ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول دسمبر ۲۰۲۰

قارئین کرام!ایک نہایت مشکل اور عجیب و غریب سال ختم ہورہا ہے۔ مگر سال کے ساتھ مشکلات ختم ہونے کا امکان ابھی نظر نہیں آیا۔بالآخر وہی ہؤا جس کا ڈر تھا کہ پاکستان میں کرونا کے اعدادوشمار بڑھنے لگے۔ہم بھی دیگر ممالک کی طرح وباکی دوسری لہر کی زد میں آکررہے۔اموات کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔اچھا خاصا قابو پا لینے کے بعد وبا کا پھیلاؤ ہماری بے احتیاطی کا مظہر ہے۔ تعلیمی ادارے ، ریستوران ، شادی ہال اور دفاتر کھلے تو ہم نے’’نئے نارمل‘‘ کو کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی بلکہ پرانے انداز میں ہی میل جول جاری رکھا اور سب سرگرمیاں معمول کے مطابق ہونے لگیں۔ نتیجہ یہ کہ اب ہم ایک بار پھر کئی پابندیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان تو تعلیمی ادارے بند ہونے کا ہے۔ اللہ ہمیں اس آزمائش سے جلد نجات دے آمین۔
جب بھی دسمبر آتا ہے جسد وطن دولخت ہو جانے کا زخم تازہ ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہوش میں یہ سانحہ خود پر بیتتے دیکھا ان کا تو گویا پھر لہو رسنے لگتا ہے۔ جو جانتے ہیں ،وہ مانتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ لاپروائیوں، خودغرضیوں،بے وفائیوں، دھوکے، جھوٹ اور فریب، بے حسی اور وطن فروشی کی ایک کمال کو پہنچی ہوئی داستان ہے جس کی مثال قوموں کی تاریخ میں مشکل سے ہی ملے گی۔ اپنے اپنے مفاد کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہوئے چند کردار بڑی شقاوت سے صورت حال کو نہ صرف بگڑتا دیکھتے رہے بلکہ اصلاح کی کوششوں کو سبوتاژ بھی کرتے رہے۔ کمیشن کی رپورٹ اورآزاد تجزیوں میںاس سانحے پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جس کے ٹکڑے جوڑے جائیں تو مکمل تصویر بڑی آسانی سے بن جاتی ہے اور سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار تمام کرداروں کا کیا دھرا سامنے آجاتا ہے۔
پچاس سال ہونے کو آئے ،لاتعداد بار اس سانحے کو دہرایا گیا، مگر ابھی تک کتنے ہی سینوں میں ان کہی داستانیں موجود ہیں جو صفحہ قرطاس پر آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان ’’سقوط ڈھاکہ کی حقیقت ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے جو اس سانحے کے عینی گواہ سید ابو الحسن نے لکھی ہے۔ فریب اور جرم کا یہ باب جس کا نام سقوط ڈھاکہ ہے،ایک ایسی المناک داستان ہے کہ جب تک سینے سے باہر نہ آجائے ، سینوں کو چیرتی رہتی ہے ، دلوں پر آبلے ڈال دیتی ہے ۔اور بیان کردی جائے تو کم از کم تاریخ کی گواہی تاریخ کے سپرد کر دینے کا ایک اطمینان تو حاصل ہو جاتا ہے، ورنہ کردار تو کبھی کے مٹی میں مل چکے۔یہ اور بات کہ ُادھر حسینہ واجد آج بھی ۱۹۷۱ میں متحدہ پاکستان کا ساتھ دینے والے محب وطن ضعیف العمر بنگالیوں کو چن چن کر تختہ دار پر لٹکا رہی ہےہم تو وطن دو لخت کرنے والے سیاہ کرداروں کو تاریخ کے صفحات پر بھی مجرم نہ کہہ سکے،جرم کی سزاتو کیا دیتے۔ہماری قومی غیرت تو اس پہ بھی نہ جاگی کہ پاکستانی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے ، قربانیاں دینے اور ظلم و تشدد سہنے والے مخلص بنگالیوں کو نصف صدی بعد بھی جرم وفا پر سولی کے حقدار ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں بھارت اور روس کے ایما پر مغربی پاکستان کے خلاف اٹھنے والی عوامی لیگ کی تحریک شیخ مجیب کی ہوس اقتدار کا ایک ہتھیار تھی جسے دشمن قوتوں نے علیحدگی کی تحریک بنا ڈالا۔آخر کوئی بھی محب وطن پاکستانی کیسے اس تحریک کا حصہ بن سکتا تھا!بہرحال،شیخ مجیب جو سقوط ڈھاکہ کے تین نمایاں ترین کرداروں میں سے ایک ضرور ہے،مگر اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھٹو کے جرائم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔زیر نظر کتاب میں اس کے حوالے سے یہ چشم کشا بات لکھی گئی ہے کہ مجیب اقتدار چاہتا تھا مگرپاکستان کو توڑنے کے عزائم نہیں رکھتا تھا۔اپنی تمامتر ہوس اقتدار کے باوجود شیخ مجیب نہ انڈیا سے جنگ کا موقع آنے دینا چاہتا تھا اور نہ ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خواہش مند تھا۔مارچ ۱۹۷۱ سے آگے نو ماہ کی اسیری کے دوران اس کو ہر قسم کے حالات سے مکمل اندھیرے میں رکھنے کے بعد جب ۲۲ دسمبر کو بھٹو نے صورتحال سے آگاہ کیا تواس نے بھٹو کو کہا ’’ وہ جو تم نے کہا تھا کہ ادھر تم اُدھر ہم، وہ تم نے کر دکھایا‘‘ ڈیوٹی پر موجود سٹاف بتاتا ہے کہ بھٹو کے جانے کے بعد وہ چیخا چلایا، رویا اور جائے نماز پر بیٹھ کر کہتا رہا کہ یا اللہ میں نے ایسا نہیں چاہا تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ آرمی ایکشن کے اثرات نہایت مثبت تھے مگر انڈیا کے جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے عالمی میڈیا کا دباؤ بڑھا تو جنرل ٹکا خان کوکمان سے ہٹا کر مغربی پاکستان واپس بلا لیا گیا۔ اب جنرل نیازی کے ہاتھ میں کمان آئی اور زوال کا آغاز ہؤا۔اس کے باوجودانڈیا کے حملہ کرنے اور جنگ چھڑجانے کے بعدبھی حالات اتنے مایوس کن نہیں تھے کیونکہ پاکستانی فوج ہزاروں رضاکاروں کے ساتھ مل کر بے جگری سے دفاع کر رہی تھی یہاں تک کہ انڈیا اپنی پوری فوجی طاقت ، مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے مسلح جتھوں کے باوجود ۱۲ دسمبر تک دو شہروں سے زیادہ حصے پر قبضہ نہ کر پایا تھا ۔ پاکستانی فوج ہر محاذ پر لڑ رہی تھی کہ یکایک ۱۴ دسمبر کو یحییٰ خان نے ہتھیار ڈالنے کا حکم دے دیا اور ۱۶ دسمبر کو جنرل نیازی نے اس حکم پہ عملدرآمد کردیا۔یوں ہم نے پلیٹ میں رکھ کر جسدِ وطن کا ایک حصہ دشمن کو پیش کرد یا۔
اس کتاب سے ایک باب اس بار کے شمارے میں دیا جارہا ہے۔مگر مکمل کتاب پڑھی جانے کے لائق ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ ہم اور ہماری نسلیں فریب اور وطن فروشی کے اس باب سے پوری طرح واقف رہیں۔ تاریخ یاد رہے گی تو ہی جغرافیے کی حفاظت کا امکان رہے گاورنہ غلطیاں دہرانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
آرمینیا سے معاہدے کے نتیجے میں نگورنو کارا باخ کا علاقہ آذر بائیجان کو واپس مل گیا۔ ان کی دو نسلوں نے جانی قربانیا ں دیں مگر آزادی پر سمجھوتہ نہ کیا۔ ۲۸ سال بعد وہاں کی مسجدوں میں اذانیں گونجیں۔ اللہ کرے ہم کشمیر کو بھی غاصبانہ قبضے سے چھڑانے کے قابل ہو سکیں۔
تحریک لبیک کے بانی اور سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کورونا سے جاں بحق ہوئے ۔ مرحوم نے قانون توہینِ رسالت میں مبینہ تبدیلی کے خلاف احتجاج اور دھرنے سے شہرت پائی اور بیانگ دہل ایسے عزائم رکھنے والوں کی مخالفت کی ۔اردو ڈائجسٹ کے بانی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی داغِ مفارقت دے گئے۔ ممتاز صحافی ، کالم نگار سید عبدالقادر حسن بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ہمارے شعبہ اشتہارات کے لیے کراچی بیورو کے نگران، مختار گوہر صاحب بھی اللہ کوپیارے ہو ئے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو غریق رحمت کرے آمین۔
شہزاد احمد کے چند حسب حال اشعار کے ساتھ اجازت اگلے ماہ تک بشرطِ زندگی۔

زندگی بھر میں کوئی شے تو مکمل کر لیں
آؤ لبریز کریں صبر کے پیمانے کو
دْور تک رات کی آنکھوں میں کہیں نیند نہیں
اِتنا سنّاٹا ہے، آئے کوئی تڑپانے کو
یہ الگ بات کہ اِک بْوند مْقدّر میں نہ تھی
سر پہ سو بار گھٹا چھائی رہی، چھانے کو

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Saima
Saima
3 years ago

For feedback

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x