ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میری اماں جان اور اللہ والے بابا جی – بتول جولائی ۲۰۲۱

میری نانی جن کو ہم اماں جان کہتے تھے ایک خاموش طبع ، انتہائی صابر، ہر وقت ذکر اذکار میں مصروف اللہ والی خاتون تھیں۔ کوئی جو بھی کہے وہ بس خاموشی سے مسکرا دیتیں۔سنا تھا کہ جب ساس اور نند یں اماں جان پر غصہ ہوتیں تو وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر ذکر شروع کر لیتیں۔
اماں جان صاحبزادہ عبدالقیوم خان ( بانی اسلامیہ کالج پشاور) کی بھتیجی تھیں۔
پہلا نواسا ہونے کی وجہ سے میں ان کی توجہ اور محبتوں کا مرکز رہا اور اکثر وہ مجھ سے اپنی زندگی کی کہانیاں شئیر کرتیں۔ ہم دونوں ایک اچھے رازدار اور غم خوار دوست بن گئے تھے۔مجھے ویسے بھی بزرگوں سے بڑا لگاؤ رہا ہے۔ کتابوں سے زیادہ بزرگوں کو پڑھنے کا شوق رہا۔ وہ مجھے علم و تدبر سے بھری معصوم گڑیاں سی لگتیں۔ اب یہاں بھی مختلف کلچر اور مذاہب کے بزرگوں سے یاری بنائی ہوئی ہے۔
اماں جان( نانی صاحبہ) نو سال کی تھیں جب ان کےوالد صاحب فوت ہوگئے پھر ان کی اور ان کے دو بھائیوں کی پرورش صاحبزادہ صاحب نے کی۔ وہ ان تینوں بچوں سے بہت پیار کرتے اور نانی کے بقول بازار والوں کو حکم تھا کہ یہ جولینا چاہیں ان کو میرے حساب میں دیا کریں۔مجھے یاد ہے جب وہ یہ کہتیں تو میں بڑی للچائی نظروں سے دیکھتااور سوچتا کہ کاش میرے بھی کوئی صاحبزادہ عبد القیوم صاحب جیسے چچا ہوتےپھر میں بھی پورے بازار سے اپنی پسند کی ٹافیاں اور دوسری چیزیں لے آتا۔
میں سکول میں کچھ زیادہ تگڑا طالب علم نہیں تھا۔ اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں فزکس کیمسٹری کے ہوم ورک کے دوران سر درد شروع ہو جاتا۔ ایسے میں اماں جان میرے لیے دیسی گھی میں ایک خاص قسم کا خمیر/کشتہ بنا کر کھلاتیں۔ اس میں بادام، اخروٹ، شہدکے علاوہ کئی دوسری قسم کی اشیا ہوتیں جو وہ پنساری کی دکان سے منگواتی تھیں۔
شاید ان کشتوں نے پھر گاڑی کو دھکا دے دیا تھا۔
میں اکثر فجر کے وقت اماں جان کیساتھ اٹھ جاتا پھر وہ ذکر اذکار پڑھتے ہوئے ناشتہ بناتیں اور میں ان کے قریب چوکی پر بیٹھ کر لکڑی کے برادے والی انگیٹھی پر چائے کی دیگچی کے نیچے سے نکلتی ہوئی آنچ سے ہاتھ سینکتا رہتا اور ان سے باتیں کرتا۔وہ ہر چھوٹا بڑا کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتیں۔میں جب وجہ پوچھتاتو ایک بوڑھی اماں اور چھوٹے شیطان والی کہانی سناتیں کہ کس طرح شیطان سارا دن گزار کر بھی بوڑھی اماں کے کسی بھی کھانے یا اور چیزوں سے کچھ بھی نہیں چرا سکاسوائے کو ئلے کے چند ٹکڑوں کے، کیونکہ وہ خاتون ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتی ، بس ایک بار تندور کے لیے کوئلے اٹھاتے ہوئے بھول گئی تھی!
اماں جان جب گاؤں سے ہمارے گھر پشاور آتیں تو میں ہمیشہ ان کی ایک بڑی خواہش پوری کرتا۔ ان کے چچا صاحبزادہ عبدالقیوم خان سے ان کی آدھی ملاقات۔اتوار کے دن ، جب اسلامیہ کالج کے طلبہ ہاسٹلوں میں ہوتے ، میں انہیں کبھی جی ٹی ایس بس اور کبھی ڈبل ڈیکر میں بٹھا کر پشاور یونیورسٹی لے جاتا۔
ہم نانی نواسا درختوں کے جھنڈ میں بنے اسلامیہ کالج سٹاپ پر اتر کر آہستہ آہستہ سر سبز راستوں اور بڑے فوارے سے ہوتے ہوئے ’’روز کیپل‘‘ ہال پہنچتے جہاں صاحبزادہ صاحب کی بڑی مونچھوں والی، شیروانی اور پگڑی پہنے تصویر آویزاں تھی۔ اب بھی ہوگی۔ ہال کا دروازہ لاک ہوتا۔ اندر جانے کی اجازت نہیں تھی اور اس وقت چوکیدار چا چا مجھ چھوٹے اور بوڑھی اماں کو زیادہ لفٹ بھی نہ کراتا ۔بس وہ بیچاری شیشے کی

کھڑکی پر دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے کچھ دیر اپنے چچا کی تصویر کو دیکھتی رہتیں ، دعا کرتیں اور ان کی یاد میں چند آنسو بہا لیتیں۔
اماں جان کو کچھ سکون مل جاتا ،ایک بڑی خواہش پوری ہو جاتی۔اور میں چھوٹا سا نواسا سینہ تان کے سرخرو ہو جاتا۔
اماں جان کی ایک اور بڑی خواہش تھی جس کا وہ اکثر بڑے رازدارانہ انداز میں مجھ سے ذکر کرتیں اور کہتیں کہ یہ خواہش شاید تم ہی پوری کروگے، پر تھوڑے بڑے ہو کر!
اماں جان کا ایک چھو ٹا بھائی بھی تھا جو جوانی میں ہی ایک بڑا فیصلہ کر کے بمبئی انڈیا چلا گیا، وہاں سے پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔اماں جان اکثر اپنےاس بھائی کو یاد کرکے آنسو بہاتیں، مجھ سے بھی ان کا ذکر کرتی رہتیں۔کبھی اسلامیہ کالج بس میں جاتے ہوئے یا گھر میں وہ مجھ سے اکثرکہتیں۔
’’عامربچے ، جب تم بڑے ہو جاؤ تو مجھے اپنے چھوٹے بھائی سے ملنے بمبئی انڈیا لے کر جانا ہے‘‘۔
’’لیکن اماں جان میرے پاس کرائے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘‘ میں فکرمندی سے کہتا۔
پھر وہ بس میں میرے ساتھ سیٹ پر بیٹھے اپنے پردے والی چادر سے اپنی کلائی نکال کر اپنے سونے کے بڑے بڑے کنگن اور کڑے دکھا کر کہتیں۔
’’ہم ان کڑوں کو بیچ دیں گے ……دونوں کا کرایہ ہو جائےگا اور میرا اپنے بھائی کا دیدار ہو جائے گا‘‘۔
’’بس ٹھیک ہے اما ں جان‘‘ میں کہتا اور اپنے تصورات میں اماں جان کے ساتھ بمبئی کی طرف ریل کا سفر شروع کر لیتا۔
اچھی طرح یاد ہےمیں نے بچپن سے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ جب بڑا ہو جاؤںگا تو اپنی اماں جان کو ان کے بھائی سے ملانے انڈیا لے کر جاؤں گا۔لیکن وہ ممکن نہ ہو سکا اور ایک دن اماں جان اپنے مخصوص تخت پوش پر نماز پڑھتے ہوئے اپنے اللہ کے پاس پہنچ گئیں ۔
اماں جان کے بڑے بھائی مشیر صاحبزادہ صیب اپنے گاؤں بلکہ ہمارےپورے علاقے کی ایک بڑی بزرگ شخصیت تھے۔ میں بچپن میں اماں جان اور اپنی والدہ کے ساتھ ایک دو بار ان کے گھر گیا ہوں۔ شاید میں چار پانچ سال کا ہوں گا کیونکہ زیادہ یادیں نہیں بس ان کے گھر کی ایک دھندلی سی تصویر ذہن پر نقش ہے۔
بڑا گھر، بہت اونچی چھتیں، وسیع صحن جس میں بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے، صحن کے ایک حصے میں کنویں کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ ……اس کمرے میں اور کچھ بھی نہیں……بس صرف خشک گھاس پھوس زمین پر بچھی ہوئی۔بعد میں والدہ سے سنا کہ یہ صاحبزادہ صیب کا خاص کمرہ تھا جس میں وہ عبادت کرتے تھے۔ اسکو خلوت خانہ کہا جاتا تھا اور وہاں کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک بڑی ڈیوڑھی تھی جس میں اکثر باہر سے آئی غریب خواتین بیٹھی کھانا کھا رہی ہوتیں۔ میری والدہ کے بقول ان کی اور باقی لڑکیوں کی ذمہ داری تھی کہ ان کو کھانے سے پہلے پانی ڈال کر ہاتھ دھلوائیں اور عزت کے ساتھ کھانا کھلائیں۔ والدہ کے بقول سارا دن مہمانوں کےلیے دیسی گھی کے پراٹھے اور چائے کے دور چلتے اور اس کام کی انچارج ان کی ممانی، صاحبزادہ صیب کی بیگم تھیں جو بظاہر بوڑھی ہو گئی تھیں لیکن پھر بھی بہت ایکٹیو تھیں۔
جو بات مجھے سب سے پیاری اور دلچسپ لگی وہ صاحبزادہ صیب کا نماز کےلیے مسجد جانے کا انداز اور روایت تھی۔ اماں جان کے بقول جب وہ نماز کےلیے باہر نکلتے تو انہیں دیکھتے ہی بچے ان کے پیچھے لگ جاتے اور وہ زور زور سے “ اللہ اللہ” کا ذکر شروع کر لیتے۔ بڑے بھی نماز کوجاتے ہوئے اس ذکر والے قافلے میں شامل ہو جاتے۔ پھر آخر میں مسجد کے دروازے کےساتھ صاحبزادہ صیب سب بچوں میں ٹافیاں اور بڑوں میں عطر بانٹ دیتے۔
کیا مسحور کن منظر ہوتا ہوگا !جب والدہ اپنے ماموں کی یہ والی کہانی سناتیں تو میں اپنے خیالوں میں ان بچوں میں شامل جاتا اور سب بچوں کےساتھ اللہ اللہ کرتے کرتے بابا جی سے ٹافی لے لیتااور عطر لگا لیتا۔

شاید اسی روٹین کی وجہ سے بچوں بڑوں میں صاحبزادہ صیب کا نام “ اللہ بابا جی “ پڑ گیا۔ گاؤں کے سب لوگ اور خاص کر بچے ان کو اسی نام سے پکارتے۔والدہ کہتیں کہ اللہ بابا جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے اور گھر میں کام کرتی خواتین کی جیسے ہی ان پر نظر پڑتی تو سب اللہ اللہ کا ذکر شروع کردیتیں اور اللہ بابا جی دالان سے ہوتے ہوئے اپنے خلوت خانےمیں چلے جاتے۔
تصور کرتا ہوں کیا پاکیزہ اور روح پرور ماحول ہوگا۔ اپنے اللہ سے قربت ، کردار سازی اور ذکراذکار میں معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد ، ادب کےساتھ غریب مسکین کے لیے کھانے ہر وقت تیار،بڑوں کی قدر اور چھوٹوں سے پیار……دین کی اخوت، محبت، اور اللہ کی قربت کا ذریعہ!
پھر میں نے اپنے بچپن سے جوانی کے سفر ۸۰ کی دہائی میں اپنے دین اور اپنی دنیا کو یکسر بدلتے دیکھا۔مساجد اور حجروں کا ماحول جو اللہ سے تعلق ، نرم خوئی، ،سکون اور رواداری سے بھرا ہوتا تھا،وہاں غصے اور دوریوں کو پنپتے محسوس کیا۔نرم اور دل میں جگہ بنانے والی عالمانہ آوازوں کو کرخت اور تیز تفرقانہ آوازوں میں بدلتے سنا۔ پہلی مرتبہ مسجدوں میں بڑی بڑی گاڑیوں اور ان میں بندوق بردار محافظوں کا آنا جانا شروع ہوا۔پھر لاؤڈ سپیکروں سے نفرت بھری تقریروں اور فرقہ پرستی کے اندوہ ناک مناظر دیکھے۔دین کا ذکر کرتے ہوئے کبھی لطیفے، کبھی دوسروں کی تکذیب ، طنز یہ اور قہر آلودانداز،کبھی منہ سے جھاگ نکالتے چیختے چلاتے فرقہ واریت اور نفرتوں سے بھرپور رویے نظر آئے۔
پہلی مرتبہ جی ٹی روڈ پر گورنمنٹ کالج نمبر ۲ پشاور سٹی کی دیوار پر کالے رنگ میں’’ کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کا نعرہ دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے میں کھڑا ہو گیااور سوچ میں پڑ گیا۔
میرے بچپن کے دوست ، میرے یار طاہر بنگش اور علی سید بھی تو شیعہ ہیں۔ وہ اچانک کافرکیسے ہو گئے؟میں نے تو ان کے گھر کئی افطاریاں کی ہیں۔ بس اتنا پتہ تھا کہ ان کی اذان، نماز ہم سے تھوڑی مختلف ہے اور وہ افطاری تھوڑی لیٹ کرتے ہیں جس میں میرے تو ان کے گھر مزے ہوتے کہ اچھی اچھی چیزیں پہلے کھا لیتا۔
ملکی اور غیر ملکی اداروں نے ہمارے دین اور ہمارے معصوم لوگوں کی دین اور اپنے نبیِ مہربانؐ کےساتھ جذباتی وابستگی اور محبت کا استحصال اور ناجائز استعمال شروع کیا۔وہ لمبی دردناک کہانی جس کا میں خود بھی کئی حوالوں سے گواہ ہوں ،پھر کبھی سہی……لیکن
ایسا لگا……جیسے ہمارا خوبصورت دین ہم سے کوئی چپکے سے چرا لے گیا ہو!
وہ دین جس میں اللہ سے قربت ،انفرادی تزکیہ، لوگوں کے دکھ درد میں شریک ’’ اللہ بابا جی “جیسے لوگوں کی جگہ بھی ہو اور اجتماعی عدل و انصاف کی جدوجہد کےلیے صاف ستھرے باکردار اور علم سے محبت کرنے والےلوگ بھی ہمہ تن مصروف ہوں ۔جس میں مختلف مسالک یا اختلاف رائےدوریوں اور نفرتوں کی بنیاد نہیں بلکہ علم و آگہی کے آگے بڑھنے کا ذریعہ

ہوں

وہ نبیِ مہربانؐ کا دین واپس لےکر آنا ہے۔ اس کو reclaim کرنا

ہے،تبھی سمت درست ہوگی اور روشنی کی طرف راستے کھلتے جائیں گے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x