ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خطبہ حجۃ الوداع – بتول جولائی ۲۰۲۱

عرب کے صحرا میں اسلام کا سورج پوری آب و تاب سے چمکا اللہ تعالیٰ کی بھٹکی ہوئی مخلوق اپنے اصل مرکز پر جمع ہو گئی ۔ اسلام کے عقائد و اعمال اور شریعت کے اصول و فروع مکمل ہو گئے۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آگیا اور سارے عالم کی رہنمائی کے لیے ایک پاکیزہ جماعت تیار ہو گئی تو اللہ کا فرمان نازل ہؤا ۔
’’ جب خدا کی مدد آگئی اور (مکہ) فتح ہو چکا اور آپ ؐ نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں ۔ آپ ؐ خدا کی حمد کی تسبیح پڑھیں اور استغفار کریں اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘(سورہ نصر)۔
اس صورت کے نزول سے حضور اکرم ؐ سمجھ گئے کہ رحلت کا وقت آگیا ہے ۔ اس لیے ضروری تھا کہ شریعت اور اخلاق کے تمام سیاسی اصول مجمع عام میں پیش کر دیے جائیں ۔ ہجرت کے بعد ایک مدت گزر گئی تقریباً9سال ہو چکے تھے مگر آپؐ نے فریضہ حج ادا نہیں فرمایا تھا ۔ چنانچہ ذی القعدہ 10ھ میں اعلان ہؤا کہ حضور اکرم ؐ حج کے ارادے سے مکہ تشریف لے جا رہے ہیں ۔ اس خبر کے عام ہوتے ہی تمام عرب آپ ؐ کے ساتھ حج کرنے کے لیے اُمڈ آیا ۔ آپؐ۲۶ ذی القعدہ کو غسل فرما کر احرام کی چادر اور تہبند باندھا ۔ نماز ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے روانگی ہوئی ۔ تمام ازواج مطہرات ساتھ تھیں ۔ مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ذوالحلیفہ جو مدینہ منور ہ کی میقات ہے ۔ وہاں پہنچ کر شب بھر قیام فرمایاظہر دوسرے دن دوبارہ غسل فرمایا اور سیدہ عائشہؓ نے خوشبو لگائی ۔ اس کے بعد دو نفل ادا فرمائے احرام کی نیت فرمائی اور قصویٰ اونٹنی پر سوار ہو کر بلند آواز میں تلبیہ پڑھی۔
لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمدو النعمۃ لک والملک لا شریک لک اے اللہ ہم تیرے سامنے حاضر ہیں ۔ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ہم حاضر ہیں ۔ تعریف اور نعمت سب تیری ہی ہے اور سلطنت میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
آپؐ کے ساتھ تقریباً سوا لاکھ لوگ تھے ۔ مکہ مکرمہ کے قریب سرَف ( وادی فاطمہ) میں پہنچ کر غسل فرمایا ۔ دوسرے دن ۴ذی الحجہ صبح کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا یہ سفر 9دن میں طے ہؤا۔ جب کعبہ شریف پر نظر پڑی تو فرمایا ’’ یا اللہ اس گھر کی عزت و شرف کو دوبالا کردے ‘‘۔ پھر کعبہ شریف کا طواف ادا کیا ۔ پہلے تین چکر رمل ( کندھا ہلا کر اور اکڑ کر چلنا) کے ساتھ اور باقی چار چکر عام چال سے پورے فرمائے ۔
طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم پر تشریف لائے۔اور یہ آیت پڑھی…واتحذو من مقام ابراھیم مصلی’’ اور مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ بنائو ‘‘۔
یہاں دو نفل ادا کیے پہلی ر کعت میں قل یا ایھاالکفرون اور دوسری میں قل ھو اللہ احد پڑھی۔ اس کے بعد سعی کے لیے صفا و مروہ تشریف لے گئے ۔ سات چکر ادا کرنے کے بعد اعلان فرمایا کہ جن کے پاس قربانی کے جانور ہیں وہ احرام نہ کھولیں اور باقی لوگ حجامت بنوا کر احرام کھول دیں۔ حضرت علی جنہیں حضور اکرم ؐ نے یمن سے قربانی کے اونٹ لانے کے لیے بھیجا تھا وہ ایک سو اونٹ اور یمن کے حجاج کا قافلہ لے کر تشریف لائے۔ جمعرات ۸ ذی الحجہ صبح سورج طلوع ہونے کے بعد آپؐ منیٰ تشریف لے گئے جہاں ظہر عصر ، مغرب عشا اور ۹ ذی الحجہ کی فجر کی نماز ادا فرمائی ۔ جمعہ کے دن ۹ ذی الحجہ منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے ۔ نمرہ میں کمبل کا ایک خیمہ نصب کیا گیا وہاں قیام فرمایا زوال کے وقت اونٹنی پر سوار ہو کر میدان عرفات میں تشریف لائے اور اونٹنی پر ہی خطبہ ارشاد

فرمایا ۔ یہ خطبہ تھا جو آپ ؐ کی 23سالہ مبلغانہ مساعی کا حاصل ہے ۔ یہ خطبہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصول اخلاقیات ، ضوابط حسن ِ معاشرت کا جامع دستور العمل اور عالمی انسانی منشور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
’’ سب تعریف اللہ کے لیے ہے ۔ ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں اسی کی حمد و ثنا کرتے ہیں ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ کہتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ جس کو اللہ ہدایت دے اس کو کوئی راہ سے بھٹکا نہیں سکتا اور جس کو وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ لوگو! میری بات غور سے سنو ۔ کیا خبر اس سال کے بعد اس جگہ میری تمہاری ملاقات نہ ہو سکے۔ لوگو! حج کے مسائل مجھ سے سیکھ لو شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت نہ آئے۔
لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا ہے تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹ دیا ہے کہ تم الگ الگ پہچانے جائو ۔ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ معزز اور مکرم وہی ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں نہ کالا گورے پر فضیلت رکھتا ہے نہ گورا کالے پر ، بزرگی اور فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے ‘‘۔ سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے جاہلیت میں فضیلت اور برتری کے سارے دعوے میرے قدموں تلے ساقط ہو گئے ہیں ۔ بس بیت اللہ کی تولیت اور پانی پلانے کی خدمات باقی رہیں گی ۔ قتل عمد کا قصاص لیا جائے گا ۔ اس کی دیت سو اونٹ ہے ۔ہر قسم کا سود، اس کا لین دین آج سے ممنوع ہے ،زمانہ جاہلیت کے تمام سودی کا روبار اب باطل ہیں اور جہاں تک عباس بن عبد المطلب کے سود کا تعلق ہے تو وہ تمام کا تمام ساقط ہے ۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون ( بدلہ اور انتقام) اب کالعدم ہیں اور میں اپنے خاندان کے ربیعہ بن حارث کا خون معاف کرتا ہوں۔ بے شک نسئی کفر کا باعث ہے اللہ نے جو گنتی مقر کر رکھی ہے اسے پورا کرنا ضروری ہے ۔
لوگو! اب زمانہ گھوم پھر کر اسی جگہ آگیا ہے جہاں سے کائنات کی پیدائش ہوئی تھی ۔ مہینوں کی تعداد بارہ اور چار مہینے حرام ہے ۔ یعنی ذی القعد، ذی الحجہ محرم اور رجب۔ حج قیامت تک اب ذی الحجہ کے مہینے کے ساتھ مخصوص رہے گا۔ لوگو ! تمہارے جان و مال عزت ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دیے گئے ہیں اور یہ ایسے ہی محترم ہیں جیسے آج کا دن آج کا مہینہ اور یہ مقام محترم ہے ۔ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کا خون حلال سمجھے ۔ مسلمان وہی ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھے اور مجاہد وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر نفس کشی کرے ۔ خبر دار اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس کو لوٹانے کا پابند ہے ۔ ضامن ضمانت کا ذمہ دار ہے اور مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے ۔ نہ باپ کا بدلہ بیٹے سے اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا ۔
لوگو! سارے مسلمان آپس میں بھائی ہیں اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ ہاں غلاموں کا خیال رکھو۔ جو خود کھاتے ہو وہ انہیں کھلائو ایسا ہی پہنائو جیسا خود پہنتے ہو۔ بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہؤا۔ جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا پتھر ہے اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اللہ کی ، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا کوئی معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا۔
لوگو عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ان کے ساتھ حسن سلوک کروکیونکہ وہ اللہ کے کلام کے تحت تم پر حلال کی گئیں اگر وہ فرمانبرداری کریں تو ان پر کسی قسم کی زیادتی کا تمہیں کوئی حق نہیں ان کا کھانا کپڑا تمہارے ذمے ہے۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے یا کسی ایسے شخص کو تمہاری غیر موجودگی میں بلائے جسے تم پسند نہیں کرتے ۔ یا بے حیائی اور بد کاری کے کام کرے اگر وہ یہ سب کرے تو تم ان پر سختی کرو اور انہیں بستروں پر اکیلا چھوڑ دو۔
لوگو!اپنے پرور دگارکی عبادت کرو نماز پنجگانہ ادا کرو رمضان کے روزے رکھو ۔ اپنے رب کے گھر کا حج کرو اپنی زکوٰۃ خوشی خوشی دیا کرو اور اپنے حکام کی اطاعت کرو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جائو۔لوگو

للہ سے ڈرو ناپ تول میں کمی نہ کرو ملک میں فساد کرتے نہ پھرو دین میں غلُو سے بچو۔
لوگو! شیطان اس بات سے تو بے شک بالکل مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے اس سر زمین پر کبھی اس کی پرستش کی جائے گی مگر چوکنا رہنا اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر اس سے بچے رہنا ۔ اللہ کے نام پر جھوٹی قسمیں نہ کھایا کرو میں نے تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو گے اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہے ۔ اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی سنت ۔ خبر دار میرے بعد کہیں کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ لوگو! تم اپنے رب سے ملو گے تو اللہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں ضرور باز پرس کرے گا ۔ پس جو آخرت کو ہی پیش نظر رکھے گا تو اللہ اسے دلجمعی عطا کرے گا اور اسے دنیا میں تو نگری اور بے نیازی عطا کرے گا اور دنیا اس کے قدموں میں سر نگوں ہو کر خود آئے گی لیکن جو دنیا کو ہی محبوب و مقصود قرار دے گا تو اللہ اس کے معاملات کو منتشر و متفرق کر دے گا اور وہ شخص دنیا میں افلاس و تنگدستی دیکھ لے گا دنیا میں سے اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے ۔ لوگو جو یہاں موجود ہیں وہ غیر حاضر تک میری باتیں پہنچا دیں ۔
پھر آپؐ نے فرمایا ’’ اے اللہ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ‘‘۔ پھر آپ ؐ نے لوگوں سے دریافت کیا ’’ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک اچھی طرح پہنچا دیا ‘‘ سب نے اقرار کیا ’’ بے شک اللہ کے رسوؐل‘‘۔ تب آپ ؐ نے فرمایا ’’ اے اللہ تو گواہ رہنا ‘‘۔
یہ خطبہ حجۃ الوداع امن و سلامتی ، تہذیب و معاشرت حقوق انسانیت کا ایسا پیغام ہے جو اپنی جزئیات کے اعتبار سے انتہائی مکمل اور جامع ہے ۔
خطبہ سے فارغ ہو کر حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا ۔ پھر ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا فرمائی ۔ پھر موقف میں تشریف لائے دیر تک قبلہ رو کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے ۔ جب آفتاب ڈوبنے لگا تو چلنے کی تیاری فرمائی ۔ اسامہ بن زید کو اونٹ پر پیچھے بٹھا لیا ۔ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا فرمائی ۔ رات آرام فرمانے کے بعد صبح نماز پڑھ کر سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ واپس تشریف لائے ۔ اس وقت فضل بن عباس اونٹنی پر پیچھے بیٹھے تھے ۔ وادی محسّر میں ابن عباس کو حکم دیا کہ مجھے کنکریاںچن دیں ۔ حجریٰ عقبہٰ کی رمی سے فارغ ہو کر میدان منیٰ تشریف لائے سیدنا بلال ؓ ناقہ کی مہار تھامے ہوئے تھے ۔
آپ ؐ نے سو اونٹ کی قربانی کی ۶۳ اونٹ آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیے اور ۳۷ سید نا حضرت علی ؓ نے قربانی کی ۔ قربانی سے فارغ ہو کر سر مبارک معمر بن عبد اللہ ؓ سے منڈوایا ۔ فرطِ محبت سے ابو طلحہ ؓ اور ان کی بیوی ام سلیم کو اپنے دست مبارک سے کچھ بال عنایت فرمائے اور باقی ماندہ بال ابو طلحہؓ نے اپنے ہاتھ سے تمام مسلمانوں میں ایک ایک دو ، دو کر کے تقسیم کر دیے ۔ اس کے بعد آپؐ نے طواف زیارت کیا ۔ چاہِ زمزم پر تشریف لائے ۔ سیدنا عباسؓ نے ڈول میں پانی نکال کر پیش کیا ۔ آپؐ نے قبلہ رو ہو کر نوش فرمایا اور منیٰ واپس تشریف لے جا کر نمازِ ظہر ادا فرمائی ۔ ۱۳ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام فرمایا ۔ زوال کے بعد منیٰ سے چل کر وادی محصب ( معابدہ) میں قیام کیا ۔ رات وہاں بسر فرمائی اور سحری کے وقت مکہ تشریف لائے ۔ کعبہ شریف کا الوداعی طواف ادا فرمایا اور صبح نماز کے بعد مدینہ روانہ ہو گئے ۔
حوالہ جات:۔
ہادی اعظم از سید فضل الرحمن
مغازی رسولؐ از عروہ بن زبیر
سیرت خاتم النبین از حکیم محمود احمد ظفر
سیرت النبی از ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x