ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آنکھ کا تارا – بتول دسمبر ۲۰۲۰

بھئی واہ کیا ووفلز ہیں، مدینہ کی آئسکریم کی یاد دلادی، ہمارے ہوٹل کی آئس کریم کے ساتھ ووفلز بھی ملتے تھے‘‘۔’’
کٹی پارٹی میں شریک ایک مہمان نے ووفلز کو اسٹرا بیری سیرپ میں ڈبوتے مدینہ کا نام لیتے بڑی عقیدت کے ساتھ ذائقہ کا ذکر کیا تو سب کے لیے گفتگو مقدس روپ دھار گئی۔
محفل میں شریک دس کی دس میں دین دار، دنیا دار تعلیم یافتہ اور سلجھی مانے جانے والی مختلف عمر اور شعبہ زندگی کی خواتین تھیں جنہوں نے ووفلز اور حرم کے ذکر پر دنیا، وبا اور نتیجتاً برپا صورتحال پر گفتگو شروع کردی۔ مکہ مدینہ کی غیر حاضری سب ہی کو آزردہ کیے دے رہی تھی،رب کعبہ اور نبی مدینہ کے روضہ مبارک پر عائد پاپندیوں پر غم ان کی آوازوں کے اتار چڑھاؤ پر طاری ہوتا لگنے لگا۔ فرشتے خدا کے ذکر کی اس محفل کو سکینت سے ڈھانپنے اتر آئے۔
یکایک بیگم ریشماں کرم الٰہی کا موبائل بج اٹھا۔قدیم جدید کا ملاپ اپنے آپ کو کہتیں نک سک سے تیار ریشماں ہوم شیف تھیں، ان کی انیس سو پینسٹھ کےمشہور فلمی نغمہ کی کال ٹیون ابھری تو یہ مداخلت فرشتوں اور انسانوں دونوں کو پسند نہ آئی۔ فضا سے تقدس ٹوٹااور ریشماں نےدھیمی آواز میںگفتگو شروع کی توفرشتوں نے سکینت کو لپیٹتے آسمانوں کی راہ لی۔
جتنی دیر میں ریشماں کال سن کر فارغ ہوئیں اتنی دیر میں اس محفل کے بقیہ شرکا نیا موضوع شروع کرکے اب معاشرے کی تنگ نظری پر بھرپور گفتگو کرتے سامنے رکھے خشک میوہ جات بھی پھانک رہے تھے۔ وبا میں یہ میوے کھانا صحت یابی بخش مانا گیا تھا۔
پیپر مشے کے بنے آرٹسٹک پیالے سے کاجو اور کشمش چنتے بیگم مریم فضل کی نگاہیں اس پیالے پر جم گئیں۔
’’صادقہ کیا یہ تمہارے اسٹوڈیو کا شہکار ہے؟‘‘
انہوں نے کٹی میزبان کو مخاطب کیا جو ری سائیکل اشیا پر کام کرتی تھیں۔ صادقہ نے اثبات میں جواب دے کر تعریفیں وصول کرتے ایک گلدان کی جانب اشارہ کیا۔
’’یہ بھی پیپر مشے ہی ہے، لیکن یہ میری بیٹی نے بنایا ہے‘‘۔
مریم فضل کو اس قدر دیدہ زیب گلدان صادقہ کی سادہ سی نظر آتی بیٹی کا ہنر قطعاً نہیں لگا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بس اپنی بیٹی کے بھاؤ بڑھانے کا طریقہ ہے۔ لائق کنوارے بیٹوں کی ماں کے سامنے لوگ اپنی لڑکیوں کے خواہ مخواہ گن دکھاتے ہیں۔ صادقہ کی ایک سادہ سی بات غبار آلود ہو چکی تھی۔
’’اوہ واؤ ماشاءاللہ ‘‘۔
’’لڑکیاں بہت ٹیلنٹڈ ہیں آج کل کی ‘‘۔
جھلسی سوچ کے اوپر میٹھے جملے منڈھتے انہوں نے ناز سے گردن گھما کر محفل کی نوعمر لڑکیوں کو دیکھا۔بس ایک ہی تھی جو ان کو بھاتی تھی۔
’’ میرے شاندار بیٹے کےلیےتوایسی اعلیٰ ہونی چاہیے بس‘‘۔
طعام سے فارغ ہوکر گپ شپ کرتے مہمان وقتا فوقتاً کچھ نہ کچھ ہلکی پھلکی چیزوں سے محظوظ کیے جا رہے تھے۔آج پورے گروپ کا ’’چیٹنگ ڈے‘‘ تھا۔ ریشماں کرم الٰہی نے جس وقت کال ختم کی تو پورا گروپ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محو گفتگو تھا۔
یہ سب ’’مختلف فکر‘‘ اور’’سنجیدگی‘‘ کے لیے اپنے اپنے حلقہ احباب میں معروف ، دستور اور دستار پر بڑی معقول گفتگو کرتی تھیں۔
کال سننے کے بعد ریشماں کرم الٰہی کا مسکرانے کا کوئی موڈ نہ تھا لیکن بدقت بہو کے قصور اور بیٹے کے فتور کو جھٹکتے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے سب کو مخاطب کیا۔
’’میرے ہاں پوتی ہوئی ہے ماشاءاللہ، شہود کی بیٹی‘‘۔
سب ان کی اس خبر پر فوری متوجہ ہوکر مبارکباد دیتے سوالات کرنے لگے۔
شہود نیوزی لینڈ میں ہے نا ؟
پہلی بھی بیٹی ہے؟
بہو جاب کررہی ہے؟
دوسرا بچہ کتنے وقفہ سے ہے؟
بہو کی ماں جاتی ہے ڈیلیوری پر؟
جوابات دیتی ریشماں کرم الٰہی سب کو بہت خوش لگ رہی تھیں۔
سارہ خورشید نے ان کو دوسری پوتی کی خبر سن کرنہال ہوتے رشک سے دیکھا۔اس کی سسرال نے پچھلے برس دو بیٹوں کے بعد اس کے ہاں دوسری بیٹی کی پیدائش پر کوئی تاثر نہ دیا تھا۔ خوشی کا کوئی جگنو ان کے رویوں میں نہ تھا۔ اسے بے اختیار شہود کی بیوی پر بے پناہ رشک آیا جس کی بیٹیوں کی پیدائش پر خوش ہونے والے دنیا کے دوسرے سرے پر بھی موجود ہیں۔
پستئ رنگ کے لباس میں کامنی سی رمشا رضا کٹی کی نئ ممبر بنی تھی۔ریشماں کرم الٰہی کے پوتیوں سے والہانہ تعلق کے جملے سنتی وہ اپنی زندگی میں کھو گئی۔ ماضی کا ایک ایسا ورق کھل گیا جو وہ فوراً ہی بند کرنا چاہتی تھی لیکن کچھ آوازوں نے اس کا حال تک تعاقب کر لیا ۔
’’فار گاڈ سیک امی رمشا پر خرچہ ذرا کم کیا کریں…..پہلے اس کی ایک بیٹی کی شاپنگ ہر وقت آپ کے سر پر سوار رہتی تھی، اب یہ جڑواں اور آگئیں‘‘۔
رمشا رضا کے کانوں میں بیٹیوں کی پیدائش کے بعد میکہ آمد پر اپنے بھائیوں کی آواز گونجی تو اشک ڈھلکنے کو بے تاب ہوگئے۔
اس نے فورا ًچہرے کے تاثرات سنبھالے اور ریشماں کرم الٰہی کو اپنی جڑواں بیٹیوں کی پیدائش پر رشتداروں کی مسرت کے حال سنانے لگی۔
’’ ہمارے ہاں جڑواں زمانے سے کسی کےنہیں ہوئے، میری بیٹیاں تو سب کی چاہت بن گئیں، اتنے تحائف تھے کہ اب وہ چار برس کی ہوچکیں مگر تحائف کے ڈھیر اب بھی رکھے ہیں ۔ میرے بھائیوں کی تو جان ہیں‘‘۔
سارہ کی آواز میں بلا کا فخر تھا۔ محفل کی سب ہی خواتین متاثر لگ رہیں تھیں۔
’’ اب فرق کون کرتا ہے بیٹا بیٹی میں، جاہلوں میں ہوتا ہے ایسا، تعلیم نے تبدیل کردی ہے ذہنیت ‘‘سارہ خورشید نے اپنے دراز کھلے بالوں کو ادا سے جھٹکتے کہا تو سب نے ہی تائید کی۔
’’بیٹیاں سب کو ہی پیاری ہوتی ہیں، بس ان کے نصیب سے خوف آتا ہے‘‘مریم فضل نے اتنی دلسوزی سے کہا کہ یکدم خاموشی چھا گئی۔
چند لمحوں قبل’’بیٹی کے بھاؤ بڑھانے‘‘ جیسے خیال کو ایڑ لگاتی مریم فضل کی سوچ اب تصویر بدل کر زک پہنچا رہی تھی۔
’’ ہم کیوں بھول جاتے ہیں لڑکیوں کو تو ہمارے نبی نے رحمت کہا ہے، سلام آتاہے نبی پاک کا بیٹی کی پیدائش پر‘‘ ۔
نصیب پر بات سن کر ماہ نور اپنے گولو گپولو بچے کے پیچھے بھاگتے بولی تو فرشتے نبی پاک کے قول مبارک کی جگمگاہٹ میں مقدس محفل کا اشارہ ملتے ہی آسمان سے زمین کی جانب آنے لگے ۔
’’ میرے سسرال اور میکہ دونوں میں لڑکیاں بہت کم ہیں….. سب کی بس ایک ہی بیٹی، اور دو، تین چار بیٹے‘‘۔
ماہ نور بات جاری رکھتے اپنے ننھے بچے کا منہ ٹشو سے صاف کر رہی تھی۔پچھلے ہفتہ ہی تو اس کے جیٹھ کا چوتھا بیٹا ہوا تھا، بچہ بہت ہی موہنی سی شکل کا تھا۔
”بچے کو دیکھتے ہی کہا گیا تھاہمارے خاندان میں لڑکے اپالو جیسے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے فخر کی لہر ماہ نور کےکہے میں نہ سہی محسوسات میں رچی تھی۔
فرشتے بو پا کر سکینت کے پر سمیٹتے چلے گئے۔
دور نیوزی لینڈ میں بیوی کے ماتھے پر مبارکباد کا بوسہ دیتے شہود نے اپنی ماں کے اصل تاثرات چھپاتے کہا ۔
’’ممی بہت خوش ہیں، ہماری بیٹیاں تو ان کی آنکھ کا تارا ہیں، تمہیں بہت پیار اور سلام کہہ رہی تھیں‘‘۔
شہود کی بات نے زردی گھلی رنگت میں یکدم لالیاں گھلادیں۔ شفق کے سارے رنگ فضا میں بکھرسے گئے تھے۔ قریب کھڑی نرس زیرلب مسکرائی۔ آسمانی محرابوں سے پرواز ِسکون زمین کی جانب آچکی تھی۔٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x