ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عدل و انصاف – بتول جولائی ۲۰۲۱

اسلام میں انصاف کی تلقین کی گئی ہے۔ انصاف راست بازی اور سچائی ہی کی عملی شکل ہے۔اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص سے وہ معاملہ کیا جائے اور اس کے بارے میں وہ بات کہی جائے جس کا وہ مستحق ہو۔انصاف ہر انسان کا حق ہے اور بحیثیت انسان اسے ملنا چاہیے۔ قرآن ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جانب رہنمائی کرتا ہے، جہاں ایسی عالمی دعوت اور تحریک برپا کی جائے جو کسی گروہ، قبیلے اور کسی نسل کی طرف دار نہ ہو۔ اس دعوت میں اجتماعی رابطے اور تعلق کی بنیاد کسی عصبیت اور قومیت پر نہ ہو۔اور ان تعلیمات اور اصولوں پر افراد ِ اقوام اور امم کو پورا بھروسہ ہو۔ یہ ایسا عادلانہ نظام ہو، جو کسی کی خواہش سے متاثر نہ ہو۔ رشتہ داری اور اقربا پروری کا اس میں نام بھی نہ ہو۔ امیر و غریب کے لیے یکساں ہو، اور قوی اور ضعیف کے حقوق اس میں برابر ہوں۔ یہ عدل اپنی راہ میں سیدھا چلے اور اس میں سب کے لیے ایک ہی معیار اور ایک ہی پیمانہ ہو۔
انصاف کے معنی
انصاف کا مادہ ’’ن ص ف‘‘ ہے، اور یہ فعل متعدی ’’انصف‘‘کا مصدر ہے۔ اس کے معنی ہیں’’کسی کو کسی سے اس کا حق دلانا‘‘۔جیسے ترازو کے دو پلڑے بالکل برابر ہو جائیں اور کوئی بھی زیادہ جھکا ہؤا نہ ہو۔اگر فیصلہ کیا جائے یا دو لوگوں میں معاملہ کیا جائے تو عدل کے مطابق ہو، خدمت لی جائے تو انصاف کے مطابق، اور ظالم سے مظلوم کو اس کا حق برابری کے ساتھ دلایا جائے۔
انصاف سے مراد معاملہ کے فریقین کو ان کا حق دینا یا دلوانا ہے جبکہ عدل کا معنی ہر انسان کو اس کا حق ملنا ہے۔زندگی میں ہر شخص کو عادلانہ حصہ نہیں ملتا، جبکہ حکومت یا کسی بھی با اختیار طاقت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام رعایا یا ماتحتوں سے انصاف کا معاملہ کرے، اور انہیں برابر حقوق دے، جیسے حقِ شہریت، یا حقِ اجرت۔
انصاف کا مفہوم
حقیقی انصاف یہ ہے کہ انسان دوسروں کو ان کا حق اسی طرح دے جس طرح وہ پسند کرتا ہے کہ اسے اس کا حق دیا جائے۔اور دوسروں کو ان کا حق دیتے ہوئے ان کی کمزوری اور طاقت، علم اور جہالت اور مومن اور کافر ہونااس کے پیشِ نظر نہ ہو۔انصاف کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ لوگوں کو از خود انصاف فراہم کریں،اور ان کے مادی حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں، جیسے امانت کی ادائیگی، اور ان کے معنوی حقوق بھی ادا کریں، جیسے عزت اور تواضح، ان کے علم و فضل کا اعتراف وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (النحل، ۹۰)
عدل سے مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اس طرح کرنا جیسے اس نے حکم دیا ہے، اس میں اس کے مالی اور بدنی اور دونوں سے مرکب حقوق شامل ہیں، اور اس کے بندوں کے حقوق پوری طرح ادا کرنا،اور لوگوں کے ساتھ عدل کرنا، اور ہر والی اپنے زیر دستوں کے ساتھ عدل کرے، خواہ کوئی بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا۔
عدل کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔۱۔ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو۔ ۲۔ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقے سے دیا جائے۔اسے انصاف کہا جاتا ہے۔
عدل وہی کہلائے گا جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا اور اس کی اپنے رسول کی زبان سے تاکید کی۔ اور معاملات کا عدل یہ ہے کہ جن شرائط پر معاملہ یا عقد یا معاہدہ کیا گیا ہے ان کی پابندی کی جائے۔ کوئی فریق دوسرے کو دھوکہ دے نہ اس سے خیانت کرے، نہ اس پر ظلم کرے۔ عدل واجب ہے اور احسان مستحب ہے۔

اللہ انصاف پر قائم ہے
اللہ تعالیٰ انصاف کو پسند کرتا ہے اور وہ خود انصاف پر قائم ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ ’’اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہلِ علم نے بھی دی ہے۔ وہ انصاف پر قائم ہے‘‘۔ (آل عمران، ۱۸)
توحید کی گواہی خود اللہ نے دی اور یہ کہ اس کائنات کی ساری نگہبانی انصاف اور عدل پر من جانب اللہ ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جہان کو چلانے کے لیے جو تدابیر اختیار کی ہیں وہ عدل و انصاف کے اصولوں پر کی ہیں۔ اس لیے لوگوں کی زندگیوں میں عدل تب ہی قائم ہو سکتا ہے جب ان کی زندگیاں کتاب اللہ کی شریعت پر استوار ہوں۔اگر ایسا نہ ہو گا تو اس جہان میں عدل و انصاف نہ ہو گا اور یہاں توازن و اعتدال قائم نہ ہو سکے گا۔اور نتیجہ ظلم ، افتراق اور قوتوں کے ضیاع کی صورت میں برامد ہو گا۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اس میں انسانیت نے عدل و انصاف کا مزا انہیں ادوار میں چکھاجن میں کتاب اللہ کی حکمرانی رہی، اور ان کی زندگی اس طرح منظم اور استوار ہوئی جس طرح اس زمین کی گردش منظم اور استوار ہے۔اس قدر جس قدر انسانی فطرت کے لیے ممکن ہو۔ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ حق دار کو حق ملے اور اسے حق دلایا جا سکے۔ (دیکھے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیہ)
اللہ کی میزان
’’اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو اور انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو‘‘ ۔ (الرحمن، ۷۔۹)
جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بلند کیا ہے اور ہولناک حد تک وسیع کیا ہے اور اس کے لیے ایک فطری میزان تجویز کیا ہے، اسی طرح تمہارے لیے بھی ایک میزان ِ حق تجویز کیا ہے۔ یہ ثابت، محفوظ اور جما ہؤا ہے، اور یہ میزان قدروں کی پیمائش اور وزن کے لیے ہے۔ افراد کی قدر، واقعات کی قدر، اشیار کی قدر، تاکہ ہر کسی کا وزن اور قدر متعین ہو جائے اور ان میں خلل واقع نہ ہو۔ اور اس نظام کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس میں رہنے والے اپنے حدودِ اختیار میں بھی عدل ہی پر قائم ہوں اور توازن نہ بگاڑیں۔ یہ میزان فطرت کے اندر بھی رکھا ہؤا ہے اور دعوتِ اسلامی میں بھی رکھا ہؤا ہے جسے تمام رسول لے کر آئے ہیں اور آخر میں یہ قرآن کی شکل میں آیا ہے۔
انصاف کے علمبردار بننا
قرآن میں واضح اور دو ٹوک حکم ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو‘‘۔(النساء، ۱۳۵)
یعنی یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو، بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا نہیں بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل اور راستی قائم ہو۔(تفہیم القرآن، ج۱، ص۴۰۶)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور جب بات کہو تو انصاف کی بات کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو‘‘۔ (الانعام، ۱۵۲)
اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان نہایت کمزور ہے، اس کے راستے میں بار ہا ایسے مقامات آتے ہیں جب اس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، اور انسانی کمزوری اثر کر جاتی ہے۔ انسان قرابت، رشتہ داری اور قرابت کے حقوق کا لحاظ کر جاتا ہے، کیونکہ وہ نہایت کمزور اور ضعیف ہے اور دور اندیش نہیں ہے۔اور رشتہ داری کی قوت اس سے کمزوری کا ارتکاب کرواتی ہے۔ جب وہ رشتہ دار کے مقابلے میں شہادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس سے کمزوری کا صدور ہوتا ہے۔اگر بھائی کے حق میں گواہی

دے تو مبالغہ کرے گا اور اس کے خلاف دے تو کمی کرے گا، یا دو بھائیوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جانب داری کرے گا۔ اس خطرناک مقام پر اسلام ہی اس کی مدد کو آتا ہے، وہ انسانی ضمیر کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ کلمہِ حق کہے اور انصاف کی بات کرے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیہ)
پیمانے میں انصاف
ارشاد الٰہی ہے:
’’اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داریوں کا اتنا ہی بر ڈالتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے‘‘۔ (الانعام، ۱۵۲)
یہ حکم تجارتی معاملات کے بارے میں ہے کہ اس میں بھی حتی المقدور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔اور ان احکام کو اسلامی عقائد اور نظریات سے وابستہ کیا گیا ہے حالانکہ یہ محض تجارتی معاملات ہیں۔تمام جاہلی نظاموں میں جس میں دورِ جدید کی جاہلیت بھی شامل ہے، طریقہ یہ رہا ہے کہ عقائد و عبادات کو قانون اور معاملات سے بالکل علیحدہ رکھا جاتا ہے، جیسے حضرت شعیبؑ کی قوم نے بھی ان سے کہا تھا کہ : اے شعیبؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے، یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟
رسول اللہؐ کی تعلیمات
رسول اللہ ؐ نے عدل قائم کیا، اور اس کی ترغیب بھی دلائی؛
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ :’’ہم نے رسول اللہؐ سے بیعت کی کہ تنگی اور خوشحالی میںسمع و اطاعت کریں گے، خواہ ہمیں پسند ہو یا نا پسند،اور ہم اہلِ الامر سے نہیں جھگڑیں گے، اور ہم جہاں بھی ہوں انصاف کی بات کہیں گے، اور اللہ کے معاملے میںکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کریں گے‘‘۔ (رواہ النسائی، ۴۱۶۴)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات لوگوں کو اپنے (عرش کے)سائے میں جگہ دے گا، جس روزاس کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا، ان میں پہلا امامِ عادل ہے‘‘۔ (رواہ البخاری ۶۶۰، مسلم ۱۰۳۱)
ابن رجب کہتے ہیں کہ : امامِ عادل قیامت کے دن اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہو گا۔ اور وہ رحمن کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہو گا، اسے یہ جزا اپنی مرضی کے خلاف فیصلے کرنے کی بنا پر ملے گی، کہ وہ خوف، لالچ اور خواہش پر بند باندھتا اور صبر کرتا تھا، حالانکہ وہ اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کر سکتا تھا۔اور عادل امام کو ساری دنیا مل کر بھی اپنی جانب بلائے تو وہ یہی کہتا تھا: ’’میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں‘‘۔ یہ اللہ کے بندوں میں اس کی مخلوق کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر وہ درست ہو جائے تو ساری رعیت درست ہو جاتی ہے۔اور کہا جاتا ہے کہ امامِ عادل زمین پر اللہ کا سایہ ہے؛ کیونکہ تمام مخلوق اس کے سائے میں آرام پاتی ہے۔ تو ایسا امام عدل کرے گا تو اللہ اسے (قیامت کے دن) اپنے سائے میں رکھے گا۔(فتح الباری،۵۹۔۴)
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے اور رحمن کے دائیں ہاتھ پر ہوں گے ۔ اور اس کا ہر ہاتھ دائیاں ہی ہے ۔ جو اپنے فیصلوں میں، اپنے گھر والوں میں اور اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کرتے ہیں‘‘۔ (رواہ مسلم، ۴۸۲۵)
مومن کے اخلاق کا اعلی درجہ یہ ہے کہ وہ ان پر بھی ظلم کرنے سے باز رہتا ہے جنہوں نے اس سے انصاف نہ کیا ہو۔ حدیث ہے:
’’جب امانت تمہارے سپرد کی جائے تو اسے ادا کرو، اور جو تم سے خیانت کرے تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔ (رواہ الترمذی)
ابن القیمؒ کہتے ہیں کہ: ’’ اللہ تعالیٰ انصاف کو پسند کرتا ہے، بلکہ یہ بہترین زیور ہے جس سے وہ کسی انسان کو آراستہ کرتا ہے۔‘‘ (اعلام الموقعین،۳۔۷۸)
مالک بن دینارؒ کہتے ہیں: ’’لوگوں میں سب سے کم انصاف ہی ہے‘‘۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، ۱۔۲۶۳)
جعفر بن سعدؒ کا قول ہے: ’’انصاف کتنا کمیاب ہے، اور اس کے عکس معاملہ کس قدر زیادہ ہے (یعنی ظلم)۔‘‘ (اعلام الموقعین،۳۔۷۸)

رسول اللہؐ اللہ سے دعا کرتے تھے: ’’میں تجھ سے غصّے اور رضامندی (دونوں حالتوں میں) کلمہِ حق کا سوال کرتا ہوں‘‘۔ (رواہ النسائی، ۱۳۰۵)
حضرت عمار بن یاسرؓ کا قول ہے: ’’جس میں تین صفات جمع ہو گئیں اس میں ایمان جمع ہو گیا: ۱۔ اپنے آپ سے انصاف کرنا، ۲۔ دنیا میں سلامتی کو پھیلانا، ۳۔ تنگدستی کے باوجود انفاق کرنا‘‘۔ (رواہ عبد الرزاق فی المنصف، ۱۹۴۳۹)
ابنِ عبد البرؒ کہتے ہیں: علم کی برکت اور اس کے آداب میں ہے کہ وہ انصاف کرے، اور اگر اس نے انصاف نہ کیا تو نہ وہ سمجھا اور نہ اس نے سمجھایا‘‘۔ (جامع بیان العلم وفھمہ، ۱۔۲۵۸)
بے لاگ انصاف
رسول اللہ ؐ انصاف کے علمبردار تھے، ساری گروہ بندیوں سے بالا تر ہو کر سب انسانوں سے یکساں انصاف۔اللہ تعالیٰ نے محمدؐ سے فرمایا کہ کہہ دیں: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں‘‘۔ (الشوری، ۱۵)
یعنی جس کی جو بات حق ہے اس کا ساتھ دوں، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔اور جس کی جو بات خلاف ِ حق ہے ، میں اس کا مخالف ہوں، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
اور جس حق کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں، اس میں بھی کسی میں کوئی امتیاز نہیں بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے غیر، بڑے اور چھوٹے، امیر اور غریب، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں۔ جو گناہ اور حرام ہے وہ سب کے لیے گناہ اور حرام ہے، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے، اور اس بے لاگ ضابطے میں میری ذات کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۹۴)
رسول اللہ ؐ اپنے آپ سے ڈرتے تھے کہ کہیں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے عدل سے نہ ہٹ جائیں، اور آپؐ نے فرمایا: ’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ میں اس حال میں اس سے ملوں کہ تم میں سے کوئی اپنے خون یا مال میںظلم کا میرے خلاف دعوے دار نہ ہو‘‘۔(رواہ ابو داؤد، ۳۴۹۱)
رسول اللہ ؐ مخلوقات میں عدل کرنے میں سب سے بڑے عادل تھے۔ غزوہ حنین کے موقع پر جب آپؐ نے نئے مسلمان ہونے والے بعض سرداروںکو (تالیفِ قلب کے لیے) مالِ غنیمت میں سے زیادہ حصّہ دیا تو ایک منافق ذو الخویصرہ کو گلہ ہؤا، اور اس نے کہا کہ : آج کی تقسیم میں انصاف نہیں ہؤا۔ آپؐ کو اس کی بات پہنچائی گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’من یعدل اذ لم اعدل‘‘، میں عدل نہیں کروں گا تو پھر کون عدل کرے گا؟
انصاف کے میدان
اپنے آپ سے انصاف؛ انسان کا اپنے حق میں انصاف یہ ہے کہ وہ خود کو معاشرے کا مفید فرد بنائے، اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اپنے سامنے اس کا اعتراف کرے، اور درست راہ کو اختیار کر لے۔اور گناہ اور زیادتی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے۔اپنے اوپر وہ بوجھ نہ ڈالے جنہیں اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔
رسول ِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اپنے نفس کے ساتھ بھی عدل کرو‘‘۔ کچھ صحابہؓ نے ساری رات عبادت اور روزانہ روزہ رکھنے کا عہد کیا تو آپؐ نے انہیں اس سے منع فرما دیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ حضرت ابودرداء ؓ کے گھر رات ٹھہرے ، تو انہیں ساری رات عبادت میں مشغول پایا، تو ان سے کہا: بے شک تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے، اور تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے گھروالوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ (ایک روایت کے مطابق: اور تیرے پڑوسی کا بھی تجھ پر حق ہے) تو ہر حق دار کو اس کا حق دو۔ (رواہ البخاری، ۱۹۶۸)
اپنے اہل و عیال اور اقارب سے انصاف؛ ان کی ذمہ داریاں ادا کرے اور ان کے حقوق ادا کرے۔ ان کی خوشیوں کا خیال رکھے، اور ان کے لیے کسی ذلت اور عار کا سبب نہ بنے۔گھر کے ماحول میں عدل قائم رکھے۔ رسول کریم ؐ کی ایک وقت میں نو ازواج تھیں اور آپؐ ان کے حقوق میں عدل کرتے، البتہ انس یا محبت کے معاملے میں آپؐ نے فرمایا کہ: اے اللہ میں اپنی استطاعت کی حد تک برابر تقسیم کرتا ہوں، اس لیے

جو بات میرے بس میں نہیں ہے اس پر میرا مواخذہ نہ کرنا۔اپنی آخری بیماری میں آپؐ باقی ازواج کی اجازت سے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں منتقل ہو گئے۔
اسلام تعدد ِ ازواج کی اجازت کو عدل کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ میاں بیوی باہم مشاورت سے کچھ حقوق کی کمی بیشی پر معاہدہ کر سکتے ہیں، لیکن یہ حقوق اتنے کم نہ ہوں کہ عورت خود کو معلق (جیسے اس کا شوہر ہی نہ ہو) نہ سمجھنے لگے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو معلق کر دیا، (یعنی اس کے حقوق ادا کرنے چھوڑ دیے) وہ قیامت کے دن اس طرح حاضر ہو گا کہ اس کے جسم کا ایک حصّہ معلق یعنی مفلوج ہو گا۔
ایک شخص نے اپنے ایک بیٹے کو جائیداد کا حصّہ دینے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ ؐ کو اس پر گواہ بنانا چاہا تو آپؐ نے پوچھا کہ تم نے دوسرے بیٹوں کو بھی جائیداد میں سے حصّہ دیا ہے؟ اس کے انکار پر آپؐ نے فرمایا: مجھے ظلم کا گواہ نہ بناؤ۔
اپنے کام سے انصاف؛ اسے بہترین مہارت اور توجہ سے کرنا، اور حسن انجام تک پہنچانا۔ اگر اس کے زیر دست ملازمین یا عمال ہوں تو ان کے حقوق کا خیال رکھنا۔
حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو رسول کریم ؐ نے خیبر کے یہودیوں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگانے بھیجا، یہود نے ان کو رشوت دینے کی کوشش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیںتو انہوں نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم، میں اس ہستی کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اور تم میرے نزدیک سب سے نا پسندیدہ لوگ ہو، لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں‘‘۔ یہ سن کر یہودیوں نے کہا: ’’اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین کا نظام قائم ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)
انصاف قائم کرنے میں معاون عوامل
٭ سچائی کا مشتاق ہو ، نہ کہ کانوں کا کچا ہو۔ دلیل کو قبول کرنے والا ہو۔
٭ لوگوں کی نیکیوں کو یاد رکھے اور ان کے فضائل کا اعتراف کرے۔وہ بُرے پڑوسی کی مانند نہ ہو جو خیر اور بھلی بات کو دیکھ کر خاموش رہتا ہے اور اگر کوئی کمزوری نظر آجائے تو اس کا ڈھنڈورا پیٹ دیتا ہے۔
٭ تعصب اور جانب داری سے اجتناب برتے، کیونکہ تعصب انسان کو اعتراف ِ حق سے دور کر دیتا ہے۔
٭ مفید مذاکرات کرنا جانتا ہو، اور بے فائدہ لڑائی کے اکھاڑے میں نہ اترے، جن کا انجام نفرت، ترک تعلقات اور جھگڑے کے سوا کچھ نہیں۔
٭ خطا کار کی معافی کی درخواست اور معذرت کو قبول کرنے والا ہو۔
مومنِ صادق اپنے انصاف کو بھی ہمیشہ جانچتا رہتا ہے، اور اس سے ڈرتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بے انصافی نہ ہو جائے۔وہ اپنے فیصلوں کو پرکھتا ہے کہ کہیں اس میں جانب داری تو نہیں ہو گئی، یا اپنے ذاتی خواہش کی بنا پر کہیں اس نے ظلم تو نہیں کر دیا۔اللہ تعالیٰ نے اسی کی تصویر کشی کی ہے:
’’اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیںکہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (المؤمنون،۶۰)
انصاف کسی بھی معاشرے میں امن و سلامتی کی پہچان ہے، جب ظلم بڑھتا ہے تو اس کا رد ِ عمل بھی ظاہر ہوتا ہے، اور معاشرے میں من مانی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ لوگ حقوق حاصل کرنے کے لیے اپنے وقت کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اسے آگے بڑھ کر چھین لینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ایسی نفسا نفسی پیدا ہوتی ہے کہ انسان طاقت اور دھونس کے ذریعے ہر چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسے معاشرے میں گھروں میں کہیں خاندان کے بڑے ظالم سماج بن کر اپنی ہی اولاد کے حقوق سلب کرتے ہیں تو کہیں اولاد سرکش بن کر والدین سے احسان تو دور کی بات انصاف بھی نہیں کر پاتی۔ تعلیمی اداروں میں میرٹ کے بجائے سفارش اور رشوت رواج پاتی ہے، اور یہی حال ملازمتوں کا

ہے، جہاں امیدواروں کے لیے قابلیت سے بڑھ کر کسی بڑے کی سفارش درکار ہوتی ہے، اور کہیں ایک ایک اسامی منہ بولے داموں میں نیلام ہوتی ہے۔ عدالتیں انصاف کے حصول کے لیے مظلوموں کی داد رسی کے مراکز ہیں لیکن یہاں بھی اکثر وبیشتر ظالمانہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بڑے مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور معمولی جرم میں قید ملزمان برسوں فیصلوں کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔معاشرے کے بدترین افراد دھوکے اور فریب سے پارلیمنٹ اور قانون سازی کے اداروں تک پہنچ جاتے ہیں، پھر قوانین کو افراد کی سہولت کے تحت موم کی ناک بنا دیا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ (الروم، ۴۱) اس سے مراد وہ فسق اور ظلم و جور ہے جو لازماً بری کمائی کے بدلے انسانی کردار و اخلاق میں نمودار ہوتا ہے۔جسے تو حید کے پیغام اور پر امن معاشرے کی تشکیل ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔
رسول ِ کریم ؐ نے ایک ذِرہ کی چوری کے مقدمے میں ایک یہودی کے حق میں فیصلہ دیا، اور (منافق) مسلمان کو سزا سنائی۔مخزوم قبیلے کی خاتون فاطمہ چوری کے جرم میں پکڑی گئی تو اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، اور سفارش کرنے والوں پر برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا: اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔
خلیفۃ المسلمین عمر فاروقؓ نے مصر کے گورنر عمرو بن العاصؓ کے بیٹے کے بارے میں شکایت ملنے پر کہ اس نے ایک مصری کو دوڑ کے مقابلہ میں جیت جانے پر اسے مارا ہے کہ ’’اکرمین (معززین) کے بیٹے سے آگے بڑھتے ہو‘‘، حضرت عمرؓ نے والد اور بیٹے کو حج کے موقع پر بلا لیا اور اس مصری لڑکے کے ہاتھ میں چھڑی دے کر اسے کہا: ’’معززین کے بیٹے کو خوب مارو‘‘، یہاں تک کہ مارنے کے بعد، اس نے خود کہا کہ میں نے خوب مار لیا ہے اور انصاف سے میرا دل خوش ہو گیا ہے۔
قیصر ِ روم نے ایک قاصد مدینہ بھیجا، وہ حضرت عمر بن خطابؓ کے بارے میں پوچھتا ہؤا آیا، تو انہیں درّہ سرہانے رکھے زمین پر سویا ہؤا پایا۔ انہیں دیکھ کر اس پر ہیبت طاری ہو گئی اور اس نے رقت بھرے انداز میں کہا: ’’اے عمرؓؓ، تم نے انصاف کیا اس لیے تم امن اور سکون میں ہو۔اور دنیا کے بادشاہ ظالم ہیں اس لیے وہ خائف ہیں اور ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں‘‘۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے نظامِ انصاف کی عمدہ مثال پیش کی، مملکت میں پیدا ہونے والے بچے سے لے کر سہاگنوں اور بزرگوں، اور تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ آج مغرب کی جن متمدن اقوام نے رفاہی حکومتیں قائم کی ہیں، وہاں ان شعبوں میں حضرت عمرؓ کے جاری کردہ نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ’’چائلڈ بینیفٹ‘‘، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو مفت علاج کی سہولت، حقِ سکونت اور دیگر شہری حقوق تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ رنگ، نسل اور زبان کی بنا پر خلیج میں کمی آئی ہے، اگرچہ مذہبی آزادی کے بارے میں اب بھی کئی ممالک میں مغرب تعصب کا شکار ہے، کہیں حجاب پر پابندی لگائی جاتی اور کہیں غیر علانیہ طور پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور کہیں ترقی میں مشکل! اگرچہ تمام جگہ صورتِ حال ایک جیسی نہیں ہے۔اپنی قوم کے افراد کو سہولیات فراہم کرنے اوران کی ذہنی، جسمانی اور مادی ترقی کے مواقع برابری کی بنیاد پر فراہم کرنے کے لیے قانون بھی موجود ہیں اور عملی اقدامات بھی۔ لیکن دوسری قوموں اور خصوصاً مسلمان ممالک سے غیر عادلانہ برتاؤ کی مستقل پایسی نظر آتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ہو یا عالمی عدالت، کچھ ممالک ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مصداق من مانے طریقے سے مغلوب اقوام کو مزید کچلتے ہیں، امریکہ بے بنیاد اور غیر مصدقہ اطلاعات کے باوجود عراق پر حملہ کرتا ہے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ نو ستمبر کے ’’ٹوِن ٹاور‘‘ حملے کے بعد از خود قیاس کر کے ایک دشمن کا تعین کرتا ہے اور تئیس ممالک کی طاقت ور فوجوں کے ساتھ تقریباً دو دہائیوں پر محیط ایک یک طرفہ جنگ افغانستان پر مسلط کر دیتا ہے۔ بھارت یک جنبشِ قلم کشمیر میںآئین کی شق۳۷۰ کو ختم کر کے اس کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کر دیتا ہے اور کشمیر کو عملاً ایک جیل خانہ بنا دیتا ہے جس میں شہری آبادی کا کوئی انسانی حق بھی محفوظ نہیں رہتا۔ چین ایغور کے مسلمانوں کے ساتھ بد ترین

نسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے، اور مظلوموں کی کہیں داد رسی نہیں ہوتی۔
عدل کے برخلاف ظلم امنِ عالم کو تباہ کر دیتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ کبھی عالمی جنگوں کی صورت میں نکلتا ہے تو کبھی تشدد کی کارروائیوں اور دہشت گردی کے عفریت کی صورت میں۔کبھی ابو غریب جیل سے بے کسوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں اور کہیں گوانتا ناموبے کی خاک مظلو مو ں کے خون اور آہوں سے تر ہوتی ہے، اور وہاں کی فضائیں گریہ کناں ہوتی ہیں۔ ایک بے گناہ ’’عافیہ صدیقی‘‘ کو ظالمانہ طریقے سے گرفتار کیا جاتا ہے اور برسوں ستم کا نشانہ بنانے کے بعد دشمن ملک کی سرزمین پر یک طرفہ طور پر مقدمہ کی کاروائی کا ڈرامہ کر کے ۸۶ برس قید کی سزا دے دی جاتی ہے۔یہ عالمی انصاف کا بد نما چہرہ ہے، نجات توصرف اللہ کے بتائے ہوئے نظامِ انصاف میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام عدل و انصاف پر قائم کیا ہے لہٰذا بندوں کو بھی انصاف پر قائم رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم بے انصاف نہ بن جانا، خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی، بہرحال بات جب کہو انصاف کی کہواور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو۔ قران کریم میں جہاں بھی ’’عدل‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے اسے ’’صفت الناس‘‘ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس میں مومن اور کافر برابر ہیں۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انصاف انسانیت کو صرف اسلام کے ہاتھوں ملا، صرف مسلمانوں کی حکومت میں ملا، صرف اسلامی قیادت کے دور میں ملا۔ اس دور سے پہلے اور بعد میں انسانیت نے اسے گم پایا۔ اسے کبھی بھی اس کا چکھنا تک نصیب نہیں ہؤا۔ یہی اسلام میں نظام ِ عدالت کی اساس ہے۔

٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x