ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

صبروثبات – بتول اگست ۲۰۲۱

صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔وہ ایسا باہمت ہو ہر مشکل کا مقابلہ کرے، نہ مصیبت کو دیکھ کر دل ہار جائے، اور نہ جزع فزع کرنے لگے، بلکہ صبر ،مصابرت اور تحمل اور برداشت سے کام لے، اور حق کو مضبوطی سے تھام لے۔امت ِ مسلمہ کو پوری دنیا کے سامنے حق کی گواہی پیش کرنے کا منصب سونپا گیا ہے، اسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دولتِ صبر سے مالا مال ہو۔
ایمان کے دو حصّے ہیں، ایک صبر اور دوسرا شکر۔ مومن ان دونوں کا حریص رہتا ہے،اور وہ ان دونوں کو تھامے ہوئے رب کی راہوں پر چلتا ہے اور اس کی زندگی صبر و شکر کا مجموعہ بن جاتی ہے۔صبر ایسی سواری ہے جو سوار کو اوندھے منہ نہیں گراتی، اور مشکلات میں سیدھا کھڑا رکھتی ہے۔وہ ایسا لشکر ہے جو پسپا نہیں ہوتا، اور ایسا قلعہ ہے جو مضبوط ہے۔صبر کے ساتھ نصرت ملتی ہے اور کرب کے بعد فراخی میسر آتی ہے۔اور تنگی کے ساتھ آسانی ملتی ہے، زندگی کی مشکلات اور مصائب میں صابرین ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ صبر کی حیثیت جسم میں سر کی مانند ہے۔ ہرمصیبت اور آزمائش پر صبر ایمان کو بڑھا دیتا ہے۔حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں:
’’ہم نے بہترین زندگی کو صبر کے ساتھ پایا ہے‘‘۔
صبر کے معنی
صبر کے معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشِ نفس کا وہ انضباط ہے، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات، اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میںاپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔
صبر کی کمی یا عدم ِصبر کو جزع کہتے ہیں کہ بندہ کسی بھی تکلیف پر واویلا مچانا شروع کر دے، اس کے لیے آہیں بھرتا رہے اور یا اللہ، بندوں یا معاشرے سے شکوہ کو معمول بنا لے اور اس پر رنج اور غصّے سے بھر جائے۔
شرع میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے خود کو روک لینا اور اس کے عائد کردہ واجبات کو اس کے لوازمات کے ساتھ غصّہ، رنج اور ناراضی کے بغیردل کے اطمینان سے ادا کرنا بھی صبر ہے۔گویا تین قسم کا صبر مراد ہے:
۱۔ اللہ کی اطاعت پر صبر
۲۔اللہ کی معصیت کو ترک کرنے پر صبر
۳۔ تقدیر کے دکھوں پر صبر، یعنی پورے ادب اور احترام کے ساتھ اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جانا۔
مقامِ صبر میں انسانوں کی تقسیم
صبر کرنے میں انسان چار طرح کا ہو سکتا ہے۔
۱۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور خود کو اللہ کی معصیت سے روکنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے اعلیٰ درجے پر انبیاء علیھم السلام، صدیقین اور شہداء اور صالحین ہوتے ہیں، یہ اللہ کے خالص بندے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی کو صبر سے بڑھ کر بھلی اور وسعت والی خوبی نہیں ملی‘‘۔ (رواہ النسائی، ۲۵۸۷)
۲۔ جو فرائض کی حد تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرتا ہے مگر اللہ کی معصیت سے رکنے پر صبر نہیں کرتا اور فواحش کا ارتکاب کر لیتا ہے، یہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے لہٰذا یہ صبر کی عظیم فضیلت کو نہیں پا سکتا۔
۳۔ جو اللہ کی معصیت کے کاموں سے رک جاتا ہے اور اپنے آپ کو زذیل اور فحش کاموں میں نہیں ڈالتا لیکن اللہ کی اطاعت پر صبر بھی نہیں کرتا اور فرائض کو ادا کرنے کی پروا نہیں کرتا۔ اس کا یہ طرز عمل اسے ہلاکت کے کنارے پر پہنچا دیتا ہے۔
۴۔جو اللہ کی اطاعت پر صبر نہیں کرتا اس کے عائد کردہ فرائض

چھوڑ دیتا ہے، اور اس کی معصیت ترک کرنے پر بھی صبر نہیں کرتا اور طرح طرح کے فواحش کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ اپنے دین کے بدلے دنیا کی زندگی خرید لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگ فاجرین کہلاتے ہیں۔
میمون بن مہرانؒ کہتے ہیں: صبر دو قسم کے ہیں؛ مصیبت پر صبر کرنا نیکی ہے، اور اس سے بھی زیادہ نیکی معصیت چھوڑنے پر صبر کرنا ہے۔
صبر کی حکمت
بندے کو دنیا میں اللہ کی جانب سے جن آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں بھی بڑی حکمت پوشیدہ ہے؛ انہیں تکلیفوں کے ذریعے بندوں کے ایمان ِ صالح کی آزمائش ہوتی ہے اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کر لیا جاتا ہے، ارشادِ الہٰی ہے:
’’اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گاجس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا‘‘۔ (آل عمران،۱۷۹)
پس آزمائشیں اور مصیبتیں حق کے میدان میں مومن کی تربیتِ نفس کا ذریعہ بنتی ہیں اور صبرو ثبات کے پیکر ہی اس امتحان میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ آخرت میں یہی آزمائشیں ان کے بلند درجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
قرآن کریم میں صبر کا کلمہ سو سے زائد مقامات پر آیا ہے اور صبر کا مادہ۱۰۳ مقامات پر وارد ہوا ہے، جن میں ۴۱ مرتبہ صبر اسم کے طور پر آیا ہے اور ۶۲ مقامات پر فعل کی صورت میں۔ چار مقامات پر صبر مبالغے کے صیغے میں آیا ہے۔
صبر کا قرآنی مفہوم
قرآن ِکریم میں صبر پانچ معانی میں استعمال ہؤا ہے:
۱۔ اپنے نفس کو جزع فرع سے روک لینا؛ ’’جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں‘‘۔ (الحج، ۳۵)
۲۔ بمعنی جرأت و حوصلہ؛ ’’کیسا عجیب ہے ان کا صبر کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ (البقرۃ، ۱۷۵)
ابن جبیر اور حسنؒ وغیرہم اس کی تفسیر میںکہتے ہیں، وہ اس پر صبر نہیں کر سکتے مگر یہ کہنے پر وہ کتنے جرأت مند ہو گئے ہیں۔
۳۔ صبر بمعنی صوم؛ ’’نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو‘‘ (البقرۃ، ۴۵) مجاہد کہتے ہیں کہ یہاں صبر سے مراد صوم ( روزہ)ہے۔ اسی لیے رمضان المبارک کو شہر الصبر(صبر کا مہینہ) کہا جاتا ہے۔اور آپؐ نے فرمایا: ’’روزہ آدھا صبر ہے‘‘۔ روزہ ایسی عبادت ہے جس میں ہر طرح کا صبر جمع ہو جاتا ہے، اللہ کی اطاعت کا صبر، معصیت ترک کرنے اور فواحش سے دوری پر صبر ۔
۴۔ اللہ کی قضا و قدر کو تسلیم کرنے اور اس پر راضی ہونے کے معنی میں؛ ’’اپنے رب کے حکم پر صبر کرو‘‘۔ (الطور،۴۸)یعنی اللہ کے فیصلے کے سامنے گردن جھکا دینا ، نہ چیخنا چلانا اور نہ واویلا کرنا۔
۵۔ صبر بمعنی ثبات؛ کہ ’’چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر‘‘۔ (سورۃص،۶)یعنی معبودوں کی بندگی پر ثبات حاصل کرو۔ اسلام کے آنے کے بعد مشرکوں کوبتوں کی بندگی ترک کر دینی چاہیے تھی، مگر وہ اکڑ گئے اور اسی پر ثبات اختیار کیا۔
صبر حق کی راہ میں پامردی دکھانا ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے فلاح پاؤ گے‘‘۔ (آل عمران، ۲۰۰)
اہل ایمان کو عالمِ بالا سے پکار ہے کہ صبر سے کام لو، جرأت دکھاؤ، ہر وقت دشمن سے مقابلے کے لیے تیار رہواور ہر وقت اللہ کے خوف کو پیشِ نظر رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عموماً اور سورۃ آل عمران میں خصوصاً صبر اور تقویٰ کی تلقین کی ہے اور یہاں پر انہیں صبر اور مصابرت کی دعوت دی ہے۔
صبر دعوت ِ الہٰی کی راہ کا بہترین سامان ہے، اس لیے کہ یہ طویل اور پر مشقت راستہ ہے۔ ہر وقت چوٹ لگنے اور جان کی قربانی کے مواقع ہیں اور ہر موقع ایسا ہے جس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی خواہشات پر صبر، نفس کے مرغوبات پر صبر، ہر قسم کے لالچوں اور آرزؤوں

پر صبر، اپنے ضعف اور نقص پر صبر ، ان کے مزاج کے انحراف پر صبر، نفس کی جلد بازی اور افسردگی پر صبر، لوگوں کی خواہشات پر صبر، لوگوں کے جہل اور بری سوچ پر صبر، کفر کی گندگی پر صبر، شہوت کے غلبے پر صبر، مدد گاروں کی قلت پر صبر، اعانت کنندگان کی کمی پر صبر، راستے کی طوالت پر صبر، کرب اور بے چینی کے اوقات میں شیطان کے وسوسوں پر صبر، جہاد کی تلخی پر صبر اور ان تمام نفسیاتی تاثرات اور متنوع انفعالات پر صبر مثلاً رنج و الم، غیض وغضب، دل کی تنگی اور گھٹن، بعض اوقات بھلائی پر بے اعتمادی اور انسانی فطرت کی اصلاح کی نا امیدی وغیرہ، جن سے رنج و ملال اور بعض اوقات تھکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور انسان پر مایوسی کا غبار چھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں صبر ہی کام دیتا ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
صبر کی نبوی تلقین
اسلام صبر کا دامن تھام لینے کی تلقین کرتا ہے، احادیث نبویؐ میں بھی اس کی جانب ابھارا گیا ہے۔ ابو مالک حارث بن عاصم اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’صبر ضیاء (روشنی) ہے‘‘۔ (رواہ مسلم) مزید فرمایا: ’’جو صبر کا دامن پکڑتا ہے اللہ اسے صبرکی توفیق دے دیتا ہے‘‘۔ (رواہ البخاری ومسلم)
حضرت ابو یحیٰی صہیب بن سنان ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ ؐنے فرمایا: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لیے بھلائی ہے۔ اور یہ چیز مومن کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، تو یہ (شکر کرنا) اس کے لیے بہتر ہے۔ اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے (کہ صبر بھی بجائے خود نیک عمل اور باعثِ اجر ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۲۹۹۹)
حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا :’’جب ایک بادشاہ نے لوگوں کو ایمان سے روکنے کے لیے اہلِ ایمان لڑکے کو سب کے سامنے قتل کروا دیا تو لوگ کائنات کی حقیقت اور الٰہ واحد کی توحید سمجھ گئے اور بے اختیار پکار اٹھے: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ لوگوں نے بادشاہ سے کہا: آپ جس چیز سے ڈرتے تھے ، اللہ کی قسم وہی ہؤا، اور آپ کا خطرہ سامنے آگیا، سب لوگ (اللہ پر) ایمان لے آئے ہیں۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ سڑکوں کے ناکوں پر خندقیں کھود دی جائیں، تو وہ کھود دی گئیں اور ان میں آگ بڑھکا دی گئی۔ بادشاہ نے حکم دیا : جو اپنے دین سے نہ پھرے، اسے اس آگ میں جھونک دو، یا اس سے کہا جائے کہ : آگ میں داخل ہو جا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا حتیٰ کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ بچہ تھا، وہ آگ میں گرنے سے جھجکی تو اس بچے نے کہا: اماں! صبر کر ، یقیناً تو حق پر ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۳۰۰۵)
قرآن ِ کریم میں اس واقعہ کو اصحاب الاخدودکے نام سے ذکر کیا ہے، حدیث میں اس اجمال کی توضیح ہے۔ دین کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کو صبرو عزیمت سے برداشت کرنا ہی اہلِ ایمان کا شیوہ ہے۔
ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : گویا میں رسول اللہؐ کو انبیاء علیھم السلام میں سے کسی نبی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جنہیں ان کی قوم نے مار مار کر لہو لہان کر دیا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے کہہ رہے ہیں: یا اللہ میری قوم کو معاف کر دے، اس لیے کہ وہ بے علم ہے‘‘۔ (متفق علیہ، بخاری ۳۴۷۷، ومسلم۱۷۹۲)
یہ بہت بلند اخلاقی خوبی ہے کہ نہ صرف اذیت پر صبر کیا جائے بلکہ اللہ سے ان کی معافی اور ہدایت کی دعا بھی مانگی جائے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی فرماتا ہے: میرا وہ مومن بندہ جس کی محبوب ترین چیز میں واپس لے لوں، لیکن وہ ثواب کی نیت (سے صبر ورضا کا مظاہرہ) کرے، اس کے لیے میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۶۴۲۴)
دنیا کی محبوب چیزوں میں اولاد، والدین، ازواج وغیرہ انسان کے لیے بہت پیارے رشتے ہیں، اور ان کی جدائی بہت بڑا صدمہ! ان کی وفات پر اللہ کا حکم سمجھ کر صبر کرناکمال ایمان کی علامت ہے اور بے صبری ، جزع فزع، اور اول فول بکنا ضعفِ ایمان کی دلیل ہے، پہلی بات کا صلہ جنت ہے اور دوسری بات اللہ کی ناراضی کا باعث ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہؐ سے

طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے انہیں بتایا: ’’یہ اللہ کا عذاب تھا، جس پر اللہ چاہتا اسے نازل فرماتا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت (کا ذریعہ) بنا دیا ہے۔ چنانچہ جو بندہ طاعون (کی بیماری ) میں مبتلا ہو جائے اور وہ اپنے (طاعون زدہ) شہر ہی میں صبر کرتا ہوا، ثوابِ آخرت کی نیت سے ٹھہرا رہے، اسے یقین ہو کہ اسے وہی کچھ پہنچے گا جو اللہ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، تو اس شخص کے لیے شہید کی مثل اجر ہے‘‘۔ (رواہ البخاری،۵۷۳۴)
طاعون اور دوسری وبائی بیماریوں میںاللہ کی تقدیر اور مشیت پر ایمان رکھتے ہوئے اسی شہر میں ٹھہرے رہنااور اس میں مبتلا ہونے کی صورت میں جزع فزع اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کرنا، ایک مومن کو شہادت کے رتبے سے ہمکنار کر سکتا ہے۔اور اس مرض کو دوسرے علاقوں میں پھیلنے سے روکنے کے لیے باہر کے علاقے والوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اس وبا زدہ علاقے میں داخل نہ ہوں۔ یعنی حفاظت اور احتیاط اختیار کرنا تقدیر ِ الہی پر ایمان کے منافی نہیں ہے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا: ’’اللہ تعالی فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کو اس کی دو پیاری چیزوں کے ذریعے سے یعنی آنکھوں سے محروم کر کے آزماؤں، اور وہ اس پر صبر کرے تو میں اس کے بدلے میں اسے جنت دوں گا‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۶۵۳)
بصارت سے محروم ہو جانا بظاہر بہت بڑی محرومی ہے، اور اس پر صبر بہت بڑا عمل ہے، ایسے مومن کو اللہ تعالی جنت کی جزا دیتا ہے۔
حضرت ابو سعیدؓ اور ابو ہریرۃؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: ’’مسلمان کو جو بھی تکان، بیماری، فکر، غم اور تکلیف پہنچتی ہے، حتی کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
دنیا میں پہنچنے والی تکلیفیں اور مصائب مومن کے گناہوں کا کفارہ اسی صورت میں بنتے ہیں جب وہ ان پر صبر کرے۔ اس طرح انہیں مصائب و مشکلات کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندے کو ان بلند مراتب تک پہنچا دیتا ہے جس تک اس کے اعمال اس کا ساتھ نہیں دیتے تو اللہ آلام و مصائب کے ذریعے اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت سے دوچار کر دیتا ہے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۶۴۵)
ان تکلیفوں میں بھلائی کا پہلو یہی ہے کہ مصیبت میں بندہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اس سے دعا کرتا ہے، اپنے عمل کو پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے، اس طرح اس کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، اور صبر کا اجر بھی ملتا ہے۔
ثابتؒ سے روایت ہے کہ میں نے انسؓ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ؐؐ نے فرمایا: صبر صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔(رواہ البخاری، ۱۳۰۲)
سید الصابرین
رسول اللہ ﷺ فرائض کی ادائیگی اور اللہ کی حرمتوں سے اجتناب کرنے اور مصائب اور سختیوں میں صبر کرنے میں سب سے بڑھ کر صابر تھے۔ جب آپؐ نے دین کی تبلیغ شروع کی تو آپ کو اپنی ہی قوم نے ستایا، آپؐ کی دعوت کا تمسخر اڑایا، کبھی نماز کی حالت میں آپؐ کی کمر پر جانور کی اوجھڑی رکھ دی، اور کبھی چادر کو بل دے کر آپ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، آپؐ کی دو بیٹیوں کو ابو لہب کے بیٹوں نے طلاق دے دی، اور جب آپؐ کے بیٹے دنیا سے چلے گئے تو آپ کو ’’ابتر‘‘ (بے نام و نشان) ہونے کے طعنے دے کر آپ کا دل زخمی کیا۔ آپؐ نے تین برس تک شعب ابی طالب کی محصوری کو اپنے خاندان کے ہمراہ برداشت کیا، جہاں درختوں کے پتے اور ان کی چھال تک کھا کر دن گزارے، جہاں شیر خوار بچوں کے بھوک سے رونے کی آوازیں گھاٹی سے باہر پہنچتیں تو سننے والوں کو افسردہ کر دیتیں۔
حق کی دعوت کو مکہ والوں نے رد کر دیا تو طائف کا سفر کیا اور ایک ایک سردار تک دعوت پہنچائی، مگر کسی نے اس دعوت کو قبول نہ کیا، بلکہ آوارہ نوجوانوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جو آپؐ پر پتھر پھینکتے اور آوازیں کستے، آپؐ لہو لہان ہو گئے، اور نعل مبارک میں خون جم گیا۔ آپؐ ایک باغ میں

پہنچے ، اور جب انہیں سزا دینے کی اجازت طلب کی گئی تو آپؐ نے انہیں معاف کر دیا۔
حق کی راہ میں آپؐ نے اپنے گھر اور اپنے پیارے شہر مکہ کو چھوڑ کر ہجرت کی،کبھی بدر کے میدان میں بے سرو سامانی کے عالم میں تین سو تیرہ (۳۱۳ )ساتھیوں کے ساتھ ایک ہزار کے اسلحے سے لیس لشکر کا مقابلہ کیا، اور کبھی احد کے میدان میں اترے اور فتح شکست میں بدلتے دیکھ کر بھی آپؐ کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی، اسی غزوہ میں آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے، ستر صحابہ کے شہادت پانے اور پیارے چچا کی شہادت کے بعد لاش کے مثلہ بنانے کی اذیت بھی برداشت کی، لیکن صبرو ثبات کا پیکر اس حال میں بھی دشمن کا پیچھا کرنے کئی میل تک گیا، تاکہ دشمن پر رعب قائم رہے۔
اور جب کفر کی تمام طاقتیں اکٹھی ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئیں تو سید الصابرین نے صحابہ کے ساتھ مل کر مدینہ کے گرد خندق کھودی،اور منافقین اور یہود کی سازشوں کے باوجود پورے صبر اور عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ روم کی تیاری کی خبر پا کرغزوہ ء تبوک کے لیے انتہائی مشکل موسم اور حالات میں سفر کیا۔ اور پھر خیبر کے یہودیوں کو ان کے ناپاک عزائم پر پکڑا۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تلقین فرمائی:
’’پس اے نبیؐ، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو‘‘۔ (الاحقاف، ۳۵)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ؐ زیادہ بیمار ہو گئے اور اضطراب اور بے چینی آپؐ پر چھا گئی تو آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ کے منہ سے نکلا: ہائے ابا جان کی تکلیف! آپؐ نے یہ سن کر فرمایا: تمہارے باپ پر آج کے بعد بے چینی نہیں ہوگی‘‘(یعنی موت کا کرب آخری تکلیف ہے) ۔(رواہ البخاری، ۴۴۶۲)
صبر ِ انبیاء علیھم السلام
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو انبیاء علیھم السلام بھیجے ان میں صبر کی صفت نمایا طور پر پائی جاتی تھی،حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک قوم کو حق کی طرف بلایا، اور دعوت الی اللہ کے مختلف ذرائع استعمال کر کے نبوت کی ذمہ داری کو ادا کیا، حضرت ابراہیمؑ اور ان کی زوجہ حضرت ہاجرؑ اسی صبر کی مثال تھیں، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم عیہ السلام کے ہر آزمائش پر صبر اور یکسوئی کے ساتھ پورے اترنے کی گواہی دی، قوم، باپ سے حق کی بنا پر جلاوطنی، بیوی اور ننھے شیر خوار کی جدائی، اور بیٹے کی قربانی پر آمادگی، توحید کی راہ میں آگ میں ڈالے جانے کو صبر سے برداشت کرناہی تھا کہ اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کا امام بنایا۔ آپؐ کے پوتے یعقوب ؑ نے بیٹوں کی چال اور جھوٹ کو صبر سے برداشت کیا، اور یوسف ؑ جیسے پیارے بیٹے کی برس ہا برس تک جدائی برداشت کی، حتی کہ غم سے آنکھیں سفید ہو گئی، دوسرا بیٹا بھی جدا ہو گیا تو آپ نے ’’ فصبر جمیل واللہ المستعان‘‘ ہی کہا۔حضرت یوسف علیہ السلام نے پاکیزگی کی حفاظت کو ترجیح دی، اور شہر کی عورتوں کی چالوں کے مقابلے میں یہی کہا کہ ’’قید خانہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے‘‘ اور برسوں قید میں گزار دیے۔ حضرت ایوب ؑ کو مرض اور گھر والوں کی جدائی سے آزمایا گیا اور وہ بھی صبر ثبات کا پیکر بنے رہے حتیٰ کہ صبر ِ ایوب ضرب المثل بن گیا۔ یہ سب انبیاء ہمارے لیے صبر کی راہ میں بہترین نمونہ ہیں۔
صبر کے فضائل
۱۔ آخرت میں اجرِ عظیم؛ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔ (الزمر، ۱۰)
یہاں اللہ تعالیٰ انسانوں کو نہایت برمحل انداز میں اس کام کے لیے آمادہ کرتے ہیں جو انتہائی دشوار ہے، اور ہجرت جیسے شدید حالات میں اللہ ان پر اپنی رحمت اور شفقت اور اپنے قرب کی شبنم گراتا ہے۔(فی ظلال القرآن) سفیان ثوریؒ کہتے ہیں: ’’اجر اسی قدر ملے گا جتنا صبر کیا ہو گا‘‘۔
حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو مومن لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر نہیں رہتا اور نہ ان کی ایذا پر صبر کرتا ہے‘‘۔ (رواہ ابن ماجہ، ۴۰۳۲)

اللہ تعالی کی محبت کا حصول؛ ’’اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (آل عمران، ۱۴۶)
۳۔ دنیا کی مصیبت پر صبر کرنے والوں کے لیے آخرت میں جنت ہے؛ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ ابن عباسؓ نے مجھ سے کہا: کیا میں تجھے جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: کیوںنہیں؟ انھوں نے فرمایا: ایک کالی عورت نبی اکرم ؐ کے پاس آئی اور اس نے کہا: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے، جس سے میں برہنہ ہو جاتی ہوں، آپؐ میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو اس تکلیف پر صبر کر، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے۔ اور اگر تو چاہے تو میں تیرے لیے دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تجھے اس بیماری سے عافیت دے دے۔ اس نے کہا: میں صبر ہی اختیار کرتی ہوں، تاہم آپؐ دعا کر دیں کہ میں دورے کے وقت برہنہ نہ ہوا کروں۔ چنانچہ آپؐ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔ (رواہ البخاری، ۵۶۵۲) سفیان عیینہؒ کہتے ہیں :کہ بندوں کو اس سے افضل صبر نہیں دیا گیا جس کی بنا پر وہ جنت میں داخل کیے جائیں۔
۴۔ اللہ تعالی کی معیت؛ ’’اور صبر سے کام لو ، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (الانفال، ۴۶)اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھیں، ٹھنڈے دل اور جچی تلی قوتِ فیصلہ سے کام کریں، اور ثابت قدم رہیں، اشتعال انگیز مواقع پر ان سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ ہو، دنیوی منافع اور مفاد اور لذت ِ نفس کے مقابلے میں ان کا نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ وہ اس کی جانب جھک جائیں۔ جو لوگ تمام حیثیات سے ’’صابر‘‘ ہوں انہیں کو اللہ کی معیت اور اس کی تائید ملتی ہے۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، نفس الآیۃ)
۵۔ غور فکر کی صلاحیت؛ ’’درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیںہر اس شخص کے لیے جو بڑا صبر اور شکر کرنے والا ہو‘‘۔(لقمان، ۳۱) یعنی توحید اور کائنات کی نشانیوں کو وہی لوگ پہچانتے ہیںجو بڑے صبّار اور شکور ہوتے ہیں، ان کے مزاج میں تلون نہیں بلکہ ثابت قدمی ہوتی ہے، ایسا نہیں کہ برا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑگڑانے لگے اور اچھا وقت آیا تو سب کچھ بھول گئے، یا اچھے وقت میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کو گالیاں دینی شروع کر دیں۔ وہ صبر بھی کرتے ہیں اور نمک حرامی اور احسان فراموشی بھی نہیں کرتے بلکہ جذبہء شکرو سپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھتے ہیں۔
جب بندہ بے صبری کرتا ہے تو وہ سب سے بڑھ کر اپنا نقصان کرتا ہے، اس کے اندر معاملات پر غور کرنے اور انتظار کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، وہ ہر چیز کا فوری نتیجہ چاہتا ہے، اور اسی بنا پر مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے۔ بے صبری کی بنا پر ہونے والے فوری ردِّ عمل پر کبھی اسے شرمساری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی وہ بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے، اور اپنے قیمتی دوستوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی معیت کا احساس کھو دیتا ہے۔
راہ ِ حق میں استقامت دکھانے والے عزم و ہمت کا پیکر لوگ کسی نقصان یا مصیبت سے ہمت نہیں ہارتے، کسی ناکامی سے دل شکستہ نہیں ہوتے، کسی لالچ سے پھسل نہیں جاتے، اور کامیابی و ناکامی کے امکان کو دیکھے بغیر حق کا دامن مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں۔
مومن کو زندگی میں بارہا صبر کرنے کے مواقع آتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا غم اور تکلیفوں کا گھر ہے، نت نئی مشکلات سامنے آتی ہیں، اور آج کا دور ’’دورِ فتن‘‘ ہے۔مومن صبر کے اسلحے سے لیس ہوئے بغیر ان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت کے موقع پر اپنے بندوں کو صبر کا بہترین کلمہ سکھایا ہے:
’’کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے خوشخبری بھی ملتی ہے اور وہ رب کی عنایات کے مستحق ٹھہرتے ہیں، اور اللہ کی رحمت ان پر سایہ کرتی ہے۔
اے اللہ تو ہمیں صابرین و شاکرین میں شامل فرما۔ آمین۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3.5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x