ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لے سانس بھی آہستہ! -بتول اپریل ۲۰۲۳

ڈھابے پر کھانا کھاتے یونیورسٹی کے تین دوستوں احمد ، عدیل اور شارق کے بیچ بحث چل پڑی کہ کھانا اور نصیب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
’’یہ سالن کی رکابی آگے کرنا ذرا‘‘ ان میں سے احمد جو کھانے کا رسیا تھا مگر جسم کا پھرتیلا تھا ، رکابی کی طرف اس وقت تیزی سے ہاتھ بڑھایا جب ڈھابے کا ملازم میز پر کھانا رکھ کر گیا۔
’’کھانا جو ہوتا ہے وہ نصیب کا ہے، کھائے بغیر بندہ مر نہیں سکتا ، جلدی کیا ہے بھئی ، یہ لو‘‘ ان میں سے عدیل جو کھانے پینے کا کوئی خاص شوقین نہیں تھا مگر کتابی کیڑا تھا ،بولا اور رکابی آگے بڑھا دی۔
’’ہائیں! اس کا مطلب بندہ کھانا کم کر دے تو اس کی عمر لمبی ہو سکتی ہے‘‘ شارق نے جو بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا اور چٹورا لگتا تھا ، کھانے سے ایک لمحے کو ہاتھ کھینچ لیا۔
’’ہاں میں نے ایک بار محلے کی مسجد میں مولوی صاحب کا درس سنا تھا ‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’تو کیا کہتے تھے مولوی صاحب‘‘احمد نے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا ۔
’’یہی کہ سانس آہستہ اور روک کر لو ، اور کھانا کم کھاؤ تو عمر میں اضافہ ہو سکتا ہے‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’اوہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہے ، زندگی موت کا کھانے پینے سے کیا تعلق‘‘اب کےشارق نوالہ بناتے بولا ۔
’’مولوی صاحب کہتے تھے کہ وہاں ہماری زندگی نہیں بلکہ سانسیں گنی جاتی ہیں۔ جو رزق قسمت میں ہو وہ گنا جاتا ہے۔ پورا کھا کر ہی موت آتی ہے‘‘ عدیل نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
’’آہستہ سانس لینے سے زندگی بڑھ جائے گی‘‘اب کے شارق نے کہا اور ساتھ ہی سانس روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔
لیکن کچھ ثانیے سانس روکنے کے بعد اس نے ایک لمبی اور گھمبیر سانس لی جیسے کوئی زندگی کی پہلی سانس کو خوش آمدید کر رہا ہو۔
’’اوں ہوں ۔ یوں نہیں ، یوں تو تم نے پہلے سے زیادہ سانسیں لے لیں ،اپنی عمر گھٹا لی‘‘احمد نے کہا ۔
’’ہاں بالکل‘‘ عدیل نے تائید کی ۔
آہستہ سانس لینے اور سانس روکنے میں بہت فرق ہے ‘‘ اس نے وضاحت کی ۔
’’ اوہ بھائی ۔ سانس آہستہ کیسے لے سکتے ہیں، یہ تو ہمارے اختیار میں نہیں ، یہ تو پھیپھڑوں کا معاملہ لگتا ہے‘‘ شارق نے نوالہ منہ میں ڈالتے کہا ۔
’’جو بھی ہے ، ہم اپنے حصے کا کھانا کھا کر اور اپنی سانسیں پوری کرکے ہی مرتے ہیں‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’وہ فضلو بابا جو دس دن ہسپتال میں بیمار رہے،پانی کا گھونٹ تک اندر نہیں جاتا تھا ، ان کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ ان کا رزق ختم ہو گیا تھا مگر سانسیں باقی تھیں ‘‘۔
’’ اوہ ! ہاں یہ بھی ہوتا ہے‘‘ شارق نے حیران ہو کر کہا ۔
’’اور اگر سانسیں ختم ہو جائیں مگر رزق باقی ہو تو ؟‘‘ احمد نے کہا ۔
’’تو انسان کو پہلے ہی زیادہ کھلا دیا جاتا ہے ، اسے کھانا ہی پڑتا ہے‘‘عدیل نے کہا ۔
’’ارے ہاں یاد آیا ہمارے جاننے والوں میں ایک نوجوان تھا ، اس نے رات کو دوستوں کے ساتھ پارٹی پر خوب کھایا پیا اور جب شام کو گھر پہنچا تو گھر والوں سے بریانی تیار کرنے کی فرمائش کی وہ سب حیران ہوئے کہ آج تو پارٹی کھا کر آئے ہو تو کیا بھوک ابھی باقی ہے ؟

مگر اس نے کہا کہ نہ جانے کیوں بریانی کھانے کو بہت دل کرتاہے ،پھر اس کی فرمائش پر بریانی تیار ہوئی تو اس نے معمول کے خلاف تین پلیٹیں چٹ کر دیں اور کہتا تھا کہ آج پتہ نہیں کیا بات ہے بھوک ہی ختم نہیں ہو رہی، اور اگلی صبح اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے فوت ہو گیا‘‘ احمد نے قصہ سنایا۔
’’ ایسا ہؤا تھا ؟‘‘ شارق ذرا ڈرا ڈرا سا لگ رہا تھا ۔
’’ہاں ایسا ہو اتھا ، اس لیے میرے بھائی ذرا آہستہ کھاؤ ‘‘ احمد نے اس کی صفا چٹ پلیٹ کی طرف شرارتی آنکھوں سے دیکھا ۔
’’ ارے نہیں، کھانے دو اسے‘‘ عدیل نے سالن والی رکابی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور احمد کی طرف دیکھ کر دائیں آنکھ میچ لی۔
’’ناں بابا ، میں تو بس اتنا ہی کھاؤں گا اور اپنی عمر اور صحت کا خیال رکھوں گا ‘‘ شارق نے رکابی پیچھے دھکیل دی اور ٹشو نکال کر ہاتھ صاف کرنے لگا ۔
’’سانسوں اور کھانے میں سے پہلے تو سانسیں ہی ختم ہوتی ہوں گی ، کیونکہ اگر بندے کی سانسیں ختم ہو جائیں تو کھانا کیسے کھائے گا وہ ‘‘ شارق نے اپنی دانست میں بڑی سمجھداری کی بات کی ۔
’’ہاں کچھ ایسا ہی لگتا ہے ‘‘ عدیل نے کہا۔
’’ لو بھئی آج سے لے سانس بھی آہستہ کہ شیشوں کی مرمت کا کوئی کام ہے، کک کک کچھ ایسا ہی کہا ناں اقبال نے ؟’’ جب شارق نے عدیل کی گھورتی نگاہوں کی طرف دیکھا تو پوچھ لیا ،اسے اندازہ ہو گیا کہ شعر حسبِ معمول غلط ہی بولا ہو گا ‘‘۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
اوراقبال نہیں میر تقی میر‘‘ عدیل نے اصلاح کی
اوہ اچھا اچھا میں تو اس کو اقبال کا شعر ہی سمجھتا رہا تھا ‘‘ احمد بولا ۔
’’اگر ہم سانس روک لیں تو کیا وقت رک جائے گا؟
نہیں ناں ؟ تو یہ توازن کیسے رہے گا کہ ہم اپنی سانسیں وقت پر کیسے پوری کریں گے؟‘‘ شارق نے سوال کیا ۔
’’اس صورت میں ہماری سانسیں کم اور وقت زیادہ ہو گا ‘ ‘ احمد نے کہا ۔
’’یار یہ کیسی الجھن میں ڈال دیا تو نے ،ایک اتھلیٹ دوڑیں لگاتا رہتا ہے اور اس کی سانسیں جلدی چلتی ہیں تو کیا وہ جلدی مر جائے گا‘‘ شارق نے کہا ۔
’’ناں جی سانسیںز یادہ لکھ دی گئی ہیں اور عمر کم‘‘ عدیل نے جواب دیا ۔
’’ہیں ؟ اس کا مطلب ہمارا شارق جو سست الوجود ہے اور پانی کا گلاس بھی خود نہیں پکڑتا اس کی سانسیں کم اور عمر زیادہ ہے ؟‘‘ احمد نے آنکھ دبا کر کہا ۔
’’ہاں شاید یہی بات ہے‘‘ عدیل نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’تو میں آج سے کھانے پینے کا خصوصی خیال رکھوں گا ، گوشت وغیرہ تو چھوڑ دوں گا ،سبزی پھل کھاؤں گا ، اب سبزی دال بندہ زیادہ نہیں کھاتا تو یوں عمر میں اضافہ….‘‘ شارق نے لمبی عمر کا سن کر خوشی سے تیز تیز کہا اور یوں اس کی سانس پھول گئی ۔
’’ اوہ ہو ۔ تم نے سانسیں گھٹا لیں ‘‘ احمد نے شرارتی مسکراہٹ سے کہا ۔
’’ عمر کے بڑھانے کے لیے گوشت کیوں چھوڑیں، یہ کوئی مناسب بات نہیں ، سب کھاؤ‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’لیکن کچھ لوگ احتیاط یعنی کولیسٹرول کنٹرول اور کچھ لوگ فیشن کے طور پر بھی ایسا کرتے ہیں‘‘احمد نے کہا ۔
’’’شاید ان کے نصیب میں کچھ حلال چیزیں کھانا لکھا ہی نہیں ‘‘ شارق نے کہا ۔
’’ ان کے گوشت چھوڑنے کی وجہ جو مجھے پسند نہیں ہے وہ یہ کہ گوشت چھوڑنے کی وجہ سے ان قوموں کے عقیدے کے قریب ہو جاتے ہیں جو گوشت نہیں کھاتے ‘‘ احمد نے کہا ۔
’’ہمیں چیز کی مقدار کم کر دینی چاہیےمگر بالکل اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام نہیں کر لینا چاہیے‘‘ اس نے بات جاری رکھی ۔

’’ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک موقع پر جب شہد نہ کھانے کی قسم کھائی تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اور سورت تحریم نازل کی‘‘ عدیل نے کہا ۔
’’صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ سب نے دھیمی آواز میں ادب سے کہا ۔
’’ان کی سنت ہے کہ سب حلال چیزیں کھاؤ اور بھوک رکھ کر کھاؤ ، کبھی بیمار نہیں ہو گے ‘‘ احمد نے کہا ۔
’’کھانے سے پہلے پانی پی لو اور چبا کر کھاؤ اور کھانا ختم کرنے کے بیس منٹ بعد پانی پیو‘‘ شارق نے کہا ۔
’’ یہ ایک ایسا نسخہ ہے جس کے سامنے دنیا کے سب غذائی چارٹس بے معنی ہو جاتے ہیں، لوگ بہت نادان ہیں ہزاروں روپے خرچ کر کے غذائی چارٹ لیتے ہیں اور 14سو سال پہلے کے اس اکسیر نسخے کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ‘‘ عدیل نے مزید وضاحت کی ۔
’’ اور تم دونوں کو یہ بھی پتہ ہو گا کہ مدینہ میں لوگ بہت کم بیمار ہوتے تھے کیونکہ وہ سنت نبوی پر عمل پیرا تھے‘‘ عدیل نے کہا ۔
تائید میں دونوں نے سر ہلایا ۔
’’اور اگر بھوک رکھ کر کھایا جائے تو ضرورت مندوں کی بھوک بھی مٹائی جا سکتی ہے‘‘۔ احمد نے یہ کہتے ہوئے ڈھابے کے نکڑ پر کھڑے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک کاغذ چننے والے بچے کی طرف اشارہ کیا ۔
سب نے اس کے ہاتھ کی سمت دیکھا وہ بچہ کاغذوں سے بھرے تھیلے کو کندھے پر لٹکائے ایک سیڑھی پر کھڑا کھانے کی میزوں کی طرف حسرت سے دیکھ رہا تھا ۔
شارق نے دو انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹی بجائی، ڈھابے پر بیٹھے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ اس بچے نے بھی اس کی طرف دیکھا تو شارق نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلا لیا ۔
’’جی صاحب! ‘‘ اس بچے نے پاس آتے ہی کہا ۔
’’ تم اپنی سانسیں تو گن رہے ہو ،اب اپنے حصے کا کھانا بھی کھا لو ‘‘ شارق نے کھانے کی پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
بچہ نا سمجھی میں اسے دیکھنے لگا ۔
’’ بیٹا آپ یہ کھانا کھا لو آرام سے ، ہمارے یہ دوست ذرا ہل گئے ہیں انہوں نے آج کھاناذرا کم کھایا ہے ‘‘ عدیل نے مسکراتے ہوئے، بچے سے کہا ۔
تینوں نے مسکراتے ہوئے اپنی فائلیں اٹھائیں اور یونیورسٹی کی طرف روانہ ہو گئے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x