ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جھیل اور پرندہ – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

’’بے وقوف عورت! میری ہرے رنگ کی ٹائی تم نے کیوں نہیں رکھی … اور اور یہ بیگ میں یہ سب کچھ کیا ٹھونس لیا ہے۔ہم جہاز میں جا رہے ہیں … کوئی گدھا گاڑی میں نہیں … اب جلدی جلدی ضروری سامان چھانٹو! جو کپڑے میں اوکے کروں صرف وہی ڈالنا۔ اپنے لیے جو چاہو رکھو … لیکن دیکھنا سوئٹززلینڈ میں ہمیں اپنے بزنس مین دوست کے گھر ٹھہرنا ہے… تمھارے کپڑے اچھے اور معقول ہونے چاہئیں۔ چلو جلدی کرو… میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو … اپنا کام ختم کرو … جہاز کے جانے میں صرف چھ گھنٹے رہ گئے ہیں‘‘۔
وہ اپنی لمبی تقریر جھاڑ کر وارڈ روب کی طرف بڑھ گیا تھا اور وہ عورت اپنی انگلی میں پھنسی ہیرے کی انگوٹھی دیکھتی رہ گئی تھی جس کا نگ اس کے شوہر کی بے رحم نگاہوں سے ملتا جلتا تھا۔ شوہر کے آخری فقرے نے اسے جھٹکا سا دیا اور وہ اپنے لرزتے ہوئے وجود کو سمیٹتی ہوئی دوبارہ بیگ کی پیکنگ میں جت گئی۔
یہ بات درست نہ تھی کہ اسے کسی کام کا سلیقہ نہیں تھا درحقیقت بات صرف یہ تھی کہ اُسے دولت مند خاوند کی بیوی بننے کا سلیقہ نہیں تھا … غربت سے امارت کا یہ سفر گزشتہ پانچ برس میں ہی تو طے ہوا تھا … اس سے پہلے تو وہ کلرک کی بیوی تھی کلرک صفدر شاہ … زینب بی بی کا شوہر اور چار بچوں کا باپ … اس کے چھوٹے سے گھر میں ہزاروں نا تمام خواہشوں کے انبار لگے رہتے تھے۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کی یلغار … بڑی بیٹی کی شادی کی فکر۔ اُن کے سر پہ سوار رہتی تھی کبھی کوئی بھوکا ہوتا، کبھی کوئی بیمار مگر پھر اچانک خدا کو ان پر ترس آگیا۔ افریقہ میں اُن کے دور پار کے ماموں رہتے تھے۔ انھوں نے اچانک ویزہ بھیج دیا تھا۔وہاں سونے کی کانوں کا ذکر وہ سنتی آئی تھی … مگر اس کے گھر تو واقعی سونا برسنے لگا تھا … شروع شروع میں جب ان کا گھر نئی نئی چیزوں سے آشنا ہوا تو وہ کتنی مسرور ہوئی تھی ۔ سارے محلے میں ان کی شان ہی کچھ اورہو گئی تھی … سارے خاندان کی عورتیں اس سے جلنے لگی تھیں۔ وہ ان کے حسد سے بے نیاز اپنی نئی نویلی خوشیوں میں مگن اپنے سوہنے رب کا شکر ادا کرتے کرتے تھک سی جاتی تھی۔ ’’کیا ہم اس قابل تھے … ان ساری چیزوں کے‘‘ وہ چیزوں پر پیار سے ہاتھ پھیرپھیر کر سوچا کرتی۔
اور پھر نئی کوٹھی، نئے فرنیچر، نئے قالینوں کے ساتھ جب ایک میم سی عورت گھر کی ڈیکوریشن کرنے آئی تو وہ حیران حیران نظروں سے اسے دیکھتی رہ گئی … ان عجیب و غریب مشینوں کو سنبھالنے اور سجانے کا سلیقہ بھلا اس میں کہاں تھا … پھر گھر نوکروں سے بھرتا چلا گیا۔ جہاں صفدر شاہ اپنے کاموں کے لیے اسے پکارا کرتا تھا اب ملازموں کو پکارنے لگا۔ شاید اتنے چہروں، اتنے ملازموں میں وہ اس کا نام بھول گیا تھا۔ اب وہ زینو سے ’’بے وقوف عورت‘‘بن گئی تھی کیونکہ اسے سی ڈی پلیئر سے لے کر ویکیوم کلینر تک کے استعمال کا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ جسے کار ڈرائیو کرتے ہوئے خوف آتا تھا اور جو بہت صبح اٹھ کر وضو کا لوٹا کھڑکانے لگتی تھی۔
٭…٭…٭
وہ ہاتھ میں کپڑے لیے خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے سوچنے لگی … کہ کیا وہ واقعی بے وقوف نظر آنے لگی ہے۔ وہ کتنی بدل گئی تھی۔ اس کے بال چھوٹے چھوٹے لچھوں کی شکل میں گردن کے پاس پڑے تھے … اگرچہ میک اپ کے فن میں اب وہ اناڑی نہیں رہی تھی ۔ تھکن نے اس کے چہرے پر ڈیرے ڈال رکھے تھے اور یہ تھکن میک اپ کی شوخ تہوں میں بھی نہیں چھپ پا رہی تھی ۔ وہ اب ۴۷ برس کی ہو چکی تھی۔ اب سے تیس برس پہلے صفدر شاہ سے اس کی شادی ہوئی تھی کلرک کی حیثیت سے پچیس سال گزارنے کے بعد شوہر کی اڑان کا ساتھ دینے کے لیے

اس کے پاس بال و پر نہیں رہے تھے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد ناقص غذا نے اس کے جسم کی ساری توانائیاں نچوڑ لی تھیں۔ مگر صفدر شاہ پچاس برس کا ہونے کے باوجود بہت توانا تندرست نظر آتا تھا… بڑی بیٹی کی شادی کردی تھی… چھوٹے دونوں لڑکے پائن ہل سکول مری میں داخل ہو گئے تھے۔ بڑا لڑکا یونیورسٹی کا امتحان پاس کرکے برطانیہ چلا گیا تھا۔ فراغت ہی فراغت تھی مگر امنگ جیسے گہری نیند سو گئی تھی ۔ دولت نے ان کے کتنے ہی ادھورے کاموں کو پورا کر دیا تھا … لیکن اس کے اور صفدر شاہ کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج بھی حائل کر دی تھی۔ پہلے وہ ایک تھے مگر اب وہ دونوں علیحدہ علیحدہ شخصیتوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے وہ دونوں مل کر تھوڑی سی تنخواہ میں اکٹھے خرچ کرتے تھے … ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے … محبت کرتے تھے … مگر دولت … یہ دولت ایک پہاڑ کی طرح ان کے درمیان حائل ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭
جہاز اڑان کے لیےپر تول رہا تھا۔ میٹھی سی آواز میں انائونسمنٹ گونج رہی تھی ۔ وہ اپنی بیلٹ باندھنے لگی۔ تبھی صفدر شاہ نے گردن موڑ کر بہت بے زار لہجے میں کہا۔
’’اب پچھلی بار کی طرح مجھ پر الٹی نہ کر دینا۔ لفافہ لے کر منہ پرے کر لو … میرا دل بڑا خراب ہوتا ہے ‘‘۔
اس نے چپ چاپ اس کے حکم کی تعمیل کی۔
یہ وہی صفدر شاہ تھا جو شادی کے بعد کہا کرتا تھا کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ دنیا کا خوبصورت تحفہ قدرت نے تمھاری شکل میں مجھے دے دیا ہے۔ وہ وقت اسے بھولا نہیں تھا جب پہلی بار بس میں سوار ہو کر وہ اپنے سسرال آ رہی تھی تو اچانک اس کا جی متلانے لگا تھا۔ وہ الٹیاں کرنے لگی تھی … صفدر اپنا سرخ رومال نکال کر اس کے ہاتھوں اور کپڑوں کو پونچھنے لگا تھا وہ کتنی شرمندہ ہو رہی تھی۔ مگر وہ کتنی محبت سے اسے تسلی دے رہا تھا۔
’’کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں …‘‘ اس بات کا اس کی سہیلیوں نے کتنا مذاق اڑایا تھا۔
مگر اب ، اب ہر چیز بدل گئی تھی۔ صفدر علی اور وہ خود بھی ۔ وہ ذرا دیر سے گھر آتا تو وہ کتنے رعب سے پوچھا کرتی تھی ’’تم کہاں تھے اب تک؟‘‘ پھر وہ روٹھ جایا کرتی تھی مگر اب ، اب اگر وہ کئی کئی راتیں بھی گھر نہ آتا تو زینو کو پوچھنے کی جرأت نہیں تھی … وہ ایک ہی بات کہہ کر اس کا منہ بند کر دیتا تھا۔
’’ضروری کام تھا … میرے کاموں میں دخل مت دیا کرو… سمجھیں۔ مجھے بہت ضروری کام کرنا ہوتے ہیں۔ پیسہ بنانا خالہ جی کا گھر نہیں ہے‘‘۔
پہلے وہ شوہروں کی طرح برتائو کرتا تھا … مگر اب وہ آقائوں کی طرح بولتا اور بات کرتا تھا … کتنا فرق ہو گیا تھا … اِس صفدر میںاور اُس صفدر میں …دکھ اس کی پور پور میں سرایت کرتا جا رہا تھا ۔ اداسی تنہائی کا جنگل اس کے آس پاس پھیلتا جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پائوں سرد ہونے لگے تھے۔ جسم کے ہر حصے میں اچانک درد کی لہریں اٹھ اٹھ کر سارے وجود کو گھیرے میں لینے لگی تھیں۔ اس نے بے ساختہ اپنے ہاتھ سینے پہ رکھ لیے اور اس کا سر ڈھلک گیا۔ اس کے کانوں میں آواز آئی۔ اس کا شوہر ایئر ہوسٹس کو بلا کر کہہ رہا تھا۔
’’پلیز ذرا انھیں سنبھالیں۔ انھیں شاید ہارٹ اٹیک ہوا ہے‘‘۔ اور پھر اسے سیٹ پر لٹا دیا گیا۔ دو ہاتھوں نے اسے دوائی دی۔ جسے وہ تیزی سے نگل گئی اور پھر سو گئی … اچانک ہی ایک تیز جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی اور سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی ایک اور دھماکا ہوا … اس نے خود کو ہوا میں اچھلتے ہوئے محسوس کیا اور پھر تاریکیوں میں ڈوبتی چلی گئی۔
٭…٭…٭
فنی خرابی کی وجہ سے پائلٹ نے جہاز کو زمین پر اتارنے کی کوشش کی۔ لینڈنگ کے دوران جہاز ایک جزیرے میں جا گر اتھا۔ جہاز کا ایک حصہ جھیل میں اور دوسرا زمین سے آ ٹکرایا تھا۔ یوں کم بلندی سے گرنے کی وجہ سے جھیل میں گرنے والے حصے کے مسافروں میں سے کچھ زندہ بچ گئے تھے۔
وہ شاید کسی کیڑے کے کاٹنے سے بیدار ہوئی تھی ایک موت کی سی

غنودگی آمیز نیند نے اس کے اعصاب جکڑ لیے تھے … وہ اپنے پیروں پہ بمشکل کھڑی ہو پائی … اس کی آنکھوں کے سامنے اب ایک ناقابل برداشت منظر تھا ۔ چاروں طرف جہاز کے پرزے بکھرے ہوئے تھے۔ جیسے کسی بچے نے کھلو نے کو توڑ کر پھینک دیا ہو … زمین اتنے انسانوں کا خون چوس کر بھی زرد اور بھربھری تھی۔ دور دور تک جلی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان پھنسے ہوئے انسانی اعضاء جہاز کی بربادی کی داستان سنا رہے تھے۔ اب کیا بچا تھا … نہ کسی کا نشان ، نہ پہچان۔ وہ کانپتی لرزتی دوبارہ مٹی پر گر گئی … مگر بے ہوشی کا یہ وقفہ مختصر رہا … اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے… جسم دھوپ میں جھلسنے لگا تھا تب اس نے آنکھیں کھولیں اپنے زندہ ہونے کو تسلیم کیا اور اپنے ذہن کو بیدار کیا اسے پانی کی ضرورت تھی وہ لڑکھڑاتی ہوئی چند قدم چلی۔ پانی اس سے زیادہ دور نہ تھا… وہ پانی میں سے تو نکل کر آئی تھی۔ ساتھ ہی جھیل تھی ، آبی پرندوں کی میٹھی آوازیں اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں، وہ ڈگمگاتی دوبارہ پانی تک پہنچ گئی۔ پیاس بجھانے کے بعد دیر تک جھیل کے کنارے ہانپتی رہی ۔ پھر اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی واپس جھلسے ہوئے میدان تک آگئی۔ اتنے بڑے میدان میں وہ واحد متنفس کی طرح کھڑی تھی۔ غم زدہ، متوحش، اداس یہ سوچتے ہوئے کہ وہ کیوں زندہ ہے … موت اسے بھی آجاتی تو اچھا تھا آنسو آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔ اس کا اپنا صفدر شاہ اس کا سہاگ کہاں تھا وہ دیوانہ وار ڈھونڈنے لگی۔ ایک پھٹا ہوا بیگ نظر آیا پھٹے ہوئے بیگ کی دھجیاں ادھر ادھر اڑ رہی تھیں جگہ جگہ انسانی جسم کے ٹکڑے منظر کی ہولناکی میں اضافہ کر رہے تھے اس نے دہشت سے آنکھیں بند کرنا چاہیں ، رونا چاہا ، چیخنا چاہا مگر وہ کچھ نہیں کر سکی … اس کے اعصاب جیسے منجمد ہو گئے تھے اور تبھی گھنی جھاڑیوں کے اندر سے آتی ہوئی ایک کراہ نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا … وہ پاگلوں کی طرح جھاڑیوں میں گھستی چلی گئی … یہ آوا ز تو وہ اچھی طرح پہچانتی تھی … صفدر شاہ لہولہان وجود لیے اوندھا پڑا تھا وہ بے ساختہ اس پر جھکتی چلی گئی ۔ ’’تم ٹھیک ہو … ؟ تم بول سکتے ہو…؟تم آنکھیں کھولو میں زندہ ہوں، میں تمھاری زینب ، اٹھو دیکھو، کیسی قیامت برپا ہو گئی ہے‘‘۔
مگر وہ اس کی باتیں نہیں سن پا رہا تھا۔ زینب نے اس کی پیشانی سے بہہ بہہ کر آنکھوں کے گرد جمع ہونے والے خون کو صاف کیا تو وہ اس قابل ہوا کہ آنکھیں کھول سکے … مگر اس کے حواس ابھی اس کے قابو میں نہیں تھے۔ وہ اُسے بمشکل گھسیٹ کر درخت کے سائے میں لے آئی اور پھر جھیل کی طرف دوڑی۔
پانی حلق میں اترتے ہی صفدر شاہ کے چہرے پر زندگی کی چمک لوٹ آئی۔
٭…٭…٭
موت کے اس میدان میں اُنھیں تین زندہ افراد اور مل گئے تھے۔ زینب نے بڑی مشکل سے اپنی تمام تر ہمت جمع کرکے بسکٹوں کے بچے کھچے پیکٹ اور خشک دودھ کے دو تین ڈبے اکٹھے کیے۔ زخمیوں کو پانی پلایا … پانی کے لیے اس نے جہاز کی ایک لائٹ کا کور پیالے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ وہ یہ سب کام تنہا کر رہی تھی … اس ہولناک حادثے میں صفدر کی ٹانگیں بری طرح زخمی ہو گئی تھیں …گو زخم خطرناک نہیں تھے مگر مرہم پٹی کی ضرورت تو تھی۔ اس نے جنگلی جڑی بوٹیوں سے مرہم بنا کر سب زخمیوں کو لیپ کیا۔ کپڑوں کی دھجیاں پٹیوں کے طور پر استعمال کیں۔ مگر اس کے باوجود اگلے روز دو زخمی جن میں ایک بارہ سالہ لڑکا بھی شامل تھا زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے تھے۔ایک انگریز لڑکا جس کی عمر اس کے بیٹے کے برابر تھی کافی سنبھل گیا تھا۔ وہ زینو کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔ دونوں نے مل کر جہاز کی بکھری اشیاء تلاش کیں۔ کچھ ضروری اشیاء کا ذخیرہ کر لیا لائٹر کی مدد سے وہ آگ جلانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ زینو نے کھانا تیار کیا۔ جیسے ہی بھنی ہوئی مچھلی کی بو فضا میں پھیلی، ان تینوں کے چہرے زندگی کے بھرپور احساس سے دمک اٹھے۔ آگ کے دھوئیں سے اٹھنے والی دھوئیں کی لکیر زندگی کا پیغام لے کر آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھی۔وہ اس روز بہت خوش تھے۔ مرنے والوں کا غم دھل سا گیا تھا۔
٭…٭…٭
باہر کی دنیا میں خبر بہت دکھ سے سنی گئی تھی کہ سوئٹرزلینڈ جانے والی

فلائیٹ نمبر ۷۵۵ کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ بد نصیب مسافروں کی تصویریں دنیا بھر کے اخبارات میں دھڑا دھڑ چھپ رہی تھیں۔ یہ اخبارات مختلف حاشیہ آرائی سے خبریں پیش کر رہے تھے۔ ان میں کچھ افواہیں بھی شامل تھیں مثلاً جہاز فلاں فلاں جگہ دیکھا گیا … یا اُسے کسی باغی تنظیم نے اغوا کر لیا … آخری پیغام جو آپریٹر نے موصول کیا تھا اس کی جانچ پڑتال ہو رہی تھی … ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ جہاز کی تلاش میں دنیا کے مختلف ممالک کی ٹیمیں روانہ ہو چکی تھیں۔
٭…٭…٭
زینو اپنے شوہر کی تیمار داری بڑی تندہی سے کر رہی تھی۔ گو اس کے زخم خاصی حد تک مندمل ہو چکے تھے مگر وہ ابھی چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوا تھا۔ وہ اس کے کپڑے دھوتی بڑے پیارسے اس کا منہ دھلاتی۔ اس کے لیے جھیل سے تازہ مچھلی پکڑ کر لاتی اپنے ہاتھوں سے اُسے کھانا کھلاتی۔ زخموں کی دیکھ بھال بڑی توجہ سے کرتی … مگر ان تمام باتوں کے دوران وہ خاموش رہتی۔ اگر کبھی صفدربات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ ہوں ہاں میںجواب دے کر پھر چپ ہو جاتی۔ انگریز لڑکا سارا دن شکار کے پیچھے گھومتا رہتا تھا ساتھ ساتھ وہ ایک جھونپڑی بنانے میں بھی مصروف رہتا۔ یوں بھی وہ اردو نہیں بول پاتا تھا تینوں ایک ہوتے ہوئے بھی جدا جدا لگتے تھے۔ صفدر کو اس خاموشی سے وحشت ہونے لگی تھی … اس کا دل چاہتا تھا کہ زینو اس کے پاس بیٹھے۔ چاہے ایک وقت کا کھانا نہ دے مگر کوئی بات کرے۔ اس حادثے کے متعلق، آئندہ زندگی کے بارے میں، بیتے ہوئے دنوں کے قصے … کچھ بولے … مگر وہ خاموش تھی۔ فالتو وقت میں وہ ڈیوڈ کے ساتھ جھونپڑی بنانے میں مصروف رہتی تھی۔
٭…٭…٭
اس روز زینب جھیل سے مچھلی پکڑ کر لائی تھی ۔ یہ وہ مچھلیاں ہوتی تھیں جو اچانک کائی میں پھنس جاتی تھیں انھیں پکڑنا آسان ہو جاتا تھا۔ ڈیوڈ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ صفدر کو بھوک لگ رہی تھی۔ وہ مچھلی آگ پر بھون کر پتوں پر رکھ کر لائی تو صفدر نے اسے روک لیا ۔
’’زینب … کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘
’’زینب…؟‘‘اس نام پر چونک کر اس نے اپنے شوہر کو دیکھا … تو کیا اسے میرا نام یاد آگیا … کیونکہ یہاں نوکروں کی بھیڑ نہیں ہے … یہ اس کے مصائب کا دور ہے … تبھی میرا نام اس کی زبان پہ آگیا آنسو اس کی آنکھوں کی حد توڑ کر بہہ جانے کو بے تاب ہو گئے تھے۔ برسوں سے کھوئی ہوئی اپنائیت دوبارہ پا کر وہ بوکھلا سی گئی … مگر صفدر کے سامنے وہ اپنی اس کمزوری کا اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’یہ آج تمھیں میرا نام کیسے یاد آگیا ۔ تم تو مجھے چند برسوں سے بے وقوف عورت کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ زینب تو میں صرف اس وقت تھی جب میں تمھاری غربت کی ساتھی تھی۔ تمھاری گندی بنیانیں اور کپڑے جرابیں دھویا کرتی تھی، تمھاری نسل کی افزائش کے قابل تھی۔ تمھارے چھوٹے سے گھر کو صاف ستھرا رکھتی تھی اب تمھیں ہر کام کے لیے علیحدہ علیحدہ نوکر مل گئے ہیں۔ راتیں بسر کرنے کے لیے خوبصورت عورتیں مل گئی ہیں اب میری حیثیت کیا ہے؟ ایک بے وقوف عورت ، بے وقعت، بے قیمت !یہ تم تھے جو کبھی کہا کرتے تھے … کاش زینب میرے پاس اتنا پیسہ ہو کہ میں تمھارے قدموں میں نچھاور کر دوں ، اب پیسہ آیا ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ دولت نے تمھاری نظر میں ہر شے کی قیمت مقرر کر دی ہے اس لیے میری قیمت ایک پرانے گھسے پٹے فرنیچر سے بھی کم ہو گئی ہے ۔میں صرف ایک کم عقل اور بے وقوف عورت کی حیثیت رکھتی ہوں۔ پھر یہ آج تم نے اتنے پیار سے زینب کہہ کر مجھے کیسے پکارلیا‘‘۔
وہ یہ سب باتیں کہنا چاہتی تھی مگر زبان سے چپ کا تالا نہ ٹوٹ سکا۔
’’تم کیا سوچنے لگیں …‘‘ اس نے اپنی اشکبار نظریں اٹھا کر صفدر کو دیکھا۔ ٹانگوں کی تکلیف نے اسے کتنا کمزور اور زرد کر دیا تھا۔ کیا گلہ کرنے کا یہی وقت ہے۔اچھا ہوا … یہ الفاظ آواز نہیں بنے کیا خدا کا شکر ادا کرنے کو یہ کم ہے کہ وہ زندہ ہے جو بیت گیا سو بیت گیا۔ اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔ اب وہ کتنے پیار سےمجھے

پاس بٹھاتا ہے کتنے ممنون لہجے میں کہتا ہے … ’’تم تو میری مسیحا ہو‘‘ اور آج اس نے کتنے لاڈ سے مجھے میرے نام سے پکارا ہے ۔ خطائیں تو معاف کرنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ زینب کے دل میں پیار کے جھرنے پھر سے پھوٹنے کو بے تاب ہو گئے۔
’’مجھے معلوم ہے تم کیا سوچ رہی ہو … میں شرمندہ ہوں زینب کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ مجھے قدرت نے اس غفلت کی سزا دی ہے جو پچھلے کئی برسوں سے میں تم سے کرتا رہا ہوں … اب میں سوچتا ہوں کہ جب واپس جائوں گا … اگر بچ گیا تو تمھارے نام پہ ایک ہسپتال بنوائوں گا۔ یہ تمھاری اس محبت کا صلہ ہو گا جو تم مجھ سے کرتی ہو ، انہی دنوں کی یادگار وہ ہسپتال پورے ملک میں تمھارے نام سے مشہور ہو گا۔ سینکڑوں لوگ میری زینب کو دعائیں دیا کریں گے‘‘۔
دل کی بنجر زمین یکلخت لہلہا اٹھی تھی … سنگلاخ چٹانوں سے محبت کے سوتے پھوٹ نکلے۔ زینب کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہنے لگے۔
ایک ماہ گزر گیا تھا۔ ڈیوڈ کے بازو پہ زخم کے گہرے نشان بگڑتے جا رہے تھے۔ وہ شکار کرنے سے معذور ہو گیا تھا۔ اب سارا کام زینب کے حصے میں آگیا تھا۔ ڈیوڈ سارا دن درخت کی چھائوں میں بیٹھا لکڑیاں اور پتے الائو میں پھینکتا رہتا … اس کی نظریں آسمان پہ بھٹکتی رہتیںکہ شاید کوئی طیارہ یا ہیلی کاپٹر اُن کی تلاش میں آ نکلے۔ اگر بر وقت اس کا علاج نہ ہو سکا تو وہ سسک سسک کر مر جائے گا‘ وہ دکھ سے سوچتا رہتا۔ یہ عورت اپنے شوہر کی تیمارداری میں کتنی مگن اور مسرور ہے۔ دونوںگھنٹوں جانے کہاں کہاں کے قصے سناتے رہتے ہیں … کاش مجھے اُن کی زبان آتی یا یہ عورت میری اپنی قوم کی ہوتی تو یہ تنہائی اتنی بھیانک نہ ہوتی۔
صفدر شاہ زینب کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر بڑی مسرت سے کہتا۔ پتا نہیں ہم واپس جا بھی سکیں گے یا نہیں مگر اب مجھے پروا نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ ہو۔ یہاں تو موت بھی آسان ہو جائے گی۔ شہر نے مجھے تم سے دور کر دیا تھا … مگر اس جنگل میں تم نہ ہوتیں تو میں کب کا مر چکا ہوتا … تم دل ہی دل میں کہتی ہو گی … کہ میںکتنا خودغرض ہوں۔
’’آپ ایسی باتیں نہ کیا کیجیے…‘‘ زینب اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی۔
’’اب مجھے اپنے مرنے کا غم نہیں ہو گا … دکھ صرف یہ ہے کہ میں تمھیں کوئی سکھ نہ دے سکا۔ میری دولت نے تمھیں غم ہی غم دیے … شاید قدرت مجھے ایک بار پھر تلافی کا موقع دے یا نہ دے کیا معلوم ‘‘۔
’’صفدر تم اتنے مایوس کیوں ہوتے ہو …‘‘ زینب پیار سے اس کا ہاتھ تھام لیتی۔
’’تمھاری باتیں مجھے حوصلہ دیتی ہیں۔ زینب تم میری نظروں کے سامنے رہا کرو۔ ہر وقت باتیں کرتی رہا کرو‘‘۔ صفدر اسے اپنے قریب بٹھا لیتا۔
٭…٭…٭
وہاں جنگل تھا، اداسی تھی، تنہائی تھی ، کسمپرسی تھی مگر زینب کے چہرے سے اداسی کی دھول چھٹ چکی تھی۔ وہ ہر دم تروتازہ و چاق و چوبند رہتی۔ صبح سے شام تک وہ دونوں مریضوں کے کام کرتی مگر تھکن نے کبھی اسے نڈھال نہ کیا۔ اس کے لبوں پہ مسکراہٹ نے بسیرا کر لیا تھا۔ کئی ماہ پہلے ڈاکٹروں نے اس کے شوہر سے کہا تھا کہ تمھاری بیوی کو ہارٹ پرابلم ہے … مگر اب اس کے دل نے جھٹکے کھانا بند کر دیے تھے گھٹن جاتی رہی تھی … کتنی سبک رفتاری آگئی تھی اس کی زندگی میں۔
٭…٭…٭
اور پھر دو ماہ بعد ایک ہیلی کاپٹر نے اس جزیرے پر چکر لگایا۔ ڈیوڈ نے شور مچایا اور پھر اس کی گڑگڑاہٹ میں اضافہ ہوتا چلا گیا … ڈیوڈ کی جلائی ہوئی آگ اور اس کا دھواں رہبر بن گیا تھا۔
’’ہیلی کاپٹر … ہیلی کاپٹر ، وہ دیکھو، اس طرف‘‘۔ صفدر پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا …’’ہمیں دیکھ لیا گیا ہے ہمیں دیکھ لیا گیا ہے‘‘۔ وہ خوشی سے زمین پر دیوانوں کی طرح گھسٹ رہا تھا اور اس سمت بڑھ رہا تھا جہاں گردوغبار نے گھیرا ڈالا ہوا تھا۔
ڈیوڈ بازو ہلا ہلا کر چیخ رہا تھا۔
زینب جھیل پر اپنے کپڑے دھو رہی تھی … وہ برہنہ حالت میں تھی اس لیے فی الفور سامنے نہیں آسکتی تھی … جلدی جلدی گیلے کپڑے

پہنے اور بھاگتی آئی … اب گرد صاف ہو چکی تھی۔ ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھل چکا تھا۔ زندگی کی نوید لیے دو مسکراتے چہرے انھیں موت کی وادی سے نکالنے آ پہنچے تھے۔ صفدر اور ڈیوڈ وہاں پہنچ چکے تھے۔ زینب بھی بھاگتی دوڑتی ان تک پہنچ گئی۔ صفدر اسے دیکھتے ہی چلایا۔
’’او بے وقوف عورت! تم جھیل پر اتنی دیر سے کیا کر رہی تھی… کیا تمھارے کان بہرے ہو گئے ہیں … اب جلدی کرو … تمھیں آوازیں دے دے کر میرا حلق خشک ہو گیا ہے … کیا آج ہی دھونے تھے کپڑے‘‘۔
اور زینب کو اچانک یوں محسوس ہوا جیسے اس کے گیلے کپڑوں سے پانی نہیں دل صد چاک کا لہو بوند بوند ٹپک رہا ہے۔ اپنے سینے پہ ہاتھ رکھے وہ چند قدم چلی اور دو ہاتھوں نے اسے گرنے سے پہلے تھام لیا … ہیلی کاپٹر کی گھر گھر میں اُسےریسکیو ورکر کی آواز آئی …
’’بہت خوشی بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے‘‘۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x