ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رب کا شکر ادا کر بھائی! – بتول جولائی ۲۰۲۱

’’لہور لہور اے‘‘ کا احساس قلب و جان پر حاوی تھا۔ زندہ دلانِ لاہور نے ادبی لوگوں سے ملاقات کروا کے میرا لہو گرما دیا تھا اور خلوص و محبت کی جو پوٹلیاں ہر فرد اور ہر گھر سے حاصل ہوئی تھیں ان کو رکھنے کے لیے دل میں بھی خود بخود وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ دل محبتیں پا کر کیسے کھِل جاتا ہے… جیسے ننھی سی کلی پھول بن جاتی ہے! اور مجھے لاہور کو الوداع کہنا تھا۔ میرا اگلا سٹاپ مری تھا۔
میرے شوہر نے فون پہ ہدایت کی (جو کہ خود مری میں تشریف رکھتے تھے) ’’لاہور سے بس پکڑو اور پنڈی فیض آباد پہنچو، وہاں سے وین لو جو کہ چند قدم کے فاصلے سے مل جائے گی اور بس آرام سے مری آ جائو‘‘۔
ان کی حاکمانہ سی معلومات کو سنتے سنتے میں نے فیض آباد بس سٹاپ پر دو بیگ اٹھائے چند قدم چلنے کا تصور کیا اور کہا۔
’’میں اس بس پہ آئوں گی جو سیدھی مری آتی ہو گی‘‘۔
ان کی طرف سے بہادری کے جذبات کو ابھارنے او رعورت کی کمزوری کا احساس دلانے والے لہجہ میں ارشاد ہؤا۔
’’مرد بنو‘‘۔
میں نے مردانہ زندگی کی ناہمواریوں کا سوچا اور کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں مرد بن جاتی ہوں۔ آپ عورت بن جائیں‘‘۔
’’کیوں؟ میں کیوں عورت بن جائوں؟‘‘ مردانہ آواز میں مردانگی کی انا کو ٹھیس پہنچنے کا احساس غالب تھا۔
’’ کیونکہ جوڑی تو مرد اور عورت سے ہی بنتی ہے‘‘۔ میں نے رسان سے جواب دیا۔
’’اچھا بھ…ئی‘‘ (بھئی کہتے ہوئے مارے شدت کے انہوں نے ’’بھا‘‘ کو ذرا زیادہ ہی لمبا کر دیا جو بھائی بن گیا) ’’جو مرضی آئے کرو‘‘۔
’’اچھا، بہن جی! وہی ہو گا جو اللہ کو منظور ہو گا‘‘۔ میں نے بھی ہنستے ہوئے فون بند کر دیا۔
پھر اللہ کو یہ منظور تھا کہ میں فیض آباد ہی جائوں کیونکہ براہ راست مری جانے والی بس کا وقت سفر کے لئے مناسب نہ تھا۔
بارہ بجے بس لاہور سے روانہ ہوئی۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جو سارا راستہ جاری رہی کہیں کم کہیں زیادہ۔
سفر میں جب بھی کھیتوں کھلیانوں کو دیکھتی ہوں تو بنت الاسلام مرحوم کے ناول ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی‘‘ کا ایک سین یاد آ جاتا ہے کہ جب ایک ٹیچر ان کھیتوں، کارخانوں کو کلام الٰہی کی پھونک سے فیض یاب کر رہی ہوتی ہیں اور میں بھی اپنے پیارے پاکستان کی پیاری سرزمین کے لہلہاتے کھیتوں، بہتے دریائوں، زمین و آسمان کے لئے خیر کی دُعا مانگتی رہتی ہوں۔
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ یہ سب نعمتیں حکمرانوں کے لئے مخصوص ہیں۔ عام آدمی تو ان فیکٹریوں اور کھیتوں میں اپنا خون پسینہ بہانے کے لئے ہے اور اس پسینے کے خشک ہونے سے پہلے مزدوری حاصل ہوتی بھی ہے یا نہیں؟
پتہ نہیں یہ حکمران اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر ایک ایک پیسے اور دانے اور ایک ایک لمحے کا حساب دینے سے نہیں ڈرتے؟ پھر میں نے دل کو تسلی دی کہ حکمران حساب دیں گے اور عوام بے حساب جنت میں جائیں گے۔ میں نے دماغ میں آئی سوچ کو دل تک جانے سے روکا کہ عوام بھی تو قصور وار ہیں!
پتہ نہیں اس ظالم معاشرے میں ظلم کی چکی کہاں کہاں اور کس کس کو پیس رہی ہے۔ میرے دل میں درد ہونے لگا۔ دل کو بہلانے کے لیے میں نے اپنی ہم نشین کو دیکھا۔
میرے ساتھ میڈیکل کالج کی طالبہ اپنی موٹی موٹی کتابوں کو ادل

بدل کر پڑھ رہی تھی۔
میں نے دل ہی دل میں مستقبل کی ڈاکٹر کو خدمت خلق کے جذبے پر استقامت کی دُعا دی۔ یہ دُعا میں نے معمول کے ڈاکٹری جذبات کے مد نظر دی تھی جو سال چہارم تک آتے آتے معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر ان کے مستقبل کی دُعا کرنا ایک مجبوری بھی ہے۔ اس لئے کہ اپنی قوم کا مستقبل روشن رکھنے کیلئے ہم دُعا ہی کر سکتے ہیں۔
فیض آباد پہنچے تو تیز بارش ہو رہی تھی۔ بس والے بھائی سے پوچھا کہ مری جانے کے لئے وین کہاں سے ملے گی؟ اس نے بس کی ڈگی سے میرے دو بیگ نکالے اور کمال مہربانی سے مشورہ دیا۔
’’خالہ جی، آپ یہ پاس ہی ہمارے ویٹنگ روم میں بیٹھئے۔ ابھی کوئی لڑکا آپ کی مدد کر دے گا‘‘۔
وہ میرے دونوں بیگ اٹھا کر مجھے ویٹنگ روم میں بٹھا گیا اور پھر پلٹ کر نہ آیا۔ اسی اثناء میں میرے شوہر نامدار کا فون آیا۔
’’کہاں ہو؟‘‘
’’ویٹنگ روم میں‘‘
’’کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’انتظار‘‘۔
’’کس کا؟‘‘
’’وین کا‘‘
’’موسم کیسا ہے؟‘‘
’’شدید بارش ہے‘‘۔
’’اچھا مری میں بھی خوب برف پڑ رہی ہے‘‘۔ بچوں کی طرح چہکتے ہوئے انہوں نے فرمایا۔
پھر ان کو یاد آیا کہ میں مسافر ہوں۔ ’’اچھا میں نے تمہارے لئے بڑا اچھا انتظام کر دیا ہے۔ تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے‘‘۔ میرے میاں کو سرپرائز دینے کا بہت شوق ہے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وہ میرا استقبال کرنے فیض آباد تک آ گئے ہوں گے۔
’’اچھا… وہ کیا؟‘‘
’’محسن واہ کینٹ سے مری آ رہا ہے۔ اسے کہتا ہوں کہ تمہیں فیض آباد سے ساتھ لے لے۔ تم اس کا وہیں انتظار کرو‘‘۔
یہ انتظار کا لفظ اور کیفیت ’’بیوی‘‘ کے نصیب میں لکھی ہوئی ہے۔ اور میں نصیب یعنی انتظار میں مبتلا ہو گئی۔ محسن بھائی کا بھی فون آ گیا کہ ’’چلنے لگے ہیں‘‘۔ ان کے خیر سے پہنچنے کی دُعا کی۔
زنانہ ویٹنگ روم چھوٹا سا تھا۔ بیٹھنے کی جگہ مناسب تھی، ہیٹر بھی لگا ہؤا تھا۔ دو خاندان پہلے سے براجمان تھے اور ان میں سے ایک عوامی جگہ کو اپنی خاص ملکیت سمجھ کر مصروفِ کار تھا۔ ملتان سے آئی ہوئی یہ فیملی اسلام آباد کی سیر کر کے واپس جانے کے مرحلے طے کر رہی تھی۔ ویٹنگ روم ان کے گھر کا لائونج لگ رہا تھا۔ کرسیوں پر پھیلے کپڑے، کھانے کی پلیٹیں، چائے کا تھرمس، ادھر اُدھر پڑا تھا۔
چار سال کی بچی دو ڈھائی سال کا بچہ… اور ماں جو بلند آواز اور کرخت لہجہ میں بچوں کی تربیت فرما رہی تھیں رواں تبصرے کے ساتھ پہلے بچی کو شوخ و شنگ گوٹے کناری والے کپڑے پہنائے گئے جیسے کہ ابھی شادی میں شریک ہونے جا رہی ہوں۔ پھر باقاعدہ نیل پالش لگائی گئی اور بچی کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے کاجل اور نیل پالش لگوانے کے آداب سکھائے جاتے رہے۔ لپ اسٹک لگا کر بچی اپنے ہونٹوں کو ایسے سکیڑ کر بیٹھ گئی کہ ذرا سا ہونٹ ہلیں گے تو لپ سٹک نیچے گر جائے گی۔ اس کیفیت میں بیٹھی بچی کو دیکھ کر ماں نے زور سے قہقہہ لگایا اور بہت نامناسب سا تبصرہ کیا اور بچی کو لپ اسٹک لگا کر بیٹھنے کے آداب سمجھائے۔ ساتھ بیٹھی خاتون جو کہ خاموش اپنے خوابیدہ شاید بیمار چھ سال کے بچے کو گود میں سمیٹنے کی تگ و دو کر رہی تھیں، بچی کی ماں کے متوجہ کرنے پر چونکیں۔
’’میرے بچے بہت ذہین ہیں۔ ہر وہ کام کرتے ہیں جو بڑے کرتے ہیں۔ میں خود میک اپ سے پہلے اس کا نہ کروں تو طوفان مچا دیتی ہے‘‘۔
وہ خاتون پھر بھی کچھ نہ بولیں۔ بچے کو گود میں سمیٹنے کی مزید کوشش کرنے کے لئے یا ان کی طرف سے بے رخی کا اظہار کرنے کے لئے دائیں سے بائیں طرف مڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں۔

میرے مسلسل جائزہ لینے کا احساس ان خاتون کو ہو گیا اور وہ میری طرف متوجہ ہو گئیں۔ ’’بچوں کو کبھی دوسروں سے کم تر ہونے کا احساس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ ساتھ ہی اپنے بیگ کو گھسیٹ کر قریب کیا۔
’’میں اپنا لیپ ٹاپ ہمیشہ ساتھ رکھتی ہوں پتہ نہیں کہاں بچے ضد کرنے لگیں کارٹون دیکھنے کی‘‘۔ آواز اس قدر تیز تھی کہ کانوں کو گراں گزری۔
میں نے تکلفاً مسکرانے کی کوشش کی مگر ان کے کٹیلے لہجے، تیز آواز اور اندازِ مسافری پہ احتجاج کی خاطر اپنا ارادہ ملتوی کر دیا کہ مسکرانا تعلقات کی ابتدا ہوتا ہے اور یہ مسکراہٹ مہنگی پڑ سکتی ہے مجھے ابھی نہ جانے یہاں اور کتنا انتظار کرنا تھا۔ میری اس بد اخلاقی کا ان کے مضبوط اعصاب پر کوئی اثر نہ ہؤا۔ اور وہ اپنی دور اندیشی پر داد لینے کی کوشش کرتی رہیں۔
لیپ ٹاپ پہ کارٹون لگا کر بچی کے سامنے رکھا تاکہ وہ بار بار گیلی زمین پر نہ اترے۔ موسیقی کی آواز سن کر چھوٹا بچہ اٹھ گیا۔ ماں نے اس کے جلدی اٹھنے اور اپنے اندازے کے غلط ہونے اپنا بنائو سنگھار ملتوی ہونے بچے کو زور سے دھپ لگائی اور خود کو بھی کوسا گویا کہ لائوڈ اسپیکر کام کر رہا تھا دونوں ماں بیٹے کا۔
بھائی محسن کا فون آ رہا تھا میرے موبائل کی آواز نے مجھے چونکایا۔ ’’باجی، بارش کی وجہ سے کچھ دیر ہو جائے گی۔ وین کی رفتار بہت کم ہے‘‘۔
’’اچھا… دیر سے پہنچنا، نہ پہنچنے سے بہتر ہے‘‘۔ میں نے پھر سے خیریت سے پہنچنے کی دُعا کی۔ آیت الکرسی اس ساری وین کے لئے پڑھ کر اندازے سے پھونک دی جس میں میرا بھائی اور آمنہ بھابھی بیٹھے تھے۔
پھر موبائل بول اٹھا۔ میرے سرتاج میری فکر میں دبلے ہو رہے ہوں گے یقینا…
’’فون کیوں بزی تھا؟‘‘
’’محسن کا فون تھا‘‘
’’ابھی آیا نہیں محسن؟‘‘
’’نہیں، بارش کی وجہ سے دیر ہو جائے گی‘‘۔
’’تو پھر خود ہی آ جائو، اب تک پہنچ بھی جاتی‘‘۔
’’اب اتنا انتظار کر لیا ہے تو تھوڑا اور سہی‘‘۔
مجھے اتنی تیز بارش میں باہر نکل کر وین تلاش کرنا اور دو بیگ کا ساتھ ہونا زیادہ گراں لگ رہا تھا۔ ویٹنگ روم میں آوازوں کا پیمانہ جتنا بھی اونچا ہو چھت کا ہونا نعمت ہے۔
میں نے اس عارضی ترین ٹھکانے میں انتظار میں مبتلا رہنے کا اندازہ لگایا کہ کم از کم چالیس منٹ مزید لگیں گے۔ مگر دس منٹ بعد ہی محسن کی گھمبیر آواز میں ’’السلام علیکم‘‘ نے کانوں کے ذریعے دل کی ڈھارس بندھائی۔
ان سب آوازوں میں بھائی کی آواز کیوں اتنی بھلی لگی؟ واہ! میرے اللہ کیا رشتے ہیں اور کیا احساسات ہیں… سبحان اللہ!
آمنہ نے جلدی سے میرا پرس پکڑا۔ محسن نے دونوں بیگ اٹھائے اور ہم ویٹنگ روم سے باہر نکلنے لگے، جاتے جاتے میں نے باقی ’’منتظرین‘‘ کو سلام کیا، دل میں بچی کی ماں کے لیے میٹھے لہجے والی ’’بہترین ماں‘‘ بننے کی دُعا کی، اور ایک ’’آوازوں میں کرخت آواز والی‘‘ مخلوق کو یاد کیا۔ معاف کیجئے گا، میں نے جان بوجھ کر یاد نہیں کیا تھا۔ اس کا خیال خود بخود آ گیا تھا۔ آمنہ نے اپنی چھتری مجھے پکڑائی اور ہم تینوں بھیگتے بھاگتے مری جانے والی وین میں جا بیٹھے۔
ڈرائیور نے مسافروں کی تعداد پوری ہونے پر وین چلائی۔ فیض آباد سے نکل کر مری روڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ سترہ کلومیٹر دور گئے تھے کہ پتہ چلا برف باری زیادہ ہے۔ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے سڑک بند ہو گئی ہے۔ آگے جانا مشکل ہے۔ رات چھانے کے باوجود چونکہ بھائی ساتھ تھا تو کوئی فکر اور پریشانی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے محترم رشتوں کا حصار عورت کو دے کر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔
ڈرائیور نے دوسرے راستے سے مری جانے کا ارادہ کر لیا اور اس راستے پر رواں دواں ہوئے پہاڑ چڑھتے ہی برف نے استقبال کیا۔

یہاں بھی گاڑیوں کی لمبی لائن تھی جو رینگ رہی تھی۔ دم بدم چاروں طرف سفیدی چھا رہی تھی۔ اتنی تیزی سے برف گرنے کا منتظر بے حد خوبصورت تھا۔ ہم جیسے مسافروں کیلئے ہر منظر سہانا ہے۔ صحرا، اور صحرا کا خوبصورت ستاروں بھرا آسمان، سمندر کی وسعت، دریا کی روانی، پہاڑوں کی ہیبت، کھیتوں کی تازگی، باغوں کی بہار، ہوائی جہاز کا بادلوں میں اڑنا، بحری جہاز اور کشتیوں کا پانی کی لہروں سے کھیلنا، سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں، ٹرین کی چھک چھک، گھوڑا گاڑی کی ٹک ٹاپ، ان سب کا تجربہ کیا تھا، برف کے پہاڑ بھی دیکھے تھے لیکن آج اس مختصر سفر کی طوالت نے تیزی سے گرتی برف کا جو منظر دکھایا وہ ایک انوکھا تجربہ تھا جو محسوس تو کیا جا سکتا ہے بیان کرنا مشکل ہے۔ جب ہماری سواری دوسرے متبادل راستے پہ جانے کے لئے واپسی کا سفر طے کر رہی تھی تو میرے میاں کا فون آیا۔
’’کہاں تک پہنچے؟‘‘
’’کہیں نہیں وہیں پہ ہیں‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’کسی حادثے کی وجہ سے سڑک بند ہے واپس جا رہے ہیں‘‘۔
’’کہاں‘‘
’’کوئی اور راستہ تلاش کرنے، آپ پریشان نہ ہوں، ہم پانچ چھ گھنٹے میں انشاء اللہ پہنچ جائیں گے‘‘۔ میں نے ان کی لمبی تسلی کرانے کی کوشش کی۔ پانچ چھ گھنٹے کا سن کر آمنہ بُری طرح چونکی۔ ’’باجی کیا کہہ رہی ہیں آپ ابھی تو سات بجے ہیں‘‘۔
’’ہاں تو بارہ بجے کے بعد انشاء اللہ پہنچ جائیں گے۔ ان حالات میں ایسے ہی ہوتا ہے‘‘۔
اور پھر میں شانت ہو گئی کہ اگلے چند گھنٹے اس انوکھے اور خوبصورت تجربے کیلئے کافی ہیں۔ میرے میاں حالات کی نزاکت جاننے کے لیے محسن کو بار بار فون کر رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا ہو گا کہ خود وہاں آ جائیں کیونکہ وہ آسان کام کو بھی مشکل بنا کر کرنے میں لطف لیتے ہیں اور کوئی مشکل مرحلہ ہو اور وہ منظر سے غائب ہوں ان کے لئے کافی احساسِ محرومی ہوتا ہے۔
لوئر ٹوپہ آ کر وین والے نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔ باہر تیز رفتاری سے مگر خاموشی اور سکون کے ساتھ برف باری جاری تھی۔ ہر طرف سکوت تھا، پاکیزہ، ستھری و نتھری سفید جھاگ نرمی کا احساس دلا رہی تھی۔ میں نے وین کے شیشے سے اس ماحول کو دیکھا جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور کی بارش ہو رہی ہو۔ چاروں طرف روئی کے گالے اڑ رہے تھے اور روحانی و نورانی سا احساس دل کی ویرانی میں سکون لا رہا تھا۔
’’اے اللہ! میرے مالک! تیری اتنی تعریف کہ جتنی یہاں گرتی برف کے گالے ہیں۔ اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی امت پہ اتنی رحمت و برکت جتنے کہ اس برف کے گالے ہیں‘‘۔
مسافر آپس میں مشورے کر رہے تھے۔ ساری وین میں ہم دو خواتین تھیں۔ ہماری وجہ سے وین والا اپنی گاڑی کو تھوڑا اور آگے لے جانے پر راضی ہو گیا۔
محسن نے وہاں جا کر کسی اور پرائیویٹ گاڑی والے سے بات کی اور ہمیں وین سے اس گاڑی میں منتقل کرنے کیلئے چند گز چلنا پڑا وین سے باہر نکلتے ہی پورے ماحول پر نظر پڑی تو دل یکدم اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کی وحدانیت پر مزید پریقین ہو گیا۔ ایک ناقابل بیان ایمانی ٹھنڈک دل میں اتر گئی۔ چند گز کا فاصلہ مزید گھنٹے لگا کر طے ہؤا۔ مقامی آدمی نے کمال مہارت سے گاڑی چلائی اور ہمارے گھر کے قریب اتار دیا۔ رات کے اندھیرے میں روشن سا ماحول حالانکہ نہ چاند نہ سٹریٹ لائٹس۔ برف اور وہ بھی اتنی تازہ … اس کی روشن سفیدی نے آنکھوں کو طراوٹ بخشی اور دل کو طمانیت۔ ماحول کے سکون نے سفر کی طوالت کا احساس نہ ہونے دیا۔ گھر کا راستہ کافی نشیب میں ہے۔ برف پہ پائوں رکھتے تو ایک فٹ اندر دھنس جاتا اور نرم سا احساس خوشی کی لہر دوڑا دیتا چونکہ علم تھا کہ ہمارے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہ سہی، مگر کوئی نقصان دہ رکاوٹ یا گڑھا بھی نہیں ہے، اس لئے مردانہ وار برفانی راستے کو طے کرتے گھر کے دروازے تک پہنچ گئے۔ (الحمدللہ)
رات کے ساڑھے بارہ بجے میرے میاں نے سگھڑ عورتوں کی طرح گرم گرم چائے تیار کر رکھی تھی۔

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری جوڑی بنائی
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x