ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول اگست ۲۰۲۱

قارئین کرام!یوم آزادی کا مہینہ اور نئے اسلامی سال کا آغاز ہے۔ اس دعا کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں ایک صحیح معنوں میں آزاد ،خو دمختار اور اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے والی قوم بنائے،جو بانیان پاکستان کے خوابوں کی تکمیل، دنیا میں باعث عزت و وقارہو، آمین۔
اس بار بارشوں کے نتیجے میں سیلابوں نے دنیا میں کئی حصوں کو متاثر کیا ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ تباہی اور جانی نقصان جرمنی میں ہؤا۔بھارت میں مہاراشٹر بہت بری طرح متاثر ہؤا۔یہاں تک کہ اس غیر متوقع آسمانی آفت کے آگے چین بھی اپنی تمامتر پھرتیوں سمیت بے بس ہو گیا۔ ہم تو ویسے ہی اللہ کے حوالے ہیں ، اسلام آباد کا ایک سیکٹر ڈوب گیا تو کوئی حیرانی نہیں۔ موسموں کی شدت اور تباہ کن بارشوں کا تعلق کرہ ارض پرموسمیاتی تبدیلی سے ہے۔پہلے کہیں صدی بھر میں جو واقعات پیش آتے تھے اب معمول بن گئے ہیںاور موسم کا غیر متوقع روپ ہی اب متوقع موسم ہونے لگا ہے۔ ڈیولپمنٹ کے نام پربلا امتیاز ہر جگہ آباد کاری اور انسانی سرگرمی ، ٹیکنالوجی کا اندھادھند استعمال زمینی ماحول کے قدرتی توازن کو بہت حد تک خراب کر چکا ہے۔ بے شمار سائنسی تحقیق ہوچکی، تمام وجوہات جان لی گئیں، آگاہی پھیل بھی گئی،ماحول دوست ہونا جدید طرز زندگی کا لازمہ بھی بن گیا، مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنا ناممکن ہے۔سرمایہ دارانہ معیشت نے جس طرح انسانی زندگی کے ہر پہلو کو صنعت میں بدل دیا ہے ،ہر عنوان سے منڈی سجا دی ہے جس میں انسانوں کی خود ساختہ ضرورتیں بک رہی ہیںتاکہ نئے نئے طریقوں سے مال کمایا جا سکے ، ایسے میں ترقی یافتہ قوموں کاکرہِ ارض کی بقا کی فکر کرنا اور اس پر بھاشن دیے چلے جانا ایک مذاق سے کم نہیں ہے۔ وہ خود تو غربت کے مارے ہوئے نہیں ہیں، نقصان کا ازالہ بھی کرلیں گے، شامت تو ہم جیسوں کی آتی ہے۔ ترقی کے قصوروار بھی نہیں اور ترقی سے مستفید بھی نہیں، مگر ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان کو بھگتنا پھر بھی پڑتا ہے۔اوپر سے ہمارے اپنے مسائل کہ شہروں کی پلاننگ کرپشن کی وجہ سے ناقص، ناجائز الاٹمنٹس ، افسروں کی ملی بھگت، جس کے پاس جس بھی سطح کااختیار ہے وہ مفادات لینے، اپنوں کو نوازنے اور پیسہ کھانے کو اپنا حق سمجھ لیتا ہے، الا ماشاء اللہ۔تو اسلام آباد کا جو حال ہؤا اس میں حیرت کیا ہے۔ مقام شکر ہے کہ کہیں اور سے ابھی تک ایسی اطلاعات نہیں ملیں۔
سیاحتی مقامات خصوصاً کاغان ناران اور وہاں سے گلگت کے راستے میں شدید قسم کے ٹریفک جام دیکھنے میں آئے۔رکی ہوئی گاڑیوں میں موجود لوگوں کو سڑک کے کنارے رات گزارنی پڑی۔ گزشتہ کچھ سالوں میں سیاحت کا چرچا بہت ہؤا ہے، پھر لاک ڈاؤن سے نکلنے پر اور گرمی سے گھبرا کر بھی بے شمار لوگ پہاڑی مقامات کی طرف نکل پڑے۔موجودہ حکومت سیاحت کو فروغ دینے میں نہایت پرجوش دکھائی دیتی ہے مگر اس بار جو صورتحال ہوئی وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ابھی ہمارے ہاں مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے بھی انتظامات موجود نہیں ہیں تو ہم ملک سے باہر کیسے پاکستان کو سیاحتی مقام کے طور پہ پروموٹ کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں نوجوان خاتون نور مقدم کا بہیمانہ قتل انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔یہ بے حد تشویش ناک بات ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کے خلاف بہیمانہ جرائم کی شرح اور شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔اسباب بے شک بہت سے ہیں مگر دیگر جرائم کی طرح علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ برق رفتار عدالتی ٹرائل اور مجرم کو فوری عبرتناک سزاہے۔مظلوم کو انصاف نہ ملنا ظلم کے تسلسل اور اضافے کا باعث بنتا ہے اور ظلم کی وجوہات کوئی بھی ہوں، مجرم کا چھوٹ جانا بذات خود معاشرے میں ظلم کا ایک بڑا محرک بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے دین میں عدل و انصاف کی اتنی اہمیت ہے۔فرد جرم عائد ہوکر سزا ملنا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ کوئی قانون سے بالاترنہیں۔ ظلم کسی بھی شکل میں ہو اس کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مجرم کو سزا دیے بغیر جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ مجرم کو اس کے تمام اثرورسوخ سے قطع نظر فوری اور عبرت ناک سزائے موت دی جائے تاکہ آئندہ کوئی حوا کی بیٹی کو کمزور سمجھ کر ظلم کرنے کی جرأت نہ کرے۔
ریاست کو ایسے قبیح جرائم کے دیگر محرکات پر بھی غور کرنا چاہیے۔۔ محروم اور مفلس طبقے میںایسے جرائم کی وجہ بڑی حد تک معاشی نا آسودگی اور تعلیم و تربیت کی کمی کہلائی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارے تعلیم یافتہ اور خوشحال طبقے میں ایسے واقعات کا پیش آنالمحہِ فکریہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت اور خوشحالی

بھی انسان کو وہ تہذیب نہیں سکھا سکتی جو اسے رتبہ انسانیت پر فائز کر سکے۔ اصل بات خدا کا خوف اور اس کے بعد قانون کا خوف ہے جو انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ رہنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ مغربی معاشروں نے صرف قانون کی طاقت سے ان مسائل پر قابو پانا چاہا اسی لیے وہ جزوی طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ مگر ہمارا معاشرہ دونوں ہی بنیادوں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے بڑ ے شہروں اسلام آباد لاہور کراچی کے طبقہ اشرافیہ کاجو کلچر پنپ گیا ہے اس میں شراب نوشی تو عرصہ دراز سے ایک معمول کی بات ہے، اب اس سے بڑھ کر نوجوانوں کا ڈرگز لینا اور بغیر نکاح کے ساتھ رہنا ایک معمول بن چکا ہے۔
مجرم کا وحشت ناک طرزِ جرم بھی تشویش کا باعث ہے اور معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ریاست کا یہ بھی فرض ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو عام کرے، نشہ ، پْرتشدد فلموں اور دیگر غیر اخلاقی مواد کو قانون کی گرفت میں لائے جوہمارے نوجوانوں کی زندگیاں اور اخلاق تباہ کررہا ہے۔جب تک ایسے منفی رجحانات کی روک تھام نہیں ہو گی،قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف نہیں ہوگا، معاشرہ بچیوں اور عورتوں کے لیے محفوظ نہیں ہوسکتا۔
ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مقتولہ خود عورت مارچ کے تحت احتجاج کرنے والوں میں شامل تھی۔یہ وہی عورت مارچ ہے جس کا ایجنڈا لڑکیوں اور عورتوں پر حفاظت کے نام پہ ہر قسم کی روک ٹوک اور پابندی کو مسترد کرتا ہے، ان تمام اخلاقی ضوابط کو مسترد کرتا ہے جن کے تحت محرم اور غیر محرم کی تمیز نوجوانوں کو سکھائی جائے، ان معاشرتی حدودو قیود کو مسترد کرتا ہے جو عورت اور مرد کا دائرہ کار متعین کرتے ہیں یا صنف مخالف سے رابطے کو اصول و ضوابط کا پابند بناتے ہیں۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ایسے مادر پدر آزاد ماحول کا نقصان ہمیشہ لڑکی زیادہ اٹھاتی ہے کیونکہ وہ جسمانی طور پہ کمزور ہے اور اس کو اس کی جسمانی ساخت کی وجہ سے آسانی سے بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے دنیا میں ہر جگہ لڑکی کو بچانا ایک مسئلہ بن کرسامنے آتا ہے خواہ معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہو۔باپ بھائی اور شوہر کا کردار ایک ایسا فطری حفاظتی حصار ہے جو عورت کو اس ظلم کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ اگر اس کردار کی ادائیگی میں کوئی کمی یا خرابی ہے تو اس کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے، تربیت کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کو ظلم کہہ کرسرے سے ختم کرنے کی تحریک چلائی جائے اور نوجوان بچیوں کو بہکایا جائے۔ پھر اگر ہماری بیٹیاں نور مقدم جیسے حالات کا شکار ہوں گی تو شکایت کس سے کریں؟یہ ضروری ہے کہ خواتین ،لڑکیاں ملازمت کے لیے نکلیں تو انہیں محفوظ ماحول دیا جائے جہاں وہ کم سے کم غیر مردوں سے معاملہ کرنے پر مجبور ہوں، تعلیمی ادارے خواتین کے لیے مخصوص ہوںتاکہ مفاد پرست عناصر دوستی یا تعلق کے نام پر ان کا استحصال نہ کر سکیں۔ نور مقدم کے ساتھ جو کچھ ہؤا اس کے بعد اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں کہ لڑکی کسی غیر مردپر اعتماد کرنے کے معاملے میں کس قدر غلطی کرسکتی ہے اور پھر کس قدر مجبور ہو سکتی ہے۔
ایسے بھیانک جرم کے بعد مجرم کا بار باردہرانا کہ وہ امریکی شہری ہے لہٰذا اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، ہمارے نظام عدل و انصاف، ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی، ہماری نام نہاد سفارت کاری بلکہ ہماری قومی خود مختاری کے چہرے پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ہم نے جو کچھ پچھلے بیس برسوں میں بویا ہے دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ اس ذہنیت کی شکل میں بھی اسے کاٹ رہے ہیں۔
گھریلو تشدد پر ہمارے ہاں موجود قوانین کے اطلاق کی تو کمی ہے ہی، مؤثر قانون سازی کی بھی بے حد کمی ہے۔عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ہاتھ اٹھانا ، تشدد کرنا یا اس کی جان لے لینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور ایک مسلم معاشرے کے لیے یہ ذہنی رویہ ناقابل قبول ہے۔عورت پر ظلم کے رویے سب سے بڑھ کر ہماری مسلم شناخت کے خلاف ہیں۔ ہم ایک بہترین اسلامی آئین رکھتے ہیں جو ایسے رویوں کی قطعاً گنجائش نہیں دیتا۔اس معاملے میں ہم پہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلامی قوانین ہماری کمزوری نہیں بلکہ سب سے بڑی دلیل ہیںبے حد ضروری ہے کہ عورتوں پر تشدد کے خلاف آئین پاکستان سے ہم آہنگ سخت قانون سازی کی جائے اور ان قوانین کا شعور معاشرے میں عام کیا جائے۔
بتول سے منسلک حلقے کی جانب سے پی ایچ ڈی کی تکمیل پر بے شمار مبارک بادی پیغامات، نیک خواہشات اور دعائیں موصول ہوئی ہیں۔ میں درجہ بدرجہ سب کی ممنون ہوں اور رب العزت سے دعاگو ہوں کہ آپ کی تمام نیک دعائیں میرے حق میں قبول فرمائے اور ہمیں قلم و قرطاس کے اس مبارک وسیلے سے باہم جوڑے رکھے آمین۔
مقروضِ محبت
صائمہ اسما

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
4.5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x