ تم … بکواس بند کرو اور چلے جائو یہاں سے ‘‘۔
پون اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی پوری قوت سے چیخی تھی اس کے الفاظ اور لہجے کے گھٹیا پن نے اسے شدید اذیت سے دو چار کیا تھا ۔ وہ اپنے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب پانے کے لیے اس حد تک بھی جا سکتا ہے اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور وہ سامنے کھڑا اسے بغور دیکھ رہا تھا ۔ اس کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اُس نے ابھی تک نہیں کیا تھا مگر اس کے بہتے آنسوئوں نے اسے یہ سوچنے پرمجبور کر دیا تھا کہ اس نے جو آخری سوال کیا تھا وہ شاید اسے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
اسی احساس کے تحت وہ سیل سے باہر آگیا تھا ۔ آفس میں آکر بھی وہ یہی سب کچھ سوچ رہا تھا ۔ اپنی سوچوں میں وہ اس قدر محو تھا کہ اسے اسد

کے آنے کا بھی علم نہ ہو سکا ۔
’’ کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہو ؟‘‘ وہ اس کی شکل دیکھ کر بولا تھا۔
’’ نہیں میں تو بالکل ٹھیک ہوں تم سنائو ‘‘ اُس نے اسے ٹالنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ میں بھی ٹھیک ہوں ۔ ہاں یاد آیا تمہاری وہ جو سیل نمبر ۲کی قیدی ہے کچھ اُگلا اُس نے ؟‘‘
’’ نہیں ابھی تو کچھ نہیں بتایا‘‘ اس نے مختصر جواب دیا ۔ اس موضوع سے بچنا چاہتا تھا ۔
’’ حیرت ہے تم نے تو کسی مجرم پر کبھی اتنا وقت نہیں لگایا پھریہاںاتنی دیر کیوں ہو رہی ہے ؟ بات سنو !‘‘ اسد میز پر جھکتے ہوئے راز داری سے بولا ’’کہیں وہ تمہیں پھنسانے کی کوشش تو نہیں کر رہی … میرا مطلب ہے اس کا م میں جو لڑکیاں آتی ہیں وہ اس کام کی بھی ماہر ہوتی ہیں نا ں‘‘۔
’’ یہ تم کس طرح کی باتیں کر رہے ہو ؟‘‘ اسے اس پر سخت غصہ آیا تھا مگر اسے معلوم تھا اسے اسد سے زیادہ خود پر غصہ آ رہا تھا ۔ پون کے حوالے سے اس کی بات اسے بری لگی تھی ۔ اوہ گاڈ! اسے واقعی بری لگی تھی اور اسی بات کا اسے غصہ تھا وہ ایک مجرمہ تھی اس کے بارے میں تو ایسی باتیں ہونا ہی تھیں پھر وہ کیوں برا منا رہا تھا ؟ وہ خود بھی تو اس کے ساتھ ایسی ہی باتیں کر کے اسے اذیت پہنچا رہا تھا مگر اسد کے منہ سے نکلی بات اسے زیادہ بری لگی تھی۔ وہ لاکھ انکار کرتا مگر ان کے بیچ ایک تعلق تو تھا ، وہ اس کی کلاس فیلو رہی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے متعلق ایسی بات اسے بری لگی تھی۔
ہاں یہی وجہ ہے ! اس نے خود کو یقین دلایا تھا بھلا اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کچھ بھی تونہیں ۔
’’ اگر تم کہو تو اُسے کمرہ خاص میں بھیج دیں‘‘ اسد اس کی ذہنی کیفیت سے بے خبر اپنی ہی بولے جا رہا تھا ۔
’’ ارے نہیں ‘‘ وہ بہت تیزی سے بولا تھا اور خود ہی اپنی تیزی پر شرمندہ بھی ہوا تھا ’’ میرا مطلب ہے میں خود اُسے ذرا ڈھیل دے رہا ہوںسب کچھ اگل دے گی ‘‘ اس نے جلدی جلدی وضاحت کی تھی۔
٭
وہ سیل سے بہت دیر پہلے جا چکا تھا مگر اس کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
تو اب وہ اس کے کردار پر ایسے رکیک حملے کرے گا ؟ یہ خیال اسے بار بار رلا رہا تھا۔ اس کی تکلیفیں اور مصیبتیں پہلے ہی کم نہیں تھیں ۔ آئے دن اس کے خوف اور اذیت میں اضافہ ہی ہو رہا تھا ۔ وہ ان سب چیزوں کے مقابلے میں خود کوبہت تنہا اور اکیلا محسوس کر رہی تھی اس کی طاقت اور ہمت ختم ہوتی جا رہی تھی اس پر ستم یہ تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود اللہ سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی ۔ وہ اسے اپنے دُکھ اپنی تکلیفیں بتانا چاہتی تھی اس کے سامنے رونا گڑ گڑانا چاہتی تھی مگر کچھ تھا جو اس کے اور اس کے اللہ کے بیچ حائل ہو چکا تھا ۔ کوئی شکایت یا شاید کوئی ناراضگی کچھ تو تھا جو اس کے دل میں دیوار بنا ہؤا تھا ۔آخر اسی کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا تھا اس کا کیا قصور تھا ۔ اللہ نے اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہونے دیا تھا اسے بچایا کیوں نہیں تھا ؟
نجانے کتنے سوال تھے جو اس کے اندر طوفان مچاتے رہتے تھے ، اسے بد گمان کرتے رہتے تھے اس نے دُکھتے سر کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگا لی۔ وہ آج بہت مایوس تھی خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی تھی ۔ پھر اسی مایوسی اور تنہائی کے عالم میںاسے جیسے بی بی کی آواز سنائی دی تھی۔
’’ کیا لوگوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیںگے‘‘۔ کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا حالانکہ ہم ان سب کی آزمائش کر چکے ہیںجو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اورجھوٹے کون ‘‘۔
کئی دن پہلے اس نے بی بی کو بچوں کو یہ آیت سمجھاتے سنا تھا ۔ ’’بچو ! اللہ پر ایمان لانا اور پھر آزمایا جانا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ سکول میںداخل ہوتے ہیں اور پھر وہاں آپ کے ماہانہ اور سالانہ امتحان ہوتے ہیں تب آپ اگلی جماعت میں جاتے ہیںناں ! اب اگر کوئی یہ کہے

کہ میں سکول میں تو داخل ہوںگا مگر کوئی امتحان دیے بغیر اگلی جماعت میں بھیج دیا جائوں تو یہ تو نہیںہو سکتا ناں !‘‘
وہ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق بات کر رہی تھیں اور وہ بھی سب سمجھنے کے انداز میں سر ہلا رہے تھے اور یہ سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ایسے روشن تھا جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے کا واقعہ ہو ۔ اس نے بھی تو سکول میںبڑے شوق سے داخلہ لیا تھا ۔ خوب سوچ سمجھ کر اس نے اپنے لیے اس سکول کو منتخب کیا تھا تو پھر وہ امتحان سے کیوں گھبرا رہی تھی جبکہ اسے تو آگے جانا تھا پیچھے نہیں ہٹنا تھا اور آگے جانے کے لیے امتحان بہت ضروری تھا ۔اُسے بی بی کی ساری باتیں ایک ایک کر کے یاد آ رہی تھیں ، اس کی ہمت بندھا رہی تھیں اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں ۔ اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا تھا جتنا بھی برا ہو رہا تھا اسے ہر حال میں اپنا ایمان بچانا تھا ۔ ہر طرح کی بد گمانی سے اپنا دل صاف کرنا تھا اور اللہ سے اپنا تعلق بحال کرنا تھا ۔
تھوڑی دیر پہلے کی گھبراہٹ آہستہ آہستہ زائل ہو رہی تھی ۔ اللہ کی موجودگی کا یقین پوری توانائی کے ساتھ اس کے اندر اتر رہا تھا ، اس کے احساس تنہائی کو دور کر رہا تھا ۔ وہ پہلے سے بہت بہتر محسوس کر رہی تھی ۔ اللہ اس کو ضائع نہیں کرے گا ، یہ بی بی کے الفاظ تھے اور یہی سب سے بڑا سچ تھا ۔
رات کب اس کی آنکھ لگی تھی اسے پتہ ہی نہ چل سکا تھا جو آخری بات اسے یاد تھی وہ یہی تھی کہ وہ دیوار سے سر ٹکائے زار و قطار رو رہی تھی ۔ آج بہت دنوں کے بعد وہ خود کو اللہ کے سامنے کھڑا محسوس کر رہی تھی بیچ میں کوئی دیوار نہیں تھی ، کوئی پردہ نہیں تھا ۔ اس نے نئے سرے سے اللہ کے ساتھ تعلق جوڑا تھا اس نے مان لیا تھا کہ اللہ نے اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا، اسے سب کچھ دیا تھا ۔ پھر ایسے میں ذرا سی مصیبت آنے پر اللہ سے تعلق توڑ لینا ، الٹے پیروں پھر جانا سخت کم ظرفی کی بات تھی ۔ اسے اپنے آپ سے شرم محسوس ہوئی ۔ اتنے دن اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا تھا جبکہ اس کی ذات نے اسے کیا کچھ نہیں دیا تھا ، کہاں کہاں سے نہیں بچایا تھا۔
سیل کا دروازہ کھلنے کی آواز آ رہی تھی ۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔ یقینا لیڈی گارڈ ہو گی ۔ وہ اتنی ہی صبح آکر اسے کچھ کھانے کے دے جاتی تھی لیکن اس دفعہ وہ غلطی پر تھی کیونکہ دروازے پر تو وہ کھڑا تھا … وہی موت کا فرشتہ ! ابھی کل والے زخم بھرے نہیں تھے کہ وہ پھر موجود تھا ۔ یا اللہ یہ گھر نہیں جاتا ؟ کیا اسے نیند نہیں آتی ؟ اس نے دانت پیس کر سوچا تھا ۔
وہ اندر آچکا تھا اور پون منتظر تھی کہ وہ کب اپنے اذیت بھرے سوالوںکا نیا سلسلہ شروع کرے گا ۔
’’ مجھے یقین ہے آج صبح ہی صبح مجھے دیکھ کر آپ خوش نہیں ہوئی ہوں گی ‘‘ وہ ایسے کہہ رہا تھا جیسے دن کو تو اسے دیکھ کر اس کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا ’’ کل اگر آپ میرے سوالوں کاجواب دے دیتیں تو آج ہم دونوں چھٹی مناتے ‘‘ وہ ایسے خوشگوارموڈ میں بول رہا تھا جیسے اسے لے کر پکنک منانے آیا ہؤا ہو’’ چلو تو پھر کام کی باتیں کر لیں ۔ اب اتنا تو مجھے اندازہ ہو ہی چکا ہے کہ تم اس کام میں اکیلی نہیں ہو ‘‘ وہ اس کی توقع کے عین مطابق پھر سے شروع ہوچکا تھا ’’ کیا تمہارے گھر والے بھی اس کام میں شامل ہیں ؟ کوئی ایک یا سارے ؟‘‘
’’ میرے کسی کام میں کوئی شامل نہیں ہے ‘‘ وہ رُکھائی سے بولی تھی۔
’’ کوئی نہ کوئی تو ضرور تمہارا ساتھ دے رہا ہوگا ‘‘ اس نے جیسے پون کا جواب سنا ہی نہیں تھا ’’ اکیلے تم اتنا بڑا کام نہیں کر سکتیں ۔ ایک یا ایک سے زیادہ لوگ تمہارے مدد گار ہیں ۔ ہیں ناں؟‘‘ اس نے تصدیق چاہی۔
مگر پون نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ کوئی فائدہ ہی نہیں تھا جواب دینے کا کیونکہ اس کی آواز اسے سنائی ہی نہیں دیتی تھی ۔
’’ سنو! یونیورسٹی میں ایک لڑکابھی توہوتا تھا تمہارے ساتھ … کیانام تھا اس کا …‘‘اس نے ذہن پر زور دینے کی ادا کاری کی ’’ہاں اظفر … یہی نام تھا ناں ؟‘‘
پون سناٹے میںآگئی ۔ اسے سب یاد تھا وہ کچھ بھی نہیں بھولا تھا ۔

اچھا تو آج وہ اس طرح سے اسے اذیت دینے والا تھا ، وہ سمجھ گئی تھی ۔
’’وہ بھی تمہارے اس کام میں شامل ہے ؟ کہاں ہے وہ آجکل ؟‘‘ وہ جواب کا منتظر کھڑا تھا ۔
’’ مجھے نہیں معلوم ‘‘ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی تھی ۔
’’ کیسے نہیں معلوم ‘‘ وہ اس کے پاس آکر چیخا تھا ۔ اس طرح کی باتیں وہ ہمیشہ اس کے قریب آکر ہی کیا کرتا تھا مبادا دروازے پر موجود گارڈ سن لیں اور ان کی جان پہچان کی سب کو خبر ہو جائے ۔
’’ تم انجان بننے کا ڈرامہ کیسے کر سکتی ہو جبکہ میں نے تو سنا تھا تم لوگوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا رکھی ہیں ‘‘ وہ بڑے اذیت بھرے انداز میں بول رہا تھا ۔
’’ تم بیمار ہو ‘‘ وہ جیسے برداشت کی آخری حد پہ جا کر چیخی تھی ’’تمہیں علاج کی ضرورت ہے ۔‘‘ وہ شدید غصے میں دانت پیس پیس کر کہہ رہی تھی ۔
’’ میں بیمار ہوں یا تندرست اس کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا ‘‘ اس پر اس کے غصے کا کوئی اثر ہی نہیں تھا ’’ ابھی توتمہیںعلاج کی ضرورت ہے اور وہ میں کروں گا ۔ آخر تم اتنی بے شرم کس طرح سے ہو سکتی ہو ۔ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا ‘‘ وہ زہر آلود لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
’’ جس ملک نے تمہیں اپنی آغوش میں پناہ دی جب اس کے احسان کا بدلہ چکا نے کا وقت آیا تو تم اسی کی جڑیں کاٹنے لگیں ‘‘۔
’’ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا میں کتنی دفعہ بتائوں ‘‘ وہ بہت زچ ہو کر بولی تھی ۔
’’ میں تنگ آگیا ہوں ایک ہی بکواس سن سن کر ‘‘۔
بولنے کے ساتھ ہی اس نے پون کے سامنے پڑی میز پر مکا مارا تھا اور میز بے چاری جو نجانے کب سے اس طرح کے مکے برداشت کر رہی تھی ، آج نہ سہہ سکی ، ہار گئی … ٹوٹ گئی … بکھر گئی ۔ پون ششدر اور سراسیمہ ٹوٹی ہوئی میز کو دیکھے جا رہی تھی اس کی آنکھوں میں خوف بڑھتا جا رہا تھا شاید ایک دن اس کا بھی یہی حشر ہونے والا تھا ۔
زرک کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زور سے مکا مار رہا ہے نہ ہی میز اسے اس قدر کمزور لگتی تھی کہ ایک ہی مکے میں ٹوٹ جائے ۔ وہ بھی کبھی میز کو دیکھ رہا تھا کبھی پون کو ۔ اسے اس کی آنکھوں میں عجیب سی تکلیف اور خوف نظر آرہا تھا۔
اچانک نجانے کیوں وہ اسے جنگل کے بیچوں بیچ کھڑی خوفزدہ چھوٹی سی بچی کی طرح لگی تھی ۔ وہ اس کے لیے اپنے دل میں رحم محسوس کرنے لگا تھا ۔ کیا وہ واقعی بے قصور تھی ؟ وہ اس کے ساتھ واقعی زیادتی کر رہا تھا ؟ اپنی حد سے بڑھ رہا تھا ؟ کچھ بھی تھا آج پہلی بار اُسے لگ رہا تھا کہ وہ پون کے ساتھ جو کچھ بھی کر رہا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا ۔
وہ روتی ہوئی پون پر ایک نظر ڈال کر باہر آگیا تھا آج نئی طرح کی سوچیں اس کے ذہن کو پریشان کر رہی تھیں۔وہ خود کو بہت تھکا ہؤا محسوس کر رہا تھا آفس آکر وہ اپنی چیزیں اٹھانے لگا ۔ آج وہ جلدی گھر جا رہا تھا، دماغ بہت بوجھل ہو رہا تھا ۔
مگر سکون اُسے گھر آکر بھی نہیں ملاتھا وہ جب سے آیا تھا اپنی پسندیدہ راکنگ چیئر پر آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا ۔ شاہد اُسے دو تین دفعہ آکر دیکھ چکا تھا کہ شاید وہ کھانا لانے کا کہے مگر وہ ہر دفعہ اسے اسی طرح بیٹھا نظر آیا تھا ۔ اتنا تو وہ اندازہ کر ہی چکا تھا کہ زرک کچھ دنوں سے معمول سے زیادہ پریشان تھا کیونکہ گھر آکربہت دیر تک اسی کرسی پر آنکھیں بند کیے بیٹھا رہتا تھا ۔ بعض اوقات لگتا وہ سو رہاہے مگر شاہد جانتا تھا وہ سو نہیں رہا وہ سوچ رہا ہے ۔ اس سے پہلے کوئی بھی مسئلہ ہوتا اُسے تھوڑی دیر سے زیادہ پریشان نہیں کرتا تھا مگر اب لگتا تھا اسے کوئی بڑا ہی مسئلہ درپیش تھا۔
طرح طرح کی سوچیں زرک کے ذہن کو الجھا رہی تھیں اور وہ اس پر خوش نہیں تھا ۔ کچھ تو ایسا تھا جو اس کے اختیار سے باہر ہوتا جا رہا تھا ۔ کوئی تو ایسی چیز تھی جو اس کی پلاننگ کو درہم برہم کر رہی تھی ۔ وہ کسی طرح کی بے بسی کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا ۔ اُسے کمزوریوں سے نفرت تھی وہ پون کے معاملے میں بھی کسی طرح کی کمزوری یا لچک نہیں دکھانا چاہتا تھا ۔ وہ اُسے پہلے دن سے ہی مجرم سمجھتا آیا تھا اور آئندہ بھی یہی سمجھنا چاہتا تھا مگر وہ اس بے چینی کا کیا کرتا جو کچھ دنوں سے اُسے اندر ہی اندر سے کھا رہی تھی،اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہی تھی ۔ اُس کے لیے اپنی نوکری

اپنا کام ہر جذبے اور ہر انسان سے زیادہ اہم تھا اور وہ اس کام میں ذرا سی بھی بے ایمانی گناہ سمجھتا تھا چاہے یہ بے ایمانی کسی مجرم کے ساتھ رحم یا ہمدردی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔
تو کیا اُسے پون کے کیس سے الگ ہو جانا چاہیے ؟
بار بار یہی سوال اسے پریشان کر رہا تھا کیونکہ اب کچھ بھی اسے ٹھیک نہیں لگ رہا تھا ۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیںرہا تھا ۔ مگر وہ خود اس کیس سے کیسے الگ ہو سکتا تھا یہ سارا کام تو اس کے اعلیٰ افسران کی مرضی سے ہوتا تھا ۔وہ جسے چاہیں کوئی کیس دیں اور جس سے چاہیں واپس لے لیں اور پھر وہ اس کیس پر کام نہ کرنے کی وجہ کیا بتائے گا ؟ اور وجہ جانے بغیر تو اس کی بات سنی ہی نہیں جائے گی اوروہ بھلا اپنے افسران کو یہ کیسے بتا سکتا ہے کہ کچھ دنوں سے اس کے اندر کیسی کشمکش جاری ہے ۔ وہ خود سے لڑ رہا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ یہ لڑائی ہار جاتا اس معاملے سے دور بھاگ جانا چاہتا تھا ۔
وہ اتنے دنوں سے پون سے پوچھ گچھ کر رہا تھا اُس نے ہر طریقہ آزما کر دیکھ لیا تھا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا تھا ۔ اتنے دن گزرنے پر بھی جب کوئی مجرم زبان نہ کھولے تو اس کی اگلی منزل ٹارچر سیل ہوتا ہے مگر پون کے معاملے میں ٹارچر سیل کا سوچ کر ہی اس کا دل بند ہونے لگتا تھا ۔ نہیں وہ اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا ۔ وہ اس حد تک نہیں جا سکتا تھا اور یہیں پر اُسے خود پر اور اپنے کام پر شک ہونے لگتا تھا ۔کیا وہ جانبداری کا مظاہرہ کر رہا تھا کیونکہ وہ پون کو بچانا چاہتا تھا ؟
اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ ایسا کیا کرے کہ اس کے متعلق کوئی انتہائی قدم اٹھائے بغیر تمام معلومات مل جائیں اور وہ فائنل رپورٹ تیار کر کے اپنے افسران کے حوالے کردے اور اس معاملے سے الگ ہو جائے ۔
لیکن کیا وہ اپنی خواہش کے مطابق اس معاملے سے الگ ہو سکے گا ؟ یہ وہ سوال تھا جس کا جواب تلاش کرنا ابھی باقی تھا ۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x