ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

صدقہ – بتول جون ۲۰۲۳

کئی دنوں سے سب گھر والے نوٹ کر رہے تھے کہ مجیداں کام میں سست ہو گئی ہے ۔ایک بات دو تین مرتبہ کہنا پڑتی ،پھر جا کر اسے سنائی دیتی ، چہرے مہرے سے بھی بیزاری اور تھکاوٹ دکھائی دیتی ،کہاں تو یہ کہ وہ کام مکمل ہونے کے بعد دس ایک منٹ سانس درست کرنے کے بہانے بے فکری سے بیٹھ کر اپنے نکھٹو میاں اور نافرمان اولاد کے قصے سناتی،کچھ مشورے لیتی اور زور دار آواز میں سلام دعا کے بعد رخصت ہوتی۔اور اب یہ حال کہ کام ادھورا رہ جاتااور وہ اچانک ہی ،اچھا بی بی جی میں تاں چلی آں ،کہہ کر یہ جا وہ جا۔
جب مسلسل ایسے ہی ہوتا رہا تو امی جی ( ساس) نے اسے وقت رخصت روک کر پوچھا ۔
’’کیا بات ہے آج کل بجھی بجھی سی رہتی ہو کام بھی ڈھنگ کا نہیں کر پارہیں کوئی مسئلہ ہے ؟‘‘
’’نئیں وڈی بی بی جی کج وی نئیں‘‘اس نے جواب دیا ۔
اس پر امی جی نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر اس کی دماغی غیر حاضری کے دس قصے سنائے ۔
بیٹھی چپ چاپ سنتی رہی پھر سسکی بھر کر رقت آمیز لہجے میں بولی ۔
’’اپنا کرتا اوپر کرو تو اپنا ہی پیٹ ننگا ہوندا ہے بی بی جی کیا بتاؤں میری وڈی بیٹی نے بہت تنگ کیا ہوا ہے ‘‘۔
’’کیوں کیا کہتی ہےوہ شہزادی ؟‘‘ امی جی نے سوال کیا جس کے جواب میں وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولی ۔
’’وہ کہتی ہے رب نے ہمیں غریب کیوں پیدا کیا ہے ؟ہمارا کیا قصور ہے ؟ ‘‘
’’پھر ؟‘‘ امی جی نے کریدا ۔
’’وہ کہتی ہے میں فلموں ڈراموں میں کام کرکے امیر ہو کر دکھاؤں گی ‘‘۔
’’اس کے لیے بھی بننے سنورنے کھانے پینے کا ڈھنگ آنا چاہیے اور ساتھ میں رج کے بے حیا اور بے غیرت بھی‘‘،امی جی نے غصے سے کہا ۔
’’ہاں جی وڈی بی بی جی میں نے خود اسے سمجھایا ہے کہ خالی چٹی چمڑی سے ڈراموں میں کام نہیں ملتا تو اب اس نے ایک پارلر میں داخلہ لیا ہے اور ووہٹیاں بنانا سیکھ رہی ہے ۔روز کے سو دو سو اسے چاہیے ہوتے ہیں ،روز ہاتھ منہ دھوکر سرخی پوڈر لگا کر جاتی ہے اس کا الگ سے خرچہ….منہ دھونے کا صابن بھی تو بہت مہنگا ہوگیا ہے، چار دن میں گاچی ( ٹکیہ ) ختم کردیتی ہے ،میں نے دو گھروں میں اور کام پکڑ لیا ہے، بس یہ بات ہے…. لیکن ایک گھر تو میں نے چھوڑ دیا جی، کام ست نوکروں کا لیتے تھے اور تنخواہ ایک کی بھی دیتے دم نکلتا تھا ….بس اب ایک ہی گھر ہے ‘‘۔
اپنی داستان سنا کر وہ رخصت تو ہوئی لیکن اگلے دن روتی دھوتی صبح سویرے ہی پہنچ گئی ۔بات بات پر مسکراتے ہوئے جو کام دو تین ہفتوں سے نہیں کر پائی تھی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف تھی۔ بقول اس کےان بیس دنوں میں ڈنگروں کی طرح کام لے کر اس گھر والوں نےپیسے دو دنوں جتنے بھی نہیں دیے۔جان چھٹی جی میری ،جاتے جاتے اس نے پھر سے خوشی کا اظہار کیا ۔
چند دن اچھے گیان دھیان سے کام کرنے کے بعد ایک دن جب کہ ہم اس کے آنے سے بھی مایوس ہوچکے تھے، دن ڈھلے وہ لٹکے منہ اور سست قدموں سے داخل ہوئی ۔
’’اب کیا ہوگیا مجیداں ؟‘‘ سب کا دل دھک سے رہ گیا اس کے چہرے پر انگلیوں کے نشانات تھے ۔
’’بی بی جی میں آپ کو کیا بتاؤں…. نواب دین صاب کی وڈی اور چھوٹی دونوں بیگموں نے میری کتنی بے عزتی کی ،مجھے دھمکیاں دیں ،مجھے مارا ، میری تنخواہ دیے بغیر مجھے نوکری سے نکال دیا ‘‘۔
مجیداں نائن روتے روتے بے حال ہو گئی تھی۔
’’لیکن ہوا کیا ؟‘‘
’’بی بی جی ان کے پروہنوں نے آنا تھا ۔انہوں نے مجھے پیسے دیے اورکہا جائو کیلے لے آئو ۔میں بد نصیب کریلے سمجھی‘‘،وہ پھسک پھسک کر رونے لگی۔
’’اتنی سی بات پر تو کوئی اتنی بے دردی سے نہیں مارتا کہ انہوں نے کیلے کہا تم کریلے لے گئیں۔ کوئی اتنی گری ہوئی حرکت کیسے کر سکتا ہے؟ سننے میں تو سب کو ہی غلطی لگ سکتی ہے‘‘امی جی نے حیرت سے پوچھا۔
’’آپ مجھ سے قسم لے لیں بی بی جی میں جھوٹ نہیں بول رہی، ان کے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے انہوں نے مجھے سوروپے دے کر کہا جلدی سے کیلے لے آئو ،مجھ بد نصیب کو سننے میں غلطی ہو گئی۔ اریب قریب کی کسی دکان سے کریلے نہیں ملے اور ایک دو دکانوں پر یہ بے موسمی سبزی دھری تھی ۔وہاں سو روپے میں تین چار کریلے مل رہے تھے ۔میں غریب پیدل چل کر منڈی پہنچی کلو کریلے لے کر آئی تو مہمان واپس جاچکے تھے۔اندر جاتے ہی گالیوں کا طوفان تھا ۔مجھے کام چور ،حرام خور اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہا گیا ۔جب میں نے بتایا کہ میں پورا ڈیڑھ کلو میٹر پیدل چل کر یہ کریلے لائی ہوں یہاں سے تو مہنگے بہت تھے ،تو ان کی بیٹی نے چیخ کر کہا ،کیلے کہا تھا جاہل عورت تم کریلے اٹھا لائی ہو؟مجھ سے کریلے چھین کر کہا ،اب یہ کریلے تمہارے منہ پر دے ماریں تو اچھا ہوگا ،جائو دفع ہو جاؤ آئندہ ہمیں ایسی بے وقوفوں کی سردار سے کام کروانے کی کوئی ضرورت نہیں جسے کریلے اور کیلے کا فرق نہیں معلوم ….مہمانوں کے سامنے کیا پلیٹ میں کریلے سجا کر رکھتے ؟‘‘
ابھی وہ ساری عورتیں بول بلارا کر ہی رہی تھیں کہ اتنے میں ان کے گھر کے مرد بھی آگئے۔ وہ بھی واہی تباہی بولنے لگے‘‘ہچکیوں سے روتے ہوئے مجیداں نے داستان جاری رکھی ۔
’’ہم غریب ضرور ہیں جی پر بھیک منگتے یا فقیر نہیں کہ جو مرضی ہمیں کہہ دو ہمیں دکھ نہیں ہوگا ،محنت کر کے کھاتے ہیں ،پر جی ….‘‘اس نے ٹھنڈی سانس خارج کی ۔
’’قصور تو سارا میرا اپنا ہے ،مجھے عبدالسلام صاحب کی گھر والی نے بتایا تھاان لوگوں کے گھر میں کام نہ کرنا ان کے متعلق مشہور ہے کہ یہ جو بھی کام والی رکھتے ہیں پندرہ بیس دن کے بعد بغیر تنخواہ دیےنکال دیتے ہیں‘‘وہ آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی ۔
’’مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی….تین تین دکانوں کے مالک ہو کر بھی اتنے چھوٹے دل کے ؟ گالیاں دیں کمی کمین کہا مارپیٹ کر کے نکالااور محنت مزدوری بھی نہ دی ،یہ کیسے ہوسکدا ہے جی ؟‘‘
’’تم صدمہ نہ لو مجیداں ،بس کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ذرا سخت مزاج اور دل کے تنگ ہوتے ہیں ۔جب تمہیں دو گھر ملے ہوئے تھے کام کے لیے تم نے تیسرا کیوں لیا ؟‘‘امی جی نے کہا ۔
’’بی بی جی مہنگائی بہت ہے…. بیٹی بھی آنے بہانے پیسے مانگتی رہتی ہے ،گزارا نہیں ہوتا ،چلو خیر ،اب آپ لوگوں سے صلاح مشورہ کرلیا کروں گی‘‘وہ بولی ۔
’’ٹھیک ہے ،اب گھر گھر جانے یا ان کے متعلق کسی سے بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ،ان کا معاملہ خود خدا دیکھ لے گا۔ ایک در بند ہوتا ہے تو دو اور کھل جاتے ہیں ۔بس غریب کی نیت صاف ہو اور دینے والا بھی سوہنے محبوب ﷺکالی کملی والے کے دنیا سے رخصت ہوتے وقت کے آخری کلمات کو یاد رکھے جو انہوں نے فرمائے کہ اپنی نمازوں اور غلاموں کا خیال رکھو،اگر ہر کوئی ان کا دھیان رکھے تو یہ نوبت ہی کیوں آئے ….صدقے جاؤں انہیں اندازہ ہوگا ناں کہ ان کی امت کے ملازمین کے ساتھ معاملات کیسے ہوجائیں گے تبھی تو جاتے وقت بھی ان کا خیال رکھنے کی تلقین کر کے گئے ‘‘۔
مجیداں گم سم ان کی شکل دیکھ رہی تھی ایک دم اس نے امی جی کی طرف دیکھا اور بولی ۔
’’مجھے تو یہ جی آپ نے نئی گل بتائی ہے مجھے تو صدمہ ہی لگ گیا تھا کہ میرے پچیس دن کے پیسے مار گئے ….بی بی جی صدقہ تو امیر غریب سبھی دیتے ہیں، چلیں میری طرف سے اتنے دنوں کا بغیر تنخواہ کے یہ کام ان پر صدقہ ہؤا ،ٹھیک ہے ناں بی بی جی ‘‘۔
صبح سے شام تک محنت مزدوری کر کے سات بچوں کا پیٹ پالنے والی کمی کمین نے تین دکانوں اور دو کوٹھیوں کے مالکین کو اپنی اجرت صدقہ کر دی تھی ۔
مجیداں کے چہرے پر چند لمحے قبل کا دکھ اب اطمینان اور سکون میں بدل چکا تھا ۔اس کے لہجے میں اب بہار کے پھولوں کی تروتازگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x