ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

صابن کی پرچ – بتول جون ۲۰۲۳

فہمیدہ غسل خانے سے نہا کر نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک چینی کی پرچ تھی جس میں لائف بوائے کی ایک ٹکیہ تھی۔ اس کی نوکرانی نے دیکھ کر کہا۔
’’میں بھی نہانا چاہتی ہوں، مجھے صابن دیجیے‘‘۔ فہمیدہ نے اسے وہ پرچ دے دی اور خود آ کر تلاوت قرآن شریف میں مصروف ہو گئی۔ مسلم پاس بیٹھا اسکول کا کام کر رہا تھا۔ وہ لکھتے لکھتے رک گیا اور پوچھا۔
’’مائی کہاں ہے؟‘‘
’’غسل خانے میں ہے‘‘۔ فہمیدہ نے جواب دیا۔
مسلم نے کہا ’’پرچ ٹوٹ گئی ہے‘‘۔
مائی نے غسل خانے میں بہت دیر لگائی اور جب باہر نکلی تو ڈرتی جھجکتی فہمیدہ تک آئی اور کہنے لگی۔ ’’میں… ایک نشکان (نقصان) ہو گیا ہے‘‘۔
فہمیدہ نے پلٹ کر دیکھا تو مائی کے ہاتھ میں پرچ کا ایک بڑا ٹکڑا تھا اور زرد چہرے پر افسوس اور ندامت کے آثار ۔
فہمیدہ نے کہا ’’کوئی بات نہیں‘‘۔ اور پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔
لیکن اب وہ آیات کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکی۔ اسے رہ رہ کر خیال آتا تھا ’’مائی کو اپنے ایک ادنیٰ سے قصور پر اتنی ندامت ہو رہی ہے اور میرے سامنے آنے سے گھبرا رہی ہے۔ ہم دن میں کئی کئی مرتبہ اللہ کے بڑے بڑے قصور کرتے ہیں اور نادم نہیں ہوتے۔ اس بے چاری نے تو ایک پرچ توڑی ہے ہم انسان کا دل توڑ دیتے ہیں، رشتے داریاں اور دوستیاں توڑ دیتے ہیں۔ اللہ کے دیے ہوئے مال اور دوسری قوتوںکو ہر وقت ضائع کرتے ہیں اور شرمندہ نہیں ہوتے کہ جب مالک کے سامنے جانا پڑے گا تو کیا جواب دیں گے؟ کاش مجھے اللہ کی کسی نافرمانی پر اتنی ندامت ہی ہو جایا کرے جتنی آج مائی کو اس چھوٹے سے نقصان پر ہوئی ‘‘۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x