ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حق لے کر رہنا ہے – بتول اگست ۲۰۲۱

دنیا میں انسان نے خود اپنے لیے جو سب سے بڑا فساد کھڑا کر رکھا ہے وہ ’’حق لینے‘‘ کا ہے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کی ایک لا متناہی لسٹ ہے جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں آرام و آسائش کے وسائل وافر، وسیع اور سہل الحصول ہوتے جا رہے ہیں تو حقوقِ انسانی بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے زندگی کس قدر ہلکی، آسان اور پر سکون تھی۔ جب وصول کرنے کی نسبت دینے کی فکر رہتی اور اسی میں قلبی خوشی و راحت محسوس کی جاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات، ذاتی حقوق کا حصول مقصد زندگی نہیں بنا تھا اور اپنے حقوق کےبارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نہ ہی یہ اس قدر گھمبیر مسئلہ تھا۔ اب ہر انسان وہ نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو اپنے حقوق کا پرچم لیے پھرتا ہے۔ والدین سر توڑ کوشش میں لگے ہیں کہ بچوں کو مطمئن کر سکیں مگر اولاد اپنے حقوق پہ سمجھوتہ کرنے پہ راضی نہیں۔
میاں بیوی نے ایک دوسرے سے حقوق لینے والی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح باہم سمدھیانوں کے دل ایک اندھا کنواں بنتے جارہے ہیں۔ ہر رشتہ، تعلق جو انفرادی ہو، ادارے کی صورت میں ہو ملکی یا بین الاقوامی ہو’’حق لے کر رہنا ہے‘‘کی لے پہ ڈھول پیٹ رہا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے عزت اور کامیاب زندگی کے لیے ’’حقوق دینے‘‘کی شرط رکھی ہے وہ کامیاب زندگی دنیا کی ہو یا آخرت کی۔قرآن پاک جو پوری انسانیت کی کامیاب زندگی کے لیے لائحہ عمل ہے کوئی اس پہ ایمان لائے بغیر، آخرت میں کامیاب ہونے کا تصور لیے بغیر صرف دنیاوی کامیابیوں کے لیے ہی اس کو قانون زندگی بنا لے تو وہی دنیا کا فاتح ہوگا کامیابی اسی کے قدم چومے گی۔ اگر اس پہ ایمان بھی ہو آخرت بھی مطمح نظر ہو تو ’’ نور علیٰ نور‘‘ ہو جائے۔ اور یہ بات محض کوئی فرضی سوچ نہیں، ایسی اعلیٰ مثال اور نمونہ دنیا نے دیکھا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قرآن پاک پہ ایمان والے موجود نہیں؟ کیا پڑھنے پڑھانے والے اور اس کے نکتہ ور ناپید ہوگئے ہیں؟
افسوس کہ مسلم امہ میں اکثریت قرآن پاک کو اس نگاہ سے دیکھا کرتی ہے کہ اس میں اس کے اپنے کیا حقوق درج ہیں؟ حالانکہ قرآن پاک میں صرف ایک بار سورہ القصص کی آیت نمبر 77 کے چھوٹے سے ٹکڑے میں قاری کو احساس دلایا ہے کہ
’’اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر‘‘
ملاحظہ کیجئے مکمل آیت کا ترجمہ:
’’ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں بھی آخرت کی فکر غالب اور احسان کرنے کی تلقین پہ زیادہ زور ہے۔
دراصل انسانی دماغ میں دنیا حاصل کرنے کی خواہش بے لگام ہو جائے تو وہ ہوس کی اس سرحد تک جا پہنچتی ہے جہاں سے قبر شروع ہوتی ہے، اور اسی دماغ میں آخرت حاصل کرنے کی لگن لگ جائے تو بھی انسان بالآخر قبر تک ہی جا پہنچتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ دنیاکی ہوس میں صرف ’’حصول‘‘ نصب العین ہے اور آخرت کی لگن میں دنیا لٹانے کا جذبہ ہے۔ سوچ فرق ہے تو انجام بھی برابر نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے، اس نے ساری کائنات کو’’ عطا کرنے‘‘کے اصول پہ قائم کیا ہے۔ نباتات جمادات عطا کرنے، دینے کی خوبی سے مزین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی، وہ

کسی نہ کسی طور دوسرے کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ کہ وہ اس فائدے کو حقدار تک پہنچائے۔ آسمان سے زمین تک ساری تخلیق ایک دوسرے کا سہارا ہے، کارآمد ہے، باہم بقا کا ذریعہ ہے۔ دوسروں کو ان کا حق پہنچانے کی فکر غالب ہو تو کسی کو بھی ’’حقوق کی جنگ‘‘ میں سڑکوں پہ آکر احتجاج نہ کرنا پڑے نہ بھوک ہڑتال ہو اور نہ ہی ایسے ادارے جنم لیں جوعوام الناس کو حقوق دلوانے کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے’’عطا کرنا‘‘ اپنے اوپر لازم کر لیا اور یہ اسی کا حق ہے کہ وہ عطا کرے۔ اس نے عطا کر دینے کی صفت مجازاً اپنی مخلوق میں بھی رکھ دی ہے۔ یہی اصول کامیابی کا راز ہے۔
انسان سب مخلوق میں ممتاز ہے اور مسلمان ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑا اعزاز ہے، اور جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی عطا کرنے والی صفت سے متصف ہوگا اس کا قلب و ذہن لینے سے زیادہ دینے پہ مرتکز ہوگا۔ اس کا سلوگن یہ ہوگا کہ ’’میں نے سب کو حق دے کر رہنا ہے ‘‘۔ اور یہی سوچ ہر مسلمان کی ہر مقام پہ ہر میدان میں ہر تعلق کے ساتھ ہوجائے تو کون محروم رہ سکتا ہے۔ اسلامی معاشرے کا حسن یہی ہے کہ اس کا ہر فرد لینے کی نہیں دینے کی فکر رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قاری کو یہی تلقین کی ہے جس جس کا جو بھی حق مقرر کیا گیا ہے وہ اس کو دو اور خوشی سے دو ۔ یعنی ہر رشتے ناطے کے حقوق کی درجہ بندی بھی کر دی ہے، ترجیحات کا تعین کر دیا ہے۔ وقت اور عمر کے ساتھ حقوق دینے کی نوعیت بدل جاتی ہے تو ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔
اللہ رب العزت حالات کے الٹ پھیر سے لوگوں کی آزمائش کرتے رہتے ہیں تاکہ اندازہ لگائیں کہ کون’’عطا کرنے کے احسن عمل‘‘ میں سبقت لے جاتا ہے۔ ارض و سما کی آنکھ گواہ ہے کہ ’’مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے‘‘ اور آج کا بادشاہ کل کا فقیر ہے اور کل کا فقیر بے نوا آج پارس بنا ہوا ہے۔ ناتواں بچے کڑیل جوان اور کل کے کڑیل جوان انہی ناتواں بچوں کے سامنے بے بس پڑے ہیں۔ کبھی بچوں کو حق مل رہا تھا اب بزرگ بوڑھے کمزور اور بیمار بچوں کی شفقت اور رحمت کے حقدار ہیں۔
ایک مسلمان فرد جب دنیا میں حقوق حاصل نہیں کر پاتا تو وہ آخرت میں اپنے حق لے لینے کا دعویٰ دائر کر دیتا ہے۔ وہ کم درجے کا مسلمان ہے متوسط یا تقویٰ کے اعلیٰ معاشرتی معیار پہ، وہ حشر کے دن کا منتظر رہتا ہے کہ زیادتیوں اور حق تلفیوں کا بدلہ ملے گا ۔بھلا اس میں کس کو شک ہے واقعی میدان حشر ہر زیادتی کا ازالہ کرنے کے تیار کیا گیا ہے ۔ہر مظلوم کو حق دلانے کے لیے رب کائنات نے عدالت لگانی ہے اور ضرور لگانی ہے۔ حق دار کو اس کا حق مل کر رہے گا ۔
اس دن تو دل، دماغ، افکار اقوال اعمال، اشارے کنائے کی خوب جانچ پرکھ ہوگی ۔نیتوں کو مجسم کر دیا جائے گا ہاتھ پاؤں اور جسم کا ہر حصہ حتیٰ کہ کھال بھی زبان حال سے سب بیان کردے گی۔ درو دیوار، ماحول کا ہر ذرہ گواہ بن جائے گا۔ صوتی و تصویری اور اپنی تصنیف کردہ کتاب پوری جزئیات کے ساتھ سامنے آجائے گی ۔انسان جن باتوں کو زبان سے کہتے ہوئے پرِکاہ وقعت نہیں دیتا وہ بھی دیکھ کر سراسیمہ ہوگا۔ پھر تو ایسے اوسان خطا ہوں گے کہ بس اپنی فکر کے سوا سب فکریں بھول جائے گا۔ دنیا میں لگتا تھا حقوق ملنے کے لیے حشر کی عدالت صرف میرے لیے لگے گی۔ اب آنکھیں ایسی کھلیں گی کہ معلوم ہوگا کہ یہاں تو حشر میرے خلاف برپا ہے اور بہت طویل قطاریں لمبی لسٹوں کے ساتھ ہم سے ہی حقوق لینے کی دعوے دار ہیں۔ اس وقت انسان سوچے گا کہاں ہے فرار کی راہ؟ مگر نہیں ملے گی کوئی جائے فرار اور نہ کوئی نظر آئے گاہمدرد و غم خوار۔
حقوق اللہ کے بارے میں تو ہمیں گمان غالب ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت رحیم ہے اپنے حقوق معاف کر ہی دے گا اور یہ سبق بہت اچھے سے یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جیسا گمان رکھیں گے وہ ہمارے ساتھ ویسا ہی معاملہ رکھے گا۔ چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارا اچھا گمان ہمیں نجات عطا کر دے گا۔عبادتوں والا حق معاف کر بھی دیا جائے تو نعمتوں پہ شکر گزاری کا حق تو پوچھا ہی جائے گا اور وہ نعمتیں جن کا شمار ہی ممکن نہیں۔

ٹھنڈے پانی، درخت کے سائے اور تازہ کھجور کا حساب تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سمجھایا جا رہا ہے اور اللہ کے رسولؐ کو بھی فکر ہے کہ ان نعمتوں کا حساب ہوگا ۔ محاسبے سے بچنے کا ایک ہی گر بتایا گیا ہے کہ نعمتوں کو دوسروں میں بانٹنے والے ،اوپر کا بہترین ہاتھ رکھنے والے ہی کامیاب ہوں گے ۔
اور دنیا میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے والے جب اپنی حق تلفیوں پہ رنجیدہ ہوتے ہیں، دنیا میں بدلہ لینے کی سکت نہیں رکھتے تو نماز میں مالک یوم الدین کہتے ہوئے تصور میں اپنے مجرموں کو کٹہرے میں لرزیدہ اور سزا کے منتظر کھڑا دیکھ کر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ درحقیقت اپنی حق تلفی کرنے والوں کے لیے یہ تصور باندھنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔رب العالمین نے صرف ہماری حق تلفیوں کا مداوا نہیں کرنا اس کی ساری مخلوق اپنے اپنے حق لے کر رہنے کی دعوے دار ہوگی۔ ہمارے رشتے دار بھی ہمیں جس نظر سے دیکھتے ہیں وہ بھی تو اپنی حق تلفیوں کے رجسٹر لے کر کھڑے ہوں گے۔ عدالت تو پھر ہر پہلو دیکھتی ہے اور ہر گواہ کی گواہی لیتی ہے۔ حقوق تو اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق کے انسان پہ واجب ہیں، بڑے حقوق پہ ہی ذرا نگاہ ڈال لیتے ہیں۔
پہلا حق زوجین کا۔ اور اگر وفا اور جفا کے معاملے کھلنے لگے اور مال و منال کی خیانتوں اور ناشکر گزاریوں کا حساب دینا پڑا تو کب خلاصی ملے گی؟
اور بچوں کی تربیت کا جو حق اللہ نے مقرر کیا ہے اس پہ جرح شروع ہوگئی تو کیا اولاد ہماری سفارش کرے گی یا والدین کے خلاف حق تلفی کا دعویٰ دائر کرے گی؟
اور والدین، اساتذہ کے حقوق پورے ادا کرنے کا کس کو یارا ہے؟
پھر درجہ بدرجہ انسانی حقوق، زمین، سبزہ، باغات، دریا، سمندر پہاڑ کے حقوق جہاں نشاط جاں کو جاتے ہیں اپنا حق سمجھ کر ان بظاہر بے زبانوں کو بھی قوت گویائی ملنے والی ہے جب راستے بھی اپنی حق تلفی پہ شکوہ کناں ہوں گے؟
جس نے حقوق لینے ہیں اسے خبر ہونی چاہیے کہ حق پہلے ادا کیا جاتا ہے پھر لوٹ کے اپنے پاس ہی آتا ہے۔ حاصل کرنے کے لیے کچھ قیمت لازما ًاور فوری ادا کرنا ہوتی ہے ۔یہ قسطوں پہ چلنے والا کاروبار نہیں ہے۔
آج سے دینے کی ابتدا کر دیجیے۔ہر فرد حقوق مانگنے والا کشکول توڑ دے اور غنی بن جائے۔ دنیاوی سکون اور اخروی نجات اسی میں ہے۔ حق تلفی کے سارے دکھوں کو’’عطاکرنے‘‘ کی چادر میں چھپا لیا جائے تاکہ حشر کے میدان میں حق وصول کرنے کے لیے کھڑے رہنے کی مدت کم سے کم ہو۔اپنے حق لینے کے انتظار میں بھی تو حشر کے میدان میں کھڑا رہناپڑےگااور وہاں کھڑا رہنے کا یارا کیسےہوگا؟سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اسے ہر ایک سے پیار ہے وہ کسی پہ ظلم نہ کرے گا ۔ذرے جیسی اچھائی برائی تولی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا پیار اسی کو ملے گا جو اس کے بندوں سے پیار کرے گا ۔ جو اسی کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے بندوں کو ان کے حق عطا کرے گا ،دل صاف رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے خزانے سے عطا کرے گا اور نگاہ اس خزانے پہ رہے جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کے وہم و گماں میں آیا۔
اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے اور اس کی اپنی مرضی ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے۔ ہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو کو معاف کردے، سب کو اپنی حق تلفیاں بھلادے ۔اسی میں ہم سب کا بھلا ہے، اسی طرح حساب آسان ہو سکتا ہے بلکہ بے حساب جنت بھی مل سکتی ہے۔وہ قادر مطلق ہے رحمت اس کا شیوہ ہے۔ جنت کا حقدار بننے کے لیے رب کی رحمت ہی کام آئے گی۔ یہ فکر غالب رکھنے کی ضرورت ہےکہ:
’’جنت کلمہ گو کے لیے بنائی گئی ہے اور دیدار الٰہی سے آنکھیں ٹھنڈی کرنا میرا وہ حق ہے جو میں نے لے کر رہنا ہے‘‘۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x