ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لینڈنگ – بتول جون ۲۰۲۳

’’ آج تو بہت دیر ہوگئی ہے ۔‘‘ بلال بالوںمیں کریم لگا کر کنگھاکر رہا تھا ۔ پھر اپنے لیپ ٹاپ کو بیگ میں بند کر تے ہوئے رانیہ سے کہا ’’میرا بلیزر لا دو دوسری الماری میں ہے۔‘‘
رانیہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی۔ آج اس کی فلائٹ پر ڈیوٹی تھی۔ ائیر ہوسٹس کا اپنا کام ہی وقت پر ختم نہیں ہو پاتا ۔
’’ لادو ‘‘ بلال نے جوتے کے بند باندھتے ہوئے رانیہ کی طرف دیکھ کر کہا ۔
رانیہ کی زبان پر کچھ آتے آتے رہ گیا پھر جلدی سے بلیزرلاکر دے دیا ۔ بلال نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ پھیلا دیا کہ پہنادے ۔ رانیہ نے دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیا اور کوٹ مسہری پر رکھ دیا ۔ اس کے پاس وقت کہاں تھا ۔ گاڑی کسی بھی لمحہ اسے لینے آنے والی تھی ۔ دیر کر کے وہ کوئی خطرہ تو مول نہ لے سکتی تھی ۔
ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات گھر میں وقوع پذیر ہوتے رہتے تھے ۔ رانیہ یہ نو کری اپنی مرضی اور خوشی سے کر رہی تھی اس لیے ہر کام اسے اپنی نوکری سے پیچھے ہی نظر آ تا تھا ۔
ثانیہ بڑی تھی ، اب پندرہ برس کی ہونے کو تھی اور بیٹا 10سال کا ۔ گھر کے کاموں کے لیے اسے ایک عورت مل گئی تھی جو گھر کا تمام کام بہت اچھی طرح کر لیتی تھی ۔ ملازمہ شازیہ کی طرف سے اسے اطمینان تھا جب ہی تو وہ ہفتہ بھر کی اڑان بھر لیتی تھی ۔ راستے میںکبھی کبھی سب کو بات چیت کرنے کا موقع ملتا تھا تو ہر موضوع پر بات ہوتی ۔ ہر دفعہ ٹیک آف اور لینڈنگ پر بات ضرور ہوتی ، خصوصاً اسے وہ پائلٹ بالکل ماہر نہ معلوم ہوتا جو لینڈنگ اچھی نہ کرتا اور اگر اچھی نہ ہو تو وہ کہتی کہ جہاز کو پٹخ دیا ، smoothنہیں ہے ۔
’’ چائے گرم نہیں ہے‘‘ بلال نے ایک چسکی لے کر پیالی برابر کی میز پر رکھ دی ۔
’’ مائیکروویو کرلو‘‘ رانیہ صوفے سے سر ٹکاتے ٹکاتے بولی۔
’’مم …‘‘ وہ ہچکچا یا ’’ میں تو پہلے ہی خاصا لیٹ ہو گیا ہوں ۔‘‘
’’ بھئی سارا دن یہی کام کرتے کرتے بور ہو جاتی ہوں گھر آکرتو چین لینے دو ۔‘‘
’’ وہاں پر برانہیں لگتا ؟‘‘ بلال نے شکوہ کیا ۔
’’ وہ تو میری ڈیوٹی ہے ، پیسے کس چیز کے لیتی ہوں ۔‘‘ رانیہ بولی
’’ یہ کوئی ڈیوٹی نہیں ہے؟‘‘ بلال بولا۔
’’ ڈیوٹی ہو تی ہے وہ جس کے صلہ میں کچھ ملے ، تنخواہ لیتی ہوں اور یہاں …‘‘ اس کا موڈ بگڑ گیا تھا ۔
’’ اچھا بس‘‘ بلال نے چائے کاکپ اٹھایا اورباورچی خانے کی طرف بڑھ گیا ۔ اس نے وہیں چائے گرم کر کے ایک کرسی پر بیٹھ کر پینا شروع کردی ۔
’’ امی میرے کپڑے چھوٹے ہوگئے ہیں ‘‘ مزمل نے ماںکے گلے میںبانہیںڈال کر کہا۔
’’ تو ابو کے ساتھ چلے جائو لڑکوں کے کپڑے ابو زیادہ آسانی سے لے سکتے ہیں … لے جائو نا۔‘‘ اس نے بلال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کل چلیں گے ۔‘ بلال نے مزمل سے کہا ۔
’’ ثانیہ اور مزمل کو بھی لے جانا تاکہ ناپ درست ہو‘‘ رانیہ نے کہا
’’تمہاری فلائٹ کب ہے ؟‘‘
’’ کل ‘‘ رانیہ اپنے پیروں پر لوشن لگاتے ہوئے بولی۔
’’ تو پھر آج چلتے ہیں تم بھی چلو نا ۔‘‘ بلال اس کام میں اس کا ساتھ چاہتا تھا ۔
’’ آج کچھ آرام ملے گا تو کل کام پر جا سکوں گی ۔تمہاری جوب تو مزے کی ہے نو سے پانچ۔ میری توایسی نوکری ہے کہ کئی کئی دن کی مشقت ہوتی ہے کاش میری بھی ایسی ہی نوکری ہوتی پانچ بجے تک …اور پھر گھر کے مزے …‘‘ اس نے احسان جتانے والی نظروں سے بلال کو دیکھا ۔
’’ ایسی نوکریاں تو نکلتی رہتی ہیں دیکھا کرو مل جائے گی ۔‘‘
بلال کے چہرے پر تفکر کی چھاپ تھی۔
’’ اس کے لیے بھی تو وقت چاہئے اور وہی نہیں ہے تم دیکھ لیا کرو۔‘‘
رانیہ کا عذر حاضر تھا ۔
’’ میں تو بتاتا رہتا ہوں مگر میری بتائی ہوئی کوئی نوکری تمہیں پسندکہاں آتی ہے ، در خواست تک نہیں دیتی ہو۔‘‘
’’ تم جو نوکری بتاتے ہو اس کی تنخواہ میری تنخواہ سے آدھی ہوتی ہے۔ یہ گھر پھر کیسے چلے گا اگر میں یہ رسک لے بھی لوں ۔‘‘
’’ میری اور تمہاری آمدنی سے مل کر گزارا کیا جا سکتا ہے ۔ پھر دن رات کی ملازمہ کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگر تم نوکری نہ بھی کرو تو بھی گزارا ہو سکتا ہے ۔‘‘
’’گزارا ہو سکتا ہے‘‘ رانیہ نے طنز سے جملہ دہرایا ’’ اور میں ملازمہ بن جائوں!‘‘
رانیہ اتنی بددل ہوئی کہ اس کے جسم کا بوجھ صوفہ پر گر پڑا ۔ اسے شدت سے احساس ہوا کہ بلال کو اس کی قربانی اور محنت کا ذرا احساس نہیں ۔
کچھ دن بعد اس کی پروموشن ہونے والی تھی ۔ تنخواہ میں بہت اچھا اضافہ ہونے کی امید تھی ۔ وہ دل ہی دل میں پلان بنا رہی تھی ۔ پلاٹ کی تمام اقساط تو ادا ہو چکی تھیں اور اب امید تھی کہ اس اضافے سے وہ مکان کی تعمیر شروع کر سکیں گے ۔ اس کا یہ خوبصورت خواب تھا جس کی تعبیر دونوں کی محنت سے ہی مل سکتی تھی ۔کم از کم تعمیر کی ابتدا تو ہو سکے گی اور پھر شاید بلال بھی قرض لے لیں ۔ وہ سوچتے سوچتے بہت دور نکل گئی تھی۔ پھر اسے بلال کے احمقانہ مشورے یا د آنے لگے ۔ اس کی ایسی باتیں رانیہ کے خوابوں کو ملیا میٹ کردیا کرتی تھیں۔ اسے بعض اوقات اپنی پسند پر بے حد ملال ہوتا ۔ والدین کے مناسب وقت پر شادی ہونے کے فارمولے نے اسے ہاں کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ وہ تو خیر ہوئی کہ اس نے اپنی نوکری نہ ترک کرنے کی خواہش شادی سے قبل ہی بلال کوبتا دی تھی ۔ بلال تو صرف مقامی کمپنی میں درمیانی سی تنخواہ وصول کرتا تھا جو ایک لوئر مڈل گھرانے کے اخراجات کی ہی کفیل ہو سکتی تھی ۔
وہ اکثر سو چا کرتی کہ وہ بلال سے کتنی زیادہ محنت کرتی ہے ۔ بلال تو پانچ بجے آکر گھر پر آرام کر تے ہیں ، ٹی وی دیکھتے ہیں ، دوستوں سے گپ شپ کرتے ہیں ، ہمہ وقتی ملازمہ کی سہولت ، کھانا ، پانی سب حاضر … وہ جوسفری مشقت جھیلتی تھی بلال کو کبھی بھی اس کا احساس نہیں ہو سکتا ۔ جہاز کے کانٹی نینٹل کھا کھا کر وہ دوران سفر اکتا جاتی ، گھر کا خوشبو دار سالن اور چپاتی اس سے بہت بہتر لگتی ۔ کبھی مٹر پلائویاد آتا تو کبھی شامی کباب ، جس دن اسے واپس آنا ہوتا تو ملازمہ کو انہی میں سے کوئی فرمائش کر دیتی ۔
گھر واپس آکر ڈیڑھ دن سونا اس کی ضرورت ہوتی ۔ وہ ایک دم نارمل تو نہیں ہو سکتی تھی ۔ ڈیوٹی کے دوران تو سونے جاگنے کے اوقات پر واز پر منحصر ہوتے۔ اکثر رات ہوٹل میں گزارنی ہوتی۔ بہترین ہوٹل کے نرم بستر پر لیٹتے ہی اسے گھر کا نسبتاًسخت بستر یاد آجاتا ۔ ثانیہ اور مزمل کی صورت دل میں اتر جاتی ۔ دل چاہتا فون کر لوں لیکن اکثر اس وقت ملک میں رات ہوتی۔ پھر ڈیوٹی کی مصروفیات کے دوران وہ سب کچھ بھول جاتی ۔ اسے یاد رہتا تو اتنا کہ اسے اپنے لیے اپنے گھر کے لیے اوراپنے بچوں کے لیے سخت محنت کرنی ہے اور اسے یہ اندازہ بھی بخوبی تھا کہ دورانیہ بہت طویل ہے۔آج وہ پورے ایک ہفتے کے بعد اپنے ملک واپس آئی تھی ۔ امریکہ یا اسی طرح کے کسی دور دراز ملک سے آتے آتے اتنا وقت تو لگ ہی جاتا تھا ۔
ملازمہ نے مٹر پلائو اور شامی کباب تیار کر لیے تھے ۔ مگر بے حد تھکاوٹ اور نیند نے اسے اس فرمائشی کھانے کی طرف بھی راغب نہ ہونے دیا۔ وہ بستر پر گر گئی ایک ایسے مزدور کی طرح جس نے دن بھر اینٹیں ڈھوئی ہوں۔
دوسرے دن اس کی آنکھ جب کھلی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے ۔ بلال ثانیہ اور مزمل آفس اور اسکول کے لیے جا چکے تھے ۔ ملازمہ اپنی معمول کی ذمہ داریوں میں مگن تھی۔
’’ میرے لیے پراٹھا اور چائے لے آئو ‘‘ اس نے قدرے بلند آواز میں ملازمہ کو ہدایت دی۔
’’ اچھا باجی ابھی لائی‘‘ شازیہ تھوڑی دیر کے بعد وہیں لائونج میں ایک ٹرے میں ناشتہ لے آئی۔ اسے بھر پورا احساس ہؤا کہ گھر ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر فرمائش کی جا سکتی ہے ۔
اسی دوران شازیہ نے رانیہ کو آگاہ کیا’’ باجی تانیہ بی بی کے یونیفارم چھوٹے ہو گئے ہیں ، مزمل کا جوتا آگے سے پھٹ گیا ہے ۔ لنچ باکس کھوگیا ہے ، موزے کی بس دو جوڑی رہ گئی ہے ۔ ، ایک دھوتی ہوں تو ایک پہنتے ہیں ، جانے کہاں کھو دیتے ہیں مزمل بابو … باورچی خانے میں روز مرہ کی پلیٹیں ٹوٹ ٹوٹ کر بہت کم رہ گئی ہیں ۔ کوڑے کا ڈبہ پھٹ گیا ہے اور اس میں لگانے والی تھیلیاں بھی نہیں ہیں ۔ کچھ بھی پکائوں بچے ٹھیک سے نہیں کھاتے ۔ باجی آپ جو پیسے انہیںدیتی ہیں ان سے باہر سے کھانے پینے کی چیزیں منگواتے ہیںپھر کھانا ضائع جاتا ہے ۔‘‘ اس نے ضروریات کی ایک لمبی فہرست سے رانیہ کو آگاہ کیا ۔
’’ تم نے بلال کو بتایا ہوتا ۔‘‘ اس کے ذہن پر یہ ساری باتیں بوجھ بن رہی تھیں۔ اس نے شکایتی انداز میں جواب دیا ۔
’’ کہا تھا ۔ ‘‘ شازیہ بولی۔
اسے ناگوار گزرا کہ بلال کو یہ سب معلوم ہے اور پھربھی کوئی درد سری لینے کو تیار نہیں، اتنی مزے کی نوکری کے بعد وقت ہی وقت ہوتا ہے ۔
’’ باجی وہ کہہ رہے تھے کہ باجی کو آنے دو وہ خود لائیں گی ، میری لائی ہوئی کوئی چیز انہیں پسند نہیں آتی۔‘‘ وہ آنکھیں جلدی جلدی جھپک کر بولی۔
بچے شام کو ماں کے ساتھ لگ کر بیٹھے تھے اور مامتا کی محبت بھری حرارت سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ بلال کو ویسے بھی بچوں کو لپٹانے چمٹانے کی عادت نہ تھی اسے کیا معلوم کہ یہ بچوں کی سب سے اہم ضرورت ہوتی ہے ، انہیں اپنے قریب لایا جائے انہیں پیار کیا جائے ۔
’’ کیسی ہو تم ‘‘ بلال نے اخبار کھولتے ہوئے پوچھا۔
’’ ویسی ہی ‘‘ جواب ملا ۔
’’ شازیہ کئی دن سے گھر کے سامان اور بچوں کی چیزوں کے لیے کہہ رہی ہے کب چلو گی ؟‘‘
’’ مجھے کل شام پھر نکلنا ہے ۔ آج کچھ آرام ملے گا تو کل کام کرنے کے قابل ہو سکوں گی ۔ میں آپ کو بتا دیتی ہوں بلکہ شازیہ تم سمجھ لو اور ساتھ چلی جائو ۔ ‘‘ رانیہ نے شازیہ کو اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا ۔
’’ جی باجی‘‘ وہ مستعد نظر آ رہی تھی ۔
’’ دیکھو جو چیزیں کل تم مجھے بتا رہی تھیں وہ سب لکھ لو اور بچوں کو بھی ساتھ لے جائو ، سب سامان دیکھ بھال کر لینا خاص طور پر بچوں کے یونیفارم اور جوتے پہنا کر دیکھ لینا۔‘‘
اب وہ سب بازار جا چکے تھے ۔ موقع غنیمت پا کر اس نے اپنی الماری کی دیکھ بھال کرنی شروع کردی تو کپڑوں کے ایک انبار کا سامنا کرنا پڑا ۔اچھا خاصا وقت لگ گیا ۔ بلال اور بچے بھی آگئے ۔ سامان سے لدے پھندے تھے ۔
’’ شازیہ کھانا لگا دو جلدی سے ‘‘ رانیہ بری طرح تھک چکی تھی۔
’’ باجی سب نے کھانا باہر کھا لیا ہے ۔ آپ کے لیے میز لگا دوں یا آپ کو یہیں لائونج میں لادو ں؟‘‘
’’ ٹرے میں یہیں لادو‘‘ رانیہ کچھ دل برداشتہ تو ہوئی لیکن اسے یاد رہا کہ وہ اور اس کے گھر والے علیحدہ ہی کھاتے ہیں ، کوئی نئی بات نہیں ۔
دوسرے دن اس کی فلائٹ قطر کی تھی ۔ اور اب ایک رات کے بعد گھر واپسی ہورہی تھی ۔ وہ ائیر لائن کی گاڑی میں ہی آتی جاتی تھی ۔ آج ایک سٹیورڈ کی اپنی گاڑی آئی تھی ، وہ اسکے محلے میں ہی رہتا تھا ۔ اس نے بات کی وہ بھی جلدی ہی جانا چاہتی تھی۔
گھر کے باہر اتر کر دروازے کی گھٹنی بجائی تو مزمل کھولنے آیا۔ بے حد تھکاوٹ نے رانیہ کو نڈھال کر رکھا تھا ۔ مزمل کو لپٹا کر پیار کیا۔ثانیہ سو چکی تھی ۔ اس نے آہستگی سے اپنا سفری بیگ لائونج میں رکھا او ر اپنے کمرے کی طرف بڑھی مگر کچھ دیکھ کر ٹھٹھک گئی ۔لابی میں لگے قدآدم شیشے کے زاویے میں اسے کمرے کا منظر دکھائی دے رہا تھا ۔
شازیہ ایک ہی صوفے پر بیٹھی بلال کو سوپ پلا رہی تھی اور بلال کے ہاتھ اس کا وجود سمیٹے ہوئے تھے ۔
ایسی خراب landing… سب سے بری !
اس نے سوچا،پرس نکال کر سگریٹ سلگائی اوردونوں ہاتھوں سے سر تھامے لائونج میں ہی صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔٭
…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x