ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

چند سکّوں کے عوض – بتول جون ۲۰۲۳

عفت نے پڑھنا شروع کیا۔لکھتا تھا۔
’’زویا چندے آفتاب و چندے ماہتاب تو ہرگز نہیںپر دلکش اور سلیقے طریقے والی ضرور ہے۔والدین بھی نجیب الطرفین ہیں‘‘۔
کچھ طنزیہ ،کچھ ناگوار سا تاثر چہرے پر بکھرا اور جیسے اندر کی ہلکی سی سٹرانڈ اس کے لہجے میں گھل کر ہونٹوں کے راستے باہر بھی آگئی۔
’’لو یہ تو جیسے اُن کا جدّی پشتی وہ گوانڈی تھاجو ایک دوسرے کے پوتڑوں تک کے بھیدی ہوتے ہیں‘‘۔
نجیب الطرفین پر دوبارہ نظریں پڑیں ۔اس بارتلخی ایک دوسرے رنگ میں باہر آئی۔
’’نہ گئی اس کی یہ بھاری بھرکم بوجھل سے الفاظ استعمال کرنے کی گندی عادت۔پوچھے کوئی مطلب بھی آتا ہے تمہیں اس کا۔ بس فضول کی علمیت بھگارنی ہے‘‘۔
’’عفت تم آگے چلو۔تبصرے بعد میں کرنا‘‘کمرے میں موجودعباس کی تیز آواز گونجی تھی۔
’’سن 1926میں گورداسپور سے زویا کا دادا اپنے بال بچوں اور بھائی کے ساتھ یہاں کیپ ٹائون آئے تھے۔زویا کی ساری سکولنگ اور تعلیم لندن میں ہوئی کہ بڑا بھائی اور چچا چچی وہاں تھے۔کاروباری لوگ ہیں ۔ اس وقت ہیروں کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں۔دنیا میں نایاب اور قیمتی ہیروں کی سپلائی کے لیے یہ خاندان بڑی شہرت کا حامل ہے‘‘۔
اب پڑھنا پھر رُک گیا تھا۔ساتھ فٹ نوٹس بھی شروع ہوگئے تھے۔
’’دیکھو تو ذرا ہیروںپر کتنا زور ہے؟شودا کہیں کا۔آئے ہائے یہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔ مرعوب ہونے والا۔اجنبیوں کے گورے رنگ سے متاثر ہونے اور سوال جواب کرنے کہ آپ لوگ اتنے حسین ہیںیقینا بہت امیر ہوں گے‘‘۔
’’یاد ہے نا تمہیں‘‘ لمحے بھرتوقف ہؤا تھا’’ایک بار جب ہم ٹرین سے کوئٹہ جارہے تھے۔سبّی سے گاڑی میں سوار ہونے والی فیملی کے پاس پُھدک کرملنے چلا گیا۔شیخ صاحب سے ہی سیدھے سیدھے پوچھ گچھ شروع ہوگئی تھی۔ انہیں بھی سات سالہ بچے کا اِس انداز میں سوال جواب کرنا دلچسپ لگا تھا۔
’’کیوں بھئی تم نے ہماری امارت کا اندازہ کیسے لگالیا؟‘‘
’’آپ لوگ اتنے گورے چٹّے اور اتنے بڑھیا (عمدہ) کپڑے پہنے ہوئے ہیں امیر تو ہوں گے ہی ‘‘۔
انہوں نے قہقہ لگایا اور جواباً کہا۔
’’بھئی تمہارے ماں باپ کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ بیٹھے ہیں‘‘۔انگلی سے ہماری طرف اشارہ ہؤا تھا۔
’’اس وقت آپ تو اخبار میں گُم تھے۔میںنے یہ سب دیکھا تھا۔پر بات وات کیا ہورہی ہے۔جانے میری بلا‘‘۔
’’تو بھئی ملائو ذرا اپنے امّاں ابّا سے۔دیکھیں ذرا اُن کے رنگ کیسے ہیں؟ اور وہ امیر ہیں یا نہیں‘‘۔
اوریہ وہاں کھڑا کھڑا انہیں وضاحتیں بھی دینے لگ گیاتھا۔
’’آپ اُن سے تو کچھ مت پوچھیے۔ وہ کیا بتائیں گے؟ساری دولت تو ہمارے دادا سمیٹے بیٹھے ہیں۔امیر تو وہ ہیں ۔یہ تو بس ایسے ہی ہیں‘‘۔
اور اب پھر قہقہ بلند ہؤا اور ساتھ ہی شیخ صاحب اس کی انگلی پکڑ کر ہمارے پاس آگئے۔
’’بھئی آپ کا بچہ تو بہت ہی ذہین و فطین ہے اور نام بھی کتنا خوبصورت ہے رضا عباس۔‘‘
پرانی یادوں میں چند لمحوں کے لیے دونوں کھو سے گئے۔ شیخ فیملی سے ایسا دوستانہ ہؤا کہ جو خوشی ،غمی ،شادی،موت سبھوں پرلازمی حاضری کے ساتھ ساتھ ابھی بھی محبت اور اخلاص پر چل رہا تھا۔
’’چلو تو اب آگے بولو ۔کیا فرماتے ہیں‘‘چشمے کے عقب سے عباس کی متجس آنکھوںنے گھورا تھا۔
’’لکھتا ہے….امّاں اب بُرا مت منائیے گااگر یہ کہنے کی جسارت کروں کہ آپ کو میری شادی کا کچھ اتنا ارمان کبھی بھی نہیں رہا۔شاید میری الٹی پلٹی حرکتیں اِس کا باعث تھیں کہ آپ مینا اور بڑے بھیا کے سامنے سدا یہی دکھڑا روتی تھیںکہ:
ارے اِس آپ کُھدرے لڑکے سے تو کوئی توقع نہیںرکھنی مجھے۔ اس من موجی نے تو جہاں اس کا جی چاہے گا بیاہ کرلینا ہے….
تو سچی امّاں من و عن وہی بات ہوگئی ہے۔کوئی وقت ہوتا ہے نا قبولیت کا!مجھے لندن چھ ماہ کے لیے ایک کورس کے سلسلے میں جانے کا بلاوا ہے۔اتفاق ہی ہے کہ زویا کو بھی جانا پڑرہا ہے۔اس نے تجویز دی کہ ہمیں فوراً شادی کرلینی چاہیے۔لندن میں قیام کا مسئلہ مفتے میں حل ہوجائے گاکہ اس کے چچا چچی وہیں ہیں۔ان کا بچہ وچہ بھی نہیں اور گھر بھی انسٹیوٹ سے صرف قدموں کے فاصلے پر ہے۔
تو امّاں آپ سے دست بدستہ عرض ہے کہ آپ ذرا محسوس نہ کریں ۔ اگر میں یہاں شادی کرلوں‘‘۔عفت نے خط لپیٹ کر رکھ دیا۔
ممتا بھری آنکھیں گیلی ہوگئی تھیں۔چہرے پر دُکھ اور خفگی کے کتنے ہی رنگ ابھر آئے تھے جب اس نے شوہر کی طرف دیکھا تو شاکی لہجے میں بولی تھیں۔
’’دیکھو تو مفروضے گھڑنے میں کتنا ہوشیار ہے!وہ کون سی ماں ہے جو اپنے لائق فائق بیٹے کی خوشیاں دیکھنا نہ چاہے گی۔یہ سارے اندازے بھی خود ہی لگالیتا ہے۔اب کوئی پوچھے کہ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے بعد تمہیں نوکری کرنے کے لیے یہ مؤا افریقہ ہی نظر آیا تھا۔اول تو اپنے وطن لوٹتے اور جو نہیں آنا تھا تو وہاں امریکہ میں ہی ٹکے رہتے‘‘۔
عباس نے اک ذرا ہمدردی سے اس پر نظریں ڈالیں اور دلاسا دینے والے لہجے میں کہا۔
’’ عفت جانم لعنت بھیجو۔کیوں دل ہلکا کرتی ہو؟اولاد کی خوشیاں دیکھنے کو ہر کسی کا جی چاہتا ہے پر اگر وہ ہمیں یہ خوشی نہیں دینا چاہتا تو اس کی مرضی۔اور ہاں اب ہمارے اندر بھی وہ ہمت کہاں کہ ہنگاموں کے اِن دھندوں میں پڑیں‘‘۔
’’ اب یہ تو مت کہو۔ مائیں تو پالنے سے ہی اولاد کی خوشیوں کے خواب دیکھنے لگتی ہیں‘‘۔
کچھ دیر کی بوجھل سی خاموشی کے بعد اُس نے آنکھیں پونچھیں۔ ملول سی اپنی سوچوں میں تھوڑی دیر گم رہی۔ پھر ایک لمبی سی آہ سینے سے نکالتے ہوئے خود سے بولی۔
’’ چلو کلمہ گو تو ہیں۔ بولی اور رہن سہن بھی اجنبی نہیں۔ ملحدوں میں جا گھستا تو میں نے کیا کر لینا تھا‘‘۔
اور پھر چند دنوں بعد وہ دونوں بمعہ نوکروں بیٹی بیٹے اور اُن کے بچوں کے ،اُس کی شادی کی تقریب کی ویڈیودیکھ رہے تھے۔ لڑکی واقعی خوش شکل تھی۔ لباس اور تقریب کی شان و شوکت کا دیکھنے سے تعلق تھا۔
دیکھتے ہوئے کئی بار تو آنکھیں بھیگیں۔کئی بار کچھ بولنا چاہا پر ہونٹوں کو سِیے رکھنے میں ہی اُسے عافیت محسوس ہوئی تھی۔
کوئی دو ماہ بعد اس کا لندن سے خط ملا۔ لکھتا تھا۔
’’ امّاں آپ کا گلہ شکوہ سر آنکھوں پر مگر یہ بات تو آپ کی سو فی صد غلط ہے کہ مجھے آپ سے محبت نہیں۔میرا جیسا مصروف ڈاکٹر انٹرنیٹ کے اِس دور میں آپ کو خط لکھتا ہے کہ جانتا ہے اس کی ماں کو اس جدید ٹیکنالوجی سے اتنی شناسائی نہیں ہے اور اُسے خط میں لکھے ہوئے لفظوں سے میری محبت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ کوئی کہے کہ میںکسی کو خط لکھوں،اپنا گھنٹہ ڈیڑھ ضائع کروں تو یہ ممکن ہی نہیں۔حتیٰ کہ زویا کو بھی کبھی نہ لکھوں۔
چلو چھوڑو امّاں۔ تم شاکی تو مجھ سے ہمیشہ ہی رہتی تھیں۔نئی بات تو ہے نہیں۔ ہاں امّاں بہت اچھے لوگ ملے ہیں مجھے۔زویا انتہائی سمجھ دارلڑکی ہے‘‘۔
اب کوئی دس بار تو اُس نے پلّو سے آنکھیں اور کوئی دس بار ہی اپنے منہ کو ذرا ٹیرھا کرکے رندھی ہوئی آواز میں خود سے کہا تھا۔
’’ایسا ہی تھا بچپن سے۔جتنا لپٹتا تھا اُتنی ہی لڑائیاں کرتا تھا۔چلوخوش رہے۔ماں باپ تو اس میں بھی خوش ہیں کہ کوئی یاد ہی کرلے‘‘۔
اور اُس نے اِس خط کو بھی جھنگ کی چوبی کندہ کاری سے سجی چھوٹی سی صندوقچی میں ڈالا اور گھر کے دھندوں میں اُلجھ گئی۔
کبھی کبھی دکھ کا ایک گولا سا اندر سے اٹھتا اور وہ حساب کرتی کہ اتنے سال اور اتنے مہینے ہوگئے ہیں اُسے دیکھے ہوئے۔
پھر سال بھر میں ہی ایک دھماکہ ہوگیا کہ زویا نے دو جڑواں بیٹوں کو پیدا کرلیااوردونوں بچے بھیidentical twins تھے۔
خط وہ اب بھی لکھتا تھا ۔یہ اور بات ہے کہ درمیان میں وقفے لمبے ہوگئے تھے۔ زویا کے قصیدوں نے اب نئی صورت اختیار کرلی تھی۔اس کی مصروفیت،اس کا دو بچوںکو پالنا۔اس کے جاب کا بھی کوئی سلسلہ لندن آنے کے بعد شروع نہیںہوا تھا۔گاہے گاہے سکائپ پر تصویریں اور باتیں بھی ہوجاتیں۔
دونوں بچے تین سال کے ہورہے تھے جب ایک دن اس نے ہمیشہ کی طرح سرپرائز دی کہ وہ اگلے ہفتے پاکستان آرہا ہے۔
ہاتھ پیر پھول گئے ۔ ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کے لیے دوڑ دھوپ شروع ہوگئی۔انیکسی خالی پڑی تھی۔بہترین آرائش و زیبائش کے ساتھ اُسے جاذب نظر بنا دیا ۔بچوں اور میاں بیوی کی خدمت کے لیے گھر کی پرانی خادمہ کی دونوں بیٹیوں ذکیہ ،صفیہ کو منتخب کیا گیا جو سمجھ دار اور اطوار میں شائستہ تھیں۔ بہرحال اُن کے لیے شایان شان بندوبست ہوگیا۔
چلو شکر انتظار بھی ختم ہؤا۔ پیاسی ماں کی سیرابی ہوئی۔بہن بھائی، چھوٹے بڑے بچوں سبھوں سے ملنا جلنا ہؤا۔ گھر میں بہار کی سی آمد کا احساس ہوا۔ اماں،بڑے بھیا بھابھی اور مینا کو تحفے تحائف دلہن اور بچے سب بس ٹھیک ہی لگے۔
ہاں کچھ اگر کہیں تھوڑا بہت کھٹکا تھا تو وہ دلہن کا اپنے گھر گھرانے کی امارت کا گاہے گاہے تذکرہ کرنا جسے اماں اور مینا خوبصورتی سے نظرانداز کردیتی تھیں۔زیادہ گھلنے ملنے کی دُلہن نے بھی کوشش نہیں کی اور امّاں لوگوں نے بھی اپنی ممتا کو زیادہ اچھلنے کودنے سے روکا۔
اُس دن میاں بیوی بمعہ دونوں آیالڑکیوں کے کھانے کے لیے باہر چلے گئے۔ابھی آواری کی لابی میں ہی تھے کہ جب رضا کے پرانے کالج فیلوز مل گئے۔ جوشیلی قسم کی جھپیوں اور محبت بھرے معانقوں سے فراغت پاتے ہی پہلے رضا نے دوستوں کا بیوی بچوں سے تعارف کروایا۔ بعدازاں زویا کو اپنی پسند کا کھانا کھانے کے لیے ڈائننگ ہال کا بتاتے ہوئے کہا کہ وہ یہ وقت اپنے پرانے دوستوںکے ساتھ گزارے گا۔نیز کھانے کے بعد اگر ان کا سیر سپاٹے کا موڈ ہوتو ڈرائیور کے ساتھ گھوم پھر لیں اور پھر گھر چلی جائیں، وہ خود ہی آجائے گا۔
سیر سپاٹے کا غالباً زویا کا موڈ نہ تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر اس نے گھر واپسی کی جلدی کی۔ ذکیہ نے قہوہ بناکر دیا۔بچے لائونج میں کھیلنے لگ گئے۔دونوں بہنیں’’ ہم ابھی تھوڑی دیر میں آتی ہیں‘‘ کہتے ہوئے بڑی امّاں والے حصّے میں آگئیں۔زویا نے ٹی وی آن کیا ۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کے چینل بدلے۔کوئی ڈھنگ کا پروگرام دیکھنے کو نہ ملاتو اُسے بند کردیا۔ بچوں کو دیکھا ۔دونوں کا کوئی موڈ ہی نہیں لگ رہا تھا بستر پر جانے کا۔ وہ اب سونا چاہتی تھی۔
زویا کو اس گھر میں بہت آرام ملا تھا ۔ دونوں لڑکیاں ،دونوں بچوں کو سنبھالتی تھیں۔اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے اور لڑکیاں جانے کہاں تھیں۔رضا بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔بچوں نے اب اُسے تنگ کرنا شروع کردیا تھا۔ تھوڑی دیر وہ انتظار میں رہی پھر اس نے ساس سے فون پر پوچھا۔
یہ دونوں لڑکیاں نظر نہیں آرہیں؟‘‘
’’بس تھوڑی دیر میں آتی ہیں‘‘۔اماں نے رسان سے کہا۔
وہ سخت غصّے میں تھی۔ کوئی دو گھنٹے بعد جب لڑکیاں چہکتی مہکتی اندر آئیں۔ اس نے تیز نوکیلے لہجے میں کہا۔
’’کہاں تھیں تم؟‘‘
صفیہ نے تھوڑی سی سنجیدگی اور تھوڑی سی شرارت آمیز شوخی سے کہا۔
’’دُلہن بھابھی دراصل ہم آواری کھانا کھانے گئی تھیں‘‘۔
’’کیا ؟کہاں؟ ‘‘زویاکی تو مانو جیسے آنکھیں اُبل کر باہر آگئیں۔
’’ارے دُلہن بھابھی وہیں ناجہاں آپ لوگ ابھی کھانا کھا کر آئی ہیں۔‘‘
اب ہیروں کے بین الاقوامی بزنس مینوں کی بیٹی کھڑی بٹر بٹر انہیں دیکھتی اور پوچھتی تھی۔
’’کس نے بھیجا تھا تمہیں وہاں‘‘۔
’’امّاں نے‘‘۔
صفیہ نے پل نہیں لگایا اور بول اٹھی ۔
’’دُلہن بھابھی‘‘ذکیہ متانت سے بولی’’ ہم تو دراصل کچھ کھانے کے لیے کچن میں گئے تھے۔صفیہ فرج کھولے جھکی ہوئی برتنوں کو آگے پیچھے کرتے ہوئے سالن کی کھوج میں تھی اور میں اُسے کہہ رہی تھی،کیا فضول میں وقت ضائع کررہی ہو، امّاں فرج میں سالن رکھنے کے بہت خلاف ہیں۔ہر آئے گئے کے لیے تو جو گھر میں ہوتاہے حاضرکردیا جاتا ہے۔آج تو یوں بھی کچھ نہ ہونے کا بہت امکان ہے کہ بڑی بھابھی اور بچے صبح سے اپنی نانی کے گھر گئے ہوئے ہیں۔چلوآملیٹ پراٹھا بنا کر کھا لیتے ہیں۔
عین اُسی وقت امّاں اچانک دروازے میں نمودار ہوئیں۔وہ شاید پانی پینے کے لیے آئی تھیں۔انہوںنے ہمیں دیکھا اور پوچھا،تم لوگ اس وقت یہاں کیا کررہی ہو؟صفیہ نے کہا۔
’’ اماں بھوک لگی ہوئی ہے۔ کچھ کھانے کے لیے دیکھ رہے تھے‘‘۔
’’ہیں کیوں؟ تم لوگ تو دلہن اور چھوٹے بھیا کے ساتھ کھانے پر گئی تھیں۔‘‘
اب ہم دونوں چپ کھڑی تھیں۔وہ جہاں دیدہ عورت ہیں۔ہمارے چہروں پر چھائے گومگو کے تاثرات یقینا انہوںنے پڑھ لیے ہوں گے۔ دھیرے سے پوچھا۔
’’کیا کھانا اچھا نہیں تھا۔پیٹ بھرکر کھایا نہیں گیا‘‘۔
اب ہم جھوٹ کیسے بولتے دُلہن بھابی ۔کہنا پڑا ’’یہ تو معلوم نہیں امّاں اچھا تھا یا بُراکیونکہ ہم نے تو کھایا ہی نہیں۔بس سنی ہنی کو کھلاتے رہے۔دلہن بھابھی نے کہا کہ ایسے کھانوں کی تم عادی نہیںہواس لیے گھر جاکر کھانا‘‘۔
سچ کہتی ہوں مجھے محسوس ہؤا تھا کہ جیسے انہیں ایکا ایکی کرنٹ لگ گیا ہو۔اُن کا حال ایسا تھا کہ جیسے بندہ سکتے میں آجائے۔
کچھ دیر بعد اماں نے ڈوبتی سی آواز میں پوچھا تھا۔
’’چھوٹے بھیا نے کچھ نہیں کہا ‘‘۔
میں نے کہا’’امّاں چھوٹے بھیا نے تو ہمارے ساتھ کھانا ہی نہیں کھایا۔ان کے کچھ دوست مل گئے تھے۔انہوںنے تو انہیں وہ جپھا ڈالا کہ وہ دلہن بھابھی سے ملواکر اُن کے ساتھ چلے گئے۔ تھے تو وہیں ہوٹل کی لابی میں ہی ۔پر ہم تو ڈائننگ میں بیٹھے تھے‘‘۔
سیدھے سادھے لفظوں میں یہاں تک کے بیانیے کے بعد ذکیہ جیسے چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگئی ۔مگر لمحے بھر کے توقف سے بات کو جاری رکھا۔
انہوںنے ڈرائیور کو آواز دی اور کہا کہ انہیں وہیں لے جائو اور کھانا کھلالائو۔اور ہاں تم بھی کھا لینا۔ تم نے بھی کہاں کھایا ہوگا۔ہم نے نہ نہ کی۔بہت بار کہا۔
’’ امّاں گھر میں بہت ساری چیزیں ہیں۔سبزیوں والا آملیٹ بنا لیتے ہیں ‘‘۔
انہوں نے گُھرکا۔’’تم چاہتی ہو مجھے رات نیند نہ آئے‘‘۔
دراصل دلہن بھابھی اِس گھر کی ریت ہے جو وہ خو د کھاتے ہیں وہی اپنے نوکروں کو کھلاتے اور پہناتے ہیں۔
پتھرکی طرح ساکت کھڑی زویا کو ذکیہ نے بس ایک نظر دیکھا اور ہنی کی طرف توجہ کی کہ جو کُرسی سے چھلانگ مارنے کے لیے بازو اوپر کررہا تھا۔وہ بھاگی اور اُسے بازوئوں میں دبوچ لیا۔زویا ناگواری کے تاثرات چہرے پر لیے کمرے میں چلی گئی۔
سمجھ دار لڑکی نے اُس منظر کی تصویر کشی سے گریز کیا تھا۔ اُن جملوں کو بھی نہیں دہرایا تھا جو امّاں کی زبان سے نکلے تھے کہ تھوڑی دیر قبل کا سارا منظر تو آنکھوں کے سامنے تھا۔
امّاںتو بڑی سچی اور کھری عورت تھیں۔لگی لپٹی کی قائل ہی نہ تھیں۔ذکیہ نے دیکھا تھا۔کھانا نہ کھلانے کی بات سن کران کے چہرے کا رنگ غصّے سے سُرخ ہوگیا تھا۔ بے اختیار اُن کے ہونٹوں سے نکلا تھا۔
’’جاتی ہوں۔پوچھتی ہوں ابھی جاکر اِس نجیب الطرفین ہیروں کے تاجر خاندان والی سے….ارے ڈوب نہیں مریں تم…..نوالے کیسے اترے تھے تمہارے حلق سے ؟دو معصوم بچیاں تمہارے بچوں کو کھلا رہی ہیں اور تم خود بھی کھارہی ہو۔اُن کے پیسے بچا کر کتنی بچت کرلی تم نے‘‘۔
زویا چلی گئی تو ذکیہ بولی ’’سچی بات ہے صفیہ!مجھے اُس وقت امّاں پر کتنا پیار آرہا تھا۔میں کہنا تو چاہتی تھی کہ امّاں ہم تو دلہن بھابھی کی کئی چھوٹے پن کی باتیں دیکھ سن کر اپنے منہ بند رکھتی ہیں کہ ہماری ماں کی تاکید ہے چھوٹے بھیابہت سالوں بعد آئے ہیںگھر میں کوئی فساد نہ ہو۔مگر میںنے یہ سب کہنے سے گریز کیا۔امّاں بہت اضطراب میں تھیں۔
اف میرے خدایااتنی تھڑدلی! اُن کا تاسف اور دُکھ کم ہونے میں نہ آرہا تھا۔اشتہا انگیز خوشبووئوں والے اُس ماحول میں معصوم بچیوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی۔ ہم کتنے ظالم لوگ ہیں۔ کیسے چند سکوں کے عوض جذبات کچل ڈالتے ہیں۔
وہ چند لمحے کھڑی تپتی ،سڑتی ،بولتی اپنے دُکھ کا اظہارکرتی رہیں۔تواضع کے لیے انیکسی کی جانب قدم بھی اٹھائے مگر پھر رُک گئیں ۔ مضطرب سے لہجے میں خود سے ہی بولی تھیں۔ اس کمبخت ماری ممتا کو تو دیکھو ذرا ….کیسے چیخ کرسامنے آگئی ہے ،کہتی ہے:
’’اے کیا بائولی ہوگئی ہو۔جانتی نہیںہواُسے۔نرابُھس میں چنگاری  ہے۔سالوں بعد آیا ہے۔جانے کتنا بُرا مانے۔‘‘
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x