ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میں ہی پاکستان ہوں! – بتول اگست ۲۰۲۱

تم مجھے بتاتے ہو کہ پاکستان میں پانی کے کولر سے گلاس باندھنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بے ایمان ہیں ۔
لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ جس کولر کے ساتھ یہ گلاس بندھا ہوا تھا وہ بھی کسی پاکستانی نے کبھی ایصال ثواب کے لیے اپنے کسی عزیز کا نام لکھ کر یا ویسے ہی آخرت میں ثواب کے حصول کے لیے اس چلتی راہ میں لگا دیا ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ مسجد سے جوتے اٹھا لیے جاتے ہیں اب تو اللہ کا گھر بھی محفوظ نہیں لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ اس مسجد کی تعمیر میں کتنے پاکستانیوں نے اپنی محدود اور لامحدود آمدنی سے چند سکے جوڑ کر یا لاکھوں کے چیکس کی صورت میں حصہ ڈالا ہے ۔
تم یہ نہیں بتاتے کہ وہاں لوگوں کے سکون کی خاطر بجلی کا بل کوئی بھر رہا ہے وہاں پنکھے ہیٹرز اور اے سی سسٹم کے لیے کچھ لوگ خاموش رہ کر مسلسل حصہ ڈالتے ہیں ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ کسی ایک جگہ ایکسیڈنٹ ہوا تو لوگوں نے زخمیوں کے بٹوے تک نکال لیے لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ ان رخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والے بھی اسی دھرتی کے باسی تھے یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حادثے کے بعد خون دینے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں پہنچتے ہیں۔
تم یہ تو بتاتے ہو کہ زلزلے میں ملنے والی امداد چند لوگ کھا گئےلیکن یہ نہیں بتاتے کہ لاکھوں لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے گھروں سے بالکل نئے بستر نکال کر 2005 کے زلزلے کے بعد ٹرکوں کے ٹرک بھر کر مسائل زدہ بھائیوں کے لیے بھجوا دئے تھے ۔
تم یہ تو بتاتے ہو کہ کسی ناکے پر ایک پولیس والے نے کسی نوجوان کو گولی مار دی
لیکن تم بھول جاتے ہو کہ کتنے سپوت غیور ہماری ماوں نے اس دھرتی کے اوپر وار دیے ۔
تم مجھے بل گیٹس کے فلاحی کاموں کی مثالیں دیتے ہو ۔
لیکن میرے ایدھی اور چھیپا کو بھول جاتے ہو۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ ایک مشرف اور یحییٰ خان تھا ۔
لیکن تم بھول جاتے ہوکہ ایک میجرعزیز بھٹی تھا ۔
ایک سوار محمد حسین تھا ۔
ایک میجر محمد طفیل تھا ۔
ایک لالک جان بھی تھا۔
تم مجھے بتاتے ہوکہ ایک بنگلہ دیش بن گیا جس کے ڈاکٹر یونس کو گرامین بنک پر نوبل انعام مل گیا ۔
لیکن تم میرے ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھول جاتے ہو ۔
تم مجھے بتاتے ہو کہ میرے سکولوں کے اساتذہ گنوار اور جاہل ہیں بچوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔
لیکن تم میرے شجیع نصراللہ کی دریائے کنہار میں لگائی جانے والی چھلانگ بھول جاتے ہو ۔
تم میری سمیعہ نورین کو بھول جاتے ہو جو خود جل گئی لیکن بہت سے بچوں کو بچاگئی
اور آرمی پبلک سکول کی طاہرہ قاضی کو بھی بھول جاتے ہو۔
لگے رہو تم لگے رہو ۔
میں بھی لگا ہوا ہوں ۔
تم ہر موقعے پرشور مچاتے رہو ۔
میں ان چراغوں کی روشنی میں مزید چراغ جلاتا رہوں گا ۔
تم مایوسی پھیلاتے رہو ۔

میں امید کی ایک مدھم سی کرن کے پیچھے بھی چلوں گا ۔
میں جانتا ہوں کہ اس کرن کے پیچھے کوئی سورج ہے کوئی چاند ہے ۔
دیکھ لینا یہ روشنی کسی دن میرا آنگن ۔
نور سے بھر دے گی ۔
تم تب پلٹو گے جب میں کامیابی کی آخری سیڑھی پر کھڑا مسکرا رہا ہوں گا ۔
لیکن میں تمہیں پھر بھی خوش آمدید کہوں گا کہ میں امن سلامتی اور محبت کا داعی پاکستان ہوں میں ہی پاکستان ہوں!

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x